ذوالقرنین

لائبریرین
اللہ نظر کیوں نہیں آتا؟
ایک شخص نے کسی درویش سے پوچھا۔" اگر اللہ ہے تو نظر کیوں نہیں آتا؟ جنات کو اللہ نے آگ سے بنایا ہے۔ ان کو جہنم کی آگ میں جھونکنے سے کیا تکلیف ہوگی؟ میرے گناہوں کی سزا مجھے کیوں ملے گی جبکہ اللہ کے حکم کے بغیر ایک پتا بھی نہیں ہلتا؟"​
یہ سن کر درویش نے غصہ میں آ کر ایک ڈھیلا اٹھا کر اسے مارا۔ اس شخص کا سر پھٹ گیا۔ وہ سیدھا قاضی کی عدالت میں پہنچا اور اپنی درد بھری کہانی سنائی اور داد رسی چاہی۔ قاضی نے درویش کو بلا کر باز پرس کی۔ درویش نے جواب دیا۔​
"یہ شخص ٹھیک کہتا ہے۔ اس بد عقیدہ شخص سے مجھے کچھ پوچھنے کی اجازت دی جائے۔"​
قاضی نے اجازت دے دی۔ درویش نے اس شخص سے پوچھا۔​
"تو کہتا ہے کہ تیرا سر زخمی ہونے سے تجھے تکلیف ہو رہی ہے لیکن مجھے تکلیف نظر نہیں آتی۔ خدا نے تجھے مٹی سے بنایا ہے تو پھر مٹی کے ڈھیلے سے تیرا سر کیوں پھٹ گیا۔ بتا، میں تیری نظر وں میں تجھے ڈھیلہ مارنے کا مجرم کیسے ٹھہرا جبکہ خدا کے حکم کے بغیر کوئی پتا بھی نہیں ہلتا۔"​
وہ شخص لاجواب ہو گیا۔ ایک لفظ بھی اس کی زبان سے ادا نہ ہو سکا۔ قاضی نے درویش کو بری کر دیا اور اس شخص کو بری لعن طعن کی۔​
حاصل کلام
خداوند کریم پر نکتہ چینی کرنے والا خود ذلیل و خوار ہوتا ہے۔​
 

ذوالقرنین

لائبریرین
جہالت کا نقصان
ایک ٹڈا کسی شاخ پر بیٹھا سیٹیاں بجا رہا تھا۔ ایک گدھا قریب سے گزرا۔ ٹڈے کی سیٹیاں سن کر اس کے کان کھڑے ہو گئے۔ ٹڈے سے کہنے لگا۔​
"ٹڈے میاں! تمہاری آواز بڑی سریلی ہے۔ میں تو اس پر عاشق ہو گیا ہوں۔ تم کیا کھاتے ہو؟ بتاؤ، میں بھی وہی غذا استعمال کرکے اپنی آواز تمہاری طرح سریلی بنا سکوں۔"​
ٹڈا اپنی آواز کی تعریف سن کر بڑا خوش ہوا اور بولا۔​
"تم میرے دوست ہو۔ کبھی کبھی میں شاخ سے اچھل کر تمہاری گردن پر بیٹھ جاتا ہوں تو مجھے پنگوڑے کا مزا آتا ہے۔ تم اپنی گردن ہلا کر مجھے خوش کر دیتے ہو۔ آج تمہیں اپنی آواز سریلی بنانے کا خیال آیا ہے۔ بڑی اچھی بات ہے۔ ہے تو راز کی بات لیکن میں تمہیں بتائے دیتا ہوں۔ دیکھو، یہ راز کسی اور کو مت بتانا۔ تم خود اس سے فائدہ اٹھاؤ۔"​
گدھے نے قسم اٹھا کر یقین دہانی کرائی کہ وہ یہ راز کسی کو نہیں بتائے گا تو ٹڈے نے کہا۔" اوس کھایا کرو۔"​
گدھا یہ سن کر بہت خوش ہوا۔ سب کھانا پینا چھوڑ کر اوس چاٹنا شروع کر دی۔ چند ہی دنوں میں بھوک پیاس کی شدت سے مر گیا۔​
حاصل کلام
جہالت ہمیشہ نقصان دہ ثابت ہوتی ہے۔​
 

شمشاد

لائبریرین
سچائی کا بول بالا

ندی کنارے ایک لکڑ ہارا سوکھے درخت کو کلہاڑی سے کاٹ رہا تھا۔ اچانک کلہاڑی اس کے ہاتھ سے چھوٹ کر ندی میں جا گری۔ لکڑ ہارے کو بہت افسوس ہوا اور رنجیدگی کے عالم میں وہ خدا کے حضور سجدہ ریز ہو کر گڑگڑا کر التجا کرنے لگا۔
"خدائے کریم! میرے غریب کے حال پر رحم فرما، تجھے علم ہے کہ میں سوئی تک تو خرید نہیں سکتا۔ کلہاڑی کیسے خریدوں گا؟ بغیر کلہاڑی لکڑیاں کیسے کاٹوں گا؟ لکڑیاں نہ کاٹیں تو روٹی کہاں سے کھاؤں گا؟ میں اور میرے بچے بھوکے مر جائیں گے۔"
لکڑہارے کی فریاد ابھی ختم نہ ہوئی تھی کہ ندی کی لہروں میں ہلچل پیدا ہوئی۔ لہروں سے ایک فرشتہ نمودار ہوا اور اس نے کہا۔" کیا یہ سونے کی کلہاڑی تمہاری ہے؟"
لکڑہارے نے جواب دیا۔" جی نہیں۔ مفلس و نادار کا اس کلہاڑی سے کیا واسطہ؟"
جواب سن کر فرشتہ نے ندی کی لہروں میں غوطہ لگایا اور پھر تھوڑی دیر بعد نمودار ہو کر کہنے لگا۔" کیا یہ چاندی کی کلہاڑی تمہاری ہے؟"
لکڑہارے نے پھر انکار کر دیا۔ فرشتہ پھر ندی میں غائب ہو گیا۔ تھوڑی دیر بعد نمودار ہو کر کہنے لگا۔" کیا یہ لوہے کی کلہاڑی تمہاری ہے؟"
"ہاں جناب! یہی میری کلہاڑی ہے۔ آپ کی بڑی مہربانی۔"
فرشتہ اس سچائی پربہت خوش ہوا۔ لوہے کی کلہاڑی لکڑ ہارے کو دیتے ہوئے کہنے لگا۔" یہ سونے اور چاندی کی دونوں کلہاڑیاں بھی تمہیں سچ بولنے کا انعام دیا جاتا ہے۔"
حاصل کلام
ہمیشہ سچ بولنا چاہیے۔ سچائی سے فائدہ ہوتا ہے، چاہے ذرا دیر سے ہو۔
اس کے آگے کی بھی تو سُنیں۔
لکڑ ہارا اپنی بیوی کے ساتھ دریا کنارے جا رہا تھا کہ اس کی بیوی دریا میں گر گئی۔ اس نے گڑگڑا کر دعا مانگی۔ دریا میں ہلچل ہوئی اور فرشتہ ایک بہت ہی خوبصورت اور نوجوان لڑکی کو لے کر حاضر ہوا اور اس سے کہنے لگا "کیا یہ تمہاری بیوی ہے؟"
لکڑ ہارے نے فوراً ہاں کر دی کہ ہاں یہی میری بیوی ہے۔
فرشتے کو غصہ آیا اور کہنے لگا۔ تم نے جھوٹ بولا ہے۔ تمہیں اس کی سزا ملنی چاہیے۔
لکڑ ہارا گڑگڑا کر بولا، پہلے میری بات سُن لو پھر جو چاہے مجھے سزا دینا۔
فرشتے کی رضامندی پر لکڑ ہارا بولا، پچھلی دفعہ جب میرا کلہاڑا دریا میں گر گیا تھا تو تم نے مجھے اپنے اصلی کلہاڑے کی شناخت پر مزید دو عدد کلہاڑے میری ایمانداری کے انعام میں دیئے تھے۔
اب اگر میں پہلے والی لڑکی کو شناخت نہ کرتا تو تم دوسری لڑکی دکھا کر پوچھتے، میں اسے بھی شناخت نہ کرتا پھر تم میری اصلی بیوی کو لے آتے اور میں اسے شناخت کر لیتا تو تم پہلی دو بھی مجھے انعام کے طور پر دے دیتے۔
میں تو ایک کو بڑی مشکل سے برداشت کر رہا ہوں، تین تین کو کیسے برداشت کرتا، اس لیے میں نے جلدی سے پہلی پر ہی اکتفا کیا تھا۔
حاصل کلام : خود اخذ کریں۔
 

