حضرت نعمت اللہ شاہ ولی رحمتہ اللہ علیہ کی آٹھ سو پچاس سالہ پیشن گوئیاں۔۔

حاتم راجپوت

لائبریرین
بسم اللہ الر حمٰن الر حیم

ابتدائیہ

اللہ تعالٰی بزرگ و برتر کے برگزیدہ بندے جو اپنی تمام تر زندگی اللہ تعالٰی کی بندگی اور اسکی عبادت اور زہد و تقویٰ کےلئے وقف کردیتے ہیں۔اللہ تعالیٰ انہیں جب چاہیں اپنی خصوصی عنایت سے ولی، ابدال،قطب اور غوث جیسے اعلیٰ و ارفع روحانی مراتب پر فائز کر دیتے ہیں جہاں ان سے خارق عادت اور کشف و کرامات کا ظہور ہوتا ہے اور وہ ہاتف غیبی، القاء اور الہام کا ادراک رکھتے ہیں۔حدیث میں آیا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم نے فرمایا۔ ”میری امت کے بعض علماء بنی اسرائیل کے پیغمبروں کی مثل ہونگے۔“ صوفیاء کرام کے نزدیک علماء سے مراد یہی گروہ اولیاء مراد ہے۔
انہی اولیاء کرام میں آج سے قریبا آٹھ سو پچاس ٨٥٠ سال قبل ایک مشہور و معروف صوفی با کمال حضرت نعمت اللہ شاہ ولی گزرے ہیں جن کے ہزاروں فارسی اشعار پر مشتمل دیوان کے علاوہ ایک قصیدہ بہت مشہور ہے جس میں اس برگذیدہ ولی اللہ نے آنے والے حوادث کی پیشن گوئی فارسی اشعار کی صورت میں کی ہے، جو آج تک حرف بہ حرف صحیح ثابت ہوتی چلی آرہی ہے۔ قصیدے کے اشعار مختلف حوالوں سے دو ہزار کے قریب بتائے جاتے ہیں لیکن ہمیں کافی کوشش کے باوجود کم و بیش تین سو اشعار سے زیادہ دستیاب نہ ہو سکے۔ لہذا پیشن گوئی کا یہ انمول قصیدہ ہم سے مزید تحقیق اور جستجو کا مطالبہ کرتا ہے۔

انسانی عقل دنگ رہ جاتی ہے جب ہم حضرت نعمت اللہ شاہ ولی کے قصیدے لکھنے کی تاریخ سے ١٠٠ تا ٧٠٠ سال بعد آنیوالے بر عظیم پاک و ہند میں آنیوالے بادشاہوں کے نام ترتیب وار ان کے قصیدے کے اشعار میں پڑھتے ہیں جبکہ وہ حکمران ابھی پیدا ہی نہیں ہوئے تھے۔ وہ سب سے پہلے مشہور مغل بادشاہ امیر تیمور کا نام اسکی پیدائش سے تقریبا ٢٠٠ سال قبل اپنی پیشن گوئی کے ایک ابتدائی شعر میں لکھتے ہیں۔ اسکے بعد لودھی خاندان کے حکمران سکندر لودھی اور ابراہیم لودھی کے ناموں کا ذکر کرتے ہیں۔پھر ان کے بعد آنے والے ہندوستان میں مغلیہ خاندان کے حکمران بابر ،ہمایوں (درمیان میں شیر شاہ افغان) اکبر، جہانگیر، شاہجہاں کے نام ان کے اشعار میں آتے ہیں اور یوں خاندان مغلیہ کے ٣٠٠ سالہ دور حکومت کی ترتیب وار پیشن گوئی کرتے ہوئے وہ انگریزوں کی ہند میں آمد تک خاندان مغلیہ کے قریبا تمام حکمرانوں کو اور ان کی مدت حکمرانی بیان کر دیتے ہیں۔ صرف ہندوستان ہی نہیں بلکہ حضرت نعمت اللہ شاہ ولی تمام حجابات سے پردہ اٹھاتے ہوئے اس کرہءارض پر تا قیامت نمودار ہونے والے کم و بیش تمام بڑے واقعات و حوادث کو اپنے قصیدے میں بیان کرتے ہیں جو ماضی کی تاریخ کی روشنی میں بالکل صحیح، واضع اور عام فہم ہیں۔جبکہ مستقبل میں ظہور پانے والے تمام واقعات کے لئے انتظار کرنا ایک فطری امر ہے۔

اس کتاب میں حضرت نعمت اللہ شاہ ولی کی پیشن گوئی کے قصیدے کے تمام اشعار موجود نہیں۔ بلکہ اس میں ان کی وسیع پیشن گوئی کے چیدہ چیدہ فارسی اشعار اور ان کے ترجمے، توضیح اور تشریح پیش کی گئی ہے،تا کہ ان سے استفادہ کرتے ہوئے دنیا میں بالعموم اور بر صغیر پاک و ہند میں بالخصوص گزرے ہوئے اور مستقبل قریب یا بعید میں رونما ہونے والے بڑے بڑے واقعات، حادثات اور انقلابات کے پردوں میں جھانک کر مسلم امہ مادی،سیاسی یا روحانی طور پر عدم توجہی سے گریز کرتے ہوئے عالم غیب کے اس نایاب خزانے کی راہنمائی میں پر آشوب مستقبل سے نمٹنے کیلئے ابھی سے تیاری کریں کہ یہی پیش بینی، دور اندیشی اور دانشمندی اس قصیدے کی غرض و غایت اور مطلب و مدعا نظر آتا ہے۔ بقول اقبال:

کھول کر آنکھیں میرے آئینہء گفتار میں۔۔
آنے والے دور کی دھندلی سی اک تصویر دیکھ۔۔

حضرت نعمت اللہ شاہ ولی کی پیشن گوئی کے قصیدے میں تین مختلف قسم کے ردیف اور قافیہ استعمال ہوئے ہیں۔ بعض اشعار کی ردیف ”مے بینم“(میں دیکھ رہا ہوں) اور بعض کی ردیف ”پیدا شود“(پیدا ہو گا) اور بعض اشعار میں قافیہ زمانہ،بہانہ اور غائبانہ وغیرہ استعمال ہوا ہے۔
حضرت نعمت اللہ شاہ ولی عالم غیب کی پردہ کشائی سے پہلے کچھ یوں فرماتے ہیں:

قدرت کرد گار مے بینم
حالت روز گار مے بینم

ترجمہ: میں اللہ تعالی کی قدرت دیکھ رہا ہوں، میں زمانہ کی حالت دیکھ رہا ہوں۔

از نجوم ایں سُخن نمے گویم
بلکہ از کردگار مے بینم

ترجمہ: میں یہ بات علم نجوم کے ذریعے نہیں کہہ رہا ہوں بلکہ ذات باری تعالی کی طرف سے دیکھ رہا ہوں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حصہ اول: ماضی کی پیشنگوئی (ردیف پیدا شود)

اب حضرت نعمت اللہ شاہ ولی ”پیدا شود“(پیدا ہو گا) کی ردیف میں ہندوستان میں مغلیہ خاندان کے حکمرانوں کی پیشن گوئی کی ابتدا اس شعر سے کرتے ہیں:
راست گوئیم بادشاہے درجہاں پیدا شود
نام او تیمور شاہ صاحبقراں پیدا شود

ترجمہ:میں سچ کہتا ہوں کہ ایک بادشاہ دنیا میں پیدا ہو گا۔اس کا نام تیمور ہو گا اور وہ صاحبقراں ہو گا۔
تشریح:تیمور شاہ نے ١٣٩٨ء میں ہندوستان کے بادشاہ محمد تغلق کو شکست دے کر ہندوستان پر قبضہ کر لیا تھا۔اسکے چند غیر اہم جانشینوں کے بارے اشعار کو اختصار کی خاطر نظر انداز کیا گیا ہے۔

از سکندر چوں رسد نوبت بہ ابراہیم شاہ
ایں یقیں دار فتنہ در ملک آں پیدا شود

ترجمہ: جب سکندر لودھی سے ابراہیم تک نوبت پہنچ جائے گی، تو اس بات کو یقین سے سمجھ کہ اس کی حکومت میں فتنہ پیدا ہو گا۔
تشریح: ہندوستان میں خاندان مغلیہ کے بانی حکمران ظہیر الدین بابر نے جو امیر تیمور یا تیمور شاہ کی پانچویں پشت میں سے تھے،١٥٢٦ء میں پانی پت کی پہلی لڑائی میں لودھی خاندان کے آخری حکمران ابراہیم لودھی کو شکست دے کر دہلی پر قبضہ کر لیا تھا۔

بابر کے متعلق حضرت نعمت اللہ شاہ بابر کے اقتدار میں آنے سے ٣٥٠ سال قبل اپنے ایک شعر میں مندرج تاریخ ٥٧٠ ھ بمطابق ١١٧٤ عیسوی میں پیشن گوئی کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

شاہ بابر بعد ازاں در ملک کابل بادشاہ
پس بہ دہلی والئی ہندوستاں پیدا شود
ترجمہ: اس کے بعد ملک کابل کا بادشاہ بابر دہلی میں ہندوستان کا والی ظاہر ہو گا۔
بابر کے بیٹے ہمایوں اور اس دوران ایک افغان کے ظاہر ہونے کے بارے میں لکھتے ہیں۔
باز نوبت از ہمایوں مے رسد از ذوالجلال
ہم درآں افغاں یکے از آسماں پیدا شود
ترجمہ:پھر اللہ تعالٰی کی طرف سے بادشاہی ہمایوں تک پہنچے گی۔جبکہ اسی دوران قدرت کی طرف سے ایک افغان (شیرخان) ظاہر ہو گا۔
حادثہ رُو آورد سوئے ہمایوں بادشاہ
آنکہ نامش شیر شاہ اندر جہاں پیدا شود
ترجمہ: پھر ہمایوں بادشاہ کو حادثہ پیش آ جائیگا کیوں کہ شیر شاہ (سُوری) نام کا ایک شخص دنیا میں ظاہر ہو گا۔
تشریح: تاریخ ہند بتاتی ہےکہ شیر خان سے شکست کھانے کے بعد ہمایوں نے نظام سقہ کے ذریعے دریائے گنگا پار کر کے جان بچائی اور ایران کے بادشاہ کے پاس پناہ لی۔ جس نے اس کی بڑی قدرومنزلت کی اور چند سال بعد جب شیر شاہ سوری چل بسا تو ہمایوں نے شاہ ایران کی مدد سے ١٥٥٥ء میں دوبارہ ہندوستان پر قبضہ کر لیا اور ١٥٥٦ء تک حکومت کی۔

پس ہمایوں بادشاہ بر ہند قابض مے شود
بعد ازاں اکبر شاہ کشور ستاں پیدا شود
ترجمہ: اس طرح ہمایوں بادشاہ ہندوستان پر قبضہ کر لے گا اور اکبر (بیٹا) ملک کا بادشاہ بن جائے گا۔(چنانچہ جلال الدین محمد اکبر نے قریبا پچاس سال تک ہندوستان پر بادشاہت کی۔)

بعد از شاہ جہانگیر است گیتی راہ پناہ
اینکہ آید در جہاں بدرِ جہاں پیدا شود

ترجمہ: اس کے بعد جہانگیر عالم پناہ ہو گا۔ یہ مہتاب کامل کی طرح تخت پر جلوہ افروز ہو گا۔
تشریح: نور الدین جہانگیر نے ١٦٠٥ء سے ١٦٢٧ء تک ہندوستان پر حکومت کی۔ جہانگیر اپنے عدل و انصاف کی وجہ سے مشہور ہے۔ اسکا مقبرہ شاہدرہ لاہور میں ہے جس سے دو تین سو گز کے فاصلے پر اس کی بیوی ملکہ نور جہاں کا مزار ہے۔

چوں کند عزم سفر آں ہم سوئے دار البقاء
ثانی صاحب قراں شاہجہاں پیدا شود

ترجمہ: جب وہ دار البقاء کی طرف سفر کرے گا۔تو اس کے بعد شاہجہاں (بیٹا) تخت نشین ہو گا۔

بیشتر از قرن کمتر از چہل شاہی کند
تاکہ پسرشی خودبہ پیشش آں زماں پیداشود
ترجمہ:وہ قرن سے زیادہ اور چالیس سال سے کم بادشاہی کرے گا جبکہ اس کا بیٹا(اورنگ زیب) اس کے سامنے ہی اس وقت تخت پر جلوہ افروز ہو جائیگا۔
تشریح: یہاں یہ بات کسی قدر قابل توجہ ہےکہ قصیدہ ہذاٰ میں جہاں ”پیدا شود“ کی ردیف کے دستیاب اشعار میں امیر تیمور اور ظہیر الدین بابر سے لے کر خاندان مغلیہ کے آخیر تک تمام حکمرانوں کےناموں کا ترتیب وار ذکر موجود ہے وہاں صرف محی الدین اورنگ زیب کا نام کسی بھی شعر میں نہیں ہے۔ اگر چہ اس کے مخصوص نام ”اورنگزیب“ کے بغیر اس کا ذکر اپنے باپ شاہجہاں کے بعد موجود ہے۔ ہو سکتا ہے کہ اس کے نام سے متعلقہ شعر قصیدے کے باقی سینکڑوں اشعار کی طرح دستیاب نہ ہو۔ یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ اورنگزیب جس نے قریبا ٥٠ سال ہندوستان پر بادشاہی کی، واحد حکمران ہے جس نے تخت نشینی کی صدیوں پرانی روایات سے انخراف کرتے ہوئے نہ صرف اپنے باپ شاہجہاں کو گوالیار کے قلعے میں قید کیا بلکہ تخت کے اصل وارث اپنے بڑے بھائی شہزادہ دارا شکوہ کو شکست دینے کےبعد اسے ہاتھی کے پیچھے باندھ دیا اور اسے گھسیٹتے ہوئے ہزاروں مرد و عورتوں کی آہوں اور سسکیوں کے درمیان ان کے سامنے قتل کروایا۔ دارا شکوہ اولیاء کرام اور صوفیا عظام کا نہایت قدردان تھا۔ دنیائے اسلام کے سینکڑوں نامور اولیاء اور بزرگان دین کے حالات پر مشتمل دارا شکوہ کی کتاب سفینتہ الاولیاء (اردو ترجمہ) تصوف کی معروف و مستند کتاب کے طور پر مشہور ہے۔
 

حاتم راجپوت

لائبریرین
اورنگزیب کے بعد خاندان مغلیہ کا زوال شروع ہو چکا تھا۔ لٰہذا اورنگ زیب عالمگیرکے بعد آنے والے بہت سے غیر معروف جانشینوں کے نام اگر چہ اشعار میں موجود ہیں لیکن ہم ان کو نظر انداز کرتے ہوئے ١٧٣٩ء میں دہلی کے قتلِ عام کے تذکرہ کی طرف آتے ہیں۔جس کی پیشن گوئی حضرت نعمت اللہ شاہ ولی نے قریبا چھ سو سال قبل ٥٤٨ ہجری بمطابق ١١٥٤ عیسوی میں کی تھی۔ وہ فرماتے ہیں:

نادر آید زایراں مے ستاند تخت ہند
قتل دہلی پس بہ زور تیغ آں پیدا شود
ترجمہ: نادر شاہ ایران سے آکر ہندوستان کا تخت چھین لے گا، لہذا اس کی تلوار کے زور سے دہلی کا قتل عام ہو گا۔
تشریح: نادر شاہ نے ١٧٣٩ء میں ہندوستان پر حملہ کر کے قریبا دو ماہ تک دہلی میں لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم کیا۔ جب ایک دن کسی نے نادر شاہ کے قتل کی افواہ اڑائی تو دہلی کے سپاہیوں نے نادر شاہ کے بہت سے سپاہی قتل کر ڈالے۔ اس پر نادر شاہ نے آگ بگولا ہو کر دہلی کے قتل عام کا حکم دیا اور یوں مورخین کے مطابق بارہ گھنٹے کے اندر اندر ڈیڑھ لاکھ کے قریب باشندگان دہلی قتل ہوئے۔

حضرت نعمت اللہ شاہ ولی کے پیشن گوئی قصیدے کے دستیاب اشعار کا متعدد بار بغور مطالعہ کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ بعض اشعار جا بجا غائب ہو گئے ہیں جبکہ بعض اشعار کی سلسلہ وار ترتیب میں فرق پڑ گیا ہے۔ کیونکہ اشعار کے بہت قدیم دور سے تعلق رکھنے کی بناء پر ایسا ہونا بعید از قیاس نہیں ہے۔

حضرت نعمت اللہ شاہ ولی ایک مرتبہ پھر بابر کے دور حکومت کی طرف پلٹتے ہوئے سکھوں کے بانی پیشوا گرو نانک کا ذکر بھی کرتے ہیں۔

شاہ بابر پادشاہ باشد پس ازوے چند روز
درمیانش یک فقیر از سالکاں پیدا شود
ترجمہ: بابر بادشاہ جو ہو گا اس کے بعد چند سالکوں کے درمیان ایک فقیر پیدا ہو گا۔

نام او نانک بود آرد جہاں باوے رجوع
گرم بازار فقیر بیکراں پیدا شود۔۔
ترجمہ: اس کا نام نانک ہو گا۔ بہت سے لوگ اس کی طرف رجوع کریں گے۔اس بے اندازہ فقیر کا بازار گرم ہو گا اور خوب چرچا ہو گا۔

دلمیان ملک پنجابش شود شہرت تمام
قوم سکھانش مرید و پیراں پیدا شود
ترجمہ: ملک پنجاب کے درمیانی حصہ میں اس کی بڑی شہرت ہو گی۔سکھ قوم اس کی مرید ہو گی اور وہ ان کے پیر کے طور پر نمایاں ہو گا۔
تشریح:گرو نانک ١٤٤١ء میں پیدا ہوئے اور ١٥٣٨ء میں میں ان کا انتقال ہوا۔

قوم سکھا نش چیرہ دستی ہا کند در مسلمین
تا چہل ایں جورو بدعت اندر آں پیدا شود
ترجمہ: سکھ قوم مسلمانوں پر بہت ظلم و ستم کرے گی۔ یہ ظلم و بدعت چالیس سال تک اس میں ظاہر ہوتا رہے گا۔

بعد ازاں گیرد نصاریٰ ملک ہندویاں تمام
تا صدی حکمش میاں ہندوستاں پیدا شود
ترجمہ:اس کے بعد عیسائی تمام ملک ہندوستان پر قبضہ کر لیں گے۔ ایک سو سال تک ان کا حکم ہندوستان پر چلتا رہے گا۔

ظلم و عداوت چوں فزوں گردوبر ہندوستانیاں
از نصاریٰ دین و مذہب رازیاں پیدا شود
ترجمہ: جب اہل ہند پر ظلم اور عداوت کی زیادتی ہو جائے گی تو عیسائیوں کی طرف سے دین اور مذہب کو بہت نقصان پہنچ جائیگا۔
تشریح: ہندوستان کے انگریز وائسرائے لارڈ کرزن نے یہ پیشن گوئی اس وجہ سے قانونا ممنوع قرار دی تھی کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ہم انگریزوں کی حکومت ہندوستان میں صرف ایک سو سال رہے گی۔ معلوم ہونا چاہئے کہ دین اسلام میں فتنہ پیدا کرنے کی غرض سے انگریزوں نے مسلمانوں کے اندر مرزائیوں اور قادیانیوں کا بیج بویا جس سے دین اسلام کو بہت نقصان پہنچا اور بہت سے مسلمان گمراہ اور مرتد ہو گئے۔

آحتواء سازد نصاریٰ را فلک در جنگ جیم
نکبت و ادبا را ایشاں رانشاں پیدا شود
ترجمہ: جنگ جیم (یعنی جرمن کی جنگ) میں آسمان عیسائیوں کو مبتلا کر دے گا اور ان کے لئے تباہی و بربادی کا نشان ظاہر ہو گا۔
تشریح: یہ جنگ عظیم اول ١٩١٤ء سے ١٩١٨ء تک رہی ۔ پھر اکیس سال بعد دوبارہ ١٩٣٩ء سے ١٩٤٥ء تک جنگ عظیم دوئم جرمنوں سے عیسائیوں کی طرف لڑی گئی۔

فاتح گردد نصاریٰ لیکن از تا راج جنگ
ضعف بیحد در نظام حکم شاں پیدا شود
ترجمہ: اگر چہ اہل برطانیہ جرمنوں پر فتح پا لیں گے لیکن جنگ کی تباہ کاریوں سے ان کے نظام حکم میں بہت زیادہ کمزوری پیدا ہو جائیگی۔
تشریح: یہاں یہ حقیقت بیان کرنا ضروری ہے کہ جنگ عظیم اول، جنگ عظیم دوئم، انگریزوں کا ہندوستان دو حصوں میں تقسیم کرنا اور خود ہندوستان کو چھوڑ کر چلے جانے اور اس کے پیچھے اور اس کے آگے رونما ہونے والے واقعات،حالات اور حادثات کو حضرت نعمت اللہ شاہ ولی نے اپنے دوسرے قافیہ مثلا زمانہ، تاجرانہ اور حاکمانہ میں زیادہ تفصیل اور وضاحت کے ساتھ بیان کیا ہے۔ لیکن فی الحال ”پیدا شود“ کے ردیف میں ہی ان کی پیشن گوئی کو اختتام تک پہنچاتے ہیں۔ جس کے بعد دوسرے قافیہ کے ذریعے پیشن گوئی کو زیادہ تفصیل اور طوالت کے ساتھ پر اسرار انجام تک پہنچاتے ہیں جہاں قربت قیامت کی نشانیاں صاف اور واضع طور پر سامنے آجاتی ہیں۔
حضرت نعمت اللہ شاہ ولی اپنے ”پیدا شود“ ردیف کے اشعار کو آگے بڑھاتے ہوئے انگریزوں کے بارے اپنی پیشن گوئی میں فرماتے ہیں:

واگزارند ہندرا از خود مگر از مکرشاں
خلفشار جانگسل در مرد ماں پیدا شود
ترجمہ: اگرچہ انگریز ہندوستان کو خود ہی چھوڑ جائیں گے لیکن وہ اپنے مکر و فن سے لوگوں میں ایک جان لیوا جھگڑا چھوڑ جائیں گے۔
تشریح: قیاس و قرائن کی رو سے یہ جھگڑا مسئلہ کشمیر ہی ہو سکتا ہے۔ کیونکہ پیشن گوئی میں بعض مقامات پر اشارہ و کنایہ کو سمجھنا ضروری ہوتا ہے۔

دو حصص چوں ہند گردد،خوں آدم شد رواں
شورش و فتنہ فزوں از گماں پیدا شود
ترجمہ:جب ہندوستاں دو حصوں میں تقسیم ہو جائے گا۔انسانوں کا خون بے دریغ جاری ہو گا۔ شورش و فتنہ انسانی سوچ سے بعید ہو گا۔

لامکاں باشد ز قہر ہندواں مومن بسے
غیرت و ناموس مسلم رازیاں پیدا شود
ترجمہ: اکثر مسلمان ہندوؤں کے غیظ و غضب سے بے گھر ہو جائیں گے یعنی مہاجرین کی شکل اختیار کر لیں گے۔ مسلمانوں کی غیرت و ناموس کو نقصان پہنچے گا۔گویا مسلمانوں سے ان کی بہن، بیٹیاں اور عورتیں چھین لی جائیں گی۔

مومناں یابند اماں در خطہء اسلاف خویش
بعد از رنج و عقوبت بخت شاں پیدا شود
ترجمہ: مسلمان اپنے اسلاف کے علاقے (پنجاب، سندھ، سرحد، بلوچستان) میں پناہ حاصل کر لیں گے۔ اس رنج اور مصیبت کے بعد ان میں بخت آوری ظاہر ہو گی۔
تشریح: موجودہ اور آنیوالی نسلوں کو یہ نہیں بھولنا چاہئیے کہ پاکستان دس لاکھ شہیدوں کے خون سے بنا ہے۔ ١٤ اگست ١٩٤٧ء کو پاکستان کا معرض وجود میں آنے کے ساتھ پاکستان آنے والے مہاجرین نے اپنے جان و مال کی قربانیاں دیں جبکہ مسلمان عورتوں اور لڑکیوں کی بے حرمتی کی گئی۔ مسلمان مہاجرین کی پاکستان آمد کے دوران ”بہار کا قتل عام“ ایک دردناک داستان اور خونیں منظر پیش کرتا ہے۔ لیکن سرفروشانِ اسلام نے لاشوں کے ڈھیر اور خون کے دریاؤں کا نذرانہ پیش کر کے علامہ اقبال اور قائد اعظم کے خوابوں کی تعبیر، دنیا کی سب سے بڑی اسلامی مملکت، پاکستان کو حاصل کیا۔

نعرہء اسلام بلند شد بست وسہ ادوار چرخ
بعد ازاں بار دگر یک قہرشاں پیدا شود
ترجمہ: اسلام کا نعرہ تئیس سال (١٩٤٧ء تا ١٩٧٠ء) تک بلند رہے گا۔ اس کے بعد دوسری بار ان پر ایک قہر ظاہر ہو گا۔

تنگ باشد بر مسلمانان زمین ملک خویش
نکبت و ادبار در تقدیر شاں پیدا شود
ترجمہ: مسلمانوں پر اپنے ملک کی زمین تنگ ہو جائے گی اور تباہی و بربادی ان کی تقدیر میں ظاہر ہو گی۔
تشریح: یاد رہے کہ یہ قہر الٰہی پیشن گوئی کے عین مطابق ١٩٧١ء میں مسلمانوں کی تباہی و بربادی اور قتل و غارت کے بعد سقوط مشرقی پاکستان کی صورت میں ظاہر ہوا۔ یہ جنگ در حقیقت شیخ مجیب الرحمٰن اور بھاشانی کی علیحدگی پسندی کے ناپاک عزائم کی وجہ سے ہندوستان اور پاکستان کے درمیان لڑی گئی جس میں پندرہ لاکھ غیر بنگالی اور وہ بنگالی جو متحدہ پاکستان کے حامی تھے، نہایت بے دردانہ اور ظالمانہ طور سے مار ڈالے گئے۔ عورتوں کی عصمت دری کی گئی جبکہ ایک لاکھ پاکستانی فوج جنگی قیدی بنی اور یوں قائد اعظم کا پاکستان آدھا ہو کر رہ گیا۔ اس عظیم سانحہ سے سبق حاصل کرنا تو کجا، ہمارے بعض قوم پرست اور علیحدگی پسند سیاستدان باقی رہے سہے پاکستان کو بھی پختونستان، گریڑ بلوچستان، سندھو دیش، مہاجرستان اور جناح پور میں تقسیم کرنا چاہتے ہیں تاکہ اسلامی دنیا کی یہ واحد ایٹمی طاقت اور دنیا کے ١٩٢ ممالک میں ساتویں بڑی فوجی اور ایٹمی طاقت مملکت خداداد پاکستان خدانخواستہ ٹکڑے ٹکڑے ہو جائے اور ہمسایہ دشمن اسے آسانی سے ہڑپ کر سکے۔ اسی لئے تو دانائے راز فقیر ، ترجمانِ حقیقت، شاعرِ مشرق حضرت علامہ محمد اقبالؒ نے پہلے ہی سے مسلم امہ کو اتحاد و اتفاق کا درس دیتے ہوئے کہا:

بتانِ رنگ و خوں کو توڑ کر ملت میں گم ہو جا
نہ ایرانی رہے باقی ، نہ افغانی ، نہ تورانی
دوبارہ فرمایا:
یہ ہندی ، وہ خراسانی، یہ فغانی ، وہ تورانی
تو اے شرمندہء ساحل، اُچھل کر بیکراں ہو جا
پھر فرمایا:
غُبار آلودہء رنگ و نسب ہیں بال و پر تیرے
تو اے مرغ حرم! اُڑنے سے پہلے پر فشاں ہو جا
آگے چل کر فرمایا:
رہے گا راوی و نیل و فرات میں کب تک
تیرا سفینہ کہ ہے بحر بیکراں کے لئے
حالتِ وجد میں پھر پُکار اُٹھے:
درویشِ خدا مست نہ شرقی ہے نہ غربی
گھر اس کا دِلی، نہ صفاہاں ، نہ سمرقند
بلا آخر یہ کہنے پر اُتر آئے:
یوں تو سید بھی ہو، مرزا بھی ہو، افغاں بھی ہو
تم سبھی کچھ ہو ، بتاؤ تو مسلماں بھی ہو؟
جبکہ ایران کی طرف سے خصوصی طور پر بھیجے گئے علامہ اقبالؒ کے مزار پر نصب قیمتی سنگ مرمر کے کتبے پر اسلامی دنیا کو پیغام دینے والے یہ دو آفاقی شعر کندہ ہیں:
نے آفغانیم و نے ترک و تتاریم
چمن زادیم و ازیک شاخساریم

تمیز و رنگ و بو بر ما حرام است
کہ ما پروردہ ء یک نو بہاریم
ترجمہ: ہم نہ افغان ہیں نہ ترک اور تاتار ہیں۔ ہم باہم ایک گلستان کی مانند ہیں اور ایک ہی شاخسار میں سے ہیں۔ رنگ و نسب کی بناء پر امتیاز روا رکھنا میرے اوپر حرام ہے کیونکہ ہم ایک ہی نو بہار (دین اسلام ) کے پروردہ ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

حاتم راجپوت

لائبریرین
مستقبل کی پیشنگوئی (ردیف پیدا شود)

بعد از تذلیل شاں از رحمتِ پروردگار
نصرت و امداد از ہمسائیگاں پیدا شود
ترجمہ: ان کی ذلت کے بعد اللہ تبارک و تعالیٰ کی رحمت سے نصرت اور امداد پڑوسی ملکوں سے ظاہر ہو گی۔

لشکر منگول آید از شمال بہر عون
فارس و عثمان ، ہمچارہ گراں پیدا شود
ترجمہ: منگول لشکر شمال کی جانب سے مدد کیلئے آئیگا۔ایران(فارس) والے اور ترکی (عثمان) والے بھی مددگار ثابت ہوں گے۔

ایں ہمہ اسباب عظمت بعد حج گردد پدید
نصرتے از غیب چوں بر مومناں پیدا شود
ترجمہ: کامیابی کے یہ تمام اسباب حج کے بعد ظاہر ہوں گے جب مسلمانوں کو غیب سے مدد اور نصرت آن پہنچے گی۔

قدرت حق میکند غالب چناں مغلوب دا
از عمق بینم کہ مسلمان کامراں پیدا شود
ترجمہ: اللہ تعالیٰ اس طرح اپنی قدرت سے مغلوب کو غالب کر دے گا۔ میں گہری نظر سے دیکھ رہا ہوں کہ مسلمان فاتح اور کامران ہوں گے۔
تشریح: اہل علم اور تاریخ دان دنیا کی قریبا تمام قوموں کو چار بڑی قوموں آریہ، منگولیہ، حبشیہ اور یورپیہ کی مختلف ذیلی شاخیں سمجھتے ہیں۔ اہل یورپ گورے اور سرخ و سفید ہوا کرتے ہیں۔ اہل حبشہ سیاہ رنگ کے لوگ ہوتے ہیں جو زیادہ تر افریقہ میں آباد ہیں۔ آریہ سے مراد ہندوستان، پاکستان اور دیگر اسلامی ممالک کے لوگ ہیں۔ جبکہ منگولیہ چین اور انڈونیشیا کے باشندے ہیں، لہذا گزرے ہوئے شعر میں پاکستان کی مدد کیلئے شمال کی طرف سے آنیوالا ”لشکر منگول“ چائنا ہی کی فوج کی طرف اشارہ معلوم ہوتا ہے۔ لیکن یہ امر غور طلب ہے کہ چونکہ چائنا کی افواج اب تک پاکستان آئی ہی نہیں ہیں۔ اسلئے پچھلے چار اشعار کی پیشنگوئی کا ماضی کے بجائے مستقبل سے زیادہ تعلق محسوس ہوتا ہے۔

جیسے کہ پہلے کہا جا چکا ہے کہ مذکورہ پیشنگوئی کے سینکڑوں اشعار دستیاب نہیں ہیں اس لئے بعض مقامات پر عدم تسلسل اور خلاء کا احساس ہوتا ہے۔ لیکن رونما ہونے والے حوادث اور واقعات کا خاطر خواہ تسلسل اور ربط آگے آنیوالے، غاصبانہ، فاتحانہ اور بیکرانہ کے قافیہ والی پیشنگوئی کے اشعار میں زیادہ واضح اور نمایاں نظر آتا ہے۔ لیکن بعض اشعار کا آگے پیچھے ہو جانا خارج از امکاں نہیں اسی لئے واقعات کی ترتیب میں جا بجا بگاڑ کا اندیشہ ہوتا ہے۔

پانصد و ہفتاد ہجری بوچوں ایں گفتہ شُد
قادر مطلق چنیں خواہد چناں پیدا شود
ترجمہ: جب یہ اشعار کہے گئے تو اس وقت ٥٧٠ ہجری (بمطابق ١١٧٤ عیسوی) ہے۔ لہذا خدائے بزرگ و برتر اس طرح چاہتے ہیں اور اسی طرح ظاہر ہو گا۔

چوں شود در دور آنہا جور و بدعت را رواج
شاہ غربی بہر و فعش خوش عناں پیدا شود
ترجمہ: جب اس کے دور میں ظلم و بدعت رواج پا جائے گا تو غرب کا بادشاہ ان کو دفع کرنے کیلئے حکومت کی اچھی باگ دوڑ سنبھالنے والا پیدا ہو گا۔

قاتل کفار خواہد شد شہ شیر علی
حامی دین محمدً پاسباں پیدا شود
ترجمہ: شیر علی شاہ کافروں کو قتل کرنے والا ہو گا اور سید المرسلین اور خاتم النبین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے دین کی حمایت کرنے والا ہو گا اور ملک کے پاسباں کے طور پر ظاہر ہو گا۔
تشریح: لیکن اس نام کی کوئی شخصیت ابھی سامنے نہیں آئی، شاید مستقبل میں ظاہر ہو۔

درمیان ایں و آں گردد بسے جنگ عظیم
قتل عالم بے شبہ در جنگ شاں پیدا شود
ترجمہ: اسی دوران ایک بڑی جنگِ عظیم لڑی جائیگی۔ اس جنگ سے ایک عالم کا قتل بغیر شک و شُبہ ظاہر ہو گا۔

فتح یا بدشاہ غربستان بزور تبر و تیغ
قوم کافر را شکست بے گماں پیدا شود
ترجمہ: شاہ غربستان ہتھیاروں اور اسلحہ کے زور پر فتح حاصل کرے گا، جبکہ کافر قوم کو ایسی شکست سے دوچار ہونا پڑے گا جو کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ ہو گی۔

اب پیشن گوئی بارے یہ شعر بہت معنی خیز اور اور ٹھوس وضاحت کے ساتھ وقت کے تعین کا تقاضا کرتا ہے۔

غلبہء اسلام باشد تا چہل در ملک ہند
بعد ازاں دجال ہم از اصفہاں پیدا شود
ترجمہ: اسلام کا غلبہ چالیس سال تک ہندوستان کے ملک میں رہے گا۔اس کے بعد دجال ایران کے شہر اصفہان سے ظاہر ہو گا۔

دجال کے اچانک ظاہر ہونے کی خبر دینے والے اس شعر سے پہلے اور کئی شعر گزرے ہوں گے جن کے بارے وثوق سے کچھ نہیں کہا جا سکتا کیونکہ حضرت نعمت اللہ شاہ ولی کی پیشن گوئی کے اشعار کا وسیع ذخیرہ ایک ہی جلد میں ٨٥٠ سال کے طویل عرصہ کے بعد دستیاب ہونا اگر ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔ بہرحال تحقیق اور تلاش کا دروازہ اربابِ ذوق و شوق کے لئے کُھلا ہے، اس میں شک نہیں کہ ایسے نایاب خزانوں کو ڈھونڈنے کیلئے ایک والہانہ جذبہ ضروری ہے۔

حضرت نعمت اللہ شاہ ولی ”پیدا شود“ کی ردیف میں اپنے آخری تین اشعار میں پیشن گوئی کرتے ہوئے انسان پر لرزہ طاری کر کے اسے عین قیامت کے کنارے کھڑا کر دیتے ہیں:

از برائے دفع آں دجال مے گوئم شنو
عیسیٰ آید مہدی آخر زماں پیدا شود
ترجمہ: اس کافر دجال کو دفع کرنے کیلئے میں بیان کرتا ہوں غور سے سُنو حضرت عیسیٰ علیہ السلام تشریف لائیں گے اور حضرت مہدی علیہ السلام آخر الزماں ظاہر ہوں گے۔

اور یوں حضرت نعمت اللہ شاہ ولی پیشنگوئی کے قصیدے کے ”پیدا شود“ ردیف کے آخری شعر (مقطع) میں اپنا نام لے کر آنے والے پر اسرار واقعات پر اپنی روحانی مہر ثبت کرتے ہوئے کہتے ہیں:

آگہی شد نعمت اللہ شاہ از اسرار غیب
گفتہ او بر مہر و ماہ بے گماں پیدا شود
ترجمہ: نعمت اللہ شاہ ولی غیب کے رازوں سے باخبر ہوا، لہذا اس کا کہا ہوا دنیا میں، کائنات میں، زمانے میں بغیر کسی شک و شبہ کے ظاہر ہو گا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مستقبل کی پیشنگوئی (ردیف مے بینم)
نعمت اللہ شاہ ولی کے ”پیدا شود“ کی ردیف میں بیان کیے گئے پیشنگوئی کے آخری تین اشعار کی مزید وضاحت کیلئے ہم ان کے ”مے بینم“ کی ردیف کے چند اشعار بیان کرتے ہیں۔

نائب مہدی آشکار شود
بلکہ من آشکار مے بینم
ترجمہ: نائب مہدی کا ظہور ہو گا بلکہ میں تو اسے ظاہر دیکھ رہا ہوں۔

قائم شرع و آل پیغمبر
در جہاں آشکار مے بینم
ترجمہ: میں پیغمبر کی شرع کا قائم کرنے والا جہاں میں صاف ظاہر دیکھ رہا ہوں۔

صورت نیمہ ہمہ خورشید
بنظر آشکار مے بینم
ترجمہ: میں اس کی صورت دوپہر میں چمکنے والے سورج کی مانند دیکھ رہا ہوں۔

سمت مشرق زیں طلوع کند
ظہور دجال زار مے بینم
ترجمہ: میں اس کی مشرق کی جانب سے دجال لعین کا ظہور دیکھ رہا ہوں۔

رنگ یک چشم او بہ چشم کبود
خرے بر خر سوار مے بینم
ترجمہ: اس کی ایک آنکھ میں پھولا ہو گا جبکہ میں اس کوایک گدھے پر سوار دیکھ رہا ہوں۔

لشکر او بود اصفہاں
ہم یہود و نصاریٰ مے بینم
ترجمہ: اس کا لشکر اصفہاں میں ہو گا۔ میں اس کو یہود اور نصاریٰ کے لشکر کے ساتھ دیکھ رہا ہوں۔

ہم مسیح از سماء فر ود آید
پس کوفہ غبار مے بینم
ترجمہ: حضرت مسیح بھی آسمان سے اتر آئیں گے۔ میں کوفہ میں غبار دیکھ رہا ہوں۔

از دم تیغ عیسیٰ مریم
قتل دجال زا رمے بینم
ترجمہ: میں حضرت عیسیٰ کی تلوار سے دجال لعین کا قتل دیکھ رہا ہوں۔

زینت شرع دین از اسلام
محکم و استوار مے بینم
ترجمہ: اسلام کی شریعت سے دین کی زینت ہو گی۔ میں دین کو محکم اور استوار دیکھتا ہوں۔

نہ وردے بخود نمے گوئم
بلکہ از سر یار مے بینم
ترجمہ: یہ وارداتیں میں اپنی طرف سے نہیں کہتا بلکہ میں ذات باری تعالیٰ کے رازوں کو دیکھتا ہوں۔

نعمت اللہ نشستہ در کنجے
ہمہ را در کنار مے بینم
ترجمہ: نعمت اللہ ایک کونے میں بیٹھا ہوا سب کچھ ایک کنارے سے دیکھ رہا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

حاتم راجپوت

لائبریرین
ماضی کی پیشنگوئی (قافیہ زمانہ ، بہانہ وغیرہ)

اولیا کرام اور صوفیا عظام جو اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ بندے ہوتے ہیں ان پر کب اور کس وقت جلال اور جمال کی کیفیت طاری ہوتی ہے، کب اور کیسے وہ حالت وجد میں آتے ہیں اور کب مکاشفہ اور کب مشاہدہ اور الہام یا القاء کے ذریعے ان پر غیب کے پردے کھلتے ہیں اور کس طرح اللہ تبارک و تعالیٰ ان کو لوحِ محفوظ میں جھانکنے کا اعلی و ارفع روحانی مرتبہ عطا کرتے ہیں، ایسے بے شمار سوالات اور بہت زیادہ کرید سے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلِہٖ وسلم نے انسان کو منع فرمایا ہے۔
حضرت نعمت اللہ شاہ ولی نے اپنے پیشنگوئی کے قصیدے میں ”پیدا شود“ (پیدا ہو گا) کے ردیف میں خصوصی طور پر بر صغیر پاک و ہند میں رونما ہونے والے غیر معمولی حالات اور حوادث سے پردہ اُٹھایا ہے۔ لیکن اب ویرانہ، زاہدانہ، اور فاتحانہ وغیرہ قافیہ کے ذریعے حضرت نعمت اللہ شاہ کشمیری نے زیادہ وسعت اور وضاحت کے ساتھ برصغیر پاک و ہند اور ملحقہ علاقہ جات میں پیش آنے والے واقعات اور حادثات کو ایسے بے باکانہ طور پر بیان کیا ہے کہ انسانی عقل دنگ رہ جاتی ہے، رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں اور دل دہلنے لگتا ہے۔ موقعہ کی مناسبت سے عقل اور عشق(حقیقی) کے بارے فرماتے ہیں:

خرد سے راہ روشن ہے، بصر ہے
خرد کیا ہے ، چراغ راہ گزر ہے
درون خانہ ہنگامے ہیں کیا کیا
چراغ رہگذر کو کیا خبر ہے
علامہ اقبال عشق حقیقی اور معرفت الٰہی کے بغیر عقل کو محدود قرار دیتے ہوئے دوبارہ فرماتے ہیں:
گزر جا عقل سے آگے کہ یہ نور
چراغ راہ ہے منزل نہیں ہے
اسی طرح علامہ اقبال علم کو بھی محدود تصور کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
علم کی حد سے پرے بندہء مومن کیلئے
لذت شوق بھی ہے، نعمت دیدار بھی ہے
لہٰذا نعمت اللہ شاہ ولی علم اور عقل کی سرحدوں سے آگے نکل کر درون خانہ ہنگاموں کی پردہ کشائی کرتے ہوئے کچھ یوں گویا ہوتے ہیں:
پارینہ قصہ شوئم از تازہ ہند گوئم
افتاد قرن دوئم کہ افتد از زمانہ
ترجمہ: میں قدیم قصہ کو نظر انداز کرتا ہوں، میں ہندوستان کے متعلق تازہ بیان کرتا ہوں کہ دوسرا قرن جو زمانہ میں آئے گا۔

صاحب قرن ثانی اولاد گور گانی
شاہی کندا ما شاہی چو رستمانہ

ترجمہ: خاندان مغلیہ میں سے صاحب قرن ثانی ہند پر بادشاہی کرے گا لیکن بادشاہی دلیرانہ طور پر ہو گی۔

عیش و نشاط اکثر گردد مکاں بہ خاطر
گم مے کنند یکسر آں طرز ترکیانہ
ترجمہ: ان کے دلوں میں عیش و عشرت گھر کر لے گا۔اور اپنے ترکیانہ طرز و انداز کو سراسر ترک کر دیں گے۔

تا مدت سہ صد سال در ملک ہند بنگال
کشمیر، شہر بھوپال ، گیرند تاکرانہ
ترجمہ: ان کی حکومت ہندوستان کے ملک میں بنگال ،کشمیر اور شہر بھوپال کے آخر تک تین سو سال تک رہے گی۔

گیرند ملک ایراں، بلخ و بخارا ، تہراں
آخر شوند پنہاں ، باطن دریں جہانہ
ترجمہ: یہ ملک ایران، بلخ، بخارا اور تہران پر بھی قابض ہو جائیں گے، لیکن آخر کار چھپ جائیں گے اور اس جہان کے اندر باطن ہو جائیں گے۔

تا ہفت پشت ایشاں در ملک ہندو ایراں
آخر شوند پنہاں در گوشہء نہانہ
ترجمہ: ان (مغل) کی سات پُشتیں ہندوستان اور ایران کے ملک پر حکومت کریں گی۔لیکن آخر کار ایک گمنام گوشہ میں چھپ جائیں گے۔

بعد از سہ صد نہ بینی تو حکم گورگانی
چوں اصحاب کہف گردد در کہف غائبانہ
ترجمہ: تو تین سو سال بعد خاندان مغلیہ کی حکومت نہیں دیکھے گا۔ یہ اصحاب کہف کی طرح غار میں غائب ہو جائیں گے۔

آں آخری زمانہ آید دریں جہانہ
شہباز سدرہ بینی از دست رائیگانہ
ترجمہ: اس دُنیا میں وہ آخری زمانہ آئیگا جب شہباز سدرہ( اولیاء جن کی پرواز سدرہ المنتہیٰ تک ہو)، تو دیکھے گا کہ وہ ہاتھ سے نکل جائیں گے۔

آں راجگانِ جنگی مئے خور مست بہنگی
در ملک شاں فرنگی آئند تاجرانہ
ترجمہ: وہ جنگجو راجے مہاراجے جو شراب اور بھنگ کے نشہ میں مست ہوں گے۔ ان کے ملک میں انگریز تاجرانہ انداز میں داخل ہوں گے۔
تشریح: انگریز شروع میں ہندوستان کے مشہور مرچ مصالحوں کی تجارت کے بہانے مغل حکمرانوں سے بحیرہ ہند کے ساحل کے قریب واقع گوا ، سورت اور پانڈی چری میں تجارتی کوٹھیاں بنانے کی اجازت ملنے پر داخل ہوئے۔ ہندوستان میں انگریزوں کا ایسٹ انڈیا کمپنی کی آڑ میں قبضہ کرنے اور اہل ہند پر ایک سو سال سے زائد عرصہ تک حکومت کرنے کا پہلا بیج اس طرح بویا گیا۔ اسلئے شعر میں لفظ '' تاجرانہ'' استعمال کیا گیا ہے۔

رفتہ حکومت از شاں آید بہ غیر مہماں
اغیار سکہ را نند از ضرب حاکمانہ
ترجمہ: مغل حکمرانوں کی حکومت چلی جائے گی۔ غیر کے ہاتھوں میں آجائیگی۔ جو مہمان بن کر آئے ہونگے وہ آخرکار اپنا حاکمانہ سکہ چلائیں گے۔

بینی تو عیسوی را بر تخت بادشاہی
گیرند مومناں را از حیلہ بہانہ
ترجمہ: تو عیسائیوں کو بادشاہی کے تخت پر دیکھے گا۔ یہ مکر و فریب سے مسلمانوں کی پکڑ دھکڑ کریں گے۔

صد سال حکم ایشاں در ملک ہند میداں
من دیدم اے عزیزاں! ایں نقطہء غائبانہ
ترجمہ: سو سال تک ہندوستان پر ان کی حکومت ہو گی۔ اے عزیزو میں نے یہ غیبی نقطہ دیکھا ہے۔

اسلام ، اہل اسلام گردد غریب و حیراں
بلخ و بخارا ، طہراں در سند ہند ہیانہ
ترجمہ: اسلام اور اسلام والے لاچار اور حیران ہو جائیں گے۔ بلخ، بخارا، طہران، سند اور ہند میں۔

در مکتب و مدارس علم فرنگ خوانند
در علم فقہ و تفسیر غافل شوند بیگانہ
ترجمہ: سکولوں اور درسگاہوں میں انگریزی علم پڑھیں گے جبکہ فقہ و تفسیر کے علم سے غافل اور بیگانہ ہو جائیں گے۔

حضرت نعمت اللہ شاہ ولی کی پیشنگوئی جو ٨٥٠ سال پہلے بیان کی گئی، وقت گزرنے کے ساتھ ان کے اشعار کی ترتیب سے قطع نظر آج سے قریبا ١٠٠ سال قبل اور پیشنگوئی کی تحریر کے ٧٥٠ سال بعد یعنی بیسویں صدی کی ابتدا میں رو نما ہونے والے واقعات اور ایجادات سے متعلق درج ذیل دو اشعار پیشنگوئی کی سچائی اور سند پر مہر ثبت کرتے ہیں:

آلات برق پیما اسلاح حشر پربا
سازند اہل حرفہ مشہور آں زمانہ
ترجمہ: برق پیما آلات اور میدان جنگ میں حشر برپا کرنے والا اسلحہ اس زمانہ کے مشہور و معروف سائنسدان بنائیں گے۔
باشی اگر بہ مشرق، شنوی کلام مغرب
آید سرود غیبی بر طرز عرشیانہ
ترجمہ: اگر تم مشرق میں بیٹھے ہو گے تو تم مغرب کی باتیں سُن سکو گے۔ آسمان کی طرح غیب سے نغمے آیا کریں گے۔

تا چہار سال جنگے افتد بہ بر غربی
فاتح الف گردد بر جیم فاسقانہ
ترجمہ: مغربی ممالک (یورپ وغیرہ) پر چار سال کیلئے ایک جنگ واقع ہو گی۔ الف (انگلستان) جیم (جرمن) پر فاسقانہ طور پر فتح پا لے گا۔
تشریح: یہ شعر جنگ عظیم اول جو ١٩١٤ء سے ١٩١٨ء تک لڑی گئی، کو ظاہر کرتا ہے۔

جنگ عظیم باشد ، قتل عظیم سازد
یک صد و سی و یک لک باشد شمار جانہ
ترجمہ: یہ عالمگیر جنگ (اول) ہو گی جس میں بہت بڑا قتال واقع ہو گا۔ ایک کروڑ اکتیس لاکھ جانیں ضائع ہو جائیں گی۔

اظہار صلح باشد لیکن پنہاں کنند ساماں
جیم و الف مکرر رو در ، مبارزانہ

ترجمہ: بظاہر دونوں خاموش ہوں گے لیکن درپردہ جرمنی اور انگلستان بدستور جنگی تیاریوں میں مصروف ہوں گے۔

وقت کہ جنگ جاپاں با چین افتاباں شد
نصرانیاں بہ پیکار آیند باہمانہ
ترجمہ: جس وقت جاپان کی جنگ چین کے ساتھ واقع ہو گی، عیسائی آپس میں لڑائی کریں گے۔

قوم فرنسوی را بر ہم نمود اول
با انگلیس و اطالین گیرند خاصمانہ

ترجمہ: وہ سب سے پہلے فرانس پر حملہ آور ہو کر قبضہ کرے گا۔ برطانیہ اور اٹلی والے خاصمانہ جنگ اختیار کرلیں گے۔

پس سال بست و یکم آغاز جنگ دوئم
مہلک ترین اول باشد بہ جارحانہ
ترجمہ: (جنگ عظیم اول کے) اکیس سال بعد (یعنی جنگ عظیم اول کے اختتامی سال ١٩١٨ء کےبعد ١٩٣٩ء میں) دوسری جنگ عظیم کا آغاز ہو گا۔ جو جنگ عظیم اول سے بہت زیادہ مہلک اور جارحانہ ہو گی۔
تشریح: یہ جنگ عظیم دوئم انگلینڈ کی طرف سے چرچل اور جرمنی کی طرف سے ہٹلر کی سربراہی میں ١٩٣٩ء سے ١٩٤٥ء تک عالمی سطح پر لڑی گئی۔ امریکہ کی طرف سے دو بڑے شہروں ہیروشیما اور ناگاساکی پر دنیا کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایٹم بم گرانے سے اس جنگ کا خاتمہ ہوا۔

نصرانیاں کہ باشند ہندوستاں سپارند
تخم بدی بکارند از فسق جاودانہ
ترجمہ: اس کے بعد عیسائی (انگریز) ہندوستان چھوڑ جائیں گے۔ لیکن جاتے ہوئے اپنے فسق سے ہمیشہ کے لئے بدی کا بیج بو جائیں گے۔
تشریح: انگریزوں نے یہ بدی کا بیج متعدد مسلم اکثریتی صوبوں ، اضلاع اور ریاست جموں کشمیر کو بھارت کے حوالے کرنے کی صورت میں بویا، جس پر آج تک ہندوستان اور پاکستان کے درمیان چار جنگیں لڑی جا چکی ہیں۔ قائد اعظم کے الفاظ میں ”کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے“۔ اور اللہ تعالیٰ کی شان دیکھئے کہ حضرت نعمت اللہ شاہ ولی کا وصال بھی کشمیر ہی میں ہوا۔

آں مرد مانِ اطراف چوں مژدہ ایں شنودند
یکبار جمع آیند بر باب عالیانہ
ترجمہ: جب ارد گرد کے لوگ یہ خوشخبری سُنیں گے تو فورا ہی باب عالی پر اکٹھے ہو جائیں گے۔
تقسیم ہند گردد در دو حصص ہویدا
آشوب و رنج پیدا از مکر و از بہانہ
ترجمہ: ہندوستان دو حصوں میں واضح طور پر تقسیم ہو جائے گا۔ لیکن مکر و فریب سے آشوب و رنج پیدا ہو گا۔

تقسیمِ ہند کے بعد بے تاج بادشاہوں کے دور میں معاشرے کی زبوں حالی ، علماء کی ریا کاری، جنسی سیاہ کاری اور رشوت کی فراوانی کے بارے حضرت نعمت اللہ شاہ ولی اپنی آفاقی پیشنگوئی میں آگے چل کر فرماتے ہیں:

بے تاج بادشاہاں شاہی کنند ناداں
اجراء کنند فرماں فی الجملہ مہملانہ
ترجمہ: ہند و پاک پر بے تاج لوگ بادشاہی کریں گے، جبکہ نادان حکام احمقانہ احکام جاری کریں گے۔

از رشوتِ تساہل دانستہ از تغافل
تاویل یاب باشند احکامِ خسروانہ
ترجمہ: یہ رشوت لے کر سُستی کریں گے۔ جان بوجھ کر غفلت کریں گے۔ اپنے شاہی احکامات کے لئے بے سروپا جواز پیش کریں گے۔
عالم ز علم نالاں ، دانا ز فہم گریاں
ناداں بہ رقص عریاں مصروف والہانہ
ترجمہ: (حقیقی) عالم اپنے علم پر گریہ و زاری کریں گے۔ دانا لوگ اپنی فہم و فراست کا رونا روئیں گے جبکہ ناداں لوگ عریاں ناچ گانوں میں دیوانہ وار مصروف ہوں گے۔

شفقت بہ سرد مہری، تعظیم در دلیری
تبدیل گشتہ باشد از فتنہء زمانہ
ترجمہ: شفقت سرد مہری میں اور تعظیم دلیری میں تبدیل ہو جائیگی۔ یہ زمانہ میں فتنہ کے سبب سے ہو گا۔

ہمشیر با برادر، پسران ہم با مادر
نیزہم پدر بہ دختر مجرم بہ عاشقانہ
ترجمہ: بہن بھائی کے ساتھ، بیٹے ماؤں کے ساتھ اور باپ بیٹی کے ساتھ عاشقانہ فعل کے مجرم ہوں گے۔
تشریح: حضرت نعمت اللہ شاہ ولی نے اس شعر میں ”مجرم بہ عاشقانہ“ کے الفاظ استعمال کر کے جنسی سیاہ کاری کی قبیح ترین حالت کو قدرے مہذب زبان میں بیان کرنے کی سعی فرمائی ہے جو اخلاقیات کے ارفع و اعلیٰ مراتب پر فائز صوفیاء اور اولیاء کا وطیرہ ہے۔

از امت محمدؐ سرزد دشوند بیحد
افعال مجرمانہ، اعمال عاصیانہ
ترجمہ: سرکارِ دو عالمﷺ کی امت سے بکثرت مجرمانہ افعال اور عاصیانہ اعمال سرزد ہوں گے۔

فسق و فجور ہر سُو رائج شود بہ ہر کُو
مادر بہ دختر خود سازد بسے بہانہ
ترجمہ: ہر طرف اور ہر گلی کوچہ میں فسق و فجور عام ہو جائے گا۔ماں اپنی بیٹی کے ساتھ بہت بہانہ سازی کرے گی۔

حلت رود سراسر حرمت رود سراسر
عصمت رود برابر از جبر مغویانہ
ترجمہ: حلال جاتا رہے گا، حرام کی تمیز جاتی رہے گی۔ عورتوں کی عصمت جابرانہ اغوائیگی سے جاتی رہے گی۔

بے مہر گی سر آید پردہ داری آید
عصمت فروش باطن معصوم ظاہرانہ
ترجمہ: نفرت پیدا ہو گی، بے پردگی آجائیگی۔ عورتیں بے پردہ ہوں گی۔ بظاہر معصوم لیکن اندر سے عصمت فروش ہوں گی۔

دختر فروش باشند عصمت فروش باشند
مردانِ سفلہ طینت با وضع زاہدانہ
ترجمہ: اکثر لوگ دختر فروشی اور عصمت فروشی کریں گے۔ بدکردار لوگ اپنی ظاہری وضع قطع زاہدوں جیسی رکھیں گے۔

بے شرم و بے حیائی درمرد ماں فزاید
مادر بہ دختر خود، خود را کند میزانہ
ترجمہ: لوگوں میں بے شرمی اور بے حیائی زیادہ ہو جائیگی، ماں اپنی بیٹی کے ساتھ اپنے آپ کا موازنہ کرے گی۔ گویا ماں حسن و جمال اور طرز و انداز میں خود کو اپنی بیٹی سے کم نہیں سمجھے گی۔

کذب و ریاء و غیبت ، فسق و فجور بیحد
قتل و زنیٰ و غلام ہر جا شوند عیانہ
ترجمہ: جھوٹ اور ریا کاری، غیبت اور فسق و فجور کی زیادتی ہو گی۔ قتل ، زنا اور اغلام بازی ہر جگہ عام ہو جائے گی۔

اب حضرت نعمت اللہ شاہ ولی اپنی پیشنگوئی کا رخ زمانے کے جاہل اور ریا کار علماء اور گمراہ مفتیان کی طرف موڑتے ہوئے ان کے تن بدن سے ظاہری زیب و زینت کا طرہ اور جبہ قبہ ہٹا کر انہیں اپنے اصلی رنگ و روپ میں پیش کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
آں مفتیانِ گمرہ فتو ے دہند بیجا
در حق بیان شرع سازند بسے بہانہ
ترجمہ: وہ گمراہ مُفتی غلط فتوے دیا کریں گے، شریعت کے حق بیان میں بہت بہانہ سازی کریں گے۔

فاسق کند بزرگی بر قوم از سترگی
پس خانہ اش بزرگی خواہد شود ویرانہ
ترجمہ: فاسق لوگ بڑی صفائی سے اپنی قوم پر بُزرگی کریں گے۔ پھر ان بُزرگوں کے گھروں میں ویرانی آئے گی۔

احکام دیں اسلام چوں شمع گشتہ خاموش
عالم جہول گردد جاہل بہ عالمانہ
ترجمہ: دینِ اسلام کے احکام شمع کی مانند خاموش ہو جائیں گے۔ عالم جاہل ہو جائیگا۔ جاہل گویا عالم بن جائے گا۔

آں عالمانِ عالم گردند ہمچوں ظالم
نا شستہ روئے خود را بر سر نہند عمامہ
ترجمہ: وہ دنیا کے عالم ظالموں کی طرح ہو جائیں گے۔ اپنے نہ دھوئے ہوئے چہرے کو سر پر دستار فضیلت رکھ کر سجائیں گے۔

زینت دہند خود را با طرہ و جبہ
گئو سالہ سامری را باشد درون جامہ
ترجمہ: اپنے آپ کو طرہ اور جبہ قبا کے ذریعے عزت دیں گے۔ گویا سامری جادوگر کے بچھڑے کو لباس کے اندر چھپا لیں گے۔

زاہد مطیع شیطاں ، عالم عدو رحمٰن
عابد بعید ایشاں ، درویش با ریانہ
ترجمہ: زاہد شیطان کی اطاعت کرنے والے اور عالم رحمان سے دشمنی کرنے والے ہونگے، جبکہ عابد عبادت سے دور اور درویش ریا کاری کرنے والے ہوں گے۔
رسم و رواج ترسا ، رائج شود بہ ہر جا
بدعت رواج گردد نیز سنت غائبانہ
ترجمہ: عیسائیوں جیسا رسم و رواج ہر جگہ رائج ہو گا۔ بدعت رواج پا جائیگی۔سنت پیغمبری غائب ہو گی۔
 

حاتم راجپوت

لائبریرین
ناگاہ مومناں را شور پدید آید
با کافراں نمایند جنگے چوں رستمانہ
ترجمہ: اچانک مسلمانوں کو ایک ظاہر شور سنائی دے گا، کافروں کے ساتھ ایک دلیرانہ جنگ لڑی جائیگی۔
تشریح: یہ شعر اور اس کے بعد اگلے چار شعر واضح طور پر ٦ ستمبر ١٩٦٥ء کی پاک بھارت جنگ کو ظاہر کرتے ہیں۔

شمشیر ظفر گیرند با خصم جنگ آرند
تا آنکہ فتح پابند از لطف آں یگانہ
ترجمہ: یہ (پاک فوج) فتح والی تلوار پکڑ کر دشمن کے ساتھ جنگ کریں گے۔حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے فتح حاصل کر لیں گے۔

از قلب پنج آبی خارج شوند ناری
قبضہ کنند مسلم بر شہر غاصبانہ
ترجمہ: پنجاب کے قلب سے ناری (جہنمی) لوگ بھاگ جائیں گے۔ مسلمان شہر پر غاصبانہ قبضہ کر لیں گے۔
تشریح: ایک لحاظ سے لاہور کو پنجاب کا دل کہا جاتا ہے، ٦٥ء کی جنگ میں دشمن کی فوجیں اچانک حملہ کر کے لاہور کے شالا مار باغ سے چند میل دور باٹا پور کے قرب و جوار تک پہنچ گئی تھیں۔ لیکن پاک فوج کی سخت مزاحمت سے وہ بی آر بی نہر کو کراس نہیں کر سکیں۔ بی -آر۔بی پُل کے ساتھ سڑک کے کنارے ان عظیم شہداء کی یادگار کھڑی ہے جنہوں نے اپنے خون کا نذرانہ پیش کر کے لاہور کا دفاع کیا۔ دوسرے معنوں میں یہ شعر واہگہ سرحد کے قریب ہندوستان کے اندر کھیم کرن شہر پر پاک فوج کے قبضہ کو بھی ظاہر کرتا ہے۔

از لطف و فضل یزداں بعد از ایام ہفدہ
خوں ریختہء و قربان دادند غازیانہ
ترجمہ: سترہ روز کی جنگ کے بعد اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے اسلام کے غازی خونریزی کر کے اور قربانی دے کر کامیاب ہونگے۔
تشریح: اس جنگ میں ”ایام ہفدہ“ (١٧ دن) کے الفاظ کہہ کر حضرت نعمت اللہ شاہ ولی نے ٨٠٠ سال قبل ٦ ستمبر ١٩٦٥ء پاک بھارت کی سترہ روزہ جنگ، نہ ایک دن کم ، نہ ایک دن زیادہ، کی بات کرکے اپنی پیشنگوئی کا لوہا منوایا ہے۔

درحین بے قراری ہنگام اضطراری
رحمے کند چو باری بر حال مومنانہ
ترجمہ: اس بے قراری اور اضطراب کے وقت ذات باری تعالیٰ مسلمانوں کے حال پر رحم فرمائیں گے۔

مومنان میر خود را از سفینہ تنزیل سازند
بر مسلماں بیاید تذلیل خاسرانہ
ترجمہ: مسلمان اپنے امیر (صدر) کو اپنی حماقت سے (عہدہ صدارت) سے اتار دیں گے۔ اس کے بعد مسلمانوں پر خسارہ والی ذلت آئے گی۔
تشریح: ١٩٦٥ء کی جنگ کے تذکرے کے بعد اس شعر میں صدر محمد ایوب خاں کو مسند سے اتارنے کے عمل کو مسلمانوں کے لئے نقصان دہ امرقرار دیا گیا ہے۔

خونِ جگر بنوشم از رنج با تو گوئم
للہ ترک گردان آن طرز راہبانہ
ترجمہ: میں اپنے جگر کا خون پی کر بڑے رنج و غم سے تجھے کہتا ہوں کہ خدا کے لئے وہ راہبوں والا طریقہ ترک کر دیں۔

قہر عظیم آید بہر سزا کہ شاید
آخر خدا بہ سازد یک حکم قاتلانہ
ترجمہ: ایک بہت بڑا قہر آئیگا جو سزا کے طور پر ہو گا۔ آخرکار اللہ تعالیٰ ایک قاتلانہ حکم جاری کر دیں گے۔

کشتہ شوند مسلماں افتاں شوند خیزاں
از دست نیزہ بنداں یک قوم ہندوآنہ
ترجمہ: ایک اسلحہ بند ہندو قوم کے ہاتھوں مسلمان گرتے پڑتے اور اُٹھتے ہوئے جان سے مارے جائیں گے۔

مشرق شود خرابے از مکر حیلہ کاراں
مغرب دہند گریہ بر فعل سنگدلانہ
ترجمہ: مشرقی پاکستان حیلہ کاروں کے فریب سے تباہ ہو گا۔ جبکہ مغربی پاکستان والے اپنے سنگدلانہ فعل پر گریہ و زاری کریں گے۔
تشریح: اہل فہم و فراست پاکستان کے حکمرانوں اور مغربی پاکستان کے بااختیار بیوروکریسی کے متعصبانہ، جانبدارانہ اور غیر منصفانہ پالیسیوں کو مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی بنیادی وجہ قرار دیتے ہیں۔

ارزاں شود برابر جائیداد و جان مسلم
خوں می شود روانہ چوں بحر بیکرانہ
ترجمہ: مسلمانوں کی جان اور جائیداد یکساں طور پر سستی ہو گی۔ایک بحر بیکراں کی طرح مسلمانوں کا خون رواں ہو گا۔

شہر عظیم باشد، اعظم ترین مقتل
صد کربلا چوں کربل باشد بخانہ خانہ
ترجمہ: ایک بہت بڑا شہر (ڈھاکہ) ایک بہت بڑا مقتل بنے گا۔کربلا کی طرح سینکڑوں کربلائیں گھر گھر سے رونما ہوں گی۔

رہبر ز مسلماناں در پردہ یار آناں
امداد دادہ باشد از عہد فاجرانہ
ترجمہ: مسلمانوں کے رہبر ( شیخ مجیب الرحمٰن وغیرہ) در پردہ بھارتی فوج کے دوست ہونگے اور اپنے فاجرانہ اقرار سے انہیں امداد دیں گے۔

ایں قصہ بین العیدین از شین و نون شرطین
سازد ہنود بدرا مغلوب فی زمانہ
ترجمہ: یہ واقعہ دو عیدوں کے درمیان رونما ہو گا جبکہ سورج پچاس درجہ پر ہو گا اور چاند شرطین کی منزل میں ہو گا۔ اس وقت ہندو ہر بڑے آدمی کو مغلوب کر دے گا۔ در اصل شین سے شمس مراد ہے اور نون سے پچاس درجہ، شرطین سے چاند کی دو تاریخ مراد ہے۔( یہ واقعہ ٢٢ نومبر ١٩٧١ء کو صدر یحییٰ خان کے دور میں رونما ہوا)

یہ بات قابل توجہ ہے کہ اب تک پچھلے صفحات میں حضرت نعمت اللہ شاہ ولی کی پیشنگوئی کے جو چیدہ چیدہ اشعار گزرے ہیں۔ ان میں بعض مقامات پر واقعات کے لحاظ سے ترتیب اور تسلسل قائم نظر نہیں آتا ۔ بہ الفاظ دیگر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ درمیان سے کچھ اشعار غائب ہو گئے ہیں یا پھر صدیوں سے اصل قلمی نسخہ سے نقل در نقل کر کے کچھ اشعار آگے پیچھے ہو گئے ہیں لیکن ان سب میں ایک بات مشترک ہے کہ یہ تمام اشعار ماضی قریب یا بعید کے واقعات اور حوادث بیان کرتے ہیں۔ جبکہ آج سے تقریبا ٧٠ برس پہلے کے واقعات کی تصدیق کیلئے ہمارے درمیان اب بھی ایسے ہزاروں بزرگ عینی شاہدین موجود ہیں جنہوں نے نہ صرف قیام پاکستان بلکہ اس سے قبل جنگ عظیم دوئم وغیرہ کے واقعات بھی اپنی آنکھوں سے دیکھے جو اس پیشنگوئی کی سچائی اور صداقت پر مہر ثبت کرتے ہیں۔ اسی طرح پانچ چھ سو سال قبل کی تاریخ کے مطابق نعمت اللہ شاہ ولی نے اپنے گزرے ہوئے پیشنگوئی کے اشعار میں خاندان مغلیہ کے قریبا تمام بادشاہوں کے ناموں اور ان کی مدت حکمرانی کا ذکر کیا ہے۔


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


حال کی پیشنگوئی
اب ماضی کی پیشنگوئی کو خیر باد کہتے ہوئے ہم پہلے ''حال '' کے ایسے تین اشعار بیان کرتے ہیں جو غالبا موجودہ دور سے متعلق معلوم ہوتے ہیں اور جن میں لفظ ''قاضی'' (جج)، ''جنگ قاضی''، ''شکاری'' ، ''سگ'' (کُتا) ، ''رشوت اور مسند جہالت'' کے پر معنی الفاظ بے دریغ استعمال ہوئے ہیں۔
''جنگ قاضی'' یعنی قاضی یا ''جج کی لڑائی'' کے الفاظ بلاشبہ موجودہ عدلیہ کے بحران ہی کو ظاہر کر رہے ہیں۔ چنانچہ حضرت نعمت اللہ شاہ ولی فرماتے ہیں۔

در مومناں نزارے، در جنگ قاضی آرے
چوں سگ پئے شکاری، گردد بسے بہانہ
ترجمہ: قاضی کی لڑائی میں کمزور مسلمان شکاری کے پیچھے کتے کی طرح بہانہ سازی کریں گے۔

بینی تو قاضیاں را بر مسند جہالت
گیرند رشوت از خلق علامہ با بہانہ
ترجمہ: قاضیان یعنی ججوں کو تو جہالت کی مسندپر دیکھے گا۔ بڑے بڑے علم والے لوگ بہانہ سے لوگوں سے رشوت لیں گے۔

گردانگ از بہ رشوت در چنگ قاضی آری
چوں سگ پئے شکاری، قاضی کند بہانہ
ترجمہ: اگر تو قاضی (جج) کی مُٹھی میں چاندی کے چند سکہ دے دے گا تو قاضی شکاری کتے کی طرح بہانہ سازی کرے گا۔
تشریح: چونکہ مندرجہ بالا تینوں اشعار میں لفظ ''بہانہ'' قافیہ میں استعمال ہوا ہے۔ لہذٰا اس بہانہ کا مفہوم قانون کی غلط اور من مانی توضیح و تشریح بھی مراد لی جا سکتی ہے۔


از اہل حق نہ بینی در آں زماں کسے را
دزدان و رہزنے را بر سر نہند عمامہ
ترجمہ: تو اس وقت کسی کو اہل حق نہ دیکھے گا۔ لوگ ''چور'' اور ''ڈاکوؤں'' کے سر پر دستار رکھیں گے۔
تشریح: یہ شعر بھی حال یعنی موجودہ دور سے متعلق معلوم ہوتا ہے۔ بعض اوقات بات اشارہ و کنایہ میں کہی جاتی ہے۔

بینی تو پند معروف پنہاں شود در عالم
سازند حیلہ افسوں نامش نہند نظامہ
ترجمہ: نیک کام کرنے کی نصیحت دنیا میں چھپ جائے گی۔ دھوکہ بازی اور فسوں سازی کے حربوں اور ہتھکنڈوں کا نام نظام حکومت رکھ لیں گے۔

گردد ریاء مروج در شرق و غرب ہر سُو
فسق و فجور باشد منظور خاص و عامہ
ترجمہ: مشرق و مغرب میں ہر طرف ریاءکاری رواج پا جائیگی۔عام و خاص لوگوں کے لئے فسق و فجور منظور خاطر ہو گا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مستقبل کی پیشنگوئی (قافیہ زمانہ، بہانہ وغیرہ)
اب تک ٨٥٠ سال پر محیط ماضی اور حال کے واقعات کے بارے حضرت نعمت اللہ شاہ ولی کی پیشنگوئی کے چیدہ چیدہ اشعار بیان کئے گئے ۔ جو ہونا تھا وہ ہو چکا۔ لیکن اب پیشنگوئی کا اہم ترین حصہ شروع ہوتا ہے جس میں حضرت نعمت اللہ شاہ ولی علم و عرفاں کے بحر بیکراں کے شناور کی حیثیت سے آنیوالے مستقبل کے نیک و بد اور ہیبتناک اور عبرتناک واقعات سے پردہ اُٹھاتے ہوئے مسلمانوں کو غیب کے رازوں میں جھانکنے کا موقع فراہم کرتے ہیں تا کہ مسلم امہ دین اسلام پر کاربند رہتے ہوئے اپنے اخلاق سنواریں اور باطل قوتوں کے خلاف جہاد کیلئے ہمہ وقت تیار رہیں، حضرت نعمت اللہ شاہ ولی آج کے بعد مستقبل کے واقعات اور حادثات کی پیشنگوئی کرتے کرتے انسان کو قیامت کے قریب پہنچا دیتے ہیں۔
اندر نماز باشند غافل ہمہ مسلماں
عالم اسیر شہوت ایں طور در جہانہ
ترجمہ: سب مسلمان نماز سے غافل رہیں گے، لوگ شہوت کے قیدی ہوں گے، دنیا میں ایسا ہی ہو گا۔

روزہ ،نماز ، طاعت، یکدم شوند غائب
در حلقہء مناجات تسبیح از ریانہ
ترجمہ: روزہ، نماز اور احکام کی بجا آوری یک لخت غائب ہو جائے گی۔ مناجات کی مجالس میں ریاکارانہ طور سے ذکر و اذکار ہو گا۔
تشریح: ذکر و اذکار کا یہ ریا کارانہ انداز تو ابھی سے دیکھنے میں آرہا ہے۔نہ جانے مستقبل میں یہ ریاکاری کس نہج پر پہنچ جائے گی۔ (بتاریخ ٢٠٠٩ء)

شوق نماز و روزہ ، حج و زکوٰۃ و فطرہ
کم گردد و بر آید یکبار خاطرانہ
ترجمہ: نماز ، روزہ ، حج ، زکوٰۃ اور فطرانہ ادا کرنے کا شوق کم ہو جائے گا۔ دلوں پر ایک بوجھ معلوم ہو گا۔

ہم سود مے ستانند از مردمان مسکین
بر سر غرور و لعنت، بر سر نہند خزانہ
ترجمہ: ایک جماعت مجبور لوگوں سے سُود لیا کرے گی، ان پر لعنت ہو۔ یہ سر پر خزانہ رکھے ہوئے ہوں گے۔

ماہِ محرم آید چوں تیغ با مسلماں
سازند مسلم آندم اقدام جارحانہ
ترجمہ: محرم کے مہینہ میں مسلمانوں کے پاس ہتھیار آجائیں گے۔ مسلمان اس وقت جارحانہ قدم اُٹھائیں گے ۔
تشریح: آج سے سینتیس سال قبل مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے صدمہ کے چند ماہ بعد ١٩٧٢ء میں کسی نے چلتے چلتے راقم الحروف کو ایک بڑے سائز کا ورق دیا تھا جس پر حضرت نعمت اللہ شاہ ولی کی پیشنگوئی کے تیس چالیس اشعار چھپے ہوئے تھے۔ ماضی کی پیشنگوئی کے متعدد اشعار کو درست تسلیم کرتے ہوئے جب مشرقی پاکستان کے المیہ سے متعلق چند اشعار پڑھے تو پاکستان کے مستقبل کے متعلق کوئی اچھی خبر سننے کو دل بے چین ہو گیا۔ مجھے اب تک یاد ہے کہ اس وقت مستقبل کے بارے یہی شعر تھا کہ ”ماہ محرم آید۔۔۔۔اقدام جارحانہ“ جس میں امید کی کرن نظر آئی اور جس کے وقوع پذیر ہونے کیلئے اب تک راقم الحروف انتظار میں ہے، یہ نہ جانتے ہوئے کہ وہ ”محرم“کس سال کا ہو گا۔ بہر حال پیشنگوئی کے تقدس کا تقاضا ہے کہ بعض مقامات پر حقائق کو کسی قدر پوشیدہ اور طویل انتظار کو روا رکھا جائے۔

بعد آں شود چوں شورش در ملک ہند پیدا
فتنہ فساد برپا بر ارضِ مشرکانہ
ترجمہ: اس کے بعد ہندوستان کے ملک میں ایک شورش ظاہر ہو گی۔ مشرکانہ زمین پر فتنہ و فساد برپا ہو گا۔

درحین خلفشارے قومے کہ بت پرستاں
بر کلمہ گویاں جابر از قہر ہندوانہ
ترجمہ: اس خلفشار کے وقت بت پرست قوم کلمہ گو مسلمانوں پر اپنے ہندوانہ قہر و غضب کے ذریعے جابر ہوں گے۔

بہر صیانت خود از سمت کج شمالی
آید برائے فتح امداد غائبانہ
ترجمہ: اپنی مدد کیلئے شمال مشرق کی طرف سے فتح حاصل کرنے کیلئے غائبانہ امداد آئے گی ۔

آلات حرب و لشکر درکار جنگ ماہر
باشد سہیم مومن بے حد و بیکرانہ
ترجمہ: جنگی ہتھیار اور جنگی کاروائی کا ماہر لشکر آئیگا، جس سے مسلمانوں کو زبردست اور بے حساب تقویت پہنچے گی۔

عثمان و عرب و فارس ہم مومنانِ اوسط
از جذبہء اعانت آیند والہانہ
ترجمہ: ترکی ، عرب، ایران اور مشرق وسطیٰ والے امداد کے جذبہ سے دیوانہ وار آئیں گے۔

اعراب نیز آیند است کوہ و دشت و ہاموں
سیلاب آتشیں شد از ہر طرف روانہ
ترجمہ: نیز پہاڑوں، بیابانوں اور صحراؤں سے اعراب بھی آئیں گے۔ آگ والا سیلاب ہر طرف رواں دواں ہو گا۔

چترال، ناگا پربت، باسین ، ملک گلگت
پس ملک ہائے تبت گیر نار جنگ آنہ
ترجمہ: چترال، نانگا پربت، چین کے ساتھ گلگت کا علاقہ مل کر تبت کا علاقہ میدان جنگ بنے گا۔

یکجا چوں عثمان ہم چینیاں و ایراں
فتح کنند ایناں کُل ہند غازیانہ
ترجمہ: ترکی ، چین اور ایران والے باہم یکجا ہو جائیں گے۔ یہ سب تمام ہندوستان کو غازیانہ طور پر فتح کر لیں گے۔

غلبہ کنند ہمچوں مورو ملخ شباشب
حقا کہ قوم مسلم گردند فاتحانہ
ترجمہ: یہ چیونٹیوں اور مکڑیوں کی طرح راتوں رات غلبہ حاصل کر لیں گے۔ میں قسم کھاتا ہوں اللہ تعالیٰ کی کہ مسلمان قوم فاتح ہو گی۔

کابل خروج سازد در قتل اہل کفار
کفار چپ و راست سازند بسے بہانہ
ترجمہ: اہل کابل بھی کافروں کو قتل کرنے کیلئے نکل آئیں گے، کافر لوگ دائیں بائیں بہانہ سازی کریں گے۔

از غازیان سرحد لرزد زمیں چو مرقد
بہر حصول مقصد آیند والہانہ
ترجمہ: سرحد کے غازیوں سے زمین مرقد کی طرح لرزے گی۔ وہ مقصد کے حصول کے لئے دیوانہ وار آئیں گے۔
تشریح: اوپر کے دو اشعار سرحد کے غازیوں اور افغانستان کے مجاہدوں کا کفار کے خلاف زوردار جہاد اور دیوانہ وار یلغار ظاہر کرتے ہیں۔ (اللہ اکبر)

از خاص و عام آیند جمع تمام گردند
درکار آں فزایند صد گونہ غم افزانہ
ترجمہ: عام و خاص سب کے سب لوگ جمع ہو جائیں گے۔اس کام میں سینکڑوں قسم کے غم کی زیادتی ہو گی۔
تشریح: غازیانہ، دلیرانہ اور فاتحانہ انداز سے کفار کے خلاف جہاد میں کامیابی کی نشانیوں کے باوجود ایک نامعلوم ”غم“ کے لئے تمام مسلمانوں کا باہم جمع ہو جانا تشویشناک نظر آتا ہے۔

بعد از فریضہء حج پیش از نماز فطرہ
از دست رفتہ گیرند از ضبطِ غاصبانہ
ترجمہ: فریضہء حج کے بعد اور عید الفطر کی نماز سے پہلے ہاتھ سے نکلے ہوئے علاقہ کو حاصل کر لیں گے جو انہوں نے غاصبانہ ضبط کیا ہوا تھا۔

رودِ اٹک نہ سہ بار از خوں اہل کفار
پر مے شود بہ یکبار جریان جاریانہ
ترجمہ: دریائے اٹک (دریائے سندھ) کافروں کے خون سے تین مرتبہ بھر کر جاری ہو گا۔
تشریح: حضرت نعمت اللہ شاہ ولی کی پیشنگوئی کا ہر شعر جہاں ایک الگ باب کی حیثیت رکھتا ہے، وہاں مستقبل کے بارے ان کا یہ شعر جس میں صاف طور پر دریائے اٹک (دریائے سندھ) کا نام لے کر اسے تین مرتبہ کفار کے خون سے بھر کر جاری ہونے کی پیشنگوئی کی گئی ہے ، مسلمانوں اور کفار کے درمیان ایک انتہائی خونریز جنگ کو ظاہر کرتا ہے جس میں اگلے شعر کے تناظر میں مسلمانوں کو فتح حاصل ہو گی۔لیکن اس شعر کی یہ تشریح اس وقت تک تشنہ لب ہے جب تک جغرافیائی اور واقعاتی لحاظ سے اس اہم نکتہ پر غور نہ کیا جائے کہ بھلا کفار کے خلاف مذکورہ خونریز جنگ آخر پشاور سے صرف ٤٥میل دور دریائے اٹک تک کیسے آ پہنچے گی جبکہ دریائے سندھ کے مغرب میں صرف صوبہ سرحد(پختونخواہ) ، قبائلی علاقہ، افغانستان اور چند آزاد جمہوری ریاستیں واقع ہیں جو مسلمانوں پر مشتمل ہیں۔ تو کیا اٹک کے کنارے کفار سے مزاحمت صرف یہی مغرب کی طرف سے آنے والے مسلمان کریں گے؟ دوسرا انتہائی تشویشناک اور حیرت انگیز پہلو یہ ہے کہ اگر مغرب کی طرف سے کفار کا آنا بعید از قیاس ہے تو پھرکفار دریائے اٹک تک پاکستان کے مشرق یا شمال مشرق کی جانب سے کن راستوں یا علاقوں سے گزر کر پہنچیں گے؟ کیونکہ مقامِ کارزار آخر دریائے اٹک ہی بتایا گیا ہے۔
 
آخری تدوین:

حاتم راجپوت

لائبریرین
تمام ہندوستان کے اندر فتوحات:

پنجاب، شہر لاہور، کشمیر ملک منصور
دوآب ، شہر بجنور گیرند غالبانہ
ترجمہ: پنجاب، شہر لاہور، ملک کشمیر نصرت شدہ ، دریائے گنگا اور جمنا کا علاقہ اور بجنور شہر پر مسلمان غالبانہ قبضہ کر لیں گے۔
تشریح: اس شعر میں مذکور صوبے ، علاقے اور شہروں کے نام بالواسطہ طور پر نہ صرف دریائے اٹک کے خونیں معرکہ میں مسلمانوں کی فتح کو ظاہر کرتے ہیں بلکہ دشمن کو پیچھے دھکیلتے ہوئے پنجاب ، لاہور، کشمیر اور ہندوستان کے اندر دریائے گنگا اور دریائے جمنا کے درمیان دوآبہ کا وسیع علاقہ اور مشہور شہر بجنور پر مسلمانوں کا غالبانہ قبضہ ظاہر کرتے ہیں، انشااللہ!

از دُختران خوشرو از دلبران مہ رو
گیرند ملک آں سُو خلقے مجاہدانہ
ترجمہ: خوبرو لڑکیاں اور حسین دلربائیں ، مجاہدین مال ِ غنیمت کے زمرے میں اپنی ملکیت میں لے لیں گے۔
تشریح: اس شعر میں پچھلے گزرے ہوئے دو اشعار کی مکمل تشریح و توضیح اور حتمی نتیجہ مسلمانوں کی فتح کی شکل میں سامنے آجاتا ہے۔

بعد از عقب ایں کار مغلوب اہل کفار
مسرور فوج جرار باشند فاتحانہ
ترجمہ: اس کام کے بعد کافر مغلوب ہو جائیں گے اور مسلمانوں کی جری افواج فتح حاصل کر کے خوش ہو جائیں گی۔

ایں غزوہ تا بہ شش ماہ پیوستہ ہم بشر ہا
مسلم بفضل اللہ گردند فاتحانہ
ترجمہ: یہ لڑائی چھ ماہ تک انسانوں کے بیچ چلتی رہے گی۔ مسلمان اللہ کے فضل سے فاتح ہوں گے۔

خوش می شود مسلماں از لطف و فضل یزداں
خاق نماید اکرم از لطف خالقانہ
ترجمہ: اللہ تعالیٰ کے حکم سے مسلمان خوش ہو جائیں گے،اللہ پاک خالقانہ لطف و کرم فرمائیں گے۔

کشتہ شوند جملہ بد خواہ دین و ایماں
کل ہند پاک باشد از رسم ہندوانہ
ترجمہ: دین اور ایمان کے جملہ بد خواہ لوگ قتل کر دئیے جائیں گے۔ تمام ہندوستان ہندوؤں کی عملداری سے پاک ہو جائے گا۔

یک زلزلہ کہ آید چوں زلزلہ قیامت
آں زلزلہ بہ قہر در ہند سند ہیانہ
ترجمہ: قیامت کے زلزلوں کی مثل ایک زلزلہ آئے گا اور وہ زلزلہ ہندوستان اور سندھ میں قہر بن کر نمودار ہو گا۔

چوں ہند ہم بہ مغرب قسمت خراب گردد
تجدید یاب گردد جنگ سہ نوبتانہ
ترجمہ: ہندوستان کی طرح مغرب یعنی یورپ کی تقدیر بھی خراب ہو جائے گی۔ تیسری جنگ عظیم شروع ہو جائے گی۔

آں دو الف کہ گُفتم الفے تباہ گردد
را حملہ ساز باید بر الف مغربانہ
ترجمہ: دو الف (انگلستان اور امریکہ) جو میں پہلے بیان کر چکا ہوں، ان میں سے ایک الف(غالبا انگلستان) تباہ ہو جائے گا۔روس انگلستان پر حملہ کر دے گا۔

جیم شکست خوردہ بارا برابر آید
آلات نار آرند مہلک جہنمانہ
ترجمہ: جنگ عظیم دوئم میں شکست خوردہ جرمنی یا جاپان روس کے ساتھ برابری کرے گا یا ساتھ مل جائے گا۔ اس جنگ میں جہنمی قسم کے انتہائی مہلک آتشی ہتھیار استعمال کئے جائیں گے۔
تشریح: یہ متوقع تیسری جنگ عظیم ہو گی جس میں ایسے ایٹمی ممالک برسرپیکار ہوں گے جن کے پاس ایٹمی ہتھیاروں کی تعداد اس وقت اتنی ہے جو دنیا کو درجنوں مرتبہ تباہ و برباد کر کے راکھ کا ڈھیر بنا سکتے ہیں۔ جیسے کہ ایک مرتبہ C.S.S کے انٹرویو کے دوران جب ایک امیدوار سے متوقع تیسری جنگ عظیم میں استعمال ہونے والے بڑے ہتھیاروں کے نام پوچھے گئے تو اس نے برجستہ جواب دیتے ہوئے کہا کہ تیسری جنگ عظیم کے مہلک ہتھیاروں کے بارے تو میں وثوق سے کچھ نہیں کہہ سکتا لیکن چوتھی جنگ عظیم یقینی طور پر ڈنڈوں سے لڑی جائیگی۔گویا تیسری جنگ عظیم میں وسیع پیمانے پر ایٹمی ہتھیاروں کے آزادانہ استعمال کے بعد اس روئے زمین پر کچھ باقی رہ ہی نہیں جائے گا۔لہٰذا چوتھی جنگ عظیم جنگلات کے بچے کھچے درختوں کے ڈنڈوں سے ہی لڑی جا سکے گی۔ اس طرح چوتھی جنگ عظیم کے ہتھیار بتا کر تیسری جنگ عظیم کے ہتھیاروں کا حال بتا دیا گیا۔

راہم خراب باشد از قہر ”سین“ ساز
از او مان یابد از حیلہ و بہانہ
ترجمہ: روس بھی چین کے قہر و غضب سے تباہ ہو جائیگا، چین سے روس مکر و فریب اور حیلہ و بہانہ سے امان حاصل کر کے جان بچائے گا۔

کاہد الف جہاں کہ یک نقطہ رونماند
الا کہ اسم و یادش باشد مؤرخانہ
ترجمہ: انگلستان اتنا تباہ ہو گا کہ اس کا ایک نقطہ بھی باقی نہ رہے گا سوائے یہ کہ اس کا نام اور تذکرہ تاریخ کی کتابوں میں باقی رہ جائے گا۔

تعزیر غیبی آید مجرم خطاب گیرد
دیگر نہ سرفرازد بر طرزِ راہبانہ
ترجمہ: یہ انہیں غیبی سزا ملی اور مجرم کا خطاب حاصل کیا لہٰذا کوئی دوسرا شخص راہبوں کی طرح سربلندی نہیں کرے گا۔

دنیا خراب کردہ باشند بے ایماناں
گیرند منزل خود فی النار دوزخانہ
ترجمہ: ان بے ایمان لوگوں نے اپنی دنیا خراب کر ڈالی، آخر کار انہوں نے اپنی منزل دوزخ میں بنا لی۔

رازے کہ گُفتہ ام من، درے کہ سُفتہ ام من
باشد برائے نصرت اسناد غائبانہ
ترجمہ: وہ راز جو کہ میں بیان کر چکا ہوں اور وہ موتی جو میں پرو چکا ہوں، یہ ایک غیبی سند ہے ۔ یہ میں نے اس لئے بیان کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ یقینا اسلام کی مدد کریں گے۔

عجلت اگر بخواہی، نصرت اگر بخواہی
کن پیروی خدا را در قول قدسیانہ
ترجمہ: اگر تو عجلت چاہتا ہے اور اللہ کی مدد چاہتا ہے تو خدا کیلئے اللہ کے نیک بندوں کے اقوال کی پیروی کر۔

اللہ تعالیٰ کی غیبی مدد اور خصوصی عنایت سے حضرت نعمت اللہ شاہ ولی اپنی مقدس پیشنگوئی کے ان آخری چند اشعار میں غیب سے پردہ ہٹاتے ہوئے دجال ، امام مہدی اور حضرت عیسیٰ کے ظہور کا بیان کر کے جب قیامت کے قریب آکر قدرت کے رازوں کو مزید آشکارا کرنے سے جب خود کو روکتے ہیں ، تو انسان کا دل خوف الہٰی سے دہلنے لگتا ہے:

تا سال بہتری از کان زھوقا آید
مہدی عروج سازد از مہد مہدیانہ
ترجمہ: یہاں تک کہ زھوقا والا بہترین سال آجائے تو امام مہدی علیہ السلام مہدیانہ ہدایت والے اپنے عروج پر آ جائیں گے۔
ناگاہ بہ موسم حج مہدی عیان باشد
ایں شہرت عیانش مشہور در جہانہ
ترجمہ: اچانک حج کے دنوں میں مہدی علیہ السلام ظاہر ہونگے۔انکی ظاہر ہونے والی یہ شہرت تمام دنیا میں مشہور ہو جائے گی۔

زیں بعد از اصفہاں دجال ہم در آید
عیسیٰ برائے قتلش آید ز آسمانہ
ترجمہ: اس کے بعد اصفہان شہر سے دجال ظاہر ہو گا۔ اس کے قتل کرنے کیلئے عیسیٰ علیہ السلام آسمان سے اُتر آئیں گے۔

خاموش باش نعمت اسرار حق مکن فاش
اے نعمت! خاموش ہو جا، رب کے رازوں کو ظاہر نہ کر۔
 

حاتم راجپوت

لائبریرین
پیشنگوئی: ابتداء تا اختتام
حضرت نعمت اللہ شاہ ولی کی پیشنگوئی کے قصیدے کے اشعار کی تعداد بعض حوالوں سے دوہزار کے قریب بتائی جاتی ہے، لیکن ہمیں ان کے قریبا ٣٥٠ اشعار دستیاب ہو سکے ہیں۔ جن میں سے ہم نے ایسے چیدہ چیدہ اشعار کو منتخب کیا کیا ہے جو ٨٥٠ سال قبل سے لے کر آج تک اور پھر مستقبل میں قرب قیامت تک انتہائی اہمیت کے تاریخی واقعات کو صاف ، واضح اور غیر مبہم الفاظ میں بیان کرتے ہیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ انہوں نے امیر تیمور کے بعد لودھی خاندان کے بادشاہ سکندر لودھی اور ابراہیم لودھی کے دور حکومت کا ذکر کیا ہے۔ اور پھر بابر سے لیکر خاندان مغلیہ کے ٣٠٠ سالہ دور حکومت کے تمام حکمرانوں کے نام اور ان کی مدت حکمرانی اپنے پیشن گوئی قصیدے کے اشعار میں ترتیب وار بیان کی ہے اس کے علاوہ انہوں نے بابر ہی کے دور میں سکھوں کے پیشوا گرونانک کا ذکر بھی کیا ہے جو ١٤٤١ء میں پیدا ہوئے اور ١٥٣٨ء میں وفات پا گئے۔ بابر کے بعد شیر شاہ سُوری کے ہاتھوں ہمایوں کی شکست اور سوری خاندان کا ذکر بھی پوری سند کے ساتھ موجود ہے۔

وہ جنگ عظیم اول کی مدت اور اس میں ایک کروڑ ٣١ لاکھ لوگوں کی ہلاکت کی پیشن گوئی کے علاوہ ٢١ سال بعد جنگ عظیم دوئم کا ذکر بھی اپنی پیشنگوئی میں٨٠٠ سال قبل کر چکے ہیں۔ تمام ہندوستان پر ١٠٠ سال کی حکومت کے بعد انگریزوں کے چلے جانے کا واقعہ الگ بیان کر چکے ہیں۔ انگریزوں ہی کے دور حکومت میں مہلک جنگی ہتھیاروں اور مشرق میں بیٹھ کر مغرب سے آنے والی آوازوں اور نغموں کو سننے کے سائنسی آلات اور ایجادات کا نصف ہزار سال قبل پیشن گوئی کرنا ایک الگ اور حیران کن کرامت ہے۔ متحدہ ہندوستان کا دو حصوں میں تقسیم ہونے کا ذکر بھی وہ قیام پاکستان سے ٨٠٠ سال پہلے کر چکے ہیں۔ وہ ستمبر ١٩٦٥ء کی پاک بھارت جنگ کا دورانیہ بھی ”ایام ہفدہ“ (سترہ دن) کے فارسی الفاظ میں بیان کر کے انسان کو انگشت بد نداں کردیتے ہیں۔ نہ صرف یہ بلکہ حضرت نعمت اللہ شاہ ولی قیام پاکستان کے ”بست و سہ ادور“ یعنی ٢٣ سال بعد دوبارہ بھارت کے ساتھ ١٩٧١ء کی جنگ میں مسلمانوں کی خونریزی اور تباہی و بربادی کی داستان المناک نہایت سوز و گداز کے ساتھ بیان کرتے ہیں۔ کیونکہ اسی ظلم و بربریت کے سائے تلے پاکستان دو لخت ہوا ۔ توفیق الہٰی سے غیب کے پردوں میں جھانکنے والے یہ ولی اللہ ماضی قریب، حال اور مستقبل میں کثیر الجہت سماجی اور معاشی برائیوں، سود، رشوت، بدعت، شراب خوری، عصمت فروشی، فسق و فجور، اغلام بازی اور مادر پدر آزاد جنسی سیاہ کاری، علماء اور مفتیان کی جہالت اور ریا کاریوں کا تذکرہ آزادنہ اور بے باکانہ طور سے کرتے ہیں۔ زمانہ حال میں مسلمانوں کے ہاتھ کام چلانے والے آدمیوں کا آنا تو ایک نیک بشارت ہے لیکن دوسری جانب قاضی یعنی جج کی لڑائی اور عدلیہ کی رشوت خوری اور پھر ”چور“ اور ”ڈاکوؤں“ کے سر پر دستار فضیلت رکھنا اور اپنے پر فریب نعروں سے عوام کو بے وقوف بنانا ، پیشن گوئی قصیدے کے ایسے پرُ معنی اور بھیانک حقائق ہیں جو آج سب کے سامنے ہیں۔

حضرت نعمت اللہ شاہ ولی کی ٨٥٠ سالہ پیشنگوئی میں اب تک ماضی اور زمانہ حال کے واقعات کے بارے جو کچھ گزرا، سو گزرا۔ لیکن اب مستقبل کے بارے میں ان کی پیشنگوئی انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔ وہ مستقبل میں ایک خلفشار کے وقت بت پرست ہندوؤں کا کلمہ گو مسلمانوں پر ظلم و جبر کا ذکر کرتے ہیں جس پر مسلمان صبر سے کام لینگے۔ اگلے مرحلے میں اعراب پہاڑوں، بیابانوں اور صحراؤں سے مدد کیلئے نکل آئیں گے۔ جبکہ چترال، نانگا پربت، چین کے ساتھ گلگت اور تبت کا علاقہ میدان جنگ بن جائے گا۔ اب حضرت نعمت اللہ شاہ ولی اپنی پراسرار پیشنگوئی میں نہایت سخت اورسنگین اور خونیں منظر پیش کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ اس دوران دریائے اٹک (دریائے سندھ) کفار کے خون سے تین مرتبہ بھر کر جاری ہو گا۔ کیا اس کا مطلب یہ ہو سکتا ہے کہ ہندوستانی فوج پاکستانی سرحد کراس کر کے آزاد کشمیر کی طرف پیش قدمی کرے گی یا قراقرم کی شاہراہ کاٹ کر کہ چین کی طرف سے پاکستان کو مدد نہ پہنچ سکے، آگے پیش قدمی کرتے ہوئے دریائے اٹک (دریائے سندھ) کے پل یا تربیلا ڈیم تک پہنچنے میں کامیاب ہو گی یا تیسری حالت یہ کہ وہ لاہور یا ماضی کی طرح سیالکوٹ کے راستے نیشنل ہائی وے پر کنٹرول حاصل کر کے دریائے اٹک تک پہنچ جائے گی!!
یہ سوال ذہن میں اس لئے ابھرتا ہے کہ کفار (اغلباً بھارتی فوج) دریائے اٹک تک پہنچے گی جبھی تو ”کفار کے خون“ سے دریائے اٹک تین مرتبہ بھر کر جاری ہو گا کہ شاید یہاں دشمن کی فوج کو سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے۔ ایسے میں غالب قیاس یہ ہے کہ بھارت کی فوجی اسٹریٹیجی یہ ہو گی کہ وہ واہگہ اور چند دیگر محاذوں پر جنگ جاری رکھنے کے علاوہ وہ دریائے اٹک (سندھ) عبور کر کے پشاور کے راستے آگے پیش قدمی کرتے ہوئے افغانستان میں داخل ہو کر شمال مغرب کی جانب کسی ایک نوآزاد جمہوری ریاست کے ذریعے روس تک رسائی حاصل کرنا چاہے گا۔ تاکہ پاکستان اور چین کے باہمی گٹھ جوڑ کی طرح وہ بھی روس کے ساتھ جغرافیائی طور پر براہ راست منسلک ہو سکے۔

پچھلے تسلسل کو برقرار رکھتے ہوئے پیشنگوئی کے اشعار کے مطابق کم و بیش انہی ایام میں کابل(افغانستان) کے لوگ ”کفار کے قتل“ کے لئے نکل آئیں گے۔ جبکہ پیشنگوئی کا ایک اگلا شعر مجاہدانہ جذبے کا نکتہ عروج ظاہر کرتا ہے :

از غازیانِ سرحد لرزد زمیں چوں مرقد
بہر حصول مقصد آیند والہانہ
ترجمہ: سرحد کے غازیوں سے زمین مرقد کی طرح لرزے گی۔ وہ مقصد کو حاصل کرنے کے لئے دیوانہ وار آئیں گے۔ (اللہ اکبر) دوسری جانب ترکی ، چین،ایران،عرب اور مشرق وسطیٰ کے مسلمان والہانہ جذبے کے ساتھ یکجا ہو کر پنجاب، شہر لاہور(جو غالبا ہاتھ سے نکل چکا ہو گا) کشمیر، دریائے گنگا اور دریائے جمنا کے درمیان دوآب کا علاقہ اور شہر بجنور پر غالبانہ قبضہ کر لیں گے۔ نہ صرف یہ بلکہ دین اور ایمان کے بدخواہ لوگ جان سے مارے جائیں گے اور تمام ہندوستان(حکومت) ہندوانہ رسم و رواج سے پاک ہو جائے گا۔ کافر مغلوب ہو جائیں گے۔ انشااللہ
اسی دوران ہندوستان کی طرح مغرب یعنی یورپ کی تقدیر بھی خراب ہو جائیگی اور تیسری جنگ عظیم شروع ہو جائے گی۔ اس میں دو الف یعنی امریکہ اور انگلستان میں ایک الف (غالباً انگلستان) روس کے حملے سے ایسا تباہ ہو جائے گا کہ اس کا ایک نقطہ بھی باقی نہ رہے گا۔ بلکہ اس کا نام اور تذکرہ صرف تاریخ کی کتابوں میں ہی باقی رہ جائے گا۔
اس پیشنگوئی میں اسلام کی تین اہم شخصیات شیر علی شاہ، عبدالحمید اور حبیب اللہ کے(قیاس کردہ) نام بھی آتے ہیں، جو شاید مستقبل میں ظاہر ہوں۔ اسکے علاوہ حضرت نعمت اللہ شاہ ولی نے ”مے بینم“ کی ردیف میں ایران کے بارے پیشنگوئی کے الف قریبا ً ١٠٥ اشعار لکھے ہیں جن میں مستقبل میں ظاہر ہونے والے بہت سے واقعات، بادشاہوں اور حکمرانوں کے نام اور ان کی مدت حکمرانی کا ذکر موجود ہے۔ لیکن فی الحال اس کتاب میں وہ اشعار شامل نہیں کئے گئے۔
یہ امر بھی بصد افسوس جاننا چاہئے کہ حضرت نعمت اللہ شاہ ولی کشمیری نے کشمیر ہی میں وصال فرمایا لیکن کسی کو ان کی قبر کے بارے کوئی مصدقہ معلومات حاصل نہیں۔ گویا کم و بیش ایک ہزار سال پر محیط اس شہرہ آفاق پیشنگوئی کرنیوالے درویش باکمال نے اپنے مرقد کی نشاندہی کے بارے کوئی پیشنگوئی نہیں کی، اس میں شاید اللہ تعالیٰ کی کوئی حکمت پوشیدہ تھی جس نے اپنے اس برگزیدہ بندے کو دنیا کی نظروں سے مخفی رکھا۔

بقول اقبالٌ: ” آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے“۔
حضرت نعمت اللہ شاہ ولیٌ کی اس منفرد پیشنگوئی کو اپنے اختتام کی طرف لے جاتے ہوئے یہ جاننا چاہیے کہ ہندوستان پر اسلام کا غلبہ ٤٠ سال تک قائم رہے گا۔
لیکن اس کے بعد جیسے ہر مسلمان قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہے، قرب قیامت کی انتہائی قریبی نشانیوں کا ظہور شروع ہو جائے گا۔ حضرت نعمت اللہ شاہ ولی کے مطابق ایران کے شہر اصفہان سے دجال لعین ظاہر ہو گا۔ اچانک حج کے دنوں میں امام مہدی علیہ السلام کا ظہور ہو گا۔ ان کے ظاہر ہونے کی شہرت دنیا بھر میں پھیل جائے گی۔ ادھر دجال لعین کو قتل کرنے کے لئے حضرت عیسیٰ علیہ السلام آسمان سے اُتر آئیں گے۔

اپنی شہرہ آفاق پیشنگوئی کے اس نازک ترین اختتامی مرحلہ پر آکر حضرت نعمت شاہ ولی اپنے آخری شعر میں رب کے رازوں کو مزید افشا کرنے سے خود کو روکتے ہوئے کہتے ہیں:

خاموش باش نعمت اسرار حق مکن فاش
ترجمہ: اے نعمت اللہ شاہ! خاموش ہو جا۔ رب کے رازوں کو ظاہر نہ کر۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ختم شد۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


نعمت اللہ نشستہ در کنجے
ہمہ را در کنار مے بینم

نعمت اللہ شاہ ایک کونے میں بیٹھا ہوا ہے۔ میں سب کچھ ایک کنارے سے دیکھ رہا ہوں۔

مؤلف و مصنف: نوابزادہ نیاز دل خان
مرتب کردہ : حاتم علی راجپوت
 
ترجمہ: دریائے اٹک (دریائے سندھ) کافروں کے خون سے تین مرتبہ بھر کر جاری ہو گا۔
تشریح: حضرت نعمت اللہ شاہ ولی کی پیشنگوئی کا ہر شعر جہاں ایک الگ باب کی حیثیت رکھتا ہے، وہاں مستقبل کے بارے ان کا یہ شعر جس میں صاف طور پر دریائے اٹک (دریائے سندھ) کا نام لے کر اسے تین مرتبہ کفار کے خون سے بھر کر جاری ہونے کی پیشنگوئی کی گئی ہے ، مسلمانوں اور کفار کے درمیان ایک انتہائی خونریز جنگ کو طاہر کرتا ہے جس میں اگلے شعر کے تناظر مین مسلمانوں کو فتح حاصل ہو گی۔لیکن اس شعر کی یہ تشریح اس وقت تک تشنہ لب ہے جب تک جغرافیائی اور واقعاتی لحاظ سے اس اہم نکتہ پر غور نہ کیا جائے کہ بھلا کفار کے خلاف مذکورہ خونریز جنگ آخر پشاور سے صرف ٤٥میل دور دریائے اٹک تک کیسے آ پہنچے گی جبکہ دریائے سندھ کے مغرب میں صرف صوبہ سرحد(پختونخواہ) ، قبائلی علاقہ، افغانستان اور چند آزاد جمہوری ریاستیں واقع ہیں جو مسلمانوں پر مشتمل ہیں۔ تو کیا اٹک کے کنارے کفار سے مزاحمت صرف یہی مغرب کی طرف سے آنے والے مسلمان کریں گے؟ دوسرا انتہائی تشویشناک اور حیرت انگیز پہلو یہ ہے کہ اگر مغرب کی طرف سے کفار کا آنا بعید از قیاس ہے تو پھرکفار دریائے اٹک تک پاکستان کے مشرق یا شمال مشرق کی جانب سے کن راستوں یا علاقوں سے گزر کر پہنچیں گے؟ کیونکہ مقامِ کارزار آخر دریائے اٹک ہی بتایا گیا ہے۔


یہ کیا ہے؟ اسکا کیا مطلب ہے؟
کیوں ان صاحب کی ان پیش گوئیوں پر اعتبار کیا جاوے؟
 

حاتم راجپوت

لائبریرین
ترجمہ: دریائے اٹک (دریائے سندھ) کافروں کے خون سے تین مرتبہ بھر کر جاری ہو گا۔
تشریح: حضرت نعمت اللہ شاہ ولی کی پیشنگوئی کا ہر شعر جہاں ایک الگ باب کی حیثیت رکھتا ہے، وہاں مستقبل کے بارے ان کا یہ شعر جس میں صاف طور پر دریائے اٹک (دریائے سندھ) کا نام لے کر اسے تین مرتبہ کفار کے خون سے بھر کر جاری ہونے کی پیشنگوئی کی گئی ہے ، مسلمانوں اور کفار کے درمیان ایک انتہائی خونریز جنگ کو طاہر کرتا ہے جس میں اگلے شعر کے تناظر مین مسلمانوں کو فتح حاصل ہو گی۔لیکن اس شعر کی یہ تشریح اس وقت تک تشنہ لب ہے جب تک جغرافیائی اور واقعاتی لحاظ سے اس اہم نکتہ پر غور نہ کیا جائے کہ بھلا کفار کے خلاف مذکورہ خونریز جنگ آخر پشاور سے صرف ٤٥میل دور دریائے اٹک تک کیسے آ پہنچے گی جبکہ دریائے سندھ کے مغرب میں صرف صوبہ سرحد(پختونخواہ) ، قبائلی علاقہ، افغانستان اور چند آزاد جمہوری ریاستیں واقع ہیں جو مسلمانوں پر مشتمل ہیں۔ تو کیا اٹک کے کنارے کفار سے مزاحمت صرف یہی مغرب کی طرف سے آنے والے مسلمان کریں گے؟ دوسرا انتہائی تشویشناک اور حیرت انگیز پہلو یہ ہے کہ اگر مغرب کی طرف سے کفار کا آنا بعید از قیاس ہے تو پھرکفار دریائے اٹک تک پاکستان کے مشرق یا شمال مشرق کی جانب سے کن راستوں یا علاقوں سے گزر کر پہنچیں گے؟ کیونکہ مقامِ کارزار آخر دریائے اٹک ہی بتایا گیا ہے۔


یہ کیا ہے؟ اسکا کیا مطلب ہے؟
کیوں ان صاحب کی ان پیش گوئیوں پر اعتبار کیا جاوے؟
کوئی بھی آپ کو اس تحریر پر ایمان لانے کو مجبور نہیں کر رہا اور ویسے بھی یہ کوئی قرآنی آیات یا حدیث تو ہے نہیں کہ اس پر اعتبار کرنا واجب ہو۔ ہاں لیکن روحانی معاملات سے آگاہی یا شوق رکھنے والے اصحاب کیلئے اس میں غور و فکر کا ساماں موجود ہے۔ اور اسوقت خطہ کی کشیدہ صورت حال کے تناظر میں یہ تحریر کئی باتوں کی وضاحت کرتی اور خبردار کرتی نظر آتی ہے۔ لیکن یہ میرا نظریہ ہے اس لئے ضروری نہیں کہ آپ کا بھی ہو۔
ہاں آپ اپنی رائے دینے کیلئے مکمل آزاد ہیں۔۔
 

حاتم راجپوت

لائبریرین
مدیرانِ گرامی کا بہت بہت شکریہ۔۔۔اس لڑی کو تاریخ اسلام کے زمرہ میں شامل کرنے کیلئے۔۔۔ اور میری تصحیح کرنے کیلئے۔۔ :)
 

فرخ

محفلین
میں اس کی زیادہ تفصیلات تو نہیں جانتا، مگر افغانستان میں جس چیز کا مطالبہ پاکستان کے متعلق زور پکڑ رہا ہے وہ ہے افغانستان کی اصل سرحد جو ڈیورنڈ لائن سے پہلے کی تھی۔ اور وہ اٹک تک کے علاقے کی ہی دکھائی جاتی ہے۔اور افغانیوں میں اس چیز کا مطالبہ موجود ہے کہ ماضی کے افغانستان کو اپنی اصلی حالت میں بحال کیا جائے۔۔ اور ظاہر ہے نتیجۃ پاکستان کے ہی ٹکڑے ہونگے۔ اور اس منصوبے کو تقویت پہنچانے والے عناصر میں نمایاں طور پر ہندوستان، امریکہ اور اسکے حواری نظر آتے ہیں۔۔۔ اس طرح کی ملتی جلتی تحاریک اس وقت بلوچستان میں بھی چل رہی ہیں۔۔۔۔
تو ممکن ہے یہ اس طرف سے پاکستان پر جنگ مسلط کی جائے اور پھر اللہ پاکستان کو فتح سے ہمکنار کرے۔۔۔
 
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
السلام علیکم
جزاک اللہ خیر
میرے نانا ہے(10 ،12 سال پہلے) وہ کبھی کبھی ہمیں یہ سناتے تھے بہت مزا آتا تھا پھر اس پر زید حامد کی ایک پوری سیریز چلی تھی جوکہ میں نے نیٹ سے محفوظ کرلیے اور پھر نانا کو بھی دیکھائے تھے یہ تقریبا
بہت مزا یا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

آبی ٹوکول

محفلین
اس بات کا کیا تحقیقی ثبوت ہے کہ مذکورہ اشعار حضرت نعمت شاہ ولی ہی کے کسی دیوان کا حقیقی حصہ ہیں یعنی میرے کہنے کا مطلب ہے کہ حضرت شاہ صاحب کہ سوانح نگاروں نے اس پر کیا لکھا ہے اور آیا وہ کوئی قلمی نسخہ ہے جو کہ بالتحقیق آج سے 800 سال قبل کا مصدقہ ہے ؟؟؟
 
Top