سلطان باہو حضرت سلطان باہو رحمتہ الله علیہ کا مکمل پنجابی کلام معنی اور ترجمہ کے ساتھ

یوسف سلطان

محفلین
الف
20

الف- آپ نہ طالب ہین کہیں دے،لوکاں نوں طالب کردے ھو ۔
چاون کھیپاں کردے سیپاں، قہر اللہ توں ناہیں ڈر دے ھو ۔
عشقَ مجازی تلکن بازی،پَیر اولے دھردے ھو ۔
اوہ شرمندے ہوسن باہو،اندر روز حشر دے ھو ۔

کہیں دے: کہیں کے
لوکاں۔ نوں: لوگوں ۔ کو
چاون: اٹھاتے ہیں
کھیپاں: معاوضہ مقرر کرنے کے عوض خدمات کا معاہدہ جیسا کہ دیہاتوں میں موچی ، لوہار، ترکھان اور حجام وغیرہ زمینداروں سے طے کرتے ہیں اور ہر فصل کی کٹائی پر وصول کرتے ہیں جیسے پنجاب میں "سیپی " کہتے ہیں ۔
سیپاں: مقرہ شدہ معاوضہ کےعوض خدمات انجام دیں جیسا کہ دیہاتوں میں موچی، لوہار،ترکھان اورحجام وغیرہ انجام دیتے ہیں۔
ناہیں۔ ڈردے: نہیں ۔ ڈرتے
تلکن بازی: پھسلنے والا کھیل
پَیر: پاؤں
اولے : ٹیڑھے ۔ غلط
دھردے: رکھتے ہیں
ہوسن: ہوں گے

ترجمہ:
مرشد کے لئے ضروری ہے کے پہلے وہ خود کسی کامل مرشد سے تلقین وارشاد حاصل کرے اور پھر تکمیل پر تلقین و ارشاد کی مسند سںبھالے۔ اس بیت میں اپ رحمتہ اللہ علیہ مرشدانِ ناقص کو تنبیہہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں یہ نہ خود طالب مولیٰ بن سکے ہیں اور نہ راہِ فقر پرچل سکے اور نہ ہی کسی کامل مرشد سے بیت ہوئے اور نہ ہی اس سے تلقین وارشاد کی اجازت حاصل ہے بلکہ بعض ناقص مرشد تو "پدرم سلطان بود" کی خود فریبی میں مبتلا ہوتے ہیں اور تلقین وارشاد کو اپنا ورثہ سمجھتے ہیں اور دیہاتی دکانداروں کی طرح دوسروں کو معاوضہ کے بدلے معرفت اور خلافت عطا کرنے کا ٹھیکہ اٹھائے ہوئے ہیں ان لوگوں سے تلقین و ارشاد لینا حرام ہے۔ یہ لوگ عشقِ مجازی کے پھسل جانے والے خوفناک کھیل میں مبتلا ہیں۔ آپ رحمتہ الله علیہ فرماتے ہیں قیامت کے دن یہ لوگ شرمندہ وخوار ہوں گے
 

یوسف سلطان

محفلین
الف
21
الف- اندر وی ھو تے باہر وی ھو،باہو کِتھاں لبھیوے ھو ۔
سَے ریاضتاں کراہاں توڑے،خون جگر دا پیوے ھو ۔
لکھ ہزار کتاباں پڑھ کے،دانشمند سدیوے ھو ۔
نام فقیر تنہاندا باہو،قبر جنہاں دی جیوے ھو ۔
وی: بھی
کِتھاں: کہاں
لبھیوے : ملے
سَے : کئی سو ، سینکڑوں
ریاضتاں: زُہد و ریاضت
کراہاں: کر کر کے
توڑے: خواہ ۔ چاہے
سدیوے: کہلائے
تنہاندا: ان کا
جیوے: زندہ ہو


ترجمہ:
اس بیت میں آپ رحمتہ الله علیہ فقر کے آخری مقام فنافی ھو(فنافی الله بقاباللہ) کا ذکر اور اس مقام پر اپنی ذات کی حقیقت سے آگاہ فرما رہے ہیں کیونکہ آپ رحمتہ الله علیہ اس مقام کے بارے میں فرماتے ہیں ہمہ اوست در مغزو پوست ( ظاھرو باطن میں ایک ذاتِ حق جلوہ گر ہے)۔ آپ رحمتہ الله علیہ فرماتے ہیں میرا باطن بھی "ھُو" ہے باہو "ھُو" میں فنا ہو کر "ھُو" ہو گیا ہے۔ زاہد ریاضتیں اور زُہد کر کے ہلکان ہو جاتے ہیں مگر مقامِ فنافی ھُو سے بے خبر رہتے ہیں کچھ لاکھوں ہزاروں کتب پڑھ کر دانشمند اور عالم تو بن جاتے ہیں لیکن اس مقام کی انھیں خبر تک نہیں ہوتی اور جو ذات میں فنا ہو کر عین ذات ہو جاتے ہیں وہی فقیر ہوتے ہیں اور ان کی قبر بھی حیاتِ جاودانی حاصل کر کے لوگوں میں فیض تقسیم کرتی ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بعض کتب میں اس بیت کے پہلے مصرعہ میں "وی" کی بجائے "بھی " استمعال ہوا ہے "وی" درست لفظ ہے جس کے اردو معنی "بھی" ہیں۔
 
آخری تدوین:

یوسف سلطان

محفلین
الف
22
الف- اللہُ چمبے دی بوٹی،میرےمن وچ مرشد لاندا ھو ۔
جس گَت اُتے سوہنا راضی ہوندا،اوہو گت سکھاندا ھو ۔
ہر دم یاد رکھے ہر ویلے،آپ اُٹھاندا بَہاندا ھو ۔
آپ سمجھ سمجھیندا باہو، آپے آپ بَن جاندا ہو ۔

لاندا: لگاتا ہے
گَت: حالت ۔کیفیت
اُتے: اوپر
سوہنا: خوبصورت۔ مراد مرشد
راضی ہوندا: خوش ہوتا ہے یا اس کی رضا ہوتی ہے
سکھاندا: سیکھاتا ہے
ہر ویلے: ہر وقت
اُٹھاندا ۔ بَہاندا : اٹھاتا ہے ۔ بٹھاتا ہے
آپ سمجھ سمجھیندا:آپ ہی ہر بات سمجھاتا ہے
آپے آپ: خود
بَن جاندا: بن جاتا ہے


ترجمہ:
میرے دل میں میرے مرشد کامل نے اسمِ اللهُ ذات کا نقش جما دیا ہے اور اس کے تمام اسرار و رموز کو میرے اندر ظاھر کر دیا ہے اب میرے مرشد کامل کو میری جو حالت، عادات اور کیفیات پسند ہیں وہی مجھے سکھاتا ہے اور وہ مجھے ہر لمحہ اور ہر آن یاد رکھتا ہے۔ اس کی نظرِ رحمت و محبت اور شفقت کسی بھی لمحہ مجھ سے نہیں ہٹتی اور میں مرشد کی ذات میں اس قدر فنا ہو گیا ہوں کہ میرے قول و فعل اور حرکات و سکنات تک اس کی رضا کے مطابق ہیں۔ وہ خود ہی مجھے راہ حق کے اسرارو رموز سکھاتا ہے اور کبھی کبھی تو وہ میری ہستی کو فنا کر کے خود ہی بن جاتا ہے میں' میں نہیں رہتا وہ تو وہ ہوتا ہے اور اس طرح اپنے اور میرے درمیان میں اور تُو کا فرق حتم کر دیتا ہے ۔
 

یوسف سلطان

محفلین
ب
01

ب۔ باہو باغ بہاراں کھڑیاں،نرگس ناز شرم دا ھو ۔
دل وچ کعبہ صحی کیتوسے،پاکوں پاک پرم دا ھو ۔
طالب طلب طواف تمامی،حُبّ حضور حرم دا ھو۔
گیا حجاب تھیوسے حاجی باہو،جداں بخشسیوس راہ کرم دا ھو ۔
کھڑیاں: کِھل گئیں
صحی ۔ کیتوسے: صحیح ۔ کیا
پاکوں پاک: پاکیزہ۔ پاک
پرم: محبت ۔ پیار
تمامی: تمام
تھیوسے: ہم ہو گئے
جداں: جب
بخشسیوس : بخش دیا۔ عطا کیا
راہ کرم دا : فضل و کرم کا راستہ


ترجمہ :
سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باہو رحمتہ الله علیہ کعبہ کو بطور استعارہ ذاتِ حق تعالیٰ کے لیے استعمال فرما رہے ہیں آپ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں جب سے ہم نے دل کے اندر ذاتِ حق کو پایا ہے ہمارا دل عشقِ الہیٰ سے سرور میں مبتلا ہے اور ہم نے دل میں معبودِ حقیقی کو پہچان لیا ہے اور تمام طلب، طواف محبت اسی حضورِ حق کے لیے ہیں۔ اے طالب! وحدت کے اس کعبہ میں محبوبِ حقیقی کے حضور میں مکمل وصال کی طلب میں رہواور یہ وصال الہیٰ توحق تعالیٰ کے فضل و کرم سے ہی نصیب ہو گا۔​
23
 

یوسف سلطان

محفلین
ب
02

ب- بغداد شہر دی کیا نشانی،اُچیاں لمیاں چیراں ھو ۔
تن من میرا پرزے پرزے،جیوں درزی دیاں لیراں ھو ۔
اینہاں لیراں دی گل کفنی پا کے،رَلساں سنگ فقیراں ھو ۔
بغداد شہر دے ٹکڑے منگساں باہو،تےکرساں میراںؓ میراںؓ ھو ۔
بغداد: عراق کا دارالحکومت جہاں سیّدنا غوث الاعظم رضی اللہ عنہ کا مزار ہے
اُچیاں: اونچی
چیراں : زخم
تن ۔ من: جسم ۔ روح
پرزے پرزے: ٹکڑے ٹکڑے
لیراں: کترن ۔ سلائی کے لیے کپڑے کاٹتے وقت کپڑے کے جو ٹکڑے فالتو ہوتے ہیں۔
اینہاں: ان
گل: گلے میں
کفنی: فقیرانہ لباس۔ جو کپڑوں کے مختلف ٹکڑوں کو جوڑ کر بنایا جاتا ہے۔
پا کے: پہن کر
رَلساں: شامل ہو جاؤں گا
سنگ فقیراں: فقیروں کے ساتھ
ٹکڑے: بھیک۔ روٹی۔ کھانا
منگساں: مانگوں گا
کرساں : کروں گا

میراںؓ : غوث الاعظم حضرت شیخ عبدالقادرجیلانی رضی اللہ عنہ کا ایک لقب

ترجمہ
بغداد شہر کی کیا نشانی ہے ؟ وہاں "فقر" کے پُر پیچ راستے ہیں جن پر چلتے چلتے حضرت سیّدنا غوث الاعظم رضی الله عنہ کے ہجرو فراق میں دل اور جسم زحمی ہو چکے ہیں اور دن رات آپ رضی اللہ عنہ کے ہجرو فراق میں دل بےقرار اور تڑپتا رہتا ہے۔ جسم اور روح درزی کے کٹے ہووئے کپڑے کے ٹکڑوں کے مصداق پرزے پرزے ہے۔ محبت اور فراق میں دل اور جان کے ان ٹکڑوں کا کفن پہن کر میں بغداد شہر کے"فقراء" کے ساتھ مل جاؤں گااور شہرِ یار بغداد کی گلیوں میں وصالِ یار کی بھیک مانگوں گا اور ایسی حالت میں وصالِ یار میں امداد کے لیے غوث الاعظم حضرت شیخ عبدالقادرجیلانی رضی اللہ عنہ کو پکاروں گا۔​
24
 

یوسف سلطان

محفلین
ب
03
ب- بغداد شریف وَنج کراہاں،سَودا نے کِتوسے ھو ۔
رتی عقل دی دے کراہاں،بھارغماںدا گِھدوسے ھو ۔
بھار بھریرا منزل چوکھیری،اوڑک وَنج پہتیوسےھو ۔
ذات صفات صحی کتوسے باہو،تاں جمال لدھوسے ھو ۔
وَنج کراہاں: جا کر۔ پہنچ کر
نے۔ کِتوسے: نیا۔ کیا
رتی: وزن کا ابتدائی اور معمولی پیمانہ
دے کراہاں: دے کر
بھار: بوجھ
غماںدا: غموں ، دکھوں کا
گِھدوسے: لیا ہے
بھریرا: بوجھل۔ وزنی
چوکھیری: زیادہ
اوڑک : آخر کار
پہتیوسے: پہنچ گئے
صحی: صحیح
تاں : تب
جمال: حُسن ۔ دیدارِ حق تعالیٰ
لدھوسے: ہم نے پا لیا


ترجمہ :
بغدار شریف جا کر ہم نے نیا سودا کیا ہے عقل کے بدلے غوث پاک حضرت شیخ عبدالقادرجیلانی رضی الله عنہ کے عشق اوراُن کے ہجرو فراق کے غموں کا طوق گلے میں ڈال لیا ہے۔حالانکہ عشق اورہجرکا یہ راستہ بڑا کھٹن،دشواراور منزل بہت دور تھی لیکن غوث پاک رضی اللہ عنہ کی غلامی میں ہم منزل تک پہنچ گئے اور جب ہم نے ذات وصفات کی معرفت حاصل کرلی تب ہی واصلِ جمال ہوئے۔​
25
 

یوسف سلطان

محفلین
ب
04

ب- باجھ حضوری نہیں منظوری،توڑے پڑھن بانگ صلاتاں ھو ۔
روزے نفل نماز گزارن،توڑے جاگن ساریاں راتاں ھو ۔
باجھوں قلب حضور نہ ہووے،توڑے کڈھن سَے زکاتاں ھو ۔
باجھ فنا ربّ حاصل ناہیں باہو،ناں تاثیر جماعتاں ھو ۔
باجھ: بغیر۔ سوائے
حضوری: باطنی تور پر متوجہ اِلا اللہ ہونا (یہاں حضورِ قلب مراد ہے)
منظوری: قبولیت
توڑے : خواہ
پڑھن: پڑھیں ۔ ادا کریں
بانگ: اذان
صلاتاں: نمازیں
گزارن: ادا کریں
جاگن: بیدار رہیں
ساریاں۔ راتاں: تمام ۔ راتیں
کڈھن: نکالیں ۔ ادا کریں
سَے: سینکڑوں
زکاتاں: زکوٰۃ کی جمع
فنا: فنافی ھو ، فنافی اللہ بقا باللہ
ناہیں: نہیں ھو سکتا
ناں: نہ
جماعتاں: مراد باجماعت نماز ادا کرنا یا باجماعت کوئی کام کرنا


ترجمہ:
حدیث شریف ہے لاَ صَلوٰۃَ اِلاَّ بِحُضُوْرِالْقَلْب "حضورِ قلب کے بغیرنماز نہیں ہوتی" بلکہ حضورِ قلب کے بغیر کوئی بھی عبادت مقبولِ بارگاہِ الہیٰ نہیں ہے۔ حضرت سخی سلطان باہو رحمتہ الله علیہ اس بیت میں اس حدیث پاک کی شرح فرما رہے ہیں:
حضورِ حق تعالیٰ کے بغیراذان، نماز اور زکوٰۃ قبول نہیں ہوتی خواہ دن کو روزے رکھیں اوررات بھربیداررہ کرنوافل اداکرتے رہیں اورتزکیہء نفس، تصفیہء قلب کے بغیرحضوری حاصل نہیں ہو سکتی،اپنی ذات کو فنا کیے بغیر وصالِ حق تعالیٰ اوردیدارِالہیٰ حاصل نہیں ہوتا اور نہ ہی عبادات میں حضوری حاصل ہوتی ہے۔
26
 

یوسف سلطان

محفلین
ب
05

ب- بے ادباں ناں سار ادب دی،گئے ادباں توں وانجے ھو ۔
جیہڑے ہون مٹی دے بھانڈے،کدی نہ ہوندے کانجے ھو ۔
جیہڑے مڈھ قدیم دے کھیڑے،کدی نہ ہوندے رانجھے ھو ۔
جیںدل حضور نہ منگیا باہو،گئے دوہیں جہانیں وانجے ھو ۔
بے ادباں: بے ادب
ناں: نہیں
سار: خیال ، خبر
دی: کی
ادباں۔ توں : ادب ۔ سے
وانجے: محروم
جیہڑے ۔ ہون: جو ۔ ہوں
دے۔ بھانڈے: کے ۔ برتن
کدی: کبھی
ہوندے: ہوتے
کانجے: شیشے کے برتن
مڈھ قدیم: ازل سے
کھیڑے: شقی ، بد بخت
رانجھے: سعید ، خوش بخت
جیں: جس نے
دوہیں۔ جہانیں: دونوں ۔ جہانوں سے
وانجے: محروم ، خالی ہاتھ


ترجمہ :
بےادب لوگوں كو مقامِ ادب كى خبر، پہچان اور شعور نہيں ہےيہ وه بدنصيب ہيں جو اپنى بے ادبى اور شقاوت كى وجہ سے وه مقام و مرتبہ حاصل نہيں كر سكتے جو باادب حاصل كر ليتے ہيں اور پھر ذكر اور تصورِ اسمِ اللهُ ذات اور بغيرمرشد كامل اكمل كى راہبرى اور راہنمائی كے ازلى فطرت كبھى تبديل نہيں ہوتى۔ جو ازلى كھيڑے(شقى) ہيں وه كبھى رانجھے(سعيد) نہيں بن سكتے اور مٹى كے برتنوں كو كبھى بھی كانچ كے برتن نہيں بنايا جاسكتا۔ بے ادب لوگ(خواه وه بے ادب ہوں الله تعالىٰ يا رسول كريم صلى الله عليه وسلم،صحابہ کرامؓ ،اہلِ بيتؓ،اولياءكرامؒ،فقراء يا مرشد كامل كے) دونوں جہانوں ميں معرفتِ الہٰى سے محروم رہتے ہيں جيسا كے مشہور ہے "باادب با نصيب،بےادب بے نصيب"اور جس نے حق تعا لىٰ كى حضورى طلب نہ كى وه دونوں جہانوں ميں خالى ہاتھ ہو گيا۔

