Maha Ali Khan
محفلین
کمال بے مثال واہ واہ
بہت عمدہ
کمال بے مثال واہ واہ
بہت شکریہ اعجاز بھائی ! آپ نے بہت ہی درست تبصرہ کیا ہے مشاعروں کی صورتحال پر ۔ماشاء اللہ۔ مکمل غزل نہیں تو کم از کم ایک ایک شعر کا اضافہ اور کر دیں اور ہندوستانی مشاعروں میں آ جائیں۔ یہاں ’ایک مطلع اور ایک شعر‘ یا’ چار مصرعے‘ والے شعراء بہت ہیں!!!
واہ واہ واہ۔۔۔ سبحان اللہ۔۔۔ شاد و آباد رہیں۔ اور بہت شکریہ عنایت فرمانے پر۔اشعارِ قدیمہ کی کھدائی کے دوران یہ چند مطلع برآمد ہوئے ہیں جو کسی غزل کا سرنامہ نہ بن سکے ۔ یہ ٹوٹے پھوٹے اشعار پیشِ خدمت ہیں ۔ شاید ایک آدھ آپ کو پسند آجائے ۔
اک بات کہہ رہے ہیں شاعر سبھی غزل کے
اک شعر ہورہا ہے مصرعے بدل بدل کے
××××
مجھ کو شریکِ غم بنا ، اپنا شریکِ حال رکھ
اتنا بھی خود غرض نہ بن ، کچھ تو مرا خیال رکھ
××××
توفیقِ دعا دے تو اثر ساتھ میں دینا
دربازیِ بخشش کی خبر ساتھ میں دینا
××××
ہر تہمتِ غرور و تکبر سے پاک ہیں
ہم اہلِ انکسار کے قدموں کی خاک ہیں
××××
اس بے کل دل کی دھڑکن سے چاہت کا اک تار بندھا ہے
تار بھی کیسا انہونا جو ساگر کے اُس پار بندھا ہے
×××××
اک شخص جو گزرا ہوا قصہ ہے زندگی کا
اب کیا کہیں کہ آج بھی حصہ ہے زندگی کا
×××××
کاش ایسا ہو کوئی بات ضروری رہ جائے
آج پھر اُن سے ملاقات ادھوری رہ جائے
×××××
بولوں تو ساری دنیا اُسے جان جائے گی
اور چپ رہوں تو پھر مری پہچان جائے گی
×××××
مال و متاع ِ درد میں سمجھو نہ کم ہمیں
میراث میں ملے ہیں یہ نسلوں کے غم ہمیں
×××××
ہم سے بڑھ کر تو کو ئی خاک میں کھویا بھی نہ تھا
پھر بھی وہ کاٹ رہے ہیں کہ جو بویا بھی نہ تھا
×××××
رستے طویل ہو گئے یا گھٹ گیا ہے دن
اب تک سفر نہیں کٹا اور کٹ گیا ہے دن
××××
میں کہیں ، یاد کہیں ، خواب کہیں ہے میرا
جو نظر آتا ہے میرا ،وہ نہیں ہے میرا
×××××
نظر میں روشنی رکھنا کسی حوالے کی
چراغِ راہ ضمانت نہیں اجالے کی
××××
کبھی آنکھوں سے کوئی خواب بچھڑ جاتا ہے
صبح کی آس میں مہتاب بچھڑ جاتا ہے
×××××
اب کوئی در ، نہ کوئی راہ گزر دیکھوں گا
ویسے ممکن تو نہیں پھر بھی میں کر دیکھوں گا
××××
شب سرائے میں پہنچ کر مجھے رخصت دے گا
پھر وہی کام سویرے جو مسافت دے گا
××××
ہر سفر اب مجھے ہجرت کا سفر لگتا ہے
گھر کو جاتے ہوئے رستے سے بھی ڈر لگتا ہے
××××
اب تو یہ فیصلہ ہوجائے کدھر جانا ہے
ابھی رستوں میں بھٹکنا ہے کہ گھر جانا ہے
غمِ دوراں سے رہا ہو کے کدھر جانا ہے
اسی زنداں میں ہمیں جینا ہے مرجانا ہے
××××
سنا ہے پھر سے محبت کے ا متحاں ہونگے
جو داغ مٹ گئے دل کے وہ پھر عیاں ہونگے
××××
تہماری زلف کے سائے میں چاند رات کریں
ہماری عید یہی ہے کہ تم سے بات کریں
تمہارے شوخ لبوں سے چرا کے شرماہٹ
گلاب و لالۂ و سنبل کے رنگ مات کریں
××××
گزر رہی ہے تری یاد کی حضوری میں
نشاطِ قرب میسر ہے اتنی دوری میں
×××××
دل جہاں کھویا ، وہیں پندارِ غم بھی کھودیا
برسوں بعد اُس سے ملا تو مل کے میں بھی رودیا
××××
تلاشِ ذات کی منزل تو اک ٹھکانہ ہے
سفر کے بعد مجھے لوٹ کر بھی آنا ہے
نظر میں روشنی رکھنا کسی حوالے کی
چراغِ راہ ضمانت نہیں اجالے کی
اکثر مطلعے اتنے اچھے ہیں کہ پوری غزل کی خواہش پیدا ہوتی ہے ۔صرف چکھائیں نہیں، ہمیں سیر ہونا ہےاشعارِ قدیمہ کی کھدائی کے دوران یہ چند مطلع برآمد ہوئے ہیں جو کسی غزل کا سرنامہ نہ بن سکے ۔ یہ ٹوٹے پھوٹے اشعار پیشِ خدمت ہیں ۔ شاید ایک آدھ آپ کو پسند آجائے ۔
اک بات کہہ رہے ہیں شاعر سبھی غزل کے
اک شعر ہورہا ہے مصرعے بدل بدل کے
××××
مجھ کو شریکِ غم بنا ، اپنا شریکِ حال رکھ
اتنا بھی خود غرض نہ بن ، کچھ تو مرا خیال رکھ
××××
توفیقِ دعا دے تو اثر ساتھ میں دینا
دربازیِ بخشش کی خبر ساتھ میں دینا
××××
ہر تہمتِ غرور و تکبر سے پاک ہیں
ہم اہلِ انکسار کے قدموں کی خاک ہیں
××××
اس بے کل دل کی دھڑکن سے چاہت کا اک تار بندھا ہے
تار بھی کیسا انہونا جو ساگر کے اُس پار بندھا ہے
×××××
اک شخص جو گزرا ہوا قصہ ہے زندگی کا
اب کیا کہیں کہ آج بھی حصہ ہے زندگی کا
×××××
کاش ایسا ہو کوئی بات ضروری رہ جائے
آج پھر اُن سے ملاقات ادھوری رہ جائے
×××××
بولوں تو ساری دنیا اُسے جان جائے گی
اور چپ رہوں تو پھر مری پہچان جائے گی
×××××
مال و متاع ِ درد میں سمجھو نہ کم ہمیں
میراث میں ملے ہیں یہ نسلوں کے غم ہمیں
×××××
ہم سے بڑھ کر تو کو ئی خاک میں کھویا بھی نہ تھا
پھر بھی وہ کاٹ رہے ہیں کہ جو بویا بھی نہ تھا
×××××
رستے طویل ہو گئے یا گھٹ گیا ہے دن
اب تک سفر نہیں کٹا اور کٹ گیا ہے دن
××××
میں کہیں ، یاد کہیں ، خواب کہیں ہے میرا
جو نظر آتا ہے میرا ،وہ نہیں ہے میرا
×××××
نظر میں روشنی رکھنا کسی حوالے کی
چراغِ راہ ضمانت نہیں اجالے کی
××××
کبھی آنکھوں سے کوئی خواب بچھڑ جاتا ہے
صبح کی آس میں مہتاب بچھڑ جاتا ہے
×××××
اب کوئی در ، نہ کوئی راہ گزر دیکھوں گا
ویسے ممکن تو نہیں پھر بھی میں کر دیکھوں گا
××××
شب سرائے میں پہنچ کر مجھے رخصت دے گا
پھر وہی کام سویرے جو مسافت دے گا
××××
ہر سفر اب مجھے ہجرت کا سفر لگتا ہے
گھر کو جاتے ہوئے رستے سے بھی ڈر لگتا ہے
××××
اب تو یہ فیصلہ ہوجائے کدھر جانا ہے
ابھی رستوں میں بھٹکنا ہے کہ گھر جانا ہے
غمِ دوراں سے رہا ہو کے کدھر جانا ہے
اسی زنداں میں ہمیں جینا ہے مرجانا ہے
××××
سنا ہے پھر سے محبت کے ا متحاں ہونگے
جو داغ مٹ گئے دل کے وہ پھر عیاں ہونگے
××××
تہماری زلف کے سائے میں چاند رات کریں
ہماری عید یہی ہے کہ تم سے بات کریں
تمہارے شوخ لبوں سے چرا کے شرماہٹ
گلاب و لالۂ و سنبل کے رنگ مات کریں
××××
گزر رہی ہے تری یاد کی حضوری میں
نشاطِ قرب میسر ہے اتنی دوری میں
×××××
دل جہاں کھویا ، وہیں پندارِ غم بھی کھودیا
برسوں بعد اُس سے ملا تو مل کے میں بھی رودیا
××××
تلاشِ ذات کی منزل تو اک ٹھکانہ ہے
سفر کے بعد مجھے لوٹ کر بھی آنا ہے
یہ تو ابن انشاء کی شاعری جیسا لگ رہا ہے۔اس بے کل دل کی دھڑکن سے چاہت کا اک تار بندھا ہے
تار بھی کیسا انہونا جو ساگر کے اُس پار بندھا ہے
