نواز لیگ کا اعتراض کہ متحدہ کی جانب سے ان پر تنقید کیوں اور پیپلز پارٹی پر کیوں نہیں
جب سے برگیڈیئر امتیاز نے جناح پور کے شوشے کا راز افشاء کیا ہے تب سے نواز لیگ کے سربراہان اور اخبارات میں انکے حامی کالم نگار مستقل متحدہ پر الزام لگا رہے ہیں کہ وہ صرف نواز لیگ کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں اور پیپلز پارٹی کے دور میں ہونے والے ظلم پر کچھ نہیں بول رہے۔
پہلی بات تو یہ کہ 1992 کا آپریشن اور جناح پور کا شوشہ اور حقیقی کے قیام جیسے سارے فتنے اسی نواز دور میں وقوع پذیر ہوئے لہذا جب 1992 کے آپریشن، جناح پور اور حقیقی وغیرہ کی بات ہو گی تو نواز شریف صاحب کا نام ہی آئے گا پیپلز پارٹی کا نہیں۔
متحدہ کے پیپلز پارٹی سے بھی بہت بڑے اختلافات ہیں اور پیپلز پارٹی کے دور میں بہت ظلم ہوا۔ مگر اس سارے ظلم و ستم کا نقطہ آغاز 1992 کا آپریشن، جناح پور کا الزام اور حقیقی کا قیام تھا جو سب کچھ نواز دور میں ہوا اور پیپلز پارٹی نے انہی چیزوں کو بہانہ بناتے ہوئے متحدہ کے خلاف آپریشن جاری رکھا۔
اور پیپلز پارٹی اور نواز شریف میں سب سے بڑا فرق یہ ہے کہ پیپلز پارٹی کے برخلاف نواز شریف ہر الزام کا انکار کرتے ہوئے خود کو بالکل شریف کہلوانے کا دعوی کرتے ہیں جو سراسر غلط ہے جھوٹ ہے اور اسی بات پر آج بھی متحدہ اور ان میں اختلاف ہے۔
چنانچہ، نواز شریف اور انکے حامیوں کا اپنے آپ کو بالکل شریف ثابت کرنے کی کوششیں کرنا بھی اس کشمکش کا باعث بنا کہ سچی حقیقت بالکل صاف ہو کر سامنے آئے اور کوئی غلط باتوں کو اس میں شامل نہ کر دے۔
1992 میں حقیقی کا قیام نواز کا کام
ذیل میں ہم حیدر عباس رضوی صاحب کی ون ٹو ون میں کیے گئے انٹرویو کا ایک حصہ پیش کر رہے ہیں۔
اہم بات ہے نواز شریف نے ہمیشہ کہا کہ 1992 کا آپریشن فوج نے کیا اور نواز شریف اس میں بالکل بے قصور اور معصوم ہیں۔ مگر پھر حیدر عباس رضوی صاحب واقعہ بیان کرنے ہیں کہ کیسے نواز شریف نے 1992 میں حقیقی کے قیام میں کردار ادا کیا اور یہ نواز شریف صاحب کے شریف بننے کے تمام دعوؤں پر قلعی پھیر رہی ہے۔
حیدر عباس رضوی صاحب پنجاب کے نواز شریف کے دور کے آئی جی پولیس چوہدری سردار کی کتاب The Ultimate Crime سے ایک اقتباس پیش کرتے ہیں جس میں آئی جی پنجاب کہتے ہیں کہ 1992 میں انہوں نے کراچی سے آئے ہوئے ایم کیو ایم کے ٹاپ کے کرمنلز کو گرفتار کیا۔ اگلے دن آصف نواز جنجوعہ صاحب کی کال آ گئی کہ انہیں رہا کرو۔ میں چوہدری سردار کہتے ہیں کہ انہوں نے انہیں رہا کرنے سے انکار کر دیا۔ اگلے دن نواز شریف خصوصی طور پر بذات خود اسلام آباد سے لاہور پہنچے اور وہیں ایئر پورٹ پر ہائی کمانڈ میٹنگ طلب کر لی، اور نواز شریف نے حکم دیا کہ ان کراچی کے کرمنلز کو رہا کرو۔ اس پر وہاں تلخ کلامی ہوئی اور اس پر نواز شریف انتہائی غصے میں آ گئے اور آخر میں ان کرمنلز کو رہا کرنا پڑا۔ بعد میں یہی کرمنلز پھر کراچی میں نمودار ہوئے مگر یہ اُس وقت حکومت کی جیپوں میں بیٹھ کر آنے والے حقیقی والے تھے۔
JavaScript is disabled!
To display this content, you need a JavaScript capable browser.
دیکھئیے مکمل ویڈیو اور اندازہ کیجئے کہ نواز شریف 1992 کے آپریشن سے لیکر 1999 تک کتنے شریف رہے ہیں۔
حکیم سعید کے قتل کا الزام اور چوہدری نثار کا اقرار کہ یہ ایجنسیز کا کام تھا
حکیم سعید کے قتل میں متحدہ کے تین سو اراکین کو قید کر لیا گیا۔ بعد میں تمام کورٹز نے ان سب کو باعزت رہا کیا۔
اور چوہدری نثار نے کاشف عباسی کے پروگرام اے آر وائی میں اقرار کیا کہ حکیم سعید کو ایجنسیز نے قتل کروایا۔ مگر یہ نواز شریف تھے ان تین سو متحدہ کے اراکین کے گرفتار کرنے پر خصوصا کراچی آئے اور ان تمام پولیس والوں کو انعامات دیے اور انہیں ترقیاں اور اعزازات دیے۔
پھر حکیم سعید صاحب کی اپنی صاحبزادی پریس کانفرنس کرتی ہیں جس میں کہتی ہیں کہ میرے باپ کو ان ایجنسیز نے مارا ہے اور ساتھ میں ثبوت پیش کرتی ہیں۔
اب بتلائیے کہ نواز شریف اور انکے حامی پھر دعوی کریں کہ وہ بالکل بے قصور اور شریف ہیں، اور پھر اعتراض کریں کہ پیپلز پارٹی کی جگہ ان سے بچث و مباحثہ کیوں کیا جا رہا ہے اور انہیں تنقید کا نشانہ کیوں بنایا جا رہا ہے تو انکی اس معصومیت پر کون نہ قربان جائے؟