وہاب اعجاز خان
محفلین
24۔ سفارتی محاذ کے علاوہ بھارت نے مکتی باہنی کے ارکان کو تربیت اور اسلحہ فراہم کرکے مشرقی پاکستان میں سرگرم عملی مداخلت شروع کر دی۔ اور ان لوگوں کو مشرقی پاکستان کی سرحد سے اندر داخل کر دیا۔ کمیشن کو فراہم کردہ معلومات کے مطابق بھارت نے مارچ 1971ء سے اکتوبر 1971ء تک غنڈوںکو بڑے پیمانے پر شورش پھیلانے ، زرائع مواصلات کو تباہ کرنے اور مشرقی پاکستان کے امن پسند اور محب وطن عناصر میں خوف و دہشت پیدا کرنے کی تربیت دے کر بھیجا۔
25۔ اس کے ساتھ بھارت نے مشرقی پاکستان کے دیہات پر گولہ باری شروع کر دی۔ بینا پول (جیسر) ہلی (دینا پور)برنگ مانی( رنگ پور) کمال پور( میمن شاہی) اتگرام ، ذکی گنج اور دملائے (سہلٹ) سلاندری(کومیلا) بیلونیا( نواکھلی) اور رام گڑھ (چٹاگانگ) سے ایسے واقعات کی مصدقہ اطلاعات ملی ہیں اس گولہ باری سے نہ صرف ہمارے عالمی سرحدوں کی کھلی خلاف ورزی کی گئی بلکہ سرحدی علاقوںمیں اس حد تک خوف ہراس پھیل گیا کہ لوگ بڑے پیمانے پر بھارت ہجرت کرنے لگے۔ بھارت کے جارحیت پر مبنی ان اقدامات سے مہاجریں کی مشرقی پاکستان واپسی میں بھی رکاوٹ پیدا ہوگئی۔ حالانکہ صدر مملکت نے واپسی کے خواہش مند ایسے تمام شہریوں کے لیے عام معافی کا اعلان کیا تھا۔ جو سیاسی مشکلات کیوجہ سے ہجرت کرنے پر مجبور ہوگئے تھے۔ پس بھارت ایک طرف تو مہاجریں کے مسئلے اور بنگلہ دیش کے بحران کےسیاسی حل کے لیے اپنی آرزو مندی کا شور مچائے ہوئے تھے۔ اور دوسری طرف ان دونوں امور کی تکمیل روکنے کے لیے ہر ممکن کوشش میں لگا ہوا تھا۔
26۔ اپنے اشتعال اور مخالفانہ اقدامات کے ساتھ ایک ہی وقت میں بھارت اور مغربی پاکستان کی سرحدوں کے ساتھ اپنی افواج کو جمع کرنا شروع کرکے جان بوجھ کر دھماکہ خیز صورتحال پیدا کردی۔ بھارتی آرٹلری کی گولہ باری کے علاوہ فضائیہ نے بھی مشرقی پاکستان کی فضائی حدود کی خلاف ورزیاں شروع کر دیں جبکہ بھارتی بحریہ کی مداخلت سے چٹاگانگ ، کھلنا اور کراچی کی بندرگاہوں تک ہمارے جہازوں کی رسائی کو حقیقی خطرہ لاحق ہو گیا۔
27۔ ان نازک مہینوں میں پاکستان نے صورتحال کو پرسکون کرنے کے کئی اقدمات کیے۔ جن میں بھارت جانے والے شہریوں کے لیے عام معافی کا پہلے ہی ذکر کیا جا چکا ہے ۔ حکومت نے مہاجرین کی واپسی میں سہولت کی خاطر استقبالیہ مراکز قائم کیے اقوام متحدہ کے ہائی کمشن برائے مہاجرین کے نمائندوں کا خیر مقدم کرنے پر بھی آمادگی ظاہر کی تاکہ یہ ادارہ مہاجرین کے مسئلہ کی نوعیت اور ان کی صحیح تعداد کا اندازہ لگا سکے۔ حکومت نے کئی غیر ملکی پارلیمانی گروپوں اور صحافیوں کو سرحد کا دورہ کرنے کی اجازت دی تاکہ وہ اپنی آنکھوں سے حالات دیکھ سکیں۔ دفاعی پہلو پر حکومت نے سرحدوں کے دونوں اطراف سے افواج کی واپسی اور یہاں اقوام متحدہ کے فوجی مبصرین کی تعیناتی کی تجویز پیش کی۔ بھارت کی طرف سے انکار پر پاکستان نے یکطرفہ طور پراقوام متحدہ کے مبصرین کو سرحد کے اپنی طرف قبولکرنے کی پیشکش کی لیکن نہ تو بھارت نے یہ تجاویز قبول کیں اور نہ عالمی برادری نے انہیں منوانے کے لیے بھارت پر کوئی دباؤ ڈالا۔
