جہاں تک بات ہے ’’قبولنا‘‘ کی۔ یہ پنجابی لفظیات میں معروف ہے:
’’اوہدے قبولن، نہ قبولن دی کیہڑی گل اے یار، اُس نے پرھیا وچ ایہ قبولیا سی، (یا ایہ گل قبولی سی)، پھر مکر گیا‘‘
ترجمہ: اس کے قبول کرنے یا نہ کرنے کی کیا بات (کرتے ہو) یار، اس نے پنجائت میں یہ قبول کیا تھا (یا یہ بات قبول کی تھی) پھر مکر گیا۔
ہماری مقامی اور علاقائی زبانوں کے اسماء و افعال اور مصادر اگر اردو کے مزاج کے قریب ہیں اور اس میں نفوذ کر جاتے ہیں تو میں اس میں کوئی ہرج نہیں سمجھتا۔
اگر ’’قبولنا‘‘ کو اردو مصادر میں قبول کر لیا جائے تو اس سے اردو طریقے کے مطابق یہ صیغے نکلتے ہیں:
مصدر (لازم و متعدی): قبولنا ۔۔۔ ماضی: قبولا، قبولی، قبولے، قبولِیں۔ حال: قبولے گا، قبولیں گے، قبولوں گا۔ امر: قبول، قبولو، قبولیے۔
مصدر (متعدی المتعدی): قبولوانا۔