حضرت ابراہیم علیہ السلام

حضرت ابراہیم {ع} نے اللہ کی طرف سے مانگی اس قربانی کو اپنے بیٹے کے سامنے رکھتے ہوئے کہا " اے میرے پیارے بیٹے ! میں خواب میں دیکھتا ہوں کہ میں تجھے ذبح کر رہا ہوں ۔ پس تیرا کیا خیال ہے ؟ "
اسماعیل {ع} نے جواب دیا " اے میرے ابا ! جس کا آپ کو حکم کیا گیا ہے ، آپ کر ڈالئے ۔ انشاءاللہ آپ مجھ کو صابرین میں سے پائیں گے "
حضرت اسماعیل {ع} کی یہ فرمانبرداری اپنے والد اور اپنے پروردگار کا حکم ماننے کی بہترین مثال ہے ۔
فَلَمَّآ اَسْلَمَا وَتَلَّ۔هٝ لِلْجَبِيْنِ ( 103 ) کی تفسیر کے دو حصے ہیں
ایک تو یہ ہے کہ دونوں تابعدار ہوگئے اور اس قربانی کا عزم کرلیا اور دونوں نے سر تسلیم خم کردیا
دوسرا حصہ میں ہے کہ ابراہیم {ع} نے اسماعیل {ع} کو منہ کے بل لٹا دیا تاکہ گدی کی طرف سے ذبح فرمائیں اور ایسا کرتے وقت اسماعیل {ع} کا چہرہ نہ دیکھ سکیں اور کہیں باپ کی محبت نہ جاگ جائے
ابن عباس {رض} ، مجاہد {رح} ، سعید بن جبیر {رح} ، قتادہ {رح} اور ضحاک {رح} کا یہی قول ہے
لیکن دوسرا قول یہ بھی مروی ہے کہ اسماعیل {ع} کو اسی طرح لٹایا تھا جس طرح کے عام قربانی کے جانور کو لٹایا جاتا ہے
سدی {رح} فرماتے ہیں کہ ابراہیم {ع} نے چھری اسماعیل {ع} کے حلق پر چلائی ۔ لیکن چھری نے کچھ خراش تک نہ لگائی ۔ کہا جاتا ہے کہ چھری اور اسماعیل {ع} کی گردن کے درمیان کانسی کی سطح قائم ہوگئی تھی ۔ واللہ اعلم
تو ایسے وقت میں اللہ کی طرف سے ابراہیم {ع} کو آواز دی گئی کہ " اے ابراہیم ! بےشک تو نے اپنا خواب سچ کر دکھایا ، بےشک اسی طرح ہم بھی محسنین کو اچھا بدلہ دیتے ہیں " یعنی تیری فرمانبرداری کا جو امتحان مقصود تھا وہ پورا ہوگیا اور تم اس میں کامیاب ہوئے اور تم نے اس حکم کی اطاعت بہت جلدی کی اور اسی طرح تیرے بیٹے نے بھی بہت ہی عمدہ قربانی پیش کی کہ اپنے جسم و جان کو میری راہ میں ذبح ہونے کے لیے بےدریغ پیش کیا ۔ ۔ ۔ بےشک یہ تجھ پر ایک کھلی اور عظیم آزمائش تھی ۔
 
حضرت ابراہیم {ع} نے تو اپنی طرف سے اپنے بیٹے کی بازی لگا دی لیکن اللہ نے ابراہیم {ع} کو ان کے بیٹے کی قربانی کے بجائے ایک دوسرا جانور عطا فرما دیا ۔ جمہور سے یہ مشہور ہے کہ وہ مینڈھا تھا ۔ جس کا سفید رنگ ، عمدہ آنکھیں اور وہ سینگوں والا تھا ۔ کہتے ہیں ابراہیم {ع} نے اس کو مقام ثبیر میں ببول کے درخت کے ساتھ بندھا دیکھا تھا ۔ واللہ اعلم
عبداللہ بن عباس {رض} سے مروی ہے کہ اس مینڈھے نے جنت میں چالیس سال چرا تھا
سعید بن جبیر {رح} فرماتے ہیں کہ وہ جنت میں چرتا تھا ، حتی کہ وہ ثبیر میں آیا اور اس پر سرخی رنگ کا اوون تھا
ابن ابی حاتم روایت کرتے ہیں کہ ابن عباس {رض} سے مروی ہے وہ مینڈھا کوہ ثبیر سے اتر کر ابراہیم [ع} کی طرف آیا ، وہ عمدہ آنکھوں اور سینگوں والا تھا اور ممیاتا ہوا نیچے اترا اور یہ وہ ہی مینڈھا تھا جس کی قربانی حضرت ہابیل نے دی تھی اور اللہ نے اسے قبول فرمایا تھا
مجاہد {رح} فرماتے ہیں ابراہیم {ع} نے اس مینڈھے کو مقام منی میں ذبح فرمایا تھا ۔ جبکہ عبید بن عمیر {رح} مقام ابراہیم پر ذبح کرنا فرماتے ہیں ۔
حسن {رح} سے مروی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ جانور ایک پہاڑی بکرا تھا ، جس کا نام جریر تھا مگر معلوم ہوتا ہے کہ ان سے یہ صحیح مروی نہیں ہے
واللہ اعلم
 
جو یہاں اقوال مذکور ہیں وہ اکثر اسرائیلی روایتوں سے مذکور ہیں ۔ اور قرآنی رو سے جو معلوم ہوتا ہے وہ ہی کافی ہے کہ یہ قربانی ابراہیم {ع} کا عظیم کام تھا اور ایک کٹھن امتحان تھا ۔ پھر ابراہیم {ع} نے اللہ کے فضل سے مینڈھے کی قربانی دی اور حدیث کی رو سے بھی وہ جانور مینڈھا تھا
مسند احمد میں بنوسلیم کی ایک خاتون جس نے بنوشیبہ کے اکثر بچوں کی پیدائش کے وقت دائی کا کام کیا تھا ، سے مروی ہے کہ نبی {ص} نے عثمان بن طلحہ کو قاصد کے ذریعے بلایا ، یا یہ کہ خود انہوں نے عثمان سے پوچھا کہ نبی {ص} نے تمہیں کیوں بلایا تھا ؟ انہوں نے جواب دیا کہ نبی {ص} نے فرمایا میں جب بیت اللہ میں داخل ہوا تھا تو میں نے مینڈھے کے دو سینگ وہاں دیکھے تھے ، میں تمہیں یہ کہنا بھول گیا تھا کہ انہیں ڈھانپ دو ، لہذا اب جا کر انہیں ڈھانپ دینا کیونکہ بیت اللہ میں کسی ایسی چیز کا ہونا مناسب نہیں ہے جو نماز کو غافل کردے ، راوی کہتے ہیں کہ وہ دونوں سینگ خانہ کعبہ میں ہی رہے ، اور جب بیت اللہ کو آگ لگی تو وہ بھی جل گئے ( مسند احمد ۔ جلد ششم ۔ حدیث 2445 )
اسی طرح ابن عباس {رض} سے بھی مروی ہے کہ مینڈھے کا سر ہمیشہ سے کعبے کے پرنالے کے پاس لٹکا رہتا تھا اور وہ خشک ہوچکا تھا ۔
واللہ اعلم
 
ابراہیم {ع} کے دو بیٹے تھے ، ایک اسماعیل {ع} اور دوسرے اسحاق {ع} ۔
یہود کا گمان ہے کہ اللہ کی راہ میں قربان ہونے والے اسحاق {ع} ہیں ۔ ان کے قول کے مطابق اللہ نے ابراہیم {ع} کو اسحاق {ع} کے ذبح کا حکم فرمایا ، تورات میں بھی لفظ اسحاق آیا ہے
اور یہ بات کہ وہ اسحاق {ع} ہی تھے اس بات کو بھی دلیل بناتے ہیں کہ جب ذبح کرنے کا حکم آیا تھا تو اس وقت ان کا بیٹا ان کے ہمراہ چلنے پھرنے لگا تھا یعنی ان کے ساتھ رہتا تھا جبکہ اسماعیل {ع} تو اپنی والدہ کے ساتھ سکونت پذیر تھے ، وہ ابراہیم {ع} کے پاس نہ تھے
لیکن مسلمان اہل علم کہتے ہیں کہ ذبیح اللہ سماعیل {ع} ہیں اور تورات میں لفظ اسحاق تحریف شدہ ہے اوراس کا اضافہ جھوٹ اور بہتان ہے
اہل کتاب کو اس بات پر عرب سے حسد نے ابھارا ہے ۔ کیونکہ اسماعیل {ع} عرب کے باپ ہیں ۔ وہ عرب جو حجاز مقدس میں رہتے تھے ۔ اور ان ہی میں سے ہمارے نبی محمد {ص} ہیں
چونکہ اسحاق {ع} یعقوب {ع} کے والد ہیں اور یعقوب {ع} کا لقب اسرائیل تھا جس کی طرف بنی اسرائیل منسوب ہیں تو اس لئے بنی اسرائیل نے چاہا کہ یہ شرف و مرتبہ اپنی طرف کھینچ لیں ۔ پھر اس مذموم مقصد کے حصول کی خاطر انہوں نے اللہ کی کتاب کو بھی بدل ڈالا ۔ اور اس میں اپنی طرف سے زیادتی کی ۔ قوم بنی اسرائیل بہتان باندھنے والی جھوٹی قوم ہے جو اپنے حسد کی بناء پر یہ اقرار نہیں کرتی کہ فضل و شرف اللہ کے ہاتھ میں ہے اور وہ جسے چاہے عطا فرمائے ۔
 
قرآن پاک میں اللہ تعالی فرماتا ہے " اور اس کی عورت کھڑی تھی تب وہ ہنس پڑی پھر ہم نے اسے اسحاق کے پیدا ہونے کی خوشخبری دی ، اور اسحاق کے بعد یعقوب کی ( سورۃ ھود 71 ) "
حضرت قعب قرظی {رح} نے اس آیت سے بہت بہترین استدلال نکالا ہے کہ جب اللہ نے ابراہیم {ع} کو اسحاق {ع} کی پیدائش سے پہلے ہی اسحاق {ع} کی خوشخبری اور اس کے بعد اسحاق{ع} سے یعقوب [ع} کی خوشخبری یعنی بیٹے کی پیدائش سے پہلے ہی پوتے کی پیدائش کی خوشخبری دے دی تو پھر اسحاق {ع} کی قربانی کا حکم ابراہیم {ع} کے لیے آزمائش ہی نہیں رہی کیونکہ ابراہیم {ع} کو پہلے علم ہوچکا تھا کہ ابھی اسحاق سے یعقوب کا جنم لینا باقی ہے لہذا اسحاق ذبح نہیں ہونگے ۔ تو اس بات سے بخوبی معلوم ہوجاتا ہے کہ ذبیح اللہ اسماعیل {ع} ہیں نہ کہ یعقوب {ع}
اس کے باوجود بعض سلف اس بات کے قائل ہیں کہ ذبیح اللہ اسحاق {ع} تھے ۔ یہاں تک کہ بعض صحابہ اکرام {رض} سے بھی یہ مروی ہے اس بات کو انہوں نے یا تو کعب احبار سے نقل کیا ہے یا تو اہل کتاب کے صحیفوں سے لیا ہے
اللہ کی راہ میں ذبح ہونے والے کون تھے ؟
واللہ اعلم
 
قرآن کی سورۃ الصافات میں ہے اللہ تعالی فرماتا ہے ۔ ۔ ۔
اور ہم نے اسے اسحاق کی بشارت دی کہ وہ نبی نیک لوگوں میں سے ہوگا ( 112 )
اور ہم نے ابراہیم اور اسحاق پر برکتیں نازل کیں ، اور ان کی اولاد میں سے کوئی نیک بھی ہیں اور کوئی اپنے آپ پر کھلم کھلا ظلم کرنے والے ہیں ( 113 )
قرآن کی سورۃ ھود میں ہے اللہ تعالی فرماتا ہے ۔ ۔ ۔
اور ہمارے بھیجے ہوئے ابراہیم کے پاس خوشخبری لے کر آئے ، انہوں نے کہا سلام ، اس نے کہا سلام ، پس دیر نہ کی کہ ایک بھنا ہوا بچھڑا لے آیا ( 69 )
پھر جب دیکھا کہ ان کے ہاتھ اس تک نہیں پہنچتے تو انہیں اجنبی سمجھا اور ان سے ڈرا ، انہوں نے کہا خوف نہ کرو ہم تو لوط کی قوم کی طرف بھیجے گئے ہیں ( 70 )
اور اس کی عورت کھڑی تھی تب وہ ہنس پڑی پھر ہم نے اسے اسحاق کے پیدا ہونے کی خوشخبری دی ، اور اسحاق کے بعد یعقوب کی ( 71 )
وہ بولی اے افسوس کیا میں بوڑھی ہو کر جنوں گی اور یہ میرا خاوند بھی بوڑھا ہے ، یہ تو ایک عجیب بات ہے ( 72 )
انہوں نے کہا کیا تو اللہ کے حکم سے تعجب کرتی ہے ، تم پر اے گھر والو اللہ کی رحمت اور اس کی برکتیں ہیں ، بے شک وہ تعریف کیا ہوا بزرگ ہے ( 73 )
قرآن کی سورۃ الحجر میں ہے اللہ تعالی فرماتا ہے ۔ ۔ ۔
اور انہیں ابراہیم کے مہمانوں کا حال سنا دو ( 51 )
جب اس کے گھر میں داخل ہوئے اور کہا سلام ، اس نے کہا بے شک ہمیں تم سے ڈر معلوم ہوتا ہے ( 52 )
کہا ڈرو مت بے شک ہم تمہیں ایک لڑکے کی خوشخبری سناتے ہیں جو بڑا عالم ہوگا ( 53 )
کہا مجھے اب بڑھاپے میں خوشخبری سناتے ہو ، سو کس چیز کی خوشخبری سناتے ہو ( 54 )
انہوں نے کہا ہم نے تمہیں سچی خوشخبری سنائی ہے سو تو نا امید نہ ہو ( 55 )
کہا اپنے رب کی رحمت سے نا امید تو گمراہ لوگ ہی ہوا کرتے ہیں ( 56 )
 
یہ تین فرشتے تھے ۔ جبرائیل ، میکائیل اور اسرافیل {ع} ۔ جب یہ حضرت ابراہیم {ع} کے پاس تشریف لائے تو ابراہیم {ع} نے دیکھتے ہی ان کو مہمان سمجھا ۔ لہذا پھر ان کے ساتھ مہمانوں والا برتاؤ اور خاطر تواضع شروع کردی ۔ اور اپنی گایوں میں سے ایک بہترین عندہ موٹا بچھڑا ان کے لیے ذبح کیا ۔ لیکن ابراہیم {ع} نے دیکھا کہ ان کا تو کھانا کھانے کا کوئی ارادہ ہی نہیں ہے ۔ تو ابراہیم {ع} نے ان سے خوف محسوس کیا کہ کہیں یہ دشمن تو نہیں کیونکہ دشمن ایک دوسرے کا کھانا نہیں کھاتے تھے ۔ فرشتوں نے ابراہیم {ع} کی اس کیفیت کو بھانپ لیا اور کہا " خوف نہ کیجئے ، ہم تو فرشتے ہیں اور قوم لوط کی طرف بھیجے گئے ہیں ۔ تاکہ ان پر عذاب برسائیں "
اس وقت سارہ {ع} بھی وہیں کھڑی تھیں ۔ جیسا کہ عرب کے یہاں مہمانوں کے ساتھ اس وقت کا رواج تھا ۔ جب سارہ {ع} نے عذاب کی خبر سنی تو ان پر خوف کی کیفیت طاری ہوگئی ۔ اور منہ سے بےساختہ ایک عجیب سی آواز نکلی ۔ جس پر فرشتوں نے ان کا خوف ختم کرنے کے لیے اللہ کے حکم سے اسحاق {ع} کی خوشخبری اور اسحاق کے بعد یعقوب {ع} کی خوشخبری سنائی ۔ ہاجری {ع} مزید تعجب میں آگئیں
اور کہنے لگیں " ہائے افسوس کیا اب میں کسی اولاد کو جنم دونگی جبکہ میں بوڑھی ہوچکی ہوں اور میرے شوہر بھی بوڑھے ہوچکے ہیں " یعنی ان کا مطلب تھا ایک تو میں بڑھیا اور میرے شوہر بھی بوڑھے اوپر سے میں بانجھ بھی ہوں تو کیسے مجھے اولاد ہوگی ، یہ بات تو میرے لیے تعجب والی ہے
اس پر فرشتے بولے " کیا تو اللہ کے حکم سے تعجب کرتی ہے ؟ ۔ جبکہ اے نبی کے گھر والوں تم پر اللہ کی رحمتیں اور برکتیں اترتی رہتی ہیں ۔ بےشک اللہ تعریف کے لائق ہے ، وہ بزرگی والا ہے اور اس کے لیے کوئی کام مشکل نہیں "
 
ان خوشخبریوں پر جیسے سارہ {ع} تعجب میں آئیں ویسے ہی ابراہیم {ع} کو بھی تعجب میں آنا ہی تھا ۔ وہ بھی فرشتوں سے بول اٹھے " جس اولاد کی میں نے تمنا اور دعائیں کی تھیں کیا تم مجھے اس کی خوشخبری دیتے ہو جبکہ مجھے بڑھاپا پہنچ گیا ہے ، پھر کس چیز کی خوشخبری دے رہے ہو ؟ "
فرشتوں نے جواب دیا " ہم آپ کو حق کے ساتھ خوشخبری دے رہے ہیں لہذا آپ مایوس ہونے والوں میں سے نہ ہوں "
اس طرح فرشتوں کے جواب نے ابراہیم {ع} کو مزید مضبوط کردیا ۔ دونوں میاں بیوی کو بچے کی خوشخبری نے سرشار کردیا ۔ ابراہیم {ع} اس خبر کو سن کر سجدہ ریز ہوگئے
جیسا کہ قرآن ہی میں ایک اور جگہ آتا ہے کہ اللہ نے پہلے اسحاق کے پیدا ہونے کی خوشخبری دی ، اور اسحاق کے بعد یعقوب کی بھی دی جس سے بخوبی علم ہوتا ہے کہ ابراہیم {ع} اور سارہ {ع} اپنے بیٹے اسحاق {ع} سے نفع اٹھائیں گے جس کے بعد اسحاق کے یہاں یعقوب {ع} جنم لیں گے ۔ وہ ان سے یعنی اپنے پوتے سے بھی نفع اٹھائیں گے ۔
اسحاق اور یعقوب ان کی آنکھوں کی ٹھنڈک ہونگے ۔
" پھر جب علیحدہ ہوا ان سے اور اس چیز سے جنہیں وہ اللہ کے سوا پوجتے تھے ہم نے اسے اسحاق اور یعقوب عطا کیا ، اور ہم نے ہر ایک کو نبی بنایا ( سورۃ مریم 49 ) "
اس بات کی تائید اس حدیث سے بھی ہوتی ہے
صحيح البخاری میں ہے ابوذر {رض} نے نبی اپک {ص} سےعرض کیا : یا رسول اللہ ! سب سے پہلے روئے زمین پر کون سی مسجد بنی ہے ؟ آپ {ص} نے فرمایا کہ مسجد الحرام ۔ انہوں نے عرض کیا کہ اور اس کے بعد ؟ ۔ فرمایا کہ مسجد الاقصی ( بیت المقدس ) ۔ انہوں نے عرض کیا ، ان دونوں کی تعمیر کے درمیان کتنا فاصلہ رہا ہے ؟ ۔ آپ {ص} نے فرمایا کہ چالیس سال ۔ پھر فرمایا اب جہاں بھی تجھ کو نماز کا وقت ہو جائے وہاں نماز پڑھ لے ۔ بڑی فضیلت نماز پڑھنا ہے ۔
اور اہل کتاب کا کہنا ہے کہ بیت المقدس کی بنیاد یعقوب {ع} نے رکھی ۔
تو اس سے معلوم ہوا ابراہیم {ع} کے کعبتہ اللہ بنانے کے چالیس سال بعد ان کے پوتے نے بیت المقدس کی بنیاد رکھی ۔ ظاہر یہی ہے کہ یعقوب {ع} ابراہیم {ع} کی زندگی ہی میں پیدا ہوئے تھے ۔
 
