جو بویا ہے وہ کاٹنا تو پڑے گا

بابا-جی

محفلین
فوج اور کابینہ تو کرپشن کیسز میں این آر او دینے کیلئے تیار تھی لیکن وزیر اعظم عمران خان نہیں مانے؛ سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل
کپتان ہر اُس فرد کو این آر او نہیں دے گا جو اُس کے ہاتھ پر بیعت نہ کرے اور وفادارِی کا حلف نہ اُٹھائے۔
 

الف نظامی

لائبریرین
کپتان ہر اُس فرد کو این آر او نہیں دے گا جو اُس کے ہاتھ پر بیعت نہ کرے اور وفادارِی کا حلف نہ اُٹھائے۔
او دسو جے عمران خان پنجاب وچ پرویز الہی نوں اتحادی بنڑا سکدا اے تے مولانا فضل الرحمن کو بلوچستان میں وزارتیں کیوں نہیں دے سکدا۔ او تہاڈی ۔۔۔
 

الف نظامی

لائبریرین
اس صورتحال میں پی ٹی آئی کے نقطہ نگاہ سے سوال بس ایک ہی رہ جاتا ہے۔ اور وہ یہ کہ کیا عمران خان کے پاس مولانا کو بے اثر کرنے کا کوئی گر ہے ؟
تو سیدھا سا جواب یہ ہے کہ عمران خان کا سب سے طاقتور ہتھیار نیب ہے۔ اور یہی ہتھیار مولانا کے خلاف مکمل بے کار ہے۔

عمران خان آٹھ سال تک مولانا فضل الرحمن کو ڈیزل کہتے رہے مگر انہیں وزیر اعظم بنے ڈھائی سال ہوگئے اور ہم نے اب تک عمران خان کی جانب سے مولانا پر ڈیزل کا کوئی کیس قائم ہوتے نہیں دیکھا۔

وہ سب کو نیب سے رگڑا لگوا چکے ہیں تو کیا وجہ ہے کہ مولانا فضل الرحمن کے خلاف کوئی ڈیزل کیس شروع نہ کرسکے ؟

صاف عیاں ہے کہ مولانا کے خلاف ان کے تمام الزامات بے بنیاد تھے۔ آج وزیر اعظم ہونے کے باوجود وہ ان پر کرپشن کا کوئی کیس ثابت کرنا تو درکنار مقدمہ تک قائم کرنے میں ناکام ہیں۔

اس اخلاقی برتری کے ہوتے مولانا فضل الرحمن کو عمران خان سے کوئی خطرہ نہیں۔ خطرہ عمران خان کو مولانا سے لاحق ہے۔
 

بابا-جی

محفلین
جب فوج اور کابینہ نیب آرڈیننس میں ترمیم کے ذریعہ اپوزیشن کو این آر او دینا چاہتی تھی اور کپتان نہیں مانا تو اس وقت اپنی اوقات کیوں نہیں دکھائی؟
شاید اوقات دِکھانے کا وقت یا موقع نہ مِلا۔ اب یہ جو دھرنا ہے، یِہ مُجھے اُسی عمل کا تسلسل لگتا ہے۔
 
جو اپنی پانچ سیٹیں جیتا اور جو اپنی ایک سیٹ بھی ہار گیا ان کا آپس میں کیا مقابلہ
ایک کو لاڈلا کہتے ہیں، جس کی ضد پر اعلان کیا گیا کہ 2018ء تبدیلی کا سال ہے۔ وہ کہتا کہ مجھے دس سیٹوں پر جیتنا ہے، تو وہ بھی ہوجاتا۔
 

الف نظامی

لائبریرین
ایک کو لاڈلا کہتے ہیں، جس کی ضد پر اعلان کیا گیا کہ 2018ء تبدیلی کا سال ہے۔ وہ کہتا کہ مجھے دس سیٹوں پر جیتنا ہے، تو وہ بھی ہوجاتا۔
جمہوری انقلابی لاڈلا پنجاب کے ڈاکو سے مفاہمت کرنے پر مجبور نہیں ہوا بلکہ یہ اس کا یوٹَرَن تھا
 

جاسم محمد

محفلین
ایک کو لاڈلا کہتے ہیں، جس کی ضد پر اعلان کیا گیا کہ 2018ء تبدیلی کا سال ہے۔ وہ کہتا کہ مجھے دس سیٹوں پر جیتنا ہے، تو وہ بھی ہوجاتا۔
نواز شریف جتنا لاڈلا پھر بھی کوئی نہیں جس کو ۱۹۹۷ کے الیکشن میں دو تہائی اکثریت دلوائی گئی، ۱۹۹۰ کے الیکشن میں دھاندلی کر کے وزیر اعظم بنایا گیا اور سزا یافتہ مجرم ہونے کے باجود جعلی بیماریوں کے نام پر ملک سے باہر بھجوایا گیا
457906-AD-FBF8-4-EFE-ACF5-CBF50-EB75371.jpg
 
Top