وہاب اعجاز خان
محفلین
حمود الرحمٰن کمیشن رپورٹ کا متن
تعارف؛۔
(١) حکومت پاکستان نے وزارتِ صدارتی امور کے نوٹیفیکشن نمبر ایس آر او(١) 71مورخہ 26دسمبر1971کے ذریعے اس انکوائری کمشن کو قائم کرتے ہوئے اس کے ذمہ یہ فرائض سونپے تھے کہ وہ ان حالات کی تحقیقات کرے، جن کے تحت کمانڈر، ایسٹرن کمانڈ اور ان کے زیر کمان پاکستان کی مسلح افواج نے دشمن کی فوجوں کے سامنے ہتھیار ڈالے، بھارت اور مغربی پاکستان کی سرحدوں پر جنگ بندی کے احکامات صادر کیے گئے نیز جموں اور کشمیر کی سیز فائر لائن پر بھی جنگ بندی کا حکم دیاگیا
(٢) پاکستان کمیشن آف انکوائری ایکٹ مجریہ1956ء کے تحت قائم ہونے والا یہ کشمن درج ذیل افراد پر مشتمل تھا؛۔
١) مسٹر جسٹس حمود الرحمٰن (ہلال پاکستان) چیف جسٹس، سپریم کورٹ آف پاکستان، بحیثیت صدر۔
٢) مسٹر جسٹس انور الحق ، چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ بحیثیت رکن۔
٣) مسٹر جسٹس طفیل علی عبدالرحمن چیف جسٹس سندھ بلوچستان ہائیکورٹ بحیثیت رکن
کمشن کی سفارشات پر لیفٹنٹ جنرل الطاف قادر( ریٹائرڈ) کو بحیثیت ملٹری ایڈوائزر اور اسسٹنٹ رجسٹرار سپریم کورٹ آف پاکستان، مسٹر ایم اے لطیف کو بحیثیت سیکرٹری مقرر کیا گیا۔
٣) وزارت صدارتی امور کی جانب سے جاری کیے گئے نوٹیفیکشن میں درج ذیل ہدایات بھی شامل تھیں؛۔
١) کمیشن اپنے طریقہء عمل کے مطابق کام کرے گا اور اس کے تمام کاروائی خفیہ رکھی جائے گی۔
٢) کمشن کو اپنی کاروائی کے دوران تنیوں مسلح افواج کے نمائندوں کی معاونت حاصل رہے گی۔ اس کے علاوہ حکومت پاکستان کے ہر فرد کا یہ فرض ہوگا کہ وہ کمشن کو جب کبھی ضرورت پڑے مطلوبہ تعاون فراہم کرے گا۔
٣) کمشن اپنی طے کردہ تاریخ اور مقام پر تحقیقات کا آغاز کرے گا اور تین ماہ کی مدت کے اندر تحقیقات مکمل کرنے کے بعداپنی مکمل رپورٹ صدر کو پیش کردے گا۔
٤) کمشن کا ایک غیر رسمی اجلاس31دسمبر1971ء کو لاہور میں منعقد ہوا تاکہ تحقیقات کے دائرہ کار اور دیگر ضروری امور و معاملات کا تعین کیا جاسکے۔ اس اجلاس میں کمشن کے طریقہ کار اور رہنما خطوط بھی طے کیے گئے۔ انتظامی اور مالیاتی امورو مسائل پر بھی غور کیا گیا اور ایک تفصیلی خط وزارت انتظامی امور کو ارسال کیا گیا تاکہ ضروری ساز و سامان، مطلوبہ اسٹاف اور رقم کمیشن کو کام شروع کرنے سے قبل فراہم کی جاسکے۔ یہ فیصلہ بھی کیا گیا کہ روالپنڈی میں یہ تحقیقات کی جائیں تاکہ کمیشن کو جنرل ہیڈ کوارٹر اور دیگر وزارتوں سے مطلوبہ ریکارڈ بآسانی دستیاب ہوسکے۔
٥) چونکہ اس انکوائری کمشن کی تمام تر کاروائی خفیہ رکھی جانی تھی جس کا کوئی سابقہ تجربہ موجود نہ تھا چنانچہ سوال یہ پیدا ہوا کہ اسے کس طرح شروع کیا جائے؟ فیصلہ یہ کیا گیا کہ اس سلسلے میں پہلے عوام کی رائے معلوم کی جائے۔ یکم جنوری 1972ء کو ایک پریس ریلیز کے ذریعے عوام اور مسلح افواج سے درخواست کی گئی کہ وہ 10جنوری 1972ء تک کشمن کے موضوع کے حوالے سے وہ تمام تر متعلقہ معلومات اور اطلاعات فراہم کریں جو ان کے علم میں ہیں۔
٦) اس کے علاوہ کشمن نے ان تمام افراد کو جو اس واقعے کے رونما ہونے کے ذمے داریوں پر فائز تھے خطوط اور سوال نامے ارسال کیے تاکہ وہ اس سلسلے میں پوری تفصیل اوروضاحت کے ساتھ اپنے خیالات کا اظہار کرسکیں۔ مطلوبہ کاغذات معلومات اور دستاویزات کی ایک فہرست بھی مرکزی حکومت کی متعدد وزارتوں کے سیکرٹریوں کو روانہ کی گئی۔ ان اقدامات کا بڑا مثبت اور حوصلہ افزا جواب موصول ہوا اور جلد ہی بہت بڑی پیمانے پر کمشن سے مختلف رابطوں کا آغاز ہوگیا۔
٧) 20 جنوری1972ء کو کمشن نے ملک کی سترہ مختلف سیاسی جماعتوں کے سربراہوں کو خطوط ارسال کیے جن میں ان سے درخواست کی گئی تھی کہ وہ تحقیقاتی کمشن کوزیر غور معاملات کے حوالے سے اپنے خیالات ، نظریات اور رائے سے آگاہ کریں۔ ان سے یہ بھی پوچھا گیا تھاکہ وہ ذاتی طور پر یا کسی نمائندے کے زریعے اس کمشن کے روبرو پیش ہو کر شہادت دے سکتے ہیں؟ اس سلسلے میں کافی حد تک تسلی بخش اور مثبت جواب حاصل ہوئے۔ چند سیاسی نمائندے کے ذریعے اس کمشن کے روبرو پیش ہو کر شہادت دے سکتے ہیں؟ اس سلسلے میں کافی حد تک تسلی بخش اورمثبت جواب حاصل ہوئے۔ چند سیاسی رہنماؤں نے کشمن کو آگاہ کیا کہ چونکہ انکوائری کا دائرہ کار محض فوجی پہلوؤں تک ہی محدود رہے گااور تمام تر کاروائی خفیہ طور پر مکمل کی جائے گی لٰہذا وہ کمشن کی معاونت سے معذور ہیں۔ تاہم انہیں بتایا گیا کہ کشمن کےدائرہ کار کو اس قدر محدود بھی نہیں رکھا جائے گا کہ ان دیگر تمام پہلوؤں کو سرے سے نظر انداز اور خارج کر دیا جائے جو کسی نہ کسی طرح اس انکوائری کمشن پر اثر انداز ہوسکتے ہیں۔ یہ وضاحت سننے کے بعد وہ معاملے کے سیاسی پہلوؤں پر اس کمشن سے ضروری تعاون پررضامند ہوگئے۔ جس کے نتیجے میں 23 سیاسی رہنماؤں نے اپنی قیمتی آرا سے اس کمشن کو مستفید کیا۔
٨) اسی اثناء میں کمشن کے علم میں یہ بات آئی کی دفاعی افواج سے تعلق رکھنے والے بیشتر افسران کمشن کےروبرو پیش ہو کر شہادتیں فراہم کرنا چاہتے ہیں لیکن انہیں خدشہ ہے کہ ایسا کرنے پر انہیں انتقام کا نشانہ بنایا جائے گا۔ چنانچہ کمشن نے صدر پاکستان سے رجوع کرتے ہوئے ان سے درخواست کی کہ وہ اس امر کی عوامی سطح پر ضمانت دیں کی کمشن کے روبر شہادت دینے والے کسی بھی فرد کو اس سلسلے میں انتقام کا نشانہ نہیں بنایا جائے گا۔ 11جنوری1972ء کے اخبارات میں یہ سرکاری اعلان شائع کر دیا گیا کہ کشمن کی تمام تر کاروائی مکمل طور پر خفیہ رکھی جائے گی اور اس کے روبرو پیش کیے جانے والے تمام بیانات اور گواہوں کو مناسب تحفظ فراہم کرتے ہوئے اس بات کو یقینی بنایا جائے گا کہ ایسے افراد کو کسی قسم کی دیوانی یا فوجداری مقدمات کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ تاوقتیکہ ایسے بیانات یا شہادتیں، جھوٹی اور غلط ثابت نہ ہوں۔
٩) کمشن کی سفارش پر جنرل ہیڈ کوارٹر نے بھی ایک سرکلر کے ذریعے فوجی اہلکاروں کو مطلع کردیا کہ وہ رضاکارانہ طور پر تحریری بیانات کے ذریعے یا ذاتی طور پر پیش ہو کر کمشن کے روبرو شہادت دے سکتے ہیں تاہم بعد میں کمشن نے اس سرکلر کو ناکافی سمجھتے ہوئے مسلح افواج کے سربراہان سے درخواست کی کہ وہ ایسے خطوط جاری کردیں جن میں اس بات کی مکمل ضمانت فراہم کی گئی ہو کہ دفاعی اہلکاروں کو کمشن کے روبرو پیش ہو کر بیان یا شہادت دینے کے عوص کسی صورت بھی انتقام کا نشانہ بنائے جانے کا خدشہ محسوس نہ ہو چنانچہ مسلح افواج کے سربراہوں کی جانب سے باقاعدہ یقین دہانی کے بعد دفاعی اور فوجی اہلکاروں نے پہلے کے مقالبے میں نسبتاَ َ زیادہ آزادی کے ساتھ کمشن کو اپنی معلومات سے آگاہ کرنا شروع کردیا۔ بعدازاں، گواہوں پر جرح کے دوران یا اس کے بعد ایسی کوئی شکایت موصول نہیں ہوئی کہ کسی بھی اہلکار کو انتقام کا نشانہ بنایا گیاہو۔ ماسوائے ایک نیول آفیسر کی مبینہ شکایت کے جس کی تحقیق نیوی کے حکام کررہے تھے۔ کمشن نے بالخصوص اس بات کا خیال رکھا ہے کہ اس سے تعاون کرنے والے کسی بھی فرد کو ہرگز کوئی نقصان نہ پہنچنے پائے۔
١٠) 15جنوری 1972ء کو کمشن نے اپنے ملٹری ایڈوائزر کے ہمراہ قصور کے حسینی والا سیکٹر کا دورہ کیا اور کور اور ڈویژنل ہیڈ کوارٹرز سے بات چیت کی۔ اس کے علاہو محاذ جنگ پر موجود جوانوں سے بھی ملاقات کی جو اپنی اپنی پوزیشنیں سنبھالے ہوئے تھے تاکہ یہ دیکھا جاسکے کہ جنگ کے دوران فوجی آپریشن کیسے کیا جاتا ہے؟ کمشن دیگر سیکٹرز کا دورہ بھی کرنا چاہتا تھا تاہم وقت کی کمی کے باعث ایسا ممکن نہ ہوسکا۔
١١) وزارت صدارتی امور نے اپنے 12 جنوری 1972ء کے خط میں راولپنڈی میں کیے گئے کمشن کے بیٹھنے کے انتظامات سے مطلع کیا۔ دفتری جگہ اور دیگر سازوسامان نیشنل ڈیفنس کالج میں فراہم کیا گیا تھا جہاں اسٹاف اور ٹرانسپورٹ کی سہولتیں بھی موجود تھیں۔ وزارت خزانہ اب تک بجٹ تجاویز پر غور کرنے میں مشغول تھی تاہم امید تھی کی کچھ رقم بہت جلد فراہم کردی جائے گی۔
١٢) 12جنوری1972ء کو کمشن کی معاونت کرنے والے مسلح افواج کے تینوں نمائندوں کے ناموں سے مطلع کیا گیا جو یہ تھے۔
i) ائیر کموڈور ظفر محمود (پاکستان ائیر فورس)
ii)کرنل صابر حسین قریشی(آرمی)
iii) کپٹن اے ولی اللہ (نیوی)
کمشن نے دیگر رسمی کاروائیوں کی تکمیل سے قبل ہی یہ فیصلہ کر لیا کہ17 جنوری1972کو روالپنڈی پہنچ کر بلا کسی مزید تاخیر کے اپنے دفاتر کی تنظیم کا عمل شروع کردیاجائے ۔
١٣) 17جنوری1972ء کو کمشن کا پہلا اجلاس راولپنڈی میں ہوا۔ اس وقت تک تین سو پچاس سے زائد افراد سے جن کا تعلق زندگی کے مختلف شعبوں سے تھا اس کشمن کو مختلف نوعیت کی معلومات اور اطلاعات فراہم ہو چکی تھیں۔ ان تمام کی ضروری جانچ پڑتال کی گئی تاکہ ان گواہوں کا ابتدائی انتخاب کیا جاسکے۔ جنہیں اس کمشن کے روبر طلب کیا جائے گا۔ وہ افراد جن کے بیانات محض افواہوں پر مبنی تھے جن کا ذریعہ اخباری رپورٹیں تھیں انہیں طلب نہیں کیا گیا، تاہم اس نوعیت کی اطلاعات مزید تحقیق اور جانچ پڑتال کی غرض سے متعلقہ وزارت کو ارسال کردی گئیں۔ اس سلسلے میں سیکرٹری دفاع اور اس وقت کے قائم مقام آرمی کمانڈر انچیف سے طریقہء کار سے متعلقہ امور کے حوالے سے ضروری صلاح مشورہ بھی کیا گیا۔
١٤) کمشن کی کاروائی کے آغاز سے قبل صحافیوں کی درخواست پر کمشن کے سربراہ نے ایک پریس کانفرس سے خطاب کیا جس کے دوران انہوں نے ایک مرتبہ بھی اس امر کی یقین دہانی کرائی کہ ایسے تمام گواہان جو کمشن کے روبرو شہادت دیں گے انہیں آفیشل سیکریٹ ایکٹ سے مستثنی سمجھا جائے گا اور انہیں انتقام یا خوف و ہراس کا نشانہ نہیں بنایا جائے گا۔ صحافیوں کے سوالات کے جواب میں کمشن کے سربراہ نے جو کچھ کہا ان میں سے چند نکات ذیل میں درج کیے جاتے ہیں؛
الف) کمشن کو پورا اختیار حاصل ہے کہ وہ سابق صدر اور چیف آف آرمی اسٹاف سمیت پاکستان کے کسی بھی شہری کو معلومات حاصل کرنے کے کی غرض سے طلب کرسکتا ہے۔ ضرورت پیش آنے پر کمشن کسی بھی فرد کی حاضری کو یقینی بنانے کے لیے وارنٹ بھی جاری کرسکتا ہے۔ تاوقتیکہ قانون اسے ذاتی طور پر کمشن کے روبرو حاضری سے مستثنی قرار نہ دے۔
ب) چندافسران جو مشرقی پاکستان سے فرار ہوکر یہاں پہنچ چکے تھے، ہتھیار ڈالے جانے کے مروجہ حالات و واقعات کے بارے میں شہادتیں دینے کےلیے دستیاب ہیں۔ اگر ان کے بیانات اور شہادتیں تسلی بخش نہ پائی گئیں تو ایسی صورت میں کمشن حکومت سے کہے گا کہ وہ بھارت سے جنگی قیدیوں کا تبادلہ ہونے تک کمشن کو دیے گئے وقت کی معیاد بڑھا دے۔
ج) کمشن کی کاروائی کو خفیہ رکھنا قومی مفاد کے عین مطابق ہے کیونکہ کمشن کے روبر و پیش کی جانے والی تمام اطلاعات و معلومات نہایت حساس نوعیت کی ہوں گی جنہیں اس وقت عام کرنا ، شائع کرنا یا نشر کرنا ممکن نہیں ہوگا۔ جب کہ مغربی سرحدوں پر بھارت اور پاکستان کی فوجیں ایک دوسرے کے مدمقابل کھڑی ہوئی ہیں، تاہم یہ کمشن وقتاَ َ فوقتاَ َ عوام کی اطلاع کے لیے اپنی سرگرمیوں کے بارے میں مختصر ہینڈ آؤٹ جاری کرتا رہے گا۔
د) ضرورت پڑنے پر یہ کمشن مسلح افواج کے تکنیکی ماہرین کی خدمات سے بھی ضروری استفادہ کرتا رہے گا۔ تاکہ وہ ان امور کے سلسلے میں کمشن کی معاونت کر سکیں تاہم وہ کسی بھی صورت میں کمشن کے فیصلوں پر اثر انداز ہونے کے مجاز نہیں ہوں گے۔
١٥) 25جنوری1972ء کو عید کی تعطیلات شروع ہونے سے قبل یہ کمشن ان تمام دستیاب مواد کو ضروری جانچ پڑتال کرنے کے بعد ان افراد کا انتخاب کرچکا تھا جنہیں اس کے روبرو پیش ہونا تھا۔ اس کے علاوہ ایک بے حد اہم شخصیت کی شہادت بھی ریکارڈ کر لی گئی تھی جو 24دسمبر1972کو روالپنڈی میں موجودتھی۔ مسلسل دو دنوں تک اس کمشن نے جنرل ہیڈ کوارٹر کا بھی دورہ کیا تھا تاکہ وہ اس کے مختلف شعبہ جات اور ان کی کارگردگی سے آگاہی حاصل کر سکے۔ کمشن نے ائر آپریشن سنٹر کا بھی دورہ کیا۔ تینوں مسلح افواج کے نمائندوں نے نقشہ جات چارٹ اور تقاریر کی مدد سے کمشن کو بریفنگ بھی دی۔ اس موقع پر مشرقی پاکستان میں پیش آنے والے واقعات کے بارے میں ایک دستاویزی فلم بھی اس کمشن کو دکھائی گئی۔
١٦) 31جنوری میں کمشن نے دوبارہ اپنی کاروائی شروع کی اور اس وقت سے اب تک مسلسل کام میں مصروف رہا ماسوائے ان مختصر وقفوں کے جب کمشن کے سربراہ یا کسی اور رکن کو اپنی دیگر ذمے داریوں کے سلسلے میں کوئی مصروفیت درپیش ہوئی ہو۔ 17مارچ سے 26 مارچ تک کمشن کو اپنی کاروائی ملتوی کرنا پڑی کیوں کہ کمشن کے سربراہ کو ایک اہم مقدمے کی سماعت کے سلسلے میں لاہور سپریم کورٹ بینچ میں بیٹھنا تھا۔ علاوہ دیگر اراکین کو بھی اپنے اپنے متعلقہ دفاتر کی فوری نوعیت کی ذمے داریوں کو نمٹانا تھا۔ کمشن کے اس قدر پھیلے ہوئے کام سےعہدہ برآ ہونے کے لیے بڑی یکسوئی کو بھی اپنے اپنے متعلقہ دفاتر کی فوری نوعیت کی ذمے داریوں کو نمٹانا تھا۔ کمشن کے اس قدر پھیلے ہوئے کام سے عہدہ برآ ہونے کے لیے بڑی یکسوئی اور کامل توجہ کی ضرورت تھی جبکہ کمشن کے سربراہ اور دیگر اراکین کو اپنے متعلقہ دفاتر کے اضافی اُمور بھی دیکھنے پڑتے تھے تاہم کام کی تکمیل کےپروگرام اور کشمن کے روبرو موجود تمامتر مواد کا مکمل طور پر احاطہ کرنے کی غرض سے مخصوص اوقاتِ کار کے علاوہ بھی کام کرنا پڑا یہاں تک کہ اتوار اور عام تعطیلات کے دوران بھی کشمن برابر کام کرتارہا اس کے باوجود بھی یہ کام تین ماہ کی مدت میں مکمل نہ ہوسکا۔ اپریل کے شروع میں اٹارنی جنرل نے کشمن کو مطلع کیا کہ وہ حکومت کی جانب سے شہادتیں پیش کرنا چاہتے ہیں اس کے علاوہ چند اہم گواہوں کے بیانات کی جانچ پڑتا بھی باقی تھی چنانچہ صدر پاکستان سے درخواست کرنا پڑی کہ وہ مقرر کردہ معیاد کو 31 مئی1972ء تک بڑھا دیں۔ جس کی انہوں نے اجازت دے دی۔ مئی 1972ء کے پہلے ہفتے میں کمشن کے سربراہ کو امریکا جاناپڑا جہاں انہیں اقوام متحدہ کی ایک کمیٹی کے اجلاس میں شریک ہونا تھا۔ 5مئی سے21مئی تک اُن کی عدم موجودگی کےدوران انکوائری کمشن کی رپورٹ کی تکمیل کے لیے ان کا انتظار کرنا ضروری تھا اور جب 22مئی 1972ء کو واپسی کے بعد انہوں نے رپورٹ کی تکمیل کا جائزہ لیا تو پتہ چلا کہ 31 مئی تک بھی اُسے تیار کرنا ممکن نہیں چنانچہ ایک بار پھر صدر پاکستان سے درخواست کردہ تاریخ میں ایک مہینے کا اضافہ کردیا گیا!
١٧) کمشن نے شہادتوں کی قلم بندی کا کام یکم فروری 1972ء سے شروع کیا تھا جو26 اپریل 1972ء بیانات کی ضروری جانچ پڑتال اور معائنے کی غرض سے کمشن کو مجموعی طور پر (٥٧) مرتبہ بیٹھنا پڑا یعنی کل ملا کر کمشن نے 213 افراد کے بیانات قلم بند کیے جن کی درجہ وار تفصیل مندرجہ ذیل ہے؛
1) آرمی
i)ملازم اہلکار۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔61
ii) ریٹائرڈ اہلکار۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔27
2) ائیر فورس
i) ملازم اہلکار۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔39
ii) ریٹائرڈ اہلکار۔۔۔۔۔۔۔۔6
3) نیوی؛
i) ملازم اہلکار۔۔۔۔۔۔۔۔14
ii)ریٹائرڈ اہلکار۔۔۔۔۔۔۔7
4) سیاسی لیڈر۔۔۔۔۔۔۔۔۔23
5) سول ملازمین؛
i)ملازم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔17
ii) ریٹائرڈ۔۔۔۔۔۔۔۔۔6
6) صحافی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔3
7) عوامی نمائندے۔۔۔۔۔۔۔۔۔10
١٨) ان گواہوں کے بیانات چار ہزار صفحات پر ٹائپ کیے گئے جب کہ ان بیانات کے سلسلے میں پیش کی جانے والی تین سو چوہتر دستاویزات بھی تقریبا اتنی ہی تعداد میں ٹائپ کی گئی ہیں۔ اس کے علاوہ کمشن کے مختلف محکمہ جات اور شعبوں کے اُن کاغذات اور دستاویزات کی بھی ضروری جانچ پڑتال کرنا پڑی جو اس سلسلے میں اس کے روبر پیش کیے گئے تھے۔ کمشن نے متعدد سرکاری ایجنیسیوں سے بہت بڑی تعداد میں ایسی رپورٹس حاصل کیں جن کا تعلق زیر غور اُمور و معاملات کے مختلف پہلوؤں سے تھا۔ اسی کے ساتھ ساتھ کمشن کی معلومات کے لیے کچھ تجزیاتی مطالعے بھی مرتب کیے گئے۔ کمشن نے ایسے امور اور معاملات کی پولیس کے ذرائع سے تحقیقات کی ہدایات بھی جاری کیں جو گواہوں کے بیانات کی جانچ پڑتا ل اور معائنے کے درران اُس کے علم میں آئے تھے۔ کاروائی کے آخری مراحل تک عوام کی جانت سے تجاویز اور مشورے بھی موصول ہوتے رہے جن کی تعداد ایک ہزار سے تجاوز کرگئی تھی۔ کمشن نے بذاتِ خود تمام گواہوں کے بیانات کی جانچ پڑتال اور جرح کے فرائض ادا کیے۔
١٩) 21جنوری1972ء کو کمشن نے وزارتِ صدارتی امور کو ایک خط ارسال کیا جس کے ذریعے یہ معلوم کیا گیا تھا کہ حکومت اس کشمن کے روبرو اپنی نمائندگی کی خواہش مند ہے یا اس سلسلے میں کوئی خاص نقطہ نظر یا کوئی گواہ پیش کرنا چاہتی ہے؟ وزارت نے کمشن کو مطلع کیا کہ مسٹر یحٰیی بختیار اٹارنی جنرل حکومت پاکستان حکومت کی نمائندگی کریں گے اور ضروری دستاویزات اور گواہان کو پیش کرتے ہوئے کمشن کی معاونت کریں گے۔ جبکہ صدر پاکستان کے اسپیشل اسسٹنٹ مستر رفیع رضا ایسے بیانات داخل کریں گے جو اُن کے علم میں موجود حقائق و واقعات پر مشتمل ہوں گے جن میں وہ موجودہ صدر کے 20دسمبر 1971ء کو اقتدار سنبھالنے سے پہلے کے خیالات اور آراء بھی پیش کریں گے۔ اس سلسلے میں اٹارنی جنرل یحٰیی بختیار اور مسٹر رفیع رضا نے کمشن سے چند ملاقاتیں بھی کیں۔ بعد میں مسٹر رفیع رضا رسمی طور پر ایک گواہ کی حیثیت سے کمشن کے روبرو پیش ہوئے تاکہ پیپلز پارٹی کے سرکاری موقف اور نقطہ نظر کی ترجمانی کرسکیں۔ چند گواہوں کے دوران اٹارنی جنرل خود بھی تھے اور اُنہوں نے کچھ گواہاں پر خود بھی جرح کی تاہم انہوں نے حکومت کی جانت سے کسی قسم کی شہادت پیش نہیں کی۔
٢٠) آرمی ائیر فورس اور نیوی کے اُن متعدد افسران کے بیانات کی جانچ پڑتال کے بعد جو ہتھیار ڈالنے سے کچھ قبل یا بعد مشرقی پاکستانی سے واپس آئے تھے کمشن نے محسوس کیا کہ مشرقی کمان کے افسران سے مناسب انصاف کا اولین تقاضا یہ ہے کہ کلیدی عہدوں پر فائز اُن افسروں کے بیانات اور شہادتین بھی قلم بند کی جانی چاہئیں جو بھارت کی جنگی قید میں تھے۔ چنانچہ اس خیال کے مدِ نظر حکومت سے معلوم کیا گیا کہ کیا ایسا ممکن ہے کہ انٹر نیشنل ریڈ کراس کے توسط سے ضروری اقدامات کرتے ہوئے پاکستانی فوجی افسران کے بیانات کمشن کے لیے حاصل کیے جاسکیں۔ جن میں سے چند یہ تھے!
١) لفٹننٹ جنرل اے اے کے نیازی
٢) مجیر جنرل راؤ فرمان علی
٣) رئیر ایڈ مرل ایم شریف
٤) ائیر کموڈور انعام الحق
آرمی کے دو لفٹننٹ کرنل اور نیوی کے دو کمانڈوروں نے جو اُس وقت جنگی قیدی کی حیثیت سے بھارت میں تھے ۔ اس کمشن کو تحریری پیغامات ارسال کرتے ہوئے یہ دراخواست کی کہ جنگی قیدیوں کے تبادلے تک انکوائری کمشن کی کاروائی مکمل نہ کی جائے کیوں کہ ان کے بیانات اور گواہیاں بھی قلم بند کی جانی بہت ضروری ہیں۔ ایک لفٹننٹ کرنل نے اس کمشن کو اپنے پیغام کے ذریعے مطلع کیا کہ اُن کے پاس بتانے کے لیے بہت کچھ ہے جو اس کمشن کو ایک مصنفانہ فیصلے تک پہنچنے میں کافی مدد دے گا!۔ انہوں نے ساتھ ہی یہ درخواست بھی کی کہ کسی سرحدی چوکی پر اُن کی شہادتیں قلم بند کرنے کا انتظام کیاجائے۔ یہ تمام پیغامات حکومت کو ارسال کر دئیے گئے جس کے جواب میں وزارتِ صدارتی امور نے کہا کہ حکومت نے اس پورے معاملے کا بڑے غور سے جائزہ لیا ہے تاہم انٹرنشنل ریڈ کراس کے ذریعے اس قسم کے بیانات اور شہادتوں کو فی الحال قلم بند کرنا ممکن نہیں ہے۔ یہ دونوں خطوط رپورٹ کے اس باب سے منسلکہ ہیں۔
٢١) کمشن کو حکومت کی جانب سے ہر ممکن تعاون اور مدد فراہم کی گئی اور اس کی تمام ضروریات اور مطالبات کو وزارتِ صدارتی اُمور اور دیگر سرکاری محکموں کی جانب سے فوری طور پر نہایت مستعدی کے ساتھ پورا کردیا گیا ۔ کمشن کو نیشنل ڈیفنس کالج راولپنڈی سے بھی ضرورت کے مطابق ہر ممکن تعاون فراہم کیا گیا جس کے احاطے میں کمشن کے دفاتر قائم تھے
٢٢) یہ کمشن اُن تمام افراد اور اداروں کا شکر گزار ہے جنہوں نے اس مشکل کام کی تکمیل میں اسے ہر ممکن تعاون اور امداد فراہم کی اس سلسلے میں کمشن خصوصی طور پر لفٹننٹ جنرل (ریٹائرڈ) الطاف قادری، ملٹری ایڈوائزر اور تینوں مسلح افواج کے نمائندوں کا ممنون ہے جنہوں نے مشنری جذبے سے کام لیتے ہوئے اس کمشن سے ضروری تعاون کیا۔ ان حضرات نے انکوائری کے فوجی پہلوؤں سے نہ صرف قابلِ قدر امداد فراہم کی بلکہ اطلاعات اور اسٹاف اسٹڈیز کی ترتیب میں بھی اس کمشن کا ہاتھ بٹایا۔
ہم ائیر مارشل (ریٹائرڈ) نور خان اور وائس ایڈمرل ( ریٹائرڈ) ایک ایم ایس چوہدری کے بھی بطورِ خاص ممنون اور شکر گزار ہیں کہ انہوں نے ائیر فورس اور نیوی کے امور و معاملات پر ہمیں اپنی ماہرانہ رائے اور مشوروں سے نوازا۔
٢٣) کمشن اُس تعاون کے لیے بھی ممنون ہے جو اسے اپنے تمام دفتری اسٹاف کی جانت سے سیکرٹری ایم اے لطیف کی سربراہی میں فراہم کیا گیا۔ اس کے علاوہ نیشنل ڈیفنس کالج کی جانب سے ہمیں فراہم کیے گئے وہ تمام اسٹینو گرافراز اور ٹائپسٹ حضرات بھی کمشن کے شکریے کے مستحق ہیں جنہوں نے ان تھک محنت کا ثبوت دیا۔
باب دوم
١) لفٹننٹ جنرل امیر عبداللہ خان نیازی نے شیخی بگھارتے ہوئے یہ اعلان کیا تھا کہ بھارتی افواج اُن کی لاش پر سے گزر کر ہی ڈھاکا میں داخل ہو سکتی ہے۔ اس اعلان کے دوسرے ہی دن پوری قوم غیر ملکی ذرائع ابلاغ سے یہ وحشت ناک خبر سن کر سکتے میں آگئی کہ انہوں نے نہایت ذلت آمیز طریقے سے شرم ناک انداز میں 16دسمبر1971ء کو ڈھاکا ریس کورس کی ایک تقریب میں دشمن افواج کے سامنے ہتھیار ڈالتے ہوئے شکست تسلیم کرلی! اُسی شام پاکستانی افواج کے اُس وقت کے کمانڈر انچیف اور خود ساختہ صدر پاکستان نے قوم کے نام اپنے ایک نشری پیغام میں اس ذلت آمیز شکست کو محض ایک خطے میں جنگ ہارنے سے تعبیر کرتے ہوئے اس عزم کا اعادہ کیا کہ مغربی محاذ پر یہ جنگ جاری رہے گی! ایک مرتبہ پھر قوم کو ایک شدید دھچکے کا اس وقت سامنا کرنا پڑا جب اس اعلان عزم کے دوسرے ہی دن انہوں نے قلابازی کھائی اور اعتراف شکست کرتے ہوئے بھارتی وزیراعظم کی جانب سے یک طرفہ طور پر جنگ بندی کو تسلیم کرلیا اور وہ بھی ایک ایسے مرحلے پر جب سرکاری اخباری رپورٹس کے مطابق مغربی محاذ پر پاکستانی افواج ہر سمت میں پیش قدمی کرتے ہوئے دشمن کے علاقے میں برابر آگے بڑھ رہی تھی اور انہیں بہت کم جانی نقصان برداشت کرنا پڑا تھا۔ پوری قوم ان واقعات پر شدید احساس زیاں سے دوچار تھی اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ اس شرم ناک انداز میں شکست تسلیم کرتے ہوئے بھارتی افواج کے سامنے ہتھیار کیوں ڈالے گئے اور جنگ بندی کی پیش کش کو تسلیم کرنے میں اس قدر عجلت کا مظاہرہ آخر کس لیے کیاگیا؟ ان تمام واقعات نے اس وقت کی فوجی حکومت کے حوالے سے قوم کے ذہن میں ان شکوک و شبہات کو جنم دیا کہ یہ سب کچھ قوم اور وطن کو سوچے سمجھے منصوبے کے مطابق بے آبرو اور تباہ کرنے کی ایک مجرمانہ سازش تھی چنانچہ انہوں نے اس شکست کے ذمے داروں پر سر عام مقدمہ چلا کر انہیں قرار واقعی سزادینے کا مطالبہ کر دیا۔ اس احتجاج نے اتنی شدت اختیار کرلی کہ اس وقت کے ڈپٹی پرائم منسٹر، مسٹر ذوالفقار علی بھٹو کو بڑی عجلت میں نیوریاک سے واپس آنے کے لیے کہا گیا جہاں وہ سیکورٹی کونسل میں پاکستان وفد کی قیادت کررہے تھے اور 20دسمبر1971ء کو جنرل آغا محمد یحیٰی خان نے انہیں اقتدار منتقل کردیا۔
٢) ان حالات کے پس منظر میں موجودہ صدر نے برسر اقتدار آنے کے بعد فوراَ َ بعد اس کمیشن کا تقرر کیا جس کا دائرہ کار میں (26 دسمبر 1971ء کے صدارتی نوٹیفکیشن کے مطابق) اس امر کی تحقیقات کرنا شامل تھا کہ کن حالات میں کمانڈر، ایسٹرن کمانڈ اور پاکستان کی مسلح افواج نے دشمن کے سامنے ہتھیار ڈالے اور بھارت اور مغربی پاکستان کی سرحدوں نیز وادئی جموں و کشمیر میں جنگ بندی کے احکامات صادر کیے گئے۔
٣) اس کمشن کے تمام اراکین پاکستانی عدلیہ کے رکن ہونے کے ناطے فوجی ہتھکنڈوں، فوجی حکمت عملیوں اور فن حرب سے ناآشنا ہیں تاہم یہ قیاس کیا جاسکتا ہے کہ اس اعلیٰ اختیاراتی کمشن کے قیام اور وسیع دائرہ کار کا تعین کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ شخصیات کو ملوث کیے بغیر صداقت کو اس کے تمامتر پہلوؤں کے ساتھ اجاگر کیا جائے تاکہ عوام کے ذہنوں میں اُن اسباب اور وجوہات کی ایک صاف اور واضح تصویر آسکے جو اس تباہ کن واقعے کا موجب تھے۔ اور وہ یہ جان سکیں کہ عوام اور پریس کی جانب سے عائد کردہ الزامات کی حقیقی نوعیت اور بنیاد کیا ہے؟ اگر یہ الزامات درست ہیں تو کون کون سے افراد اس میں ملوث ہیں اور ان کے خلاف کیا اقدامات کیے جانے چاہئیں؟ اور اگر یہ تباہی ان اسباب اور وجوہات کے نتیجے میں نہیں ہوئی تو پھر یہ دیکھنا پڑے گا کہ وہ کیا خامیاں اور نقائص تھے جو اس واقعے کا سبب بنے!
٤) مسلح افواج کی جانب سے چند افرادنے اس عدالتی کمشن کے قیام پر اپنے ذہنی تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس قسم کا عدالتی کمشن ایک خالصتاَ َ تیکنیکی اور فوجی معاملے پر تحقیقات کے لیے قطعاَ َ موزوں نہیں ہے تاہم یہاں یہ ذکر کرنا ضروری ہے کہ اس قسم کی صدماتی فوجی شکست کے نتیجے میں اس نوعیت کی تحقیقات کو خلاف معمول قرار نہیں دیا جاسکتا۔ بھارت میں بھی ایسے ہی ایک کمشن کے قیام پر اعتراضات کیے گئے تھے اور اُس کی کارگردگی پر شبہات کا اظہار کیا گیا تھا جسے ایک فوجی افسر میجر جنرل ہنڈرسن بروکس کی سربراہی میں اس لیے قائم کیا گیا تھا کہ وہ 1962ء کی چین، بھارت جنگ کی تحقیقات کرے، اس کے بعد اس موضوع پر لکھنے والے بہت سے مصنفین کا خیال ہے کہ ایک نسبتاََ َ زیادہ اعلیٰ اختیاراتی صدارتی کمشن کے بہتر نتائج پیدا کرسکتا ہے۔
٥) کمشن کو اپنی محدودات کا مکمل احساس ہے اسے اس کام کے پھیلاؤ اور اس ضمن میں عائد ہونے والے ذمے داریوں کا بھی بھرپور ادراک ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چنانچہ سب سے پہلے کوشش یہی رہی کہ جہاں تک عملی طور پر ممکن ہو ہم ایک مختصر سے وقت میں فن حرب کے طور پر طریقوں اور تیکنیک سے آشنائی پیدا کرلیں ، اس کی بلند تر سمتوں کے اصولوں کو سمجھیں، اس کی منصوبہ بندی کے عمل اور اس کے نفاذ کے طریقوں کو ذہن نشین کرلیں۔ اس سلسلے میں ہمیں ملٹری ایڈوائزر لفٹننٹ جنرل (ریٹائرڈ) قادر کی ماہرانہ اور قابل قدر معاونت کے علاوہ تینوں مسلح افواج کے نمائندوں اور جنرل ہیڈکوارٹر کے متعدد سینئر افسران کا تعاون بھی حاصل رہا ہے۔ جنہوں نے دفاعی اور فوجی ٹیکنالوجی اور ان پر عمل درآمد کے بارے میں کمشن کو اپنی قیمتی معلومات سے آگاہ کیا۔
٦) ہمیں یہ دعویٰ ہرگز نہیں ہے ہم اس شعبے میں بھرپور مہارت حاصل کرلی تاہم پہلا سبق ہم نے یہ سیکھا ہے کہ کسی بھی جنگ میں شکست کے اسباب تلاش کرنے سے بیشتر یہ جاننا ضروری ہے کہ یہ جنگ آخر ہوئی کیوں؟ جدید جنگیں اب الگ تھلگ انداز سے نہیں لڑی جاتیں نہ ہی اب ان میں ہتھیاروں یا جنرل شب کا کوئی مقابلہ ہوتا! کہا جاتا ہے کہ فوجی ہتھکنڈوں کا براہ راست تعلق سیاسی اور سفارتی حکمت عملی سے ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ نفسیاتی ، سماجی ، معاشی اور جغرافیائی عوامل بھی اس سلسلے میں بڑا اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
٧) یہ بھی کہا جاتا ہے کہ جنگ لڑنے کے لیے ہمارا ایک قومی، سیاسی نصب العین ہونا ضروری ہے اس کے علاوہ جنگ کا بنیادی مقصد اور مطمع نظر، مربوط منصبوبہ بندی ، جنگ کی صحیح سمت کا تعین کرنے کے لیے مناسب مشینری اور ان سب سے ماورا جنگی کوششوں میں قوم کی بھرپور شمولیت اور شرکت بے حد ضروری ہے۔ ان عوامل میں سے کیس ایک کی بھی عدم موجودگی تباہ کن نتائج کا سبب بن سکتی ہے چنانچہ ان اسباب اور وجوہات کے صحیح طور پر سمجھنے کے لیے جن کی بنا پر قوم کی اس تباہی کا منہ دیکھنا پڑا ہے ہمیں لازمی طور پر ان تمام عوامل کا بغور جائزہ لینا ہوگا۔
٨) چنانچہ انہی حقائق کے پیش نظر ہم نے اس رپورٹ کو چار جلدوں میں تقسیم کرنے فیصلہ کیا ہے پہلی جلد اصل رپورٹ پر مشتمل ہوگی۔ دوسری جلد میں اسٹاف کے جائزے شامل ہوں گے، تیسری جلد تحریری بیانات اور دیگر دستاویزات اور چوتھی جلد زبانی شہادتوں پر مشتمل ہوگی۔
یہ اصل رپورٹ بھی پانچ حصوں پر مشتمل ہوگی۔ پہلے حصے میں تعارفی اور عام نوعیت کے، فقط دو ابواب شامل کیے جائیں گے۔ دوسرے حصے میں ہم مختصراَ َ اس سیاسی پس منظر کا ایک جائزہ پیش کریں گے جس کے نتیجے میں پاکستان کا قیام عمل میں آیا۔ اس کے علاوہ ، پاکستان کی سیاسی تاریخ بھی اختصار کے ساتھ بیان کی جائے گی۔ جس میں اُن تمام حالات کا خصوصی طور پر حوالہ دیا جائے گا جو مشرقی پاکستان میں بے چینی کا سبب بنے جس کے بعد ملک کے اُس حصے کے لیے مکمل خود مختاری کے مطالبے نے زور پکڑا۔ اس حصے کو بھی ہم مزید چار خاص ادوار کے حوالے سے تقسیم کریں گے۔ جو درجِ ذیل ہیں؛
الف) پہلا آئینی دور۔۔۔۔۔۔اگست1947ء سے اکتوبر1958ء تک
ب) پہلے مارشل لا کا زمانہ۔۔۔۔۔7 اکتوبر 1958 سے 6 جون 1962ء تک
ج) دوسرا آئنی دور۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔7 جون1962ء سے24مارچ 1969ءتک
د) دوسرے مارشل لا کازمانہ۔۔۔۔۔i) پچیس مارچ 1971ء تک اور
ii) پچیس مارچ 1971ء سے 20 دسمبر1971 ء تک
یہ حصہ بھی سات ابواب پر مشتمل ہوگا جن میں سے آخری باب، آخری مارشل لا حکومت کے اداروں اور فیصلوں کے تجزئیے کے لیے مخصوص ہوگا۔ اسی باب میں ہم اس سوال کا بھی جائزہ لیں گے کہ ملک کے خلاف کسی قسم کی کوئی سازش تو نہیں کی گئی؟ اور اگر ایسا ہے تو ، اس سازش کی اصل نوعیت کیا تھی اور کون کون اس میں شریک تھا؟
٩) اس آخری باب میں مشرقی پاکستان میں رونما ہونے والے واقعات اور وہاں کیے گئے فوجی ایکشن کا بھی جائزہ لیا جائے گا۔ دوسرے حصے میں بارہ ابواب کے تحت، ملک کے بین الاقوامی تعلقات سے بحث کرتے ہوئے، ہم مشرقی پاکستان پر بھارت کی کھلی جارحیت پر اپنی توجہ مرکوز کریں گے۔
١٠) اسی حصے میں ہم اُں بین الاقوامی تاثرات کے جائزے کو بھی شامل کریں گے جو مشرقی پاکستان میں کیے گئے، فوجی ایکشن کے نتیجے میں مرتب ہوئے تھے اور اُن نتائج پر بھی غور کریں گے جو ہمارے غیر ملکی سفارتی تعلقات پر، اثر انداز ہوئے۔
١١) بعدازاں، ہم جنگ کے فوجی پہلوؤں ، اس کے مقاصد، نظریئے،منصوبہ بندی اور عمل درآمد پر غور کریں گے، جس کے بعد ، مشرقی پاکستان، آزاد کشمیر اور مغربی پاکستان کے جنگی محاذوں کے حوالے سے گفتگو کی جائے گی۔ اس کے بعد ہم مختلف ابواب میں، فضائی اور بحری آپریشنز کا ایک جائزہ لیتے ہوئے مشرقی پاکستان میں ہتھیار ڈالنے کے لیے حالات، مغربی پاکستان میں، بھارت کے یک طرفہ، اعلان جنگ بندی کی پیش کش اور اس کی منظوری اور آزاد کشمیر کے حوالے سے بات کریں گے۔
١٢) جنگ کی بلند تر سمت اور جنگی منصوبہ بندی کے سوال پر بھی علیحدہ سے گفتگو کی جائے گی کیوں کہ یہ ایک ایسا موضوع ہے جس کے بارے میں ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ یہ سب کچھ ، ایک المناک لاتعلقی کا نتیجہ تھا۔ کچھ لوگوں نے تو یہاں تک بھی کہا کہ ہماری جنگی حکمت عملی، اس قدر مبہم ، ہماری فوجی منصوبہ بندی اتنی ناقص اور ہمارے فیصلے اس درجہ تذبذب اور خامیوں سے پُر تھے کہ اس ساری تباہی کے نتیجے میں جو شرم ناک رسوائی ہمارے حصے میں اس کا اہم اور بنیادی سبب، جنگ کے آخری مرحلوں میں، سپاہیوں اور اسلحی سازو سامان کی کمی نہیں بلکہ اس نوعیت کی غیر منظم کاروائیوں اور غیر مربوط جنگی منصوبہ بندی میں پوشیدہ تھا۔
١٣) اس کمشن کے روبرو، کچھ ایسے الزامات بھی آئے جن کا تعلق نہ صرف متعدد اعلیٰ فوجی افسران کے، اخلاق و کردار سے ہے بلکہ خاص طور پر ان افسران سے بھی ہے جو دوسری مارشل لا حکومت کےدوران، مارشل لا ڈیوٹی کی انجام دہی پر مامور تھے۔ پانچویں حصے میں، معاملے کے اس پہلو پر بھی، گفتگو ہو گی۔
١٤) ایک علیحدہ باب میں ہم ان امور و معاملات کا بھی جائزہ لیں گے جو ہمارے علم میں لائے گئے ہیں جن کا تعلق، افسران کی شخصی اور ذاتی کوتاہیوں ، تربیتی نقائص، فوجی ساز وسامان کی خامیوں کی غلط تعیناتی، نظم و ضبط کے اختیارات اور بھرتی اور ترقی کے اُس طریقہ کار سے ہے جس کے نتیجے میں سپاہیوں کا مورال اور کارکردگی، بری طرح متاثر ہوئی۔
١٥) ہم نے کوشش کی ہے کہ جہاں تک ممکن ہوسکے ہم اپنی رپورٹ کو اُس طے شدہ دائرہ کار کی حدود ہی میں رکھیں تاہم تحقیقات کے دوران ہمارے دفاعی سیٹ اپ کے حوالے سے سنگین نقائص اور خامیاں، سامنے آئی ہیں جن کی طرف سے ، ہم کسی صورت اپنی آنکھیں بند نہیں کرسکتے کیوں کہ ہم محسوس کرتے ہیں کہ اس نوعیت کے اعلیٰ اختیارات کمیشن کے قیام کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ وہ ہمیں اپنی خامیوں اور نقائص سے آگاہ کرے تاکہ ہم اپنی غلطیوں سے سبق حاصل کرتے ہوئے، مستقبل میں اُن کا اعادہ نہ کریں۔ چنانچہ ہم اس رپورٹ کی طوالت کے سلسلے میں کسی بھی قسم کی معذرت ضروری نہیں سمجھتے۔
١٧) جہاں کہیں ضروری تھا ، رپورٹ کے ہمراہ ضمیمہ جات کا بھی اضافہ کردیاگیا ہے۔ تاہم شہادتوں اور دستاویزی ثبوت جن کی تعداد ہزاروں تک پہنچتی ہے۔ علحیدہ جلدوں میں محفوظ کر دیئے گئے ہیں۔ بہر کیف، خفیہ اور حساس نوعیت کی معلومات اور دستاویزات،ان جلدوں میں شامل نہیں ہیں یہ معلومات، اصل شہادتوں اور دستاویزات کے ہمراہ، اُن فولڈرز میں دستیاب ہیں جو ایک مہر بند صندوق میں وزارت صدارتی امور کو پیش کر دئیے جائیں گے۔
تعارف؛۔
(١) حکومت پاکستان نے وزارتِ صدارتی امور کے نوٹیفیکشن نمبر ایس آر او(١) 71مورخہ 26دسمبر1971کے ذریعے اس انکوائری کمشن کو قائم کرتے ہوئے اس کے ذمہ یہ فرائض سونپے تھے کہ وہ ان حالات کی تحقیقات کرے، جن کے تحت کمانڈر، ایسٹرن کمانڈ اور ان کے زیر کمان پاکستان کی مسلح افواج نے دشمن کی فوجوں کے سامنے ہتھیار ڈالے، بھارت اور مغربی پاکستان کی سرحدوں پر جنگ بندی کے احکامات صادر کیے گئے نیز جموں اور کشمیر کی سیز فائر لائن پر بھی جنگ بندی کا حکم دیاگیا
(٢) پاکستان کمیشن آف انکوائری ایکٹ مجریہ1956ء کے تحت قائم ہونے والا یہ کشمن درج ذیل افراد پر مشتمل تھا؛۔
١) مسٹر جسٹس حمود الرحمٰن (ہلال پاکستان) چیف جسٹس، سپریم کورٹ آف پاکستان، بحیثیت صدر۔
٢) مسٹر جسٹس انور الحق ، چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ بحیثیت رکن۔
٣) مسٹر جسٹس طفیل علی عبدالرحمن چیف جسٹس سندھ بلوچستان ہائیکورٹ بحیثیت رکن
کمشن کی سفارشات پر لیفٹنٹ جنرل الطاف قادر( ریٹائرڈ) کو بحیثیت ملٹری ایڈوائزر اور اسسٹنٹ رجسٹرار سپریم کورٹ آف پاکستان، مسٹر ایم اے لطیف کو بحیثیت سیکرٹری مقرر کیا گیا۔
٣) وزارت صدارتی امور کی جانب سے جاری کیے گئے نوٹیفیکشن میں درج ذیل ہدایات بھی شامل تھیں؛۔
١) کمیشن اپنے طریقہء عمل کے مطابق کام کرے گا اور اس کے تمام کاروائی خفیہ رکھی جائے گی۔
٢) کمشن کو اپنی کاروائی کے دوران تنیوں مسلح افواج کے نمائندوں کی معاونت حاصل رہے گی۔ اس کے علاوہ حکومت پاکستان کے ہر فرد کا یہ فرض ہوگا کہ وہ کمشن کو جب کبھی ضرورت پڑے مطلوبہ تعاون فراہم کرے گا۔
٣) کمشن اپنی طے کردہ تاریخ اور مقام پر تحقیقات کا آغاز کرے گا اور تین ماہ کی مدت کے اندر تحقیقات مکمل کرنے کے بعداپنی مکمل رپورٹ صدر کو پیش کردے گا۔
٤) کمشن کا ایک غیر رسمی اجلاس31دسمبر1971ء کو لاہور میں منعقد ہوا تاکہ تحقیقات کے دائرہ کار اور دیگر ضروری امور و معاملات کا تعین کیا جاسکے۔ اس اجلاس میں کمشن کے طریقہ کار اور رہنما خطوط بھی طے کیے گئے۔ انتظامی اور مالیاتی امورو مسائل پر بھی غور کیا گیا اور ایک تفصیلی خط وزارت انتظامی امور کو ارسال کیا گیا تاکہ ضروری ساز و سامان، مطلوبہ اسٹاف اور رقم کمیشن کو کام شروع کرنے سے قبل فراہم کی جاسکے۔ یہ فیصلہ بھی کیا گیا کہ روالپنڈی میں یہ تحقیقات کی جائیں تاکہ کمیشن کو جنرل ہیڈ کوارٹر اور دیگر وزارتوں سے مطلوبہ ریکارڈ بآسانی دستیاب ہوسکے۔
٥) چونکہ اس انکوائری کمشن کی تمام تر کاروائی خفیہ رکھی جانی تھی جس کا کوئی سابقہ تجربہ موجود نہ تھا چنانچہ سوال یہ پیدا ہوا کہ اسے کس طرح شروع کیا جائے؟ فیصلہ یہ کیا گیا کہ اس سلسلے میں پہلے عوام کی رائے معلوم کی جائے۔ یکم جنوری 1972ء کو ایک پریس ریلیز کے ذریعے عوام اور مسلح افواج سے درخواست کی گئی کہ وہ 10جنوری 1972ء تک کشمن کے موضوع کے حوالے سے وہ تمام تر متعلقہ معلومات اور اطلاعات فراہم کریں جو ان کے علم میں ہیں۔
٦) اس کے علاوہ کشمن نے ان تمام افراد کو جو اس واقعے کے رونما ہونے کے ذمے داریوں پر فائز تھے خطوط اور سوال نامے ارسال کیے تاکہ وہ اس سلسلے میں پوری تفصیل اوروضاحت کے ساتھ اپنے خیالات کا اظہار کرسکیں۔ مطلوبہ کاغذات معلومات اور دستاویزات کی ایک فہرست بھی مرکزی حکومت کی متعدد وزارتوں کے سیکرٹریوں کو روانہ کی گئی۔ ان اقدامات کا بڑا مثبت اور حوصلہ افزا جواب موصول ہوا اور جلد ہی بہت بڑی پیمانے پر کمشن سے مختلف رابطوں کا آغاز ہوگیا۔
٧) 20 جنوری1972ء کو کمشن نے ملک کی سترہ مختلف سیاسی جماعتوں کے سربراہوں کو خطوط ارسال کیے جن میں ان سے درخواست کی گئی تھی کہ وہ تحقیقاتی کمشن کوزیر غور معاملات کے حوالے سے اپنے خیالات ، نظریات اور رائے سے آگاہ کریں۔ ان سے یہ بھی پوچھا گیا تھاکہ وہ ذاتی طور پر یا کسی نمائندے کے زریعے اس کمشن کے روبرو پیش ہو کر شہادت دے سکتے ہیں؟ اس سلسلے میں کافی حد تک تسلی بخش اور مثبت جواب حاصل ہوئے۔ چند سیاسی نمائندے کے ذریعے اس کمشن کے روبرو پیش ہو کر شہادت دے سکتے ہیں؟ اس سلسلے میں کافی حد تک تسلی بخش اورمثبت جواب حاصل ہوئے۔ چند سیاسی رہنماؤں نے کشمن کو آگاہ کیا کہ چونکہ انکوائری کا دائرہ کار محض فوجی پہلوؤں تک ہی محدود رہے گااور تمام تر کاروائی خفیہ طور پر مکمل کی جائے گی لٰہذا وہ کمشن کی معاونت سے معذور ہیں۔ تاہم انہیں بتایا گیا کہ کشمن کےدائرہ کار کو اس قدر محدود بھی نہیں رکھا جائے گا کہ ان دیگر تمام پہلوؤں کو سرے سے نظر انداز اور خارج کر دیا جائے جو کسی نہ کسی طرح اس انکوائری کمشن پر اثر انداز ہوسکتے ہیں۔ یہ وضاحت سننے کے بعد وہ معاملے کے سیاسی پہلوؤں پر اس کمشن سے ضروری تعاون پررضامند ہوگئے۔ جس کے نتیجے میں 23 سیاسی رہنماؤں نے اپنی قیمتی آرا سے اس کمشن کو مستفید کیا۔
٨) اسی اثناء میں کمشن کے علم میں یہ بات آئی کی دفاعی افواج سے تعلق رکھنے والے بیشتر افسران کمشن کےروبرو پیش ہو کر شہادتیں فراہم کرنا چاہتے ہیں لیکن انہیں خدشہ ہے کہ ایسا کرنے پر انہیں انتقام کا نشانہ بنایا جائے گا۔ چنانچہ کمشن نے صدر پاکستان سے رجوع کرتے ہوئے ان سے درخواست کی کہ وہ اس امر کی عوامی سطح پر ضمانت دیں کی کمشن کے روبر شہادت دینے والے کسی بھی فرد کو اس سلسلے میں انتقام کا نشانہ نہیں بنایا جائے گا۔ 11جنوری1972ء کے اخبارات میں یہ سرکاری اعلان شائع کر دیا گیا کہ کشمن کی تمام تر کاروائی مکمل طور پر خفیہ رکھی جائے گی اور اس کے روبرو پیش کیے جانے والے تمام بیانات اور گواہوں کو مناسب تحفظ فراہم کرتے ہوئے اس بات کو یقینی بنایا جائے گا کہ ایسے افراد کو کسی قسم کی دیوانی یا فوجداری مقدمات کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ تاوقتیکہ ایسے بیانات یا شہادتیں، جھوٹی اور غلط ثابت نہ ہوں۔
٩) کمشن کی سفارش پر جنرل ہیڈ کوارٹر نے بھی ایک سرکلر کے ذریعے فوجی اہلکاروں کو مطلع کردیا کہ وہ رضاکارانہ طور پر تحریری بیانات کے ذریعے یا ذاتی طور پر پیش ہو کر کمشن کے روبرو شہادت دے سکتے ہیں تاہم بعد میں کمشن نے اس سرکلر کو ناکافی سمجھتے ہوئے مسلح افواج کے سربراہان سے درخواست کی کہ وہ ایسے خطوط جاری کردیں جن میں اس بات کی مکمل ضمانت فراہم کی گئی ہو کہ دفاعی اہلکاروں کو کمشن کے روبرو پیش ہو کر بیان یا شہادت دینے کے عوص کسی صورت بھی انتقام کا نشانہ بنائے جانے کا خدشہ محسوس نہ ہو چنانچہ مسلح افواج کے سربراہوں کی جانب سے باقاعدہ یقین دہانی کے بعد دفاعی اور فوجی اہلکاروں نے پہلے کے مقالبے میں نسبتاَ َ زیادہ آزادی کے ساتھ کمشن کو اپنی معلومات سے آگاہ کرنا شروع کردیا۔ بعدازاں، گواہوں پر جرح کے دوران یا اس کے بعد ایسی کوئی شکایت موصول نہیں ہوئی کہ کسی بھی اہلکار کو انتقام کا نشانہ بنایا گیاہو۔ ماسوائے ایک نیول آفیسر کی مبینہ شکایت کے جس کی تحقیق نیوی کے حکام کررہے تھے۔ کمشن نے بالخصوص اس بات کا خیال رکھا ہے کہ اس سے تعاون کرنے والے کسی بھی فرد کو ہرگز کوئی نقصان نہ پہنچنے پائے۔
١٠) 15جنوری 1972ء کو کمشن نے اپنے ملٹری ایڈوائزر کے ہمراہ قصور کے حسینی والا سیکٹر کا دورہ کیا اور کور اور ڈویژنل ہیڈ کوارٹرز سے بات چیت کی۔ اس کے علاہو محاذ جنگ پر موجود جوانوں سے بھی ملاقات کی جو اپنی اپنی پوزیشنیں سنبھالے ہوئے تھے تاکہ یہ دیکھا جاسکے کہ جنگ کے دوران فوجی آپریشن کیسے کیا جاتا ہے؟ کمشن دیگر سیکٹرز کا دورہ بھی کرنا چاہتا تھا تاہم وقت کی کمی کے باعث ایسا ممکن نہ ہوسکا۔
١١) وزارت صدارتی امور نے اپنے 12 جنوری 1972ء کے خط میں راولپنڈی میں کیے گئے کمشن کے بیٹھنے کے انتظامات سے مطلع کیا۔ دفتری جگہ اور دیگر سازوسامان نیشنل ڈیفنس کالج میں فراہم کیا گیا تھا جہاں اسٹاف اور ٹرانسپورٹ کی سہولتیں بھی موجود تھیں۔ وزارت خزانہ اب تک بجٹ تجاویز پر غور کرنے میں مشغول تھی تاہم امید تھی کی کچھ رقم بہت جلد فراہم کردی جائے گی۔
١٢) 12جنوری1972ء کو کمشن کی معاونت کرنے والے مسلح افواج کے تینوں نمائندوں کے ناموں سے مطلع کیا گیا جو یہ تھے۔
i) ائیر کموڈور ظفر محمود (پاکستان ائیر فورس)
ii)کرنل صابر حسین قریشی(آرمی)
iii) کپٹن اے ولی اللہ (نیوی)
کمشن نے دیگر رسمی کاروائیوں کی تکمیل سے قبل ہی یہ فیصلہ کر لیا کہ17 جنوری1972کو روالپنڈی پہنچ کر بلا کسی مزید تاخیر کے اپنے دفاتر کی تنظیم کا عمل شروع کردیاجائے ۔
١٣) 17جنوری1972ء کو کمشن کا پہلا اجلاس راولپنڈی میں ہوا۔ اس وقت تک تین سو پچاس سے زائد افراد سے جن کا تعلق زندگی کے مختلف شعبوں سے تھا اس کشمن کو مختلف نوعیت کی معلومات اور اطلاعات فراہم ہو چکی تھیں۔ ان تمام کی ضروری جانچ پڑتال کی گئی تاکہ ان گواہوں کا ابتدائی انتخاب کیا جاسکے۔ جنہیں اس کمشن کے روبر طلب کیا جائے گا۔ وہ افراد جن کے بیانات محض افواہوں پر مبنی تھے جن کا ذریعہ اخباری رپورٹیں تھیں انہیں طلب نہیں کیا گیا، تاہم اس نوعیت کی اطلاعات مزید تحقیق اور جانچ پڑتال کی غرض سے متعلقہ وزارت کو ارسال کردی گئیں۔ اس سلسلے میں سیکرٹری دفاع اور اس وقت کے قائم مقام آرمی کمانڈر انچیف سے طریقہء کار سے متعلقہ امور کے حوالے سے ضروری صلاح مشورہ بھی کیا گیا۔
١٤) کمشن کی کاروائی کے آغاز سے قبل صحافیوں کی درخواست پر کمشن کے سربراہ نے ایک پریس کانفرس سے خطاب کیا جس کے دوران انہوں نے ایک مرتبہ بھی اس امر کی یقین دہانی کرائی کہ ایسے تمام گواہان جو کمشن کے روبرو شہادت دیں گے انہیں آفیشل سیکریٹ ایکٹ سے مستثنی سمجھا جائے گا اور انہیں انتقام یا خوف و ہراس کا نشانہ نہیں بنایا جائے گا۔ صحافیوں کے سوالات کے جواب میں کمشن کے سربراہ نے جو کچھ کہا ان میں سے چند نکات ذیل میں درج کیے جاتے ہیں؛
الف) کمشن کو پورا اختیار حاصل ہے کہ وہ سابق صدر اور چیف آف آرمی اسٹاف سمیت پاکستان کے کسی بھی شہری کو معلومات حاصل کرنے کے کی غرض سے طلب کرسکتا ہے۔ ضرورت پیش آنے پر کمشن کسی بھی فرد کی حاضری کو یقینی بنانے کے لیے وارنٹ بھی جاری کرسکتا ہے۔ تاوقتیکہ قانون اسے ذاتی طور پر کمشن کے روبرو حاضری سے مستثنی قرار نہ دے۔
ب) چندافسران جو مشرقی پاکستان سے فرار ہوکر یہاں پہنچ چکے تھے، ہتھیار ڈالے جانے کے مروجہ حالات و واقعات کے بارے میں شہادتیں دینے کےلیے دستیاب ہیں۔ اگر ان کے بیانات اور شہادتیں تسلی بخش نہ پائی گئیں تو ایسی صورت میں کمشن حکومت سے کہے گا کہ وہ بھارت سے جنگی قیدیوں کا تبادلہ ہونے تک کمشن کو دیے گئے وقت کی معیاد بڑھا دے۔
ج) کمشن کی کاروائی کو خفیہ رکھنا قومی مفاد کے عین مطابق ہے کیونکہ کمشن کے روبر و پیش کی جانے والی تمام اطلاعات و معلومات نہایت حساس نوعیت کی ہوں گی جنہیں اس وقت عام کرنا ، شائع کرنا یا نشر کرنا ممکن نہیں ہوگا۔ جب کہ مغربی سرحدوں پر بھارت اور پاکستان کی فوجیں ایک دوسرے کے مدمقابل کھڑی ہوئی ہیں، تاہم یہ کمشن وقتاَ َ فوقتاَ َ عوام کی اطلاع کے لیے اپنی سرگرمیوں کے بارے میں مختصر ہینڈ آؤٹ جاری کرتا رہے گا۔
د) ضرورت پڑنے پر یہ کمشن مسلح افواج کے تکنیکی ماہرین کی خدمات سے بھی ضروری استفادہ کرتا رہے گا۔ تاکہ وہ ان امور کے سلسلے میں کمشن کی معاونت کر سکیں تاہم وہ کسی بھی صورت میں کمشن کے فیصلوں پر اثر انداز ہونے کے مجاز نہیں ہوں گے۔
١٥) 25جنوری1972ء کو عید کی تعطیلات شروع ہونے سے قبل یہ کمشن ان تمام دستیاب مواد کو ضروری جانچ پڑتال کرنے کے بعد ان افراد کا انتخاب کرچکا تھا جنہیں اس کے روبرو پیش ہونا تھا۔ اس کے علاوہ ایک بے حد اہم شخصیت کی شہادت بھی ریکارڈ کر لی گئی تھی جو 24دسمبر1972کو روالپنڈی میں موجودتھی۔ مسلسل دو دنوں تک اس کمشن نے جنرل ہیڈ کوارٹر کا بھی دورہ کیا تھا تاکہ وہ اس کے مختلف شعبہ جات اور ان کی کارگردگی سے آگاہی حاصل کر سکے۔ کمشن نے ائر آپریشن سنٹر کا بھی دورہ کیا۔ تینوں مسلح افواج کے نمائندوں نے نقشہ جات چارٹ اور تقاریر کی مدد سے کمشن کو بریفنگ بھی دی۔ اس موقع پر مشرقی پاکستان میں پیش آنے والے واقعات کے بارے میں ایک دستاویزی فلم بھی اس کمشن کو دکھائی گئی۔
١٦) 31جنوری میں کمشن نے دوبارہ اپنی کاروائی شروع کی اور اس وقت سے اب تک مسلسل کام میں مصروف رہا ماسوائے ان مختصر وقفوں کے جب کمشن کے سربراہ یا کسی اور رکن کو اپنی دیگر ذمے داریوں کے سلسلے میں کوئی مصروفیت درپیش ہوئی ہو۔ 17مارچ سے 26 مارچ تک کمشن کو اپنی کاروائی ملتوی کرنا پڑی کیوں کہ کمشن کے سربراہ کو ایک اہم مقدمے کی سماعت کے سلسلے میں لاہور سپریم کورٹ بینچ میں بیٹھنا تھا۔ علاوہ دیگر اراکین کو بھی اپنے اپنے متعلقہ دفاتر کی فوری نوعیت کی ذمے داریوں کو نمٹانا تھا۔ کمشن کے اس قدر پھیلے ہوئے کام سےعہدہ برآ ہونے کے لیے بڑی یکسوئی کو بھی اپنے اپنے متعلقہ دفاتر کی فوری نوعیت کی ذمے داریوں کو نمٹانا تھا۔ کمشن کے اس قدر پھیلے ہوئے کام سے عہدہ برآ ہونے کے لیے بڑی یکسوئی اور کامل توجہ کی ضرورت تھی جبکہ کمشن کے سربراہ اور دیگر اراکین کو اپنے متعلقہ دفاتر کے اضافی اُمور بھی دیکھنے پڑتے تھے تاہم کام کی تکمیل کےپروگرام اور کشمن کے روبرو موجود تمامتر مواد کا مکمل طور پر احاطہ کرنے کی غرض سے مخصوص اوقاتِ کار کے علاوہ بھی کام کرنا پڑا یہاں تک کہ اتوار اور عام تعطیلات کے دوران بھی کشمن برابر کام کرتارہا اس کے باوجود بھی یہ کام تین ماہ کی مدت میں مکمل نہ ہوسکا۔ اپریل کے شروع میں اٹارنی جنرل نے کشمن کو مطلع کیا کہ وہ حکومت کی جانب سے شہادتیں پیش کرنا چاہتے ہیں اس کے علاوہ چند اہم گواہوں کے بیانات کی جانچ پڑتا بھی باقی تھی چنانچہ صدر پاکستان سے درخواست کرنا پڑی کہ وہ مقرر کردہ معیاد کو 31 مئی1972ء تک بڑھا دیں۔ جس کی انہوں نے اجازت دے دی۔ مئی 1972ء کے پہلے ہفتے میں کمشن کے سربراہ کو امریکا جاناپڑا جہاں انہیں اقوام متحدہ کی ایک کمیٹی کے اجلاس میں شریک ہونا تھا۔ 5مئی سے21مئی تک اُن کی عدم موجودگی کےدوران انکوائری کمشن کی رپورٹ کی تکمیل کے لیے ان کا انتظار کرنا ضروری تھا اور جب 22مئی 1972ء کو واپسی کے بعد انہوں نے رپورٹ کی تکمیل کا جائزہ لیا تو پتہ چلا کہ 31 مئی تک بھی اُسے تیار کرنا ممکن نہیں چنانچہ ایک بار پھر صدر پاکستان سے درخواست کردہ تاریخ میں ایک مہینے کا اضافہ کردیا گیا!
١٧) کمشن نے شہادتوں کی قلم بندی کا کام یکم فروری 1972ء سے شروع کیا تھا جو26 اپریل 1972ء بیانات کی ضروری جانچ پڑتال اور معائنے کی غرض سے کمشن کو مجموعی طور پر (٥٧) مرتبہ بیٹھنا پڑا یعنی کل ملا کر کمشن نے 213 افراد کے بیانات قلم بند کیے جن کی درجہ وار تفصیل مندرجہ ذیل ہے؛
1) آرمی
i)ملازم اہلکار۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔61
ii) ریٹائرڈ اہلکار۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔27
2) ائیر فورس
i) ملازم اہلکار۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔39
ii) ریٹائرڈ اہلکار۔۔۔۔۔۔۔۔6
3) نیوی؛
i) ملازم اہلکار۔۔۔۔۔۔۔۔14
ii)ریٹائرڈ اہلکار۔۔۔۔۔۔۔7
4) سیاسی لیڈر۔۔۔۔۔۔۔۔۔23
5) سول ملازمین؛
i)ملازم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔17
ii) ریٹائرڈ۔۔۔۔۔۔۔۔۔6
6) صحافی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔3
7) عوامی نمائندے۔۔۔۔۔۔۔۔۔10
١٨) ان گواہوں کے بیانات چار ہزار صفحات پر ٹائپ کیے گئے جب کہ ان بیانات کے سلسلے میں پیش کی جانے والی تین سو چوہتر دستاویزات بھی تقریبا اتنی ہی تعداد میں ٹائپ کی گئی ہیں۔ اس کے علاوہ کمشن کے مختلف محکمہ جات اور شعبوں کے اُن کاغذات اور دستاویزات کی بھی ضروری جانچ پڑتال کرنا پڑی جو اس سلسلے میں اس کے روبر پیش کیے گئے تھے۔ کمشن نے متعدد سرکاری ایجنیسیوں سے بہت بڑی تعداد میں ایسی رپورٹس حاصل کیں جن کا تعلق زیر غور اُمور و معاملات کے مختلف پہلوؤں سے تھا۔ اسی کے ساتھ ساتھ کمشن کی معلومات کے لیے کچھ تجزیاتی مطالعے بھی مرتب کیے گئے۔ کمشن نے ایسے امور اور معاملات کی پولیس کے ذرائع سے تحقیقات کی ہدایات بھی جاری کیں جو گواہوں کے بیانات کی جانچ پڑتا ل اور معائنے کے درران اُس کے علم میں آئے تھے۔ کاروائی کے آخری مراحل تک عوام کی جانت سے تجاویز اور مشورے بھی موصول ہوتے رہے جن کی تعداد ایک ہزار سے تجاوز کرگئی تھی۔ کمشن نے بذاتِ خود تمام گواہوں کے بیانات کی جانچ پڑتال اور جرح کے فرائض ادا کیے۔
١٩) 21جنوری1972ء کو کمشن نے وزارتِ صدارتی امور کو ایک خط ارسال کیا جس کے ذریعے یہ معلوم کیا گیا تھا کہ حکومت اس کشمن کے روبرو اپنی نمائندگی کی خواہش مند ہے یا اس سلسلے میں کوئی خاص نقطہ نظر یا کوئی گواہ پیش کرنا چاہتی ہے؟ وزارت نے کمشن کو مطلع کیا کہ مسٹر یحٰیی بختیار اٹارنی جنرل حکومت پاکستان حکومت کی نمائندگی کریں گے اور ضروری دستاویزات اور گواہان کو پیش کرتے ہوئے کمشن کی معاونت کریں گے۔ جبکہ صدر پاکستان کے اسپیشل اسسٹنٹ مستر رفیع رضا ایسے بیانات داخل کریں گے جو اُن کے علم میں موجود حقائق و واقعات پر مشتمل ہوں گے جن میں وہ موجودہ صدر کے 20دسمبر 1971ء کو اقتدار سنبھالنے سے پہلے کے خیالات اور آراء بھی پیش کریں گے۔ اس سلسلے میں اٹارنی جنرل یحٰیی بختیار اور مسٹر رفیع رضا نے کمشن سے چند ملاقاتیں بھی کیں۔ بعد میں مسٹر رفیع رضا رسمی طور پر ایک گواہ کی حیثیت سے کمشن کے روبرو پیش ہوئے تاکہ پیپلز پارٹی کے سرکاری موقف اور نقطہ نظر کی ترجمانی کرسکیں۔ چند گواہوں کے دوران اٹارنی جنرل خود بھی تھے اور اُنہوں نے کچھ گواہاں پر خود بھی جرح کی تاہم انہوں نے حکومت کی جانت سے کسی قسم کی شہادت پیش نہیں کی۔
٢٠) آرمی ائیر فورس اور نیوی کے اُن متعدد افسران کے بیانات کی جانچ پڑتال کے بعد جو ہتھیار ڈالنے سے کچھ قبل یا بعد مشرقی پاکستانی سے واپس آئے تھے کمشن نے محسوس کیا کہ مشرقی کمان کے افسران سے مناسب انصاف کا اولین تقاضا یہ ہے کہ کلیدی عہدوں پر فائز اُن افسروں کے بیانات اور شہادتین بھی قلم بند کی جانی چاہئیں جو بھارت کی جنگی قید میں تھے۔ چنانچہ اس خیال کے مدِ نظر حکومت سے معلوم کیا گیا کہ کیا ایسا ممکن ہے کہ انٹر نیشنل ریڈ کراس کے توسط سے ضروری اقدامات کرتے ہوئے پاکستانی فوجی افسران کے بیانات کمشن کے لیے حاصل کیے جاسکیں۔ جن میں سے چند یہ تھے!
١) لفٹننٹ جنرل اے اے کے نیازی
٢) مجیر جنرل راؤ فرمان علی
٣) رئیر ایڈ مرل ایم شریف
٤) ائیر کموڈور انعام الحق
آرمی کے دو لفٹننٹ کرنل اور نیوی کے دو کمانڈوروں نے جو اُس وقت جنگی قیدی کی حیثیت سے بھارت میں تھے ۔ اس کمشن کو تحریری پیغامات ارسال کرتے ہوئے یہ دراخواست کی کہ جنگی قیدیوں کے تبادلے تک انکوائری کمشن کی کاروائی مکمل نہ کی جائے کیوں کہ ان کے بیانات اور گواہیاں بھی قلم بند کی جانی بہت ضروری ہیں۔ ایک لفٹننٹ کرنل نے اس کمشن کو اپنے پیغام کے ذریعے مطلع کیا کہ اُن کے پاس بتانے کے لیے بہت کچھ ہے جو اس کمشن کو ایک مصنفانہ فیصلے تک پہنچنے میں کافی مدد دے گا!۔ انہوں نے ساتھ ہی یہ درخواست بھی کی کہ کسی سرحدی چوکی پر اُن کی شہادتیں قلم بند کرنے کا انتظام کیاجائے۔ یہ تمام پیغامات حکومت کو ارسال کر دئیے گئے جس کے جواب میں وزارتِ صدارتی امور نے کہا کہ حکومت نے اس پورے معاملے کا بڑے غور سے جائزہ لیا ہے تاہم انٹرنشنل ریڈ کراس کے ذریعے اس قسم کے بیانات اور شہادتوں کو فی الحال قلم بند کرنا ممکن نہیں ہے۔ یہ دونوں خطوط رپورٹ کے اس باب سے منسلکہ ہیں۔
٢١) کمشن کو حکومت کی جانب سے ہر ممکن تعاون اور مدد فراہم کی گئی اور اس کی تمام ضروریات اور مطالبات کو وزارتِ صدارتی اُمور اور دیگر سرکاری محکموں کی جانب سے فوری طور پر نہایت مستعدی کے ساتھ پورا کردیا گیا ۔ کمشن کو نیشنل ڈیفنس کالج راولپنڈی سے بھی ضرورت کے مطابق ہر ممکن تعاون فراہم کیا گیا جس کے احاطے میں کمشن کے دفاتر قائم تھے
٢٢) یہ کمشن اُن تمام افراد اور اداروں کا شکر گزار ہے جنہوں نے اس مشکل کام کی تکمیل میں اسے ہر ممکن تعاون اور امداد فراہم کی اس سلسلے میں کمشن خصوصی طور پر لفٹننٹ جنرل (ریٹائرڈ) الطاف قادری، ملٹری ایڈوائزر اور تینوں مسلح افواج کے نمائندوں کا ممنون ہے جنہوں نے مشنری جذبے سے کام لیتے ہوئے اس کمشن سے ضروری تعاون کیا۔ ان حضرات نے انکوائری کے فوجی پہلوؤں سے نہ صرف قابلِ قدر امداد فراہم کی بلکہ اطلاعات اور اسٹاف اسٹڈیز کی ترتیب میں بھی اس کمشن کا ہاتھ بٹایا۔
ہم ائیر مارشل (ریٹائرڈ) نور خان اور وائس ایڈمرل ( ریٹائرڈ) ایک ایم ایس چوہدری کے بھی بطورِ خاص ممنون اور شکر گزار ہیں کہ انہوں نے ائیر فورس اور نیوی کے امور و معاملات پر ہمیں اپنی ماہرانہ رائے اور مشوروں سے نوازا۔
٢٣) کمشن اُس تعاون کے لیے بھی ممنون ہے جو اسے اپنے تمام دفتری اسٹاف کی جانت سے سیکرٹری ایم اے لطیف کی سربراہی میں فراہم کیا گیا۔ اس کے علاوہ نیشنل ڈیفنس کالج کی جانب سے ہمیں فراہم کیے گئے وہ تمام اسٹینو گرافراز اور ٹائپسٹ حضرات بھی کمشن کے شکریے کے مستحق ہیں جنہوں نے ان تھک محنت کا ثبوت دیا۔
باب دوم
١) لفٹننٹ جنرل امیر عبداللہ خان نیازی نے شیخی بگھارتے ہوئے یہ اعلان کیا تھا کہ بھارتی افواج اُن کی لاش پر سے گزر کر ہی ڈھاکا میں داخل ہو سکتی ہے۔ اس اعلان کے دوسرے ہی دن پوری قوم غیر ملکی ذرائع ابلاغ سے یہ وحشت ناک خبر سن کر سکتے میں آگئی کہ انہوں نے نہایت ذلت آمیز طریقے سے شرم ناک انداز میں 16دسمبر1971ء کو ڈھاکا ریس کورس کی ایک تقریب میں دشمن افواج کے سامنے ہتھیار ڈالتے ہوئے شکست تسلیم کرلی! اُسی شام پاکستانی افواج کے اُس وقت کے کمانڈر انچیف اور خود ساختہ صدر پاکستان نے قوم کے نام اپنے ایک نشری پیغام میں اس ذلت آمیز شکست کو محض ایک خطے میں جنگ ہارنے سے تعبیر کرتے ہوئے اس عزم کا اعادہ کیا کہ مغربی محاذ پر یہ جنگ جاری رہے گی! ایک مرتبہ پھر قوم کو ایک شدید دھچکے کا اس وقت سامنا کرنا پڑا جب اس اعلان عزم کے دوسرے ہی دن انہوں نے قلابازی کھائی اور اعتراف شکست کرتے ہوئے بھارتی وزیراعظم کی جانب سے یک طرفہ طور پر جنگ بندی کو تسلیم کرلیا اور وہ بھی ایک ایسے مرحلے پر جب سرکاری اخباری رپورٹس کے مطابق مغربی محاذ پر پاکستانی افواج ہر سمت میں پیش قدمی کرتے ہوئے دشمن کے علاقے میں برابر آگے بڑھ رہی تھی اور انہیں بہت کم جانی نقصان برداشت کرنا پڑا تھا۔ پوری قوم ان واقعات پر شدید احساس زیاں سے دوچار تھی اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ اس شرم ناک انداز میں شکست تسلیم کرتے ہوئے بھارتی افواج کے سامنے ہتھیار کیوں ڈالے گئے اور جنگ بندی کی پیش کش کو تسلیم کرنے میں اس قدر عجلت کا مظاہرہ آخر کس لیے کیاگیا؟ ان تمام واقعات نے اس وقت کی فوجی حکومت کے حوالے سے قوم کے ذہن میں ان شکوک و شبہات کو جنم دیا کہ یہ سب کچھ قوم اور وطن کو سوچے سمجھے منصوبے کے مطابق بے آبرو اور تباہ کرنے کی ایک مجرمانہ سازش تھی چنانچہ انہوں نے اس شکست کے ذمے داروں پر سر عام مقدمہ چلا کر انہیں قرار واقعی سزادینے کا مطالبہ کر دیا۔ اس احتجاج نے اتنی شدت اختیار کرلی کہ اس وقت کے ڈپٹی پرائم منسٹر، مسٹر ذوالفقار علی بھٹو کو بڑی عجلت میں نیوریاک سے واپس آنے کے لیے کہا گیا جہاں وہ سیکورٹی کونسل میں پاکستان وفد کی قیادت کررہے تھے اور 20دسمبر1971ء کو جنرل آغا محمد یحیٰی خان نے انہیں اقتدار منتقل کردیا۔
٢) ان حالات کے پس منظر میں موجودہ صدر نے برسر اقتدار آنے کے بعد فوراَ َ بعد اس کمیشن کا تقرر کیا جس کا دائرہ کار میں (26 دسمبر 1971ء کے صدارتی نوٹیفکیشن کے مطابق) اس امر کی تحقیقات کرنا شامل تھا کہ کن حالات میں کمانڈر، ایسٹرن کمانڈ اور پاکستان کی مسلح افواج نے دشمن کے سامنے ہتھیار ڈالے اور بھارت اور مغربی پاکستان کی سرحدوں نیز وادئی جموں و کشمیر میں جنگ بندی کے احکامات صادر کیے گئے۔
٣) اس کمشن کے تمام اراکین پاکستانی عدلیہ کے رکن ہونے کے ناطے فوجی ہتھکنڈوں، فوجی حکمت عملیوں اور فن حرب سے ناآشنا ہیں تاہم یہ قیاس کیا جاسکتا ہے کہ اس اعلیٰ اختیاراتی کمشن کے قیام اور وسیع دائرہ کار کا تعین کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ شخصیات کو ملوث کیے بغیر صداقت کو اس کے تمامتر پہلوؤں کے ساتھ اجاگر کیا جائے تاکہ عوام کے ذہنوں میں اُن اسباب اور وجوہات کی ایک صاف اور واضح تصویر آسکے جو اس تباہ کن واقعے کا موجب تھے۔ اور وہ یہ جان سکیں کہ عوام اور پریس کی جانب سے عائد کردہ الزامات کی حقیقی نوعیت اور بنیاد کیا ہے؟ اگر یہ الزامات درست ہیں تو کون کون سے افراد اس میں ملوث ہیں اور ان کے خلاف کیا اقدامات کیے جانے چاہئیں؟ اور اگر یہ تباہی ان اسباب اور وجوہات کے نتیجے میں نہیں ہوئی تو پھر یہ دیکھنا پڑے گا کہ وہ کیا خامیاں اور نقائص تھے جو اس واقعے کا سبب بنے!
٤) مسلح افواج کی جانب سے چند افرادنے اس عدالتی کمشن کے قیام پر اپنے ذہنی تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس قسم کا عدالتی کمشن ایک خالصتاَ َ تیکنیکی اور فوجی معاملے پر تحقیقات کے لیے قطعاَ َ موزوں نہیں ہے تاہم یہاں یہ ذکر کرنا ضروری ہے کہ اس قسم کی صدماتی فوجی شکست کے نتیجے میں اس نوعیت کی تحقیقات کو خلاف معمول قرار نہیں دیا جاسکتا۔ بھارت میں بھی ایسے ہی ایک کمشن کے قیام پر اعتراضات کیے گئے تھے اور اُس کی کارگردگی پر شبہات کا اظہار کیا گیا تھا جسے ایک فوجی افسر میجر جنرل ہنڈرسن بروکس کی سربراہی میں اس لیے قائم کیا گیا تھا کہ وہ 1962ء کی چین، بھارت جنگ کی تحقیقات کرے، اس کے بعد اس موضوع پر لکھنے والے بہت سے مصنفین کا خیال ہے کہ ایک نسبتاََ َ زیادہ اعلیٰ اختیاراتی صدارتی کمشن کے بہتر نتائج پیدا کرسکتا ہے۔
٥) کمشن کو اپنی محدودات کا مکمل احساس ہے اسے اس کام کے پھیلاؤ اور اس ضمن میں عائد ہونے والے ذمے داریوں کا بھی بھرپور ادراک ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چنانچہ سب سے پہلے کوشش یہی رہی کہ جہاں تک عملی طور پر ممکن ہو ہم ایک مختصر سے وقت میں فن حرب کے طور پر طریقوں اور تیکنیک سے آشنائی پیدا کرلیں ، اس کی بلند تر سمتوں کے اصولوں کو سمجھیں، اس کی منصوبہ بندی کے عمل اور اس کے نفاذ کے طریقوں کو ذہن نشین کرلیں۔ اس سلسلے میں ہمیں ملٹری ایڈوائزر لفٹننٹ جنرل (ریٹائرڈ) قادر کی ماہرانہ اور قابل قدر معاونت کے علاوہ تینوں مسلح افواج کے نمائندوں اور جنرل ہیڈکوارٹر کے متعدد سینئر افسران کا تعاون بھی حاصل رہا ہے۔ جنہوں نے دفاعی اور فوجی ٹیکنالوجی اور ان پر عمل درآمد کے بارے میں کمشن کو اپنی قیمتی معلومات سے آگاہ کیا۔
٦) ہمیں یہ دعویٰ ہرگز نہیں ہے ہم اس شعبے میں بھرپور مہارت حاصل کرلی تاہم پہلا سبق ہم نے یہ سیکھا ہے کہ کسی بھی جنگ میں شکست کے اسباب تلاش کرنے سے بیشتر یہ جاننا ضروری ہے کہ یہ جنگ آخر ہوئی کیوں؟ جدید جنگیں اب الگ تھلگ انداز سے نہیں لڑی جاتیں نہ ہی اب ان میں ہتھیاروں یا جنرل شب کا کوئی مقابلہ ہوتا! کہا جاتا ہے کہ فوجی ہتھکنڈوں کا براہ راست تعلق سیاسی اور سفارتی حکمت عملی سے ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ نفسیاتی ، سماجی ، معاشی اور جغرافیائی عوامل بھی اس سلسلے میں بڑا اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
٧) یہ بھی کہا جاتا ہے کہ جنگ لڑنے کے لیے ہمارا ایک قومی، سیاسی نصب العین ہونا ضروری ہے اس کے علاوہ جنگ کا بنیادی مقصد اور مطمع نظر، مربوط منصبوبہ بندی ، جنگ کی صحیح سمت کا تعین کرنے کے لیے مناسب مشینری اور ان سب سے ماورا جنگی کوششوں میں قوم کی بھرپور شمولیت اور شرکت بے حد ضروری ہے۔ ان عوامل میں سے کیس ایک کی بھی عدم موجودگی تباہ کن نتائج کا سبب بن سکتی ہے چنانچہ ان اسباب اور وجوہات کے صحیح طور پر سمجھنے کے لیے جن کی بنا پر قوم کی اس تباہی کا منہ دیکھنا پڑا ہے ہمیں لازمی طور پر ان تمام عوامل کا بغور جائزہ لینا ہوگا۔
٨) چنانچہ انہی حقائق کے پیش نظر ہم نے اس رپورٹ کو چار جلدوں میں تقسیم کرنے فیصلہ کیا ہے پہلی جلد اصل رپورٹ پر مشتمل ہوگی۔ دوسری جلد میں اسٹاف کے جائزے شامل ہوں گے، تیسری جلد تحریری بیانات اور دیگر دستاویزات اور چوتھی جلد زبانی شہادتوں پر مشتمل ہوگی۔
یہ اصل رپورٹ بھی پانچ حصوں پر مشتمل ہوگی۔ پہلے حصے میں تعارفی اور عام نوعیت کے، فقط دو ابواب شامل کیے جائیں گے۔ دوسرے حصے میں ہم مختصراَ َ اس سیاسی پس منظر کا ایک جائزہ پیش کریں گے جس کے نتیجے میں پاکستان کا قیام عمل میں آیا۔ اس کے علاوہ ، پاکستان کی سیاسی تاریخ بھی اختصار کے ساتھ بیان کی جائے گی۔ جس میں اُن تمام حالات کا خصوصی طور پر حوالہ دیا جائے گا جو مشرقی پاکستان میں بے چینی کا سبب بنے جس کے بعد ملک کے اُس حصے کے لیے مکمل خود مختاری کے مطالبے نے زور پکڑا۔ اس حصے کو بھی ہم مزید چار خاص ادوار کے حوالے سے تقسیم کریں گے۔ جو درجِ ذیل ہیں؛
الف) پہلا آئینی دور۔۔۔۔۔۔اگست1947ء سے اکتوبر1958ء تک
ب) پہلے مارشل لا کا زمانہ۔۔۔۔۔7 اکتوبر 1958 سے 6 جون 1962ء تک
ج) دوسرا آئنی دور۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔7 جون1962ء سے24مارچ 1969ءتک
د) دوسرے مارشل لا کازمانہ۔۔۔۔۔i) پچیس مارچ 1971ء تک اور
ii) پچیس مارچ 1971ء سے 20 دسمبر1971 ء تک
یہ حصہ بھی سات ابواب پر مشتمل ہوگا جن میں سے آخری باب، آخری مارشل لا حکومت کے اداروں اور فیصلوں کے تجزئیے کے لیے مخصوص ہوگا۔ اسی باب میں ہم اس سوال کا بھی جائزہ لیں گے کہ ملک کے خلاف کسی قسم کی کوئی سازش تو نہیں کی گئی؟ اور اگر ایسا ہے تو ، اس سازش کی اصل نوعیت کیا تھی اور کون کون اس میں شریک تھا؟
٩) اس آخری باب میں مشرقی پاکستان میں رونما ہونے والے واقعات اور وہاں کیے گئے فوجی ایکشن کا بھی جائزہ لیا جائے گا۔ دوسرے حصے میں بارہ ابواب کے تحت، ملک کے بین الاقوامی تعلقات سے بحث کرتے ہوئے، ہم مشرقی پاکستان پر بھارت کی کھلی جارحیت پر اپنی توجہ مرکوز کریں گے۔
١٠) اسی حصے میں ہم اُں بین الاقوامی تاثرات کے جائزے کو بھی شامل کریں گے جو مشرقی پاکستان میں کیے گئے، فوجی ایکشن کے نتیجے میں مرتب ہوئے تھے اور اُن نتائج پر بھی غور کریں گے جو ہمارے غیر ملکی سفارتی تعلقات پر، اثر انداز ہوئے۔
١١) بعدازاں، ہم جنگ کے فوجی پہلوؤں ، اس کے مقاصد، نظریئے،منصوبہ بندی اور عمل درآمد پر غور کریں گے، جس کے بعد ، مشرقی پاکستان، آزاد کشمیر اور مغربی پاکستان کے جنگی محاذوں کے حوالے سے گفتگو کی جائے گی۔ اس کے بعد ہم مختلف ابواب میں، فضائی اور بحری آپریشنز کا ایک جائزہ لیتے ہوئے مشرقی پاکستان میں ہتھیار ڈالنے کے لیے حالات، مغربی پاکستان میں، بھارت کے یک طرفہ، اعلان جنگ بندی کی پیش کش اور اس کی منظوری اور آزاد کشمیر کے حوالے سے بات کریں گے۔
١٢) جنگ کی بلند تر سمت اور جنگی منصوبہ بندی کے سوال پر بھی علیحدہ سے گفتگو کی جائے گی کیوں کہ یہ ایک ایسا موضوع ہے جس کے بارے میں ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ یہ سب کچھ ، ایک المناک لاتعلقی کا نتیجہ تھا۔ کچھ لوگوں نے تو یہاں تک بھی کہا کہ ہماری جنگی حکمت عملی، اس قدر مبہم ، ہماری فوجی منصوبہ بندی اتنی ناقص اور ہمارے فیصلے اس درجہ تذبذب اور خامیوں سے پُر تھے کہ اس ساری تباہی کے نتیجے میں جو شرم ناک رسوائی ہمارے حصے میں اس کا اہم اور بنیادی سبب، جنگ کے آخری مرحلوں میں، سپاہیوں اور اسلحی سازو سامان کی کمی نہیں بلکہ اس نوعیت کی غیر منظم کاروائیوں اور غیر مربوط جنگی منصوبہ بندی میں پوشیدہ تھا۔
١٣) اس کمشن کے روبرو، کچھ ایسے الزامات بھی آئے جن کا تعلق نہ صرف متعدد اعلیٰ فوجی افسران کے، اخلاق و کردار سے ہے بلکہ خاص طور پر ان افسران سے بھی ہے جو دوسری مارشل لا حکومت کےدوران، مارشل لا ڈیوٹی کی انجام دہی پر مامور تھے۔ پانچویں حصے میں، معاملے کے اس پہلو پر بھی، گفتگو ہو گی۔
١٤) ایک علیحدہ باب میں ہم ان امور و معاملات کا بھی جائزہ لیں گے جو ہمارے علم میں لائے گئے ہیں جن کا تعلق، افسران کی شخصی اور ذاتی کوتاہیوں ، تربیتی نقائص، فوجی ساز وسامان کی خامیوں کی غلط تعیناتی، نظم و ضبط کے اختیارات اور بھرتی اور ترقی کے اُس طریقہ کار سے ہے جس کے نتیجے میں سپاہیوں کا مورال اور کارکردگی، بری طرح متاثر ہوئی۔
١٥) ہم نے کوشش کی ہے کہ جہاں تک ممکن ہوسکے ہم اپنی رپورٹ کو اُس طے شدہ دائرہ کار کی حدود ہی میں رکھیں تاہم تحقیقات کے دوران ہمارے دفاعی سیٹ اپ کے حوالے سے سنگین نقائص اور خامیاں، سامنے آئی ہیں جن کی طرف سے ، ہم کسی صورت اپنی آنکھیں بند نہیں کرسکتے کیوں کہ ہم محسوس کرتے ہیں کہ اس نوعیت کے اعلیٰ اختیارات کمیشن کے قیام کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ وہ ہمیں اپنی خامیوں اور نقائص سے آگاہ کرے تاکہ ہم اپنی غلطیوں سے سبق حاصل کرتے ہوئے، مستقبل میں اُن کا اعادہ نہ کریں۔ چنانچہ ہم اس رپورٹ کی طوالت کے سلسلے میں کسی بھی قسم کی معذرت ضروری نہیں سمجھتے۔
١٧) جہاں کہیں ضروری تھا ، رپورٹ کے ہمراہ ضمیمہ جات کا بھی اضافہ کردیاگیا ہے۔ تاہم شہادتوں اور دستاویزی ثبوت جن کی تعداد ہزاروں تک پہنچتی ہے۔ علحیدہ جلدوں میں محفوظ کر دیئے گئے ہیں۔ بہر کیف، خفیہ اور حساس نوعیت کی معلومات اور دستاویزات،ان جلدوں میں شامل نہیں ہیں یہ معلومات، اصل شہادتوں اور دستاویزات کے ہمراہ، اُن فولڈرز میں دستیاب ہیں جو ایک مہر بند صندوق میں وزارت صدارتی امور کو پیش کر دئیے جائیں گے۔