28۔ جب دونوں ممالک میں کشیدگی بڑھ رہی تھی تو بھارتی وزیراعظم مسز اندرا گاندھی نے پاکستان کے خلاف اپنے جارحانہ عزائم کے متعلق حمایت حاصل کرنے کی خاطر اکتوبر نومبر 1971ء میں مغربی ممالک کا جامع دورہ کیا ۔ انہوں نے بار بار بھارت پر مشرقی پاکستان کے مہاجرین کے ناقابل برداشت معاشی بوجھ اور اخلاقی سیاسی اور معاشرتی دباؤ کا تذکرہ کیا۔ دورے سے قبل انہوں نے اپنی کابینہ کے تقریباً تمام وزراء اور دوسرے اعلی حکام کو پاکستان کے خلاف سیاسی اور معاشی حمایت کے لیے دوسرے ممالک میں روانہ کر دیا۔
25 مارچ 1971ء کو مشرقی پاکستان میں فوجی ایکشن کے آغاز سے ہی اہم بھارتی رہنما مثلا جے پی نرائین ، وزیر دفاع جگجیون رام ، وزیرسیاحت ڈاکٹر کرن سنگھ ، وزیر خزانہ وائی بی چوان اور خارجہ پالیسی ساز کمیٹی کے چیئرمین ڈاکٹر پی دھر نے آزاد بنگلہ دیش کی حمایت میں مسلسل بیانات دینے شروع کر دیئے۔ اور اس بات پر اصرار کیا کہ بھارت کے لیے صرف واحد قابل قبول حل وہی ہوگا جس کاشیخ مجیب نے مطالبہ کیا ہے۔ انہوں نے پاکستان کو کھلی جنگ کی دھمکیاں دینی شروع کر دیں سب سے پہلے بھارتی وزیراعظم نے 18 مئی 1971ء میں یہ اعلان کرکے اس بات کا اشارہ دیا کہ(بھارت پاکستان کے ساتھ لڑائی کے لیے مکمل طور پر تیار ہے)۔
13 جون کو بھارتی وزیر صنعت نے ہیگ میں کہا کہ (میرے ملک میں عوامی رائے یہ ہے کہ پاکستان کےساتھ جنگ مہاجرین کو امداد دینے سے زیادہ سستی پڑے گی۔)
25 جون کو وزیر خارجہ سورن سنگھ نے حکمران کانگریس پارٹی کے اجلاس کو بتایا کہ (اگر بنگلہ دیش کے بحران کا کوئی اطمینان بخش حل نہ نکلا تو بھارت کو اپنے طور سے کاروائی کرنا ہوگی)
9 اگست 1971ء کو بھارت روس معاہدے پر دستخط کے بعد سورن سنگھ نے لوک سبھا میں بیان دیا جس میں انہوں نے کہا ( بھارت روس معاہدہ ہمیں بنگلہ دیش میں یکطرفہ ایکشن ینے سے نہیں روکتا)۔
اس بارے میں ایک اہم بیان بھارتی وزیر محنت و بحالیات آر کے خادیکر کا ہے جب انہوں نے 22 اگست 1971ء کو اعلان کیا (بھارت روس معاہدے سے بنگلہ دیش میں آزادی کی قوتوں کو تقویت ملی ہے)
30۔ بھارتی حکومت کئی طریقوں سے صورتحال کو خراب سے خراب تر بناتی رہی۔ جب یہ پڑھنے میں آیا کہ کلکتہ میں پاکستان ہائی کمیشن کے کئی بنگالی اہلکار بنگلہ دیش کے ساتھ مل گے ہیں تو اس وقت بھارتی حکومت نے نہ صرف پاکستانی ڈپٹی ہائی کمنشر کو ان اہلکاروں سے ملنے نہ دیا بلکہ ڈپٹی کمشنر کی نقل و حرکت پر شرمناک پابندی عائد کرکے ان کا بطور سفارت کار جینا دوبھر کر دیا۔ نئی دہلی میں پاکستان ہائی کمشنر کو بھی مروجہ سفارتی مراعات اور تکریمات نہ دی گئیں ۔ تقریباً اس وقت بھارت نے علیحدگی پسند عوامی لیگ کے راہنماؤں کو کلکتہ میں نام نہاد بنگلہ دیش حکومت کرنے پر اکسایا اور جلدی میں 6 دسمبر کو یہ نام نہاد حکومت سفارتی طور پر تسلیم کر لی گئی۔
