ظہیراحمدظہیر
لائبریرین
اشعارِ قدیمہ کی کھدائی کے دوران یہ چند مطلع برآمد ہوئے ہیں جو کسی غزل کا سرنامہ نہ بن سکے ۔ یہ ٹوٹے پھوٹے اشعار پیشِ خدمت ہیں ۔ شاید ایک آدھ آپ کو پسند آجائے ۔
اک بات کہہ رہے ہیں شاعر سبھی غزل کے
اک شعر ہورہا ہے مصرعے بدل بدل کے
××××
مجھ کو شریکِ غم بنا ، اپنا شریکِ حال رکھ
اتنا بھی خود غرض نہ بن ، کچھ تو مرا خیال رکھ
××××
توفیقِ دعا دے تو اثر ساتھ میں دینا
دربازیِ بخشش کی خبر ساتھ میں دینا
××××
ہر تہمتِ غرور و تکبر سے پاک ہیں
ہم اہلِ انکسار کے قدموں کی خاک ہیں
××××
اس بے کل دل کی دھڑکن سے چاہت کا اک تار بندھا ہے
تار بھی کیسا انہونا جو ساگر کے اُس پار بندھا ہے
×××××
اک شخص جو گزرا ہوا قصہ ہے زندگی کا
اب کیا کہیں کہ آج بھی حصہ ہے زندگی کا
×××××
کاش ایسا ہو کوئی بات ضروری رہ جائے
آج پھر اُن سے ملاقات ادھوری رہ جائے
×××××
بولوں تو ساری دنیا اُسے جان جائے گی
اور چپ رہوں تو پھر مری پہچان جائے گی
×××××
مال و متاع ِ درد میں سمجھو نہ کم ہمیں
میراث میں ملے ہیں یہ نسلوں کے غم ہمیں
×××××
ہم سے بڑھ کر تو کو ئی خاک میں کھویا بھی نہ تھا
پھر بھی وہ کاٹ رہے ہیں کہ جو بویا بھی نہ تھا
×××××
رستے طویل ہو گئے یا گھٹ گیا ہے دن
اب تک سفر نہیں کٹا اور کٹ گیا ہے دن
××××
میں کہیں ، یاد کہیں ، خواب کہیں ہے میرا
جو نظر آتا ہے میرا ،وہ نہیں ہے میرا
×××××
نظر میں روشنی رکھنا کسی حوالے کی
چراغِ راہ ضمانت نہیں اجالے کی
××××
کبھی آنکھوں سے کوئی خواب بچھڑ جاتا ہے
صبح کی آس میں مہتاب بچھڑ جاتا ہے
×××××
اب کوئی در ، نہ کوئی راہ گزر دیکھوں گا
ویسے ممکن تو نہیں پھر بھی میں کر دیکھوں گا
××××
شب سرائے میں پہنچ کر مجھے رخصت دے گا
پھر وہی کام سویرے جو مسافت دے گا
××××
ہر سفر اب مجھے ہجرت کا سفر لگتا ہے
گھر کو جاتے ہوئے رستے سے بھی ڈر لگتا ہے
××××
اب تو یہ فیصلہ ہوجائے کدھر جانا ہے
ابھی رستوں میں بھٹکنا ہے کہ گھر جانا ہے
غمِ دوراں سے رہا ہو کے کدھر جانا ہے
اسی زنداں میں ہمیں جینا ہے مرجانا ہے
××××
سنا ہے پھر سے محبت کے ا متحاں ہونگے
جو داغ مٹ گئے دل کے وہ پھر عیاں ہونگے
××××
تہماری زلف کے سائے میں چاند رات کریں
ہماری عید یہی ہے کہ تم سے بات کریں
تمہارے شوخ لبوں سے چرا کے شرماہٹ
گلاب و لالۂ و سنبل کے رنگ مات کریں
××××
گزر رہی ہے تری یاد کی حضوری میں
نشاطِ قرب میسر ہے اتنی دوری میں
×××××
دل جہاں کھویا ، وہیں پندارِ غم بھی کھودیا
برسوں بعد اُس سے ملا تو مل کے میں بھی رودیا
