جناب یہ بالکل درست ہے کہ حضرت مرزا صاحب نے براھین احمدیہ میں حیات مسیح کا عقیدہ بیان کیا تھا۔ اور اسی کتاب میں اپنے وہ الہامات بھی درج کئے تھے جن میں اللہ تعالی نے آپ کو عیسی ابن مریم کہہ کر پکارا تھا۔ لیکن اس وقت آپ کیونکہ ان الہامات کو ظاہر پرمحمول نہیں کرتے تھے اسی لئے ان الہامات کے ساتھ اسی کتاب میں یہ بھی لکھ دیا کہ عیسی آسمان سے نازل ہوں۔ یہ بھی ان کی سچائی کا نشان ہے کہ اگر آپ کا یہ خود بنایا ہوا منصوبہ ہوتا تو اپنی پہلی ہی کتاب میں ان الہامات کو اپنی ذات پر چسپاں کرلیتے۔ لیکن جیسا کہ ہر نبی نبوت سے پہلے اپنی قوم کے عقائد پر ہوتا ہے ویسا ہی آپ نے بھی عوام الناس سے سن کر یہی عقیدہ رکھا ہوا تھا۔
اس کے بارے میں آپ اپنی کتاب براہین احمدیہ حصہ پنجم میں فرماتے ہیں:
"تم خود گواہ ہو کہ اُس وقت اور اُس زمانہ میں مجھے اس آیت پر اطلاع بھی نہ تھی کہ میں اس طرح پر عیسی مسیح بنایا جاؤں گا بلکہ میں بھی تمہاری طرح بشریت کے محدود علم کی وجہ سے یہی اعتقاد رکھتا تھا کہ عیسی بن مریم آسمان سے نازل ہوگا۔ اور باوجود اس بات کے کہ خداتعالی نے براہین احمدیہ حصص سابقہ میں میرا نام عیسی رکھا اور جو قرآن شریف کی آیتیں پیشگوئی کے طور پر حضرت عیسی کی طرف منسوب تھیں وہ سب آیتیں میری طرف منسوب کردیں اور یہ بھی فرمادیا کہ تمہارے آنے کی خبر قرآن اور حدیث میں موجود ہے مگر پھر بھی میں متنبہ نہ ہوا اور براہین احمدیہ حصص سابقہ میں میں نے وہی غلط عقیدہ اپنی رائے کے طور پر لکھ دیا اورشائع کردیا کہ حضرت عیسی علیہ السلام آسمان سے نازل ہوں گے۔ اور میری آنکھیں اُس وقت تک بالکل بند رہیں جب تک کہ خدا نے بار بارر کھول کر مجھ کو نہ سمھایا کہ عیسی بن مریم اسرائیلی فوت ہوچکا ہے اور وہ واپس نہیں آئے گا اس زمانہ اور اس امت کے لئے تو ہی عیسی بن مریم ہے۔ یہ میری غلط رائے جو براہین احمدیہ حصص سابقہ میں درج ہوگئی یہ بھی خداتعالی کا ایک نشان تھا اور میری سادگی اورعدم بناوٹ پر گواہ تھا۔"
مرزا کی یہ سادگی نہیں محض عیاری تھی۔اور نبی ایسا سادہ نہیں ہوتا کہ خدا اس کوصاف طور پر کچھ بتا ئے لیکن وہ اپنے غلط عقیدے پر جمع رہے ایسا شخص تو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہو سکتا ہے کوئی نبی نہیں۔
اب ذرا یہاں میں مرزا کے ان دعاوی کا کچھ ذکر کرتا چلوں۔
مرزا کی حیات کا اولین دور جس میں وہ حضرت عیسیٰ بن مریم کی حیات و نزول کا قائل اس میں وہ یہ تسلیم کرتا ہے کہ یہ عقیدہ مسلمانوں کا اولین درجہ کا عقیدہ ہے اور متفق ہے
چنانچہ وہ لکھتا ہے کہ
"مسیح بن مریم کے آنے کی پیش گوئی ایک اول درجہ کی پیش گوئی ہے جس کو سب نے بالاتفاق قبول کر لیا ہے اور جس قدر صحاح ستہ میں پیش گوئیاں لکھی گئی ہیں کوئی پیش گوئی اس کے ہم پلہ اور ہم وزن ثابت نہیں ہوتی ، تواتر کا اول درجہ اس کو حاصل ہے انجیل بھی اس کی مصدق ہے، اب اس قدر ثبوت پر پانی پھیرنا اور یہ کہنا کہ یہ تمام حدثیں موضوع ہیں ، درحقیقت ان لوگوں کا کام ہے جن کو خدا تعالیٰ نے بصیرت دینی اور حق شناسی سے کچھ بھی بخرہ اور حصہ نہیں دیا" (ازالہ اوہام ص ۵۷۷) یہاں واضح طور پر
مسیح بن مریم کے نزول کا ذکر ہے۔
۲۔ اس امر سے کسی کوانکار نہیں کہ احادیث میں مسیح موعود کی کھلی کھلی پیش گوئی موجود ہے بلکہ تمام مسلمانوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ احادیث کی رو سے ضرور ایک شخص آنے والا ہے جس کا نام عیسیٰ بن مریم ہو گا۔(شہادت القرآن ص ۲)
یہاں صاف طور پر مرزا اس بات کو قبول کر رہا ہے کہ ۱۔ احادیث میں حضرت عیسیٰ کی کھلی پیش گوئیاں موجود ہیں اور یہ کہ تقریبا (حقیقت میں تمام) مسلمانوں کا یہ عقیدہ ہے کہ
عیسیٰ بن مریم ضرور آئیں گئے۔ (نہ کہ مرزا ابن چراغ بی بی)
آگے اس صفحے پر یہ لکھتا ہے کہ حضرت مسیح کے آنے کی خبر ہر زمانے سے پھیلی ہوئی ہے اور اس سے انکار کرنا جہالت ہے
واضح رہے کہ تمام باتیں جو ابتدا میں مرزا نے کہیں وہ صرف حضرت عیسیٰ بن مریم سے متعلق تھیں نہ کہ مرزا ابن چراغ بی بی سے۔ نیز مرزا نے ہو الذی ارسل رسولہ بالہدی ،الخ کے حوالہ سے یہ بھی بیان کیا ہے کہ جس اسلام کے لیے غلبہ کاملہ کا وعدہ کیا گیا ہے وہ حضرت مسیح کے ذریعے ہو گا اور حضرت مسیح جب دوبارہ اس دنیا میں تشریف لائیں گئے تو ان کے ہاتھ سے دین اسلام جمیع آفاق و اقطار میں پھیل جائے گا (براہین احمدیہ ج ۴ ص ۴۹۸) اس طرح ثابت ہوا کہ اب تو تمام امت مسلمہ اس بات پر متفق ہے کہ حضرت عیسیٰ بن مریم حیات ہیں اور ان کا ہی نزول ہو گا تو یہ عقیدہ شروع سے ہی مسلمانوں میں چلا آ رہا ہے اور اس کا قائل مرزا بھی تھا۔
۱۸۹۱ میں ایک تغیر عظیم ہوا کہ مرزا جو اب تک حضرت عیسیٰ کی حیات کا قائل تھا اچانک یہ کہنے لگا کہ حضرت عیسیٰ کی وفات ہو گئی ہے اور اسے الہام کے ذریعے یہ بتا یا گیا کہ مسیح فوت ہو چکے ہیں۔ گویا مرزا جواب تک قرآن کی رو سے حضرت عیسیٰ کی حیات کا قائل تھا اب اپنے الہام کی رو سے قرآن کو منسوخ کہتا ہے ۔نعوذ باللہ۔نیز کیا یہ بات آپ لوگوں کو پتہ نہیں عقائد میں کوئی رد و بدل نہیں ہوتا اور نہ اللہ کی طرف سے کیا جاتا ہے ۔یہ ردوبدل عبادات میں البتہ ہوتا ہے ۔ تو کیسے ایک الہام نے ایک بڑے مضبوط عقیدہ کو بدل کر رکھ دیا؟
اب یہ دیکھتے ہیں کہ یہ عقیدہ کہ حضرت عیسیٰ وفات پا چکے ہیں پرانا عقیدہ ہے یا مرزا کا گھڑا ہوا۔
مرزا کہتا ہے۔" اے بھائیوں یہ وہ بات ہے کہ جس کو اللہ تعالیٰ نےپہلی صدی کے مسلمانوں ( یعنی حضرات صحابہ کرام ) سے چھپا رکھا تھا۔ (آئینہ کمالات اسلام ص ۴۶۲)
نیز وہ مزید کہتا ہے کہ " مسیح علیہ السلام کے بارے میں اخیار صحابہ اور تابعین کا ایمان اجمالی تھا اور وہ اس عقیدہ نزول مسیح پر مجمل ایمان رکھتے تھے ( گویا کہ انھیں تفصیل کا علم نہیں تھا ) ( تحفہ بغداد ص ۷)
اور آخر میں بڑھ کر مرزا یہ دعوہ کرتا ہے کہ "مجھے اللہ تعالیٰ کی طرف سے بتایا گیا کہ نزول اپنے اصل مفہوم کے لحاظ سے حق ہے لیکن مسلمان اس کی حقیقت کو نہیں سمجھ سکتے کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارادہ اس کو پردہ اخفا میں رکھنے کا تھا پس اللہ کا فیصلہ غالب آیا اور لوگوں کے ذہنوں کو اس مسئلے کی حقیقت روحانیہ سے خیالات جسمانیہ کی طرف پھیر دیا گیا اور وہ اسی پر قانع ہو گئے اور یہ مسئلہ پردہ اخفا میں ہی رہا جیسے کہ دانا خوشہ میں چھپا ہوتا ہے کئی صدیوں تک یہاں کہ ہمارا زمانہ آگیا ۔۔۔پس اللہ تعالیٰ نے اس بات کی حقیقت کو ہم پر منکشف کیا۔(آئینہ کمالات اسلام ص ۵۵۲۔)
اب کوئی ذرا اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر اور خدا کو حاضر و ناضر جان کر کہ اسی کو اپنی جان دینی ہے اور اس کے سامنے اپنے اعمال کا جواب دینا ہے بتا ئے کہ ایک عقیدہ یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ زندہ ہیں اور قیامت کے قریب ان کا نزول ہوگا اس کے قائل ہمیشہ سے مسمان رہے ہیں اور اس امر کا مرزا بھی قائل ہے اور دوسرا عقیدہ وہ جو خود مرزا کا گھڑا ہوا ہے یعنی حضرت عیسیٰ کا تو انتقال ہو گیا یہ وہ عقیدہ ہے جس کا علم خود مرزا کے مطابق حضرات صحابہ (جو کہ اسلام کے سب سے بڑا عالم تھے) و تابعین کو نہیں اور درحقیقت مرزا تک کوئی اس کا قائل نہیں ۔تو اللہ کو حاضر ناضر جان کر بتائیے کون سا عقیدہ درست ہے پہلا عقیدہ جس موئید قرآن ہے، صاحب قرآن ہیں ، حضرات صحابہ و تابعین ہیں ، تمام مسلمان ہیں اور دوسرا عقیدہ جس کا قائل مرزا اور جماعت قادیان ہے؟
پھر بات یہاں ختم نہیں ہو جاتی آئیے ہم یہ دیکھتے ہیں کہ اس عقیدہ کا علم مرزا کو بزریعہ الہام ہوا یا اس نے یہ عقیدہ خود گھڑ لیا
مرزا قادیانی اپنے خلیفہ حکیم نو ر الدین کو ایک خط کے جواب میں لکھتا ہے
"جو کچھ آنمخدوم (حکیم نور الدین) نے تحریر کیا ہےا گر دمشقی حدیث کے مصداق کو علیحدہ چھوڑ کر الگ مثیل مسیح کا دعوہ ظاہر کیا جائے تو اس میں کیا حرج ہے (مکتوبات احمدیہ مکتوب نمبر۱ ۶ بنام حکیم نور الدین ج ۵ نمبر ۲ ص ۸۵)
اس خط پر ۲۴ جنوری ۱۸۹۱ کی تاریخ درج ہے اب لوگ بتائیں کہ یہ الہام ہے کہ مرزا نے ۱۸۹۱ میں دعوہ مسیحیت کیا یا ایک ابلیسی سازش جو کہ نور الدین کے ساتھ مل کر تیار کی جارہی ہے؟
یہی نہیں بلکہ نور الدین قادیان آیا اور مرزا کو سبق پڑھایا مرزا لکھتا ہے
" محب واثق حکیم نور الدین اس جگہ قادیان میں تشریف لائے انھوں نے اس بات کے لیے درخواست کی کہ جو مسلم کی حدیث میں لفظ دمشق ہے ۔۔۔اس کے انکشاف کے لیے جناب الہی میں توجہ کی جائے۔۔۔پس واضح ہو کہ دمشق کے لفظ کی تعبیر میرے پر منجانب اللہ یہ ظاہر کیا گیا کہ اس جگہ ایسے قصبہ (قادیان) کانام دمشق رکھا گیا ہے ۔جس میں ایسے لوگ رہتے ہیں جو یزید الطبع ہیں اور یزید پلید کی عادات اور خیالات کے پیرو ہیں ۔۔۔ خدا تعالیٰ نے جو مسیح کے اترنے کی جگہ جو دمشق کو بیان کیا ہے تو یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ مسیح سے مراد وہ اصلی مسیح نہیں ہے جس پر انجیل نازل ہوئی تھی بلکہ مسلمانوں میں سے کوئی ایسا شخص مراد ہے جو مسیح سے نیز حضرت حسین سے بھی مشابہت رکھتا ہے۔۔۔ دمشق کا لفظ بطور استعارہ لیا گیا۔(ازالہ اوہام ص ۶۵، ۶۷)
اب کیا یہ پلاننگ آپ ارباب پر منکشف نہیں ہوتی کہ پہلے سے ہی ایک کھچڑی پک رہی تھی اور بالآ خر مرزا نے دعوئے مسیحیت کر ڈالا۔لیکن یہ دعوہ کہ قادیان ہی دمشق ہے درحقیقت مرزا محمود کو بھی ہضم نہیں ہوا اس لیے کہ مرزا محمود ۱۹۲۴ میں دمشق گیا ایک ہوٹل میں نماز پڑھی سامنے سفید مینار تھا ۔ کہنے لگا لو حدیث دمشق پوری ہو گئی۔( سوانح فضل عمر ج ۳ ص ۷۱) یہ تھا وہ الہام اور اس کی حقیقت ۔ رانا میں نہایت اخلاص سے آپ سے یہ گذارش کروں گا کہ مرزا غلام احمد قادیانی کے حالات زندگی کا ایک بار مکمل مطالعہ کیجئے اس کے وہ الہامات اور پیش گوئیاں جواس نے پیش کیں اور جو ہمیشہ غلط ثابت ہوئیں (حالانکہ حقیقی نبی کی کوئی پیش گوئی غلط ثابت نہیں ہو سکتی) پھر مرزا کے ذاتی اخلاق و کردار کا جائزہ لیجئے کہ کس طرح وہ گالیاں بکا کرتا تھااور گالیاں بھی کس کو انبیا کو رسل کو ، صحابہ کو اخیار امت کو ، شراب پیتا تھا ، اور نہایت اخلاقی کج روی میں مبتلا تھا۔ مجھے معلوم ہے کہ یہ باتیں آپ کو پسند نہ آرہی ہوں گئی مگر یقین جانیئے کہ یہ سچ ہے ان باتوں کا حوالہ میں آپ کو دے سکتا ہوں اور حوالہ ہی نہیں بلکہ کوشش کر کہ ان کی اسکین کاپی بھی دے سکتا ہوں (گو کہ میرے پاس اسکینر نہیں ہے لیکن آپ جو طلب کریں آپ کو دیا جاسکتا ہے) ایک بار صرف ایک بار اپنی آخرت کو مد نظر رکھتے ہوئے ضرور غیر جاندارانہ تحقیق کیجئے مجھے امید ہے کہ اللہ پاک ضرور آپ کو راہ ہدایت دکھائیں گئے۔آمین
آپ کی بقیہ باتوں کا جواب اب بعد میں انشا ء اللہ۔