حدیثِ دوست.....فرامین رسول صلی اللہ علیہ و سلم

سیما علی

لائبریرین
hZt5IXv.jpg
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1358
´ذکر اور دعا کا بیان`
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” دو کلمے ہیں جو رحمن کو بڑے پیارے ہیں۔ زبان پر ہلکے ہیں۔ ترازو میں بھاری ہیں، (وہ یہ ہیں) «سبحان الله وبحمده، ‏‏‏‏ سبحان الله العظيم» اللہ پاک ہے، ساتھ اپنی تعریف کے، اللہ پاک ہے، عظمت والا۔“ (بخاری و مسلم) «بلوغ المرام/حدیث: 1358»
تخریج:
«أخرجه البخاري، الدعوات، باب فضل التسبيح، حديث:6406، (7563 آخر البخاري)، ومسلم، الذكروالدعاء، باب فضل التهليل والتسبيح والدعاء، حديث:2694.»

تشریح:
1.مؤلف رحمہ اللہ نے اس کتاب کی ترتیب و تنسیق بہت خوبصورت اور حسین انداز میں کی ہے اور انھوں نے حمد اور تسبیح دونوں کو جمع کر دیا ہے اور وہ اس طرح کہ کتاب کا آغاز بسم اللّٰہ اور الحمدللّٰہ سے کیا اور اختتام تسبیح و تحمید اور تعظیم سے کیا۔
اور غالباً اسی وجہ سے مصنف نے احادیث کے حوالہ جات میں اپنی عام عادت کو چھوڑ کر نیا انداز اختیار کیا ہے۔
انھوں نے اس حدیث کے آخر میں ” متفق علیہ“ کہنے کی بجائے شروع میں أَخْرَجَ الشَّیْخَان کہہ دیا تاکہ اس کتاب کے آخری الفاظ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہوں‘ یعنی «سُبْحَانَ اللّٰہِ وَبِحَمْدِہٖ ‘ سُبْحَانَ اللّٰہِ الْعَظِیمِ» 2. اس حدیث میں دو کلموں کا ہلکا اور وزنی ہونا یہ معنی رکھتا ہے کہ زبان سے ان کا ادا کرنا سہل و آسان ہے۔
یہ کلمے بڑی آسانی سے ہر ایک کی زبان پر رواں ہو جاتے ہیں‘ کسی دقت کا سامنا نہیں کرنا پڑتا کیونکہ ان میں حروف ثقیلہ کا استعمال نہیں ہوا۔
اور ان کے بھاری ہونے کے معنی یہ ہیں کہ جس طرح نیکی کے مشقت والے اعمال وزن میں بھاری ہوں گے اسی طرح یہ آسانی سے پڑھے جانے والے کلمات بھی میزان اعمال میں بھاری اور ثقیل ہوں گے۔
3.اس حدیث سے ثابت ہوا کہ قیامت کے روز اعمال کا جسم ہوگا اور انھیں تولا جائے گا۔
4.اس حدیث سے اللہ عزوجل کی وسعت رحمت کا بھی پتہ چلتا ہے کہ وہ اپنے نیک و مخلص بندوں کے تھوڑے اعمال کے بدلے میں بہت زیادہ اجر و ثواب عطا فرمائے گا۔
یہ محض اس کا فضل و کرم اور مہربانی ہے۔
اس کی رحمت ہر چیز پر حاوی ہے۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 1358
bar.gif

6679668066816682668366846685
 

سیما علی

لائبریرین
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4737
´قرآن کے کلام اللہ ہونے کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم حسن اور حسین رضی اللہ عنہما کے لیے (ان الفاظ میں)اللہ تعالیٰ پناہ مانگتے تھے «أعيذكما بكلمات الله التامة من كل شيطان وهامة ومن كل عين لامة» ”میں تم دونوں کے لیے پناہ مانگتا ہوں اللہ کے پورے کلمات کے ذریعہ، ہر شیطان سے، ہر زہریلے کیڑے (سانپ بچھو وغیرہ) سے اور ہر نظر بد والی آنکھ سے“ پھر فرماتے: ”تمہارے باپ (ابراہیم) اسماعیل و اسحاق کے لیے بھی انہی کلمات کے ذریعہ پناہ مانگتے تھے۔‏‏‏‏“ ابوداؤد کہتے ہیں: یہ اس بات کی دلیل ہے کہ قرآن مخلوق نہیں ہے۔ [سنن ابي داود/كتاب السنة /حدیث: 4737]
فوائد ومسائل:
1: کیونکہ سیدنا خلیل الرحمن یا حضرت محمد رسول ؐ کے متعلق تصور نہیں کیا جا سکتا کہ وہ کسی مخلوق کی پناہ حاصل کریں۔

2: جب ابنیا ؑکی صالح اولاد اللہ کی امان اور پناہ سے مستغنی نہیں تو دوسرے لوگوں کو تو اس کی احتیاج اور بھی زیادہ ہے۔

3: مستحب ہے کہ بچوں کو ان مبارک کلمات سے ہمیشہ دم کیا جائے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 4737
bar.gif

3368336933703371337233733374

K9LXAkA.jpg
 

سیما علی

لائبریرین
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، oفوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2020
´زیادہ غصہ کرنے کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک آدمی نے آ کر عرض کیا: مجھے کچھ سکھائیے لیکن زیادہ نہ بتائیے تاکہ میں اسے یاد رکھ سکوں، آپ نے فرمایا: ”غصہ مت کرو“، وہ کئی بار یہی سوال دہراتا رہا اور آپ ہر بار کہتے رہے ”غصہ مت کرو“ ۱؎۔ [سننik ترمذي/كتاب البر والصلة/حدیث: 2020]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
غصہ کی صفت سے کوئی انسان خالی نہیں ہے،
لیکن غصہ پر قابو پالینا سب سے بڑی نیکی اور انسان کی سب سے کامل عادت ہے،
نصیحت مخاطب کے مزاج و طبیعت کا خیال کرتے ہوئے اس کے حالات کے مطابق ہونی چاہیے،
چنانچہ اس حدیث میں آپ ﷺ نے اس آدمی کے متعدد بارسوال کرنے کے باوجود اس کے حالات کے مطابق ایک ہی جواب دیا یعنی غصہ مت کرو۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 2020

ryRJpVX.jpg
 

سیما علی

لائبریرین
حضرت رافعؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ’’یہ بات کہ اللہ تعالیٰ تمہارے ہاتھ پر اور تمہارے ذریعہ کسی ایک آدمی کو ہدایت دے دے تمہارے لئے اس ساری کائنات سے بہتر ہے جس پر آفتاب طلوع ہوتا اور غروب ہوتا ہے۔
( معجم کبیر للطبرانی ) (بحوالۂ سابق/ص:۹۳
 

سیما علی

لائبریرین
رسول الله ﷺ نے فرمایا:

‏الطُّهُورُ شَطْرُ الْإِيمَانِ

‏طہارت نصف ایمان ہے.

‏(طہارت: پاکی، صفائی، ستھرائی، پاکیزگی. خواہ وہ ظاہری ہو یا باطنی).

‏مسلم 534
‏(مشکوٰۃ 281)
 

سیما علی

لائبریرین
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 643

´نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر اور منبر کے درمیان والی جگہ کی فضیلت`
«. . . 306- وبه: عن عبد الله بن زيد أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ”ما بين بيتي ومنبري روضة من رياض الجنة.“ . . .»
”. . . سیدنا عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میرے گھر اور میرے منبر کے درمیان جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے . . .“ [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 643]

تخریج الحدیث: [وأخرجه البخاري 1195، ومسلم 1390، من حديث مالك به]
تفقه:
➊ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر (بیت عائشہ رضی اللہ عنہا) سے لے کر مسجد نبوی کے منبر تک کا حصہ جنت کا حصہ ہے۔
موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث\صفحہ نمبر: 306
bar.gif

188518861887188818891890189
saFe7sa.jpg
 

سیما علی

لائبریرین
حدیث نمبر: 6552
حدثنا وهيب، عن ابي حازم، عن سهل بن سعد، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال:" إن في الجنة لشجرة يسير الراكب في ظلها مائة عام لا يقطعها".
اور اسحاق بن ابراہیم نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو مغیرہ بن سلمہ نے خبر دی، انہوں نے کہا ہم سے وہیب نے بیان کیا، ان سے ابوحازم نے بیان کیا، ان سے سہل بن سعد رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”جنت میں ایک درخت ہے جس کے سایہ میں سوار سو سال تک چلنے کے بعد بھی اسے طے نہیں کر سکے گا۔“
7757 - D 6552 - U 6099
bar.gif

