ذوالقرنین
لائبریرین
اللہ نظر کیوں نہیں آتا؟
ایک شخص نے کسی درویش سے پوچھا۔" اگر اللہ ہے تو نظر کیوں نہیں آتا؟ جنات کو اللہ نے آگ سے بنایا ہے۔ ان کو جہنم کی آگ میں جھونکنے سے کیا تکلیف ہوگی؟ میرے گناہوں کی سزا مجھے کیوں ملے گی جبکہ اللہ کے حکم کے بغیر ایک پتا بھی نہیں ہلتا؟"
یہ سن کر درویش نے غصہ میں آ کر ایک ڈھیلا اٹھا کر اسے مارا۔ اس شخص کا سر پھٹ گیا۔ وہ سیدھا قاضی کی عدالت میں پہنچا اور اپنی درد بھری کہانی سنائی اور داد رسی چاہی۔ قاضی نے درویش کو بلا کر باز پرس کی۔ درویش نے جواب دیا۔
"یہ شخص ٹھیک کہتا ہے۔ اس بد عقیدہ شخص سے مجھے کچھ پوچھنے کی اجازت دی جائے۔"
قاضی نے اجازت دے دی۔ درویش نے اس شخص سے پوچھا۔
"تو کہتا ہے کہ تیرا سر زخمی ہونے سے تجھے تکلیف ہو رہی ہے لیکن مجھے تکلیف نظر نہیں آتی۔ خدا نے تجھے مٹی سے بنایا ہے تو پھر مٹی کے ڈھیلے سے تیرا سر کیوں پھٹ گیا۔ بتا، میں تیری نظر وں میں تجھے ڈھیلہ مارنے کا مجرم کیسے ٹھہرا جبکہ خدا کے حکم کے بغیر کوئی پتا بھی نہیں ہلتا۔"
وہ شخص لاجواب ہو گیا۔ ایک لفظ بھی اس کی زبان سے ادا نہ ہو سکا۔ قاضی نے درویش کو بری کر دیا اور اس شخص کو بری لعن طعن کی۔
حاصل کلام
خداوند کریم پر نکتہ چینی کرنے والا خود ذلیل و خوار ہوتا ہے۔