راحیل فاروق
محفلین
پنجاب سے کراچی آئیں تو سندھ میں داخل ہوتے ہوئے ایک عجیب سا احساس ہوتا ہے۔ کھیت کھلیانوں کی جگہ چٹیل میدان اور اوبڑ کھابڑ ٹیلے نظر آنے لگتے ہیں۔ نگاہ ہریالی کو تلاش کرتی ہے تو جہاں تہاں سبزہ یوں نظر آتا ہے جیسے غلطی سے اگ آیا ہو۔ سندھی اور اردو کے لہجے پنجابیوں کو اندر ہی اندر احساس دلاتے ہیں کہ شاید وہ اپنائیت جو انھیں پانچ دریاؤں سے ملتی ہے، اکیلے سندھ کے بس کا روگ نہ ہو۔
میرا خیال ہے کہ یہ کوئی منطقی غلطی نہیں تھی کہ میں نے یہ استنباط کیا کہ یہاں کے باشندے بھی شاید خشک خشک ہی سے ہوں گے۔ گو کہ کراچی میں میرا بچپن گزرا ہے لیکن اس دور میں عقل اتنا بھی کام نہیں کرتی تھی جتنا خیر سے اب کرتی ہے۔ لہٰذا اس دور کی یادداشتیں مقبول نہیں۔ پھر یہ ہے کہ میرے سسرال عرصے سے اس شہر میں ہیں اور مردم بیزاری و مردم آزاری وغیرہ کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ ان سے بھی جمہور اہلِ علاقہ کی بابت ناگفتنی واقعات معلوم ہوئے۔ لہٰذا میں صمیمِ قلب سے اس خیال پر قائم ہو گیا کہ کراچی میں گرم جوشی، محبت، دلداری وغیرہ محاسن کی لوگوں سے توقع رکھنا ایک ایسی حماقت ہے جس کا مداوا کراچی میں سسرال ڈھونڈے بغیر ممکن نہیں۔
اس تناظر میں اسے عقل مندی تو نہیں کہنا چاہیے کہ میں نے اس دفعہ کراچی آنے کے بعد ادب دوست بھائی سے ملاقات کی خواہش ظاہر کر دی۔ ستم بالائے ستم یہ ہوا کہ انھوں نے بھی ذرہ نوازی فرمائی اور پروگرام طے ہو گیا۔ معلوم ہوا کہ محمداحمد ، مزمل شیخ بسمل ، عبدالرحمٰن اور حسیب احمد حسیب صاحبان بھی تشریف لائیں گے۔ میرا قیام سٹیل ٹاؤن میں تھا جو شہر سے باہر ہے۔ شہر میں پہنچنے کا وقت اور مقام بھی شدہ شدہ مقرر کر لیا گیا۔
لیکن صاحب، بس فیصلہ ہونے کی دیر تھی کہ ہمارے دل میں طرح طرح کے واہمے سر اٹھانے لگے۔ تفصیل کا یہ مقام نہیں مگر اجمالاً عرض کروں تو سب سے بڑا خطرہ جان کا تھا۔ انجان شہر، انجان لوگ۔ اکیلی جان۔ اف اللہ! مر مرا گئے تو کفن تو درکنار ڈنگ ڈونگ کا ریپر بھی شاید نصیب نہ ہو۔ ہمیں زندگی میں پہلی بار احساس ہوا کہ لوگ ایسے ہی میرؔ کو بڑا شاعر نہیں کہتے۔ وہ جو انھوں نے فرمایا ہے کہ جان ہے تو جہان ہے، پیارے! اس ایک مصرعے میں کیفیات کے جس جہان کی انھوں نے ترجمانی کر ڈالی ہے وہ اس سے پہلے دیکھا نہ تھا۔
اب کیا کریں؟ گھر والوں کو اس قسم کے تحفظات سے آگاہ کرنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ سسرالی کیا سوچیں گے کہ ہمارا داماد ڈرپوک ہے۔ استغفراللہ۔ اس سے تو بہتر ہے ہم کراچی کی سڑکوں پر زندہ ہے بھٹو، زندہ ہے کا نعرہ لگا کر ہی جان دے دیں۔ سسرال میں بے عزتی سے تو بچ جائیں گے۔ جیالوں کی جانب سے ہر سال قبر پر جو پھول چڑھیں گے وہ الگ۔ جوں جوں وقتِ مقررہ نزدیک آتا گیا، ہماری غیرت کا غلبہ شدید ہوتا گیا۔ یہاں تک کہ اتوار کے روز ہم نےتنہا شہر جانے کا فیصلہ بجنگ آمد قسم کے انداز میں جملہ سسرال والوں کی موجودگی میں میز تھام کر ایک ہی سانس میں مشتہر کر دیا۔
کچھ بحثا بحثی ضرور ہوئی مگر آخر گھر والوں نے تقدیر کے فیصلے کو قبول کر لیا۔ سسر نے ہماری لاش وغیرہ موصول کرنے کے لیے ادب دوست بھائی کا نمبر لے لیا۔ بیگم باہر آ کر دیر تک کھڑی رہیں۔ قریب تھا کہ ہم سے وصیت لکھوائی جاتی مگر سسر نے اور خود ہم نے بھی حوصلے سے کام لیا۔ ہمیں سٹیل ٹاؤن کے گیٹ پر ڈراپ کر کے خدا اور خضر علیہ السلام کے حوالے کر دیا گیا۔ ہم نے بھی دل ہی دل میں کفن باندھا اور بس پر چڑھ گئے۔
ادب دوست مسلسل رابطے میں تھے۔ الٰہ دین پارک کے سامنے وہ حسیب بھائی کے ہمراہ ہمیں لینے آئے۔ صورت دیکھ کر نئے سال کا پہلا دھچکا لگا۔ محفل پر ان کی گفتگوؤں سے لگتا تھا کہ کوئی معمر شخص ہوں گے۔ فون پر بھی ایسی بزرگانہ محبت سے بات کرتے تھے کہ ہم احتیاطاً سر پر شیمپو کر کے گئے تھے کہ جان بچ گئی تو دستِ شفقت پھروا کر آئیں گے۔ لیکن ان کی عمر تو ان کے تجربے سے بھی کم معلوم ہوتی ہے۔ نوجوان آدمی۔ اتنا بااخلاق۔ یا الٰہی، یہ ضرور کوئی سازش ہے!
حسیب بھائی خوش شکل آدمی ہیں۔ ان کا شمار ان مولویوں میں کیا جانا چاہیے جن کا شمار مولویوں میں نہیں کیا جانا چاہیے۔ لیکن ان کے تجویدی لہجے سے بھی ہمیں القاعدہ یاد آ کر رہ گئی۔ سلام دعا کے بعد ہم اللہ کا نام لے کر ان کے ساتھ سوار ہوئے۔ کچھ ہی دور چلے ہوں گے کہ گاڑی روک دی گئی۔ ہم نے پہلا کلمہ یاد کرنے کی کوشش کی۔ یاد نہیں آیا۔ تھوڑی دیر بعد البتہ ہوش ٹھکانے آئے تو معلوم ہوا کہ ہمارے قتل کا ارادہ شاید ملتوی ہو گیا ہے اور یار لوگ عبدالرحمٰن بھائی کا انتظار کر رہے ہیں۔
پھر میں نے ایک دبلا پتلا نوجوان دیکھا جسے میں کبھی نہیں بھولوں گا۔ سردیوں کے موسم میں اس کے ماتھے پر پسینے کے قطرے چمک رہے تھے۔ سانس اکھڑی ہوئی تھی۔ اعضا پر ایک خفیف سی کپکپی طاری تھی۔ باچھیں کھلی ہوئی تھیں۔ بولنے میں دقت ہو رہی تھی۔ یہ عبد الرحمٰن بھائی تھے۔ خدا جانے کتنی دور سے دوڑتے ہوئے ہم سے ملنے آئے تھے۔ جی ہاں۔ دوڑتے ہوئے۔ یعنی بھاگ کر۔ میں سوچ میں پڑ گیا۔ کراچی؟
میں پنجابی ہوں۔ مجھے پنجاب سے محبت ہے۔ پنجاب کی روایات سے محبت ہے۔ راجپوتوں کے اس خاندان پر فخر ہے جس کی مہمان نوازی مجھے ورثے میں ملی ہے۔ مگر مجھے آج پتا چلا تھا کہ کردار کسی کے باپ کی میراث نہیں ہے۔ کسی کی جاگیر نہیں ہے جس کا کسی خاص زمان و مکان سے باہر ملنا محال ہو۔ کسی شجرے میں نہیں ہے جسے صرف خون کے رشتوں میں ڈھونڈا جائے۔ اعلیٰ ظرفی، خلوص، قربانی اور محبت جیسے محاسن قدرت نے جگہ جگہ پر انسانوں میں شاید اسی الگوردم کے تحت بانٹ دیے ہیں جس کے تحت اوس گرتی ہے۔ ہر کہیں۔ مگر ذرا ذرا چھوڑ چھوڑ کر۔ تا ہم اسی جہان کو جنت نہ سمجھ لیں۔ اس ادراک نے میرا ظرف بڑا کر دیا۔ میں نے اپنے اندر اپنے قریے، خاندان اور ذات سے باہر روشنیاں ڈھونڈنے کی ہمت محسوس کی۔ میں پہلے سے بہت بہتر انسان بن گیا۔ شکریہ، عبدالرحمٰن بھائی۔ میرے قلب و نظر کی یہ غیرمعمولی کشائش آپ کی معیت کے فقط چند لمحوں کی دین ہے جو زندگی بھر میرے ساتھ رہے گی۔ انشاءاللہ!
