جان
محفلین
اللہ کریم سدا ہنستا مسکراتا رکھیں۔ آمین۔ہاہاہا...
کچھ نہیں کرنا بس ذرا ہنس لینا ہے!!!
اللہ کریم سدا ہنستا مسکراتا رکھیں۔ آمین۔ہاہاہا...
کچھ نہیں کرنا بس ذرا ہنس لینا ہے!!!
یہ بات ایک بار اسلامی نظریاتی کونسل کے رکن مولانا محمد خان شیرانی نے کہی تھیویسے بھی ایک مذہبی مکتبہ فکر کے نزدیک نافرمان بیوی پر ہاتھ اٹھانا جائز ہے
کچھ قصور مترجم قرآن حضرات کا بھی ہے جو ترجمہ کرتے وقت آئت کے سیاق و سباق اور وجہ نزول کا خیال نہیں رکھتے اس ضمن میں دو مثالیں حاضر ہیں
اب اسی آئت کا ایک اور ترجمہ دیکھیں
سورۃ النسآء:3 , آیت:34 الرِّجَالُ قَوَّامُونَ عَلَى النِّسَاءِ بِمَا فَضَّلَ اللّهُ بَعْضَهُمْ عَلَى بَعْضٍ وَبِمَا أَنفَقُواْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ فَالصَّالِحَاتُ قَانِتَاتٌ حَافِظَاتٌ لِّلْغَيْبِ بِمَا حَفِظَ اللّهُ وَاللاَّتِي تَخَافُونَ نُشُوزَهُنَّ فَعِظُوهُنَّ وَاهْجُرُوهُنَّ فِي الْمَضَاجِعِ وَاضْرِبُوهُنَّ فَإِنْ أَطَعْنَكُمْ فَلاَ تَبْغُواْ عَلَيْهِنَّ سَبِيلاً إِنَّ اللّهَ كَانَ عَلِيًّا كَبِيرًا
مرد سرپرست و نگہبان ہیں عورتوں کے اس بنا پر کہ فضیلت دی ہے اللہ نے انسانوں میں بعض کو بعض پر اور اس بنا پر کہ خرچ کرتے ہیں مرد اپنے مال۔ پس نیک عورتیں (ہوتی ہیں) اطاعت شعار، حفاظت کرنے والیاں (مردوں کی) غیر حاضری میں، ان سب چیزوں کی جن کو محفوظ بنایا ہے اللہ نے۔ اور وہ عورتیں کہ اندیشہ ہو تم کو نافرمانی کا جن سے، سو نصیحت کرو ان کو اور (اگر نہ مانیں تو) تنہا چھوڑ دو اُن کو بستروں میں اور (پھر بھی نہ مانیں تو) مارو ان کو پھر اگر اطاعت کرنے لگیں وہ تمہاری تو نہ تلاش کرو ان پر زیادتی کرنے کی راہ۔ بے شک اللہ ہے سب سے بالا تر اور بہت بڑا۔
سمجھ سے باہر ہے کہ آپ کی ”عربی دانی“ کو کیا کہا جائے۔اگر کسی کے ایمان پر "ضرب" نہ لگے تو یہ معانی بھی دیکھ لیجئے۔
ضرب
to strike, to beat, hit
to cut off
to pitch (a tent)
to coin
to quote, make use of (a proverb, simile)
to play (an instrument)
to impose (tribute, etc.)
(intransitive) to move, pass away
to be long (of the night)
to lay hold upon
to inflict
(construed with عَن (ʿan)) to leave, to abandon, to turn away (from)
اب ذرا کھلے ذہن کے ساتھ اس آیت کے ممکنہ تراجم پر غور کریں
وَاللاَّتِي تَخَافُونَ نُشُوزَهُنَّ فَعِظُوهُنَّ وَاهْجُرُوهُنَّ فِي الْمَضَاجِعِ وَاضْرِبُوهُنَّ فَإِنْ أَطَعْنَكُمْ فَلاَ تَبْغُواْ عَلَيْهِنَّ سَبِيلاً إِنَّ اللّهَ كَانَ عَلِيًّا كَبِيرًا
اور وہ عورتیں کہ اندیشہ ہو تم کو سرکشی کا جن سے، سو نصیحت کرو ان کو اور (اگر نہ مانیں تو) خواب گاہوں میں تنہا چھوڑ دو اُن (پھر بھی نہ مانیں تو) وقتی طور پر کنارہ کر لو (Turn away,to leave, to move, to cut off , to pass away ) پھر اگر سرکشی ترک کر دیں تو ان پر زیادتی کرنے کی راہ مت ڈھونڈو ۔ بے شک اللہ سب سے بالا تر اور بزرگ و برتر ہے۔
حیرت ہوتی ہے کہ صدیوں سے صرف مارنے والے ترجمہ پر اتنا زور کیوں دیا گیا ہے۔ اور اگر اس کا ترجمہ صرف مارنا ہی کرنا ہے تو پھر اتنا apologetic ہونے کی کیا ضرورت ہے کہ ہلکی مار ماریں، گہری ضرب نہ لگائیں وغیرہ وغیرہ ۔ کیونکہ آیت میں تو مزید تفصیل بیان نہیں کی گئی کہ مار کی نوعیت کیسی ہو۔ یہ حکم تو ہر خاص و عام، علماء اور جہلاء سب کے لیے یکساں ہے۔ ایک ظالم اور جابر شوہر سے کیسے توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ اپنی نا فرمان بیوی کو سدھارنے کی غرض سے اس قرآنی حکم کا ہمیشہ درست استعمال ہی کرے گا۔
اس آیت کے ترجمے پر مزید غور و حوض کرنے سے اگر ایمان ہاتھ سے جاتا ہے یا پھر بیوی ہاتھ سے جاتی ہے تو پھر رہتی دنیا تک اس اوپن لائسنس کو انجوائے کریں۔ ڈنکے کی چوٹ پر کہیں کہ اسلام میں نا فرمان بیوی کو مارنا جائز ہے۔
مجھے اپنی کم علمی کا اعتراف ہے۔سمجھ سے باہر ہے کہ آپ کی ”عربی دانی“ کو کیا کہا جائے۔
اس سے پہلے بھی آپ قرآن کے واضح سیاق وسباق اور الفاظ کے گرائمر کو یکسر نظر انداز کرکے خود ساختہ معانی وضع کرچکی ہیں۔
خود ساختہ معانی، جھوٹے دعوے۔۔۔۔۔ یہ کیسا طرز ِ گفتگو ہے۔۔۔۔۔کیا اس سے قبل یہ اختلافی مسائل کبھی زیرِ بحث نہیں آئے؟اس کو جھوٹے دعوؤں سے مخالف مسالک پر زبردستی نہیں ڈالا جاسکتا
یہ اعتراض تو کافی پرانا ہے اور اس پر بھی رائے منقسم ہے۔مثال کے طور پر:
وَاللَّاتِی تَخَافُونَ نُشُوزَهُنَّ فَعِظُوهُنَّ وَاهْجُرُوهُنَّ فِی الْمَضَاجِعِ وَاضْرِبُوهُنَّ ۖ فَإِنْ أَطَعْنَکُمْ فَلَا تَبْغُوا عَلَیْهِنَّ سَبِیلًا ۗ إِنَّ اللَّهَ کَانَ عَلِیًا کَبِیرًا
میں وَاضْرِبُوهُنَّ کے ساتھ حرفِ جار نہ ہونے کی وجہ سے یہاں ضرب کا ترجمہ”مارنا“ کے ہوگا۔
جب کہ:
أَفَنَضْرِبُ عَنْكُمُ الذِّكْرَ صَفْحاً أَنْ كُنْتُمْ قَوْماً مُسْرِفِينَ۔ میں ضرب کے بعد ”عن“ کے اضافے سے اہتراز کرنا، چھوڑنا، منھ موڑنا کے معنی دےگا۔
