حاملہ ہونے کے باوجود محسن عباس نے بدترین تشدد کا نشانہ بنایا، اہلیہ کا الزام

یہ بھی پڑھیں
باپ کیوں فوت هوا ____ ؟
.
پچهلے سال کی بات هے _ ایک دوست گول بازار سرگودها شاپنگ کر رهے تهے __ اُنکی بیٹی کا فون آیا کہ ابو آپکے داماد نے مجهے فارغ کر دیا _ علیحدگی د ے دی هے __ فورا آئیں اور مجهے لے جائیں _
بیٹی کی یہ بات سن کر وه دوست بائیک دوڑاتا گهر کو واپس چلا __ ان هی سوچوں میں گم هو گا , راستے میں چلتی بائیک پر هارٹ اٹیک هوا __ بجلی کے پول سے ٹکرایا اور وهیں سڑک پر جان دے دی _
بظاهر یہ بات اتنی سی هے کہ هارٹ اٹیک هوا اور بنده فوت هو گیا _ وقت مقرر تها_ لیکن نہیں _میں نہیں مانتا_
کوئی بات تو تهی جو ایک اچهے بهلے صحت مند آدمی کی اچانک موت کا باعث بنی _ اِس میں کہیں نا کہیں تو انسانی غلطی نے بهی اپنا حصہ ڈالا هو گا _
علیحدگی کے کچهہ دن بعد میں بچی سے ملا اور پوچها کہ بی بی تین بچوں کیساتهہ خاوند نے جو تمہیں چهوڑ دیا __ کیا بات هوئی تهی _ تمہارا فسٹ کزن هی تو تها_
اُس بیٹی نے جو بهی وجہ بتائی وه مجهے سمجهہ نہیں آئی _ الزامات کی ایک لمبی فہرست تهی _ لیکن وه صاحبزادی مجهے کہیں بهی یہ نا بتا سکی کہ معاملات کی بہتری کیلئے خود اُس نے کیا کیا _ ؟
ایک بات میں نے بطور خاص نوٹ کی کہ محترمہ کے هاتهہ میں ڈیڑهہ لاکهہ والا آئی فون تها _
مرحوم دوست میرے رشتے دار بهی تهے _ اُنکا سابقہ داماد اعلی تعلیم یافتہ اور ایک محترم ادارے میں سکول ٹیچر هے _ چند دن بعد میں بطور خاص اُسے ملنے گیا __ پوچها کہ جوان تم جو اتنی انتہا پر پہنچے _اپنے بچے تک چهوڑ دیے _کیا تمہیں بچے پیارے نا تهے _ هوا کیا تها _کس بات نے تمہیں اتنا مجبور کیا _
وه بولا کہ سر _ میری دو سالیاں هیں _دونوں اِنتہائی امیر گهروں میں بیاهی هوئی _ کوٹهیوں کاروں اور نوکر چاکروں والی _
جب بهی میری بیوی اپنی بہنوں کو مل کر آتی _ میرے گهر جهگڑا شروع هو جاتا _مجهے بات بات پر غریبی کے طعنے ملتے _ میں چالیس هزار ماهانہ کا ملازم هوں _ جتنا کر سکتا تها , اِنتہائی حد تک کیا لیکن اب بات برداشت سے باهر تهی _
اُس نے مزید کها که مجهے اپنی بیوی بہت پیاری تهی _ میرے پاس تین هزار والا موبائل هے _بیگم کو میں نے آئی فون لیکر دیا __پهر کار کا مطالبہ هوا __بنک لون سے کار لیکر دی _ پرانا فرج بیچ کر قسطوں پر فل سائز نیا فرج لیا _ پهر اے سی کا کہا گیا _ اے سی لیکر دیا __ اِس سب کے باوجود طعنے هی طعنے _ میں اپنی نظر میں هی حقیر بن چکا تها_
علیحدگی والے ماه بجلی کا بل تیس هزار آ گیا _چالیس هزار کل تنخواه میں سے میں کیا کرتا _ دس هزار تو صرف ماهانہ دودهہ کا بل بنتا تها _ اُوپر سے بیگم کی فضول کی باتیں _
میں پہلے هی بیگم کی پچهلی لامحدود خواهشات سے تنگ تها_ بالکل ناک میں دم آ چکا تها_ فوری جهگڑا اُس بل پر هوا __ اور بات اِس انتہا تک پہنچی _
یہ بات کرتے کرتے وه رو پڑا _
ساری بات سن کر میں نے اپنا سر جهکایا _اور گهر واپس آ گیا_اللہ کا شکر ادا کیا کہ میں نے اپنی بیٹیوں کو __اپنے بیٹوں کو کم از کم خواهشات کیساتهہ زنده رهنا بتایا _
اس وقت وه علیحدگی یافتہ بیٹی اپنے شادی شده بهائی کے تین مرلہ مکان کے اوپر والے ایک کمرے میں ره رهی هے __
جب بجلی بند هو تو اِس کمرے میں بنده ایسے هو جاتا جیسے بهٹی میں دانے بهنتے هیں _ نا اوپر واش روم هے اور نا کچن _ بچے نیچے جائیں تو اُن کی ممانی تهپڑ لگا کر اوپر واپس بهگا دیتی هے _
گوری چٹی اور سرخ و سفید چهبیس سالہ لڑکی صرف ایک سال میں پچاس سال کی اماں نظر آتی هے _سنا هے کسی پرائیویٹ سکول میں نو دس هزار کی نوکری بهی شروع کر دی هے _
 

جان

محفلین
محترمہ ابھی آپ نے دنیا میں دیکھا ہی کیا ہے...
ڈرائنگ روم میں بیٹھ کر فلسفہ بگھارنے سے معاشرے میں کیا ہورہا ہے اس کی گرد تک کو نہیں پہنچا جا سکتا...
در اصل یہی اسلامی بھائیوں کا طریقہ واردات ہے جو بھی شخص منہ سے کچھ نکالے پہلے ہی اسے کہہ دو کہ تم نے دیکھا ہی کیا ہے، یہ دنیا کسی ایک انسان کی ملکیت نہیں ہے لہذا جس نے اس دنیا میں کچھ بھی نہ دیکھا ہو اسے بھی بحث کرنے کا پورا حق حاصل ہے اور اس سے یہ حق "اسلام" کا نعرہ لگا کر نہیں چھینا جا سکتا حالانکہ اسلام ہر فردِ واحد کو مکمل آزادی بخشتا ہے لہذا "اسلام" کی اپنی ورژن کے مطابق کسی کو اس کے جائز حق سے محروم نہیں کیا جا سکتا۔ کوئی ڈرائنگ روم میں بیٹھ کر فلسفہ بھگارے یا میڈیا میں سرِ عام بات کرے، اگر اس کی بات میں دلیل کا عنصر موجود ہے تو جواب ردِ دلیل کی صورت میں دیا جانا چاہیے نہ کہ اس کے طریقہِ اظہار پہ تنقید کر کے۔ ڈکٹیشن کا عنصر اگر آپ اپنی تنقید سے نہیں نکالتے تو اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ کے پاس ردِ دلیل میں کچھ موجود نہیں اور یہی عنصر تنقید کے کھوکھلے پن کو ظاہر کرتا ہے۔
اسی رمضان سے پہلے ایک صاحب اپنے سالے کے ساتھ گردن سہلاتے آئے. معلوم ہوا بیوی اتنی تیز مزاج کی ہے کہ ذرا ذرا سی بات پر شوہر پر ہاتھ اٹھاتی ہے باقاعدہ دھینگا مشتی کرتی ہے اور رات تو حد ہی ہوگئی شوہر کے سینے پر سوار ہوکر اس کی گردن اتنی زور سے مروڑی کہ گردن کےمہرے ہل گئے...
شوہر صاحب صرف بچی کی وجہ سے سب کچھ برداشت کرتے رہے...
لیکن یہ معاملہ حد سے بڑھ گیا تھا گردن کی ہڈی ٹوٹنے پر موت بھی واقع ہوسکتی تھی...
پھر اس عورت کے بھائی نے آکر اسے خوب اچھی طرح دھنا. بقول بھائی دیر تک پسلیاں سہلاتی رہی ساتھ ہی بھائی نے دھمکی بھی دی کہ اگر شوہر سے لڑ کر اس کے گھر سے نکلیں تو ہمارے گھر آنے کی کوئی ضرورت نہیں. اس کے علاوہ جہاں چاہے چلی جانا...
وہ دن ہے اور آج کا دن بالکل سیدھی ہوگئی لڑائی جھگڑا تک نہیں کرتی ہاتھ اٹھانا تو دور کی با
طلاق دے کر معاملہ ختم کرنا سب سے آخری مرحلہ ہے...
اس سے پہلے جہاں تک ممکن ہوسکے طلاق تک نوبت آنے سے بچنا چاہیے...
بالکل متفق جہاں تک ممکن ہو طلاق سے بچنا چاہیے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ آپ نے صرف وہی واقعہ قوٹ کیا ہے جو صرف آپ کی ورژن کو درست ثابت کرتا ہے حالانکہ عام زندگی میں ہر گھر میں ایسا نہیں ہے۔ کہیں مرد عورت پہ ظلم میں ملوث ہے اور کہیں عورت مرد پہ۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ رشتوں میں انکمپیٹیبِلیٹی کا عنصر موجود ہے اور درست طریقہ تو یہ ہے کہ ایسے معاملات میاں اور بیوی کی باہمی رضامندی سے حل ہونے چاہیے لیکن ایسا اس وقت ہو گا جب دونوں فرد برابری کی سطح پر ہونگے لیکن یہ توازن معاشرے میں موجود نہ ہے، عام طور پر جس کے پاس گھر کے وسائلِ آمدن ہوتے ہیں وہ فرد دوسرے پہ حاوی ہوتا ہے۔ اس واقعے میں مرد کو خاموش نہیں رہنا چاہیے تھا بلکہ مناسب تدابیر اختیار کرنی چاہیے تھیں، قران پاک میں ایسا کوئی حکم مرد کے بھائی کو نہیں دیا گیا کہ وہ اپنے بھائی کی بیوی سے یہ سلوک رکھے، در اصل یہ سلوک ہمارے معاشرے کی ترجمانی کرتا ہے کہ یہاں صرف عورت کا خاوند ہی نہیں بلکہ اس مرد کے بھائی، باپ اور حتیٰ کہ بیٹے بھی دیکھا دیکھی میں اس کو اپنی اتھارٹی میں رکھنا چاہتے ہیں۔
مسائل پر بحث کرنا ہر کسی کو زیبا نہیں دیتا...
اللہ کے دین کے احکام کو سیاست یا شوبز پر محمول نہ کریں کہ جو دل چاہا اپنی طبیعت سے بول کر دل ہلکا کرلیا...
اللہ کے دین کے احکام معاشرت کے لیے ہیں۔ یہ نہ تو ذریعہ روزگار ہیں اور نہ ہی ذریعہ اشتہار تو دونوں طرف یکساں توازن ہونا چاہیے۔ اسلام کو ذاتی تشہیر کے لیے استعمال کرنا اتنا ہی مکروہ عمل ہے جتنا ذاتی روزگار کے لیے۔
لاتوں کے بھوتوں کو باتوں سے بات سمجھ میں نہ آئے تو ان کی زبان میں سمجھانی پڑتی ہے...
اگر "لاتوں کے بھوت" سے مراد محض عورت کا عمل ہے تو پھر آپ انصاف سے کام نہیں لے رہے۔ "اسلام" کی اپنی ورژن کے نام پر جس طرح عورت کے حقوق کا استحصال ہوتا ہے وہ انتہائی قابلِ مذمت اور شرمناک ہے اور اگر عورت بھی ایسا کرے گی تو بھی یہ انتہائی قابلِ مذمت ہے۔ چونکہ اسلامی قانون کی تشریح کا قلم مرد کے پاس ہے لہذا ہر محکوم طبقہ کے حوالے سے قرانی احکامات کی تشریح مرد کے نقطہ نظر سے "پری کنڈیشنڈ" ہو گی یعنی ان میں واضح طور پر مرد کی حکمرانی کا عنصر جھلکے گا اور اس صورت حال میں حقیقی رخ قران پاک ہی طے کرے گا۔
اسلام کو انسانیت کا درس دینے کی کوئی ضرورت نہیں وہ ان مسائل پر سیر حاصل کامل بحث مکمل کرچکا ہے...
اسلام واقعی اس پہ سیر حاصل درس دے چکا ہے لیکن مسئلہ اسلام کا قطعی نہ ہے بلکہ اسلام کا نام استعمال کر کے اپنے احکامات مسلط کرنے کا ہے۔ عورت و مرد کے باہمی حقوق جو اللہ کریم نے بخشے ہیں اگر وہ ان کو مل جائیں تو نظام متوازن ہونے کے امکانات بڑھ سکتے ہیں۔
جو جس فن کا ماہر ہو اسی میدان میں زور آزمائی کرے...
ایک مستری کو زیب نہیں دیتا کہ وہ مکمل علم حاصل کیے بغیر میڈیکل سرجری کی چراگاہ میں منہ مارے!!!
دین کسی کی میراث نہیں ہے، اسلام کے قوانین معاشرت کے لیے ہیں اور اگر معاشرہ ہی اس پہ خاموش رہے گا تو پھر وہی ہو گا جو معاشرے میں ہو رہا ہے، محض کوئی بھی عالمِ دین اسلامی اتھارٹی قطعی نہیں ہے ورنہ نعوذ باللہ یہ تو پھر خود سے خدا بننے والی بات ہے۔ معاشرت کے معاملات قران و حدیث کو سامنے رکھتے ہوئے معاشرت ہی مشاورت سے طے کرے گی اور عالم بھی اس مشاورت کا حصہ تصور ہو گا۔
 
آخری تدوین:

جان

محفلین
مسلمانوں میں جذبات نہ ہوں تو دفاعی حملے کرنا تک محال ہوجائے۔ یہ جذبات قابل شرمندگی نہیں نہایت اہم ہیں۔۔۔
اسلام جذبات کا نام نہیں بلکہ معاشرت کو راہ پہ لانے کا نام ہے، یہ ایک عملی دین ہے جذباتی نہیں، اگر ہمارے پاس مناسب دلیل موجود ہے تو اس میں دفاع کرنا نہایت آسان کام ہے۔ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ لوگوں کو دلیل سکھانے پڑھانے کی بجائے ان میں جذبات کے عنصر کو فروغ دیتے ہیں جس سے مسائل حل ہونے کی بجائے نئے مسائل جنم لیتے ہیں۔ دلیل کا رد جذبات نہیں ہیں اور نہ ہی جذبات مسائل حل کرنے کا کوئی کلیہ ہیں۔ یہ جذباتی رنگ برصغیرِ پاک و ہند میں ہی کثرت سے پایا جاتا ہے۔ ہمارے اکثر مسائل کی پرورش اسی غلط "جذباتی تھیوری" کی بنیاد پہ ہوتی ہے۔ جذبات زندگی کا حصہ ضرور ہیں لیکن مسائل حل کرنے کا طریقہ نہیں۔ قران پاک خود دلیل سے بات کرتا ہے اور انسان کو غور کرنے پر اکساتا ہے۔
ہمارا مدعا صرف یہ تھا کہ بھانڈ میراثی آپس میں اسلام کے نام پر نہیں لڑ مر رہے ہیں نہ ہی اسلام کی نمائندگی کر رہے ہیں۔۔۔
پھر بیچ میں اسلام کو کیوں لایا گیا ہے؟؟؟
یہ کس سوچ کی عکاسی ہے؟؟؟
"بھانڈ میراثیوں" کے نام پر اگر کسی نے اسلام کا تذکرہ کیا ہے تو ہم کس بنیاد پہ ان پہ الزامات لگا سکتے ہیں کہ انہوں نے ایسا اسلام کو بدنام کرنے کے لیے کیا ہے؟ خود سے فرض کر لینا کہ اسلام بدنام ہو رہا ہے محض ایک مفروضہ ہے۔ اسلامی بھائی بھی تو صبح شام میڈیا پہ آتے ہی ہیں اور سیاست میں بھی اسلام کا نعرہ لگاتے ہی ہیں۔
 
آخری تدوین:

آصف اثر

معطل
تشدد تو خیر کسی صورت جائز نہیں۔
میرے خیال سے آپ جس مرحلہ وار اصلاح کا ذکر کر رہے ہیں وہ قرآن کی اس آیت میں ہے۔ جہاں وَاضْرِبُوهُنَّ کا ترجمہ " مارو " کیا جاتا ہے۔
وَاللَّاتِی تَخَافُونَ نُشُوزَهُنَّ فَعِظُوهُنَّ وَاهْجُرُوهُنَّ فِی الْمَضَاجِعِ وَاضْرِبُوهُنَّ ۖ فَإِنْ أَطَعْنَکُمْ فَلَا تَبْغُوا عَلَیْهِنَّ سَبِیلًا ۗ إِنَّ اللَّهَ کَانَ عَلِیًا کَبِیرًا
ترجمہ: جن عورتوں کی سرکشی کا تمہیں اندیشہ ہو تو انہیں سمجھاؤ اور ان سے الگ سوؤ اور اُنہیں مارو پھر اگر وہ سرکشی ترک کر دیں تو اُن پر زیادتی کی کوئی راہ نہ چاہو بے شک اللہ سب سے بلند اور جلیل القدر ہے۔

قرآن کریم میں "ضرب" باز آ جانا،
چھوڑ دینا، نظر انداز کر دینا ، یا منہ پھیر لینا کے معنوں میں بھی آیا ہے۔
أَفَنَضْرِبُ عَنْكُمُ الذِّكْرَ صَفْحاً أَنْ كُنْتُمْ قَوْماً مُسْرِفِينَ
بھلا اس لئے کہ تم حد سے نکلے ہوئے لوگ ہو ہم تم کو نصیحت کرنے سے باز رہیں گے۔

کیا مارنے سے اصلاح ہوتی ہے یا بات مزید بگڑتی ہے۔ اگر اولاد کی تربیت کے حوالے سے والدین کو حکم ہوتا تو بات سمجھ میں بھی آتی_ چہ جائیکہ ایک عاقل اور بالغ عورت کو مار کر سمجھایا جائے۔
اگر ضرب کا ترجمہ، سرزنش کے طور پر ہلکا سا مارنا بھی تصور کیا جائے تو یہ اختیار صرف خواص تک ہی محدود رہے گا۔ کیونکہ ہر کوئی اتنا تحمل مزاج یا معاملہ شناس نہیں ہو سکتا۔ Anger Management ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔ کچھ لوگ تو اس کی باقاعدہ تربیت بھی لیتے ہیں۔
وضاحت کے طور پر عرض کرتی چلوں کہ قرآنِ حکیم میں محکم (مفہوم کے اعتبار سے واضح) آیات کے ساتھ ساتھ متشابہ(کثیر المعانی یا جن کا مطلب بجز خدا کوئی نہ جانتا ہو،جیسا کہ حروف مقطعات وغیرہ کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے) آیات بھی ہیں۔ ان متشابہات میں انسان کے لیے کڑا امتحان ہے۔ خدا نے ایسی آیات کی تشریح کا ایک بنیادی اصول یہ بیان کیا ہے کہ اس سے نقصِ امن یا کسی قسم کے فساد کا احتمال نہیں ہوتا۔ اب یہ تدبر کرنے والے پر منحصر ہے کہ وہ موقع و محل، زمینی اور زمانی حقائق کی مناسبت سے ایسی آیات کے کس لفظ کے کونسے معانی کو دوسرے معانی پر ترجیح دیتا ہے جس سے فساد پیدا نہ ہو۔ بیشک ہر بات کا صحیح علم تو خدا کو ہی حاصل ہے۔