اللہ اپنے بندے ، اپنے رسول ۔ اپنے دوست ، موحدین کے امام ، انبیاء کے والد ماجد یعنی ابراہیم {ع} کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ انہوں نے قدیم گھر کی تعمیر فرمائی جس کو تمام لوگوں کے فائدے کے واسطے سب سے پہلی مسجد و گھر ہونے کا شرف حاصل ہے تاکہ لوگ آئیں اور اس میں اپنے معبود برحق کی پرستش کریں ۔ اور ابراہیم {ع} کو اس گھر کی تعمیر کا حکم اور رہنمائی اور اس کو بنانے میں مدد سب اللہ عزوجل کی طرف سے حاصل ہوئی
قرآن کی سورۃ الحج میں اللہ تعالی فرماتا ہے
" اور جب ہم نے ابراہیم کے لیے کعبہ کی جگہ معین کر دی کہ میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کر اور میرے گھر کو طواف کرنے والوں اور قیام کرنے والوں اور رکوع و سجود کرنے والوں کے لیے پاک رکھ ( 26 ) اور لوگوں میں حج کا اعلان کر دے کہ تیرے پاس پا پیادہ اور پتلے دبلے اونٹوں پر دور دراز راستوں سے آئیں ( 27 ) "
قرآن کی سورۃ آل عمران میں اللہ تعالی فرماتا ہے
" بے شک لوگوں کے واسطے جو سب سے پہلا گھر مقرر ہوا یہی ہے جو مکہ میں برکت والا ہے اور جہان کے لوگوں کے لیے راہ نما ہے ( 96 ) اس میں ظاہر نشانیاں ہیں مقام ابراھیم ہے ، اور جو اس میں داخل ہو جائے وہ امن والا ہو جاتا ہے ، اور لوگوں پر اس گھر کا حج کرنا اللہ کا حق ہے جو شخص اس تک پہنچنے کی طاقت رکھتا ہو ، اور جو انکار کرے تو پھر اللہ جہان والوں سے بے پروا ہے ( 97 ) "
قرآن کی سورۃ البقرہ میں اللہ تعالی فرماتا ہے
" اور جب ابراھیم کو اس کے رب نے کئی باتوں میں آزمایا تو اس نے انہیں پورا کر دیا ، فرمایا بے شک میں تمہیں سب لوگوں کا پیشوا بنادوں گا ، کہا اور میری اولاد میں سے بھی ، فرمایا میرا عہد ظالموں کو نہیں پہنچے گا ( 124 ) اور جب ہم نے کعبہ کو لوگوں کے لیے عبادت گاہ اور امن کی جگہ بنایا ، مقام ابراہیم کو نماز کی جگہ بناؤ ، اور ہم نے ابراھیم اور اسماعیل سے عہد لیا کہ میرے گھر کو طواف کرنے والوں اور اعتکاف کرنے والوں اور رکوع کرنے والوں اور سجدہ کرنے والوں کے لیے پاک رکھو ( 125 ) اور جب ابراھیم نے کہا اے میرے رب اسے امن کا شہر بنا دے اور اس کے رہنےو الوں کو پھلوں سے رزق دے جو کوئی ان میں سے اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان لائے ، فرمایا اور جو کافر ہوگا سو اسے بھی تھوڑاسا فائدہ پہنچاؤں گا پھر اسے دوزخ کے عذاب میں دھکیل دوں گا ، اور وہ برا ٹھکانہ ہے ( 126 ) اور جب ابراھیم اور اسماعیل کعبہ کی بنیادیں اٹھا رہے تھے ، اے ہمارے رب ہم سے قبول کر ، بے شک تو ہی سننے والا جاننے والا ہے ( 127 ) اے ہمارے رب ہمیں اپنا فرمانبردار بنا دے اور ہماری اولاد میں سے بھی ایک جماعت کو اپنا فرمانبردار بنا ، اور ہمیں ہمارے حج کے طریقے بتا دے اور ہماری توبہ قبول فرما ، بے شک تو بڑا توبہ قبول کرنے والا نہایت رحم والا ہے ( 128 ) اے ہمارے رب ! اور ان میں ایک رسول انہیں میں سے بھیج جو ان پر تیری آیتیں پڑھے اور انہیں کتاب اور دانائی سکھائے اور انہیں پاک کرے ، بے شک تو ہی غالب حکمت والا ہے ( 129 ) "
 
علی بن ابی طالب {رض} سے مروی ہے کہ اللہ نے ابراہیم {ع} کو وحی فرمائی تھی کہ کعبتہ اللہ بیت معمور کے عین مقابل اور سامنے ہے ۔ بیت معمور آسمانوں میں فرشتوں کے لیے بیت اللہ و کعبتہ اللہ ہے جس کے ارد گرد ہر آن میں ستر ہزار فرشتے طواف کرتے ہیں اور پھر کسی فرشتے کی دوبارہ قیامت تک طواف کی باری نہیں آتی تو اس بیت معمور کے مقابل زمین پر کعبتہ اللہ ہے
اسی طرح ساتوں آسمانوں میں عبادت خانے یعنی مساجد ہیں جیسا کہ بعض بزرگوں نے بیان فرمایا کہ ہر آسمان میں ایک گھر ہے جس میں آسمان والے عبادت کرتے ہیں اور بیت معمور آسمانوں میں ایسے ہی ہے جیسے زمین پر کعبتہ اللہ ۔ واللہ اعلم
پھر اللہ نے ابراہیم {ع} کو حکم فرمایا کہ فرشتوں کے عبادت گھروں جیسا ایک گھر زمین والوں کے لیے زمین میں بناؤ ۔ پھر اللہ تعالی نے ابراہیم {ع} کو بیت اللہ کی پہلے سے متعین جگہ سمجھا دی جو آسمانوں اور زمین کے پیدائش کے وقت سے متعین تھی ۔
رسول اللہ {ص} سے کہیں بھی مروی نہیں ہے کہ بیت اللہ ابراہیم {ع} کے بنانے سے قبل تعمیر شدہ تھا
اور جن لوگوں کا یہ خیال ہے کہ بیت اللہ بنا ہوا تھا انہوں نے مَكَانَ الْبَيْتِ سے استدلال کیا یعنی اس کا مطلب لیا کہ پہلے سے وہاں عمارت یا گھر تھا
لیکن یہ مطلب صحیح نہیں ہے کیونکہ اس کا مطلب ہے وہاں عمارت کی جگہ پہلے سے اللہ کے علم اور ارادے میں بیت اللہ کے لیے مقرر تھی اور حضرت آدم {ع} سے ابراہیم {ع} تک تمام کے نزدیک وہ جگہ مبارک اور عظمت والی تھی ۔ واللہ اعلم
 
کہتے ہیں آدم {ع} نے اس جگہ پر ایک قبہ سا بنایا تھا اور فرشتوں نے ان سے کہا تھا ہم آپ سے پہلے اس گھر کا طواف کر چکے ہیں اور کشتی نوح نے بھی تقریبا چالیس دن اس گھر کا طواف کیا تھا ۔ مگر یہ سب باتیں بنی اسرائیل سے مروی ہیں ۔ واللہ اعلم
اللہ تعالی فرماتا ہے " بے شک لوگوں کے واسطے جو سب سے پہلا گھر مقرر ہوا یہی ہے جو مکہ میں برکت والا ہے اور جہان کے لوگوں کے لیے راہ نما ہے ( سورۃ آل عمران 96 ) "
یعنی عام لوگوں کی ہدایت و برکت کے واسطے پہلا گھر جو بنایا گیا وہ مکہ میں ہے ۔ اس میں کھلی نشانیاں ہیں ۔ مقام ابراہیم ہے ۔ مقام ابراہیم وہ پتھر ہے جس پر کھڑے ہوکر ابراہیم {ع} نے کعبے کی دیواروں کو بلند کیا تھا ۔ پہلے نیچے کھڑے ہوکر تعمیر فرما رہے تھے جب دیواریں بلند ہونا شروع ہوئیں تو اس کا سہارا لیا تھا اور یہ پتھر اسماعیل {ع} نے لاکر رکھا تھا
پھر یہ پتھر اس زمانے سے عمر فاروق {رض} کے دور خلافت تک کعبے کی دیوار کے ساتھ چپکا رہا ۔ پھر عمر {رض} نے اس کو تھوڑا وہاں سے دور کردیا تاکہ طواف کے وقت رکاوٹ نہ ہو ۔
کئی کاموں میں اللہ تعالی نے عمر {رض} کے فیصلوں کی موافقت اور تائید فرمائی ہے ، ان میں سے ایک یہ ہے کہ عمر {رض} نے نبی پاک {ص} کی خدمت میں عرض کیا کہ اگر ہم مقام ابراہیم پر نماز کی جگہ بنالیں تو اچھا ہوجائے ، لیکن نبی پاک {ص} خاموش رہے پھر اللہ نے قرآن میں نازل فرما دیا " وَاتَّخِذُوْا مِنْ مَّقَامِ اِبْ۔رَاهِيْمَ مُصَلًّى " یعنی اور مقام ابراہیم کو نماز کی جگہ بنالو ۔
 
حضرت ابراہیم {ع} نے سب سے عظیم و اشرف مسجد بنائی اور زمین کے سب سے اشرف ٹکڑے پر بنائی ۔ پھر اپنے اہل کے لیے وہاں برکت کی دعا کی اور دنیاوی رزق حلال کی بھی کہ اللہ ان کو پھلوں سے رزق عطا فرمائے ۔ کیونکہ یہ زمین پانی ، درختوں ، پھلوں اور کھیتوں سے بالکل خالی تھی اور یہ بھی درخواست کی کہ اس علاقے کو محترم حرم بنادے اور امن و امان کا گہوارہ بنادے
پھر اللہ نے اپنے دوست کی درخواست و التجا کو قبول فرمایا ، بےشک اسی کے لیے تمام تعریفیں ہیں ، وہ ہی پکارنے والوں کی فریاد سنتا ہے ۔ اللہ نے ابراہیم {ع} کی دعا کو قبول فرمایا ۔ اللہ تعالی فرماتا ہے " اور کہتے ہیں اگر ہم تیرے ساتھ ہدایت پر چلیں تو اپنے ملک سے اچک لیے جائیں ، کیا ہم نے انہیں حرم میں جگہ نہیں دی جو امن کا مقام ہے جہاں ہر قسم کے میووں کا رزق ہماری طرف سے پہنچایا جاتا ہے لیکن اکثر ان میں سے نہیں جانتے ( سورۃ القصص 57 ) "
ان دعاؤں کے علاوہ ابراہیم {ع} نے ایک بہت بڑی اور پیاری دعا بھی فرمائی تھی کہ اللہ عزوجل ان میں ایک رسول انہی میں سے بھیج دے جو انہی کی زبان کا ہو یعنی عرب سے ہو ، تاکہ اس طرح ان پر دین و دنیا دونوں عالم کی نعمتیں پوری ہوجائیں
اور اللہ نے اپنے دوست کی یہ خواہش اور مراد بھی پوری فرمادی اور ایک رسول ان میں یعنی مکہ والوں میں بھیج دیا
وہ رسول جس کے ساتھ انبیاء اور رسولوں کا سلسلہ ختم فرما دیا ۔ وہ رسول جس کو مکمل دین عطا فرما دیا جو اس سے پہلے کسی کو نہیں عطا کیا گیا ۔ اس عظیم رسول کی دعوت پوری روئے زمین کے لیے عام کردی ، خواہ وہ زمین والے کسی زبان کے ہوں ، کسی علاقے کے ہوں یا کسی ہی صفات کے حامل ہوں ۔ قیامت تک تمام شہروں ، علاقوں اور تمام اطراف میں اس رسول کی نبوت رکھ دی گئی ۔ اس عظیم پیغمبر کی تمام پیغمبروں اور رسولوں کے درمیان خاصیت تھی ۔ کیونکہ اس میں بہت سے شرف اور اعزاز اکٹھے ہوئے ، اس کی ذات کا شرف و مرتبہ اس کے ساتھ بھیجی گئی کتاب ، اس کی زبان تمام روئے زمین کی سردار ، اس عظیم پیغمبر کی اپنی گناہ گار امت پر انتہائی نرمی و شفقت لطف و رحمت ، اس کے ماں باپ بھی عظیم اور اس کی جائے پیدائش بھی عظیم
اسی وجہ سے کہ ابراہیم {ع} نے اللہ کے گھر کی بنیاد رکھی تو اللہ نے بھی ان کی اولاد میں اس عظیم رسول یعنی محمد {ص} کو پیدا فرما دیا
 
اے اللہ ! محمد اور آل محمد پر درود بھیج جس طرح تو نے آل ابراہیم پر بھیجا ہے اور محمد اور آل محمد پر اپنی برکت نازل فرما جس طرح تو نے آل ابراہیم پر نازل فرمائی ہے ، بیشک تو لائق تعریف اور بزرگ ہے
سدی {رح} کا قول ہے کہ جب اللہ تعالی نے ابراہیم {ع} اور اسماعیل {ع} کو اپنے گھر کو بنانے کا حکم فرمایا تو ان کو پتہ نہ چلا کہ اس کی جگہ کون سی ہے ۔ حتی کہ اللہ نے ہوا بھیجی جس کو خجوج کہا جاتا ہے اس کے دو پر تھے اور سر تھا اور وہ سانپ کے شکل میں تھی اور اس نے کعبہ کے ارد گرد کی جگہ کو صاف کردیا اور پہلی بنیادیں ظاہر کردیں ۔ پھر ابراہیم {ع} اور اسماعیل {ع} نے وہاں کھدائی کی حتی کہ بنیادیں رکھ دیں ۔ پھر جب بنیادیں اٹھ چکیں اور رکن بنانے لگے تو ابراہیم {ع} نے اسماعیل {ع} کو کو کہا " اے میرے بیٹے ! کوئی عمدہ حسین پتھر لاؤ جس کو میں یہاں رکھوں " ۔ اسماعیل {ع} جو کام کرکے تھک چکے تھے عرض کیا " میں مشقت کی وجہ سے سست ہوچکا ہوں " تو ابراہیم {ع} بولے " چلو میں اس کا بندوبست کرتا ہوں " پھر ابراہیم {ع} کے پاس جبرائیل {ع} ہند سے حجر اسود لے کر آئے جو اس وقت اسود نہیں تھا بلکہ سفید یاقوت تھا اور انتہائی سخت سفید تھا ثغامہ کی گھاس کی طرح ۔ آدم {ع} اس پتھر کو جنت سے لے کر اترے تھے اور اب یہ پتھر لوگوں کی خطاؤں کی وجہ سے سیاہ ہوچکا ہے ۔ اتنے میں اسماعیل {ع} بھی دوسرا پتھر لے آئے ۔ جب اپنا لایا ہوا پتھر ابراہیم {ع} کے پاس لائے تو وہاں حجر اسود کو دیکھا تو پوچھا " ابا جان یہ پتھر کون لایا ؟ "
ابراہیم {ع} نے فرمایا " اس کو تجھ سے زیادہ چست شخص لایا ہے "
 
