پ
09
پ- پنجے محل پنجاں وِچ چانن،ڈیوا کِت ول دھریئے ھو ۔
پنجے مہر پنجے پٹواری،حاصل کِت ول بھریئے ھو ۔
پنجے امام تے پنجے قبلے،سجدہ کِت ول کریئے ھو ۔
باہوجے صاحب سر منگے ،ہرگز ڈِھلّ نہ کریئے ھو ۔
پنجے: پانچوں
محل: یہاں پنجتن پاک کا بشری وجود مراد ہے
پنجاں ۔ وِچ: پانچوں ۔ میں
چانن: روشنی ، نور
ڈیوا : دیا،چراغ
کِت ول: کدھر،کس جانب
دھریئے: رکھیں
مہر: سردار،چوہدری،مہرکا مطلب سورج بھی ہے جوہرایک کوبلا امتیازروشنی بخشتاہے
حاصل : مالیہ
بھریئے: بھریں،ادا کریں
جے۔ صاحب : اگر ۔ اللہ تعالیٰ
منگے : مانگے،طلب کرے
ڈِھلّ :دیر،تاخیر
کریئے:کریں
ترجمہ:
اس بيت ميں پنج(پانچ)كى تكرارہے اوراس كے بارےميں شارخين ميں كافى اختلاف پايا جاتا ہے۔
• ڈاكٹرنزيراحمد كواس بيت كى بالكل بھى سمجھ نہ آئى اورانہوں نے اپنى طبيعت كے رخ كے مطابق اسے بجھارت لكھ ديا۔
• محمد شريف صابرتحريركرتے ہيں"اس بيت كى بجھارت كا درست اورصحيح حل نہيں ملا "پھر انہوں نے محل كو ميحل ميں بدل كراس كے معنى حواسِ خمسہ يا شريعت، طريقت،حقيقت،معرفت اوروحدت لكھ كرجان چھڑالى۔
•نورمحمد كلاچوى اورڈاكٹرسلطان الطاف على كےمطابق سلطان العارفين حضرت سخى سلطان باہو رحمتہ الله عليه نےاس بيت ميں ظاہرىاور باطنى حواسِ خمسہ كےبارےميں فرماياہے كيونكہ انسان تمام ظاہرى اورباطنى علوم انہى ظاہرى اورباطنى حواسِ خمسہ كے ذريعےحاصل كرتا ہےاوراس كوان باطنى حواسِ خمسہ ميں ذاتِ حق تعالٰى ديكھائى ديتی ہے۔
•احمد سعيد ہمدانى گومگو كى كيفيت ميں رہےاورتحريركرتےہيں كہ يہ پانچ' حواسِ خمسہ بھى ہو سكتےہيں جن كےذريعےدماغ معلومات فراہم كرتا ہےاوريہ پانچ مقاماتِ قوت و شعور بھى ہوسكتے ہيں جن كوصوفياءكرام ،قلب ،روح ، سِرّ،خفى اوراخفٰى كا نام ديتےہيں جب يہ برٶے کارآتےہيں تو ان كےاندرروشنى نظرآتى ہےاوركئى بھيد كھلتےہيں صوفياءكرام انہيں لطائف كا نام ديتےہيں يہ لطائف باطنى علوم كا ذريعہ ہيں۔
مندرجہ بالا شارحين كى شرح كا لبِ لباب يہ ہے كہ جب حواسِ خمسہ (پانچ حواس ) يا پانچ لطائف روشن ہو جاتے ہيں تو ہر ايک ميں ذاتِ حق كا جلوه نظرآتا ہےاور سالک كوپانچوںحواس يا لطائف ميں ذاتِ الہٰى كے سوا كچھ نظر نہيں آتا۔
جہاں تک ظاہرى اورباطنى حواسِ خمسہ كاتعلق ہےتواس کاسلطان العارفين حضرت سخى سلطان باہو رحمتہ الله عليہ كى تعليمات ميں كہيں ذكرنہيں ملتااس ليے يہ شرح كچھ درست معلوم نہيں ہوتى۔
جہاں تک لطائفِ ستہ" نفس،قلب،روح،سِرّ،خفی،اوراخفٰی"کا تعلق ہےتوان میںایک لطیفہ نفس ظاہری اورپانچ باطنی ہیں سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باہو رحمتہ اللہ علیہ ان پانچ لطائف کے قائل ہی نہیں ہیں آپ رحمتہ اللہ علیہ اخفٰی سے آگے یخفٰی اوریخفٰی سے آگے ایک اورمقام اَنا کا ذکر فرماتے ہیں۔
کلید التوحید کلاں میں فرماتے ہیں:
- معرفتِ توحیدِ الہیٰ تصدیق ہے،تصدیق قلب میں ہے،قلب روح میں ہے،روح سِرّمیں ہے او سِرّخفی میں اور خفی یخفٰی میں ہے۔
مقامِ اَنا کے بارے میں عین الفقر میں فرماتے ہیں:
- حدیثِ قدسی میں فرمانِ حق تعالیٰ ہے"بیشک آدمی کے جسم میں ایک ٹکڑا ہےجو فواد میں ہے،فواد قلب میں ہے،قلب روح میں ہے،روح سِرّمیں ہےاورسِرّخفی میں ہے اورخفی انا میں ہے۔ جب کوئی فقیرمقامِ انا میں پہنچ جاتا ہےاس پرحالتِ سکروارد ہوجاتی ہے"(عین الفقر)
- اَنا بھی دو قسم کی ہوتی ہے قُمْ باِذْنِ اللهِ اورقُمْ بِاِذْنِیِ۔ فقیراَنا کی انہی دوحالتوں سے منسلک رہتا ہے۔ (عین الفقر)
- عین الفقرمیں فقیرِکامل کا ذکرکرتے ہوئے آپ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں :
اس کانفس قلب بن جاتا ہے،قلب روح کی صورت اختیارکرلیتا ہے،روح سِرّبن جاتا ہے اورسِرّخفی بن جاتا ہےخفی انا میں تبدیل ہوجاتی ہےاورانا مخفی میں ڈھل جاتی ہےاوراسے توحیدِ مطلق کہتے ہیں۔
سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باہو رحمتہ اللہ علیہ کثرت کے نہیں وحدت(وصالِ الہیٰ)کے قائل ہیں۔آپ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
باجھ وصال اللہ دے باہو،سب کہانیاں قصے ھُو
مفہوم : وصالِ الہیٰ کے بغیر تمام مقامات اور منازل بے کارہیں۔
آپ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
چار بُودم سہ شدم اکنوں دویم ، و ز دوئی بہ گزشتم و یکتا شدم
ترجمہ:میں پہلے چار تھا پھر تین ہوااور جب دوئی سے بالکل نکل گیا تو یکتا ہو گیا۔
آپ رحمتہ اللہ علیہ کے طریقہ سلوک میں یکتائی یعنی وصالِ الہیٰ کے بغیرتمام مقامات اورمنازل بے کاراورلا حاصل ہیں اس لیے پانچ حواس یا لطائف میں ذاتِ حق کا نظرآنا یا دیدار ہونے کے آپ قائل ہی نہیں ہیں۔
اس بیت میں پنجے،پنجاں یعنی پنج کی تکرار ہے اور سب جانتے ہیں پنجابی میں جب پنج کا ذکرہو تو مراد پنجتن پاک یعنی اہل بیتؓ ہوتے ہیں حضرت سخی سلطان باہو رحمتہ اللہ علیہ بھی اسی طرف اشارہ فرما رہے ہیں کہ پنجتن پاک کی معرفت حاصل کیے بغیرفقرکی انتہا تک رسائی ناممکن ہے۔
پنجتن پاک (اہل بیتؓ ) کے بارے میں حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
- حضرت مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے"حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: فاطمہ (رضی اللہ تعالیٰ عنہا)تو بس میرے جسم کا ٹکڑا ہے'اسے تکلیف دینے والی چیز مجھے تکلیف دیتی ہے"۔(مسلم ،نسائی)
- حضرت مسوربن مخرمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے "حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:بے شک فاطمہ(رضی اللہ عنہا) میری شاخ ہے،جس چیز سے اسے خوشی ہوتی ہے اس چیز سے مجھے بھی خوشی ہوتی ہے اور جس سے اُسے تکلیف پنہچتی ہے اس چیزسے مجھے بھی تکلیف پنہچتی ہے"۔ (امام احمد ۔حکام)
- اُم المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا روایت فرماتی ہیں"میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی سیّدہ فاطمہ رضی اللہ عنہاسے بڑھ کر کسی کوعادات واطوار'سیرت و کرداراور نشست وبرخاست میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے مشابہت رکھنے والا نہیں دیکھا"۔(امام ترمزی ۔ابوداؤد )
- اُم المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا روایت فرماتی ہیں"میں نے اندازِ گفتگو میں حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے بڑھ کر کسی اور کو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس قدر مشابہت رکھنے والا نہیں دیکھا"۔ (بخاری ۔ نسائی ۔ابنِ حبان)
- حضرت حبشی بن جنادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،وہ فرماتے ہیں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : علی( رضی اللہ عنہ) مجھ سے اور میں علی (رضی اللہ عنہ ) سے ہوں اور میری طرف سے میرے اور علیؓ کے سوا کوئی دوسرا ادا (ذمہ داری) نہیں کر سکتا"۔ (ترمذی ۔ ابنِ ماجہ ۔ احمد)
- حضرت شعبہ رضی اللہ عنہ' سلمہ بن کبیل سے روایت فرماتے ہیں"میں نے ابوطفیل سے سناکہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جس کا میں مولیٰ ہوں'اس کا علی مولیٰ ہے۔"(امام ترمذی)
- حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ ایک طویل روایت میں بیان فرماتے ہیں"حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"بے شک علی مجھ سے ہے اور میں اس سے ہوں۔"(امام ترمزی ۔احمد )
- حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے روایت ہے"حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے غدیرخم کے دن فرمایا:جس کا میں مولیٰ ہوں'اس کا علی مولیٰ ہے۔"(امام احمد ۔ طبرانی)
- حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ روایت فرماتے ہیں"حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اُم المومنین حضرت امِ سلمہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا:یہ علی بن ابن طالبؓ ہے اس کا گوشت میرا گوشت ہے اور اس کا خون میرا خون ہے اور یہ میرے لیے ایسے ہے جیسے حضرت موسیٰ علیہ لسلام کے لیے حضرت ہارون علیہ لسلام'مگر یہ کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں۔"(امام طبرانی)
- حضرت علی رضی اللہ عنہ روایت فرماتے ہیں کہ "امام حسن رضی اللہ عنہ سینہ سےسر تک حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی کامل شبیہ ہیں اور امام حسین رضی اللہ عنہ سینہ سے نیچے پاؤں تک حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی کامل شبیہہ ہیں۔"(امام ترمذی ۔احمد)
- حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے "حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جس نے حضرت حسن اور حسین رضی اللہ عنہم سے محبت کی 'اس نے درحقیقت مجھ سے ہی محبت کی اور جس نے حسن اور حسین (رضی اللہ عنہم)سے بغض رکھا اس نے مجھ ہی سے بغض رکھا۔"(ابن ماجہ ۔ نسائی ۔ احمد)
- حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:حسینؓ مجھ سے ہے اور میں حسینؓ سے ہوں۔"
- حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ ارشاد فرماتے ہیں کہ جب یہ آیت مبارکہ :"آپ فرما دیں کہ آ جاؤ ہم اپنے بیٹوں کو اور تمہارے بیٹوں کو لیتے ہیں" نازل ہوئی تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی، حضرت فاطمه ،حضرت حسن اور حضرت حسین کو بلایا'یا اللہ !یہ میرے اہل بیت ہیں۔"(مسلم ۔ ترمذی)
- حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں" حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نےحضرت حسن اور حسین( رضی اللہ عنہم) کا ہاتھ پکڑا اور فرمایا :جس نے مجھ سے اوران دونوں سے محبت کی اوران کے والد سےاور ان کی والدہ سے محبت کی قیامت کے دن میرے ساتھ میرے ہی درجہ میں ہو گا۔"(ترمذی۔احمد)
- حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے" حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی، حضرت فاطمه ،حضرت حسن اور حضرت حسین سے فرمایا:جس سے تم لڑو گے میری بھی اس سے لڑائی ہو گی اور جس سے تم صلح کرو گے میری بھی اس سے صلح ہو گی۔"(ترمذی۔ابن ماجہ)-؎۱
___________________________________________________
؎۱ فضائل اہل بیت کے تفصیلی مطالعہ کے لئے راقم کی تصانیف "فضائل اہل بیت اور صحابہ کرام (قرآن اور حدیث کی روشنی میں)"اور "شمس الفقر"میں باب 16"فضائل اہل بیت"کا مطالعہ فرمائیں۔
____________________________________________________________
حضرت شیخ احمد سر ہندی مجدد الف ثانی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں :
اللہ تعالیٰ سے وصل اوروصال کے دو طریقے اورراستے ہیں۔ایک نبوت کا طریقہ اور راستہ ہے اس طریق سے اصلی طور پر واصل اورموصل محض انبیاءعلیھم السلام ہیں اوریہ سلسلہ حضرت محمّد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی پرحتم ہوا۔ دوسرا طریقہ ولایت کا ہے اس طریق والے واسطے (وسیلہ)کے ذریعے اللہ تعالیٰ سے واصل اورموصول ہوتے ہیں۔ یہ گروہ اقطاب ،اوتاد ،ابدال ،نجباء وغیرہ اورعام اولیاء پرمشتمل ہے اور اس طریقے کا راستہ اوروسیلہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی ذاتِ گرامی ہے اور یہ منصبِ عالی آپ رضی اللہ عنہ کی ذاتِ گرامی سے متعلق ہے ۔ اس مقام میں حاتم الا انبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کا قدم مبارک حضرت امیرکرم اللہ وجہہ کے سرپر ہےاور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا اورحسنین کریمین رضی اللہ عنہم اس مقام پرحضرت علی کرم اللہ وجہہ کے ساتھ شامل اور یکتا ہیں(مکتوب123 بنام نور محمد تہاری)
حضرت سخی سلطان باہو اس حقیقت کو اس طرح بیان فرماتے ہیں :
- حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے فقر پایا۔(عین الفقر۔ محک الفقرکلاں)
- آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فقر حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو عطا فرمایا۔ (جامع الااسرار )
- فقراء کے پیر حضرت علی کرم اللہ وجہہ ہیں (جامع الااسرار )
سیّدہ کائنات حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سلطان الفقرہیں۔آپ فقرکی پہلی سلطان ہیں اورآپ رضی اللہ عنہا کی منظوری کے بغیرفقرعطاہی نہیں ہوتا۔ حضرت سخی سلطان باہو جامع الااسرارمیں فرماتے ہیں :
- حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہافقر کی پَلی ہوئی تھیںاورانہیں فقرحاصل تھا ۔ جو شخص فقرتک پہنچتا ہے ان ہی کے وسیلہ سے پہنچتا ہے۔
حسنین کریمین رضی اللہ عنہم کے بارے میں سخی سلطان باہو رحمتہ اللہ فرماتے ہیں:
- اَلْفَقْرُ فَخْرِیْ (فقر)میں کمال امامین حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ ،اورحضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کو نصیب ہوا جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم اورخاتونِ جنت حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی آنکھوں کی ٹھنڈک ہیں (محک الفقرکلاں)
مندرجہ بالا عبارات سے یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ فقرکے کمال فنافی"ھو" کےمقام اورمرتبہ پریہ چاروں ہستیاں یکتا اورمتحد ہیں اوران میں کوئی فرق نہیں ہے جب تک ان چاروں ہستیوں کےمقام اورمرتبہ کے بارے میں طالبِ مولیٰ بھی یکتا نہیں ہو جاتا فقر کی خوشبو تک کو نہیں پا سکتا ۔
کیونکہ :
بیدم یہی تو پانچ ہیں مقصودِ کائنات
خیر النساء حسین و حسن مصطفیٰ علی
***
لِیْ خَمْسَۃُُ اُطْفِیْ بِھَا حَرّالْوَ بَاءِالْحَاطِمَتہِ o
اَلْمُصْطَفٰی والْمُرتَضٰی وَاَبْنَاھُمَاوَالْفَاطِمَۃ o
ترجمہ: پنجتن پاک (اہل بیتؓ)حضرت محمّد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم،حضرت علی کرم اللہ وجہہ،حضرت فاطمه رضی اللہ عنہا اوران کے دونوں فرزند حضرت امام حسن اورامام حسین رضی اللہ عنہم ایسی ہستیاں ہیں جن کی وجہ سے ہرمہلک وبا (ظاہری و باطنی) کی آگ بوجھ جاتی ہے۔
حضرت سلطان باہورحمتہ اللہ علیہ کی بیت مبارک کا واقعہ بھی پنجتن پاک کی محفل میں ہوا اور یہ حقیقت ہے حضرت سلطان باہو رحمتہ اللہ علیہ اہل بیتؓ کی محبت میں غرق تھےاورہر سال یکم محرم سے دس محرم تک شہدا کربلا کاعرس منایا کرتے تھے۔ یہ سلسلہ آج تک تین سوسال گزرنے کے بعد بھی جاری ہے۔ عاشورہ محرم کے دس دنوں کےاندرزائرین کی آمدورفت جاری رہتی ہے۔ ہزاروں آ رہے ہیں تو ہزاروں زیارت کر کے واپس جا رہے ہوتے ہیں۔عاشورہ کے آخری تین ایام میں تو تعداد لاکھوں سے تجاوزکرجاتی ہے۔اس طرح آپ رحمتہ اللہ علیہ کے مزارپاک پردو بڑھے اجتماعات ہوتے ہیں لاکھوں لوگ حاضری دیتے اور فیض پاتے ہیں۔
حضرت سخی سلطان باہورحمتہ اللہ علیہ اس بیت میں اہل بیت کے باطن میں مرتبہ یکتائی اور کثرت میں مرتبہ اور مقام کے بارے میں بیان فرماتے ہیں ۔
"پنجے محل"سے مراد پنجتن پاک کے پاک اورطَاہرمطاہر بشری وجود ہیںاور چنان سے مراد ان میں ھُو کا نور ہے جو واحد اوریکتا ہے اگران کی بشریت کو دیکھا جائے تو وہ مختلف صفاتِ کاملہ کے مظہرہیں اور اپنی اپنی جگہ کامل'اکمل اورنورالہدیٰ ہیں لیکن اگرباطن کی نگاہ سےاُن کی حقیقت کو دیکھا جائے تووہ ایک ہی ذات کے کامل مظہر ہیں لہٰذا وہ حقیقت میں واحد یکتا'اور بظاہرجداجدا ہیں یہ ظاہری کثرت اورباطنی وحدت ایک طالب کے لیےھُو کی معرفت کوبعض اوقات مشکل بنا دیتی ہے۔ اسی مشکل کا اظہار حضرت سلطان باہواس بیت میں فرما رہے ہیں۔ طالب اسی کشمکش میں رہتا ہے کہ وہ انہیں واحد' ایک اور یکتا سمجھے یا پانچ ۔اگروہ ایک ہی ذات هُوکے مظہر ہیں تو وہ هُو کوسجدہ کرنے کے لیے ظاہری طورپرکس کی طرف رخ کرے اوربوقتِ حساب مغفرت کے لیے کس کی طرف رجوع کرے۔هُو ہی قبلہ ہےاوروہ واحد'احد ہے۔ لیکن ظاہری طورپران پانچ بشری وجودوں میں اس کاہویدا ہونا ایک ایسا سِرّ ہے جس سے آشنائی صرف سَردے کرہی حاصل هو سکتی ہے اوریہ راز صرف انہی عارفین کو حاصل ہوا جو مُوْتُوْاقَبْلَ اَنْ تَمُوْتُوْا(مرنے سے پہلے مر جاؤ) کے مقام سے گزرکر خود ذاتِ هُو میں فناہو کرفنافی هُوہوئے اورهُو کے محرم رازہو گئے۔
41