سعدیؔ نے کیا خوب کہا تھا:
عبدالرحمٰن بھائی اپنی خانگی مصروفیت کے باعث کچھ ہی دیر ہمارے ساتھ رہے۔ اس چھوٹے سے بڑے آدمی سے وداع ہو کر ہم آگے روانہ ہو گئے۔ ادب دوست کی شخصیت کچھ کچھ کھلنا شروع ہوئی۔ ان کے اندر کا ملامتی صوفی ہنوز رنگ برنگی باتوں کے پیچھے چھپنے کی کوشش کر رہا تھا۔ اس سادگی پہ کون نہ مر جائے اے خدا!
عجز اور انکسار کے ساتھ بڑا عجیب معاملہ ہے۔ یہ وہ خوبیاں ہیں جن کی نقل اصل سے زیادہ مقبول ہے۔ حقیقی منکسر شخص کو پہچاننے میں سب سے بڑی دقت یہی ہوتی ہے کہ وہ آپ کو احساس تک نہیں ہونے دیتا کہ وہ عجز سے کام لے رہا ہے۔ اس کا انکسار گنگناتی ہوئی ندی کے دھاروں کی طرح فطری ہوتا ہے جس کے پیچھے کسی ذہن کی کارفرمائی کا سوچا بھی نہیں جا سکتا۔ انکسار کی ایسی ہی لہریں بہا کر ہمیں وہاں لے گئیں جہاں دو اور دوست ہمارے منتظر تھے۔
ان میں سے ایک صاحب مزمل شیخ بسمل تھے۔ہم نے ان کی کچھ تحریریں پڑھی تھیں۔ ایک آدھ گفتگو بھی رہی تھی۔ تصویر بھی دیکھ رکھی تھی۔ ان کی فلسفہ دانی، عروضی فہم وغیرہ سے حسد بھی پالا ہوا تھا۔ سوچ کر گئے تھے کہ ان کو فوراً پہچان کر ہر بات کی تردید کرنا شروع کر دیں گے۔ لیکن کیا ہے کہ اللہ نے ہر فرعون کے لیے ایک موسیٰ پیدا کیا ہے۔ بھڑنے گئے تھے مزمل شیخ بسمل سے اور سامنے کون آیا؟ ایک من موہنا سا، پیارا سا منا!!
دوسرے صاحب فرحان بھائی تھے۔ اسم با مسمیٰ۔ محفل پر نہیں ہیں۔ نہایت دلکش شخصیت۔ خوش طبعی کے ساتھ فکر کی گیرائی اور گہرائی قائم رکھنا بڑے جوکھم کا کام ہے۔ فرحان بھائی یہ جوئے شیر لاتے رہتے ہیں۔ مجھے بہت پسند آئے۔ کافی گفتگو رہی۔ یاد رہیں گے۔
پھر محمداحمد بھائی آئے۔ اب تک میں حیران ہو ہو کے تھک گیا تھا۔ پھر بھی کافی حیران ہوا کہ یہ تو بڑے نرم و نازک سے آدمی ہیں۔ شاعروں سے متعلق میری عرصے سے رائے تھی کہ کلام جتنا نفیس ہو گا، موصوف اتنے ہی بے ڈول ہوں گے۔ اس کی منطقی وجہ یہی ہے کہ شاعر منطق پر قطعاً توجہ نہیں دیتے۔ مگر احمد بھائی چلتا پھرتا مصرع ہیں۔ وہ بھی فیضؔ کا۔ معطر، نغمگیں اور دھیما۔ ان خاموش پانیوں جیسا جن کے تلاطم گہرائیوں میں بپا ہوتے ہیں۔
ہم پیش بندی کے طور پر فرض کر کے گئے تھے کہ اگر پانچ لوگوں سے ملاقات ہو گی تو قاعدے کی رو سے زیادہ سے زیادہ تین سے قارورہ مل جائے گا۔ باقی دو پر ہم نے پیشگی نفرین بھیج دی تھی۔ اب یہاں وہ نفرین ہم نے واپس لی۔ یعنی اب ہم کیا بتائیں؟ سب کے سب اتنے بڑے انسان کہ ان کی معیت میں ان کے کمالات کی جانب توجہ ہی نہیں جاتی۔ بندے کو مرعوب نہیں ہونے دیتے۔ اس صورت میں ہم خود کو ملامت نہ کرتے تو کیا درود بھیجتے؟
اب یہ اچھے اچھے لوگ ہم سے اتنے اچھے طریقے سے پیش آئے کہ سازشی نظریات پیدا ہونا ناگزیر ہو گیا۔ مگر پہلے اور اب والے اختلال کی شدت اور نوعیت میں کچھ فرق تھا۔ یعنی اب ہم صرف یہ سوچ رہے تھے کہ اس چوکڑی میں سب کنوارے ہیں۔ ہمارے شادی شدہ ہونے کی وجہ سے ہم پر ترس تو نہیں کھا رہے۔ اچھا، یوں سہی۔ ان کی شادیوں کے بعد ہم اس سے بھی زیادہ ہمدردی اور خلوص سے ان کے ساتھ پیش آئیں گے۔ حسابِ دوستاں در دل!
ادب دوست بھائی نے نہاری کھلائی۔ گلاب جامن کھلائے۔ چائے پلائی۔ ہمیں ڈھو ڈھو کے ادھر سے ادھر پھرا کیے۔ اور ہمیں یہ تک سمجھ میں نہ آیا کہ ان کا شکریہ کیسے ادا کریں۔ ناچار ہم نے بھانڈوں کی طرح انھیں ہنسا بہلا کر حساب چکانے کی کوشش کی۔ اب ممنونیت کی شدت سے مغلوب ہو کر ہم گہری گہری جگتیں مارتے ہیں تو وہ سمجھتے نہیں۔ یا سمجھنا چاہتے نہیں۔ بس مسکرانے کی کوشش سی کرتے ہیں۔ جیسے کوئی متقی شخص مسجد کے راستے میں کسی اخلاق باختہ عورت کی گری ہوئی باتیں سن کر جھینپ جائے۔ اپنی حسِ مزاح کی اس قدر افزائی کے بعد ہم نے بھی ان کا شکریہ ادا کرنے کا خیال ترک کر دیا۔
حسیب احمد حسیب کے بھائی عدیل صاحب سے بھی ملاقات ہوئی۔ فائر فائٹر ہیں اور جب کہیں آگ نہ لگی ہو تو شاعری کر کے جی بہلاتے ہیں۔ ان سے کچھ سننے کا موقع نہیں مل سکا مگر راویاں ثقہ اند کہ عمدہ شاعر ہیں۔ راویوں کی ثقاہت پر ہمارا اعتبار ان کی اپنی شاعری سن کر قائم ہو گیا تھا۔ سوائے فرحان صاحب کے باقی سب کے شعر سنے۔ میں اب تک کے تجربات کی بنیاد پر کہہ سکتا ہوں کہ کراچی والے اردو شاعری میں لاہور والوں سے اتنا ہی آگے ہیں جتنا کراچی لاہور سے آگے ہے۔ تقریباً بارہ سو کلو میٹر!
مزمل صاحب اور عدیل صاحب سے وہیں پر رخصت ہوئے۔ احمد بھائی، ادب دوست بھائی، حسیب بھائی اور فرحان بھائی شہر کا شہر پھاند کر ایک کونے سے دوسرے میں ہمیں چھوڑنے ساتھ آئے۔ ادب دوست نے ٹیکسی والے کو کرایہ دے کر ہمیں گھر روانہ کیا۔ اب شکریہ تو بنتا تھا لیکن مسئلہ پھر وہی کہ ادا کیسے کریں؟
آج صبح جب میں کراچی کے دوستوں سے کے بارے میں یہ اختتامی سطریں رقم کر رہا ہوں، مجھے احساس ہے کہ کراچی کو عروس البلاد کیوں کہا جاتا ہے۔ میں نے اس کے دلہے دیکھ لیے ہے۔ لکھنؤ کے بانکے شاید اب نہ ہوتے ہیں۔ دلی کے ترچھی ٹوپی والوں کا کسے معلوم۔ لیکن مجھے تسلی ہے کہ جب تک یہ جوانانِ رعنا اس شہر میں ہیں، کراچی سے شہروں کی دلہن کا خطاب کوئی نہیں چھین سکتا۔
میرا خیال ہے کہ یہ کوئی منطقی غلطی نہیں تھی کہ میں نے یہ استنباط کیا کہ یہاں کے باشندے بھی شاید خشک خشک ہی سے ہوں گے۔ گو کہ کراچی میں میرا بچپن گزرا ہے لیکن اس دور میں عقل اتنا بھی کام نہیں کرتی تھی جتنا خیر سے اب کرتی ہے۔ لہٰذا اس دور کی یادداشتیں مقبول نہیں۔ پھر یہ ہے کہ میرے سسرال عرصے سے اس شہر میں ہیں اور مردم بیزاری و مردم آزاری وغیرہ کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ ان سے بھی جمہور اہلِ علاقہ کی بابت ناگفتنی واقعات معلوم ہوئے۔ لہٰذا میں صمیمِ قلب سے اس خیال پر قائم ہو گیا کہ کراچی میں گرم جوشی، محبت، دلداری وغیرہ محاسن کی لوگوں سے توقع رکھنا ایک ایسی حماقت ہے جس کا مداوا کراچی میں سسرال ڈھونڈے بغیر ممکن نہیں۔