ذوالقرنین

لائبریرین
بہت زبردست شمشاد بھائی! آج شام تیاری کرکے سونا۔ سعدی صاحب آپ کی خبر لینے ضرور نیند میں آ جائے گا۔ آپ نے اس کے سٹوری کو لو سٹوری بنا دیا۔:laugh:
 

ذوالقرنین

لائبریرین
ایک اکیلا دو گیارہ
ایک شخص کے کئی لڑکے تھے جو ہر وقت آپس میں لڑتے جھگڑتے رہتے تھے۔ باپ نے کئی بار انہیں سمجھایا لیکن ان پر کوئی نصیحت کارگر نہ ہوئی۔ ایک دن اس نے انہیں سبق سکھانے کے لیے کہ اتحاد میں کتنی طاقت ہے، انہیں پتلی پتلی ٹہنیاں لانے کو کہا۔ تمام لڑکے گئے اور ٹہنیاں لے آئے۔ ان کے باپ نے ان ٹہنیوں کو ایک باندھ کر گٹھا بنایا اور لڑکوں سے کہا کہ وہ باری باری زور آزمائی کریں اور اس گٹھے کو توڑ دیں۔ ہر لڑکے نے اپنی اپنی جگہ بے حد زور آزمائی کی لیکن توڑنے میں ناکام رہے۔​
اب اس نے اس گٹھے کو کھول کر ٹہنیاں علیحدہ علیحدہ کر دیں اور ایک ایک ٹہنی ہر ایک تھما کر توڑنے کو کہا۔ ہر لڑکے نے اپنے حصے کی ٹہنی آسانی سے توڑ دی۔ باپ نے کہا۔​
"میرے بیٹو! غور سے سنو۔ اگر تم ان ٹہنیوں کی طرح اکٹھے رہو گے اور تم میں ایکا رہے گا اور اتحاد ہو گا۔ یک جان ہو کر زندگی بسر کرو گے تو تمہیں کوئی نقصان نہ پہنچا سکے گا۔ جو بھی اس حال میں تم سے لڑے گا، تم پر فتح نہ پا سکے گا۔ اگر تم علیحدہ علیحدہ رہو گے تو آسانی سے مارے جاؤ گے۔"​
حاصل کلام
اتحاد میں بڑی برکت ہے۔ اتحاد کی بدولت کسی قوم کو بڑے سے بڑا دشمن بھی نیچا نہیں دکھلا سکتا۔​
 

ذوالقرنین

لائبریرین
شیخی کا انجام
کسی گاؤں کے رہنے والے ایک شخص نے کافی عرصہ پردیس میں زندگی گزاری۔ واپس آیا تو وہ گاؤں والوں پر اپنی دھاک بٹھانے کے لیے انہیں عجیب و غریب باتیں سناتا۔ ایک روز کہنے لگا۔​
"جس وقت میں کابل گیا تو وہاں میں نے ایسی بلند چھلانگ لگائی کہ ایک بڑے اونچے درخت کو پھاند گیا اور اس درخت پر بیٹھے ہوئے تمام پرندے اڑ گئے۔ اگر کسی کو میری اس بات پر یقین نہیں ہے تو کابل جا کر تصدیق کر سکتا ہے۔"​
یہ سن کر ایک دانا شخص بولا۔" کابل جانے کی کیا ضرورت ہے۔ ہاتھ کنگن کو آر سی کیا۔ یہ رہا اونچا درخت، لگاؤ چھلانگ اور اس کو پھاند جاؤ۔"​
یہ سن کر شیخی باز سناٹے میں آ گیا۔ لگا بغلیں جھانکنے۔ سب اس پر پھبتیاں کسنے لگے۔​
حاصل کلام
شیخی مارنے کا انجام شرمندگی اور ندامت کے سوا کچھ بھی نہیں۔​
 

ذوالقرنین

لائبریرین
سیاہ گوش اور شیر
سیاہ گوش سے لوگوں نے پوچھا۔" تجھے شیر کا ساتھ کیوں پسند آیا۔"​
سیاہ گوش نے جواب میں کہا۔" وہ اس لیے کہ میں اس کا بچا کچھا بھی کھا لیتا ہوں اور دشمنوں کے شر سے بھی بچا رہتا ہوں کہ شیر کے دبدبے اور خوف سے کوئی میرے نزدیک نہیں آتا۔ شیر کی پناہ میں زندگی بڑے مزے سے گزرتی ہے۔"​
پوچھا گیا۔" پھر کیا وجہ ہے کہ تو اس کی مہربانیوں کے اقرار کے باوجود بھی اس کے زیادہ نزدیک نہیں جاتا۔"​
سیاہ گوش نے جواب دیا۔" دانش مندی کا تقاضا یہ ہے کہ اس سے دور رہوں اور محفوظ رہوں۔ ہو سکتا ہے کہ شیر کا مزاج کسی وقت بگڑ جائے اور وہ مجھے اپنا لقمہ بنا لے۔ اس لیے فاصلے پر رہنا ہی بہتر ہے۔"​
حاصل کلام
دانش مندی سے انسان ہزار ہا مصیبتوں سے بچا رہتا ہے۔​
 

ذوالقرنین

لائبریرین
اطمینان قلب کی نعمت
کسی بزرگ سے سوال کیا گیا۔" تصوف کی حقیقت کیا ہے؟"​
بزرگ نے جواب دیا۔" داناؤں کا ایسا گروہ جس کا دل مطمئن اور صورت پراگندہ ہوتی ہے۔ جبکہ آج کا انسان وہ مخلوق ہے جس کا دل پراگندہ اور ظاہر مطمئن ہے۔"​
حاصل کلام
اطمینان قلب ایک ایسی نعمت ہے جو بہت کم حاصل ہوتی ہے۔ لاکھ خزانوں کا مالک ہو کر بھی انسان اطمینان قلب سے محروم رہتا ہے اور ایک مفلس اس سے مالا مال ہوتا ہے۔​
 

ذوالقرنین

لائبریرین
جادو
دورانِ سفر حجاز، صاحب دل جوانوں کا ایک گروہ ایک دوسرے کے ساتھ محققانہ شعر پڑھتے جا رہے تھے اور گانا گا رہے تھے۔​
مقام بخیل میں ایک حبشی نے یہ حالت دیکھ کر کہا۔​
"کیا سریلی آواز ہے۔ اڑتے ہوئے پرندے بھی مسحور ہو کر بیٹھ گئے۔ اونٹ ناچنے لگے۔ ہم سب جاگ رہے تھے لیکن یوں محسوس ہوا جیسے سو رہے ہیں۔"​
حاصل کلام
سریلی آواز میں جادو ہے۔​
 

ذوالقرنین

لائبریرین
حقیقی طاقتور
ایک پہلوان کسی کے گالی دینے پر غصہ میں انتہائی لال پیلا ہو رہا تھا۔ اس کے منہ سے جھاگ نکل رہا تھا۔​
کسی صاحب نے پوچھا۔" پہلوان کو کیا ہوا؟"​
جواب ملا۔" کسی کی گالی پر سیخ پا ہو رہا ہے۔ اگر وہ سامنے آ جائے تو اسے ابھی کچا چبا جائے۔"​
صاحب نے کہا۔" یہ غصے کا اتنا زہریلا ہے؟ جو دو چار من کا بوجھ تو اٹھا سکتا ہے ، ذرا سی بات کا وزن برداشت نہیں کر سکتا۔"​
حاصل کلام
در حقیقت طاقتور وہی ہے جو قوت برداشت رکھتا ہو۔ تحمل مزاجی سے ہر بگڑا کام درست ہو جاتا ہے۔​
 

ذوالقرنین

لائبریرین
روح کا روگ
ایک بادشاہ درویشوں کو حقارت بھری نظروں سے دیکھتا تھا۔ ایک نڈر درویش نے اس سے کہا۔​
"اے بادشاہ! تیرے پاس بے شک لشکر ہے۔ خزانہ ہے۔ اور تو ہم سے زیادہ اس دنیا میں عیش کرتا ہے اور خوش رہتا ہے۔ لیکن یاد رکھ، ہمارے پاس قناعت جیسی نعمت موجود ہے۔ بے شک ہم تجھ سے دنیاوی لحاظ سے کمتر ہیں لیکن روز محشر تم سے برتر ہوں گے۔ مرنے میں ہم سب برابر ہیں۔"​
درویش کی اس بات سے بادشاہ بہت شرمندہ ہوا اور آئندہ کبھی کسی بھی درویش کو حقارت بھری نظروں سے نہ دیکھا۔​
حاصل کلام
روح کا روگ نفرت و حقارت ہوتا ہے۔ اس سے بچنا چاہیے۔ خدا کی نظر میں ساری مخلوق ایک سی ہے۔​
 

