حدیثِ دوست.....فرامین رسول صلی اللہ علیہ و سلم

سیما علی

لائبریرین
QzYOVDa.jpg
 

سروش

محفلین

السؤال​

هل هناك حديث صحيح أننا يجب أن نقول "اللهم أجرني من النار" سبع مرات بعد الفجر وبعد العشاء ؟.

الجواب​

الحمد لله.
الحديث رواه الإمام أحمد في المسند ( 17362 ) وأبو داود ( 5079 ) ، ولفظه :
عن النبي صلى الله عليه وسلم ، قال : " إذا صليتَ الصبح فقل قبل أن تكلم أحداً من الناس " اللهم أجرني من النار سبع مرات " فإنك إن متَّ مِن يومك ذلك كتب الله لك جواراً مِن النار ، وإذا صليت المغرب فقل قبل أن تكلم أحداً من الناس اللهم إني أسألك الجنة ، اللهم أجرني من النار" سبع مرات فإنك إن متَّ مِن ليلتك كتب الله عز وجل لك جواراً مِن النَّار" .
والحديث فيه أمران :
1.ليس فيه أنه يقال بعد العشاء كما جاء في السؤال .
2.الحديث غير صحيح عن النبي صلى الله عليه وسلم ، انظر " السلسلة الضعيفة " للشيخ الألباني رحمه الله ( 1624 ) .
وعلى هذا فلا يجب ولا يستحب أن يقول هذا الدعاء بعد صلاة الفجر وصلاة المغرب .
3. وقد ورد عن أنس رضي الله عنه ، قال : قال النبي صلى الله عليه وسلم : " من سأل الله الجنة ثلاث مرات قالت الجنة اللهم أدخله الجنة ، ومن استجار من النار ثلاث مرات قالت النار اللهم أجره من النار" .
رواه الترمذي ( 2572 ) وابن ماجه ( 4340 ) ، وهو حديث صحيح ، صححه الشيخ الألباني رحمه الله في " صحيح الجامع " ( 6275 ) .
لكنه غير مقيد بشيء من الصلوات ولا بوقت من الأوقات .
فيستحب للمؤمن أن يكثر من سؤال الله الجنة ، والاستجارة من النار ، من غير أن يقيد ذلك بشيء من لا صلوات ، ولا بوقت من الأوقات .
والله أعلم .

وانظر:
 

سروش

محفلین
صحیح
استغفار زیادہ ہونے کا یہ فائدہ ہے کہ گناہ معاف ہوتے رہیں گے اور یہ کلمات اللہ کا ذکر ہونے کی وجہ سے نیکیوں میں شمار ہوتے رہیں گے، یعنی استغفار سے قیامت کے دن معافی ملنے کی امید کی جا سکتی ہے۔
 

سیما علی

لائبریرین
حدیث نمبر: 6475​
حَدَّثَنِي عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَرَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ، فَلْيَقُلْ خَيْرًا أَوْ لِيَصْمُتْ، وَمَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ، فَلَا يُؤْذِ جَارَهُ، وَمَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ، فَلْيُكْرِمْ ضَيْفَهُ".
مجھ سے عبدالعزیز بن عبداللہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ابرہیم بن سعد نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے بیان کیا، ان سے ابوسلمہ نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”جو کوئی اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہئے کہ اچھی بات کہے ورنہ خاموش رہے اور جو کوئی اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے وہ اپنے پڑوسی کو تکلیف نہ پہنچائے اور جو کوئی اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو وہ اپنے مہمان کی عزت کرے۔“ [صحيح البخاري/كِتَاب الرِّقَاقِ/حدیث: 6475]
 

