ایران میں حکومتی سطح پر پردہ کرایا جاتا ہے، اور بلا تفریق مسلم اور غیر مسلم خواتین کو کروایا جاتا ہے۔
مجھے انتہائی اختلاف ہے۔
اس لیے اس تھریڈ کو پھر سے تازہ کر رہی ہوں۔
اس سلسلے میں پہلے میں دو مراسلے اس تھریڈ میں پوسٹ کر چکی ہوں جو کہ
آپ یہاں پر پڑھ سکتے ہیں۔
پردہ کا تعلق شرم و حیا یا معاشرے کے بگاڑ اور فحاشی سے نہیں ہے
یہ بالکل غلط دعوی کیا جاتا ہے کہ پردہ کا تعلق شرم و حیا سے ہے اور اگر کسی معاشرے میں خواتین کو پردہ نہ کروایا جائے تو اس سے معاشرے میں بگاڑ پیدا ہوتا ہے۔
میں پہلے بیان کر چکی ہوں کہ اسلام میں پردہ کا حکم فقط ایک چیز کے لیے آیا تھا، اور وہ تھا "
آزاد عورت کا تحفظ"
یہ چیز سننے میں کچھ عجیب ہے، مگر بہرحال حقیقت ہے۔
قرآن کی آیت یہ ہے:۔
[القرآن 33:59] اے نبی کہو! اپنی بیویوں سے اور اپنی بیٹیوں سے اور اہلِ ایمان کی (آزاد) عورتوں سے کہ وہ لٹکالیا کریں اپنی چادر ۔ یہ زیادہ مناسب طریقہ ہے تاکہ وہ پہچان لی جائیں اور (کنیز باندیاں سمجھ کر) نہ ستائی جائیں اور ہے اللہ معاف کرنے والا اور رحم فرمانے والا۔
اس آیت کی تفسیر میں تمام مفسرین ہی متفق ہیں کہ اُس زمانے میں جب عورتیں شام کو گھروں سے رفع حاجت وغیرہ کے لیے نکلتی تھیں، تو راستے پر بیٹھے مرد آوازیں لگاتے تھے۔ (عجیب چیز لگتی ہے، مگر سب نے یہی لکھا ہے)۔ چنانچہ "آزاد عورت" کے تحفظ کی خاطر فقط اور فقط یہ چادروں کا حکم نازل ہوا تاکہ راستے میں بیٹھے مرد "آزاد عورت" اور "کنیز باندی" میں فرق کر سکیں اور کسی آزاد عورت کو ستانے سے باز آئیں۔
اسلام میں "کنیز باندی" کے لیے سرے سے کوئی پردہ اور حجاب نہیں ہے
آج کے دور کے مسلمانوں کو اس بات کا علم نہیں ہے، مگر حقیقت یہ ہے کہ اسلام کی تیرہ سو سالہ تاریخ میں "کنیز باندی" کے لیے سرے سے کوئی پردہ یا حجاب تھا ہی نہیں۔
چنانچہ جو لوگ دعوی کرتے ہیں کہ پردے کا تعلق "شرم و حیا" اور "معاشرے میں فحاشی" روکنے سے ہے، وہ اپنے اس دعوے میں مکمل طور پر غلط ہیں۔
اگر واقعی ان لوگوں کا دعوی سچ مان لیا جائے، تو پھر الٹا دین اسلام پر الزام عائد ہو گا کہ یہ دین فحاشی و بے حیائی کا مذہب ہے اور یہ کنیز باندیوں کو بغیر حجاب کے رکھ کر معاشرے میں بے حیائی اور فحاشی پھیلاتا ہے۔
چنانچہ، پہلے ان لوگوں کو اپنے اس دعوے سے تائب ہونا چاہیے، وگرنہ یہ اسلام کو بے حیائی کا مذہب بنوا دیں گے۔
اسلام میں شرم و حیا کی بنیادی کسوٹی "نظروں" کا نیچا رکھا جانا ہے
جی ہاں، شرم و حیا کی بنیادی کسوٹی "نظروں" نیچا رکھا جانا ہے، اور اسکا حکم مرد و عورت دونوں کے لیے یکساں ہے۔
[القرآن 24:31] آپ (آزاد) مومن عورتوں سے فرما دیں کہ وہ (بھی) اپنی نگاہیں نیچی رکھا کریں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کیا کریں اور اپنی زینت کو ظاہر نہ کیا کریں سوائے (اسی حصہ) کے جو اس میں سے خود ظاہر ہوتا ہے اور وہ اپنے خمار (ڈھانپنے کا کپڑا) اپنے گریبانوں پر ڈالے رہا کریں اور وہ اپنے بناؤ سنگھار کو (کسی پر) ظاہر نہ کیا کریں سوائے اپنے شوہروں کے یا اپنے باپ دادا یا اپنے شوہروں کے باپ دادا کے یا اپنے بیٹوں یا اپنے شوہروں کے بیٹوں کے یا اپنے بھائیوں یا اپنے بھتیجوں یا اپنے بھانجوں کے یا عورتوں یا اپنے غلاموں کے یا مردوں میں سے وہ نوکر جو خواہش و شہوت سے خالی ہوں یا وہ بچے جو (کم سِنی کے باعث ابھی) عورتوں کی پردہ والی چیزوں سے آگاہ نہیں ہوئے (یہ بھی مستثنٰی ہیں) اور نہ (چلتے ہوئے) اپنے پاؤں (زمین پر اس طرح) مارا کریں کہ (پیروں کی جھنکار سے) ان کا وہ سنگھار معلوم ہو جائے جسے وہ پوشیدہ کئے ہوئے ہیں۔
بہرحال، کنیز عورت کے معاملے میں پھر مسئلہ ہے، اور وہ یہ کہ کنیز عورت کے معاملے میں نظریں نیچی رکھنے کا حکم نہیں ہے، بلکہ یہ بھی صرف آزاد عورت کے لیے مختص ہے۔
غیر مسلم خواتین کو جبری پردہ کیوں؟
مسلم خواتین پر حکومتی سطح پر جبری پردہ عائد کرنا تو پھر کسی طرح بات کچھ سمجھ آ سکتی ہے، مگر یہ بتلائیں کہ "غیر مسلم" خواتین پر اسلامی حکومتیں کیوں جبری پردہ نافذ کر رہی ہیں؟ چاہے یہ ایران ہو، یا سعودیہ، یا پھر طالبان کا افغانستان۔
یہ لوگ اپنے اس فعل کی واحد دلیل یہ دیتے ہیں کہ اگرچہ "غیر مسلم خواتین" کا دین انہیں پردہ کرنے پر مجبور نہیں کرتا، مگر اسلامی ریاست میں اس لیے ان سے جبری پردہ کروایا جائے گا کیونکہ نہ کرنے کی صورت میں معاشرے میں فحاشی اور بگاڑ پیدا ہوتا ہے۔
یہ عجیب و غریب منطق ہے۔
اگر تیرہ سو سال تک اسلامی ریاست میں کنیز باندیوں کے پردہ نہ کرنے سے فحاشی نہیں پھیلی تو پھر آج ان غیر مسلم خواتین کے پردہ نہ کرنے سے کیسے پھیل سکتی ہے؟
ملا حضرات کو بہرحال اس سوال کا جواب دینا ہو گا۔
اگر یہ انکی اپنی طرف سے بنایا گیا "نیا بدعتی قانون" ہے تو مجھے اس سے شدید اختلاف ہے۔