راحیل فاروق
محفلین
ضیا محی الدین صاحب پی ٹی وی پر ایک پروگرام کیا کرتے تھے جس میں مختلف شعبہ ہائے زندگی سے مہمان مدعو ہوتے تھے۔ ایک روز امجد اسلام امجدؔ صاحب آئے ہوئے تھے۔ انھوں نے ایک مصرع پڑھا۔ فرماتے تھے کہ یہ جادوئی مصرع ہے۔ ہر مصرعے کے ساتھ بطورِ مصرعِ ثانی چپک جاتا ہے اور نقش ہائے رنگ رنگ پیدا کرتا ہے۔ مصرع یوں ہے:
مثالیں حسبِ ذیل ہیں:
تو، صلائے عام ہے یارانِ نکتہ داں کے لیے!
حالانکہ اس سے فرق تو پڑتا نہیں کوئی
روحیؔ کنجاہی کا پورا شعر یوں ہے:خود کو بڑھا چڑھا کے بتاتے ہیں یار لوگ
حالانکہ اس سے فرق تو پڑتا نہیں کوئی !
تو صاحب، عرصہ ہو گیا اس بات کو۔ مگر مصرع ہمارے ذہن سے نتھی رہا۔ آج سوچا کہ محفلین کے سامنے تختہءِ مشق کے طور پر پیش کیا جائے اور دیکھا جائے کہ جادو سر چڑھ کے بولتا بھی ہے کہ نہیں۔حالانکہ اس سے فرق تو پڑتا نہیں کوئی !
مثالیں حسبِ ذیل ہیں:
ویراں ہے میکدہ، خم و ساغر اداس ہیں
حالانکہ اس سے فرق تو پڑتا نہیں کوئی
جاتے ہوائے شوق میں ہیں اس چمن سے ذوقؔ
حالانکہ اس سے فرق تو پڑتا نہیں کوئی
عمرِ دراز مانگ کے لائے تھے چار دن
حالانکہ اس سے...
وغیرہ وغیرہ۔حالانکہ اس سے فرق تو پڑتا نہیں کوئی
جاتے ہوائے شوق میں ہیں اس چمن سے ذوقؔ
حالانکہ اس سے فرق تو پڑتا نہیں کوئی
عمرِ دراز مانگ کے لائے تھے چار دن
حالانکہ اس سے...
تو، صلائے عام ہے یارانِ نکتہ داں کے لیے!