سید شہزاد ناصر
محفلین
یہ بھی پڑھیں
باپ کیوں فوت هوا ____ ؟
.
پچهلے سال کی بات هے _ ایک دوست گول بازار سرگودها شاپنگ کر رهے تهے __ اُنکی بیٹی کا فون آیا کہ ابو آپکے داماد نے مجهے فارغ کر دیا _ علیحدگی د ے دی هے __ فورا آئیں اور مجهے لے جائیں _
بیٹی کی یہ بات سن کر وه دوست بائیک دوڑاتا گهر کو واپس چلا __ ان هی سوچوں میں گم هو گا , راستے میں چلتی بائیک پر هارٹ اٹیک هوا __ بجلی کے پول سے ٹکرایا اور وهیں سڑک پر جان دے دی _
بظاهر یہ بات اتنی سی هے کہ هارٹ اٹیک هوا اور بنده فوت هو گیا _ وقت مقرر تها_ لیکن نہیں _میں نہیں مانتا_
کوئی بات تو تهی جو ایک اچهے بهلے صحت مند آدمی کی اچانک موت کا باعث بنی _ اِس میں کہیں نا کہیں تو انسانی غلطی نے بهی اپنا حصہ ڈالا هو گا _
علیحدگی کے کچهہ دن بعد میں بچی سے ملا اور پوچها کہ بی بی تین بچوں کیساتهہ خاوند نے جو تمہیں چهوڑ دیا __ کیا بات هوئی تهی _ تمہارا فسٹ کزن هی تو تها_
اُس بیٹی نے جو بهی وجہ بتائی وه مجهے سمجهہ نہیں آئی _ الزامات کی ایک لمبی فہرست تهی _ لیکن وه صاحبزادی مجهے کہیں بهی یہ نا بتا سکی کہ معاملات کی بہتری کیلئے خود اُس نے کیا کیا _ ؟
ایک بات میں نے بطور خاص نوٹ کی کہ محترمہ کے هاتهہ میں ڈیڑهہ لاکهہ والا آئی فون تها _
مرحوم دوست میرے رشتے دار بهی تهے _ اُنکا سابقہ داماد اعلی تعلیم یافتہ اور ایک محترم ادارے میں سکول ٹیچر هے _ چند دن بعد میں بطور خاص اُسے ملنے گیا __ پوچها کہ جوان تم جو اتنی انتہا پر پہنچے _اپنے بچے تک چهوڑ دیے _کیا تمہیں بچے پیارے نا تهے _ هوا کیا تها _کس بات نے تمہیں اتنا مجبور کیا _
وه بولا کہ سر _ میری دو سالیاں هیں _دونوں اِنتہائی امیر گهروں میں بیاهی هوئی _ کوٹهیوں کاروں اور نوکر چاکروں والی _
جب بهی میری بیوی اپنی بہنوں کو مل کر آتی _ میرے گهر جهگڑا شروع هو جاتا _مجهے بات بات پر غریبی کے طعنے ملتے _ میں چالیس هزار ماهانہ کا ملازم هوں _ جتنا کر سکتا تها , اِنتہائی حد تک کیا لیکن اب بات برداشت سے باهر تهی _
اُس نے مزید کها که مجهے اپنی بیوی بہت پیاری تهی _ میرے پاس تین هزار والا موبائل هے _بیگم کو میں نے آئی فون لیکر دیا __پهر کار کا مطالبہ هوا __بنک لون سے کار لیکر دی _ پرانا فرج بیچ کر قسطوں پر فل سائز نیا فرج لیا _ پهر اے سی کا کہا گیا _ اے سی لیکر دیا __ اِس سب کے باوجود طعنے هی طعنے _ میں اپنی نظر میں هی حقیر بن چکا تها_
علیحدگی والے ماه بجلی کا بل تیس هزار آ گیا _چالیس هزار کل تنخواه میں سے میں کیا کرتا _ دس هزار تو صرف ماهانہ دودهہ کا بل بنتا تها _ اُوپر سے بیگم کی فضول کی باتیں _
میں پہلے هی بیگم کی پچهلی لامحدود خواهشات سے تنگ تها_ بالکل ناک میں دم آ چکا تها_ فوری جهگڑا اُس بل پر هوا __ اور بات اِس انتہا تک پہنچی _
یہ بات کرتے کرتے وه رو پڑا _
ساری بات سن کر میں نے اپنا سر جهکایا _اور گهر واپس آ گیا_اللہ کا شکر ادا کیا کہ میں نے اپنی بیٹیوں کو __اپنے بیٹوں کو کم از کم خواهشات کیساتهہ زنده رهنا بتایا _
اس وقت وه علیحدگی یافتہ بیٹی اپنے شادی شده بهائی کے تین مرلہ مکان کے اوپر والے ایک کمرے میں ره رهی هے __
جب بجلی بند هو تو اِس کمرے میں بنده ایسے هو جاتا جیسے بهٹی میں دانے بهنتے هیں _ نا اوپر واش روم هے اور نا کچن _ بچے نیچے جائیں تو اُن کی ممانی تهپڑ لگا کر اوپر واپس بهگا دیتی هے _
گوری چٹی اور سرخ و سفید چهبیس سالہ لڑکی صرف ایک سال میں پچاس سال کی اماں نظر آتی هے _سنا هے کسی پرائیویٹ سکول میں نو دس هزار کی نوکری بهی شروع کر دی هے _
باپ کیوں فوت هوا ____ ؟
.