6549655065516552655365546555

ap74D0w.jpg
 

سیما علی

لائبریرین
شيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4606
´سنت کی پیروی ضروری ہے۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو ہمارے اس دین میں کوئی ایسی نئی بات پیدا کرے جو اس میں نہیں ہے تو وہ مردود ہے۔‏‏‏‏“ ابن عیسیٰ کی روایت میں ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو کوئی ایسا کام کرے جو ہمارے طریقے کے خلاف ہو تو وہ مردود ہے۔‏‏‏‏“ [سنن ابي داود/كتاب السنة /حدیث: 4606]
فوائد ومسائل:
اس حدیث میں دین کے لیے لفظ (أمرنا) استعمال کیا گیا ہے، کیونکہ ہدایت کا سرچشمہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم ہی ہیں، اس لیے آپ کے ارشاد کے بغیر کوئی کام بھی اللہ کے ہاں عبادت یا تقریب کا درجہ نہیں پاسکتا۔


(فهو رد) وہ مردود ہے کے دو مفہوم میں، یعنی وہ کام باطل اور مردود ہے، نیز وہ آدمی جو اس کا مرتکب ہووہ بھی مردود اور قابل نفرین ہے۔

سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 4606
bar.gif

2694269526962697269826992700

7PJPvfx.jpg
 

سیما علی

لائبریرین
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2344
´اللہ پر توکل (بھروسہ) کرنے کا بیان۔`
عمر بن خطاب رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر تم لوگ اللہ پر توکل (بھروسہ) کرو جیسا کہ اس پر توکل (بھروسہ) کرنے کا حق ہے تو تمہیں اسی طرح رزق ملے گا جیسا کہ پرندوں کو ملتا ہے کہ صبح کو وہ بھوکے نکلتے ہیں اور شام کو آسودہ واپس آتے ہیں“ ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الزهد/حدیث: 2344]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
معلوم ہوا کہ مومن کی زندگی رزق ومعیشت کی فکرسے خالی ہونی چاہئے،
اوراس کا دل پرندوں کی طرح ہونا چاہئے جو اپنے لیے کچھ جمع کرکے نہیں رکھتے بلکہ ہرروزصبح تلاش رزق میں نکلتے ہیں اورشام کو شکم سیرہو کر لوٹتے ہیں۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 2344
bar.gif

234123422343234423452346


IUzDxJT.jpg
 

سیما علی

لائبریرین
7tBF4gv.jpg
´عفو اور عافیت کی دعا کا بیان۔`1 اوسط بن اسماعیل بجلی سے روایت ہے کہ جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی، تو انہوں نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ پچھلے سال میری اس جگہ پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے تھے، پھر ابوبکر رضی اللہ عنہ نے روتے ہوئے کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم اپنے لیے سچائی کو لازم کر لو کیونکہ سچائی نیکی کی ساتھی ہے، اور یہ دونوں جنت میں ہوں گی، اور تم جھوٹ سے پرہیز کرو کیونکہ جھوٹ برائی کا ساتھی ہے، اور یہ دونوں جہنم میں ہوں گی، اور تم اللہ تعالیٰ سے تندرستی اور عافیت طلب کرو کیونکہ ایمان و یقین کے بعد صحت و تندرستی سے بڑھ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب الدعاء/حدیث: 3849]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
ہر نیکی کا سچ سےتعلق ہے، اس لیے سچ پر قائم رہنے والے اورہمیشہ سچ بولنے والے کو ہر نیکی کی توفیق مل سکتی ہے۔

(2)
گناہ کا تعلق جھوٹ سے ہے اس لیےجھوٹ بولنے والے سے کسی بھی گناہ کی توقع کی جاسکتی ہے۔

(3)
ہمیشہ سچ بولنے والا اور جھوٹ سےہمیشہ پرہیز کرنے والا جنت میں جائے گا۔
اور جو شخص جھوٹ کا عادی ہو، وہ اپنے گناہوں کی وجہ سے جہنم کا مستحق ہوگا۔

(4)
ایمان سب سے بڑی روحانی نعمت ہے اور عافیت سب سے بڑی دنیاوی نعمت ہے، لہٰذا اللہ سےان کی دعا کرنی چا ہیے۔

(5)
حسد کا مطلب ہے کسی کی نعمت چھن جانے کی خواہش رکھنا۔
کافروں کی شکست اور ذلت کی خواہش رکھنا حسد نہیں۔
یہ چیز ان کے لیے اس لحاظ سے نعمت ہے کہ اس کی وجہ سے وہ اسلام کی طرف مائل ہو سکتے ہیں اور انہیں ہدایت نصیب ہو سکتی ہے۔

