سلطان باہو حضرت سلطان باہو رحمتہ الله علیہ کا مکمل پنجابی کلام معنی اور ترجمہ کے ساتھ

یوسف سلطان

محفلین
پ
08
پ- پاٹا دامن ہویا پرانا،کچرک سیوے درزی ھو ۔
دل دا محرم کوئی نہ مِلیا،جو مِلیا سو غرضی ھو ۔
باجھ مُربّی کِسے نہ لدّھی،گَجھی رمز اندر دی ھو ۔
اُوسے راہ وَل جائیے باہو،جس تھیں خلقت ڈردی ھو ۔
پاٹا دامن: پٹھا ہوا،تار تار دامن
ہویا : ہوا
کچرک: کب تک
سیوے: رفو کرنا ،سلائی کرنا
دل دا محرم: وہ طالبِ صادق جس کو مرشد امانتِ الہٰیہ(روحانی ورثہ)مںتقل کرکے سلسلہ کاسربراہ بناتا ہے
غرضی: مطلب پرست،غرض مند
باجھ :بغیر
مُربّی : مراد مرشدِ کامل
کِسے : کسی
لدّھی: پائی،حاصل کی
گَجھی: پوشیدہ
رمز:راز
اندر: باطن
اُوسے راہ وَل: اس راستے کی طرف
جائیے۔ جس تھیں: جانا چاہیے۔جس سے
خلقت۔ ڈردی: دنیا ۔ ڈرتی ہو


ترجمہ:

آپ رحمتہ اللہ علیہ فرما رہے ہیں کہ طالبِ صادق کو تلاش کرتے کرتے میرا دامن تار تار ہو چکا ہے۔ اب تک تو دل کا محرم (صادق طالب مولیٰ جس کو مرشد امانتِ الہٰیہ منتقل کرکے مسند تلقین وارشاد پر فائز کرتا ہے) نہیں ملا۔ اللہ تعالیٰ کی طلب دل میں لے کر کوئی بھی میرے پاس نہیں آیا کہ میں اسے اللہ سے ملا دوں جو بھی آیا اپنے ذاتی اغراض و مقاصد کے حصول کے لئے آیا۔ بغیرمرشد کامل اکمل کے'کوئی بھی دل کے اندر پوشیدہ رازِحق تعالیٰ کو نہیں پا سکتا۔دیدارِذات کے راستہ پر چلنا چاہیے لیکن لوگ اس راہ پر چلنے سے ڈرتے ہیں اور بعض تو خوف کی وجہ سے اس راہ کا ہی انکار کر دیتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بعض کتب میں اس بیت کا دوسرا مصرعہ اس طرح سے ہے: حال دا محرم کوئی نہ ملیا جو ملیا سو غرضی ھو
یہاں"دل دا محرم" درست ہے کیونکہ "دل دا محرم"وہ طالب ہوتا ہے جو مرشد کا فرزندِ حقیقی ہوتا ہے جس کو مرشد اپنا روحانی ورثہ منتقل کر کے سلسلہ کا سربراہ منتخب کرتا ہے۔ بیت 77 آپ رحمتہ اللہ علیہ نے "جیہڑے محرم نہ ہی دل دے ھو" اور بیت 78 میں "جو دل دا محرم ہووے" استعمال فرمایا ہے اس لئے اصل "دل دا محرم" ہے نا کہ حال دا محرم ۔
ڈاکٹر سلطان الطاف علی نے یہ بیت سلطان الاولیاء حضرت سخی سلطان محمد عبدالعزیز رحمتہ اللہ علیہ سے سماعت فرمایا اور انہوں نے " حال دا محرم" تحریر فرمایا ہے لیکن اس عاجز نے تصحیح کے لیے اپنے مرشد سلطان الفقر ششم حضرت سخی سلطان محمد اصغر علی رحمتہ اللہ علیہ سے اس بیت کی درستگی کے لیے فرمایا انہوں نے بھی یہ بیت اپنے والد اور مرشد سلطان الاولیاءحضرت سخی سلطان محمد عبد العزیز رحمتہ اللہ علیہ سے ہی سماعت فرمایا تھا تو انہوں نے "دل دا محرم" درست قرار دیا تھا۔

40
جاری ہے۔۔
 

یوسف سلطان

محفلین
پ
09

پ- پنجے محل پنجاں وِچ چانن،ڈیوا کِت ول دھریئے ھو ۔
پنجے مہر پنجے پٹواری،حاصل کِت ول بھریئے ھو ۔
پنجے امام تے پنجے قبلے،سجدہ کِت ول کریئے ھو ۔
باہوجے صاحب سر منگے ،ہرگز ڈِھلّ نہ کریئے ھو ۔
پنجے: پانچوں
محل: یہاں پنجتن پاک کا بشری وجود مراد ہے
پنجاں ۔ وِچ: پانچوں ۔ میں
چانن: روشنی ، نور
ڈیوا : دیا،چراغ
کِت ول: کدھر،کس جانب
دھریئے: رکھیں
مہر: سردار،چوہدری،مہرکا مطلب سورج بھی ہے جوہرایک کوبلا امتیازروشنی بخشتاہے
حاصل : مالیہ
بھریئے: بھریں،ادا کریں
جے۔ صاحب : اگر ۔ اللہ تعالیٰ
منگے : مانگے،طلب کرے
ڈِھلّ :دیر،تاخیر
کریئے:کریں


ترجمہ:
اس بيت ميں پنج(پانچ)كى تكرارہے اوراس كے بارےميں شارخين ميں كافى اختلاف پايا جاتا ہے۔
• ڈاكٹرنزيراحمد كواس بيت كى بالكل بھى سمجھ نہ آئى اورانہوں نے اپنى طبيعت كے رخ كے مطابق اسے بجھارت لكھ ديا۔
• محمد شريف صابرتحريركرتے ہيں"اس بيت كى بجھارت كا درست اورصحيح حل نہيں ملا "پھر انہوں نے محل كو ميحل ميں بدل كراس كے معنى حواسِ خمسہ يا شريعت، طريقت،حقيقت،معرفت اوروحدت لكھ كرجان چھڑالى۔
•نورمحمد كلاچوى اورڈاكٹرسلطان الطاف على كےمطابق سلطان العارفين حضرت سخى سلطان باہو رحمتہ الله عليه نےاس بيت ميں ظاہرىاور باطنى حواسِ خمسہ كےبارےميں فرماياہے كيونكہ انسان تمام ظاہرى اورباطنى علوم انہى ظاہرى اورباطنى حواسِ خمسہ كے ذريعےحاصل كرتا ہےاوراس كوان باطنى حواسِ خمسہ ميں ذاتِ حق تعالٰى ديكھائى ديتی ہے۔
•احمد سعيد ہمدانى گومگو كى كيفيت ميں رہےاورتحريركرتےہيں كہ يہ پانچ' حواسِ خمسہ بھى ہو سكتےہيں جن كےذريعےدماغ معلومات فراہم كرتا ہےاوريہ پانچ مقاماتِ قوت و شعور بھى ہوسكتے ہيں جن كوصوفياءكرام ،قلب ،روح ، سِرّ،خفى اوراخفٰى كا نام ديتےہيں جب يہ برٶے کارآتےہيں تو ان كےاندرروشنى نظرآتى ہےاوركئى بھيد كھلتےہيں صوفياءكرام انہيں لطائف كا نام ديتےہيں يہ لطائف باطنى علوم كا ذريعہ ہيں۔
مندرجہ بالا شارحين كى شرح كا لبِ لباب يہ ہے كہ جب حواسِ خمسہ (پانچ حواس ) يا پانچ لطائف روشن ہو جاتے ہيں تو ہر ايک ميں ذاتِ حق كا جلوه نظرآتا ہےاور سالک كوپانچوںحواس يا لطائف ميں ذاتِ الہٰى كے سوا كچھ نظر نہيں آتا۔
جہاں تک ظاہرى اورباطنى حواسِ خمسہ كاتعلق ہےتواس کاسلطان العارفين حضرت سخى سلطان باہو رحمتہ الله عليہ كى تعليمات ميں كہيں ذكرنہيں ملتااس ليے يہ شرح كچھ درست معلوم نہيں ہوتى۔
جہاں تک لطائفِ ستہ" نفس،قلب،روح،سِرّ،خفی،اوراخفٰی"کا تعلق ہےتوان میںایک لطیفہ نفس ظاہری اورپانچ باطنی ہیں سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باہو رحمتہ اللہ علیہ ان پانچ لطائف کے قائل ہی نہیں ہیں آپ رحمتہ اللہ علیہ اخفٰی سے آگے یخفٰی اوریخفٰی سے آگے ایک اورمقام اَنا کا ذکر فرماتے ہیں۔
کلید التوحید کلاں میں فرماتے ہیں:
  • معرفتِ توحیدِ الہیٰ تصدیق ہے،تصدیق قلب میں ہے،قلب روح میں ہے،روح سِرّمیں ہے او سِرّخفی میں اور خفی یخفٰی میں ہے۔
مقامِ اَنا کے بارے میں عین الفقر میں فرماتے ہیں:
  • حدیثِ قدسی میں فرمانِ حق تعالیٰ ہے"بیشک آدمی کے جسم میں ایک ٹکڑا ہےجو فواد میں ہے،فواد قلب میں ہے،قلب روح میں ہے،روح سِرّمیں ہےاورسِرّخفی میں ہے اورخفی انا میں ہے۔ جب کوئی فقیرمقامِ انا میں پہنچ جاتا ہےاس پرحالتِ سکروارد ہوجاتی ہے"(عین الفقر)
  • اَنا بھی دو قسم کی ہوتی ہے قُمْ باِذْنِ اللهِ اورقُمْ بِاِذْنِیِ۔ فقیراَنا کی انہی دوحالتوں سے منسلک رہتا ہے۔ (عین الفقر)
  • عین الفقرمیں فقیرِکامل کا ذکرکرتے ہوئے آپ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں :
اس کانفس قلب بن جاتا ہے،قلب روح کی صورت اختیارکرلیتا ہے،روح سِرّبن جاتا ہے اورسِرّخفی بن جاتا ہےخفی انا میں تبدیل ہوجاتی ہےاورانا مخفی میں ڈھل جاتی ہےاوراسے توحیدِ مطلق کہتے ہیں۔

سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باہو رحمتہ اللہ علیہ کثرت کے نہیں وحدت(وصالِ الہیٰ)کے قائل ہیں۔آپ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
باجھ وصال اللہ دے باہو،سب کہانیاں قصے ھُو
مفہوم : وصالِ الہیٰ کے بغیر تمام مقامات اور منازل بے کارہیں۔
آپ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

چار بُودم سہ شدم اکنوں دویم ، و ز دوئی بہ گزشتم و یکتا شدم
ترجمہ:میں پہلے چار تھا پھر تین ہوااور جب دوئی سے بالکل نکل گیا تو یکتا ہو گیا۔
آپ رحمتہ اللہ علیہ کے طریقہ سلوک میں یکتائی یعنی وصالِ الہیٰ کے بغیرتمام مقامات اورمنازل بے کاراورلا حاصل ہیں اس لیے پانچ حواس یا لطائف میں ذاتِ حق کا نظرآنا یا دیدار ہونے کے آپ قائل ہی نہیں ہیں۔
اس بیت میں پنجے،پنجاں یعنی پنج کی تکرار ہے اور سب جانتے ہیں پنجابی میں جب پنج کا ذکرہو تو مراد پنجتن پاک یعنی اہل بیتؓ ہوتے ہیں حضرت سخی سلطان باہو رحمتہ اللہ علیہ بھی اسی طرف اشارہ فرما رہے ہیں کہ پنجتن پاک کی معرفت حاصل کیے بغیرفقرکی انتہا تک رسائی ناممکن ہے۔
پنجتن پاک (اہل بیتؓ ) کے بارے میں حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

  • حضرت مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے"حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: فاطمہ (رضی اللہ تعالیٰ عنہا)تو بس میرے جسم کا ٹکڑا ہے'اسے تکلیف دینے والی چیز مجھے تکلیف دیتی ہے"۔(مسلم ،نسائی)
  • حضرت مسوربن مخرمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے "حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:بے شک فاطمہ(رضی اللہ عنہا) میری شاخ ہے،جس چیز سے اسے خوشی ہوتی ہے اس چیز سے مجھے بھی خوشی ہوتی ہے اور جس سے اُسے تکلیف پنہچتی ہے اس چیزسے مجھے بھی تکلیف پنہچتی ہے"۔ (امام احمد ۔حکام)
  • اُم المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا روایت فرماتی ہیں"میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی سیّدہ فاطمہ رضی اللہ عنہاسے بڑھ کر کسی کوعادات واطوار'سیرت و کرداراور نشست وبرخاست میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے مشابہت رکھنے والا نہیں دیکھا"۔(امام ترمزی ۔ابوداؤد )
  • اُم المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا روایت فرماتی ہیں"میں نے اندازِ گفتگو میں حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے بڑھ کر کسی اور کو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس قدر مشابہت رکھنے والا نہیں دیکھا"۔ (بخاری ۔ نسائی ۔ابنِ حبان)
  • حضرت حبشی بن جنادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،وہ فرماتے ہیں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : علی( رضی اللہ عنہ) مجھ سے اور میں علی (رضی اللہ عنہ ) سے ہوں اور میری طرف سے میرے اور علیؓ کے سوا کوئی دوسرا ادا (ذمہ داری) نہیں کر سکتا"۔ (ترمذی ۔ ابنِ ماجہ ۔ احمد)
  • حضرت شعبہ رضی اللہ عنہ' سلمہ بن کبیل سے روایت فرماتے ہیں"میں نے ابوطفیل سے سناکہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جس کا میں مولیٰ ہوں'اس کا علی مولیٰ ہے۔"(امام ترمذی)
  • حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ ایک طویل روایت میں بیان فرماتے ہیں"حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"بے شک علی مجھ سے ہے اور میں اس سے ہوں۔"(امام ترمزی ۔احمد )
  • حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے روایت ہے"حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے غدیرخم کے دن فرمایا:جس کا میں مولیٰ ہوں'اس کا علی مولیٰ ہے۔"(امام احمد ۔ طبرانی)
  • حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ روایت فرماتے ہیں"حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اُم المومنین حضرت امِ سلمہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا:یہ علی بن ابن طالبؓ ہے اس کا گوشت میرا گوشت ہے اور اس کا خون میرا خون ہے اور یہ میرے لیے ایسے ہے جیسے حضرت موسیٰ علیہ لسلام کے لیے حضرت ہارون علیہ لسلام'مگر یہ کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں۔"(امام طبرانی)
  • حضرت علی رضی اللہ عنہ روایت فرماتے ہیں کہ "امام حسن رضی اللہ عنہ سینہ سےسر تک حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی کامل شبیہ ہیں اور امام حسین رضی اللہ عنہ سینہ سے نیچے پاؤں تک حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی کامل شبیہہ ہیں۔"(امام ترمذی ۔احمد)
  • حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے "حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جس نے حضرت حسن اور حسین رضی اللہ عنہم سے محبت کی 'اس نے درحقیقت مجھ سے ہی محبت کی اور جس نے حسن اور حسین (رضی اللہ عنہم)سے بغض رکھا اس نے مجھ ہی سے بغض رکھا۔"(ابن ماجہ ۔ نسائی ۔ احمد)
  • حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:حسینؓ مجھ سے ہے اور میں حسینؓ سے ہوں۔"
  • حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ ارشاد فرماتے ہیں کہ جب یہ آیت مبارکہ :"آپ فرما دیں کہ آ جاؤ ہم اپنے بیٹوں کو اور تمہارے بیٹوں کو لیتے ہیں" نازل ہوئی تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی، حضرت فاطمه ،حضرت حسن اور حضرت حسین کو بلایا'یا اللہ !یہ میرے اہل بیت ہیں۔"(مسلم ۔ ترمذی)
  • حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں" حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نےحضرت حسن اور حسین( رضی اللہ عنہم) کا ہاتھ پکڑا اور فرمایا :جس نے مجھ سے اوران دونوں سے محبت کی اوران کے والد سےاور ان کی والدہ سے محبت کی قیامت کے دن میرے ساتھ میرے ہی درجہ میں ہو گا۔"(ترمذی۔احمد)
  • حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے" حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی، حضرت فاطمه ،حضرت حسن اور حضرت حسین سے فرمایا:جس سے تم لڑو گے میری بھی اس سے لڑائی ہو گی اور جس سے تم صلح کرو گے میری بھی اس سے صلح ہو گی۔"(ترمذی۔ابن ماجہ)-؎۱
___________________________________________________
؎۱ فضائل اہل بیت کے تفصیلی مطالعہ کے لئے راقم کی تصانیف "فضائل اہل بیت اور صحابہ کرام (قرآن اور حدیث کی روشنی میں)"اور "شمس الفقر"میں باب 16"فضائل اہل بیت"کا مطالعہ فرمائیں۔
____________________________________________________________
حضرت شیخ احمد سر ہندی مجدد الف ثانی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں :
اللہ تعالیٰ سے وصل اوروصال کے دو طریقے اورراستے ہیں۔ایک نبوت کا طریقہ اور راستہ ہے اس طریق سے اصلی طور پر واصل اورموصل محض انبیاءعلیھم السلام ہیں اوریہ سلسلہ حضرت محمّد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی پرحتم ہوا۔ دوسرا طریقہ ولایت کا ہے اس طریق والے واسطے (وسیلہ)کے ذریعے اللہ تعالیٰ سے واصل اورموصول ہوتے ہیں۔ یہ گروہ اقطاب ،اوتاد ،ابدال ،نجباء وغیرہ اورعام اولیاء پرمشتمل ہے اور اس طریقے کا راستہ اوروسیلہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی ذاتِ گرامی ہے اور یہ منصبِ عالی آپ رضی اللہ عنہ کی ذاتِ گرامی سے متعلق ہے ۔ اس مقام میں حاتم الا انبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کا قدم مبارک حضرت امیرکرم اللہ وجہہ کے سرپر ہےاور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا اورحسنین کریمین رضی اللہ عنہم اس مقام پرحضرت علی کرم اللہ وجہہ کے ساتھ شامل اور یکتا ہیں(مکتوب123 بنام نور محمد تہاری)
حضرت سخی سلطان باہو اس حقیقت کو اس طرح بیان فرماتے ہیں :
  • حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے فقر پایا۔(عین الفقر۔ محک الفقرکلاں)
  • آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فقر حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو عطا فرمایا۔ (جامع الااسرار )
  • فقراء کے پیر حضرت علی کرم اللہ وجہہ ہیں (جامع الااسرار )
سیّدہ کائنات حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سلطان الفقرہیں۔آپ فقرکی پہلی سلطان ہیں اورآپ رضی اللہ عنہا کی منظوری کے بغیرفقرعطاہی نہیں ہوتا۔ حضرت سخی سلطان باہو جامع الااسرارمیں فرماتے ہیں :
  • حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہافقر کی پَلی ہوئی تھیںاورانہیں فقرحاصل تھا ۔ جو شخص فقرتک پہنچتا ہے ان ہی کے وسیلہ سے پہنچتا ہے۔
حسنین کریمین رضی اللہ عنہم کے بارے میں سخی سلطان باہو رحمتہ اللہ فرماتے ہیں:
  • اَلْفَقْرُ فَخْرِیْ (فقر)میں کمال امامین حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ ،اورحضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کو نصیب ہوا جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم اورخاتونِ جنت حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی آنکھوں کی ٹھنڈک ہیں (محک الفقرکلاں)
مندرجہ بالا عبارات سے یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ فقرکے کمال فنافی"ھو" کےمقام اورمرتبہ پریہ چاروں ہستیاں یکتا اورمتحد ہیں اوران میں کوئی فرق نہیں ہے جب تک ان چاروں ہستیوں کےمقام اورمرتبہ کے بارے میں طالبِ مولیٰ بھی یکتا نہیں ہو جاتا فقر کی خوشبو تک کو نہیں پا سکتا ۔
کیونکہ :
بیدم یہی تو پانچ ہیں مقصودِ کائنات
خیر النساء حسین و حسن مصطفیٰ علی
***