ایک سے بڑھ کر ایک۔ بہت داداشعارِ قدیمہ کی کھدائی کے دوران یہ چند مطلع برآمد ہوئے ہیں جو کسی غزل کا سرنامہ نہ بن سکے ۔ یہ ٹوٹے پھوٹے اشعار پیشِ خدمت ہیں ۔ شاید ایک آدھ آپ کو پسند آجائے ۔
اک بات کہہ رہے ہیں شاعر سبھی غزل کے
اک شعر ہورہا ہے مصرعے بدل بدل کے
××××
مجھ کو شریکِ غم بنا ، اپنا شریکِ حال رکھ
اتنا بھی خود غرض نہ بن ، کچھ تو مرا خیال رکھ
××××
توفیقِ دعا دے تو اثر ساتھ میں دینا
دربازیِ بخشش کی خبر ساتھ میں دینا
××××
ہر تہمتِ غرور و تکبر سے پاک ہیں
ہم اہلِ انکسار کے قدموں کی خاک ہیں
××××
اس بے کل دل کی دھڑکن سے چاہت کا اک تار بندھا ہے
تار بھی کیسا انہونا جو ساگر کے اُس پار بندھا ہے
×××××
اک شخص جو گزرا ہوا قصہ ہے زندگی کا
اب کیا کہیں کہ آج بھی حصہ ہے زندگی کا
×××××
کاش ایسا ہو کوئی بات ضروری رہ جائے
آج پھر اُن سے ملاقات ادھوری رہ جائے
×××××
بولوں تو ساری دنیا اُسے جان جائے گی
اور چپ رہوں تو پھر مری پہچان جائے گی
×××××
مال و متاع ِ درد میں سمجھو نہ کم ہمیں
میراث میں ملے ہیں یہ نسلوں کے غم ہمیں
×××××
ہم سے بڑھ کر تو کو ئی خاک میں کھویا بھی نہ تھا
پھر بھی وہ کاٹ رہے ہیں کہ جو بویا بھی نہ تھا
×××××
رستے طویل ہو گئے یا گھٹ گیا ہے دن
اب تک سفر نہیں کٹا اور کٹ گیا ہے دن
××××
میں کہیں ، یاد کہیں ، خواب کہیں ہے میرا
جو نظر آتا ہے میرا ،وہ نہیں ہے میرا
×××××
نظر میں روشنی رکھنا کسی حوالے کی
چراغِ راہ ضمانت نہیں اجالے کی
××××
کبھی آنکھوں سے کوئی خواب بچھڑ جاتا ہے
صبح کی آس میں مہتاب بچھڑ جاتا ہے
×××××
اب کوئی در ، نہ کوئی راہ گزر دیکھوں گا
ویسے ممکن تو نہیں پھر بھی میں کر دیکھوں گا
××××
شب سرائے میں پہنچ کر مجھے رخصت دے گا
پھر وہی کام سویرے جو مسافت دے گا
××××
ہر سفر اب مجھے ہجرت کا سفر لگتا ہے
گھر کو جاتے ہوئے رستے سے بھی ڈر لگتا ہے
××××
اب تو یہ فیصلہ ہوجائے کدھر جانا ہے
ابھی رستوں میں بھٹکنا ہے کہ گھر جانا ہے
غمِ دوراں سے رہا ہو کے کدھر جانا ہے
اسی زنداں میں ہمیں جینا ہے مرجانا ہے
××××
سنا ہے پھر سے محبت کے ا متحاں ہونگے
جو داغ مٹ گئے دل کے وہ پھر عیاں ہونگے
××××
تہماری زلف کے سائے میں چاند رات کریں
ہماری عید یہی ہے کہ تم سے بات کریں
تمہارے شوخ لبوں سے چرا کے شرماہٹ
گلاب و لالۂ و سنبل کے رنگ مات کریں
××××
گزر رہی ہے تری یاد کی حضوری میں
نشاطِ قرب میسر ہے اتنی دوری میں
×××××
دل جہاں کھویا ، وہیں پندارِ غم بھی کھودیا
برسوں بعد اُس سے ملا تو مل کے میں بھی رودیا
××××
تلاشِ ذات کی منزل تو اک ٹھکانہ ہے
سفر کے بعد مجھے لوٹ کر بھی آنا ہے
بہت شکریہ احمد محمد بھائی ! نوازش!واہ واہ واہ۔۔۔ سبحان اللہ۔۔۔ شاد و آباد رہیں۔ اور بہت شکریہ عنایت فرمانے پر۔
ظہیر بھائی! میں تو کہتا ہوں آپ کو مکمل غزل لکھنے کی ضرورت ہی کیا ہے؟ ہر شعر خود میں ایک جامع بیان ہے۔
آداب، آداب! بہت شکریہ بھائی ۔ بہت دنوں بعد آپ سے مخاطبت کا شرف حاصل ہورہا ہے ۔ اللہ آپ کو ہمیشہ شاد و آباد رکھے ۔واہ واہ ظہیر بھائی۔ بہت خوب مطلع ہیں،
اور کیا بات ہے کہ!