××××
تلاشِ ذات کی منزل تو اک ٹھکانہ ہے
سفر کے بعد مجھے لوٹ کر بھی آنا ہے
اک بات کہہ رہے ہیں شاعر سبھی غزل کے
اک شعر ہورہا ہے مصرعے بدل بدل کے
××××
مجھ کو شریکِ غم بنا ، اپنا شریکِ حال رکھ
اتنا بھی خود غرض نہ بن ، کچھ تو مرا خیال رکھ
××××
توفیقِ دعا دے تو اثر ساتھ میں دینا
دربازیِ بخشش کی خبر ساتھ میں دینا
××××
ہر تہمتِ غرور و تکبر سے پاک ہیں
ہم اہلِ انکسار کے قدموں کی خاک ہیں
××××
اس بے کل دل کی دھڑکن سے چاہت کا اک تار بندھا ہے
تار بھی کیسا انہونا جو ساگر کے اُس پار بندھا ہے
×××××
اک شخص جو گزرا ہوا قصہ ہے زندگی کا
اب کیا کہیں کہ آج بھی حصہ ہے زندگی کا
×××××
کاش ایسا ہو کوئی بات ضروری رہ جائے
آج پھر اُن سے ملاقات ادھوری رہ جائے
×××××
بولوں تو ساری دنیا اُسے جان جائے گی
اور چپ رہوں تو پھر مری پہچان جائے گی
×××××
مال و متاع ِ درد میں سمجھو نہ کم ہمیں
میراث میں ملے ہیں یہ نسلوں کے غم ہمیں
×××××
ہم سے بڑھ کر تو کو ئی خاک میں کھویا بھی نہ تھا
پھر بھی وہ کاٹ رہے ہیں کہ جو بویا بھی نہ تھا
×××××
رستے طویل ہو گئے یا گھٹ گیا ہے دن
اب تک سفر نہیں کٹا اور کٹ گیا ہے دن
××××
میں کہیں ، یاد کہیں ، خواب کہیں ہے میرا
جو نظر آتا ہے میرا ،وہ نہیں ہے میرا
×××××
نظر میں روشنی رکھنا کسی حوالے کی
چراغِ راہ ضمانت نہیں اجالے کی
××××
کبھی آنکھوں سے کوئی خواب بچھڑ جاتا ہے
صبح کی آس میں مہتاب بچھڑ جاتا ہے
×××××
اب کوئی در ، نہ کوئی راہ گزر دیکھوں گا
ویسے ممکن تو نہیں پھر بھی میں کر دیکھوں گا
××××
شب سرائے میں پہنچ کر مجھے رخصت دے گا
پھر وہی کام سویرے جو مسافت دے گا
××××
ہر سفر اب مجھے ہجرت کا سفر لگتا ہے
گھر کو جاتے ہوئے رستے سے بھی ڈر لگتا ہے
××××
اب تو یہ فیصلہ ہوجائے کدھر جانا ہے
ابھی رستوں میں بھٹکنا ہے کہ گھر جانا ہے
غمِ دوراں سے رہا ہو کے کدھر جانا ہے
اسی زنداں میں ہمیں جینا ہے مرجانا ہے
××××
سنا ہے پھر سے محبت کے ا متحاں ہونگے
جو داغ مٹ گئے دل کے وہ پھر عیاں ہونگے
××××
تہماری زلف کے سائے میں چاند رات کریں
ہماری عید یہی ہے کہ تم سے بات کریں
تمہارے شوخ لبوں سے چرا کے شرماہٹ
گلاب و لالۂ و سنبل کے رنگ مات کریں
××××
گزر رہی ہے تری یاد کی حضوری میں
نشاطِ قرب میسر ہے اتنی دوری میں
×××××
دل جہاں کھویا ، وہیں پندارِ غم بھی کھودیا
برسوں بعد اُس سے ملا تو مل کے میں بھی رودیا
××××
تلاشِ ذات کی منزل تو اک ٹھکانہ ہے
سفر کے بعد مجھے لوٹ کر بھی آنا ہے
آخری تدوین: