ذوالقرنین

لائبریرین
ناجائز فائدہ اٹھانے کا نتیجہ

ایک بوڑھی عورت کی بینائی کم ہو گئی۔ اندھے ہونے کے خیال سے وہ علاج کے لیے ایک حکیم کے پاس گئی اور کہا۔
"حکیم جی! میری بینائی دن بہ دن کم ہو رہی ہے۔ براہ مہربانی میرا علاج کیجئے۔ ایسا نہ ہو کہ میں اندھی ہو جاؤں۔ اگر میری بینائی ٹھیک ہو گئی تو منہ مانگی دولت آپ کو ملے گی۔ خدا کا دیا سب کچھ ہے میرے پاس لیکن یاد رکھو، بینائی درست نہ ہونے کی صورت میں ایک پائی بھی نہ دوں گی۔"
اس شرط کو حکیم نے منظور کر لیا۔ ہر روز علاج کے لیے بڑھیا کے گھر جاتا۔ آنکھیں دھو کر دوا دارو ڈالتا لیکن اپنی بد عادت کے ہاتھوں مجبور ہو کر روزانہ کوئی نہ کوئی چیز بڑھیا کے گھر سے چرا لاتا۔ حکیم کے مسلسل علاج سے بڑھیا کی بینائی تو ٹھیک ہو گئی لیکن اس عرصہ میں اس کے گھر کا مکمل صفایا کر دیا۔ ایک دن حکیم نے بڑھیا سے اپنی اجرت مانگی تو بڑھیا بولی۔
"اجرت کیسی؟ تو نے میرا بھرا بھرایا گھر صاف کر دیا۔ ایک تنکا نہ چھوڑا اور اوپر سے اجرت طلب کرتا ہے۔ میں تو تیری خبر جوتیوں سے لوں گی۔"
حکیم نے بڑھیا کے خلاف دعوی دائر کر دیا۔ قاضی نے بڑھیا کو عدالت میں طلب کیا اور سوال کیا کہ وہ حکیم کی اجرت کیوں ادا نہیں کرتی؟
بڑھیا نے سارا احوال قاضی کو سنایا اور کہا۔" بے شک میں نے اس سے معائدہ کیا تھا کہ بینائی درست ہونے کی صورت میں منہ مانگی اجرت دوں گی۔ اس نے میرا علاج تو کیا لیکن اب میرا حال اتنا ابتر کر دیا ہے کہ پہلے تو میں ہر شے گھر کی دھندلی پاتی تھی لیکن اب مجھے کوئی شے نظر نہیں آتی۔"
حاصل کلام
کسی کی مجبوری کا ناجائز فائدہ اٹھانا درحقیقت اپنا نقصان کرنا ہے۔
 

ذوالقرنین

لائبریرین
اعتماد کا بھرم

حسن میمندی سے سلطان محمود غزنوی کے مصاحبوں نے دریافت کیا۔" آج سلطان نے آپ سے کیا کیا باتیں کیں؟"
اس نے جواب دیا۔" یہ باہمی اعتماد کی بات ہے۔ گو یہ تم سے چھپی نہ رہیں گی لیکن جو کچھ سلطان مجھ سے کہہ دیتے ہیں آپ سے نہیں کہتے۔ یاد رکھو، سلطان کو مجھ پر بے حد اعتماد ہے۔ میں ان کے اعتماد کو ٹھیس نہیں پہنچا سکتا۔ جب تم جانتے ہو کہ میں تمہیں نہ بتاؤں گا تو پھر پوچھتے کیوں ہو؟"
حاصل کلام
اعتماد کا بھرم رکھنا انسان کی توقیر میں اضافہ کرتا ہے اور بداعتمادی ذلت و خواری کا باعث بنتی ہے۔
 

ذوالقرنین

لائبریرین
حکمت کی بات

کسی فقیر نے بحالت مجبوری اپنے دوست کی کملی چرا کر فروخت کر دی۔ معلوم ہونے پر گرفتار ہو کر قاضی کی عدالت میں پیش ہوا۔ قاضی نے شرعی حکم ہاتھ کاٹنے کا لگایا۔ کملی والے دوست نے سفارش کی اور کہا کہ میں نے اسے معاف کر دیا ہے۔
قاضی نے کہا۔" تیری سفارش اپنی جگہ، شرعی حد اپنی جگہ۔ اس فیصلہ میں کوئی رعایت نہیں ہے۔"
اس نے کہا۔" یہ درست ہے لیکن وقف مال سے چوری پر شرعی حد نافذ نہیں ہوتی۔ یاد رکھیں، فقیر کسی چیز کا مالک نہیں ہوتا اور جو فقیروں کے پاس ہے، وہ ضرورت مندوں پر وقف ہے۔"
قاضی نے اسے چھوڑ دیا اور ملامت شروع کر دی۔" کیا تجھے ایک ایسے دوست کے گھر سے چوری کرتے ہوئے شرم نہیں آئی؟ کیا ساری دنیا تجھ پر تنگ ہو گئی تھی؟"
فقیر نے جواب دیا۔" آپ کو معلوم نہیں کہ دوستوں کے گھر میں جاڑو پھیرنا دشمنوں کے دروازے کھٹکھٹانے سے بہتر ہے۔"
حاصل کلام
دوست کے سامنے شرمندگی، کسی دشمن کے سامنے ندامت سے بہتر ہے۔
 

ذوالقرنین

لائبریرین
بہشت اور دوزخ

کسی نے خواب میں دیکھا کہ ایک بادشاہ جنت میں اور نیک پارسا درویش دوزخ میں ہے۔ اس نے اس کی وجہ دریافت کہ اچھے اور برے درجوں کا کیا سبب ہے؟ حالانکہ لوگوں کی نظر میں بادشاہ کو دوزخ اور درویش کو جنت میں ہونا چاہیےتھا۔ غیب سے آواز آئی۔
"بادشاہ درویشوں سے عقیدت رکھتا تھا جبکہ درویش بادشاہوں کے تقرب کو باعث خوشنودی تصور کرتا تھا۔"
حاصل کلام
لوگ اپنے اپنے اعمال کی ہی بنا پر بہشت اور دوزخ میں جائیں گے۔
 

ذوالقرنین

لائبریرین
عادت فی الموت

ایک خوش مزاج بوڑھے نے اپنی بیٹی کی شادی ایک سنگدل موچی سے کردی۔ اس سنگدل نے لڑکی کا ہونٹ ایسا کاٹا کہ اس سے خون ٹپکنے لگا۔ صبح کو لڑکی کو اس حالت میں دیکھ کر بوڑھے نے داماد سے کہا۔
"اے سنگدل! تو نے اس کے ہونٹ چبائے ہیں یا پیار کیا ہے؟ وہ بوٹی تو نہیں ہے جو تو یوں چباتا رہے گا۔ اپنی اس عادت بد سے باز آؤ اور زندگی کا مزا اٹھاؤ۔"
حاصل کلام
بری عادت سے بچو۔ یہ مرتے دم تک پیچھا نہیں چھوڑتی۔
 

ذوالقرنین

لائبریرین
سمجھوتہ

ایک شخص کسی مسجد میں اس طرح اذان دیتا کہ سننے والوں کو نفرت ہو جاتی۔ مسجد کا نیک دل منتظم نہیں چاہتا تھا کہ اس موذن کو ہٹا دے اور اس کی روزی چھوٹ جائے۔ اس نے اس موذن سے کہا۔
"اے جوان مرد! اس سے پہلے موذن کی تنخواہ پانچ دینار تھا، میں تمہیں دس دینار پیش کرتا ہوں تم کسی اور جگہ چلے جاؤ۔"
سمجھوتے کے بعد وہ موذن مسجد چھوڑ کر چلا گیا۔ ایک دن سر راہ ملاقات ہوئی تو کہنے لگا۔" اے آقا! اے امیر! آپ نے میرے اوپر ظلم کیا کہ دس دینار مقرر کرکے مجھے اس جگہ سے علیحدہ کر دیا۔ اس لیے کہ میں جس جگہ گیا ہوں، وہ مجھے بیس دینار دے رہے ہیں کہ میں یہ جگہ چھوڑ کر دوسری جگہ چلا جاؤں۔ میں نہیں مان رہا ہوں۔"
نیک دل امیر ہنس پڑا اور بولا۔" ہرگز نہ لے لینا، کیونکہ وہ تو پچاس دینار دینے پر بھی آمادہ ہو جائیں گے۔"
حاصل کلام
اچھی آواز ہر ایک کو بھاتی ہے اور بری آواز بیزار کر دیتی ہے۔
 

ذوالقرنین

لائبریرین
خوبیاں اور خامیاں

کسی کے پاس ایک ایسا غلام تھا جو حسن و صورت، دوستی و دیانت داری کے ساتھ اسے بہت عزیز تھا۔ ایک دن اس نے اپنے ایک دوست سے کہا۔
"افسوس! میرا یہ غلام جس حسن صورت اور ناز و انداز کا مالک ہے، اتنا ہی زبان دراز اور بے ادب بھی ہے۔ کیا اچھا ہوتا کہ یہ حسن صورت کے ساتھ حسن سیرت کا مالک بھی ہوتا۔"
اس دوست نے کہا۔" اے بھائی! جب تو نے دوستی کا اقرار کر لیا ہے تو اس سے خدمت گاری کی توقع مت رکھ۔ جب عاشقی و معشوقی درمیان میں آ گئی تو مالکی اور مملوکی ختم ہوگئی۔"
حاصل کلام
ہر انسان میں کچھ خوبیاں اور کچھ خامیاں ہوتی ہیں۔ دوستی میں چند خوبیوں کی وجہ سے تمام خامیوں سمیت قبول کرنا پڑتا ہے۔
 

ذوالقرنین

لائبریرین
باعث عذاب

کسی شخص کی خوبصورت بیوی مر گئی اور بڑھیا جھگڑالو ساس مہر کی وجہ سے گھر میں مقیم رہی۔ مرد اس کی باتوں سے بہت رنجیدہ ہوتا لیکن اس کے ساتھ گزارہ کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہ تھا۔ ایک دن دوستوں نے اس سے پوچھا۔
"بتا، اپنے عزیز ساتھی کی جدائی میں تیرا کیا حال ہے؟"
اس شخص نے جواب دیا۔" وہ تو مر گئی مگر میں جھگڑالو ساس کی وجہ سے زندہ درگور ہوں۔"
حاصل کلام
جھگڑالو انسان باعث رحمت نہیں، باعث عذاب ہے۔
 

ذوالقرنین

لائبریرین
بڑھاپا اور جوانی

کسی بوڑھے نے ایک خوبصورت گوہر نامی نوعمر لڑکی سے شادی کر لی۔ موتیوں کی ڈبیہ کی طرح اس کو ہر کسی کی نگاہ سے چھپاتا۔ شادی کی رسم نبھانے کی خواہش رکھنے کے باوجود اس کے وجود میں جوانی کی تمام تر خصوصیات مدہم پڑ چکی تھیں۔ بڑھاپا ہر طرح سے غالب آ چکا تھا۔ دوستوں سے شکوہ کیا۔
"میرے گھر بار پر اس بے حیا نے جھاڑو پھیر دی ہے۔"
نوبت میاں بیوی میں یہاں تک پہنچی کہ ہر وقت گھر میں فتنہ فساد رہتا۔ آخر کار جھگڑا بڑھتے بڑھتے قاضی کی عدالت میں جا پہنچا۔ قاضی نے معاملہ یوں نپٹایا۔
"اے بوڑھے جوان! ملامت اور برائی کرنے سے بس کر۔ لڑکی کی خطا نہیں ہے۔ تیرا ہاتھ کانپتا ہے تو تو موتی کیسے پرو سکتا ہے۔"
حاصل کلام
بڑھاپے میں جوان رعنا لڑکی سے شادی کرنا حماقت ہے اور باعث فتنہ و فساد ہے۔
 

ذوالقرنین

لائبریرین
بنجر زمین

کسی بادشاہ نے اپنا ایک بیٹا کسی استاد کے سپرد کیا کہ اس کی تربیت ایسی کر جیسی کہ تو اپنے لڑکے کی تربیت کر رہا ہے۔ ایک سال کی بھرپور محنت کے بعد شہزادہ ویسے کا ویسا ہی رہا جب کہ استاد کا لڑکا کمال و وصاحت میں بلند مقام پر پہنچ گیا۔
بادشاہ نے استاد کی گرفت کی اور بہت ناراض ہوا کہ تو نے اپنا وعدہ پورا نہ کیا ہے۔ استاد نے کہا۔" اے بادشاہ! تربیت تو یکساں ہے لیکن طبیعتیں مختلف ہیں۔"
حاصل کلام
کلر زمین ہمیشہ بنجر ہی رہتی ہے چاہے لاکھ جتن کئے جائیں۔
 

الف عین

لائبریرین
بالکل انکل! میں انہیں مخزق اخلاق سے لکھ رہا ہوں۔ میرا تو پہلے سے ہی ارادہ تھا آپ کو یہی کہنے کا کہ انہیں بھی کتاب میں شامل کر لیں۔:):):)
آخر میں مکمل حوالہ لکھ دینا، اور مجھے ای میل بھی کر دینا مکمل فائل، ٹیکسٹ یا ورڈ۔
 

ذوالقرنین

لائبریرین
بخشش کا دارومدار

ایک امیر لڑکا اپنے باپ کی تربت پر بیٹھا ہوا ایک فقیر کے بیٹے کے ساتھ بحث کر رہا تھا کہ میرے باپ کی قبر کا تعویز پتھر کا، کتبہ رنگین اور فرش پتھر کا اور فیروزے کی اینٹیں اس میں جڑی ہوئی ہیں، جبکہ تیرے باپ کی قبر صرف کچی ٹوٹی پھوٹی اینٹوں پر مشتمل ہے۔ فقیر کے لڑکے نے یہ سنا اور کہا۔
"جب تک تیرا باپ ان بھاری پتھروں کے نیچے سے ذرا بھی ہلے گا میرا باپ جنت میں پہنچ چکا ہوگا۔ (حدیث کے مطابق)۔"
فقراء کی موت ان کے لیے راحت اور اغناء کی موت ان کے لیے حسرت کا باعث ہوتی ہے۔ فقراء کے پاس کوئی ایسی چیز نہیں ہوتی کہ اسے حسرت سے چھوڑ جائیں۔
حاصل کلام
بخشش کا دار و مدار کچی پکی قبر نہیں بلکہ اعمال پر ہے۔
 

ذوالقرنین

لائبریرین
مکار لومڑی
مرغ اور کتا باہمی دوستی کے ساتھ جنگل میں سفر کر رہے تھے۔ چلتے چلتے شام ہوگئی۔ ایک پرانا پیڑ نظر آیا۔ مرغ اس کی ایک شاخ پر جا بیٹھا اور کتا پیڑ کے تنے کی کھوہ میں گھس گیا۔
صبح ہوئی تو مرغ نے اپنے پر پھڑ پھڑاتے ہوئے اذان دینی شروع کر دی۔ لومڑی اس کی آواز سن کر اس طرف آ نکلی اور سوچا ناشتہ اچھا ہے مگر مشکل یہ آن پڑی کہ مرغ پیڑ کی شاخ پر تھا۔ لومڑی نے چال چلی اور بولی۔
"اے تیرے صدقے واری، کتنی پیاری آواز ہے۔ آپ سے ملنے کا بے حد شوق ہے۔ ذرا نیچے تو آئیے۔"
مرغ لومڑی کی مکاری سے آگاہ تھا۔ ہنس کر بولا۔" اوپر تشریف لے آئیں، راستہ درخت کے تنے کی کھوہ میں ہے۔"
لومڑی درخت کے تنے کی کھوہ میں گھسی تو کتے نے اسے چیر پھاڑ ڈالا۔
حاصل کلام
مکاری کا انجام برا ہوتا ہے۔
 

ذوالقرنین

لائبریرین
ہرگام پر دو نفل
کوئی شخص حج کرنے نکلا۔ ہر دو گام پر دو رکعت نماز پڑھتا اور پھر آگے بڑھتا۔ سفر حج کے محویت میں اسے کسی بھی تکلیف کا احساس نہ ہو رہا تھا۔ شیطان نے اس کے دل میں وسوسہ ڈالا۔​
"تیرا سفر سب سے زیادہ بابرکت اور موجب ثواب ہے۔ اس جیسا مبارک حج کسی نے بھی نہ کیا ہوگا۔"​
ابھی اسی وسوسہ میں وہ محو ہی تھی کہ اللہ پاک نے اس کی دستگیری کی اور فخر و غرور کی وجہ سے گمراہ ہونے سے بچانے کے لیے ایک غیبی آواز کی صورت میں رہنمائی فرمائی:​
"اے نیک بخت! اپنی نیکی پر غرور نہ کر۔ اس میں تیرا کیا کمال ہے اور تو کیا بڑا تحفہ لے کر راہ حق میں آیا ہے۔ یاد رکھ، آزردہ دل کو آرام پہنچانا تیرے جیسی ہزار رکعتوں سے بہتر ہے۔"​
حاصل کلام
نفلی عبادت سے بہتر آزردہ دلوں کو راحت پہنچانا اور غریبوں کی خدمت کرنا ہے۔​
 

ذوالقرنین

لائبریرین
شیر کی کھال
ایک گدھے نے کہیں سے شیر کی کھال حاصل کرکے اپنے جسم پر اوڑھ لی۔ اب وہ جنگل میں جس طرح جاتا سبھی جانور اس کو دیکھ کر بھاگتے۔ گدھا بڑا خوش تھا کہ جنگل کے جانور اسے شیر سمجھتے ہیں اور ڈرتے ہیں۔​
اسی غرور میں گدھا ایک دن جنگل میں گھوم پھر کر جانوروں پر اپنی دہشت طاری کر رہا تھا کہ اچانک ایک کچھار سے شیر نکل آیا مگر گدھا ذرا نہ گھبرایا اور اسی ٹھاٹھ سے چلتا رہا۔ شیر نے اسے غور سے دیکھا تو نقلی شیر کو پہچان لیا۔ بپھر گیا اور گرجا۔​
"آخر گدھا ہے نا۔ گدھے میں عقل کہاں؟ شیر کی کھال اوڑھ کر نقلی شیر بن گیا لیکن شیر کی طرح چلنا نہ سیکھا۔"​
اتنا کہہ کر شیر نے گدھے پر حملہ کر دیا اور اسے ادھیڑ کر رکھ دیا۔​
حاصل کلام
نقلی چیز اصل نہیں ہو سکتی۔​
 

ذوالقرنین

لائبریرین
طاقت کا جواب
ایک دن ہوا اور سورج کے درمیان مباحثہ ہو گیا۔ ہوا بولی۔" میں تم سے زیادہ طاقتور ہوں۔ میری لہریں تمہاری شعاعوں کو کمزور کر دیتی ہے۔"​
یہ سن کر سورج غصے بھرے لہجے میں بولا۔" میں تو طاقت کا خزانہ ہوں۔ تو نے میری طاقت کو ابھی تک تسلیم نہیں کیا۔"​
جواب میں ہوا نے قہقہہ لگاتے ہوئے کہا۔" اپنا ثانی دنیا میں کوئی نہیں۔ خشکی پر تیز چلتی ہوں تو درختوں کو اکھاڑ دیتی ہوں۔ سمندر پر تیز چلوں تو طوفان اٹھا دیتی ہوں۔"​
سورج نے غصے میں کہا۔" اپنے منہ میاں مٹھو بننے کا کوئی فائدہ نہیں، باتیں نہ بناؤ، مجھے قائل کرنا ہے تو اپنی طاقت دکھاؤ۔"​
یہ سن کر ہوا نے ایک شخص کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔" دیکھو، میدان میں موجود اس شخص کے جو کپڑے اتار دے، وہ طاقتور ہے۔"​
"ٹھیک ہے۔ مقابلہ منظور ہے۔" سورج نے ہوا سے کہا۔" چل تو اپنی طاقت کا مظاہرہ پہلے دکھلا۔"​
یہ سنتے ہی ہوا تیز تیز چلنے لگی۔ اس شخص کے کپڑے پھڑ پھڑائے تو اس نے جلدی سے انہیں اپنے جسم پر دونوں ہاتھوں سے مضبوطی سے سمیٹ لیا۔ ہوا نے بھرپور زور لگایا لیکن اس کے کپڑے جسم سے نہ اتار سکی۔ اپنا پورا زور لگا کر تھک گئی۔ ہانپتے ہوئے شرم سے گردن جھکا کر ایک طرف ہٹ گئی۔​
اب سورج نے اپنی طاقت کا مظاہرہ کیا۔ اس کی تیز شعاعیں میدان میں اتر آئیں تو میدان میں قیامت آ گئی۔ گرمی سے مسافر کا برا حال ہونے لگا۔ سارے بدن سے پسینے کے فوارے چھوٹ گئے۔ لب خشک اور منہ لال سرخ ہو گیا۔ گھبرا کر اس نے کپڑے اتار کر ایک طرف رکھ دئیے۔ سورج نے فاتحانہ قہقہہ لگایا اور کہا۔​
"دیکھی میری طاقت۔ آئندہ کے لیے توبہ کر اور کبھی اپنی طاقت پر غرور نہ کرنا۔"​
حاصل کلام
طاقت کا جواب طاقت ہی سے دیا جا سکتا ہے، باتوں سے نہیں۔​
 

ذوالقرنین

لائبریرین
سونے کا نوالہ
ایک چوہا کسی جنگل میں بھوک کی مصیبت سہتا تھا لیکن آزادی سے رہتا تھا۔ نہ کسی دشمن کا ڈر اور نہ ہی کسی چیز کا خطرہ۔​
ایک دن قصبہ سے چوہے کا ایک مہمان آیا اور جنگل میں دو روز گزارنے کے بعد اس چوہے سے بولا۔" تمہاری زندگی قابل افسوس ہے۔ فاقوں مرتے ہو اور روکھی سوکھی کھاتے۔ چلو تم میرے ساتھ میرے گھر، وہاں تمہیں کھانے کو مرغن غذائیں، گھی، دودھ، پستہ، بادام، گری اور اخروٹ وغیرہ کھلاؤں گا۔"​
جنگل کے چوہے کے منہ میں پانی بھر آیا۔ بڑا خوش ہوا۔ اس کے ساتھ تیاری کرکے اس کے گھر قصبہ میں آ گیا۔ ہر طرف عیش و عشرت کا سامان دیکھ کر خوشی سے پاگل ہو گیا۔ اچھی اچھی چیزوں پر ٹوٹ پڑا اور دل میں کہتا جاتا تھا کہ اب کبھی جنگل میں نہ جاؤں گا۔ رات دن یہیں رہوں گا اور مزے اڑاؤں گا۔ ابھی وہ مزے لوٹ ہی رہا تھا کہ ایک بچہ اندر آیا۔ اس نے چوہا دیکھا تو ایک پتھر اٹھا کر مارا۔ اگر جنگلی چوہا بھاگ کر بل میں نہ گھس جاتا تو اس کا کچومر نکل جاتا۔​
تھوڑی دیر کے انتظار کے بعد جنگلی چوہا گری بادام کے مزے کے لیے دوبارہ باہر نکل آیا۔ بڑی احتیاط سے گری بادام کی طرف سرکنا شروع کیا۔ ابھی اس نے گری پر دانت جمائے ہی تھے کہ دوبارہ دروازہ کھلا اور آنے والے نے پھر پتھر پھینکا۔​
چوہے کی قسمت اچھی تھی کہ نشانہ چوک جانے سے پھر بچ گیا اور بھاگ کر بل میں چھپ گیا۔ مارے ڈر کے اس کا برا حال ہو رہا تھا۔ اپنے دل میں کہنے لگا کہ لعنت ہے ایسی گری بادام کھانے پر جس میں جان جانے کا ڈر ہو۔ ایسا عیش بیکار ہے جس میں جینا دشوار ہے۔ جنگل میں تو مجھے کچھ خوف نہ تھا۔ روکھی سوکھی ہی سہی لیکن حرام موت مرنے کا کوئی ڈر نہ تھا۔ جو مزا آزادی میں ہے وہ کسی چیز میں نہیں ہے۔ یہ کہہ کر وہ چپکے سے جنگل کی طرف روانہ ہو گیا۔​
حاصل کلام
آزادی سب سے بڑی نعمت ہے۔ غلامی میں سونے کے نوالے کس کام کے جہاں ہر وقت موت کا ڈر خوف ہو۔​
 

ذوالقرنین

لائبریرین
سچائی کا بول بالا
ندی کنارے ایک لکڑ ہارا سوکھے درخت کو کلہاڑی سے کاٹ رہا تھا۔ اچانک کلہاڑی اس کے ہاتھ سے چھوٹ کر ندی میں جا گری۔ لکڑ ہارے کو بہت افسوس ہوا اور رنجیدگی کے عالم میں وہ خدا کے حضور سجدہ ریز ہو کر گڑگڑا کر التجا کرنے لگا۔​
"خدائے کریم! میرے غریب کے حال پر رحم فرما، تجھے علم ہے کہ میں سوئی تک تو خرید نہیں سکتا۔ کلہاڑی کیسے خریدوں گا؟ بغیر کلہاڑی لکڑیاں کیسے کاٹوں گا؟ لکڑیاں نہ کاٹیں تو روٹی کہاں سے کھاؤں گا؟ میں اور میرے بچے بھوکے مر جائیں گے۔"​
لکڑہارے کی فریاد ابھی ختم نہ ہوئی تھی کہ ندی کی لہروں میں ہلچل پیدا ہوئی۔ لہروں سے ایک فرشتہ نمودار ہوا اور اس نے کہا۔" کیا یہ سونے کی کلہاڑی تمہاری ہے؟"​
لکڑہارے نے جواب دیا۔" جی نہیں۔ مفلس و نادار کا اس کلہاڑی سے کیا واسطہ؟"​
جواب سن کر فرشتہ نے ندی کی لہروں میں غوطہ لگایا اور پھر تھوڑی دیر بعد نمودار ہو کر کہنے لگا۔" کیا یہ چاندی کی کلہاڑی تمہاری ہے؟"​
لکڑہارے نے پھر انکار کر دیا۔ فرشتہ پھر ندی میں غائب ہو گیا۔ تھوڑی دیر بعد نمودار ہو کر کہنے لگا۔" کیا یہ لوہے کی کلہاڑی تمہاری ہے؟"​
"ہاں جناب! یہی میری کلہاڑی ہے۔ آپ کی بڑی مہربانی۔"​
فرشتہ اس سچائی پربہت خوش ہوا۔ لوہے کی کلہاڑی لکڑ ہارے کو دیتے ہوئے کہنے لگا۔" یہ سونے اور چاندی کی دونوں کلہاڑیاں بھی تمہیں سچ بولنے کا انعام دیا جاتا ہے۔"​
حاصل کلام
ہمیشہ سچ بولنا چاہیے۔ سچائی سے فائدہ ہوتا ہے، چاہے ذرا دیر سے ہو۔​
 

ذوالقرنین

لائبریرین
حیلہ ساز
کسی شخص نے لڑکے کی پیدائش کی خوشی میں دوستوں کی دعوت کی۔ وہ تین بکرے ذبح کرا کر دوستوں کے لیے لذیذ کھانے تیار کروائے۔ رات کو سب دوست دعوت میں شریک طعام ہوئے۔ ابھی وہ کھانا کھا ہی رہے تھے کہ کہیں سے بھیڑیے کی ڈراؤنی آواز سنائی دی۔ دعوت کھانے والوں میں ایک شخص درندوں کی بولی سمجھتا تھا۔ دوسرے نے اس سے کہا۔​
"ارے میاں سنو۔ یہ بھیڑیا کیا کہہ رہا ہے۔"​
اس نے جواب دیا۔" یہ کہتا ہے۔ اے انسان! تو بھی کتنا عجیب ہے۔ خود تو بکرے کے گوشت کو مزے مزے سے چٹخارے لے کر کھاتا ہے لیکن جب میں تقلید کرتا ہوں تو شور مچاتا ہے کہ بھیڑیا بکرے کو کھا گیا۔"​
حاصل کلام
حیلہ ساز خود سچا ہونے کے لیے کوئی نہ کوئی حیلہ بہانہ تراش لیتا ہے۔​
 
Top