فہیم
لائبریرین
ظفری بھائی اور ہمارا تو ارادہ تھا کہ اس بار ہم سیما آپی کو منائیں گے کہ کسی اور جگہ ملاقات رکھی جائے اور ہمیں بھی میزبانی کا موقع فراہم کیا جائے۔
پر جب یہ مقدمہ آپی کے سامنے پیش ہوا تو، جواب میں آپی کے دلائل اتنے مضبوط تھے کہ ہمیں جیم خانہ میں ہی بیٹھک لگانے پر رضامند ہونا پڑا۔
امریکہ سے ظفری بھائی اور سعودیہ سے عاطف بھائی دونوں ہی کراچی میں براجمان تھے تو دونوں کی رضامندی سے اور آپی کے حکم کےمطابق گزرے ہفتے کے روز یہ ملاقات انجام پائی۔ ساتھ میں کچھ اور احباب کو بھی دعوت نامے ارسال کیے گئے لیکن ورکنگ ڈے ہونے کے سبب احباب کی معذرت قابل قبول تھی۔
عاطف بھائی اور ہم تقریباً ایک ہی وقت پر جیم خانہ پہنچے اور کچھ لحمے بعد آپی اور ظفری بھائی ایک ساتھ۔
اس وقت کے دوران ہم اور عاطف بھائی پاکستان بمقابلہ انگلینڈ ٹیسٹ میچ کو دیکھتے ہوئے اس پر تبصرہ کرتے رہے۔
آپی اور ظفری بھائی کی آمد کے بعد گفتگو اور برنچ کا ایک سلسلہ شروع ہوا۔ جس میں شمشاد بھائی کا ذکر خیر رہا۔ ساتھ میں کراچی کی موجودہ حالت، سوشل ورک، اور چند ایک محفلین کا ذکر بھی رہا۔ گفتگو کے دوران جب ہم سر گھما کر ایک نظر ٹیلی وژن کی اسکرین پر ڈالتے تو اس دوران انگلینڈ کی مزید ایک وکٹ کر چکی ہوتی تو اسی طرح ہم نے بار بار گردن گھما کر انگلینڈ کی پوری ٹیم ہی نپٹادی بلکہ پاکستان کو میچ بھی جیتا کر دم لیا۔
ہمارے علاوہ تینوں احباب ہی پوری، پراٹھوں سے لطف اندوز ہوئے جبکہ ہم نے آملیٹ پر اکتفا کیا ساتھ میں برین مسالہ بھی ٹرائی کیا جو واقعی بہت زیادہ ہی مسالے دار تھا۔
یہ بیٹھک بہت زیادہ طویل نہیں ہوسکی، آپی کو کچھ ضروری کام سے جانا تھا۔ تو ملاقات کا پہلا دور یہاں اختتام کو پہنچا۔
ملاقات سے قبل ہی ظفری بھائی ہمیں کہہ چکے تھے کہ انہوں نے کچھ شاپنک کرنی ہے اور گھومنا ہے تو میں ملاقات کے بعد ان کے ساتھ چلوں۔ اسی وجہ سے ہم اپنی گاڑی کے بجائے Yango سے گئے تھے تاکہ ظفری بھائی کے ساتھ جایا جاسکے۔ باہر نکلنے پر ظفری بھائی نے سوچا کیوں نہ اس سفر میں عاطف بھائی کو بھی شامل کرلیا جائے کہ دو سے بھلے تین۔ تو ان کو کال کی گئی وہ اس وقت اپنی گاڑی جیم خانہ سے باہر لا رہے تھے۔ ان کو جب ساتھ آنے کو کہا تھا تو انہوں نے بخوشی حامی بھرلی۔ اس طرح ہم لوگ آگے پیچھے گاڑیوں میں صدر زینب مارکیٹ تک آئے۔ وہاں عاطف بھائی کی گاڑی کو ایک محفوظ پارکنگ میں پارک کرا کر پہلے ہم لوگوں نے زینب مارکیٹ گھومی۔ جہاں سے ظفر ی بھائی نے کچھ شاپنک کی اور ہماری بھاؤ تاؤ کرنے کی صلاحیتوں کا بھرپور فائدہ اٹھایا۔ جسے دیکھتے ہوئے عاطف بھائی نے بھی اس شاپنگ میں شریک ہو چلے۔
ہماری اگلی منزل کلفٹن ڈولمین مال تھا۔ وہاں تک کا سفر ظفری بھائی کی گاڑی میں طے ہوا اور راستے میں گفتگو ہوتی رہی جس کچھ حصہ بچوں کی تربیت اور کچھ دینی معاملات کے متعلق رہا۔
ڈولمین مال میں ظفری بھائی نے کرنسی کی ادلا بدلی کرائی اور اپنا شناختی کارڈ اسی کے پاس بھول چلے۔ (جو ایک الگ قصہ ہے)
اب ظفری بھائی کا موڈ کچھ ترکش کھانوں پر ہاتھ صاف کرنے کا تھا۔ جس کے لیے دیکھا گیا تو نزدیک Ala Rahi ریسٹورینٹ ہی دکھائی دیا۔ وہاں پہنچ کر ہم لوگوں نے لنچ کیا۔ اس کے بعد کوئٹہ پٹھان کے ہوٹل پر چائے پی۔ پھر عاطف بھائی کو ان کی گاڑی اور مجھے میرے آفس پر ڈراپ کرتے ہوئے ظفری بھائی نے بھی گھر کی راہ لی۔
چائے کی محفل پر سمجھیں سب سے زیادہ گفتگو ہوئی جس میں ظفری بھائی نے دین کے متعلق اپنے پوائنٹ آف ویو پر گفتگو کیا۔ لیکن چونکہ وقت وہاں بھی زیادہ نہیں ملا تو یہ گفتگو اگلی بیٹھک پر ہی آگے بڑھے گی۔
پر جب یہ مقدمہ آپی کے سامنے پیش ہوا تو، جواب میں آپی کے دلائل اتنے مضبوط تھے کہ ہمیں جیم خانہ میں ہی بیٹھک لگانے پر رضامند ہونا پڑا۔
امریکہ سے ظفری بھائی اور سعودیہ سے عاطف بھائی دونوں ہی کراچی میں براجمان تھے تو دونوں کی رضامندی سے اور آپی کے حکم کےمطابق گزرے ہفتے کے روز یہ ملاقات انجام پائی۔ ساتھ میں کچھ اور احباب کو بھی دعوت نامے ارسال کیے گئے لیکن ورکنگ ڈے ہونے کے سبب احباب کی معذرت قابل قبول تھی۔
عاطف بھائی اور ہم تقریباً ایک ہی وقت پر جیم خانہ پہنچے اور کچھ لحمے بعد آپی اور ظفری بھائی ایک ساتھ۔
اس وقت کے دوران ہم اور عاطف بھائی پاکستان بمقابلہ انگلینڈ ٹیسٹ میچ کو دیکھتے ہوئے اس پر تبصرہ کرتے رہے۔
آپی اور ظفری بھائی کی آمد کے بعد گفتگو اور برنچ کا ایک سلسلہ شروع ہوا۔ جس میں شمشاد بھائی کا ذکر خیر رہا۔ ساتھ میں کراچی کی موجودہ حالت، سوشل ورک، اور چند ایک محفلین کا ذکر بھی رہا۔ گفتگو کے دوران جب ہم سر گھما کر ایک نظر ٹیلی وژن کی اسکرین پر ڈالتے تو اس دوران انگلینڈ کی مزید ایک وکٹ کر چکی ہوتی تو اسی طرح ہم نے بار بار گردن گھما کر انگلینڈ کی پوری ٹیم ہی نپٹادی بلکہ پاکستان کو میچ بھی جیتا کر دم لیا۔
ہمارے علاوہ تینوں احباب ہی پوری، پراٹھوں سے لطف اندوز ہوئے جبکہ ہم نے آملیٹ پر اکتفا کیا ساتھ میں برین مسالہ بھی ٹرائی کیا جو واقعی بہت زیادہ ہی مسالے دار تھا۔
یہ بیٹھک بہت زیادہ طویل نہیں ہوسکی، آپی کو کچھ ضروری کام سے جانا تھا۔ تو ملاقات کا پہلا دور یہاں اختتام کو پہنچا۔
ملاقات سے قبل ہی ظفری بھائی ہمیں کہہ چکے تھے کہ انہوں نے کچھ شاپنک کرنی ہے اور گھومنا ہے تو میں ملاقات کے بعد ان کے ساتھ چلوں۔ اسی وجہ سے ہم اپنی گاڑی کے بجائے Yango سے گئے تھے تاکہ ظفری بھائی کے ساتھ جایا جاسکے۔ باہر نکلنے پر ظفری بھائی نے سوچا کیوں نہ اس سفر میں عاطف بھائی کو بھی شامل کرلیا جائے کہ دو سے بھلے تین۔ تو ان کو کال کی گئی وہ اس وقت اپنی گاڑی جیم خانہ سے باہر لا رہے تھے۔ ان کو جب ساتھ آنے کو کہا تھا تو انہوں نے بخوشی حامی بھرلی۔ اس طرح ہم لوگ آگے پیچھے گاڑیوں میں صدر زینب مارکیٹ تک آئے۔ وہاں عاطف بھائی کی گاڑی کو ایک محفوظ پارکنگ میں پارک کرا کر پہلے ہم لوگوں نے زینب مارکیٹ گھومی۔ جہاں سے ظفر ی بھائی نے کچھ شاپنک کی اور ہماری بھاؤ تاؤ کرنے کی صلاحیتوں کا بھرپور فائدہ اٹھایا۔ جسے دیکھتے ہوئے عاطف بھائی نے بھی اس شاپنگ میں شریک ہو چلے۔
ہماری اگلی منزل کلفٹن ڈولمین مال تھا۔ وہاں تک کا سفر ظفری بھائی کی گاڑی میں طے ہوا اور راستے میں گفتگو ہوتی رہی جس کچھ حصہ بچوں کی تربیت اور کچھ دینی معاملات کے متعلق رہا۔
ڈولمین مال میں ظفری بھائی نے کرنسی کی ادلا بدلی کرائی اور اپنا شناختی کارڈ اسی کے پاس بھول چلے۔ (جو ایک الگ قصہ ہے)
اب ظفری بھائی کا موڈ کچھ ترکش کھانوں پر ہاتھ صاف کرنے کا تھا۔ جس کے لیے دیکھا گیا تو نزدیک Ala Rahi ریسٹورینٹ ہی دکھائی دیا۔ وہاں پہنچ کر ہم لوگوں نے لنچ کیا۔ اس کے بعد کوئٹہ پٹھان کے ہوٹل پر چائے پی۔ پھر عاطف بھائی کو ان کی گاڑی اور مجھے میرے آفس پر ڈراپ کرتے ہوئے ظفری بھائی نے بھی گھر کی راہ لی۔
چائے کی محفل پر سمجھیں سب سے زیادہ گفتگو ہوئی جس میں ظفری بھائی نے دین کے متعلق اپنے پوائنٹ آف ویو پر گفتگو کیا۔ لیکن چونکہ وقت وہاں بھی زیادہ نہیں ملا تو یہ گفتگو اگلی بیٹھک پر ہی آگے بڑھے گی۔