(6)
مسلمانوں کا معمولی باتوں پر ایک دوسرے سے ناراض رہنا اچھا نہیں، البتہ کفر، شرک اور بدعت وغیرہ کی بنا پر نفرت رکھنا درست ہے۔

(7)
قطع تعلقی، خاص طور پر رشتہ داروں کے درمیان تعلقات کا منقطع رہنا نا مناسب ہے، البتہ کسی شرعی سبب سے ناراضی جائز ہے، بالخصوص جب یہ امید ہو کہ ناراضی کے اظہار کا اچھا اثر ہوگا اور غلطی کرنے والا اپنی اصلاح کر لے گا۔

(8)
ہر مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے۔
آپس میں قبیلے، برادری، علاقے، زبان اور پارٹی کی بنیاد پر لڑائی جھگڑا اسلام کے خلاف ہے بلکہ جاہلیت کا طریقہ ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 3849
bar.gif

3846384738483849385038513852
 

سیما علی

لائبریرین

ایمان کا مزہ:

آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

جس شخص میں یہ تین باتیں ہوں گی وہ ایمان کا مزہ پا لے گا:​

(1) وہ شخص جسے اللہ اور اس کا رسول ان کے ماسوا سے زیادہ عزیز ہوں.​

(2) وہ شخص جو کسی بندہ سے محض اللہ ہی کے لئیے محبت کرے.​

(3) وہ شخص جسے اللہ نے کفر سے نجات دی ہو، پھر دوبارہ وہ کفر اختیار کرنے کو وہ ایسا برا سمجھے جیسا آگ میں گر جانے کو برا جانتا ہے.​

(صحیح البخاری : 21، کتاب الایمان، بان من کرہ ان یعود فی الکفر کما یکرہ ان یلقی فی النار من الایمان)
 

سیما علی

لائبریرین
مُسْنَدُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ
7. مسنَدِ عَلِیِّ بنِ اَبِی طَالِب رَضِیَ اللَّه عَنه
حدیث نمبر: 1345 اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الله، حدثني محمد بن ابان البلخي ، حدثنا عبد الرزاق ، حدثنا سفيان ، عن ابي إسحاق ، عن ابي حية بن قيس ، عن علي رضي الله عنه، انه" توضا ثلاثا ثلاثا، ثم مسح براسه، ثم شرب فضل وضوئه، ثم قال: من سره ان ينظر إلى وضوء رسول الله صلى الله عليه وسلم، فلينظر إلى هذا".
ایک مرتبہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے وضو کرتے ہوئے اعضاء وضو کو تین تین مرتبہ دھویا، سر کا مسح کیا اور وضو سے بچا ہوا پانی پی لیا، پھر فرمایا کہ جو شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ وضو دیکھنا چاہتا ہے تو وہ یہ دیکھ لے۔
68630 - D 1345 - U 1295
حكم دارالسلام: إسناده حسن
bar.gif

1342134313441345134613471348
 

سیما علی

لائبریرین
قالَ النبی ﷺ:

روزہ (گناہوں سے بچنے کی) ایک ڈھال ہے، اس لئے (روزہ دار) نہ فحش باتیں کرے اور نہ جہالت کی باتیں. اور اگر کوئی اس سے لڑے یا اسے گالی دے توہین کرے تو وہ یہ کہہ دے کہ: میں روزے سے ہوں، میں روزے سے ہوں.

بخاری 1894

(مسلم 2706؛ نسائی 2218؛ مسند احمد 3639؛ مشکوٰۃ 1959)
 

سیما علی

لائبریرین

روزے کا اجر و ثواب​

عن ابی هریرة رضی الله عنه قال‘ قال رسول ﷲ صلی الله علیه وآله وسلم: کل عمل ابن آدم یضاعف الحسنة الی ماشاء ﷲ یقول ﷲ تعالیٰ: ألا الصوم‘ فانه لی‘ و أنا أجری به.