ابن ابی حاتم نے ذکر کیا ہے کہ کعبتہ اللہ پانچ پہاڑوں یعنی حرا طور ، زیتا ، حیل ، لبنان اور طور سینا کے پتھروں سے بنایا گیا ہے ۔ واللہ اعلم
آگے فرمایا اس وقت ذوالقرنین زمین کے بادشاہ تھے اور وہ ان کے پاس سے گزرے اور یہ تعمیر میں مصروف تھے پوچھا کس نے تم کو اس کا حکم کیا ؟ ۔ ابراہیم {ع} نے فرمایا " اللہ نے ہم کو اس کا حکم فرمایا ہے " پوچھا تمہاری بات کی مجھے تصدیق کون کرے گا ؟ ۔ تو پانچ مینڈھوں نے گواہی دی جس کا حکم ان کو اللہ نے فرمایا تھا ۔ تو ذوالقرنین ایمان لے آئے اور تصدیق کردی ۔
ازرقی {رح} فرماتے ہیں کہ ذوالقرنین نے ابراہیم {ع} کے ساتھ بیت اللہ کا طواف بھی کیا اور پھر عرصہ دراز تک بیت اللہ اسی طرح ابراہیم {ع} کی تعمیر پر برقرار رہا پھر قریش نے اس کی نئی تعمیر کی لیکن ابراہیم {ع} کی بنیادوں سے جانب شمال جو شام کی طرف ہے ، کم کردیا
صحيح البخاری میں عائشہ {رض} سے مروی ہے کہ نبی پاک {ص} نے ان سے فرمایا کہ تجھے معلوم ہے جب تیری قوم نے کعبہ کی تعمیر کی تو بنیاد ابراہیم کو چھوڑ دیا تھا ۔ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! پھر آپ بنیاد ابراہیم پر اس کو کیوں نہیں بنا دیتے ؟ آپ {ص} نے فرمایا کہ اگر تمہاری قوم کا زمانہ کفر سے بالکل نزدیک نہ ہوتا تو میں بےشک ایسا کر دیتا ۔
 
صحيح البخاری میں ہے ۔ ۔ ۔ ہم سے بیان بن عمرو نے بیان کیا ، انہوں نے کہا کہ ہم سے یزید بن ہارون نے بیان کیا ، انہوں نے کہا کہ ہم سے جریر بن حازم نے بیان کیا ، انہوں نے کہا کہ ہم سے یزید بن رومان نے بیان کیا ، ان سے عروہ نے اور ان سے ام المومنین عائشہ {رض} نے کہ رسول اللہ {ص} نے فرمایا ، عائشہ ! اگر تیری قوم کا زمانہ جاہلیت ابھی تازہ نہ ہوتا ، تو میں بیت اللہ کو گرانے کا حکم دے دیتا تاکہ اس حصہ کو بھی داخل کر دوں جو اس سے باہر رہ گیا ہے اور اس کی کرسی زمین کے برابر کر دوں اور اس کے دو دروازے بنا دوں ، ایک مشرق میں اور ایک مغرب میں ۔ اس طرح ابراہیم {ع} کی بنیاد پر اس کی تعمیر ہو جاتی ۔ عبداللہ بن زبیر{رض} کا کعبہ کو گرانے سے یہی مقصد تھا ۔ یزید نے بیان کیا کہ میں اس وقت موجود تھا جب عبداللہ بن زبیر {رض} نے اسے گرایا تھا اور اس کی نئی تعمیر کر کے حطیم کو اس کے اندر کر دیا تھا ۔ میں نے ابراہیم {ع} کی تعمیر کے پائے بھی دیکھے جو اونٹ کی کوہان کی طرح تھے ۔ جریر بن حازم نے کہا کہ میں نے ان سے پوچھا ، ان کی جگہ کہاں ہے ؟ انہوں نے فرمایا کہ میں ابھی دکھاتا ہوں ۔ چنانچہ میں ان کے ساتھ حطیم میں گیا اور آپ نے ایک جگہ کی طرف اشارہ کر کے کہا کہ یہ وہ جگہ ہے ۔ جریر نے کہا کہ میں نے اندازہ لگایا کہ وہ جگہ حطیم میں سے چھ ہاتھ ہو گی یا ایسی ہی کچھ ۔
عبداللہ بن زبیر {رض} نے اپنے زمانے میں اسی طریقے پر کعبہ کو بنایا تھا ۔ جیسا رسول اللہ {ص} کی خواہش تھی جس کی خبر ان کو ان کی خالہ عائشہ {رض} نے دی تھی ۔ پھر جب حجاج نے تہتر ہجری میں ان کو شہید کر ڈالا تو خلیفہ عبدالملک بن مردان کو کعبہ کی نئی تعمیر کے متعلق لکھا تو خلیفہ نے خیال کیا کہ کعبہ کی اس طرح کی تعمیر عبداللہ بن زبیر {رض} نے اپنی طرف سے کی ہے لہذا اس کو واپس اپنی حالت میں لوٹانے کا حکم کر دیا ۔ اور پھر دوبارہ شامی دیوار کو توڑ دیا ، پتھر اس سے نکال دیے اور دیوار بند کردی اور کعبہ کے اندر پتھر بھر دیے اور باب شرقی بلند کردیا اور غربی بالکل بند کردیا
بعد میں جب عبدالملک بن مردان کو معلوم ہوا کہ عبداللہ بن زبیر {رض} کو اس تعمیر کا عائشہ {رض} نے بتایا تھا اور یہ تعمیر رسول اللہ {ص} کی خواہش کے مطابق تھی تو اپنے کئے پر سخت نادم ہوا اور افسوس کیا کہ کاش کعبہ کو اسی حالت میں چھوڑ دیتے تو بہتر ہوتا ۔
پھر جب مہدی بن منصور کا زمانہ خلافت آیا تو انہوں نے امام مالک بن انس {رح} سے مشورہ کیا کہ کعبتہ اللہ کو عبداللہ بن زبیر {رض} کی تعمیر کردہ صورت پر لوٹا دیا جائے تو کیسا ہے ؟
مالک بن انس نے فرمایا " مجھے ڈر ہے کہ خلفاء اس کو کھیل بنالیں گے یعنی جب کوئی بادشاہ آئے گا تو اپنے خیال کے مطابق اس کو بنائے گا ۔ لہذا امام نے اس کو اسی حالت پر برقرار رہنے دیا ۔ جس پر آج تک ہے
واللہ اعلم
 
قرآن میں میں اللہ تعالی فرماتا ہے " اور ہم نے نوح اور ابراھیم کو بھیجا تھا اور ہم نے ان دونوں کی اولاد میں نبوت اور کتاب رکھی تھی ، پس بعض تو ان میں راہ راست پر رہے ، اور بہت سے ان میں سے نافرمان ہیں ( سورۃ الحدید 26 ) "
سورۃ الانعام میں اللہ عزوجل نے فرمایا " اور ہم نے ابراہیم کو اسحاق اور یعقوب بخشا ، ہم نے سب کو ہدایت دی ، اور اس سے پہلے ہم نے نوح کو ہدایت دی ، اور اس کی اولاد میں سے داؤد اور سلیمان اور ایوب اور یوسف اور موسی اور ہارون ہیں ، اور اسی طرح ہم نیکو کاروں کو بدلہ دیتے ہیں ( 84 ) اور زکریا اور یحیی اور عیسی اور الیاس ، سب نیکوکاروں میں سے ہیں ( 85 ) اور اسماعیل اور یسع اور یونس اور لوط ، اور ہم نے سب کو سارے جہان والوں پر بزرگی دی ( 86 ) "
لہذا جو بھی آسمانی کتاب نازل کی گئی کسی بھی پیغمبر پر ، وہ حضرت ابراہیم {ع} کے بعد نازل کی گئی اور آپ کی اولاد ہی میں سے کسی پیغمبر پر نازل ہوئی ۔ اور یہ ایسا عظیم مرتبہ عطا فرمایا ہے جس کا مقابلہ ممکن نہیں
یہ یوں ہوا کہ اللہ نے ابراہیم {ع} کی پشت سے دو عظیم صالح لڑکے عطا فرمائے ۔ اسماعیل {ع} ہاجرہ {ع} سے پھر اسحاق {ع} سارہ {ع} سے اور آگے اسحاق {ع} سے یعقوب {ع} پیدا ہوئے ۔ اور انہی کا لقب اسرائیل ہے اور انہی میں سے انبیاء کے تمام گروہ ہیں
ان میں نبوت بھی چلی اور بہت چلی ، حتی کہ ان کے انبیاء کی صحیح تعداد کوئی نہیں جانتا سوائے اس ذات کے جس نے ان انبیاء کو مبعوث کیا اور ان کو رسالت و نبوت کے ساتھ خصوصیت مرحمت فرمائی ۔ یہاں تک کہ بنی اسرائیل کے انبیاء کا یہ سلسلہ عیسی {ع} پر پہنچ کر ختم ہوا
 
اور دوسری طرف اسماعیل {ع} ہیں ان کی اولاد میں عرب کی مختلف جماعتیں ہی پیدا ہوئیں اور ان میں سے کوئی نبی نہ ہوا سوائے ایک نبی کے ۔
ایک نبی جنہوں نے آ کر تمام انبیاء کا سلسلہ ختم کردیا ۔ وہ آدم کی تمام اولاد کے سردار بنے ۔ اور وہ بنی آدم کے لیے سرمایہ افتخار ثابت ہوئے ۔
یعنی محمد بن عبداللہ بن عبدالمطلب بن ہاشم قریشی {ص}
تو حضرت اسماعیل {ع} کی پشت میں پوری شاخ کے اندر سوائے اس عظیم خزانے ، اور قیمتی موتی ، اور بیش قیمت ہار کے اور کوئی نہیں آیا ۔ اور یہی وہ تمام گروہوں ، جماعتوں کے سردار ہیں جن پر قیامت کے روز اولین و آخرین سب کے سب رشک کرتے ہونگے
صحيح البخاری میں ہے ابن عباس {رض} نے بیان کیا کہ نبی کریم {ص} حسن و حسین {رض} کے لیے پناہ طلب کیا کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ تمہارے بزرگ دادا بھی ان کلمات کے ذریعہ اللہ کی پناہ اسماعیل اور اسحاق {ع} کے لیے مانگا کرتے تھے ۔ " میں پناہ مانگتا ہوں اللہ کے پورے پورے کلمات کے ذریعہ ہر ایک شیطان سے اور ہر زہریلے جانور سے اور ہر نقصان پہنچانے والی نظر بد سے " ۔
نبی پاک {ص} نے ابراہیم {ع} کی خوب تعریف فرمائی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ {ص} کے بعد ابراہیم {ع} تمام مخلوق میں سب سے افضل ہیں اور وہ بھی دونوں جہاں میں ۔ اس عالم فانی میں بھی روز قیامت بھی ۔ ۔ ۔ واللہ اعلم
 
اللہ تعالی فرماتا ہے " اور یاد کر جب ابراھیم نے کہا اے میرے پروردگار ! مجھ کو دکھا کہ تو مردے کو کس طرح زندہ کرے گا ، فرمایا کہ کیا تم یقین نہیں لاتے ؟ کہا کیوں نہیں لیکن اس واسطے چاہتا ہوں کہ میرے دل کو تسکین ہو جائے ، فرمایا تو چار جانور اڑنے والے پکڑ پھر انہیں اپنے ساتھ مانوس کرلے پھر ہر پہاڑ پر ان کے بدن کا ایک ایک ٹکڑا رکھ دے پھر ان کو بلا تیرے پاس جلدی سے آئیں گے ، اور جان لے کہ بے شک اللہ زبردست حکمت والا ہے ( سورۃ البقرۃ 260 ) "
حضرت ابراہیم {ع} نے جب یہ سوال بارگاہ الہی میں پیش کیا کہ اے پروردگار مجھے دکھائیں کہ آپ مردوں کو کیسے زندہ فرمائیں گے ؟ تو اللہ نے ان کی درخواست کو قبول فرمایا ۔ اور چار پرندے لینے کا حکم دیا ۔ وہ پرندے کون کون سے ہیں ان کے بارے میں اختلاف ہے اور کئی اقوال ذکر کئے گئے ہیں ، مگر ہر صورت میں مقصود سب سے حاصل ہوجاتا ہے ۔ پھر اللہ نے ابراہیم {ع} کو ان پرندوں کے ٹکرے ٹکرے کرنے کا حکم دیا ، پھر ان ٹکروں کو مختلف پہاڑوں پر دور دور پھیلانے کا حکم دیا اور پھر ان پرندوں کو بلانے کا حکم فرمایا
حضرت ابراہیم {ع} نے اسی طرح ان کو بلایا تو ہر پرندے کا عضو اس پرندے کے ساتھ آکر مل گیا حتی کہ ہر پر اپنے دوسرے پر کے ساتھ مل کر اپنے پرندے کے ساتھ جڑ گیا الغرض سب پرندوں کا جسم بالکل پہلی حالت پر آگیا ۔ ابراہیم {ع} اس دوران اللہ کی قدرت کا مشاہدہ فرماتے رہے جس قدرت کا مطلب ہے کہ اللہ جس چیز کو " ہوجا " فرما دیتے ہیں وہ فورا ہوجاتی ہے
یقینا ابراہیم {ع} اللہ کی مردے کو دوبارہ زندہ کر دینے کی قدرت کو خوب یقین کے ساتھ جانتے تھے جس میں کوئی شک نہیں لیکن انہوں نے اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کو پسند فرمایا تاکہ علم الیقین سے عین الیقین کی طرف ترقی کریں لہذا اللہ نے ان کو قبول فرمایا اور ان کی خواہش پوری فرما دی ۔
 
قرآن میں سورۃ آل عمران میں اللہ تعالی فرماتا ہے " اے اہل کتاب ! ابراھیم کے معاملہ میں کیوں جھگڑتے ہو حالانکہ تورات اور انجیل تو اس کے بعد اتری ہیں ، کیا تم یہ نہیں سمجھتے ( 65 ) ہاں تم وہ لوگ ہو جس چیز کا تمہیں علم تھا اس میں تو جھگڑے ، پس اس چیز میں کیوں جھگڑتے ہو جس چیز کا تمہیں علم ہی نہیں ، اور اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے ( 66 ) ابراھیم نہ یہودی تھے اور نہ نصرانی لیکن سیدھے راستے والے مسلمان تھے ، اور مشرکوں میں سے نہ تھے ( 67 ) لوگوں میں سب سے زیادہ قریب ابراھیم کے وہ لوگ تھے جنہوں نے اس کی تابعداری کی ، اور یہ نبی اور جو اس نبی پر ایمان لائے ، اور اللہ ایمان والوں کا دوست ہے ( 68 ) "
یہود و نصاری کا دعوی تھا کہ ابراہیم {ع} ان کے دین پر تھے ۔ اللہ تعالی نے ابراہیم {ع} کو ان سے بری کردیا ۔ کیونکہ اللہ نے تورات اور انجیل کو ابراہیم {ع} کے بعد نازل فرمایا تو یہ کیسے ممکن تھا کہ ابراہیم {ع} یہود یا نصاری کے دین پر ہوں
اللہ تعالی یوں فرماتا ہے کہ ابراہیم نہ یہودی تھے اور نہ ہی عیسائی ، بلکہ ان سب سے بےتعلق ہوکر ایک اللہ کے پیروکار تھے اور " دین حنیف " پر تھے ۔ دین حنیف کہتے ہیں جس سے اخلاص مقصود ہو اور جان بوجھ کر باطل سے حق کی جانب آیا جائے اور دین حنیف یہودی ، عیسائی اور مشرکین کے مذہب کے بالکل خلاف ہے ۔ اسی کو اللہ نے قرآن میں بیان فرمایا اور ابراہیم {ع} نے اپنے بیٹوں کو اسی بات کی وصیت کی
تو اللہ نے ابراہیم {ع} کو یہودیت اور نصرانیت دونوں سے بالکل جدا قرار دیا اور صراحت کے ساتھ بیان فرمایا کہ وہ یکسو مسلمان تھے اور مشرکین میں سے نہ تھے
محمد {ص} کے لیے بھی اللہ نے وہی دین مقرر فرمایا جو ابراہیم {ع} کے لیے فرمایا تھا ۔ بلکہ اللہ تعالی نے محمد {ص} کے ہاتھوں پر اس دین کو مزید اضافے اور زیادتی کے ساتھ مکمل فرما دیا اور محمد {ص} کو وہ کچھ عطا فرمایا جو اور کسی نبی یا رسول کو دیا گیا ۔ جیسے اللہ نے سورۃ الانعام میں فرمایا " کہہ دو کہ میرے رب نے مجھے ایک سیدھا راستہ بتلا دیا ہے ، ایک صحیح دین ہے ابراہیم کے طریقے پر جو یکسو تھا ، اور مشرکوں میں سے نہیں تھا ( 161 ) کہہ دو کہ بے شک میری نماز اور میری قربانی اور میرا جینا اور میرا مرنا اللہ ہی کے لیے ہے جو سارے جہان کا پالنے والا ہے ( 162 ) اس کا کوئی شریک نہیں ، اور مجھے اسی کا حکم دیا گیا تھا اور میں سب سے پہلے فرمانبردار ہوں ( 163 ) "
 
" اس شخص سے بہتر دین میں کون ہے جس نے اللہ کے حکم پر پیشانی رکھی اور وہ نیکی کرنے والا ہوگیا اور ابراہیم کے دین کی پیروی کی جو یکسو تھا ، اور اللہ نے ابراہیم کو خاص دوست بنا لیا ہے ( سورۃ النساء 125 ) "
" بے شک ابراہیم ایک پوری امت تھا اللہ کا فرمانبردار تمام راہوں سے ہٹا ہوا ، اور مشرکوں میں سے نہ تھا ( سورۃ النحل 120 ) "
قرآن میں اللہ تعالی نے ابراہیم {ع} کو دوست کہا اور خلیل کا لفظ استعمال کیا جس کے معنی ہے انتہائی گہری محبت ۔
اللہ تعالی نے ابراہیم {ع} کے متعلق " امت " کا لفظ بھی فرمایا جس سے مراد پیشوا و امام ، ہدایت یافتہ بھلائی و خیر کا داعی ، یعنی جس کے نقش قدم پر چلا جائے ۔ اللہ نے ان کو اپنا دوست بنایا اور ان کے لیے دنیا و آخرت کی بھلائی رکھ دی کیونکہ ابراہیم {ع} صراط مستقیم پر گامزن تھے اور اپنے پروردگار کے تمام احکام پر کاربند تھے
اسحاق بن یسار نے کہا جب اللہ نے ابراہیم {ع} کو اپنا دوست بنالیا تو ان کے دل میں خوف پیدا ہوگیا ، حتی کہ ان کے دل کی دھڑکنیں دور سے ایسے سنائی دیتی تھیں جیسے فضا میں پرندوں کے پھڑکنے کی آواز سنائی دیتی ہے ۔ ۔ ۔ واللہ اعلم
عبید بن عمیر فرماتے ہیں کہ ابراہیم {ع} لوگوں کی مہمان نوازی بہت فرماتے تھے ۔ ایک دن اسی غرض سے کسی کی تلاش میں نکلے لیکن کوئی ایسا نہ ملا جس کی مہمان نوازی کریں تو واپس گھر لوٹے وہاں ایک اجنبی شخص کو کھڑا پایا
آپ نے پوچھا اے اللہ کے بندے میری اجازت کے بغیر کیسے میرے گھر میں داخل ہوئے ؟
اس شخص نے جواب دیا میں اس گھر کے مالک یعنی تیرے رب کی اجازت سے داخل ہوا ہوں ۔
آپ نے پھر پوچھا تو کون ہے ؟
جواب دیا میں ملک الموت ہوں اللہ نے مجھے اپنے بندوں میں سے ایک بندے کے پاس بھیجا ہے تاکہ میں اس کو خوشخبری دوں کہ اللہ نے اس کو اپنا دوست منتخب کرلیا ۔
ابراہیم {ع} نے بڑی بےچینی اور محبت و شوق کے عالم میں پوچھا وہ کون ہے ؟ اللہ کی قسم اگر تو مجھے اس کا پتہ بتا دے تو خواہ وہ دنیا کے آخری کنارے میں ہو ، میں اس کے پاس پہنچوں گا پھر ہمیشہ کے لیے اس کا پڑوسی بن کر رہوں گا حتی کہ موت آکر ہمارے درمیان فراق و جدائی کردے
اس نے کہا وہ آپ ہی ہیں
ابراہیم {ع} نے انتہائی تعجب سے پوچھا میں ؟
اس نے کہا ہاں
ابراہیم {ع} نے پوچھا وہ کس وجہ سے میرے رب نے مجھ کو اپنا دوست بنایا
اس نے عرض کیا اس لئے کہ آپ لوگوں کو عطائیں کرتے ہیں اور ان سے کچھ پوچھتے نہیں ہیں
ابن ابی حاتم نے اس کو روایت کیا ہے ۔ ۔ ۔ واللہ اعلم
 
Top