بہت شکریہ فاخر بھائی ۔ خوبصورتی تو دیکھنے والی آنکھ میں ہوتی ہے ۔بہت اعلیٰ معیار ہے سر
خدا آپ کو سلامت رکھے
بہت شکریہ ، بڑی نوازش! افسوس یہ مطلع غزل نہ بن پائے ۔ ایک آدھ اشعار ہوئے لیکن پھر نہ وہ کیفیت رہی اور نہ وہ فضا ۔ سو ان مطالع کو اسی طرح مفرد ابیات کی شکل میں رہنے دیا ۔اکثر مطلعے اتنے اچھے ہیں کہ پوری غزل کی خواہش پیدا ہوتی ہے ۔صرف چکھائیں نہیں، ہمیں سیر ہونا ہے
پہلی والی بات سے تو نہیں البتہ نہ ہونے والی بات سے ایک سوایک فیصد متفق ہوں ۔شاعِر ہو تو ایسا ہو، یا پھِر نہ ہو۔
نہیں تو ، بخدا میرے اپنے ہیں ۔کمال کے اشعار
بہت شکریہ خواہرم ! آپ تو ہمیشہ ہی قدر افزائی کرتی ہیں ۔ اللہ آپ کو سلامت رکھے ، شاد و آباد رکھے! آمینزبردست اشعار۔
ایک شعر اپنی مکمل حیثیت رکھتا ہے۔ ہمیں تو ایسے بھی اچھے لگ رہے ہیں۔
ابن انشاء کو نو عمری میں بہت پڑھا ۔ لاشعوری طور پر کہیں نہ کہیں رنگ جھلک جاتا ہے ۔ ایک دور میں ابنِ انشاء کے ہم عصر جمیل الدین عالی کی طرز پر دوہے بھی لکھے تھے ۔ اس میں دوہے کا رنگ بھی نمایاں ہے ۔یہ تو ابن انشاء کی شاعری جیسا لگ رہا ہے۔
بہت بہت شکریہ مقبول بھائی ! اللہ آپ کو خوش رکھے!ایک سے بڑھ کر ایک۔ بہت داد
ہم بھی اس دوسری والی بات سے متفق ہیں۔۔۔۔پہلی والی بات سے تو نہیں البتہ نہ ہونے والی بات سے ایک سوایک فیصد متفق ہوں
بہت بہت شکریہ عاطف بھائی ! بہت ممنون ہوں قدر افزائی پر ۔ اللہ آپ کو خوش رکھے!بہت خوب ظہیر بھائی۔۔۔۔۔۔ہر مطلع کی الگ الگ داد بنتی ہے۔
ماشااللہ
بہت شکریہ خواہرم ! بہت ممنون ہوں ۔ اللہ کریم آپ کو خوش رکھے!کیا کہنے!
خوب اشعار ہیں ظہیر بھیا!
واہ۔۔۔۔ہر سفر اب مجھے ہجرت کا سفر لگتا ہے
گھر کو جاتے ہوئے رستے سے بھی ڈر لگتا ہے
کیا بات ہے۔۔۔اب تو یہ فیصلہ ہوجائے کدھر جانا ہے
ابھی رستوں میں بھٹکنا ہے کہ گھر جانا ہے
ہائے۔۔۔ کمال کر دیا۔۔۔تمہارے شوخ لبوں سے چرا کے شرماہٹ
گلاب و لالۂ و سنبل کے رنگ مات کریں
واہ واہ۔۔۔گزر رہی ہے تری یاد کی حضوری میں
نشاطِ قرب میسر ہے اتنی دوری میں
یہ شعر ڈاکٹر عبدالحئی صاحب رحمہ اللہ کا ہے، ان کے مجموعہ کلام صہبائے سخن کو پڑھتے ہوئے منتخب کیا تھا۔بہت شکریہ خواہرم ! بہت ممنون ہوں ۔ اللہ کریم آپ کو خوش رکھے!
آپ کے دستخط میں جو شعر درج ہے وہ بہت اچھا ہے ۔ یہ کس کا شعر ہے؟
نظر میں روشنی رکھنا کسی حوالے کی
چراغِ راہ ضمانت نہیں اجالے کی