فاتح
لائبریرین
خاکسار کی ایک تازہ غزل احباب کی بصارتوں کی نذر:
حُسن ایسا کہ تجلّی کو مچلتا دیکھوں
نُور سا نُور درِ طُور مَیں ڈھلتا دیکھوں
اس کے قامت سے قیامت پہ بھی آ جائےقیام
گرمیِ دید سے ہر سنگ پگھلتا دیکھوں
وہ تصوّر کہ سمائے نہ کسی کون و مکاں
پیرہن رنگ کروں، نقش بدلتا دیکھوں
کائناتوں کا سفر کیسے ہو لمحوں پہ محیط
خواب در خواب فقط عشق کو چلتا دیکھوں
دُودِ ہستی نے بنایا ہے عجب عکسِ وجود
خود کو اپنی ہی حدوں سے میں نکلتا دیکھوں
جتنا دامن کو جھٹکتا ہوں، گریزاں اس سے
بُوئے گُل ہے کہ اسے ساتھ ہی چلتا دیکھوں
کوئی ہے، جو مجھے مجھ سے بھی بچائے، پَل پَل
گرتے گرتے بھی ہر اک گام سنبھلتا دیکھوں
(فاتح الدین بشیرؔ)
نُور سا نُور درِ طُور مَیں ڈھلتا دیکھوں
اس کے قامت سے قیامت پہ بھی آ جائےقیام
گرمیِ دید سے ہر سنگ پگھلتا دیکھوں
وہ تصوّر کہ سمائے نہ کسی کون و مکاں
پیرہن رنگ کروں، نقش بدلتا دیکھوں
کائناتوں کا سفر کیسے ہو لمحوں پہ محیط
خواب در خواب فقط عشق کو چلتا دیکھوں
دُودِ ہستی نے بنایا ہے عجب عکسِ وجود
خود کو اپنی ہی حدوں سے میں نکلتا دیکھوں
جتنا دامن کو جھٹکتا ہوں، گریزاں اس سے
بُوئے گُل ہے کہ اسے ساتھ ہی چلتا دیکھوں
کوئی ہے، جو مجھے مجھ سے بھی بچائے، پَل پَل
گرتے گرتے بھی ہر اک گام سنبھلتا دیکھوں
(فاتح الدین بشیرؔ)