لِیْ خَمْسَۃُُ اُطْفِیْ بِھَا حَرّالْوَ بَاءِالْحَاطِمَتہِ o
اَلْمُصْطَفٰی والْمُرتَضٰی وَاَبْنَاھُمَاوَالْفَاطِمَۃ o
ترجمہ: پنجتن پاک (اہل بیتؓ)حضرت محمّد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم،حضرت علی کرم اللہ وجہہ،حضرت فاطمه رضی اللہ عنہا اوران کے دونوں فرزند حضرت امام حسن اورامام حسین رضی اللہ عنہم ایسی ہستیاں ہیں جن کی وجہ سے ہرمہلک وبا (ظاہری و باطنی) کی آگ بوجھ جاتی ہے۔
حضرت سلطان باہورحمتہ اللہ علیہ کی بیت مبارک کا واقعہ بھی پنجتن پاک کی محفل میں ہوا اور یہ حقیقت ہے حضرت سلطان باہو رحمتہ اللہ علیہ اہل بیتؓ کی محبت میں غرق تھےاورہر سال یکم محرم سے دس محرم تک شہدا کربلا کاعرس منایا کرتے تھے۔ یہ سلسلہ آج تک تین سوسال گزرنے کے بعد بھی جاری ہے۔ عاشورہ محرم کے دس دنوں کےاندرزائرین کی آمدورفت جاری رہتی ہے۔ ہزاروں آ رہے ہیں تو ہزاروں زیارت کر کے واپس جا رہے ہوتے ہیں۔عاشورہ کے آخری تین ایام میں تو تعداد لاکھوں سے تجاوزکرجاتی ہے۔اس طرح آپ رحمتہ اللہ علیہ کے مزارپاک پردو بڑھے اجتماعات ہوتے ہیں لاکھوں لوگ حاضری دیتے اور فیض پاتے ہیں۔
حضرت سخی سلطان باہورحمتہ اللہ علیہ اس بیت میں اہل بیت کے باطن میں مرتبہ یکتائی اور کثرت میں مرتبہ اور مقام کے بارے میں بیان فرماتے ہیں ۔
"پنجے محل"سے مراد پنجتن پاک کے پاک اورطَاہرمطاہر بشری وجود ہیںاور چنان سے مراد ان میں ھُو کا نور ہے جو واحد اوریکتا ہے اگران کی بشریت کو دیکھا جائے تو وہ مختلف صفاتِ کاملہ کے مظہرہیں اور اپنی اپنی جگہ کامل'اکمل اورنورالہدیٰ ہیں لیکن اگرباطن کی نگاہ سےاُن کی حقیقت کو دیکھا جائے تووہ ایک ہی ذات کے کامل مظہر ہیں لہٰذا وہ حقیقت میں واحد یکتا'اور بظاہرجداجدا ہیں یہ ظاہری کثرت اورباطنی وحدت ایک طالب کے لیےھُو کی معرفت کوبعض اوقات مشکل بنا دیتی ہے۔ اسی مشکل کا اظہار حضرت سلطان باہواس بیت میں فرما رہے ہیں۔ طالب اسی کشمکش میں رہتا ہے کہ وہ انہیں واحد' ایک اور یکتا سمجھے یا پانچ ۔اگروہ ایک ہی ذات هُوکے مظہر ہیں تو وہ هُو کوسجدہ کرنے کے لیے ظاہری طورپرکس کی طرف رخ کرے اوربوقتِ حساب مغفرت کے لیے کس کی طرف رجوع کرے۔هُو ہی قبلہ ہےاوروہ واحد'احد ہے۔ لیکن ظاہری طورپران پانچ بشری وجودوں میں اس کاہویدا ہونا ایک ایسا سِرّ ہے جس سے آشنائی صرف سَردے کرہی حاصل هو سکتی ہے اوریہ راز صرف انہی عارفین کو حاصل ہوا جو مُوْتُوْاقَبْلَ اَنْ تَمُوْتُوْا(مرنے سے پہلے مر جاؤ) کے مقام سے گزرکر خود ذاتِ هُو میں فناہو کرفنافی هُوہوئے اورهُو کے محرم رازہو گئے۔
41
 
آخری تدوین:
الف
01

الف ۔الله چمبے دی بوٹی،میرے من وچ مرشد لائی ھو ۔
نفی اثبات دا پانی مِلسیں،ہر رَگے ہر جائی ھو ۔
اندر بوٹی مُشک مچایا،جاں پُھلاّں تے آئی ھو ۔
جیوے مرشد کامل باہو ،جیں ایہہ بوٹی لائی ھو ۔
الف- الله : اسمِ اللہ ذات
چمبے دی بوٹی: چنبلی کا بوٹا
من : دل ،روح، باطن
وچ :میں
لائی :لگائی
نفی اثبات": ناں اور ہاں ۔ نفی سے مراد لا إِلَهَ (نہیں کوئی معبود ) ہے ۔ اس سے مرشد دل سے غیر الله کو نکالتا ہے ۔جب دل یا باطن غیر الله سے خالی ہو جاتا ہے۔ تو اثبات الا الله (مگر الله ) کا مقام آ جاتا ہے ،یعنی دل میں الله پاک کی ذات جلوہ گر ہوتی ہے ۔
مِلسیں: ملیا
ہر رَگے ہر جائی : رگ رگ ، ریشہ ریشہ
مشک مچایا: مہک یا خوشبو پھیلائی
پُھلاّں تے آئی: پھلوں کا لگنا
جیں: جس نے
ایہہ : یہ


ترجمہ :
اس بیت میں حضرت سلطان باہو رحمتہ الله علیہ نے اسمِ الله ذات کو چمبیلی کے پودے جسے موتیا بھی کہتے ہیں ، سے تشبیہ دی ہےسلطان العارفین سلطان باہو رحمتہ الله علیہ پہلے عارف ہیں جنہوں نے اسم الله ذات کے لئے "چمبے دی بوٹی " کا استعارہ استمعال فرمایا ہے ۔ چمبیلی کے پودے کی پہلے پنیری (بوٹی ) لگاٸى جاتی ہے ۔ اور جب وہ آہستہ آہستہ نشوونما پا کر ایک مکمل پودا بن جاتا ہے تو چنبیلی کے پھولوں سے لد جاتا ہے ۔ اور اس کی خوشبو پورے ماحول کو مہکا دیتی ہے ۔ اسی طرح جب مرشد طالب کو ذکر و تصور اسمِ اللهُ ذات عطا فرماتا ہے تو گویا اس کے دل میں ایک پنیری لگا دیتا ہے اور اسمِ اللهُ ذات کا نور مرشد کی نگہبانی میں آہستہ آہستہ طالبِ صادق کے پورے وجود میں پھیل کر اس کو منور کر دیتا ہے ۔ اپ رحمتہ الله علیہ فرماتے ہیں میرا مرشد کامل ہمیشہ حیات رہے جس نے مجھ پر فضل و کرم اور مہربانی فرمائی اور اسمِ الله ُذات عطا فرما کر اپنی نگاہِ کامل سے میرے دل میں اسمِ اللهُ ذات کی حقیقت کو کھول دیا ہے ۔اور نفی ( لا الہٰ ) سے تمام غیراللہ اور بتوں کو دل سے نکال دیا ہے اور اثبات (الااللہ ) کے راز نے مجھے اسم سے مسمّی تک پہنچا دیا ہے اب یہ راز اور اس کے اسرار میری رگ رگ ،ریشہ ریشہ اور مغزو پوست تک سرایت کر گے ہیں ۔ اب تو اسمِ اللهُ ذات پورے وجود كے اندر اتنا سرايت كر چكا ہے كہ جى چاہتا ہے كہ جو اسرار اور راز مجھ پر كُھل چكے ہيں ان كو سارى دنيا پر ظاہر كر دو ليكن خواص كے يہ اسرار عام لوگوں پر ظاہر نہيں كيے جا سكتے اسى ليے ان اسرار اور رازوں كو سنبھالتے سنبھالتے جان لبوں تک آ چکی ہے اور ظاھر باطن میں جدھر بھی نظر دوڑاتا ہوں اب مجھے اسِم اللهُ ذات ہی نظر اتا ہے اور حالت اس آیت کی مثل ہو چکی ہے کہ تم جس طرف بھی دیکھو گے تمہیں الله کا چہرہ ہی نظرآ ے گا ۔
اس پہلے شعر میں ہی حضرت سلطان باہو رحمۃ اللہ علیہ نے اسم اللہ کے شغل کو بیان فرمایا ہے کہ اسم اللہ کے شغل کو کیسے کرنا ہے یعنی میرے مرشد نے میرے قلب میں اسم اللہ کو یاسمین کے پھول سے تشبیہ دے کر کہا کہ اس کو اس طرح اپنے من پر لکھنے کی مشق کرو آپ اپنے انگوٹھے کو انگشت شہادت سے ملا لیں اور پھر ہتھیلی کو الٹا کرلیں تو اسم چنبے کا پھول یعنی اسم اللہ بن جاتا ہے لیکن ساتھ ہی ساتھ آپ یہ بھی فرماتے ہیں کہ اس شغل کو کرنے کے دوران نفی اثبات بھی ساتھ ہی ساتھ جاری رہے جو کہ توحید اور کلمے کا اصل و اصول ہے تو جلد ہی کامیابی ہوگی یعنی بوٹی اندر خوشبو مچا دے گی اور آپ کے جسم جس کو درخت کی مثال دی ہے وہ بارآور ہوجائے گا پھولوں سے بھر جائے گا یعنی فتوحات حاصل ہوجائیں گی ۔
اس شغل کو ایسے کرنا چاہیئے کہ آنکھیں بند کرکےچشم تصور سے سورج کو دوات بنا کراس کی سیاہی جو کہ گولڈن رنگ کی ہوتی ہے سے قلب صنوبری پر اسم اللہ لکھنے کی مشق کرنی چاہیئے۔کچھ ہی دنوں میں اس کے ثمرات سے انسان بہرمند ہونا شروع ہوجاتا ہے
 

یوسف سلطان

محفلین
ت
01

ت- تارکِ دُنیا تد تھیوسے ،جداں فقرملیوسے خاصا ھو ۔
راہ فقردا تد لدھیوسے،جداں ہتھ پکڑیوسے کاسا ھو ۔
دریا وحدت دا نوش کیتوسے،اجاں وی جی پیاسا ھو ۔
راہ فقررَتّ ہنَجھو رووَن باہو،لوکاں بھانے ہاسا ھو ۔
تارکِ دُنیا: ترکِ دنیا کرنے والا
تد ۔ جداں:تب ۔ جب
تھیوسے :ہم ہوے،ہم ہوگئے
ملیوسے :ہمیں ملا
لدھیوسے:پایا،پانا
ہتھ:ہاتھ
پکڑیوسے: پکڑا،پکڑنا
کاسا:پیالہ
کیتوسے:ہم نے کیا
اجاں وی:ابھی بھی
رَتّ : خون
ہنَجھو۔ رووَن: آنسو ۔ روئیں
لوکاں :لوک کی جمع جس کے معنی لوگ کے ہیں،مراد لوگوں
بھانے: کے لیے
ہاسا: ٹھٹھا ، مذاق


ترجمہ :
ہم نے دنیا کی محبت ترک کی اورہرغیراللہ کو دل سے نکال کرجامِ عشق تھام لیا تو فقرِمحمدی صلی اللہ علیہ وسلم نصیب ہوا اور یہ اُس وقت ہواجب گھر بارسب اللہ کی راہ میں لوٹا بیٹھے۔ ہم نے دریائے وحدتِ الہیٰ پورا نوش کر لیا ہے لیکن تشنگی اور پیاس کم نہیں ہوئی۔ عاشق لوگ وصالِ الہیٰ کے لیے بےتاب ہو کر خون کے آنسو بہاتے رہتے ہیں مگرانجان اور نہ محرم لوگ اُن کی اِس حالت سے بے خبراُن کا ٹھٹھا اور مذاق اڑاتے ہیں۔
42
 

یوسف سلطان

محفلین
ت
02

ت- تُلّہ بَنھ توکّل والا،ہو مردانہ تریئے ھو ۔
جس دُکھ تھیں سُکھ حاصل ہووے،اُس دُکھ تھیں نہ ڈریئے ھو ۔
اِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا آیا،چِت اُسے وَل دھریئے ھو ۔
اوہ بے پرواہ درگاہ ہےباہو،اوتھے رو رو حاصل بھریئے ھو ۔

تُلّہ :تیرنے کا آسرا،دریا کے کنارے رہنے والے لوگ گھاس پھوس اورلکڑیوں کوجوڑکرایک فرش نماکشتی بناتے ہیں اوراس کے آسرا سے تیر کا دریا عبورکرتے ہیں اس کو تُلّہ کہتے ہیں۔
بَنھ :باندھ کر
مردانہ :مردانہ وار،مردوں کی طرح،طالبِ مولیٰ کی طرح
تریئے: تیریں
تھیں: سے
اِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا: بے شک ہر تنگی کے ساتھ آسانی ہے (الم نشرح)
چِت: دھیان ، توجہ
اُسے ۔ وَل: اس ۔ طرف
دھریئے: رکھیے ،لگائیے
بے پرواہ درگاہ: بے نیاز ذات
حاصل بھریئے: فائدہ اٹھائیں
سکھ : آرام اورسکون

ترجمہ:
اللہ تعالیٰ پر بھروسہ اور توکّل کر کے مردانہ وار راہِ فقر میں چلنا چاہیے۔جس دکھ کے بعد سکھ حاصل ہونا ہو اس دکھ کا سامنا کرتے ہوئے ڈرنا نہیں چاہیے۔قرآنِ پاک کے اس حکم کو یاد رکھنا چاہیے کہ ہر تکلیف کے ساتھ آرام اور سکون شامل ہے۔ اللہ تعالیٰ تو بے نیاز اور بے پرواہ ہے اس سے رو رو کر "وصال"طلب کرنا چاہیے۔
43
جاری ہے ۔۔۔
 

یوسف سلطان

محفلین
ت
03

ت - تن مَن یار میں شہر بنایا،دل وِچ خاص محلّہ ھو ۔
آن الف دل وَسوں کیتی،میری ہوئی خوب تسلّہ ھو ۔
سبھ کچھ مینوں پیا سنیوے،جو بولے ماسویٰ اﷲ ھو ۔
دردمنداں ایہہ رمز پچھاتی باہو،بے درداں سر کَھلّہ ھو۔
تن مَن: ظاھرو باطن
الف : اسمِ اَللہُ ذات
آن : آ کر
وَسوں : رہنے لگا
تسلّہ : تسلی،تشفی
پیا سنیوے: سنائی دے
ماسویٰ اﷲ: اللہ تعالیٰ کے علاوہ باقی تمام کائنات اور موجودات
دردمنداں: درد مند کی جمع،درد مند عاشق کو کہتے ہیں مراد عاشقوں
بے درداں: طالبانِ ناقص ، طالبانِ دنیا وعقبٰی
رمز : راز
کَھلّہ : جوتا


ترجمہ:
میں نے ظاھروباطن کواپنے محبوبِ حقیقی کا شہر بنا لیا ہے اور دل میں اُس کے لیے ایک خاص محلّہ آباد کر لیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آ کر میرے دل کے اس خانہ کو آباد کر کے میری تسکین و تشفی کر دی ہے۔ ماسویٰ اللہ مجھے سب کچھ سنائی دے رہا ہے۔ اس راز کا صرف درد مندوں ،عاشقوں کوپتہ ہے۔ بے درد (طالبِ دنیا و عقبٰی) اس رازاور مقام کونہیں سمجھتےاور مجھے اُن کی پرواہ بھی نہیں ہے۔
44
 

یوسف سلطان

محفلین
ت
04

ت- توڑے تنگ پُرانے ہووَن،گُجھے نہ رہندے تازی ھو ۔
مار نقارہ دَل وچ وڑیا،کھیڈ گیا اِک بازی ھو ۔
مار دلاں نوں جول دتونیں،جدوں تکے نین نیازی ھو ۔
اونہاں نال کیہہ ہویا باہو،جنہاں یارنہ رکھیا راضی ھو ۔

توڑے: خواہ
تنگ : گھوڑے کی زین باندھنے والا پٹہ
ہووَن: ہو جائیں
گُجھے : خفیہ، پوشیدہ
تازی: اصیل عربی گھوڑے
دَل: میدان
وڑیا: داخل ہوا
کھیڈ گیا : کھیل گیا، جیت گیا
جول دتونیں: ہلا دیا، ہلا کے رکھ دیا
تکے:دیکھے
نین۔ نیازی: آنکھیں ۔ عاشقانہ
اونہاں نال:اُن کے ساتھ
یار: مرشد کامل


ترجمہ:
ظاہری اسباب کتنے ہی تنگ کیوں نہ ہوں اور حالات کتنے ہی تکلیف دہ اور کشیدہ کیوں نہ ہوں طالبانِ مولیٰ اصلی عربی نسل کے گھوڑوں کے شہسواروں کی طرح پوشیدہ نہیں رہتے۔ یہ لوگ بڑھے جانبازانہ انداز میں میدانِ عشق میں داخل ہوتے ہیں اور عشق کی بازی کھیل جاتے ہیں یعنی اپنی زندگی اور ہر چیز داؤ پر لگا کر"گوہر" حاصل کر لیتے ہیں اور شانِ محبوبیت یہ ہوتی ہے کہ جدھرنگاہ اٹھاتے ہیں ہلچل مچ جاتی ہے۔ آخری مصرعہ میں آپ رحمتہ اللہ علیہ اُن لوگوں کی حالتِ زار پر افسوس کرتے ہیں جو اپنے مرشد کو راضی نہیں رکھ سکتے اور مرشد کو ناراض کر کے خوار ہوتے ہیں اور وصالِ حق تعالیٰ سے محروم رہ جاتے ہیں ۔
45
 

یوسف سلطان

محفلین
ت
05

ت- تسبی دا توں کسبی ہویوں،ماریں دَمّ وَلیاں ھو ۔
من دا منکا اک نہ پھیریں،گل پائیں پنج وِیہاں ھو ۔
دَین لگیاں گل گھوٹو آوِے،لین لگیاں جھٹ شِیہاں ھو ۔
پتھر چِتّ جنہاںدے باہو،اوتھے زایا وَسنا مینہاں ھو ۔

تسبی : تسبیح
کسبی ۔ ہویوں: ماہر ۔ ہوا
وَلیاں: ولیوں کی طرح
من : روح ، باطن
منکا : دانہ
پھیریں: باطنی تبدیلی
پنج وِیہاں: ایک سو کی تسبیح (20 ×5)
دَین لگیاں: دیتے ہوئے
گھوٹو: دل تنگ ہو جائے
لین لگیاں : لیتے ہوئے
شِیہاں: شیر کی طرح جھپٹ کر لینا
چِتّ : دھیان
زایا: ضائع
وَسنا۔ مینہاں: برسنا ۔ بارش


ترجمہ:
تُو ورد وظائف میں بڑا ماہر ہو گیا ہے اور اپنے آپ کو ولی سمجھنے لگا ہے۔ گلے میں تُو نے سو دانوں والی تسبیح لٹکا رکھی ہے لیکن اِن ورد وظائف کا تیرے دل پر تو کوئی اثر ظاہرنہیں ہوا۔ وہاں تو ابھی تک شیطان' نفس اور دنیا کا بسیرا ہے۔ خدا کی راہ میں مال خرچ کرتے وقت تو کہیں نظر نہیں آتا مگر جہاں کہیں مال و زر نظر آتا ہے اُسے حاصل کرنے کے لئے بڑی پھرتی اور چستی کا مظاہرہ کرتا ہے۔ جن لوگوں کے دل منافقت اورہوسِ دنیا سے پتھر ہو چکے ہیں وہاں تجلیاتِ الہیٰ کا نزول نہیں ہوتا۔
46
 

یوسف سلطان

محفلین
ت
06

ت- تدوں فقیر شتابی بندا،جد جان عشقَ وِچ ہارے ھو ۔
عاشق شیشہ تے نفس مربّی،جان جاناں توں وارے ھو ۔
خود نفسی چھڈ ہستی جھیڑے،لاہ سِروں سب بھارے ھو ۔
باہو باجھ مویاں نہیں حاصل تھیندا،توڑےسَے سَے سانگ اُتارے ھو
تدوں : تب ، اس وقت
شتابی :
شتابی : فوراً،جلدی

عاشق شیشہ: مومن رحمٰن کا آئینہ (حدیث)
نفس مربّی: نفس مطمئنہ، ہدایت دینے والا نفس
جاناں ۔ وارے: محبوب ۔ قربان کرے
خود نفسی: خود پسندی
چھڈ : چھوڑ
جھیڑے: جھگڑے ، فضول کام
لاہ: اتار دے
بھارے: بوجھ ،ذمہ داریاں
باجھ مویاں: مرے بغیر، ان الفاظ میں حدیث پاک "مرنے سے پہلے مر جاؤ" کی طرف اشارہ ہے
تھیندا: ہوتا
سَے سَے: سینکڑوں
سانگ اُتارے: رنگ بدلے ، نقل اتارے

ترجمہ:
فقیر تب ہی کامل ہوتا ہے جب عشق میں اپنی جان قربان کر دیتا ہے اور "لا" کی تلوار سے خواہشاتِ نفس کا خاتمہ کر دیتا ہے۔ اپنا گھر بار،مال و متاع اور اپنی ہستی تک نیلام کر دیتا ہے پھر اپنے آپ کو عشق کی آگ میں جلا کر فنا کر لیتا ہے۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ طالب کو مخاطب کر کے فرماتے ہیں کہ خود پسندی اور فضولیات سے کنارہ کشی اختیار کر لے تا کہ یکسوئی کے ساتھ راہِ حق پر گامزن ہو سکے کیوں کے مرنے سے پہلے مرے بغیر وصالِ الہیٰ حاصل نہیں ہوتا خواہ ظاہری طور پر کتنی ہی عبادات اور مجاہدہ کیا جائے۔
47
 

یوسف سلطان

محفلین
ت
07

ت- توں تاں جاگ نہ جاگ فقیرا،اَنت نوں لوڑ جگایا ھو
اکھیں میٹیاں نہ دل جاگے،جاگے جاں مطلب نوں پایا ھو ۔
ایہہ نکتہ جداں کیتا پُختہ ،تاں ظاہر آکھ سنایا ھو ۔

میں تاں بُھلی ویندی ساں باہو،مینوں مُرشد راہ وِکھایا ھو ۔
توں تاں: توُ توَ
اَنت : آخرکار
اکھیں میٹیاں : آنکھیں بند کرنے سے ، حالت مراقبہ میں جانے سے
میں تاں بُھلی: میں تو بھول چکا تھا
ویندی ساں :فراموش کر چکا تھا

وِکھایا : دکھایا

ترجمہ:
محض آنکھیں بند کرنے یا مراقبہ میں بیٹھنے سے دل بیدار نہیں ہوتا ایسا توتُو اپنی ضرورت کے لئے اور لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے لئے کرتا ہے۔ دل تو تب بیدار ہوتا ہے جب ذکروتصورِ اسمِ اَللہُ ذات سے دیدارِ ذات ہوتا ہے۔ میں بھولا بھٹکا ہوا تھا اور محض ورد وظائف اور مراقبوں کو ہی حقیقت سمجھ بیٹھا تھایہ تو میرا مرشد کامل ہے جس نے مجھے حق کی راہ دکھائی اور جب میں نے یہ نکتہ پختہ کر لیا تو حقیقت کو پا لیا۔
48
 

یوسف سلطان

محفلین
ت
08

ت- تسبی پھری تے دل نہیں پھریا،کی لیناں تسبی پھڑ کے ھو ۔
عِلم پڑھیا تےادب نہ سِکھیا،کی لیناں عِلم نوں پڑھ کے ھو ۔
چِلّے کٹّے تےکُجھ نہ کھٹیا،کی لیناں چِلیاں وڑ کے ھو ۔

جاگ بناں ددھ جمدے ناہیں باہو،بھاویںلال ہوون کڑھ کڑھ کے ھو ۔
تسبی پھری: تسبیح پڑھنا
دل نہیں پھریا: باطن میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی
سِکھیا: سیکھا
چِلّے کٹّے: چلہ کشی کی
کھٹیا: حاصل کیا ، پایا
جاگ : دودھ جمانے کے لئے جو دہی یا لسی دودھ میں ڈالتے ہیں
بناں : بغیر

کڑھ کڑھ: پک پک کر

ترجمہ:
تُو ورد وظائف پڑھتا رہا اور تیری تسبیح بھی چلتی رہی لیکن اس کا کوئی اثر تیرے دل (باطن ) کے اندر ظاہر نہ ہوا ایسے ورد وظائف سے کیا حاصل؟ تُو نے علم بھی حاصل کر لیا لیکن تجھے " فقراء" کے ادب و حقیقت کا پتا نہ چل سکا ایسے علم کا کیا فائدہ؟ تو چلہ کشی بھی کی لیکن تجھے وصالِ الہیٰ نصیب نہ ہو سکا ایسے چِلّوں کا کیا فائدہ؟ یاد رکھ بغیر مرشد کامل کے اللہ تعالیٰ کا قرب و وصال حاصل نہیں ہو سکتا خواہ کتنی ہی عبادات اور وظائف کر لئے جائیں۔
49
جاری ہے۔۔۔۔
 

یوسف سلطان

محفلین
ث
01

ث -ثابت صِدق تے قدم اگیرے،تائیں ربّ لَبِھیوے ھو ۔
لُوں لُوں دے وچ ذکرﷲ دا،ہردم پیا پڑھیوے ھو ۔
ظاہر باطن عین عیانی،ھو ھو پیا سنیوے ھو ۔
نام فقیر تنہاں دا باہو،قبر جنہاندی جیوے ھو ۔
ثابت: مظبوط ، پختہ،پکا
اگیرے: اور آگے
لُوں لُوں: جسم کے ذرہ ذرہ میں
عین عیانی: ظاہر و باطن میں ایک جیسا ہوجانا
سنیوے: سنائی دے
جنہاندی: جن کی
جیوے: زندہ رہے


ترجمہ :
وصالِ الہیٰ تو تب ہی ممکن ہے جب طالبِ مولیٰ صدق' اخلاق اور استقامت کے ساتھ راہِ فقر میں اپنا سفر جاری رکھے اور اس کے لُوں لُوں سے ذکر اسمِ اللہُ ہو ذات جاری ہو جائے اور ظاہروباطن میں وہ مشاہدہؑ حق تعالیٰ میں غرق ہو اور فقیر تو وہی ہوتے ہیں جن کی قبرِانورسے بھی فیض کے چشمے جاری ہوں ۔
50
 
آخری تدوین:

یوسف سلطان

محفلین
ث
02

ث- ثابت عشق تنہاں نوں لدّھا،جنہاں تَرَٹی چَوڑ چا کیتی ھو ۔
نہ اوہ صوفی نہ اوہ صافی،نہ سجدہ کرن مسیتی ھو ۔
خالص نیل پرانے اُتے،نہیں چڑھدا رنگ مجیٹھی ھو ۔
قاضی آن شرع وَل باہو،کدیں عشق نماز نہ نیتی ھو ۔
ثابت : مضبوط،پختہ،پکا
لدّھا: ملا
تَرَٹی چَوڑ کرنا: گھر بار لوٹنا،قربان کرنا
صوفی: زہد وریاضت کی بنا پرباطن میں کوئی مقام ومرتبہ حاصل کرنے والا
صافی: ہر وقت نفس کی صفائی میں متفکر رہنے والا شخص
مسیتی: مسجد
رنگ مجیٹھی: وہ رنگ جس پردوسرا کوئی رنگ نہ چڑھ سکے
آن: آئیں
شرع وَل : شریعت کی طرف
کدیں : کھبی
نیتی: ادا کرنا ،نیت کرنا

ترجمہ:
عشقِ حق تعالیٰ تووہ پاتے ہیں جوراہِ عشق میں اپنا گھر بارتک لٹا دیتے ہیں اورجن پرعشق کا رنگ چڑھ جائے تو اسکو کوئی اتار نہیں سکتا۔ اور مالکِ حقیقی کے عاشق نہ تو صوفی ہیں اور نہ ہی صافی ہیں اور نہ ہی وہ مساجد میں عبادت میں مشغول رہتے ہیں بلکہ وہ توعشقِ الہیٰ میں جذب ہو کردیدارِ حق تعالیٰ میں محو ہیں۔ علماءِ ظاہر ہمیشہ ظاہر پر زور دیتے ہیں جب کےعاشق ظاہروباطن کا جامع ہوتا ہے اورجن پرعشق کا رنگ چڑھ جائے اُن پر دوسراکوئی رنگ اثر نہیں کرتا اور علماءِ شریعت سے ذرایہ تو دریافت کرو کہ عاشق نے کب نماز ادا نہیں کی، عاشق تو ہرلمحہ سربسجود رہتا ہے۔
51
 
آخری تدوین:

یوسف سلطان

محفلین
ج
01

ج- جو دل منگے ہووے ناہیں،ہووَن ریہا پریرے ھو ۔
دوست نہ دیوے دل دا دارُو،عشق نہ واگاں پھیرےھو ۔
اِس میدان محبت دے وِچ،ملدے تا تکھیرے ھو ۔
میں قربان تنہاں توں باہو،جنہاں رکھیا قدم اگیرے ھو ۔

جو دل منگے: دل جو مانگتا ہے
ہووے ناہیں: ہوتا نہیں۔ ملتا نہیں
ریہا : رہا
پریرے: دور دور ۔ بہت دور
دا : کا
دارُو: دوا
واگاں : واگ کی جمع ،لگام
پھیرے: واپس ہونا،رخ بدلنا
تا:تپش
تکھیرے: تیز
اگیرے:اور آگے


ترجمہ:
اس بیت میں آپ رحمتہ اللہ علیہ "راہِ فقر" پر گامزن طالب کی بے چینی اور بے سکونی بیان فرما رہے ہیں جو ابتدا میں طالب کو پیش آتی ہے۔ دل میں دیدار کی جو خواہش ہے وہ ابھی پوری نہیں ہو رہی۔ نہ تو مرشد کی طرف سے کوئی مہربانی ہو رہی ہےاور نہ ہی ذاتِ حقیقی کی طرف سے وصال کاکوئی پیغام آ رہا ہے۔ بے چینی 'بےسکونی اوروصالِ یار کے لئے تڑپ اورآگ مزید تیز ہو رہی ہے۔آپ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں میں اُن طالبانِ مولیٰ کے قربان جاؤں جو اِن سب کے باوجود استقامت کے ساتھ اپنا سفر جاری رکھتے ہیں اور آخرکار اپنی منزل پا لیتے ہیں۔
52
جاری ہے۔۔۔۔۔
 

یوسف سلطان

محفلین
ج
02

ج ۔ جے توں چاہیں وحدت ربّ دِی،مَل مُرشد دِیاں تَلیاں ہو
مُرشد لطفوں کرے نظارہ، گُل تھیون سبھ کلیاں ہو
اِنہاں گُلاں وِچوں ہِک لالہ ہوسی، گُل نازک گُل پھلیاں ہو
دوہیں جہانیں مُٹھے باہو، جِنہاں سنگ کیتا دو ڈلیاں ہو

چاہیں:چاہتا ہے
وحدت: فنافی اللہ بقا با اللہ
مَل: مالش کر ، خدمت کر
دِیاں: کی
تَلیاں: پاؤں کے تلوے
لطفوں: مہربانی کر کے
کرے نظارہ: نگاہِ معرفت سے دیکھے
گُل ۔ تھیون: پھول ۔ ہو جائیں ، بن جائیں
سبھ کلیاں: تمام کلیاں، وہ صادق طالبانِ مولٰی جومرشد کی بارگاہ میں ہوتے ہیں ۔
لالہ: ایک پھول ہے،یہاں وہ محرم رازمراد ہے جیسے امانتِ الٰہیہ منتقل کی جاتی ہے۔
ہوسی: ہو گا
سنگ: رفاقت،ساتھ
دو ڈلیاں: دو ٹکڑے یعنی ایک سے زیادہ مرشدوں کی طرف متوجہ رہنا


ترجمہ :
آپ رحمتہ اللہ علیہ تمام سالکین کو تاکید فرما رہے ہیں کہ اگر تُو وحدتِ حق تعالیٰ (وصالِ الہیٰ) حاصل کرنا چاہتا ہے تو ظاھروباطن سے مرشد کی اتباع کر۔ اگر مرشد کامل نے توجہ فرمائی تو تمام صادق طالب جو کلیوں کی مانند ہیں' پھول بن جائیں گے یعنی اپنے کمال کو پہنچ جائیں گے اوراُن میں توحید کی خوشبو ہو گی (وہ اولادِ معنوی ہوں گے) مگراِن تمام پھولوں کا سرتاج ایک پھول ہو گا جیسے لالہ کہتے ہیں اورلالہ ایک ایسا پھول دار پودا ہےجو سیدھا اوپر کو ہی جاتا ہے اور دیگر پھول دار پودوں کی طرح زمین کی طرف ہرگزنہیں جھکتا۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ کے فرمانے کا مقصد یہ ہے کہ طالبانِ مولیٰ میں ایک طالب ایسا ہوتا ہے جو کہ بالکل مرشد ہی کی ذات ہوتا ہے یا مرشد ہی اس کے لباس میں مُلتَبس ہوتا ہے اور دوسرے تمام طالبوں کے مقابلے میں علمِ توحید میں الگ ، خاص اورنمایاں مقام رکھتا ہے یعنی وہ فرزندِ ؎۱حقیقی اور مرشد کا روحانی وارث ہے ۔ اس حدیثِ پاک مَنْ سَلَکَ عَلیٰ طَرِیْقِیْ فَھُوَاٰلِیْ (جو چلا میری راہ' وہی میری آل ہے) میں اسی طرف اشارہ ہے اور آخری مصرعہ میں آپ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں جس نے دومرشدوں یا دو جگہ سے مغفرتِ حق تعالیٰ حاصل کرنا چاہی تو وہ ناکام رہا اوراس نے دونوں جہانوں میں خسارہ اٹھایا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
؎۱مرشد کی تین قسم کی اولاد ہوتی ہیں :
اولادِ صلبی :نسبی یاعصبی اولاد مراد ہے اوریہ نسبت ہربیٹے کواپنے باپ سے حاصل ہے۔
اولادِ معنوی : یہ وہ طالب ہیں جو اپنے دِلوں کومرشد کے دل کے تابع کرکےمرشد کےدل کی طرح بنالیں اور اپنی اپنی طلب کےمطابق نعمتِ فقرحاصل کرلیں۔ ایسے طالب اپنے مرشد کی معنوی اولادہوتےہیں ۔
فرزندِ حقیقی : اس سے وہ دل کا محرم طالبِ مولیٰ مراد ہے جو حُسنِ متابعتِ مرشد کی برکت سے کمال کوپہنچ جائے اور مرشد اور طالب کی ذات یکتا ہو جائے۔ یہی مرتبہ نعم البدل اصلی ہے جومرشد طالب کو اپنے جیسا بنا کرعطا کرتا ہے۔ یہاں پرمرشد کی ذات طالب کی ذات بن جاتی ہے۔
53
 

یوسف سلطان

محفلین
ج
03

ج۔ جس الف مطالیہ کیتا، ب دا باب نہ پڑھدا ہو
چھوڑ صفاتی لدھیوس ذاتی،اوہ عامی دُور چا کردا ہو
نفس امارہ کُتڑا جانے، ناز نیاز نہ دَھردا ہو
کیا پرواہ تنہاںنوں باہو، جہناں گھاڑُو لدّھا گھردا ہو
الف: اسمِ اَللہُ ذات
مطالیہ کیتا: مطالعہ کیا
ب دا باب: اسمِ اَللہُ ذات کےعلاوہ دیگرورد وظائف اوردینی ودنیاوی علوم۔
صفاتی: صفاتِ حق تعالیٰ
لدھیوس: پا لیا، پکڑ لیا
ذاتی: ذاتِ حق تعالیٰ
عامی: عام
کُتڑا: کتا
دَھردا: رکھنا، پیش کرنا
ناز نیاز: لاڈ پیار،چاؤ چوچلا،خواہشات
گھاڑُو: کاریگر، کارساز (مراد اسمِ اَللہُ)
لدّھا: مل گیا


ترجمہ:
جن طالبانِ مولٰى كو مرشد كامل نےاسمِ اللهُ ذات كا ذكر اورتصورعطا كرديا ہونفسِ اماره كى خواہشات كى پيروى نہيں كرتے اور نہ ہى دوسرے علوم و ورد وظائف كى طرف متوجہ ہوتے ہيں كيونكہ انہيں ذات مل چكى ہے۔صفات،دوسرے ورد وظائف اور ديگرعلوم كى طرف متوجہ ہونے كى ان كے پاس فرصت ہى نہيں ۔ اُن خوش نصيبوں كو كسى اورکے سہارے كى كيا ضرورت ہےجن كومرشدِ کامل اكمل صاحبِ مسمّٰى اوراسمِ اَللهُ ذات كى نعمت مل گئ ہو۔
54
 

یوسف سلطان

محفلین
ج
04

ج ۔ جَیں دل عشق خرید نہ کیتا، سو دِل بخت نہ بختی ہو
اُستاد ازل دے سبق پڑھایا، ہَتھ دِیتوس دِل تختی ہو
بَرسَر آیاں دَم نہ مارِیں، جاں سَر آوے سختی ہو
پڑھ توحید تے تھیویں واصل، باہو سبق پڑھیوے وقتی ہو
جَیں دل: جس دل نے
بخت: قسمت،نصیب
اُستاد ازل: مراد حق تعالیٰ
ہَتھ دِیتوس: ہاتھ دیا
دِل تختی: دل کی کتاب یعنی باطن،روح
بَر سَر: پورا ہو کر
جاں: جب
سَر آوے: سرآے،سامنا ہو
توحید :اسمِ اَللہُ ذات،صورتِ توحید
تے ۔ تھیویں:تب ۔ ہوجائے
واصل: وصالِ الہیٰ نصیب ہو جائے
وقتی: جلدی،بغیردیرکیے ،بروقت


ترجمہ:
جس نے اس دنيا ميں عشقِ الہٰى كا سودا نہ كيا وه بڑا بدبخت ہے۔الله تعالٰى نےازل سےعشق كا سبق پڑھاديا ہے اوراس كا راز دل (باطن)ميں ركھ ديا ہے۔ راهِ عشق كےامتحانات،سختيوں اورمشكلات كوحوصلے اورہمت سے برداشت كرنا چاہيے۔عشق كے ميدان ميں كاميابى پرنہ تواترانا مناسب ہے اورنہ ہى غرور كرنا چاہيے۔ بروقت توحيد كاسبق پڑھ كرتوحيد ميں فنا ہوجانا ہى كاميابى ہےكيونكہ وصالِ الہٰى كے بعيرباقى تمام منازل 'مراتب اور درجات وقتی اورغیراہم ہیں۔
55
 
آخری تدوین:

یوسف سلطان

محفلین
ج
05

ج ۔ جَیں دِل عشق خرید نہ کیتا، سودل درد نہ پَھٹی ہو
اُس دل تھیں سنگ پتھرچنگیرے، جو دِل غفلت اَٹّی ہو
جَیں دل عشق حضور نہ منگیا، سو درگاہوں سَٹی ہو
مِلیا دوست نہ اُنہاں باہُو جنہاں چوڑ نہ کیتی تَرَٹّی ہو
جَیں دِل: جس دل نے
درد نہ پَھٹی: درد پیدا نہ ہوا
چنگیرے: بہتر،اچھے
اَٹّی:بھری ہوئی
منگیا: مانگا،طلب کیا
درگاہوں:بارگاہِ الہیٰ
سَٹی: پھینکا ہوا ،رد کیا ہوا
دوست: ذاتِ حق تعالیٰ
چوڑ: قربان کرنا ،لٹانا
تَرَٹّی: سرمایہ ، گھربار


ترجمہ:
جس دل نےعشق كا سودا نہ كيا اورعشقِ حق تعالىٰ سے گه۔ائل نہ ہوا وه دل درد اورسوزسے محروم ہے اس غافل دل سے تو پتھراچھے ہيں اورجس دل نے حق تعالٰى كى حضورى طلب نہ كى وه راندۀ درگاہ ہوگيا۔ وصالِ الہٰى اُن كونصيب نہيں ہوتاجوراهِ حق ميں گھربارقربان نہیں کرتے۔
56
 
آخری تدوین:

یوسف سلطان

محفلین
ج
06

ج ۔ جَیں دل عشق خرید نہ کیتا،اوہ خُسرے مرد زنانے ہو
خنسے خُسرے ہر کوئی آ کھے، کون آکھے مردانے ہو
گلیاں دے وچ پھرن اَربیلے،جیوں جنگل ڈھور دیوانے ہو
مرداں تے نمرداں دِی کَل تداں پوسی باہُو،جداں عاشق بنھسن گانے ہو
کیتا: کیا
اوہ ۔ خُسرے: وہی ۔ ہیجڑے ،نامرد
خنسے: ہیجڑے ،مخنث
آ کھے: پکارے ،سمجھے
اَربیلے: آوارہ
جیوں: جس طرح
ڈھور: مویشی ،جانور
مرداں تے نمرداں: مرد اورنامرد،طالبِ دنیااورطالبِ مولیٰ
تداں ۔ جداں: تب،تبھی ۔ جب
بنھسن: باندھیں گے
گانے: کلائیوں میں کنگن ۔
اعزازکی بات، کامیابی کاانعام


ترجمہ:
جس دل نےعشق الہىٰ كا سودا نہ كيا وه ياتوزنانے ہيں ياپھرہیجڑے ہيں۔ان كومرد كون كہتا ہے؟ يہ تودنيا ميں حيوانوں اورجانورں كى طرح ره رہے ہيں۔ مرد (طالبِ مولىٰ) اور نامرد (طالبِ دنيا) كا تو تب پتا چلے گا جب عشق كے ميدان ميں كاميابى ڪےبعد مالکِ حقيقى اپنا وصال عطا فرمائے گا۔
57
 

یوسف سلطان

محفلین
ج
07

جسں دِینہہ دا میں دَر تینڈے تے، سجدہ صحی وَنج کیتا ہو
اُس دِینہہ دا سر فِدا اُتھائیں، میں بِیا دربار نہ لیتا ہو
سر دیون سِرّ کھولن ناہیں،ایسا شوق پیالہ پیتا ہو
میںقربان تنہاں توں باہو، جنہاں عشق سلامت کیتا ہو
دِینہہ : دن
دَرتینڈے تے: تیرے در پر
صحی: صحیح،درست
وَنج ۔ کیتا: جاکر ۔ کیا
سر فِدا اُتھائیں: سروہیں پرقربان
بِیا :دوسرا
لیتا: لیا
سِرّ : راز،بھید
کھولن ناہیں: بیان نہیں کرتے
شوق پیالہ پیتا: شوق یا عشق کا جام پیا


ترجمہ:
جس دن سے جامِ عشق پی کرمرشدِ کامل کے درپراپنا سجدہ درست کیا ہےاِس دن سےمیری سوچ وبچاراورتفکر میں کسی دوسرے درکاخیال تک نہیں آیا اور مرشدِ کامل سے جورازِ محبوب ہم کوملا ہے وہ صرف عاشقوں کا خاصہ ہے وہ میرے اورمحبوب کے درمیان ہے۔ محرمِ رازسردے دیتے ہیں مگرمحبوب کا رازآشکارنہیں کرتے۔ آخر میں آپ رحمتہ اللہ فرماتے ہیں میں قربان جاؤں ان کے' جنہوں نے عشق کاراز پالیا اور اس پھراس کو سنبھال کربھی رکھا ۔
58
جاری ہے۔۔۔۔۔۔
 
Top