اس تناظر میں اسے عقل مندی تو نہیں کہنا چاہیے کہ میں نے اس دفعہ کراچی آنے کے بعد ادب دوست بھائی سے ملاقات کی خواہش ظاہر کر دی۔ ستم بالائے ستم یہ ہوا کہ انھوں نے بھی ذرہ نوازی فرمائی اور پروگرام طے ہو گیا۔ معلوم ہوا کہ محمداحمد ، مزمل شیخ بسمل ، عبدالرحمٰن اور حسیب احمد حسیب صاحبان بھی تشریف لائیں گے۔ میرا قیام سٹیل ٹاؤن میں تھا جو شہر سے باہر ہے۔ شہر میں پہنچنے کا وقت اور مقام بھی شدہ شدہ مقرر کر لیا گیا۔
لیکن صاحب، بس فیصلہ ہونے کی دیر تھی کہ ہمارے دل میں طرح طرح کے واہمے سر اٹھانے لگے۔ تفصیل کا یہ مقام نہیں مگر اجمالاً عرض کروں تو سب سے بڑا خطرہ جان کا تھا۔ انجان شہر، انجان لوگ۔ اکیلی جان۔ اف اللہ! مر مرا گئے تو کفن تو درکنار ڈنگ ڈونگ کا ریپر بھی شاید نصیب نہ ہو۔ ہمیں زندگی میں پہلی بار احساس ہوا کہ لوگ ایسے ہی میرؔ کو بڑا شاعر نہیں کہتے۔ وہ جو انھوں نے فرمایا ہے کہ جان ہے تو جہان ہے، پیارے! اس ایک مصرعے میں کیفیات کے جس جہان کی انھوں نے ترجمانی کر ڈالی ہے وہ اس سے پہلے دیکھا نہ تھا۔
اب کیا کریں؟ گھر والوں کو اس قسم کے تحفظات سے آگاہ کرنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ سسرالی کیا سوچیں گے کہ ہمارا داماد ڈرپوک ہے۔ استغفراللہ۔ اس سے تو بہتر ہے ہم کراچی کی سڑکوں پر زندہ ہے بھٹو، زندہ ہے کا نعرہ لگا کر ہی جان دے دیں۔ سسرال میں بے عزتی سے تو بچ جائیں گے۔ جیالوں کی جانب سے ہر سال قبر پر جو پھول چڑھیں گے وہ الگ۔ جوں جوں وقتِ مقررہ نزدیک آتا گیا، ہماری غیرت کا غلبہ شدید ہوتا گیا۔ یہاں تک کہ اتوار کے روز ہم نےتنہا شہر جانے کا فیصلہ بجنگ آمد قسم کے انداز میں جملہ سسرال والوں کی موجودگی میں میز تھام کر ایک ہی سانس میں مشتہر کر دیا۔
کچھ بحثا بحثی ضرور ہوئی مگر آخر گھر والوں نے تقدیر کے فیصلے کو قبول کر لیا۔ سسر نے ہماری لاش وغیرہ موصول کرنے کے لیے ادب دوست بھائی کا نمبر لے لیا۔ بیگم باہر آ کر دیر تک کھڑی رہیں۔ قریب تھا کہ ہم سے وصیت لکھوائی جاتی مگر سسر نے اور خود ہم نے بھی حوصلے سے کام لیا۔ ہمیں سٹیل ٹاؤن کے گیٹ پر ڈراپ کر کے خدا اور خضر علیہ السلام کے حوالے کر دیا گیا۔ ہم نے بھی دل ہی دل میں کفن باندھا اور بس پر چڑھ گئے۔
ادب دوست مسلسل رابطے میں تھے۔ الٰہ دین پارک کے سامنے وہ حسیب بھائی کے ہمراہ ہمیں لینے آئے۔ صورت دیکھ کر نئے سال کا پہلا دھچکا لگا۔ محفل پر ان کی گفتگوؤں سے لگتا تھا کہ کوئی معمر شخص ہوں گے۔ فون پر بھی ایسی بزرگانہ محبت سے بات کرتے تھے کہ ہم احتیاطاً سر پر شیمپو کر کے گئے تھے کہ جان بچ گئی تو دستِ شفقت پھروا کر آئیں گے۔ لیکن ان کی عمر تو ان کے تجربے سے بھی کم معلوم ہوتی ہے۔ نوجوان آدمی۔ اتنا بااخلاق۔ یا الٰہی، یہ ضرور کوئی سازش ہے!
حسیب بھائی خوش شکل آدمی ہیں۔ ان کا شمار ان مولویوں میں کیا جانا چاہیے جن کا شمار مولویوں میں نہیں کیا جانا چاہیے۔ لیکن ان کے تجویدی لہجے سے بھی ہمیں القاعدہ یاد آ کر رہ گئی۔ سلام دعا کے بعد ہم اللہ کا نام لے کر ان کے ساتھ سوار ہوئے۔ کچھ ہی دور چلے ہوں گے کہ گاڑی روک دی گئی۔ ہم نے پہلا کلمہ یاد کرنے کی کوشش کی۔ یاد نہیں آیا۔ تھوڑی دیر بعد البتہ ہوش ٹھکانے آئے تو معلوم ہوا کہ ہمارے قتل کا ارادہ شاید ملتوی ہو گیا ہے اور یار لوگ عبدالرحمٰن بھائی کا انتظار کر رہے ہیں۔
پھر میں نے ایک دبلا پتلا نوجوان دیکھا جسے میں کبھی نہیں بھولوں گا۔ سردیوں کے موسم میں اس کے ماتھے پر پسینے کے قطرے چمک رہے تھے۔ سانس اکھڑی ہوئی تھی۔ اعضا پر ایک خفیف سی کپکپی طاری تھی۔ باچھیں کھلی ہوئی تھیں۔ بولنے میں دقت ہو رہی تھی۔ یہ عبد الرحمٰن بھائی تھے۔ خدا جانے کتنی دور سے دوڑتے ہوئے ہم سے ملنے آئے تھے۔ جی ہاں۔ دوڑتے ہوئے۔ یعنی بھاگ کر۔ میں سوچ میں پڑ گیا۔ کراچی؟
میں پنجابی ہوں۔ مجھے پنجاب سے محبت ہے۔ پنجاب کی روایات سے محبت ہے۔ راجپوتوں کے اس خاندان پر فخر ہے جس کی مہمان نوازی مجھے ورثے میں ملی ہے۔ مگر مجھے آج پتا چلا تھا کہ کردار کسی کے باپ کی میراث نہیں ہے۔ کسی کی جاگیر نہیں ہے جس کا کسی خاص زمان و مکان سے باہر ملنا محال ہو۔ کسی شجرے میں نہیں ہے جسے صرف خون کے رشتوں میں ڈھونڈا جائے۔ اعلیٰ ظرفی، خلوص، قربانی اور محبت جیسے محاسن قدرت نے جگہ جگہ پر انسانوں میں شاید اسی الگوردم کے تحت بانٹ دیے ہیں جس کے تحت اوس گرتی ہے۔ ہر کہیں۔ مگر ذرا ذرا چھوڑ چھوڑ کر۔ تا ہم اسی جہان کو جنت نہ سمجھ لیں۔ اس ادراک نے میرا ظرف بڑا کر دیا۔ میں نے اپنے اندر اپنے قریے، خاندان اور ذات سے باہر روشنیاں ڈھونڈنے کی ہمت محسوس کی۔ میں پہلے سے بہت بہتر انسان بن گیا۔ شکریہ، عبدالرحمٰن بھائی۔ میرے قلب و نظر کی یہ غیرمعمولی کشائش آپ کی معیت کے فقط چند لمحوں کی دین ہے جو زندگی بھر میرے ساتھ رہے گی۔ انشاءاللہ!
سعدیؔ نے کیا خوب کہا تھا:
گلے خوش بوئے در حمام روزے
رسید از دستِ محبوبے بدستم
بدو گفتم کہ مشکی یا عبیری
کہ از بوئے دلآویزِ تو مستم
بگفتا من گلے ناچیز بودم
ولیکن مدتے با گل نشستم
جمالِ ہمنشیں در من اثر کرد
وگرنہ من ہماں خاکم کہ ہستم
(ایک دن حمام میں کسی پیارے کے ہاتھ سے کچھ گرد میرے ہاتھ پر آن پڑی۔ میں نے اس سے پوچھا کہ تو مشک ہے یا عبیر؟ میں تو تیری دلآویز خوشبو سے مست ہو گیا۔ اس نے کہا کہ میں تو بے حیثیت قسم کی خاک تھی۔ لیکن کچھ وقت مجھے پھول کی صحبت نصیب ہوئی۔ اس ہمنشین کے حسن نے مجھ پر اثر کر دیا ہے۔ ورنہ میں تو وہی خاک ہوں جو ہوں!)رسید از دستِ محبوبے بدستم
بدو گفتم کہ مشکی یا عبیری
کہ از بوئے دلآویزِ تو مستم
بگفتا من گلے ناچیز بودم
ولیکن مدتے با گل نشستم
جمالِ ہمنشیں در من اثر کرد
وگرنہ من ہماں خاکم کہ ہستم
عبدالرحمٰن بھائی اپنی خانگی مصروفیت کے باعث کچھ ہی دیر ہمارے ساتھ رہے۔ اس چھوٹے سے بڑے آدمی سے وداع ہو کر ہم آگے روانہ ہو گئے۔ ادب دوست کی شخصیت کچھ کچھ کھلنا شروع ہوئی۔ ان کے اندر کا ملامتی صوفی ہنوز رنگ برنگی باتوں کے پیچھے چھپنے کی کوشش کر رہا تھا۔ اس سادگی پہ کون نہ مر جائے اے خدا!