هُوَ الَّذِي أَنزَلَ عَلَيْكَ الْكِتَابَ مِنْهُ آيَاتٌ مُّحْكَمَاتٌ هُنَّ أُمُّ الْكِتَابِ وَأُخَرُ مُتَشَابِهَاتٌ ۖ فَأَمَّا الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ زَيْغٌ فَيَتَّبِعُونَ مَا تَشَابَهَ مِنْهُ ابْتِغَاءَ الْفِتْنَةِ وَابْتِغَاءَ تَأْوِيلِهِ ۗ وَمَا يَعْلَمُ تَأْوِيلَهُ إِلَّا اللَّهُ ۗ وَالرَّاسِخُونَ فِي الْعِلْمِ يَقُولُونَ آمَنَّا بِهِ كُلٌّ مِّنْ عِندِ رَبِّنَا ۗ وَمَا يَذَّكَّرُ إِلَّا أُولُو الْأَلْبَابِ ( 7 ) آل عمران
ترجمہ: وہی تو ہے جس نے تم پر کتاب نازل کی جس کی بعض آیتیں محکم ہیں (اور) وہی اصل کتاب ہیں اور بعض متشابہ ہیں تو جن لوگوں کے دلوں میں کجی ہے وہ متشابہات کا اتباع کرتے ہیں تاکہ فتنہ برپا کریں اور مراد اصلی کا پتہ لگائیں حالانکہ مراد اصلی خدا کے سوا کوئی نہیں جانتا اور جو لوگ علم میں دست گاہ کامل رکھتے ہیں وہ یہ کہتے ہیں کہ ہم ان پر ایمان لائے یہ سب ہمارے پروردگار کی طرف سے ہیں اور نصیحت تو عقل مند ہی قبول کرتے ہیں۔
واللہ اعلم۔
بہن جی! کچھ عربی گرامر بھی پڑھ لیں۔
 

سید عمران

محفلین
اسلام جذبات کا نام نہیں بلکہ معاشرت کو راہ پہ لانے کا نام ہے، یہ ایک عملی دین ہے جذباتی نہیں، اگر ہمارے پاس مناسب دلیل موجود ہے تو اس میں دفاع کرنا نہایت آسان کام ہے۔ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ لوگوں کو دلیل سکھانے پڑھانے کی بجائے ان میں جذبات کے عنصر کو فروغ دیتے ہیں جس سے مسائل حل ہونے کی بجائے نئے مسائل جنم لیتے ہیں۔ دلیل کا رد جذبات نہیں ہیں اور نہ ہی جذبات مسائل حل کرنے کا کوئی کلیہ ہیں۔ یہ جذباتی رنگ برصغیرِ پاک و ہند میں ہی کثرت سے پایا جاتا ہے۔ ہمارے اکثر مسائل کی پرورش اسی غلط "جذباتی تھیوری" کی بنیاد پہ ہوتی ہے۔ جذبات زندگی کا حصہ ضرور ہیں لیکن مسائل حل کرنے کا طریقہ نہیں۔ قران پاک خود دلیل سے بات کرتا ہے اور انسان کو غور کرنے پر اکساتا ہے۔

"بھانڈ میراثیوں" کے نام پر اگر کسی نے اسلام کا تذکرہ کیا ہے تو ہم کس بنیاد پہ ان پہ الزامات لگا سکتے ہیں کہ انہوں نے ایسا اسلام کو بدنام کرنے کے لیے کیا ہے؟ خود سے فرض کر لینا کہ اسلام پہ حملہ ہو گیا ہے محض ایک مفروضہ ہے۔ اسلامی بھائی بھی تو صبح شام میڈیا پہ آتے ہی ہیں اور سیاست میں بھی اسلام کا نعرہ لگاتے ہی ہیں۔
یہی تو مسئلہ ہے کہ میاں بیوی کا جھگڑا...
انہوں نے اسلام کوئی نام نہیں لیا...
اس کے باوجود اسلام کو زبردستی گھسیٹ کر لایا گیا...
کیوں؟؟؟
صفحات سیاہ کردئیے گئے مگر اس کیوں کا جواب نہیں دیا گیا!!!
 

جان

محفلین
یہی تو مسئلہ ہے کہ میاں بیوی کا جھگڑا...
انہوں نے اسلام کوئی نام نہیں لیا...
اس کے باوجود اسلام کو زبردستی گھسیٹ کر لایا گیا...
کیوں؟؟؟
صفحات سیاہ کردئیے گئے مگر اس کیوں کا جواب نہیں دیا گیا!!!
زبردستی کیسے گھسیٹ کر لایا گیا؟ ظاہر ہے کہ یہ اپنی نوعیت کا کوئی پہلا واقعہ نہ ہے اور اس طرح کے واقعات معاشرے میں روزانہ ہوتے رہتے ہیں جس کی کئی ایک وجوہات ہیں جن میں سے ایک وجہ مذہبی عنصر بھی ہے۔ ابھی یہیں اسی فورم پہ شادی اور نکاح پہ کئی دفعہ اسلامی پہلو کے حوالے سے بحث کی گئی ہے۔ اس صورتِ حال میں اگر کوئی اس رشتے میں تناؤ کو اسلام سے منسلک کرتا ہے تو اس میں اسلام کہاں بدنام ہوتا ہے؟ یہ تو اتنا اہم معاملہ ہے کہ اللہ نے خود قران پاک میں اس موضوع کو زیرِ بحث لایا ہے۔ مجھے تو یہ سمجھ نہیں آ رہی کہ کیا میاں بیوی کے رشتے کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں جو اسلام کو زبردستی گھسیٹ کر لایا گیا ہے؟ ظاہر ہے میاں بیوی کی نوک جھونک میں کئی معاشرتی عنصر شامل ہیں جن میں ایک مذہبی پہلو بھی ہے۔ اگر اس کا تذکرہ کرنا گھسیٹ کر لانے کے مترادف ہے تو پھر آپ کا سوال سمجھ سے بالاتر ہے۔ اور رہی بات جواب دینے کی تو انہوں نے جواب دیا تو ہے غالباً آپ کی نظر سے نہیں گزرا یا آپ کو پسند نہیں آیا۔
حسنِ ظن سے کام لیا کریں۔
کیا اسلام کی بنیاد اتنی کھوکھلی ہے کہ مسلمانوں کے غلط رویوں اور ان میں رائج گمراہ کن عقائد پر بات بھی کرنے سے اس کی عمارت دھڑام سے زمین بوس ہو جائے گی۔
شو بز سے وابستہ لوگ بھی اسی معاشرے کا حصہ ہیں اور ہمارے جیسے ہی انسان ہیں۔ میرے نزدیک تو ہر کلمہ گو، چاہے وہ (بقول آپکے) بھانڈ میراثی ہو یا منبر پر بیٹھا مولوی، مسلمان ہی کہلائے گا۔ ایمان کی اصل کیفیت تو بس خدا کو ہی معلوم ہے۔
اور آپ فکر نہ کریں کسی کے اسلام کو بدنام کرنے کی مذموم کوششوں سے اسلام ہرگز بدنام نہیں ہو گا۔ دین کی حفاظت کا ذمہ خدا نے اپنے سر لے رکھا ہے۔
 

آصف اثر

معطل
مسئلہ یہ نہیں کہ اسلام یا مذہب کا نام کیوں لیا، مسئلہ اپنا چورن بیچنے کا ہے۔ اگر میراثی یا اداکار وغیرہ نے ہاتھ اُٹھایا ہے تو کیا یہ مذکورہ اداکار یا میراثی واقعی مذہب پر عمل پیرا ہے؟ اسی طرح کیا وہ اُس مذہبی مکتبہ فکر سے تعلق رکھتا ہے، جس کا ذکر موصوفہ نے کافی عجلت میں کرکے اپنا کوئی چھپا ہوا تعصب ظاہر کرنے کی کوشش کی ہے:
ویسے بھی ایک مذہبی مکتبہ فکر کے نزدیک نافرمان بیوی پر ہاتھ اٹھانا جائز ہے، صرف اس بات کا خیال رہے کہ ضرب اتنی شدید نہ ہو جس سے ہڈی پسلی ٹوٹ جائے۔
کیا موصوفہ یا دیگر یہ ثابت کرسکتا ہے کہ اس میراثی کا تعلق مذکورہ مذہبی مکتبہ فکر سے ہے؟
اس بات کا ذکر تب ہی درست تھا، جب اسی مکتبہ فکر کے مسلک پر ”عمل پیرا“ کسی بھی شخص نے ایسا کیا ہوتا۔ یہاں تو مکتبہ فکر کے مسلک پر عمل تو درکنار، تعلق ہی نہیں۔ لہذا ہمدردی کے نام پر ایسی احمقانہ حرکتیں خود فتنے کا سبب ہیں۔

یہ موضوع البتہ الگ ہے کہ کیا واقعی موصوفہ کا دعویٰ بعینہ اُسی طرح ہے جس طرح مذکورہ مکتبہ فکر کا مسلک ہے۔ یا اپنا کچھ الفاظ حذف کرکے بددیانتی کا مرتکب ہوئی۔
 
آخری تدوین:

سید عمران

محفلین
زبردستی کیسے گھسیٹ کر لایا گیا؟ ظاہر ہے کہ یہ اپنی نوعیت کا کوئی پہلا واقعہ نہ ہے اور اس طرح کے واقعات معاشرے میں روزانہ ہوتے رہتے ہیں جس کی کئی ایک وجوہات ہیں جن میں سے ایک وجہ مذہبی عنصر بھی ہے۔ ابھی یہیں اسی فورم پہ شادی اور نکاح پہ کئی دفعہ اسلامی پہلو کے حوالے سے بحث کی گئی ہے۔ اس صورتِ حال میں اگر کوئی اس رشتے میں تناؤ کو اسلام سے منسلک کرتا ہے تو اس میں اسلام کہاں بدنام ہوتا ہے؟ یہ تو اتنا اہم معاملہ ہے کہ اللہ نے خود قران پاک میں اس موضوع کو زیرِ بحث لایا ہے۔ مجھے تو یہ سمجھ نہیں آ رہی کہ کیا میاں بیوی کے رشتے کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں جو اسلام کو زبردستی گھسیٹ کر لایا گیا ہے؟ ظاہر ہے میاں بیوی کی نوک جھونک میں کئی معاشرتی عنصر شامل ہیں جن میں ایک مذہبی پہلو بھی ہے۔ اگر اس کا تذکرہ کرنا گھسیٹ کر لانے کے مترادف ہے تو پھر آپ کا سوال سمجھ سے بالاتر ہے۔ اور رہی بات جواب دینے کی تو انہوں نے جواب دیا تو ہے غالباً آپ کی نظر سے نہیں گزرا یا آپ کو پسند نہیں آیا۔
زبردستی ایسے لایا گیا کہ اصل خبر میں اسلام کا کوئی ذکر ہی نہیں تھا...
خبر کو تروڑ مروڑ کر زبردستی اسلام کا نام لے لے کر قوالیاں گائی گئیں اور ہمنواؤں نے تالیاں پیٹیں!!!
 

جان

محفلین
زبردستی ایسے لایا گیا کہ اصل خبر میں اسلام کا کوئی ذکر ہی نہیں تھا...
خبر کو تروڑ مروڑ کر زبردستی اسلام کا نام لے لے کر قوالیاں گائی گئیں اور ہمنواؤں نے تالیاں پیٹیں!!!
ایسا یہاں کئی دفعہ ہوا ہے کہ اصل خبر میں اسلام کا کوئی ذکر نہیں ہوتا لیکن نیچے بحث اسلامی پہلوؤں پہ چھڑ جاتی ہے۔ اصل خبر میں اگر اسلام کا ذکر موجود نہ ہو اور اگر بعد میں لایا جائے تو پھر بھی آپ کا نکتہ واضح نہیں ہوتا کہ ایک بندہ اگر اپنے عدم تحفظ کی بنا پر یا اپنی سوچ کی بنیاد پر اس خبر کے موجود مسئلے کے پہلو کو اسلام سے منسلک کر رہا ہے تو اس سے اسلام کیسے بدنام ہو رہا ہے؟ بے فکر رہیے اسلام کہیں نہیں جاتا۔ آپ کے اپنے مراسلوں میں موجود رویے سے ایسے محسوس ہوتا ہے کہ دنیا میں صرف آپ ایک ہی پکے سچے مسلمان ہیں اور باقی تو "بھانڈ میراثی"، "قوال" اور "ہمنوا" ہیں اور قیامت کے روز سارے مسلمانوں کے اعمال کا محض آپ سے ہی پوچھا جائے گا۔
 
آخری تدوین:

آصف اثر

معطل
ایسا یہاں کئی دفعہ ہوا ہے کہ اصل خبر میں اسلام کا کوئی ذکر نہیں ہوتا لیکن نیچے بحث اسلامی پہلوؤں پہ چھڑ جاتی ہے۔ اصل خبر میں اگر اسلام کا ذکر موجود نہ ہو اور اگر بعد میں لایا جائے تو پھر بھی آپ کا نکتہ واضح نہیں ہوتا کہ ایک بندہ اگر اپنے عدم تحفظ کی بنا پر یا اپنی سوچ کی بنیاد پر اس خبر کے موجود مسئلے کے پہلو کو اسلام سے منسلک کر رہا ہے تو اس سے اسلام کو کیا خطرہ ہے؟ بے فکر رہیے اسلام کہیں نہیں جاتا۔
محترم اگر اس ”کئی دفعہ“ کے کچھ نمونے عنایت ہوں، تو نوازش ہوگی۔
 

جان

محفلین
مسئلہ یہ ہے ہی نہیں کہ اسلام یا مذہب کا نام کیوں لیا، مسئلہ اپنا چورن بیچنے کا ہے۔ اگر میراثی یا اداکار وغیرہ نے ہاتھ اُٹھایا ہے تو کیا یہ مذکورہ اداکار یا میراثی اُس مذہبی مکتبہ مکر سے تعلق رکھتا ہے، جس کا ذکر موصوفہ نے کافی عجلت میں کرکے اپنا کوئی چھپا ہوا تعصب ظاہر کرنے کی کوشش کی ہے:
میری ذاتی رائے میں موصوفہ نے اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے جو کہ بحیثیت عورت شاید معاشرے میں مردانہ تسلط اور ایک رائج مذہبی تشریح کے زیرِ اثر عدم تحفظ کا اظہار محسوس ہوتا ہے، اس اظہارِ خیال پہ تو کوئی اختلاف ہو سکتا ہے اور اسے دلیل سے رد بھی کیا جا سکتا ہے لیکن انہوں نے یہ الزامات ایک مخصوص مکتبہ فکر پہ لگائے ہیں، یہاں موجود کسی فردِ واحد پر نہیں لہذا آپ کا اس کے جواب میں ان کی ذات پر الزامات لگانے کی بجائے دلیل سے ان کے الزامات کو رد کریں۔
کیا موصوفہ یا دیگر یہ ثابت کرسکتا ہے کہ اس میراثی کا تعلق مذکورہ مذہبی مکتبہ فکر سے ہے؟
اس بات کا ذکر تب ہی درست تھا، جب اسی مکتبہ فکر کے مسلک پر ”عمل پیرا“ کسی بھی شخص نے ایسا کیا ہوتا۔ یہاں تو مکتبہ فکر کے مسلک پر عمل تو درکنار، تعلق ہی نہیں۔ لہذا ہمدردی کے نام پر ایسی احمقانہ حرکتیں خود فتنے کا سبب ہیں۔
ثابت تو خیر وہی کرے گا جس کی رائے ہے لیکن آپ کا دوسرا مفروضہ غلط ہے معاشرے میں رائج عوامل چاہے وہ کسی مذہبی تشریح سے ہی کیوں نہ ہوئے ہوں اس کا اثر ہر اس انسان پہ پڑتا ہے جو معاشرے کا حصہ ہوتا ہے۔ اگر ایک مسلمان معاشرے میں ایک رویہ عام ہے تو وہاں پہ موجود غیر مسلم کے بھی اپنے گھر کے معاملات میں اسی رویے پہ "کنڈیشنڈ" ہونے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں حالانکہ اس کا اسلام سے کوئی واسطہ نہیں۔ معاشرتی اثرات کے لیے محض اس خاص مکتبہ فکر سے وابستہ ہونا ضروری نہیں اور اس کی واضح مثال پاکستان میں بسنے والے غیر مسلم ہیں۔
 
آخری تدوین:

سید عمران

محفلین
ایسا یہاں کئی دفعہ ہوا ہے کہ اصل خبر میں اسلام کا کوئی ذکر نہیں ہوتا لیکن نیچے بحث اسلامی پہلوؤں پہ چھڑ جاتی ہے۔
اگر یہ آپ کو برا لگا تو اس کی رو سے آپ نے بھی برائی ہی کی...
کوئی بھلائی اور خیر کا کام نہ کیا!!!
 

سید عمران

محفلین
آپ کے اپنے مراسلوں میں موجود رویے سے ایسے محسوس ہوتا ہے کہ دنیا میں صرف آپ ایک ہی پکے سچے مسلمان ہیں اور باقی تو "بھانڈ میراثی"، "قوال" اور "ہمنوا" ہیں
ہاہاہا...
اس مضمون کو آپ جو سمجھے خوب سمجھے...
ہم اپ کی اس سمجھ سے براءت کا اعلان کرتے ہیں!!!
 

سید عمران

محفلین
ہم نے تو خیر جو کیا اس کے ذمہ دار ہم خود ہیں اور قیامت کے روز آپ سے قطعی نہ کہیں گے کہ ہمارے اعمال کا جواب دیں۔
وہ ہم خود بھی نہ دیں گے...
ہمیں کیا پتا آپ زندگی بھر کیا کیا کرکے اس جہاں سے جائیں گے!!!
سب کچھ کہا مگر یہ نہ کہا اسلام کیوں لایا گیا؟؟؟
 
Top