25۔ اس کے ساتھ بھارت نے مشرقی پاکستان کے دیہات پر گولہ باری شروع کر دی۔ بینا پول (جیسر) ہلی (دینا پور)برنگ مانی( رنگ پور) کمال پور( میمن شاہی) اتگرام ، ذکی گنج اور دملائے (سہلٹ) سلاندری(کومیلا) بیلونیا( نواکھلی) اور رام گڑھ (چٹاگانگ) سے ایسے واقعات کی مصدقہ اطلاعات ملی ہیں اس گولہ باری سے نہ صرف ہمارے عالمی سرحدوں کی کھلی خلاف ورزی کی گئی بلکہ سرحدی علاقوںمیں اس حد تک خوف ہراس پھیل گیا کہ لوگ بڑے پیمانے پر بھارت ہجرت کرنے لگے۔ بھارت کے جارحیت پر مبنی ان اقدامات سے مہاجریں کی مشرقی پاکستان واپسی میں بھی رکاوٹ پیدا ہوگئی۔ حالانکہ صدر مملکت نے واپسی کے خواہش مند ایسے تمام شہریوں کے لیے عام معافی کا اعلان کیا تھا۔ جو سیاسی مشکلات کیوجہ سے ہجرت کرنے پر مجبور ہوگئے تھے۔ پس بھارت ایک طرف تو مہاجریں کے مسئلے اور بنگلہ دیش کے بحران کےسیاسی حل کے لیے اپنی آرزو مندی کا شور مچائے ہوئے تھے۔ اور دوسری طرف ان دونوں امور کی تکمیل روکنے کے لیے ہر ممکن کوشش میں لگا ہوا تھا۔
26۔ اپنے اشتعال اور مخالفانہ اقدامات کے ساتھ ایک ہی وقت میں بھارت اور مغربی پاکستان کی سرحدوں کے ساتھ اپنی افواج کو جمع کرنا شروع کرکے جان بوجھ کر دھماکہ خیز صورتحال پیدا کردی۔ بھارتی آرٹلری کی گولہ باری کے علاوہ فضائیہ نے بھی مشرقی پاکستان کی فضائی حدود کی خلاف ورزیاں شروع کر دیں جبکہ بھارتی بحریہ کی مداخلت سے چٹاگانگ ، کھلنا اور کراچی کی بندرگاہوں تک ہمارے جہازوں کی رسائی کو حقیقی خطرہ لاحق ہو گیا۔
27۔ ان نازک مہینوں میں پاکستان نے صورتحال کو پرسکون کرنے کے کئی اقدمات کیے۔ جن میں بھارت جانے والے شہریوں کے لیے عام معافی کا پہلے ہی ذکر کیا جا چکا ہے ۔ حکومت نے مہاجرین کی واپسی میں سہولت کی خاطر استقبالیہ مراکز قائم کیے اقوام متحدہ کے ہائی کمشن برائے مہاجرین کے نمائندوں کا خیر مقدم کرنے پر بھی آمادگی ظاہر کی تاکہ یہ ادارہ مہاجرین کے مسئلہ کی نوعیت اور ان کی صحیح تعداد کا اندازہ لگا سکے۔ حکومت نے کئی غیر ملکی پارلیمانی گروپوں اور صحافیوں کو سرحد کا دورہ کرنے کی اجازت دی تاکہ وہ اپنی آنکھوں سے حالات دیکھ سکیں۔ دفاعی پہلو پر حکومت نے سرحدوں کے دونوں اطراف سے افواج کی واپسی اور یہاں اقوام متحدہ کے فوجی مبصرین کی تعیناتی کی تجویز پیش کی۔ بھارت کی طرف سے انکار پر پاکستان نے یکطرفہ طور پراقوام متحدہ کے مبصرین کو سرحد کے اپنی طرف قبولکرنے کی پیشکش کی لیکن نہ تو بھارت نے یہ تجاویز قبول کیں اور نہ عالمی برادری نے انہیں منوانے کے لیے بھارت پر کوئی دباؤ ڈالا۔
28۔ جب دونوں ممالک میں کشیدگی بڑھ رہی تھی تو بھارتی وزیراعظم مسز اندرا گاندھی نے پاکستان کے خلاف اپنے جارحانہ عزائم کے متعلق حمایت حاصل کرنے کی خاطر اکتوبر نومبر 1971ء میں مغربی ممالک کا جامع دورہ کیا ۔ انہوں نے بار بار بھارت پر مشرقی پاکستان کے مہاجرین کے ناقابل برداشت معاشی بوجھ اور اخلاقی سیاسی اور معاشرتی دباؤ کا تذکرہ کیا۔ دورے سے قبل انہوں نے اپنی کابینہ کے تقریباً تمام وزراء اور دوسرے اعلی حکام کو پاکستان کے خلاف سیاسی اور معاشی حمایت کے لیے دوسرے ممالک میں روانہ کر دیا۔
25 مارچ 1971ء کو مشرقی پاکستان میں فوجی ایکشن کے آغاز سے ہی اہم بھارتی رہنما مثلا جے پی نرائین ، وزیر دفاع جگجیون رام ، وزیرسیاحت ڈاکٹر کرن سنگھ ، وزیر خزانہ وائی بی چوان اور خارجہ پالیسی ساز کمیٹی کے چیئرمین ڈاکٹر پی دھر نے آزاد بنگلہ دیش کی حمایت میں مسلسل بیانات دینے شروع کر دیئے۔ اور اس بات پر اصرار کیا کہ بھارت کے لیے صرف واحد قابل قبول حل وہی ہوگا جس کاشیخ مجیب نے مطالبہ کیا ہے۔ انہوں نے پاکستان کو کھلی جنگ کی دھمکیاں دینی شروع کر دیں سب سے پہلے بھارتی وزیراعظم نے 18 مئی 1971ء میں یہ اعلان کرکے اس بات کا اشارہ دیا کہ(بھارت پاکستان کے ساتھ لڑائی کے لیے مکمل طور پر تیار ہے)۔
13 جون کو بھارتی وزیر صنعت نے ہیگ میں کہا کہ (میرے ملک میں عوامی رائے یہ ہے کہ پاکستان کےساتھ جنگ مہاجرین کو امداد دینے سے زیادہ سستی پڑے گی۔)
25 جون کو وزیر خارجہ سورن سنگھ نے حکمران کانگریس پارٹی کے اجلاس کو بتایا کہ (اگر بنگلہ دیش کے بحران کا کوئی اطمینان بخش حل نہ نکلا تو بھارت کو اپنے طور سے کاروائی کرنا ہوگی)
9 اگست 1971ء کو بھارت روس معاہدے پر دستخط کے بعد سورن سنگھ نے لوک سبھا میں بیان دیا جس میں انہوں نے کہا ( بھارت روس معاہدہ ہمیں بنگلہ دیش میں یکطرفہ ایکشن ینے سے نہیں روکتا)۔
اس بارے میں ایک اہم بیان بھارتی وزیر محنت و بحالیات آر کے خادیکر کا ہے جب انہوں نے 22 اگست 1971ء کو اعلان کیا (بھارت روس معاہدے سے بنگلہ دیش میں آزادی کی قوتوں کو تقویت ملی ہے)
30۔ بھارتی حکومت کئی طریقوں سے صورتحال کو خراب سے خراب تر بناتی رہی۔ جب یہ پڑھنے میں آیا کہ کلکتہ میں پاکستان ہائی کمیشن کے کئی بنگالی اہلکار بنگلہ دیش کے ساتھ مل گے ہیں تو اس وقت بھارتی حکومت نے نہ صرف پاکستانی ڈپٹی ہائی کمنشر کو ان اہلکاروں سے ملنے نہ دیا بلکہ ڈپٹی کمشنر کی نقل و حرکت پر شرمناک پابندی عائد کرکے ان کا بطور سفارت کار جینا دوبھر کر دیا۔ نئی دہلی میں پاکستان ہائی کمشنر کو بھی مروجہ سفارتی مراعات اور تکریمات نہ دی گئیں ۔ تقریباً اس وقت بھارت نے علیحدگی پسند عوامی لیگ کے راہنماؤں کو کلکتہ میں نام نہاد بنگلہ دیش حکومت کرنے پر اکسایا اور جلدی میں 6 دسمبر کو یہ نام نہاد حکومت سفارتی طور پر تسلیم کر لی گئی۔