حاتم راجپوت
لائبریرین
بسم اللہ الر حمٰن الر حیم
ابتدائیہ
ابتدائیہ
اللہ تعالٰی بزرگ و برتر کے برگزیدہ بندے جو اپنی تمام تر زندگی اللہ تعالٰی کی بندگی اور اسکی عبادت اور زہد و تقویٰ کےلئے وقف کردیتے ہیں۔اللہ تعالیٰ انہیں جب چاہیں اپنی خصوصی عنایت سے ولی، ابدال،قطب اور غوث جیسے اعلیٰ و ارفع روحانی مراتب پر فائز کر دیتے ہیں جہاں ان سے خارق عادت اور کشف و کرامات کا ظہور ہوتا ہے اور وہ ہاتف غیبی، القاء اور الہام کا ادراک رکھتے ہیں۔حدیث میں آیا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم نے فرمایا۔ ”میری امت کے بعض علماء بنی اسرائیل کے پیغمبروں کی مثل ہونگے۔“ صوفیاء کرام کے نزدیک علماء سے مراد یہی گروہ اولیاء مراد ہے۔
انہی اولیاء کرام میں آج سے قریبا آٹھ سو پچاس ٨٥٠ سال قبل ایک مشہور و معروف صوفی با کمال حضرت نعمت اللہ شاہ ولی گزرے ہیں جن کے ہزاروں فارسی اشعار پر مشتمل دیوان کے علاوہ ایک قصیدہ بہت مشہور ہے جس میں اس برگذیدہ ولی اللہ نے آنے والے حوادث کی پیشن گوئی فارسی اشعار کی صورت میں کی ہے، جو آج تک حرف بہ حرف صحیح ثابت ہوتی چلی آرہی ہے۔ قصیدے کے اشعار مختلف حوالوں سے دو ہزار کے قریب بتائے جاتے ہیں لیکن ہمیں کافی کوشش کے باوجود کم و بیش تین سو اشعار سے زیادہ دستیاب نہ ہو سکے۔ لہذا پیشن گوئی کا یہ انمول قصیدہ ہم سے مزید تحقیق اور جستجو کا مطالبہ کرتا ہے۔
انسانی عقل دنگ رہ جاتی ہے جب ہم حضرت نعمت اللہ شاہ ولی کے قصیدے لکھنے کی تاریخ سے ١٠٠ تا ٧٠٠ سال بعد آنیوالے بر عظیم پاک و ہند میں آنیوالے بادشاہوں کے نام ترتیب وار ان کے قصیدے کے اشعار میں پڑھتے ہیں جبکہ وہ حکمران ابھی پیدا ہی نہیں ہوئے تھے۔ وہ سب سے پہلے مشہور مغل بادشاہ امیر تیمور کا نام اسکی پیدائش سے تقریبا ٢٠٠ سال قبل اپنی پیشن گوئی کے ایک ابتدائی شعر میں لکھتے ہیں۔ اسکے بعد لودھی خاندان کے حکمران سکندر لودھی اور ابراہیم لودھی کے ناموں کا ذکر کرتے ہیں۔پھر ان کے بعد آنے والے ہندوستان میں مغلیہ خاندان کے حکمران بابر ،ہمایوں (درمیان میں شیر شاہ افغان) اکبر، جہانگیر، شاہجہاں کے نام ان کے اشعار میں آتے ہیں اور یوں خاندان مغلیہ کے ٣٠٠ سالہ دور حکومت کی ترتیب وار پیشن گوئی کرتے ہوئے وہ انگریزوں کی ہند میں آمد تک خاندان مغلیہ کے قریبا تمام حکمرانوں کو اور ان کی مدت حکمرانی بیان کر دیتے ہیں۔ صرف ہندوستان ہی نہیں بلکہ حضرت نعمت اللہ شاہ ولی تمام حجابات سے پردہ اٹھاتے ہوئے اس کرہءارض پر تا قیامت نمودار ہونے والے کم و بیش تمام بڑے واقعات و حوادث کو اپنے قصیدے میں بیان کرتے ہیں جو ماضی کی تاریخ کی روشنی میں بالکل صحیح، واضع اور عام فہم ہیں۔جبکہ مستقبل میں ظہور پانے والے تمام واقعات کے لئے انتظار کرنا ایک فطری امر ہے۔
اس کتاب میں حضرت نعمت اللہ شاہ ولی کی پیشن گوئی کے قصیدے کے تمام اشعار موجود نہیں۔ بلکہ اس میں ان کی وسیع پیشن گوئی کے چیدہ چیدہ فارسی اشعار اور ان کے ترجمے، توضیح اور تشریح پیش کی گئی ہے،تا کہ ان سے استفادہ کرتے ہوئے دنیا میں بالعموم اور بر صغیر پاک و ہند میں بالخصوص گزرے ہوئے اور مستقبل قریب یا بعید میں رونما ہونے والے بڑے بڑے واقعات، حادثات اور انقلابات کے پردوں میں جھانک کر مسلم امہ مادی،سیاسی یا روحانی طور پر عدم توجہی سے گریز کرتے ہوئے عالم غیب کے اس نایاب خزانے کی راہنمائی میں پر آشوب مستقبل سے نمٹنے کیلئے ابھی سے تیاری کریں کہ یہی پیش بینی، دور اندیشی اور دانشمندی اس قصیدے کی غرض و غایت اور مطلب و مدعا نظر آتا ہے۔ بقول اقبال:
کھول کر آنکھیں میرے آئینہء گفتار میں۔۔
آنے والے دور کی دھندلی سی اک تصویر دیکھ۔۔
حضرت نعمت اللہ شاہ ولی کی پیشن گوئی کے قصیدے میں تین مختلف قسم کے ردیف اور قافیہ استعمال ہوئے ہیں۔ بعض اشعار کی ردیف ”مے بینم“(میں دیکھ رہا ہوں) اور بعض کی ردیف ”پیدا شود“(پیدا ہو گا) اور بعض اشعار میں قافیہ زمانہ،بہانہ اور غائبانہ وغیرہ استعمال ہوا ہے۔آنے والے دور کی دھندلی سی اک تصویر دیکھ۔۔
حضرت نعمت اللہ شاہ ولی عالم غیب کی پردہ کشائی سے پہلے کچھ یوں فرماتے ہیں:
قدرت کرد گار مے بینم
حالت روز گار مے بینم
حالت روز گار مے بینم
ترجمہ: میں اللہ تعالی کی قدرت دیکھ رہا ہوں، میں زمانہ کی حالت دیکھ رہا ہوں۔
از نجوم ایں سُخن نمے گویم
بلکہ از کردگار مے بینم
از نجوم ایں سُخن نمے گویم
بلکہ از کردگار مے بینم
ترجمہ: میں یہ بات علم نجوم کے ذریعے نہیں کہہ رہا ہوں بلکہ ذات باری تعالی کی طرف سے دیکھ رہا ہوں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حصہ اول: ماضی کی پیشنگوئی (ردیف پیدا شود)۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب حضرت نعمت اللہ شاہ ولی ”پیدا شود“(پیدا ہو گا) کی ردیف میں ہندوستان میں مغلیہ خاندان کے حکمرانوں کی پیشن گوئی کی ابتدا اس شعر سے کرتے ہیں:
راست گوئیم بادشاہے درجہاں پیدا شود
نام او تیمور شاہ صاحبقراں پیدا شود
نام او تیمور شاہ صاحبقراں پیدا شود
ترجمہ:میں سچ کہتا ہوں کہ ایک بادشاہ دنیا میں پیدا ہو گا۔اس کا نام تیمور ہو گا اور وہ صاحبقراں ہو گا۔
تشریح:تیمور شاہ نے ١٣٩٨ء میں ہندوستان کے بادشاہ محمد تغلق کو شکست دے کر ہندوستان پر قبضہ کر لیا تھا۔اسکے چند غیر اہم جانشینوں کے بارے اشعار کو اختصار کی خاطر نظر انداز کیا گیا ہے۔از سکندر چوں رسد نوبت بہ ابراہیم شاہ
ایں یقیں دار فتنہ در ملک آں پیدا شود
ترجمہ: جب سکندر لودھی سے ابراہیم تک نوبت پہنچ جائے گی، تو اس بات کو یقین سے سمجھ کہ اس کی حکومت میں فتنہ پیدا ہو گا۔ایں یقیں دار فتنہ در ملک آں پیدا شود
تشریح: ہندوستان میں خاندان مغلیہ کے بانی حکمران ظہیر الدین بابر نے جو امیر تیمور یا تیمور شاہ کی پانچویں پشت میں سے تھے،١٥٢٦ء میں پانی پت کی پہلی لڑائی میں لودھی خاندان کے آخری حکمران ابراہیم لودھی کو شکست دے کر دہلی پر قبضہ کر لیا تھا۔
بابر کے متعلق حضرت نعمت اللہ شاہ بابر کے اقتدار میں آنے سے ٣٥٠ سال قبل اپنے ایک شعر میں مندرج تاریخ ٥٧٠ ھ بمطابق ١١٧٤ عیسوی میں پیشن گوئی کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
شاہ بابر بعد ازاں در ملک کابل بادشاہ
پس بہ دہلی والئی ہندوستاں پیدا شود
پس بہ دہلی والئی ہندوستاں پیدا شود
ترجمہ: اس کے بعد ملک کابل کا بادشاہ بابر دہلی میں ہندوستان کا والی ظاہر ہو گا۔
بابر کے بیٹے ہمایوں اور اس دوران ایک افغان کے ظاہر ہونے کے بارے میں لکھتے ہیں۔
باز نوبت از ہمایوں مے رسد از ذوالجلال
ہم درآں افغاں یکے از آسماں پیدا شود
ترجمہ:پھر اللہ تعالٰی کی طرف سے بادشاہی ہمایوں تک پہنچے گی۔جبکہ اسی دوران قدرت کی طرف سے ایک افغان (شیرخان) ظاہر ہو گا۔ہم درآں افغاں یکے از آسماں پیدا شود
حادثہ رُو آورد سوئے ہمایوں بادشاہ
آنکہ نامش شیر شاہ اندر جہاں پیدا شود
ترجمہ: پھر ہمایوں بادشاہ کو حادثہ پیش آ جائیگا کیوں کہ شیر شاہ (سُوری) نام کا ایک شخص دنیا میں ظاہر ہو گا۔آنکہ نامش شیر شاہ اندر جہاں پیدا شود
تشریح: تاریخ ہند بتاتی ہےکہ شیر خان سے شکست کھانے کے بعد ہمایوں نے نظام سقہ کے ذریعے دریائے گنگا پار کر کے جان بچائی اور ایران کے بادشاہ کے پاس پناہ لی۔ جس نے اس کی بڑی قدرومنزلت کی اور چند سال بعد جب شیر شاہ سوری چل بسا تو ہمایوں نے شاہ ایران کی مدد سے ١٥٥٥ء میں دوبارہ ہندوستان پر قبضہ کر لیا اور ١٥٥٦ء تک حکومت کی۔
پس ہمایوں بادشاہ بر ہند قابض مے شود
بعد ازاں اکبر شاہ کشور ستاں پیدا شود
ترجمہ: اس طرح ہمایوں بادشاہ ہندوستان پر قبضہ کر لے گا اور اکبر (بیٹا) ملک کا بادشاہ بن جائے گا۔(چنانچہ جلال الدین محمد اکبر نے قریبا پچاس سال تک ہندوستان پر بادشاہت کی۔)بعد ازاں اکبر شاہ کشور ستاں پیدا شود
بعد از شاہ جہانگیر است گیتی راہ پناہ
اینکہ آید در جہاں بدرِ جہاں پیدا شود
ترجمہ: اس کے بعد جہانگیر عالم پناہ ہو گا۔ یہ مہتاب کامل کی طرح تخت پر جلوہ افروز ہو گا۔
تشریح: نور الدین جہانگیر نے ١٦٠٥ء سے ١٦٢٧ء تک ہندوستان پر حکومت کی۔ جہانگیر اپنے عدل و انصاف کی وجہ سے مشہور ہے۔ اسکا مقبرہ شاہدرہ لاہور میں ہے جس سے دو تین سو گز کے فاصلے پر اس کی بیوی ملکہ نور جہاں کا مزار ہے۔اینکہ آید در جہاں بدرِ جہاں پیدا شود
ترجمہ: اس کے بعد جہانگیر عالم پناہ ہو گا۔ یہ مہتاب کامل کی طرح تخت پر جلوہ افروز ہو گا۔
چوں کند عزم سفر آں ہم سوئے دار البقاء
ثانی صاحب قراں شاہجہاں پیدا شود
ترجمہ: جب وہ دار البقاء کی طرف سفر کرے گا۔تو اس کے بعد شاہجہاں (بیٹا) تخت نشین ہو گا۔
بیشتر از قرن کمتر از چہل شاہی کند
تاکہ پسرشی خودبہ پیشش آں زماں پیداشود
ترجمہ:وہ قرن سے زیادہ اور چالیس سال سے کم بادشاہی کرے گا جبکہ اس کا بیٹا(اورنگ زیب) اس کے سامنے ہی اس وقت تخت پر جلوہ افروز ہو جائیگا۔ثانی صاحب قراں شاہجہاں پیدا شود
ترجمہ: جب وہ دار البقاء کی طرف سفر کرے گا۔تو اس کے بعد شاہجہاں (بیٹا) تخت نشین ہو گا۔
بیشتر از قرن کمتر از چہل شاہی کند
تاکہ پسرشی خودبہ پیشش آں زماں پیداشود
تشریح: یہاں یہ بات کسی قدر قابل توجہ ہےکہ قصیدہ ہذاٰ میں جہاں ”پیدا شود“ کی ردیف کے دستیاب اشعار میں امیر تیمور اور ظہیر الدین بابر سے لے کر خاندان مغلیہ کے آخیر تک تمام حکمرانوں کےناموں کا ترتیب وار ذکر موجود ہے وہاں صرف محی الدین اورنگ زیب کا نام کسی بھی شعر میں نہیں ہے۔ اگر چہ اس کے مخصوص نام ”اورنگزیب“ کے بغیر اس کا ذکر اپنے باپ شاہجہاں کے بعد موجود ہے۔ ہو سکتا ہے کہ اس کے نام سے متعلقہ شعر قصیدے کے باقی سینکڑوں اشعار کی طرح دستیاب نہ ہو۔ یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ اورنگزیب جس نے قریبا ٥٠ سال ہندوستان پر بادشاہی کی، واحد حکمران ہے جس نے تخت نشینی کی صدیوں پرانی روایات سے انخراف کرتے ہوئے نہ صرف اپنے باپ شاہجہاں کو گوالیار کے قلعے میں قید کیا بلکہ تخت کے اصل وارث اپنے بڑے بھائی شہزادہ دارا شکوہ کو شکست دینے کےبعد اسے ہاتھی کے پیچھے باندھ دیا اور اسے گھسیٹتے ہوئے ہزاروں مرد و عورتوں کی آہوں اور سسکیوں کے درمیان ان کے سامنے قتل کروایا۔ دارا شکوہ اولیاء کرام اور صوفیا عظام کا نہایت قدردان تھا۔ دنیائے اسلام کے سینکڑوں نامور اولیاء اور بزرگان دین کے حالات پر مشتمل دارا شکوہ کی کتاب سفینتہ الاولیاء (اردو ترجمہ) تصوف کی معروف و مستند کتاب کے طور پر مشہور ہے۔