27
 

یوسف سلطان

محفلین
ب
06

ب- بزرگی نوں گَھت وہن لوڑھایئے،کریئے رَجّ مُکالا ھو ۔
لاَ اِلٰہَ گل گہناں مڑھیا،مذہب کی لگدا سالا ھو ۔
اِلّا اﷲ گھر میرے آیا،جیں آن اٹھایا پالا ھو۔
اساں بھر پیالا خضروں پیتا باہو،آب حیاتی والا ھو ۔
بزرگی : بڑائی،برتری
گَھت: ڈال کر
وہن: ندی
لوڑھایئے: بہائیے ، بہا دیں
رجّ: بہت زیادہ ، اچھی طرح
مُکالا : منہ کالا کرنا ، سیاہی یا کالک ملنا
لاَ اِلٰہَ: نفی ، نہیں ہے کوئی معبود
گل: گلا
گہناں : زیور
مڑھیا: پہنایا
لگدا : لگتا ہے
اِلّا اﷲ: اثبات ، مگر اللہ
جیں ۔آن: جس نے ۔ آ کر
پالا : سردی ، ڈر،خوف
اساں: ہم نے
پیالا۔ پیتا: پیالہ ۔ پیا


ترجمہ :
راهِ فقر ميں بزرگى،كشف وكرامات اور شہرت كى كوئی حیثيت نہيں ،راهِ عشق ميں تو بدنامياں اور برائياں ہيں۔ اس لئيےراهِ فقرميں لوگوں كى لعنت اور ملامت سے بالكل نہيں ڈرنا چاہيے اور استقامت سے راهِ عشق پر چلتے رہنا چاہيے۔ جب سے لاَ اِلٰهَ (نفى۔ نہيں ہے كوئى معبود) كا راز ہم پرعياں ہوا ہے كسى فرقہ اور مسلک سےكوئی تعلق نہيں رہا اور اثبات (اِلاَّ الله)كى حقيقت يہ ہےكہ الله تعالىٰ كے سوا كوئی موجود نہيں اوراس حقيقت كو پا كرہمارے اندرسے ہرڈراور خوف نكل گيا ہے اورہم وصالِ حق تعالىٰ كا آبِ حيات پى كرزنده وجاويد ہو گئے ہيں۔
28
 

یوسف سلطان

محفلین
ب
07

ب- بِسْمِ اللہ اِسم اﷲ دا،ایہہ وی گہناں بھارا ھو ۔
نال شفاعت سرور عالم،چُھٹسی عالم سارا ھو ۔
حدوں بے حد درود نبی نوں،جنیدا ایڈ پسارا ھو ۔
میں قربان تنہاں توں باہو،جنہاں ملیا نبی سوہارا ھو ۔
دا: کا
وی: بھی
گہناں : زیور
چُھٹسی: نجات پاےگا
جنیدا: جس کا
ایڈ :اتنا۔اس قدر
پسارا:وسعت،عظمت
تنہاں توں:ان پر
ملیا:ملا
سوہارا :صاحبِ عظمت وبرکت ورحمت


ترجمہ:
بِسْم الله ميں"اِسم الله" ذات پوشيده ہے اور يہ وه بھارى امانت ہے روزِازل جس كواٹھانے ميں انسان كے سوا ہرشے اور مخلوق نے عاجزى ظاہركردى تھى اور يہ امانت ہميں نبى كريم صلى الله عليه وسلم كے وسيلہ سے نصيب ہوئی ہے۔ روزِ قيامت رسول كريم صلى الله عليه وسلم كى شفاعت سے ہى تمام عالم كو نجات حاصل ہو گی اس ليےرسول كريم صلى الله عليه وسلم پر بے حد و بے حساب درود سلام بھيجنا چاہيے كہ ہم ايسےصاحبِ بركت،صاحبِ عظمت اور صاحبِ رحمت نبى صلى الله عليه وسلم كى امت سے ہيں اور آپ صلى الله عليه وسلم ايسے عظيم المرتبت نبى ہيں كہ "فقر" كى عظيم نعمت آپ صلى الله عليه وسلم كے وسيلہ سے ہى نصيب ہوٸى ہے۔
29
 

یوسف سلطان

محفلین
ب
08

ب- بنھ چلایا طرف زمیں دے،عرشوں فرش ٹکایا ھو ۔
گھر تھیں مِلیا دیس نکالا،اساں لِکھیا جھولی پایا ھو ۔
رہ نی دنیاں نہ کر جھیڑا،ساڈا اَ گّے دل گھبرایا ھو ۔
اسیں پردیسی ساڈا وطن دوراڈھا، باہودم دم غم سوایا ھو ۔
بنھ چلایا: باندھ کر بھیجا
طرف زمیں دے: زمین پر
ٹکایا : لا رکھا
گھر: مراد عالمِ لا هُوت
تھیں : سے
دیس نکالا: جلا وطنی
لکھیا : تقدیر میں جو لکھا تھا ، نوشتۂ تقدیر
جھولی:دامن
رہ نی دنیاں: ہمارا پیچھا چھوڑ دے دنیا
نہ کر جھیڑا: جھگڑا نہ کر
ساڈا ،اَگّے: پہلے ہی
دوراڈھا: بہت دور
دم دم: ہر لمحہ
سوایا: پہلے سے زیادہ


ترجمہ:
طالبِ مولیٰ کا اصل گھرتوعالمِ لاھوت ہے جہاں پر اس نے دیدارِالہیٰ کے سوا دنیا اورعقبیٰ کو ٹھکرا دیا تھا۔ آپ رحمتہ الله علیہ فرماتے ہیں یہ تو ہماری تقدیر ہے جس نے ہمیں جلا وطنی کی زندگی گزارنے پرمجبور کررکھا ہے اور ہمیں اپنے وطنِ ازلی،عالمِ لاھوت سےعالمِ خلق (نا سوت) میں لےآئی ہے۔ اے دنیا!ہمارا پیچھا چھوڑ دے اور ہمیں تنگ نہ کر ہمارا دل تو پہلے ہی فراقِ یار میں بے قرارو بے چین ہے۔ ہم تو اس دنیا میں پردیسی ہیں۔ ہمارا وطن تو محبوبِ حقیقی کے پاس ہے جو بہت دور ہے اوراِس تک جانے والی راہ میں بہت سی مشکلات اور مصائب ہیں جسے ہم نے دنیا کی محبت دل سے نکال کرعشق سےطے کرنا ہے۔ اورہرلمحہ یہ غم بڑھتا ہی جا رہا ہے۔
30
 

یوسف سلطان

محفلین
ب
09

ب- ب ت پڑھ کے فاضل ہوئے،ہک حرف نہ پڑھیا کِسّے ھو ۔
جیں پڑھیا تیں شوہ نہ لدّھا،جاں پڑھیا کُجھ تِسّے ھو ۔
چوداں طبق کَرن رُشنائی،اَنّھیاں کجھ نہ دِسے ھو ۔
باجھ وصال اﷲ دے باہو،سبھ کہانیاں قِصے ھو ۔
ب ت: اسمِ اللهُ ذات کے علاوہ دیگر ذکر ازکار اور دینی، دنیاوی علوم
ہک حرف: ایک حرف (مراد اسمِ اللهُ ذات)
کِسّے: کسی نے
جیں : جس نے
تیں: اس کو
شوہ نہ لدّھا: اللہ تعالیٰ نہ ملا
جاں : اگر
کُجھ: کچھ
تِسّے: اس نے ،اس کو
چوداں طبق: چودہ طبق ، تمام کائنات
کَرن۔ رُشنائی :کریں ۔ روشنی
اَنّھیاں: اندھوں کو ، مراد دل کے اندھے ، نورِ بصیرت سے محروم
دِسے: دکھائی دے
باجھ: بغیر


ترجمہ:
زاہد اورعلماء صفات،دیگر ذکرازکاراور تمام علوم کامطالعہ کرکےعالم فاضل بن چکے ہیں۔ مگرایک خرف الف یعنی "اسمِ اللهُ ذات"کی حقیقت اوراسرار سے بے خبر ہیں۔ اگراسمِ اللہُ کا ورد اور ذکر کیا بھی، تو وہ بھی مرشد کامل اور طلبِ صادق کے بغیر، پھر بھلا دیدارِ الہیٰ کیسے حاصل ہوتا۔ زمین اورآسمان اسمِ اللہُ ذات سے روشن ہیں مگران دل کے اندھوں کوکچھ نظرنہیں آتا۔ وصالِ الہیٰ (فنافی ھو)کے بغیرباقی سب مقامات اورمنازل بے کاراوربے فائدہ ہیں۔
31
 

یوسف سلطان

محفلین
ب
10
ب- بوہتی میں اؤگن ہاری،لاج پئی گل اس دے ھو ۔
پڑھ پڑھ علم کَرن تکبر،شیطان جیہے اوتھے مسدے ھو ۔
لکھاں نوں ہے بَھو دوزخ دا،ہکّ نت بہشتوں رُسدے ھو ۔
عاشقاں دے گل چُھری ہمیشاں باہو،اگے محبوب دے کُسدے ھو ۔
بوہتی : بہت زیادہ
اؤگن ہاری: گناہ گار ، بد نصیب ، خطاکار
لاج : شرم ، عزت
پئی گل: گلے پڑی
اس دے: اس کے
کَرن ۔ جیہے ۔اوتھے: کریں۔ جیسے ۔ وہاں
مسدے: محروم رہے
لکھاں۔ نوں: لاکھوں ۔ کو
بَھو:ڈر ، خوف
دوزخ دا: دوزخ کا
ہکّ ۔ نت: ایک ۔ روزانہ
بہشتوں: جنت ، بہشت
رُسدے: روٹھتے
دے۔ گل: کے ۔ گلے
محبوب : اللہ تعالیٰ ۔ مرشد کامل
کُسدے: ذبح ہوتے


ترجمہ :
میں بہت ہی بدنصیب، گناہ گاراورخطا کارہوں لیکن مجھے فخرہےکہ میرےگلےمیں مرشد کی غلامی کی زنجیر ہےجومجھےخوش بخت لوگوں کےگروہ میں شامل کروادے گا۔ بہت سے لوگ شیطان کی طرح اپنےعلم پرتکبرکی وجہ سے وصالِ حق تعالیٰ سے محروم ہیں اورلاکھوں لوگوں کودوزخ کےعذاب کاخوف لاحق ہے لیکن کچھ ایسے ہیں جو بہشت کی نعمتوں کوٹھکراکردیدارِحق تعالیٰ کے لئے تڑپ رہے ہیں۔ عاشقِ حقیقی توہمیشہ اپنے محبوب کی رضا کے سامنے سرِتسلیم خم کیے رہتے ہیں ۔​
32​
جاری ہے ۔۔۔​
 

یوسف سلطان

محفلین
پ
01

پ- پڑھ پڑھ علم ملوک رجھاون،کیا ہویا اِس پڑھیاں ھو ۔
ہرگز مکھن مول نہ آوے،پھٹے ددّھ دے کڑھیاں ھو ۔
آکھ چنڈورا ہتھ کے آئیو اِی،ایس انگوری چنیاں ھو ۔
ہک دل خستہ رکھیں راضی باہو،لئیں عبادت وَرہیاں ھو ۔

ملوک: مَلک کی جمع،بادشاہ،حکمران
رجھاون: راضی کرتے ہیں ،خوشنودی حاصل کرتے ہیں
مول۔آوے: باکل،ہرگز ۔ آئے
پھٹے ددّھ: خراب دودھ ،پھٹا ہوا دودھ
کڑھیاں: ابلنے پر
آکھ: کہیں
چنڈورا : ایک پرندہ ، مراد بے عقل ، بدبخت
ہتھ ۔کے۔ آئیو: ہاتھ ۔ کیا ۔ آیا
انگوری: فصل کاشت کرنے پر پہلی کونپل جو زمین سے نکلتی ہے
چنیاں: اکھاڑنے ، تباہ کرنے
ہک: ایک
خستہ : دکھی،پُر درد
رکھیں راضی: راضی رکھنا
لئیں : لے لینا ، حاصل کر لینا
وَرہیاں: سالہا سال کی

ترجمہ :
علماء اور تعليم يافتہ لوگ صرف حكمرانوں،امراء،روساء اور حكومتى اہل كاروں كو خوش كرنے يا حكومت ميں كوٸى عہده پانے كے ليئےعلم حاصل كرتےہيں اورمعرفتِ الہىٰ يا الله تعالىٰ كى رضا ان كا مقصود نہيں ہے۔ چونكہ ان كى نيت ميں ہى كھوٹ ہوتا ہے۔اس لیے يہ علم كى كنہہ اورحقيقت اورالله تعالىٰ كى نظرِرحمت سے محروم رہتے ہيں۔ يہ تو وه لوگ ہيں جو علم كا مغزحاصل كرنے كى بجائے ہڈيوں كوبھنبھوڑرہے ہيں۔ آپ رحمتہ الله عليہ فرماتے ہيں اگرتوُ كسى ايسے صاحبِ دل فقيركو جو وصالِ الہىٰ پا چكاہو،خوش اورراضى كرلےتوتجھےكٸ برسوں كى عبادت كاثواب ملے گا۔
33
 
آخری تدوین:

یوسف سلطان

محفلین
پ
02

پ- پڑھ پڑھ عالِم کَرن تکبر،خافظ کرن وڈیائی ھو ۔
گلیاں دے وچ پھرن نمانے،وَتن کتاباں چائی ھو ۔
جتھے ویکھن چنگا چوکھا،اوتھے پڑھن کلام سوائی ھو ۔
دوہیں جہانی سوئی مُٹھے باہو،جنہاں کھادھی ویچ کمائی ھو ۔

کَرن۔ وڈیائی : کریں ۔ بڑھائی ،خود تعریفی
دے : میں
پھرن: چکر لگاتے یعنی ڈھنڈورا پیٹتے ہیں
نمانے: بیچارے
وَتن: پھرتے ہیں
کتاباں: کتابیں
چائی : اٹھائے ہوے
جتھے۔ ویکھن: جہاں ۔ دیکھیں
چنگا : اچھا ، پسندیدہ ، لذیذ ، مرغن کھانا ، مال و دولت
چوکھا۔ پڑھن : زیادہ ۔ پڑھتے ہیں
سوائی : زیادہ
دوہیں جہانی : دونوں جہاں میں
سوئی : وہی
مُٹھے : محروم رہے ، لٹ گئے
جنہاں۔ کھادی: جنہوں نے ۔ کھائی
ویچ: بیچ کر ، فروخت کر کے


ترجمہ:
آپ رحمت الله عليہ ان علماء اورحفاظ كے رويہ پرحيرت كا اظہار فرما رہےجو حصولِ علم كے بعد تكبرميں مبتلا ہو جاتے ہيں اوراپنےعلم اور فضيلت كا ڈھنڈورا پيٹتے رہتے ہيں اور اپنى فضيلت كا خود ہى اظہاركرتے رہتے ہيں ليكن اُن كے باطن اورايمان كى يہ حالت ہےكہ مال ودولت كے لیے علم كى حقيقت كو فروخت كر ديتے هيں اوراس کے لیے ہر لمحہ تياررہتے ہيں پھر جب مال مل جائے تو طرح طرح كى تاويليں گھڑ كرحق كوچھپا ليتے ہيں۔ حكمرانوں اورمال يا عہده دينے والوں كى منشاء كے مطابق علم كى شرح بيان كرتے ہيں۔ ايسے بے ضميرعالم و تعليم يافتہ لوگ اورعلم كو فروخت كرنے والے علماء، دونوں جہانوں ميں روسياه اور خوار ہوں گئے۔
34
 
آخری تدوین:

یوسف سلطان

محفلین
پ
03

پ- پڑھ پڑھ علم مشائخ سداون،کرن عبادت دوہری ھو ۔
اندر جھگی پئی لٹیوے،تن من خبر ناں موری ھو ۔
مولٰی والی سدا سکھالی،دل توں لاہ تکوری ھو ۔
باہو ربّ تنہاں نوں حاصل ،جنہاں جگ نہ کیتی چوری ھو ۔
مشائخ : شیخ کی جمع یعنی پیر یا مرشد
سداون: کہلاتے ہیں
کرن ۔ دوہری: کرتے ہیں ۔ دوگنی ،زیادہ
جھگی: گھر
لٹیوے: لٹ رہی ہے
تن۔ من : جسم (ظاھر) ۔ باطن
ناں۔موری :نہ ۔ نقب
مولٰی والی: اللہ مالک ہے
سدا سکھالی: سدا سوکھی یا ہمیشہ سکون
دل توں : دل سے
لاہ: اتار دے
تکوری : سیاہی ، زنگ (تکوری دھوئیں کی تہہ کو کہتے ہیں)
تنہاں نوں: اُن کو
جنہاں ۔ کیتی: جنہوں نے ۔ کی


ترجمہ:
بہت سے لوگ ايسے ہيں جونہ كسى مرشدِ كامل سے علمِ حقيقت (علمِ باطن) حاصل كرتے ہيں اورنہ ہى انہيں حضوراكرم صلى الله عليہ وسلم كى بارگاه سے تلقين وارشاد كى اجازت ہو تى ہےبلكہ علمِ شريعت (علمِ ظاہر) حاصل كركےمشاٸخ كى مسند پر براجمان ہوجاتے ہيں اور لوگوں كو دكھانے كے لٸے خوب عبادت اور رياضت كرتے ہيں۔ ليكن ان كے دل كے اندر نفس اورشيطان نے سرنگ بنا ركھى ہوتى ہے اور خود اُن كا اپنا ايمان سلب ہوچكا ہوتا ہے۔اس ليےاےشيخ!تواپنى آنكھوں سے غفلت كا پرده اور دل سے زنگ اور سياہى اتاراور حقيقت كو پانے كے ليے كسى مرشد كامل اكمل كادامن پكڑ ۔ كيونكہ وصالِ الہٰى تو ان كو حاصل ہوتا ہےجوراهِ فقرميں عقل،چالاكى اورمكروفريب سے كام نہيں ليتے بلكہ دنيا سے منہ موڑ كراستقامت،خلوصِ نيت اوررضائے الہٰى كے مطابق راهِ فقر پر گامزن رہتے ہيں۔
35
 
آخری تدوین:

یوسف سلطان

محفلین
پ
04

پ- پڑھ پڑھ عِلم ہزار کتاباں،عالم ہوئے بھارے ھو ۔
اِک حرف عشقَ دا پڑھن نہ جانن،بھلے پھرن بچارے ھو ۔
لکھ نگاہ جے عالم ویکھے،کِسے نہ کدھی چاہڑے ھو
اک نگاہ جے عاشق ویکھے،لکھاں کڑوراں تارے ھو ۔
عشقَ عقل وِچ منزل بھاری،سَے کوہاں دے پاڑے ھو ۔
جنہاں عشق خرید نہ کیتا باہو،اوہ دوہیں جہانیں مارے ھو ۔
کتاباں: کتب،کتابیں
بھارے: جیّد عالم،بہت بڑے
دا ۔پڑھن ۔ جانن: کا۔ پڑھنا۔ جانتے ہیں
بھلے پھرن: بھٹکتے پھرتے ہیں
جے ۔ لکھاں ۔ کڑوراں: اگر۔ لاکھوں۔ کڑورں
تارے: پار لگاے،منزل پرپہنچا دے
وِچ:درمیان
منزل بھاری: بہت فاصلہ،بہت فرق
سَے کوہاں : سینکڑوں میل
دے پاڑے: کے فاصلے
ویکھے۔ کِسے: دیکھے ۔ کسی کو
کدھی: کنارہ ، منزل
چاہڑے: پار کرا دے ، پہنچا دے
عشقَ خرید نہ کیتا: راہِ عشق پر نہ چلے
اوہ ۔ دوہیں جہانیں: وہ ۔ دونوں جہانوں میں
مارے: مر گئے،گھاٹے میں رہے ، نہ کم رہے


ترجمہ:
بہت سے لوگ ہزاروں كتب كے مطالعہ سےجيد عالم تو بن گئے ہيں ليكن راهِ عشق كا ایک حرف تک انہيں معلوم نہيں ہے اس ليےحقيقت سے دورظاہرى تاويلات ميں الجھے ہوئے ایک دوسرے سے جھگڑ رہے ہيں اور صراطِ مستقيم سے بھٹكے ہوئے ہيں۔اگرعالم كسى ایک طالب كى طرف لاكھ باربھى نگاه كرےتو اس كومعرفتِ حق تعالٰى تک نہيں پہنچاسكتاليكن اس کےبرعكس عاشق(مرشدكامل) لاكھوں لوگوں كوایک ہى نگاه سے معرفتِ الہٰى ميں غرق كرديتا ہے۔ عشق وعقل كا تو آپس ميں كوٸى واسطہ ہى نہيں ہے اور اِن دونوں كے درميان تو وسيع خليج حاٸل ہے۔ جنہوں نے جان و مال كے عوض عشق كا سودا نہ كيا وه دونوں جہانوں ميں نا كام ونامراد ہو گئے۔
36
جاری ہے ۔۔۔
 

یوسف سلطان

محفلین
پ
05
پ- پڑھیا علم تے ودّھی مغروری،عقل بھی گیا تلوہاں ھو ۔
بُھلا راہ ہدایت والا،نفع نہ کیتا دُوہاں ھو ۔
سر دِتّیاں جے سِّر ہتھ آوے،سودا ہار نہ توہاں ھو ۔
وڑیں بازار محبت والےباہو،راہبر لے کے سُوہاں ھو ۔
تے:اور
ودّھی: زیادہ ہو گئی ،بڑھ گئی
مغروری: غرور،تکبر ،انانیت
تلوہاں: نیچے کی طرف ،کمی ہونا
بُھلا :بھول گیا
کیتا۔ دُوہاں: کیا ۔ دونوں نے
دِتّیاں: دینے سے
سِّر : راز ،رازِ پنہاں
ہتھ ۔آوے:ہاتھ ۔ آ جائے
سودا ہار نہ : سودا ضائع نہ کرنا
توہاں: تو خُود
وڑیں:داخل ہونا ، جانا
راہبر : مرشد کامل
سُوہاں: واقفیت رکھنے والا،واقف کار


ترجمہ :

سلطان العارفين حضرت سخى سلطان باهو رحمته الله عليه اس بيت ميں اُن علماء كا ذكر فرما رہے ہيں جن ميں علم حاصل كرنے كے بعد غرور، تكبراوراكڑ پيدا ہو جاتى ہے۔آپ رحمته الله عليه اُن كو مخاطب كر كے فرماتے ہيں كہ علمِ ظاہر كے حصول كے بعد تُوغرور'تكبراورخودپسندى ميں مبتلا ہوگيا ہے جس سے تيرى عقل نے بھى تيرا ساتھ چھوڑ ديا ہے۔بجائے اس كےكہ علم حاصل كرنےسےتيرى عقل ميں اضافہ ہوتا اورتُوصراطِ مستقيم كوپہچان ليتا ليكن تُوتكبراورانانيت كى وجہ سےابليس كى طرح اپنى عقل بھى گنوابيٹھاہے۔علم اورعقل دونوں ميں سےكسى نے تجھے فاٸده نہيں ديااورتُواسى تكبراورانانيت كى وجہ سے"ہدايت كى راه"(صراطِ مستقيم) سے گمراه ہو چكا ہے۔اگر سر دينے سے سِّرِالہٰى ہاتھ آجاےتواس سودےسےدريغ نہيں كرنا چاہيےليكن عشق كہ بازار ميں مرشد كامل كى راہبرى ميں ہى داخل ہونا چاہيے كيونكہ وه اس راه كا واقف ہوتا ہےاور راہبر كے بغير منزل نہیں ملتی۔
37
 

یوسف سلطان

محفلین
پ
06

پ- پاک پلیت نہ ہندے ہرگز،توڑے رہندے وِچ پلیتی ھو ۔
وحدت دے دریا اُچھلے،ہکّ دل صحی نہ کیتی ھو ۔
ہکّ بت خانیں واصل ہوئے،ہکّ پڑھ پڑھ رہن مسیتی ھو ۔
فاضل سُٹ فضیلت بیٹھے باہو،عشقَ نماز جاں نیتی ھو ۔
پلیت:پلید ،ناپاک، نجس
ہندے: ہوتے
توڑے:خواہ ، چاہے
رہندے:رہتے ہوں
وِچ ۔ پلیتی:درمیان ۔ ناپاکی ،پلیدی
وحدت۔ دے: مرتبہءوحدت ۔ کے
اُچھلے: ٹھاٹھیں مار رہے
ہکّ ۔ صحی : ایک ۔ صحیح
کیتی: کی ، کیا
بت خانیں: بت خانوں میں ۔ عبادت گاہوں کے علاوہ دوسری جگہ۔مقامات
واصل ہوئے: فنانی اللہ ہوئے
رہن۔ مسیتی: رہیں ۔ مسجد میں
سُٹ: پھینک کر ،چھوڑ کر
جاں۔ نیتی: جب ۔ نیت کی


ترجمہ :
جوازلی طالبانِ مولیٰ ہیں وہ اگردنیا ' نفس اور شیطان کے جال میں پھنس جائیں تو سدا اُن کے پھندے میں نہیں رہتے اور کھبی نہ کھبی اپنی اصل (اللہ تعالیٰ ) کی طرف پلٹ ہی آتے ہیں۔ روحانی طورپر پاکیزہ لوگ اگر گناہ آلود، شرک، بے دینی اورلہوولہب والی جگہ پررہیں تو اس کا اُن کے باطن پر کوئی اثر نہیں ہوتا۔وحدت کا دریا تو موجزن ہے اور ٹھاٹھیں ماررہا ہے لیکن دل کے اندھے اسے پہچان نہیں پا رہے اوراس نعمت سے یہ لوگ محروم ہیں۔ بعض لوگ بت خانہ جا کر (عبادت گاہوں کے علاوہ کہیں اور جگہ ) بھی معرفتِ حق تعالیٰ حاصل کر لیتے ہیں اور بعض مساجد میں بیٹھ کراپنے تکبر،عُجب،انانیت اور نورِ بصیرت سے محرومی کے سبب اس سے محروم رہتے ہیں اور پھر جب عشق دل پر قبضہ کر لیتا ہے تو کئی عالم فاضل اپنی فضیلت اورمراتب چھوڑکرعاشقِ ذات بن جاتے ہیں۔
38
 

یوسف سلطان

محفلین
پ
07

پ- پیر ملیاں جے پیڑ ناں جاوے،اُس نُوں پیر کی دَھرناں ھو ۔
مُرشد مِلیاں اِرشاد نہ مَن نوں،اوہ مرشد کی کرنا ھو ۔
جس ہادی کولوں ہدایت ناہیں،اوہ ہادی کی پھڑناں ھو ۔
جےسر دِتیاں حق حاصل ہووے باہو،اُسموتوں کی ڈرنا ھو ۔
ملیاں: ملنے سے
پیڑ: درد،دکھ،یعنی مقصود حاصل نہ ہونا
ناں۔ جاوے:نہ ۔ جائے
نُوں ۔ دَھرناں: کو ۔ رکھنا
اِرشاد: ہدایت
مَن : روح ، باطن
اوہ ۔ کی: وہ ۔ کس لئے،کیونکر
ہادی :ہدایت دینے والا یعنی مرشد کامل
کولوں ۔ ناہیں : سے۔ نہ ہو
پھڑناں: پکڑنا ،بیت کرنا
جے۔ دِتیاں: اگر ۔ دینے سے
حق : اللہ تعالیٰ
ہووے : ہو جائے
موتوں: موت سے
ڈرنا: ڈرنا،خوف کھانا

ترجمہ :
طالبِ صادق کا اگر کسی مرشد کے دستِ بعیت ہونے کے بعد اللہ تعالیٰ کے وصال کا درد نہ جائے تو ایسے ناقص مرشد کو مرشد تسلیم کرنے سے ہی انکار کردینا چاہیے۔جس مرشد سے دل کو رُشد وہدایت حاصل نہ ہو اورمن کو سکون نہ ملے تو ایسے مرشد کے قریب بھی نہیں جانا چاہیے اور جس ہادی(مرشد)سے ہدایت اور صراطِ مستقیم حاصل نہ ہو اس ہادی کی بیعت اور پیروی نہیں کرنی چاہیے۔ ہاں اگر ایسا مرشد کامل مل جائے جہاں سر قربان کر کے دیدار الہیٰ حاصل ہو جائے تو ایسی موت سے گھبرانہ نہیں چاہیے۔
39
 
Top