محفل کو تمسخر گاہ بنا کر چھوڑ دیا۔ کچھ اردو، ملت یا امہ کے لیے تھنک ٹینک بنتا۔ اتنے لوگ ہیں۔ کم از کم ویکی پیڈیا ہی بن جاتا۔
شکر ہے کہ ایک صحت مند بحث کی جگہ تو ہے۔ یہ اور بات کہ کبھی کبھی کچھ مسخرے بھی گھس آتے ہیں۔
 
متاثر کیسے نہ ہوتے اور متاثر ہونا اور اس ترقی کو اپنے نظریات سے ہم آہنگ نہ پانا بالکل نارمل سی بات ہے۔ ویسے وہ مغرب کی ترقی سے متنفر نہ تھے جہاں تک میں سمجھ پایا ہوں۔ گلہ شکوہ ہونا الگ معاملہ ہے۔

اقبال تو کم از کم بے حد متنفر تھے۔ ان کا کہنا تھا:

اُٹھا کر پھینک دو باہر گلی میں
نئی تہذیب کے انڈے ہیں گندےالکشن، ممبری، کونسل، صدارت

بنائے خوب آزادی نے پھندےمیاں نجّار بھی چھیلے گئے ساتھ
نہایت تیز ہیں یورپ کے رندے
 

علی وقار

محفلین
اقبال تو کم از کم بے حد متنفر تھے۔ ان کا کہنا تھا:

اُٹھا کر پھینک دو باہر گلی میں
نئی تہذیب کے انڈے ہیں گندےالکشن، ممبری، کونسل، صدارت

بنائے خوب آزادی نے پھندےمیاں نجّار بھی چھیلے گئے ساتھ
نہایت تیز ہیں یورپ کے رندے
کیا جُزو کو کُل پر منطبق کرنے کا رویہ دُرست ہے؟ اقبال کے کلام سے اس کے برعکس بھی اشعار برآمد ہو جائیں گے۔ یہ اکبر الٰہ آبادی کا رنگ تھا جو اُن پر چڑھ گیا تھا مگر وقتی بات تھی اور تہذیب و تمدن کی ذیل میں تھی۔ سائنسی ترقی کا انکار تو نہیں۔
 
ایک بات ہم تو آپ کی فکر سے اتنے مرعوب ہوئے کہ اگر ہماری
ملکہ برطانیہ سے واقفیت پوتی تو آپ کو "سر" کا خطاب دینی کی درخواست کرتے

معلوم نہیں لوگوں کو سیدھی بات کہنے کے بجائے گھما پھرا کر کہنے کا کیا شوق ہے۔ آپ بھی میری معروضات سے غیر متفق ہیں۔ ڈر کس کا ہے۔ کھل کر کہیں۔
 
معلوم نہیں لوگوں کو سیدھی بات کہنے کے بجائے گھما پھرا کر کہنے کا کیا شوق ہے۔ آپ بھی میری معروضات سے غیر متفق ہیں۔ ڈر کس کا ہے۔ کھل کر کہیں۔
ڈرتے تو خیر ہم کسی سے نہیں آپ ہمیں کون سی ہتھکڑی لگانے لگے۔ لیکن میں یہ بول رہا تھا کہ اقبال تو پچھلی صدی کے مفکر تھے ہمیں جدید دور میں بھی ایک مفکر کی ضرورت تھی جو آج پوری ہوتی نظر آرہی ہے اور اس مفکر کا بھی حق بنتا ہے کہ اسے سر کے خطاب سے یاد کیا جائے
 

علی وقار

محفلین
مغربی تہذیب سے انہیں گلہ کچھ اس طرح کا تھا کہ،
وہ آنکھ کہ ہے سرمہ افرنگ سے روشن
پرکار سخن ساز ہے! نمناک نہیں ہے
 
ڈرتے تو خیر ہم کسی سے نہیں آپ ہمیں کون سی ہتھکڑی لگانے لگے۔ لیکن میں یہ بول رہا تھا کہ اقبال تو پچھلی صدی کے مفکر تھے ہمیں جدید دور میں بھی ایک مفکر کی ضرورت تھی جو آج پوری ہوتی نظر آرہی ہے اور اس مفکر کا بھی حق بنتا ہے کہ اسے سر کے خطاب سے یاد کیا جائے

اصل میں آپ کھل کر نہ تعریف کر رہے ہیں نہ مذمت۔ اسی لیے گمان کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ میں نے تو آپ سے پوچھا تھا کہ آپ کو سب سے عمدہ بات کیا لگی۔ آپ نے جواب ہی نہیں دیا!
 
آخری تدوین:

علی وقار

محفلین
بہرصورت، اس سے مراد یہ نہیں کہ میں اقبال کی بے جا حمایت کروں۔ اُن کے کلام میں مغرب بے زاری کا رویہ بالکل موجود ہے جس کی وجوہات کا تذکرہ پھر کبھی سہی۔ ظاہری بات ہے کہ یہ اس زمانے میں یہاں کے لکھنے والوں کا چلن بھی تھا کہ استعماری نظام نے انہیں اپنے ہی وطن میں دوسرے درجے کا شہری بنا دیا تھا۔
 

ڈاکٹر اسرار احمد سے میں ایک طویل عرصے جڑا رہا۔ ان سے ملاقات بھی ہوئی۔ وہ ڈپریشن میں چلے گئے تھے۔ وہ بوجہ اقبال و مودودی ایسے کام کے درپے ہوئے جو رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور آل رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا کام ہے۔ یہی حال موجودہ دور میں تحریک لبیک یا رسول اللہ نے اقبال کو استعمال کرتے ہوئے کیا۔ اقبال سے متاثر درختوں کے پھل نہایت کڑوے اور تکلیف دہ ہیں۔
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
ڈاکٹر اسرار احمد سے میں ایک طویل عرصے جڑا رہا۔ ان سے ملاقات بھی ہوئی۔ وہ ڈپریشن میں چلے گئے تھے۔ وہ بوجہ اقبال و مودودی ایسے کام کے درپے ہوئے جو رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور آل رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا کام ہے۔ یہی حال موجودہ دور میں تحریک لبیک یا رسول اللہ نے اقبال کو استعمال کرتے ہوئے کیا۔ اقبال سے متاثر درختوں کے پھل نہایت کڑوے اور تکلیف دہ ہیں۔
اور آپ امت مسلمہ کو بے عملی کی طرف اکسا رہے ہیں اور کب کہا گیا کہ امام مہدی اور عیسی علیہ السلام سے پہلے کوئی غلبہِ اسلام کی کوشش نہ کرے
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
ڈاکٹر اسرار احمد سے میں ایک طویل عرصے جڑا رہا۔ ان سے ملاقات بھی ہوئی۔ وہ ڈپریشن میں چلے گئے تھے۔ وہ بوجہ اقبال و مودودی ایسے کام کے درپے ہوئے جو رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور آل رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا کام ہے۔ یہی حال موجودہ دور میں تحریک لبیک یا رسول اللہ نے اقبال کو استعمال کرتے ہوئے کیا۔ اقبال سے متاثر درختوں کے پھل نہایت کڑوے اور تکلیف دہ ہیں۔
اگر آپ کی فکر پر عمل کیا جاتا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد سے اب تک امت صرف خوابِ خرگوش کے مزے لے رہی ہوتی
 
وہ بوجہ اقبال و مودودی ایسے کام کے درپے ہوئے جو رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور آل رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا کام ہے۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے آخری خطبے میں یہ کام ساری امت کو سونپا ہے۔
 
اگر آپ کی فکر پر عمل کیا جاتا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد سے اب تک امت صرف خوابِ خرگوش کے مزے لے رہی ہوتی
ان کے نظریے کے مطابق آل رسول ﷺ کے بغیر کسی مسلمان کو یہ حق نہیں کہ وہ اسلام کا نعرہ بلند کرے اور ظلم کے خلاف جہاد کرے ان کا نظریہ کم و پیش وسیم رضوی کے نظریے سے ملتا جلتا ہے۔ جس نے بھارت کی عدالت عظمیٰ میں درخواست دی تھی کہ قرآن پاک میں جو جہاد و قتال پر آیتیں ہیں انہیں نکلال دیا جائے

اور غفلت ان کے نزدیک صبر ہے
 
Top