خود ساختہ معانی وضع کرنے کو ذاتیات نہیں کہنا چاہیے بلکہ یہ ایک روش کو ظاہر کرتا ہے۔ جھوٹے دعوے ضروری نہیں آپ نے کیے ہو، بلکہ مخالف مسالک اور مخالفین کو زبردستی اپنے فلسفے کے نام پر موردِ الزام ٹھہرانا بھی کوئی علمی فضا ہے؟خود ساختہ معانی، جھوٹے دعوے۔۔۔۔۔ یہ کیسا طرز ِ گفتگو ہے۔۔۔۔۔کیا اس سے قبل یہ اختلافی مسائل کبھی زیرِ بحث نہیں آئے؟
محترم! اس مراسلے کی وساطت سے میری آپ اور دیگر احباب سے گزارش ہے کہ نظریات سے اختلاف رکھنا گو اپنی جگہ درست سہی، لیکن فریقِ مخالف پر شخصی حملے کرنا، اس کی ذات کو رگیدنا، کبھی مغرب پرستی اور کبھی یہود کا آلہِ کار ہونے ، اور اس طرح کے دیگر الزامات لگانا کسی طور قابلِ قبول نہیں۔ اس طرح کا طرزِ عمل اختیار کرنے سے اگر بزعمِ خود اسلام کی کوئی خدمت ہو رہی ہے تو یہ محض خام خیالی ہے۔
دین پر کسی کی اجارہ داری نہیں اور اسلام تو پہلے ہی کتنے فرقوں اور مسالک میں بٹا ہوا ہے۔ یہاں پر کوئی بھی عقلِ کل نہیں اور نہ ہی کسی کا کہا حرفِ آخر کا درجہ رکھتا ہے۔ بیشتر علمائے کرام دین سے زیادہ اپنے اپنے مسالک کی ترویج میں کوشاں رہتے ہیں، اور یہ بات کسی سے بھی ڈھکی چھپی نہیں۔ ایسے مذہبی ماحول میں کسی ایک کے نظریات کا مکمل Authority ہونا ممکن ہی نہیں۔
میں ذاتی طور پر ایسی گروہ بندیوں اور تفرقہ بازیوں سے انتہائی بیزار ہوں۔
اگر کسی کے ایمان پر "ضرب" نہ لگے تو یہ معانی بھی دیکھ لیجئے۔
اس آیت کے ترجمے پر مزید غور و حوض کرنے سے اگر ایمان ہاتھ سے جاتا ہے یا پھر بیوی ہاتھ سے جاتی ہے تو پھر رہتی دنیا تک اس اوپن لائسنس کو انجوائے کریں۔ ڈنکے کی چوٹ پر کہیں کہ اسلام میں نا فرمان بیوی کو مارنا جائز ہے۔
میرے جن اقتباسات کا آپ نے حوالہ دیا ہے, یہ شروعات نہیں بلکہ ردعمل کے طور پر تھے۔ آپ نے دیگر احباب کے کمنٹس بھی ضرور پڑھے ہونگے۔ کیا یہ انداز اور رویہ درست تھا؟خود ساختہ معانی وضع کرنا کوئی ذاتیات نہیں بلکہ ایک روش کو ظاہر کرنا ہے۔ جھوٹے دعوے ضروری نہیں آپ نے کیے ہو، بلکہ مخالف مسالک اور مخالفین کو زبردستی اپنا فلسفے کے نام پر موردِ الزام ٹھہرانا بھی کوئی علمی فضا ہے؟
اگر آپ کو بلا وجہ یہودیوں کا آلۂ کار ہونے پر دکھ پہنچتا ہے تو کیا دوسروں کو دین کے ٹھیکیدار اور مذہبی چوہدراہٹ جیسے الزامات سے نوازنا درست ہے؟
ایک طرف مولوی کے لفظ کو بطورِ تحقیر اور مذاق کے بےدھڑک استعمال کیا جاتا ہو، اور دوسری جانب کسی سنگر کو اردو کے لفظ میراثی سے مخاطب کرنے پر تکلیف ہوتی ہے۔ یہ کھلا تضاد کب تک۔
جب کہ یہاں تو آپ کسی کے ایمان پر خود ”ضرب“ بھی لگارہی ہے، اور اوپن لائسنس کا برانچ بھی کھلوا کر انجوائمنٹ کے مشورے۔
آپ شائد علمی فضا کو برقرار رکھنے کو اتنا نہ سراہتی ہوں گی، جتنا راقم اس کی حوصلہ افزائی کرتا ہے، لیکن ہمیں اب اس تحقیر آمیز طرزِ گفتگو کو ترک کرنا ہوگا۔
پہلے تو آپ خود ”عن“ کے ساتھ ضرب کے معنی چھوڑدینا، منھ موڑنا کے کرچکی ہیں:یہ اعتراض تو کافی پرانا ہے اور اس پر بھی رائے منقسم ہے۔
بعض کے نزدیک فعل کی Command Form میں حروفِ جار کی عدم موجودگی بھی بعینہ وہی معنی دے گی۔ اس بنیاد پر یہاں "عن " کے نہ ہونے سے کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا اور دوسرا مفہوم بھی قابلِ قبول ہو سکتا ہے۔
مزید برآں اس آیت کا ترجمہ کرتے ہوئے واضربوھن کے root word اور اس کی قرآن مجید میں استعمال کی دیگر صورتوں کو بھی مدِ نظر رکھنا ہو گا۔
سوره مزمل کی یہ آیت بھی دیکھئے۔
وَاٰخَرُوۡنَ يَضۡرِبُوۡنَ فِى الۡاَرۡضِ يَبۡتَغُوۡنَ مِنۡ فَضۡلِ اللّٰهِ
اور (بعض) دوسرے لوگ زمین میں سفر کریں گے تاکہ ﷲ کا فضل تلاش کریں۔
یہاں “ یضربون “ کا ترجمہ سفر کرنا یعنی depart , go away یا leave کے ہیں۔ اور “واضربوھن” جس کا ایک مطلب مارنا ہے، اس کے دوسرے معانی کنارہ کر لینا یا چھوڑ دینا کے قریب ترین ہے۔ واللہ اعلم
اگر آپ اپنی اس معنی کو خود مسترد کرتی ہیں تو پھر کسی بھی مستند عربی لغت سے ”عن“ کے ساتھ ضربَ کے معنی مارنا کے پیش کیجیے۔ تاکہ ابہام دور ہو۔(construed with عَن (ʿan)) to leave, to abandon, to turn away (from)
میں نے اپنی بات سے انحراف کہیں نہیں کیا۔ “ضرب “ کی رائج لغت محض بطور حوالہ پیش کی ہے اور اسی کی روشنی میں آیت کے دیگر مفاہیم کو زیر بحث لایا گیا ہے۔پہلے تو آپ خود ”عن“ کے ساتھ ضرب کے معنی چھوڑدینا، منھ موڑنا کے کرچکی ہیں:
اگر آپ اپنی اس معنی کو خود مسترد کرتی ہیں تو پھر کسی بھی مستند عربی لغت سے ”عن“ کے ساتھ ضربَ کے معنی مارنا کے پیش کیجیے۔ تاکہ ابہام دور ہو۔
اسی طرح یضربون فی الارض کے کیس میں بھی اگر عربی کی کوئی نایاب لغت ہو جس میں وَاٰخَرُوۡنَ يَضۡرِبُوۡنَ فِى الۡاَرۡضِ يَبۡتَغُوۡنَ مِنۡ فَضۡلِ اللّٰهِ کا ترجمہ ”اور کچھ اور لوگ بھی جو اللہ کا فضل تلاش کرتے ہوئے [زمین کو مارتے ہیں]“ کیا گیا ہو، تو نوازش ہوگی۔ سیاق و سباق کی ایسی تشریح تو آج تک علم تفسیر اور علم کلام میں دیکھنے کو نہیں ملی۔
آپ نے انحراف کیا یا نہیں اس کا فیصلہ آپ اپنے استدلال سے کرسکتی ہیں۔ آپ کے جن دلائل کی جانب راقم نے اشارہ کیا، وہ آپ نے بطورِ معلومات نہیں بلکہ بطورِ ثبوت پیش کیے تھے مثلا:میں نے اپنی بات سے انحراف کہیں نہیں کیا۔ “ضرب “ کی رائج لغت محض بطور حوالہ پیش کی ہے اور اسی کی روشنی میں آیت کے دیگر مفاہیم کو زیر بحث لایا گیا ہے۔
يَضۡرِبُوۡنَ فِى الۡاَرۡضِ کا ترجمہ “ زمین کو مارو” کس نے کیا ہے؟ میں نے تو کہیں اس بات کا تذکرہ نہیں کیا۔ میرے مراسلے کو ایک بار پھر پڑھ لیجئے۔ سیاق و سباق سے ہٹ کر بات تو آپ کر رہے ہیں۔
قواعد اور گرامر کی پچیدگیاں تواہلِ زبان ہی جانیں۔ میرا تو ماننا ہے کہ قرآن اپنی تشریح خود ہی کرتا ہے۔ لہذٰا بیرونی مواد پر انحصار کی بجائے، ایک قرآنی آیت کو دوسری قرآنی آیات سے سمجھنے کی ایک ادنٰی سی کوشش کی ہے۔ مقصد کسی کو چیلنج کرنا ہر گز نہیں۔ انٹرنیٹ پر “واضربوھن “ کا ترجمہ “ مارو” کے حق اور مخالفت میں کافی دلائل موجود ہیں۔ جو افراد دلچسپی رکھتے ہیں وہ خود ہی تحقیق کر لیں گے۔ اس پر مزید بحث لاحاصل ہے۔
اگر کسی کے ایمان پر "ضرب" نہ لگے تو یہ معانی بھی دیکھ لیجئے۔
ضرب
to strike, to beat, hit
to lay hold upon
to inflict
(construed with عَن (ʿan)) to leave, to abandon, to turn away (from)
اب ذرا کھلے ذہن کے ساتھ اس آیت کے ممکنہ تراجم پر غور کریں
اور وہ عورتیں کہ اندیشہ ہو تم کو سرکشی کا جن سے، سو نصیحت کرو ان کو اور (اگر نہ مانیں تو) خواب گاہوں میں تنہا چھوڑ دو اُن (پھر بھی نہ مانیں تو) وقتی طور پر کنارہ کر لو (Turn away,to leave, to move, to cut off , to pass away ) پھر اگر سرکشی ترک کر دیں تو ان پر زیادتی کرنے کی راہ مت ڈھونڈو ۔ بے شک اللہ سب سے بالا تر اور بزرگ و برتر ہے۔
تو عرض یہی ہے کہ جس آیت کو آپ نے بطورِ دلیل پیش کیا تھا، اس کی جانب ہی اشارہ کیا ہے کہ جہاں زمین کو مارنے کا ترجمہ ہی نہیں ہوسکتا تو پھر اسے بطورِ مارنے کے لیے دلیل کیسے بنایا جاسکتاہے۔ ایک آیت کسی دوسری آیت کے لیے دلیل تب بنے گی جب دونوں کا مفہوم، ترجمہ اور سیاق وسباق بھی ایک جیسے ہوں۔يَضۡرِبُوۡنَ فِى الۡاَرۡضِ کا ترجمہ “ زمین کو مارو” کس نے کیا ہے؟ میں نے تو کہیں اس بات کا تذکرہ نہیں کیا۔ میرے مراسلے کو ایک بار پھر پڑھ لیجئے۔ سیاق و سباق سے ہٹ کر بات تو آپ کر رہے ہیں۔
قواعد اور گرامر کی پچیدگیاں تواہلِ زبان ہی جانیں۔ میرا تو ماننا ہے کہ قرآن اپنی تشریح خود ہی کرتا ہے۔ لہذٰا بیرونی مواد پر انحصار کی بجائے، ایک قرآنی آیت کو دوسری قرآنی آیات سے سمجھنے کی ایک ادنٰی سی کوشش کی ہے۔ مقصد کسی کو چیلنج کرنا ہر گز نہیں۔
پہلے ہی کہہ دیتی تو انٹرنیٹ پر دیکھ کر بحث ہی نہ کی جاتی۔انٹرنیٹ پر “واضربوھن “ کا ترجمہ “ مارو” کے حق اور مخالفت میں کافی دلائل موجود ہیں۔ جو افراد دلچسپی رکھتے ہیں وہ خود ہی تحقیق کر لیں گے۔ اس پر مزید بحث لاحاصل ہے۔
اب تو ٹیمپو ٹوٹ گیا۔ اس موضوع پر گفتگو پھر کبھی سہی۔آپ نے انحراف کیا یا نہیں اس کا فیصلہ آپ اپنے استدلال سے کرسکتی ہیں۔ آپ کے جن دلائل کی جانب راقم نے اشارہ کیا، وہ آپ نے بطورِ معلومات نہیں بلکہ بطورِ ثبوت پیش کیے تھے مثلا:
جہاں تک اس بات کا تعلق ہے:
تو عرض یہی ہے کہ جس آیت کو آپ نے بطورِ دلیل پیش کیا تھا، اس کی جانب ہی اشارہ کیا ہے کہ جہاں زمین کو مارنے کا ترجمہ ہی نہیں ہوسکتا تو پھر اسے بطورِ مارنے کے لیے دلیل کیسے بنایا جاسکتاہے۔ ایک آیت کسی دوسری آیت کے لیے دلیل تب بنے گی جب دونوں کا مفہوم، ترجمہ اور سیاق وسباق بھی ایک جیسے ہوں۔
پہلے ہی کہہ دیتی تو انٹرنیٹ پر دیکھ کر بحث ہی نہ کی جاتی۔