(سنن ابن ماجه: 119‘ کتاب الصیام‘ باب ما جاء فی فضل الصیام ‘ رقم حدیث: 1638

حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: آدم کے بیٹے کا نیک عمل کا اجر جتنا اللہ چاہے بڑھا دیا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ روزہ اس سے مستشنی ہے‘ کیونکہ وہ میرے لئے ہے۔ اور میں بھی اس کی جزا دوں گا۔

اس حدیث مبارکہ سے یہ چیز واضح ہوتی ہے کہ بعض اعمال کا ثواب صدق نیت اور اخلاص کی وجہ سے دس گنا سے بڑھ کر سات سو گنا تک بلکہ بعض دفعہ اس سے بھی زیادہ ثواب ہوتا ہے‘ لیکن روزہ کا ثواب بے حد اور بے اندازہ ہے۔ یہ کسی ناپ تول اور حساب کا محتاج نہیں ہے۔ اس کی مقدار اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا ہے۔
 

سیما علی

لائبریرین
عَنْ أَبِي مَسْعُوْدٍ الْغِفَارِيِّ رضی الله عنه قَالَ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ ﷲِ صلی الله علیه وآله وسلم ذَاتَ یَوْمٍ وَأَهَلَّ رَمَضَانُ فَقَالَ: لَوْ یَعْلَمُ الْعِبَادُ مَا رَمَضَانُ لَتَمَنَّتْ أُمَّتِي أَنْ یَکُوْنَ السَّنَةَ کُلَّهَا. رَوَاهُ الْبَیْهَقِيُّ وَابْنُ خُزَیْمَةَ.

أخرجه البیهقي في شعب الإیمان، 3/313، الرقم: 3634، وابن خزیمة في الصحیح، 3/190، الرقم: 1886، والمنذري في الترغیب والترهیب، 2/62، الرقم: 1495.

’’حضرت ابو مسعود غفاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رمضان کا مہینہ شروع ہوچکا تھا کہ ایک دن میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: اگر لوگوں کو رمضان کی رحمتوں اور برکتوں کا پتہ ہوتا تو وہ خواہش کرتے کہ پورا سال رمضان ہی ہو۔‘‘
اِس حدیث کو امام بیہقی اور ابن خزیمہ نے روایت کیا ہے۔
 

سیما علی

لائبریرین

روزہ گزشتہ گناہوں کا کفارہ ہے​

حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

عن ابی هریرة قال، قال رسول ﷲ صلی الله علیه وآله وسلم: من صام رمضان ایماناً و احتسابا غفرله ماتقدم من ذنبه.

(صحیح البخاری‘ 1: 10‘ کتاب الایمان‘ رقم حدیث: 3
حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس شخص نے ایمان اور احتساب کے ساتھ رمضان کا روزہ رکھا اس کے پچھلے گناہ معاف کردیے جاتے ہیں۔

اس حدیث مبارکہ میں روزہ رکھنے اور رمضان المبارک میں قیام کرنے کے ساتھ ایمان اور احتساب کی شرط لگا دی‘ یعنی اس حالت میں رمضان المبارک کے روزے رکھے اور راتوں کو قیام کرے کہ حضور سے ثابت شدہ سب چیزوں کی تصدیق کرے اور فرضیت ِ صوم کا اعتقاد بھی رکھے تو اس کو ایمان کا روزہ کہا جائے گا۔

احتساب کا معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سے طلبِ ثواب کے لئے یا اس کے اخلاص کی وجہ سے روزہ رکھا اور روزے کی حالت میں صبر کا مظاہرہ اور اپنے نفس کا محاسبہ کرتا رہا۔

جو آدمی ایمان اور احتساب کے ساتھ رمضان المبارک کے روزے رکھتا ہے اور رمضان المبارک کی راتوں میں قیام کرتا ہے تو اس کے تمام صغائر معاف کردیے جاتے ہیں۔ اور کبائر کی معافی کی امید رکھی جاسکتی ہے یا کبائر کا بوجھ ہلکا بھی ہوسکتا ہے۔
 

سیما علی

لائبریرین
صحيح البخاري: كِتَابُ الإِيمَانِ (بَابُ صَوْمِ رَمَضَانَ احْتِسَابًا مِنَ الإِيمَانِ)

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة
38. حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلاَمٍ، قَالَ: أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ صَامَ رَمَضَانَ، إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا، غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ.»
صحیح بخاری:
کتاب: ایمان کے بیان میں
(باب:اس بیان میں کہ خالص نیت کے ساتھ رمضان کے روزے رکھنا ایمان کا جزو ہیں۔)

مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
38.
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جس شخص نے اپنے ایمان کے پیش نظر حصول ثواب کے لیے ماہ رمضان کے روزے رکھے اس کے تمام گزشتہ گناہ بخش دیے جائیں گے۔‘‘
 
Top