عجز اور انکسار کے ساتھ بڑا عجیب معاملہ ہے۔ یہ وہ خوبیاں ہیں جن کی نقل اصل سے زیادہ مقبول ہے۔ حقیقی منکسر شخص کو پہچاننے میں سب سے بڑی دقت یہی ہوتی ہے کہ وہ آپ کو احساس تک نہیں ہونے دیتا کہ وہ عجز سے کام لے رہا ہے۔ اس کا انکسار گنگناتی ہوئی ندی کے دھاروں کی طرح فطری ہوتا ہے جس کے پیچھے کسی ذہن کی کارفرمائی کا سوچا بھی نہیں جا سکتا۔ انکسار کی ایسی ہی لہریں بہا کر ہمیں وہاں لے گئیں جہاں دو اور دوست ہمارے منتظر تھے۔
ان میں سے ایک صاحب مزمل شیخ بسمل تھے۔ہم نے ان کی کچھ تحریریں پڑھی تھیں۔ ایک آدھ گفتگو بھی رہی تھی۔ تصویر بھی دیکھ رکھی تھی۔ ان کی فلسفہ دانی، عروضی فہم وغیرہ سے حسد بھی پالا ہوا تھا۔ سوچ کر گئے تھے کہ ان کو فوراً پہچان کر ہر بات کی تردید کرنا شروع کر دیں گے۔ لیکن کیا ہے کہ اللہ نے ہر فرعون کے لیے ایک موسیٰ پیدا کیا ہے۔ بھڑنے گئے تھے مزمل شیخ بسمل سے اور سامنے کون آیا؟ ایک من موہنا سا، پیارا سا منا!!
دیکھو مجھے جو دیدۂِ عبرت نگاہ ہو!
صورت تو وہی تھی جو ہم نے فیلسوفِ موصوف کی تصویر میں دیکھی تھی مگر چہرے پر معصومیت کے گویا ڈول انڈیل دیے گئے تھے۔ ہمیں یقین ہو گیا کہ یا تو عمر کے چور ہیں یا تحریریں چوری کرتے ہیں۔ معلوم ہوتا تھا کہ اماں نے دہی لینے بھیجا ہو گا اور یہ صرف اس لیے یہاں ٹھہر گئے ہیں کہ ہم سگریٹ پھینکیں اور یہ اٹھا لیں۔ اتنا معصوم چہرہ تو ہمارے حساب سے کسی فلسفی کے میمنے کا بھی نہیں ہونا چاہیے۔ بزِ اخفش وغیرہ سے جو اہلِ علم واقف ہیں وہ ہماری بات کی تائید کریں گے۔ مزمل صاحب کی صورت ہمیں بھا ہی تو گئی۔ اتنی کہ ہم ان کی علمیت کے قضیے کو تقریباً بھول کر ان سے عام انسانوں کی طرح گھل مل گئے۔ تھوڑی دیر کو وہ بھی خوش ہوئے مگر پھر اصلیت ظاہر کرنی شروع کر دی۔ اتنے شگفتہ بشرے سے فلسفہ پھوٹنا شروع ہوا تو ہم کسمسائے۔ مگر شکر میں ملفوف کر کے کونین دی جائے تو ہماری بچپن سے عادت ہے کہ کھا لیتے ہیں۔ رفتہ رفتہ کونین نے حسد کا بخار بھی اتار ہی دیا۔دوسرے صاحب فرحان بھائی تھے۔ اسم با مسمیٰ۔ محفل پر نہیں ہیں۔ نہایت دلکش شخصیت۔ خوش طبعی کے ساتھ فکر کی گیرائی اور گہرائی قائم رکھنا بڑے جوکھم کا کام ہے۔ فرحان بھائی یہ جوئے شیر لاتے رہتے ہیں۔ مجھے بہت پسند آئے۔ کافی گفتگو رہی۔ یاد رہیں گے۔
پھر محمداحمد بھائی آئے۔ اب تک میں حیران ہو ہو کے تھک گیا تھا۔ پھر بھی کافی حیران ہوا کہ یہ تو بڑے نرم و نازک سے آدمی ہیں۔ شاعروں سے متعلق میری عرصے سے رائے تھی کہ کلام جتنا نفیس ہو گا، موصوف اتنے ہی بے ڈول ہوں گے۔ اس کی منطقی وجہ یہی ہے کہ شاعر منطق پر قطعاً توجہ نہیں دیتے۔ مگر احمد بھائی چلتا پھرتا مصرع ہیں۔ وہ بھی فیضؔ کا۔ معطر، نغمگیں اور دھیما۔ ان خاموش پانیوں جیسا جن کے تلاطم گہرائیوں میں بپا ہوتے ہیں۔