سیما علی

لائبریرین
G7Bw7xC.jpg
(مرفوع) حدثنا عبد الله بن محمد، قال: حدثنا ابو عامر العقدي، قال: حدثنا سليمان بن بلال، عن عبد الله بن دينار، عن ابي صالح، عن ابي هريرة رضي الله عنه، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال:" الإيمان بضع وستون شعبة، والحياء شعبة من الإيمان".
ہم سے بیان کیا عبداللہ بن محمد جعفی نے، انہوں نے کہا ہم سے بیان کیا ابوعامر عقدی نے، انہوں نے کہا ہم سے بیان کیا سلیمان بن بلال نے، انہوں نے عبداللہ بن دینار سے، انہوں نے روایت کیا ابوصالح سے، انہوں نے نقل کیا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے، انہوں نے نقل فرمایا جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایمان کی ساٹھ سے کچھ اوپر شاخیں ہیں۔ اور حیاء (شرم) بھی ایمان کی ایک شاخ ہے۔
 

سیما علی

لائبریرین
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1987
´حسن معاشرت (یعنی لوگوں کے ساتھ اچھے ڈھنگ سے رہنے) کا بیان۔`
ابوذر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جہاں بھی رہو اللہ سے ڈرو، برائی کے بعد (جو تم سے ہو جائے) بھلائی کرو جو برائی کو مٹا دے ۱؎ اور لوگوں کے ساتھ حسن اخلاق سے پیش آؤ۔‏‏‏‏“ [سنن ترمذي/كتاب البر والصلة/حدیث: 1987]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
مثلاً نماز پڑھو،
صدقہ و خیرات کرو اور کثرت سے توبہ و استغفار کرو۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 1987
سنن ترمذي, حدیث نمبر 1987, باب: حسن معاشرت (یعنی لوگوں کے ساتھ اچھے ڈھنگ سے رہنے) کا بیان۔


QaZinNF.jpg
 

سیما علی

لائبریرین
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3763
´کھانے کی برائی بیان کرنا مکروہ اور ناپسندیدہ بات ہے۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی کسی کھانے میں عیب نہیں لگایا، اگر رغبت ہوتی تو کھا لیتے ورنہ چھوڑ دیتے۔ [سنن ابي داود/كتاب الأطعمة /حدیث: 3763]
فوائد ومسائل:

انسان اللہ کی نعمت کھانے سے رہ بھی نہ سکے۔
اور پھر اس کی عیب جوئی بھی کرے۔
یہ بہت بُری خصلت ہے۔
اگر کھانا تیار کرنے والے کی تقصیر ہوتو اس کو مناسب انداز سے سمجھا دینا چاہیے۔
ovmk3Yz.jpg
 

سیما علی

لائبریرین
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 555

´نماز عصر کی فضیلت`
«. . . عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " يَتَعَاقَبُونَ فِيكُمْ مَلَائِكَةٌ بِاللَّيْلِ وَمَلَائِكَةٌ بِالنَّهَارِ، وَيَجْتَمِعُونَ فِي صَلَاةِ الْفَجْرِ وَصَلَاةِ الْعَصْرِ، ثُمَّ يَعْرُجُ الَّذِينَ بَاتُوا فِيكُمْ فَيَسْأَلُهُمْ وَهُوَ أَعْلَمُ بِهِمْ، كَيْفَ تَرَكْتُمْ عِبَادِي؟ فَيَقُولُونَ: تَرَكْنَاهُمْ وَهُمْ يُصَلُّونَ، وَأَتَيْنَاهُمْ وَهُمْ يُصَلُّونَ . . .»
”. . . ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ رات اور دن میں فرشتوں کی ڈیوٹیاں بدلتی رہتی ہیں۔ اور فجر اور عصر کی نمازوں میں (ڈیوٹی پر آنے والوں اور رخصت پانے والوں کا) اجتماع ہوتا ہے۔ پھر تمہارے پاس رہنے والے فرشتے جب اوپر چڑھتے ہیں تو اللہ تعالیٰ پوچھتا ہے حالانکہ وہ ان سے بہت زیادہ اپنے بندوں کے متعلق جانتا ہے، کہ میرے بندوں کو تم نے کس حال میں چھوڑا۔ وہ جواب دیتے ہیں کہ ہم نے جب انہیں چھوڑا تو وہ (فجر کی) نماز پڑھ رہے تھے اور جب ان کے پاس گئے تب بھی وہ (عصر کی) نماز پڑھ رہے تھے . . .“ [صحيح البخاري/كِتَاب الْإِيمَانِ: 17]

