رانا
محفلین
حضرت عیسٰی علیہ السلام کی قبر کشمیر میں ہونے والی بات میں نے قادیانیوں سے منسوب سنی ہے یہ انکا ماننا ہے کہ انکو آسمان پر نہیں اٹھایا گیا بلکہ وہ روپوش ہوگئے تھے اور بعد میں ہجرت کرکے کشمیر آگئے اور یہاں انکی قبر ہے
آپ نے بالکل درست سنا ہے۔ حضرت عیسی علیہ السلام کی قبر کشمیر میں ہونے کا انکشاف سب سے پہلے حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی ہی نے اپنی کتاب "مسیح ہندوستان میں" میں کیا تھا اور دلائل سے اپنے موقف کو ثابت کیا تھا۔ یہاں اس کا ذکر اس لئے ضروری تھا کہ افغانوں اور کشمیریوں کے متعلق ٹھوس شواہد یہ بتاتے ہیں کہ وہ بنی اسرائیل کے گمشدہ دس قبائل ہیں۔ اور جب یہ ثابت ہوجائے تو پھر لازمی یہ سوال اٹھتا ہے کہ حضرت عیسی کا یہاں آنا بھی ناگزیر تھا کیونکہ وہ بنی اسرائیل کی طرف نبی بنا کر بھیجے گئے تھے لہذا دو قبائل کو پیغام پہنچا کر باقی دس قبائل کی طرف ان کا ہجرت کرنا ایک لازمی امر تھا۔ اس صورت حال کو برعکس زاویئے سے دیکھیں تو بھی یہ حقیقت ظاہر ہوتی ہے کہ کشمیر میں ایک دو ہزار سال پرانی قبر کا پتہ ملنا اور پھر ایسے ٹھوس شواہد کا ظاہر ہوجانا جو اس طرف اشارہ کریں کہ یہ قبر مسیح کی ہے تو پھر اتنی دور ان کی آمد کا جواز سوائے اس کے اور کوئی نہیں ملتا کہ وہ گمشدہ دس قبائل کی تلاش میں اس طرف آئے تھے اور ان کو پیغام پہنچا کر یہیں فوت ہوئے۔ بہرحال اس بات کے دلائل دینا کہ یہ قبر انہی کی ہے، اس دھاگے سے شائد مماثلت نہ رکھے۔ اس لئے میں یہاں صرف وہ باتیں ہی شئیر کروں گا جو افغانوں اور کشمیریوں کی بنی اسرائیل سے مماثلت ظاہر کریں۔