پچهلے سال کی بات هے _ ایک دوست گول بازار سرگودها شاپنگ کر رهے تهے __ اُنکی بیٹی کا فون آیا کہ ابو آپکے داماد نے مجهے فارغ کر دیا _ علیحدگی د ے دی هے __ فورا آئیں اور مجهے لے جائیں _
بیٹی کی یہ بات سن کر وه دوست بائیک دوڑاتا گهر کو واپس چلا __ ان هی سوچوں میں گم هو گا , راستے میں چلتی بائیک پر هارٹ اٹیک هوا __ بجلی کے پول سے ٹکرایا اور وهیں سڑک پر جان دے دی _
بظاهر یہ بات اتنی سی هے کہ هارٹ اٹیک هوا اور بنده فوت هو گیا _ وقت مقرر تها_ لیکن نہیں _میں نہیں مانتا_
کوئی بات تو تهی جو ایک اچهے بهلے صحت مند آدمی کی اچانک موت کا باعث بنی _ اِس میں کہیں نا کہیں تو انسانی غلطی نے بهی اپنا حصہ ڈالا هو گا _
علیحدگی کے کچهہ دن بعد میں بچی سے ملا اور پوچها کہ بی بی تین بچوں کیساتهہ خاوند نے جو تمہیں چهوڑ دیا __ کیا بات هوئی تهی _ تمہارا فسٹ کزن هی تو تها_
اُس بیٹی نے جو بهی وجہ بتائی وه مجهے سمجهہ نہیں آئی _ الزامات کی ایک لمبی فہرست تهی _ لیکن وه صاحبزادی مجهے کہیں بهی یہ نا بتا سکی کہ معاملات کی بہتری کیلئے خود اُس نے کیا کیا _ ؟
ایک بات میں نے بطور خاص نوٹ کی کہ محترمہ کے هاتهہ میں ڈیڑهہ لاکهہ والا آئی فون تها _
مرحوم دوست میرے رشتے دار بهی تهے _ اُنکا سابقہ داماد اعلی تعلیم یافتہ اور ایک محترم ادارے میں سکول ٹیچر هے _ چند دن بعد میں بطور خاص اُسے ملنے گیا __ پوچها کہ جوان تم جو اتنی انتہا پر پہنچے _اپنے بچے تک چهوڑ دیے _کیا تمہیں بچے پیارے نا تهے _ هوا کیا تها _کس بات نے تمہیں اتنا مجبور کیا _
وه بولا کہ سر _ میری دو سالیاں هیں _دونوں اِنتہائی امیر گهروں میں بیاهی هوئی _ کوٹهیوں کاروں اور نوکر چاکروں والی _
جب بهی میری بیوی اپنی بہنوں کو مل کر آتی _ میرے گهر جهگڑا شروع هو جاتا _مجهے بات بات پر غریبی کے طعنے ملتے _ میں چالیس هزار ماهانہ کا ملازم هوں _ جتنا کر سکتا تها , اِنتہائی حد تک کیا لیکن اب بات برداشت سے باهر تهی _
اُس نے مزید کها که مجهے اپنی بیوی بہت پیاری تهی _ میرے پاس تین هزار والا موبائل هے _بیگم کو میں نے آئی فون لیکر دیا __پهر کار کا مطالبہ هوا __بنک لون سے کار لیکر دی _ پرانا فرج بیچ کر قسطوں پر فل سائز نیا فرج لیا _ پهر اے سی کا کہا گیا _ اے سی لیکر دیا __ اِس سب کے باوجود طعنے هی طعنے _ میں اپنی نظر میں هی حقیر بن چکا تها_
علیحدگی والے ماه بجلی کا بل تیس هزار آ گیا _چالیس هزار کل تنخواه میں سے میں کیا کرتا _ دس هزار تو صرف ماهانہ دودهہ کا بل بنتا تها _ اُوپر سے بیگم کی فضول کی باتیں _
میں پہلے هی بیگم کی پچهلی لامحدود خواهشات سے تنگ تها_ بالکل ناک میں دم آ چکا تها_ فوری جهگڑا اُس بل پر هوا __ اور بات اِس انتہا تک پہنچی _
یہ بات کرتے کرتے وه رو پڑا _
ساری بات سن کر میں نے اپنا سر جهکایا _اور گهر واپس آ گیا_اللہ کا شکر ادا کیا کہ میں نے اپنی بیٹیوں کو __اپنے بیٹوں کو کم از کم خواهشات کیساتهہ زنده رهنا بتایا _
اس وقت وه علیحدگی یافتہ بیٹی اپنے شادی شده بهائی کے تین مرلہ مکان کے اوپر والے ایک کمرے میں ره رهی هے __
جب بجلی بند هو تو اِس کمرے میں بنده ایسے هو جاتا جیسے بهٹی میں دانے بهنتے هیں _ نا اوپر واش روم هے اور نا کچن _ بچے نیچے جائیں تو اُن کی ممانی تهپڑ لگا کر اوپر واپس بهگا دیتی هے _
گوری چٹی اور سرخ و سفید چهبیس سالہ لڑکی صرف ایک سال میں پچاس سال کی اماں نظر آتی هے _سنا هے کسی پرائیویٹ سکول میں نو دس هزار کی نوکری بهی شروع کر دی هے _