تشریح:
فرشتوں کا یہ جواب ان ہی نیک بندوں کے لیے ہو گا جو نماز پابندی کے ساتھ ادا کرتے تھے اور جن لوگوں نے نماز کو پابندی کے ساتھ ادا ہی نہ کیا۔ اللہ تعالیٰ کے دربار میں فرشتے ان کے بارے میں کیا کہہ سکیں گے۔ کہتے ہیں کہ ان فرشتوں سے مراد کراماً کاتبین ہی ہیں۔ جو آدمی کی محافظت کرتے ہیں، صبح و شام ان کی بدلی ہوتی رہتی ہے۔ قرطبی نے کہا یہ دو فرشتے ہیں اور پروردگار جو سب کچھ جاننے والا ہے۔ اس کا ان سے پوچھنا ان کے قائل کرنے کے لیے ہے جو انھوں نے آدم علیہ السلام کی پیدائش کے وقت کہا تھا کہ آدم زاد زمین میں خون اور فساد کریں گے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 555
 

سیما علی

لائبریرین
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3819
´استغفار کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے استغفار کو لازم کر لیا تو اللہ تعالیٰ اسے ہر غم اور تکلیف سے نجات دے گا، اور ہر تنگی سے نکلنے کا راستہ پیدا فرما دے گا، اسے ایسی جگہ سے رزق عطا فرمائے گا، جہاں سے اسے وہم و گمان بھی نہ ہو گا“ ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الأدب/حدیث: 3819]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
مذکورہ روایت سنداً ضعیف ہے، تا ہم توبہ استغفار کی اہمیت و فضیلت دیگر احادیث سے مسلم ہے۔
علاوہ ازیں حضرت نوح ؑ نے اپنی قوم کی تلقین کرتے ہوئے فرمایا تھا:
﴿فَقُلتُ اسْتَغفِر‌وا رَ‌بَّكُم إِنَّهُ كانَ غَفّارً‌ا يُر‌ْسِلِ السَّماءَ عَلَيكُمْ مِدر‌ارً‌ا وَيُمدِدْكُم بِأَمْوالٍ وَبَنينَ وَيَجعَل لَكُم جَنّاتٍ وَيَجعَل لَكُم أَنْهَارً‌ا﴾ (نوح، 71: 10تا 12)
”اپنے رب سے بخشش مانگو (اور توبہ کرو)
وہ یقیناً بہت زیادہ بخشنے والا ہے۔
وہ تم پر آسمان سےخوب بارش برسائے گا اور تمہیں مال اولاد میں ترقی دے گا اور تمہیں باغات دے گا اور تمہارے لیے دریا جاری کر دے گا۔“
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ استغفار گناہوں کی معافی کے ساتھ ساتھ دنیوی مشکلات کے حل اور دنیوی نعمتوں کے حصول کاذریعہ بھی ہے۔

4sIsE6r.jpg
 

سیما علی

لائبریرین
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3435
´تکلیف و مصیبت کے وقت کیا پڑھے؟`
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تکلیف کے وقت یہ دعا پڑھتے تھے: «لا إله إلا الله الحليم الحكيم لا إله إلا الله رب العرش العظيم لا إله إلا الله رب السموات والأرض ورب العرش الكريم» ”کوئی معبود برحق نہیں ہے سوائے اللہ بلند و بردبار کے، اور کوئی معبود برحق نہیں سوائے اس اللہ کے جو عرش عظیم کا رب (مالک) ہے اور کوئی معبود برحق نہیں ہے سوائے اس اللہ کے جو آسمانوں اور زمینوں کا رب ہے اور قابل عزت عرش کا رب ہے۔‏‏‏‏“ [سنن ترمذي/كتاب الدعوات/حدیث: 3435]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
کوئی معبود برحق نہیں ہے سوا ئے اللہ بلند وبردبار کے،
اور کوئی معبود برحق نہیں سوائے اس اللہ کے جو عرش عظیم کا رب (مالک) ہے اور کوئی معبود برحق نہیں ہے سوائے اس اللہ کے جو آسمانوں اور زمینوں کا رب ہے اور قابل عزت عرش کا رب ہے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 3435
 

سیما علی

لائبریرین
مولانا عطا اللہ ساجد رحمہ اللہ حفاظت فرمائے، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجہ، حدیث 2265 کے تحت
مزابنہ خریدنا ( یعنی دین کے وقت کے بدلے میں پیسہ )
ایک بیان کی طرح ہے۔ ہو کشمش کے بدلے ناپ کر بیچے، اور اگر کھیتی ہو تو کھیت میں فصل سوکھے ہوئے اناگے میں بچے کے بجائے، خدا اس کو سلامت رکھے اور اسے سلامتی عطا کرے ۔ [سنن ابن ماجہ/کتاب تجارت/حدیث: 2265]
اردو حاشیہ:
فوائد و مسائل:
(1)
اس کے مزنے کی فروخت حرام ہے۔

(2)
بینک کی فروخت، جیسے کہ کسی انسان کی تصویر، فیس، قیمت، قیمت یا قیمت، مقررہ رقم کے عوض۔
یا، مثال کے طور پر، آپ چاہیں گے:
اگر آپ کرنٹ کو الگ کر سکتے ہیں، تو آپ کرنٹ کی بجائے اسے استعمال کر سکتے ہیں۔
یہ تو سب کو معلوم ہے کہ اس میں بہت زیادہ وزن ہے اور اس میں بہت کچھ ہے، کتنا ہے، یا زیادہ ہے۔
فریقین میں سے ہر ایک کے لیے کافی وقت ہوتا ہے جو کہ ایک الگ لین دین ہے۔

(3)
امام مالک رحمہ اللہ تعالیٰ رحمہ اللہ۔
جیسا کہ برٹن کے پاس ایک مماثل آئینے کی دم ہے۔
آپ کتنا پانی استعمال کرسکتے ہیں، یا آپ کے پاس کتنا پانی ہے، یا آپ کے پاس کتنی ہوا ہے، یا آپ کے پاس کتنی ہوا ہے، یا آپ کو کتنی ہوا ملتی ہے، یا آپ کو کتنی ہوا ملتی ہے۔
امام مالک رحمۃ اللہ علیہ (موطا امام مالک، السیۃ، باب: مزابنہ اور محاقلہ: 2/161 میں آیا ہے)

سنن ابن ماجہ مولانا عطا اللہ ساجد کی تفسیر، حدیث صفحہ نمبر 2265
 

سیما علی

لائبریرین
srbSq58.jpg


مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث4143
´قناعت کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیشک اللہ تعالیٰ تمہاری صورتوں اور تمہارے مالوں کو نہیں دیکھتا بلکہ وہ تمہارے اعمال اور دلوں کو دیکھتا ہے۔‏‏‏‏“ [سنن ابن ماجه/كتاب الزهد/حدیث: 4143]
 

سیما علی

لائبریرین
TpqAW25.jpg
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 140

´بدعت کا رد`
«. . . ‏‏‏‏عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ أَحْدَثَ فِي أَمْرِنَا هَذَا مَا لَيْسَ مِنْهُ فَهُوَ رد» . . .»
”. . . سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے ہمارے دین اسلام میں کوئی نئی بات نکالی جو دین سے نہیں ہے تو وہ مردود ہے۔“ اس حدیث کو بخاری و مسلم نے روایت کیا ہے۔ . . .“ [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْإِيمَانِ: 140]

تخریج الحدیث:
[صحيح بخاري 2697]،
[صحيح مسلم 4493]
 
Top