ہم پیش بندی کے طور پر فرض کر کے گئے تھے کہ اگر پانچ لوگوں سے ملاقات ہو گی تو قاعدے کی رو سے زیادہ سے زیادہ تین سے قارورہ مل جائے گا۔ باقی دو پر ہم نے پیشگی نفرین بھیج دی تھی۔ اب یہاں وہ نفرین ہم نے واپس لی۔ یعنی اب ہم کیا بتائیں؟ سب کے سب اتنے بڑے انسان کہ ان کی معیت میں ان کے کمالات کی جانب توجہ ہی نہیں جاتی۔ بندے کو مرعوب نہیں ہونے دیتے۔ اس صورت میں ہم خود کو ملامت نہ کرتے تو کیا درود بھیجتے؟
اب یہ اچھے اچھے لوگ ہم سے اتنے اچھے طریقے سے پیش آئے کہ سازشی نظریات پیدا ہونا ناگزیر ہو گیا۔ مگر پہلے اور اب والے اختلال کی شدت اور نوعیت میں کچھ فرق تھا۔ یعنی اب ہم صرف یہ سوچ رہے تھے کہ اس چوکڑی میں سب کنوارے ہیں۔ ہمارے شادی شدہ ہونے کی وجہ سے ہم پر ترس تو نہیں کھا رہے۔ اچھا، یوں سہی۔ ان کی شادیوں کے بعد ہم اس سے بھی زیادہ ہمدردی اور خلوص سے ان کے ساتھ پیش آئیں گے۔ حسابِ دوستاں در دل!
ادب دوست بھائی نے نہاری کھلائی۔ گلاب جامن کھلائے۔ چائے پلائی۔ ہمیں ڈھو ڈھو کے ادھر سے ادھر پھرا کیے۔ اور ہمیں یہ تک سمجھ میں نہ آیا کہ ان کا شکریہ کیسے ادا کریں۔ ناچار ہم نے بھانڈوں کی طرح انھیں ہنسا بہلا کر حساب چکانے کی کوشش کی۔ اب ممنونیت کی شدت سے مغلوب ہو کر ہم گہری گہری جگتیں مارتے ہیں تو وہ سمجھتے نہیں۔ یا سمجھنا چاہتے نہیں۔ بس مسکرانے کی کوشش سی کرتے ہیں۔ جیسے کوئی متقی شخص مسجد کے راستے میں کسی اخلاق باختہ عورت کی گری ہوئی باتیں سن کر جھینپ جائے۔ اپنی حسِ مزاح کی اس قدر افزائی کے بعد ہم نے بھی ان کا شکریہ ادا کرنے کا خیال ترک کر دیا۔
حسیب احمد حسیب کے بھائی عدیل صاحب سے بھی ملاقات ہوئی۔ فائر فائٹر ہیں اور جب کہیں آگ نہ لگی ہو تو شاعری کر کے جی بہلاتے ہیں۔ ان سے کچھ سننے کا موقع نہیں مل سکا مگر راویاں ثقہ اند کہ عمدہ شاعر ہیں۔ راویوں کی ثقاہت پر ہمارا اعتبار ان کی اپنی شاعری سن کر قائم ہو گیا تھا۔ سوائے فرحان صاحب کے باقی سب کے شعر سنے۔ میں اب تک کے تجربات کی بنیاد پر کہہ سکتا ہوں کہ کراچی والے اردو شاعری میں لاہور والوں سے اتنا ہی آگے ہیں جتنا کراچی لاہور سے آگے ہے۔ تقریباً بارہ سو کلو میٹر!
مزمل صاحب اور عدیل صاحب سے وہیں پر رخصت ہوئے۔ احمد بھائی، ادب دوست بھائی، حسیب بھائی اور فرحان بھائی شہر کا شہر پھاند کر ایک کونے سے دوسرے میں ہمیں چھوڑنے ساتھ آئے۔ ادب دوست نے ٹیکسی والے کو کرایہ دے کر ہمیں گھر روانہ کیا۔ اب شکریہ تو بنتا تھا لیکن مسئلہ پھر وہی کہ ادا کیسے کریں؟
آج صبح جب میں کراچی کے دوستوں سے کے بارے میں یہ اختتامی سطریں رقم کر رہا ہوں، مجھے احساس ہے کہ کراچی کو عروس البلاد کیوں کہا جاتا ہے۔ میں نے اس کے دلہے دیکھ لیے ہے۔ لکھنؤ کے بانکے شاید اب نہ ہوتے ہیں۔ دلی کے ترچھی ٹوپی والوں کا کسے معلوم۔ لیکن مجھے تسلی ہے کہ جب تک یہ جوانانِ رعنا اس شہر میں ہیں، کراچی سے شہروں کی دلہن کا خطاب کوئی نہیں چھین سکتا۔
آخری تدوین: