یوسف سلطان
محفلین
السلام علیکم !
مجھے ایک کتاب ملی ہے پی ڈی ایف میں جس میں حضرت سلطان باہو رحمتہ الله علیہ کا پنجابی کلام "الف الله چنبے دی بوٹی " ہے، ترجمہ کے ساتھ اور میں روز کچھ نہ کچھ ان شاء الله (جتنی الله پاک نے توفیق دی )ادھر لکھوں گا اوپرسے دیکھ کر۔ اس سے پہلے مختصر سا تعارف حضرت سلطان با ہو رحمتہ الله علیہ کا ۔
تعارف :
حضرت سلطان باہو (1631-1691)
نجاب کے صوفی ۱کابرین میں سلطان باہو کو بھی ممتاز ترین مقام حاصل ہے۔ سلطان باہو اپنے عہد کے کامل بزرگ اور پنجابی زبان کے عظیم صوفی شاعر ہیں. آپ کے کلام میں ایک روح پرور تاثیر، مٹھاس اور چاشنی ہے. آپ سلطان العارفین کے لقب سے مشہور ہیں. آپ کا تعلق شاہ جہاں کے عہد کے ایک جاگیردار خاندان سے تھا جس کا تعلق پنجاب کے ضلع جھنگ سے تھا۔ آپ کے والد بایزید محمد ایک صالح شریعت کے پابند حافظ قرآن، فقیہہ ، دنیاوی تعلقات سے آشنا سلطنت دہلی کے منصب دار تھے۔ حضرت سلطان باہو 1631ء (1039ھ) میں جھنگ کے موضع اعوا ن میں پیدا ہوئے۔ آپ نے ظاہری علوم کا اکتساب باقاعدہ اور روایتی اندز میں نہیں کیا بلکہ زیادہ ترابتدائی تعلیم اپنی والدہ سے حاصل کی ۔ خود ہی ایک جگہ فرماتے ہیں کہ:
”اگرچہ میں ظاہری علوم سے محروم ہوں لیکن علم باطنی نے میری زندگی پاک کر دی ہے۔“
مرشد کی تلاش میں سرگرداں ہوئے تو آپ کی ملاقات شور کوٹ کے نزدیک گڑھ بغداد میں سلسلہ قادر یہ کے ایک بزرگ شاہ حبیب اللہ سے ہوئی۔ اور جب مرید مرشد سے بھی آگے بڑھ گیا تو مرشد نے آپ کو سید عبدالرحمٰن کی جانب رجوع کرنے کا مشور ہ دیا۔ اورنگزیب کے عہد میں آپ سید عبدالرحمٰن سے ملنے دہلی پہنچے مگر معروضی حالات کی بنا پر آپ کے عالمگیر کے ساتھ تضادات پیدا ہو گئے۔ اسی بنا پر آپ دہلی سے واپس چلے گئے اور بقیہ زندگی روحانی ریاضتوں اور لوگوں کو روحانی فیض پہنچانے میں بسر کی۔ آپ دوسرے صوفیا کی طرح محض درویشانہ زندگی نہیں گزارتے تھے بلکہ ایک بڑے خاندان کے سربراہ کی حیثیت سے آپ کی زندگی کا انداز بلاشبہ روایتی صوفیانہ زندگی سے مختلف تھا۔ زندگی کے آخری دنوں میں آپ نے سب کچھ تیاگ دیا تھا۔ آپ کی تصانیف کی طویل فہرست عربی، فارسی اور پنجابی زبانوں پر محیط ہے۔ جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ آپ کو نہ صرف مروجہ زبانوں پر عبور حاصل تھا بلکہ وہ مذہبی علوم سے بھی کماحقہ فیض یاب ہوتے تھے۔
آپ کی شاعری میں ایک سرور انگیز مقدس آواز کی صورت میں لفظ ” ہو“ کا استعمال آپ کو تمام صوفی شعراء سے ممتاز کرتا ہے۔ آپ بظاہر فلسفیانہ موشگافیوں سے پرہیز کرتے اور سیدھی سادھی باتیں خطیبانہ انداز میں کہے چلے جاتے، جن کا مطالعہ بلاشبہ ہماری دیہاتی دانش کا مطالعہ ہے۔ آپ کی شاعری سے محسوس ہوتا ہے کہ آپ سلسلہ قادریہ کے دوسرے صوفیا سے مختلف نہیں ہیں۔ ایک جگہ لکھتے ہیں :
”میں نہ تو جوگی ہوں نہ جنگم ، نہ ہی سجدوں میں جا کر لمبی لمبی عبادتیں کرتا ہوں نہ میں ریاضتیں کرتا ہوں ۔ میرا ایمان محض یہ ہے، جو لمحہ غفلت کا ہے وہ لمحہ محض کفرکا ہے۔جو دم غافل سو دم کافر۔“
حضرت سلطان باہو سرچشمہ علوم و فیوض ہیں، مشہور ہے کہ آپ نے ایک سو چالیس کتابیں تصنیف کیں جن میں سے بہت سی کتابیں امتدادِ زمانہ کے ہاتھوں ناپید ہیں ۔ تاہم اب بھی آپ کی بہت سی کتابیں دستیاب ہیں اور علمائے ظاہر کے مقابلے میں سلطان باہو فقر کا تصور پیش کرتے ہیں جہاں علما لذتِ نفس و دنیا میں مبتلا ہو کر نفس پیروی کرتے ہیں اور لذتِ یادِ الٰہی سے بیگانہ رہتے ہیں ، وہاں فقراء شب و روز یادِ خدا میں غرق ہو کر امر ہو جاتے ہیں۔ آپ کی شاعری میں ترکِ دنیا اور نفس کشی کے خیالات بکثرت ملتے ہیں۔آپ کے نقطہ نظر کے مطابق دین و دنیا دو ایسی متضاد قوتیں ہیں جن کے باہم تفاوت کو حل نہیں کیا جا سکتا ہے۔ سلطان باہو کا وصال 1691ء بمطابق اسلامی تاریخ یکم جمادی الثانی 1102ھ میں تریسٹھ سال کی عمرمیں ہوا۔ آپ کا مزار مبارک دریائے چناب کے مغربی کنارے ایک گاؤں جو آپ ہی کے نام سے موسوم ہے اور جھنگ سے پچاس میل دور جنوب کی جانب قصبہ گڑھ مہاراجہ کے نزدیک تحصیل شورکوٹ میں مرجعِ خاص و عام ہے.
مجھے ایک کتاب ملی ہے پی ڈی ایف میں جس میں حضرت سلطان باہو رحمتہ الله علیہ کا پنجابی کلام "الف الله چنبے دی بوٹی " ہے، ترجمہ کے ساتھ اور میں روز کچھ نہ کچھ ان شاء الله (جتنی الله پاک نے توفیق دی )ادھر لکھوں گا اوپرسے دیکھ کر۔ اس سے پہلے مختصر سا تعارف حضرت سلطان با ہو رحمتہ الله علیہ کا ۔
تعارف :
حضرت سلطان باہو (1631-1691)
نجاب کے صوفی ۱کابرین میں سلطان باہو کو بھی ممتاز ترین مقام حاصل ہے۔ سلطان باہو اپنے عہد کے کامل بزرگ اور پنجابی زبان کے عظیم صوفی شاعر ہیں. آپ کے کلام میں ایک روح پرور تاثیر، مٹھاس اور چاشنی ہے. آپ سلطان العارفین کے لقب سے مشہور ہیں. آپ کا تعلق شاہ جہاں کے عہد کے ایک جاگیردار خاندان سے تھا جس کا تعلق پنجاب کے ضلع جھنگ سے تھا۔ آپ کے والد بایزید محمد ایک صالح شریعت کے پابند حافظ قرآن، فقیہہ ، دنیاوی تعلقات سے آشنا سلطنت دہلی کے منصب دار تھے۔ حضرت سلطان باہو 1631ء (1039ھ) میں جھنگ کے موضع اعوا ن میں پیدا ہوئے۔ آپ نے ظاہری علوم کا اکتساب باقاعدہ اور روایتی اندز میں نہیں کیا بلکہ زیادہ ترابتدائی تعلیم اپنی والدہ سے حاصل کی ۔ خود ہی ایک جگہ فرماتے ہیں کہ:
”اگرچہ میں ظاہری علوم سے محروم ہوں لیکن علم باطنی نے میری زندگی پاک کر دی ہے۔“
مرشد کی تلاش میں سرگرداں ہوئے تو آپ کی ملاقات شور کوٹ کے نزدیک گڑھ بغداد میں سلسلہ قادر یہ کے ایک بزرگ شاہ حبیب اللہ سے ہوئی۔ اور جب مرید مرشد سے بھی آگے بڑھ گیا تو مرشد نے آپ کو سید عبدالرحمٰن کی جانب رجوع کرنے کا مشور ہ دیا۔ اورنگزیب کے عہد میں آپ سید عبدالرحمٰن سے ملنے دہلی پہنچے مگر معروضی حالات کی بنا پر آپ کے عالمگیر کے ساتھ تضادات پیدا ہو گئے۔ اسی بنا پر آپ دہلی سے واپس چلے گئے اور بقیہ زندگی روحانی ریاضتوں اور لوگوں کو روحانی فیض پہنچانے میں بسر کی۔ آپ دوسرے صوفیا کی طرح محض درویشانہ زندگی نہیں گزارتے تھے بلکہ ایک بڑے خاندان کے سربراہ کی حیثیت سے آپ کی زندگی کا انداز بلاشبہ روایتی صوفیانہ زندگی سے مختلف تھا۔ زندگی کے آخری دنوں میں آپ نے سب کچھ تیاگ دیا تھا۔ آپ کی تصانیف کی طویل فہرست عربی، فارسی اور پنجابی زبانوں پر محیط ہے۔ جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ آپ کو نہ صرف مروجہ زبانوں پر عبور حاصل تھا بلکہ وہ مذہبی علوم سے بھی کماحقہ فیض یاب ہوتے تھے۔
آپ کی شاعری میں ایک سرور انگیز مقدس آواز کی صورت میں لفظ ” ہو“ کا استعمال آپ کو تمام صوفی شعراء سے ممتاز کرتا ہے۔ آپ بظاہر فلسفیانہ موشگافیوں سے پرہیز کرتے اور سیدھی سادھی باتیں خطیبانہ انداز میں کہے چلے جاتے، جن کا مطالعہ بلاشبہ ہماری دیہاتی دانش کا مطالعہ ہے۔ آپ کی شاعری سے محسوس ہوتا ہے کہ آپ سلسلہ قادریہ کے دوسرے صوفیا سے مختلف نہیں ہیں۔ ایک جگہ لکھتے ہیں :
”میں نہ تو جوگی ہوں نہ جنگم ، نہ ہی سجدوں میں جا کر لمبی لمبی عبادتیں کرتا ہوں نہ میں ریاضتیں کرتا ہوں ۔ میرا ایمان محض یہ ہے، جو لمحہ غفلت کا ہے وہ لمحہ محض کفرکا ہے۔جو دم غافل سو دم کافر۔“
حضرت سلطان باہو سرچشمہ علوم و فیوض ہیں، مشہور ہے کہ آپ نے ایک سو چالیس کتابیں تصنیف کیں جن میں سے بہت سی کتابیں امتدادِ زمانہ کے ہاتھوں ناپید ہیں ۔ تاہم اب بھی آپ کی بہت سی کتابیں دستیاب ہیں اور علمائے ظاہر کے مقابلے میں سلطان باہو فقر کا تصور پیش کرتے ہیں جہاں علما لذتِ نفس و دنیا میں مبتلا ہو کر نفس پیروی کرتے ہیں اور لذتِ یادِ الٰہی سے بیگانہ رہتے ہیں ، وہاں فقراء شب و روز یادِ خدا میں غرق ہو کر امر ہو جاتے ہیں۔ آپ کی شاعری میں ترکِ دنیا اور نفس کشی کے خیالات بکثرت ملتے ہیں۔آپ کے نقطہ نظر کے مطابق دین و دنیا دو ایسی متضاد قوتیں ہیں جن کے باہم تفاوت کو حل نہیں کیا جا سکتا ہے۔ سلطان باہو کا وصال 1691ء بمطابق اسلامی تاریخ یکم جمادی الثانی 1102ھ میں تریسٹھ سال کی عمرمیں ہوا۔ آپ کا مزار مبارک دریائے چناب کے مغربی کنارے ایک گاؤں جو آپ ہی کے نام سے موسوم ہے اور جھنگ سے پچاس میل دور جنوب کی جانب قصبہ گڑھ مہاراجہ کے نزدیک تحصیل شورکوٹ میں مرجعِ خاص و عام ہے.
آخری تدوین: