اللہ خیر کرے۔ اب یہ نیا شوشہ چھوڑا جا رہا ہے۔ لگتا ہے اس دھاگے کا انجام بھی وہی ہو گا جو ہوتا آیا ہے۔
شمشاد بھائی نئے شوشے سے غالبآ آپ کی مراد ایک طرف تو حضرت عیسٰی کو وفات یافتہ ماننا اورساتھ ہی کسی نئے وجود کا ان کے نام پرآنا ہے۔ اور آپ کے الفاظ سے لگتا ہے کہ شائد آپ کی نظر میں یہ ایک مضحکہ خیز بات ہے۔ اس بارے میں صرف ایک تاریخی واقعہ کا ذکرکروں گا اور اسکے بعد اسی سے تعلق رکھنے والی ایک حدیث پیش کروں گا۔ میرا خیال ہے کہ اگر ذرا بھی خوف خدا ہو تو اس تاریخی واقعہ کے بعد اس حدیث کا مطالعہ کسی بھی سچے مسلمان کا دل دہلا دینے کے لئے کافی ہے۔
آج سے دوہزارسال پہلے جب حضرت عیسٰی علیہ السلام یہودیوں کی طرف مبعوث ہوئے تو اس وقت یہودی اپنے سابقہ انبیاء کی پیشگوئیوں کی بنا پر یہ سمجھتے تھے کہ مسیح موعود کے آنے سے پہلے ایلیا (الیاس نبی) کا دوبارہ دنیا میں آنا ضروری ہے۔ (حوالہ ملاکی 4:5)۔
اور الیاس نبی کے متعلق ان کی کتاب میں لکھا تھا وہ زندہ آسمان پر چلے گئے ہیں۔ (حوالہ سلاطین نمبر 2)۔
اس لئے یہودیوں کے پاس ان کی کتابوں میں آنے والے مسیح کی نشانی یہ تھی کہ اس کے آنے سے پہلے الیاس نبی دوبارہ دنیا میں آئے گا۔ اسی لئے جب حضرت عیسٰی علیہ السلام نے یہودیوں کے سامنے نبوت کا دعوی کیا تو یہودیوں نے جہاں اور اعتراض کئے وہاں سب سے بڑا اعتراض یہ تھا کہ اگر تُو وہی مسیح ہے جس کا ذکر ہماری کتابوں میں ہے تو اس کے آنے سے پہلے تو الیاس کا آنا لکھا ہے جو آسمان پر زندہ موجود ہے۔ پھر الیاس کہاں ہے؟ حضرت عیسٰی علیہ السلام نے اس کا جواب حضرت یحیٰی علیہ السلام جو ان کے ساتھ ہی ان کے وقت میں نبی تھے ان کی طرف اشارہ کرکے دیا کہ جس الیاس نے آنا تھا وہ یہی ہے لیکن لوگوں نے نہیں پہچانا۔ یہیودیوں نے حضرت عیسٰی کی اس تاویل کو درست نہ سمجھا اور پیشگوئی کے ظاہری لفظ ایلیا پر اڑ کر حضرت عیسٰی کا انکارکردیا اور آج تک یہودی دیوار گریہ کے پاس ہر ہفتے جا کر روتے ہیں کہ اے خدا اس الیاس کو بھیج جس کے بعد مسیح نے آنا تھا۔ لیکن ظاہر ہے کہ قیامت تک ان کی یہ خواہش پوری نہیں ہوسکتی کیونکہ آنے والا تو آکر چلا بھی گیا اور وہ ظاہری الفاظ میں پڑ کر اس سے محروم رہ گئے۔ جنہوں نے مان لیا وہ اپنے وقت کے امتحان میں کامیاب ہوگئے۔
اب آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث پر نظر ڈالیں کہ جو تمام مکاتب فکر کے علما کے نزدیک صحیح ترین سمجھی جاتی ہے۔
آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک وقت آئے گا کہ میری امت یہود کے نقش قدم پر چلے گی۔ اور یہود سے اتنی مشابہ ہوجائے گی کہ جیسی ایک جوتی دوسری جوتی سے مشابہ ہوتی ہے۔ یہاں تک کہ اگر یہود میں سے کسی نے اپنی ماں سے زنا کیا ہوگا تومیری امت میں سے بھی کوئی ایسا بد بخت نکل آئے گا۔ اور یہود کے 72 فرقے ہوگئے تھے لیکن میری امت کے 73 فرقے ہوجائیں گے جن میں سے 72 ناری اور ایک ناجی ہو گا۔ صحابہ نے پوچھا کہ وہ ناجی فرقہ کونسا ہوگا تو آپ نے فرمایا کہ وہ میرے اور میرے اصحاب کے قدم پر ہوگا۔ ایک دوسری روایت میں ہے کہ وہ جماعت کی شکل میں ہوگا۔
اس حدیث کے فی الحال صرف اس حصے کی طرف توجہ دلانا مقصود ہے جس میں یہود سے مشابہت کا ذکر ہے۔ سب جانتے ہیں اور اوپر بیان کئے گئے تاریخی حقائق سے بھی واضع ہے کہ یہود کی سب سے بڑی نشانی ہی یہ ہے کہ انہوں نے حضرت عیسٰی کا انکار کیا اورظاہری الفاظ کے پیچھے پڑ کر کیا کہ کیونکہ ایلیا کے آسمان پر جانے کا ذکر ہے اس لئے وہ زندہ آسمان پر گیا ہے۔ اور کیونکہ اسی کے دوبارہ آنے کا ذکر ہے اس لئے وہی آئے گا۔
جب کہ حضرت عیسٰی نے صاف فیصلہ فرما دیا کہ جب کسی کے دوبارہ آنے کی مذہبی دنیا میں پیشگوئی ہو تو اس سے مراد بنفس نفیس اسی کا آنا نہیں ہوتا بلکہ کوئی نیا وجود ہوتا ہے جس کو کسی مشابہت کی بنا پر پرانے نبی کا نام دیا جاتا ہے۔ جیسا کہ حضرت یحیٰی کو حضرت الیاس کا نام دیا گیا۔
اب ذرا سوچ کر بتائیں کہ آنحضورصلی اللہ وسلم کی پیشگوئی پوری ہوئی کہ نہیں۔ یہود کے نقش قدم پر چلے ہوئے آج کے مسلمان بالکل ویسا ہی عقیدہ رکھے ہوئے ہیں! اور بالکل وہی دلائل دیتے ہیں جو یہود آج تک حضرت عیسٰی کے انکار کے دیتے ہیں کہ الیاس کا آسمان سے آنا لکھا ہے لہذا وہی آئے گا تو مانیں گے۔ مسلمان اس وقت یہود سے زیادہ ملزم ہیں کیونکہ یہود کی کتابوں میں تو "آسمان" کا لفظ بھی لکھا ہوا تھا جبکہ مسلمانوں کی کسی کتاب میں آسمان کا لفظ نہیں ہے۔ یہود کی غلطی تو سمجھ آتی ہے مسلمانوں کی غلطی کو کیا کہیں گے۔ اور پھر یہود تو کہتے ہیں اگر یہی مسیح سچا ہوا تو ہم خدا کے سامنے کتاب کھول کر رکھ دیں گے کہ ہمارا کیا قصور ہے تو نے ہی اس میں لکھوایا تھا کہ الیاس آسمان سے آئے گا۔ لیکن کیا مسلمان بھی روز قیامت خدا کے سامنے یہ عذر پیش کرسکیں گے؟ یہود کے سامنے تو کوئی مثال نہیں تھی۔ دنیا میں پہلی بار ایک واقعہ ہوا تھا ان کی سمجھ میں نہیں آیا اور وہ فیل ہوگئے۔ لیکن مسلمانوں کے سامنے تو یہود کی روز روشن کی طرح کھلی مثال بھی بطور سبق اور عبرت کے موجود ہے۔ اللہ تعالی تو کہے گا تم نے یہود سے عبرت کیوں نہ پکڑی اور حضرت عیسٰی نے جو اس مقدمے کا فیصلہ کردیا اس سے سبق کیوں نہ لیا۔ اور پھر ذرا اس بات پر بھی غور کریں کہ اگر بالفرض آج کے مسلمان یہود کے نقش قدم پر نہیں چل رہے اور ان کا عقیدہ آسمان سے بنفس نفیس آنے کا درست ہے تو پھر یہود کو آپ کسطرح غلط کہہ سکتے ہیں۔ وہ بھی تو یہی کہتے ہیں کہ آسمان سے آنے کا ذکر ہے تو ہم کچھ اور کسطرح مان لیں۔ کیا مسلمان یہود کو اس مطالبے میں غلط نہیں سمجھتے؟ اگر سمجھتے ہیں تو پھر اپنے آپ کو درست کسطرح سمجھ سکتے ہیں۔ دونوں طرف ایک ہی جیسی سچویشن ہے۔
اورسب سے بڑھ کر یہ کہ یہاں تو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے ہی وارننگ دے دی تھی کہ خبردار ایک وقت میں تم یہود کے قدم بقدم چلو گے۔ اوراس وارننگ کے جانتے ہوئے بھی اگر کوئی یہود کے نقش قدم پر چلنے پر اصرار کرے تو اسے کیا کہا جائے۔
اب آخر میں صحیح بخاری سے یہ بھی دیکھ لیں کہ خود آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم بھی اپنی امت میں آنے والے مسیح کو پرانے مسیح سے الگ کوئی نیا وجود سمجھتے تھے۔ آپ نے جہاں پرانے مسیح کا ذکر کیا ہے تو بالکل الگ حلیہ بیان کیا اور جہاں امت میں آنے والے مسیح کا ذکر کیا تو بالکل علیحدہ حلیہ بیان کیا۔
1- آپ نے مسیح اسرائیلی کا حلیہ معراج کی رات یوں بیان کیا:
"کہ عیسٰی سُرخ رنگ اور گھنگریالے بالوں والے تھے"۔
(بخاری جلد اول کتاب الانبیاء باب واذکر فی الکتب مریم۔۔۔۔ )
2- اور اس صفحہ کی دوسری حدیث میں جہاں اپنی امت میں آنے والے مسیح کا ذکر کیا تو اسکا حلیہ یوں بیان کیا:
"کہ وہ گندم گوں کھلے بالوں والا تھا"۔
(بخاری جلد اول کتاب الانبیاء باب واذکر فی الکتب مریم۔۔۔۔ )
کیا اسکے بعد بھی کسی قسم کے شک کی گنجائش باقی ہے۔
یاد رہے کہ امت میں آنے والے کئی مجددین اور بزرگان و اولیا نے بھی اپنی کتابوں میں آنے والے مسیح کو پرانے مسیح سے علیحدہ سمجھا ہے۔ اس حدیث کے بعد ضرورت تو نہیں لیکن اگر کسی کی تسلی نہ ہوئی ہو ان کے حوالے بھی پیش کئے جاسکتے ہیں۔