ذوالقرنین

لائبریرین
ایمان کی باتیں
کسی مستند عالم کا کسی بے دین سے مناظرہ ہو گیا۔ کسی بھی دلیل سے بے دین مطمئن نہ ہوا۔ عالم ہارنے کے بعد دل گرفتہ گھر واپس آ گیا۔ کسی نے پوچھا۔" اتنے بڑے عالم ہو کر بھی اسے کسی دلیل سے تم مطمئن نہ کر سکے۔ کیا وجہ ہے؟"​
اس نے کہا۔" میرا علم تو قرآن و حدیث اور بزرگوں کے اقوال ہیں۔ وہ نہ ان کو مانتا ہے اور نہ ہی سننے کو تیار ہے۔ پھر اس کے کفر کی باتیں میرے کس کام کی؟"​
حاصل کلام
ایمان کی باتیں کافر کی سمجھ سے بالاتر ہیں۔​
 

ذوالقرنین

لائبریرین
اطاعت کا انعام
عرب کے کسی بادشاہ نے حکم دیا کہ فلاں شخص کی تنخواہ دگنی کر دی جائے کیونکہ وہ ایسا وفادار ہے کہ اس کا کوئی ثانی نہیں۔ ہر وقت حکم کا منتظر رہتا ہے۔ دوسرے تمام ملازم عیش کوشی میں مبتلا رہتے ہیں اور خدمت بجا لانے میں سستی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔​
حاصل کلام
اطاعت گزاری بڑی چیز ہے اور خدا بھی ایسے لوگوں پر مہربان ہوتا ہے۔ جو خدمت کا سر دہلیز پر رکھتا ہے، اس کی پیشانی نیک لوگوں کی سی ہے۔​
 

ذوالقرنین

لائبریرین
مظلوم کی آہ
ایک ظالم ہر وقت ظلم کرنے میں مست رہتا۔ غریبوں کی لکڑیاں جبراً چھین لیتا۔ مہنگے داموں فروخت کرتا۔ باوجود سمجھانے کے وہ باز نہ آیا۔ کسی نیک دل نے نصیحت کی۔​
"تو مانند سانپ ہے جو پاس سے گزرنے والے کو ڈس لیتا ہے ۔ تو مانند الو ہے کہ جہاں ٹھکانہ بنایا ، اسے ویرانہ بنا دیا۔ تیرا زور غریبوں اور بے کسوں پر چلتا ہے لیکن یاد رکھ! غیب داں خدا پر نہیں چلتا۔ اتنا ظلم نہ کر۔ ایسا نہ ہو کہ کسی مجبور دل کی بد دعا تیرے خلاف عرش معلیٰ تک جا پہنچے۔"​
ظالم اس کی نصیحت پر سخت ناراض ہوا۔ اس کی نصیحت پر عمل کرنے کی بجائے اس کو عذاب میں مبتلا کر دیا۔ ایک رات اس کے باورچی خانے میں آگ لگ گئی۔ دیکھتے ہی دیکھتے سارا گھر مع ساز و سامان جل کر راکھ ہو گیا۔ لوگوں نے پوچھا۔​
"آگ کیسے لگی؟"​
ظالم نے جواب دیا۔" میں نہیں جانتا یہ آگ کیسے لگی۔ یہ برق خرمن کہاں سے گری۔"​
ایک صاحب دل نے جواب دیا۔​
"یہ ان غریبوں کی آہ ہے جن کو تو ستاتا رہا ہے۔"​
حاصل کلام
ظالم کمزوروں پر ظلم کر سکتا ہے لیکن مشیت ایزدی کے سامنے بے بس اور لاچار ہوتا ہے۔ مظلوموں کی آہوں میں بہت اثر ہوتا ہے۔ اس سے عرش معلیٰ تک ہل جاتا ہے۔​
 

ذوالقرنین

لائبریرین
گر کی بات
کسی لائق فائق پہلوان کا ایک شاگرد ایسا تھا جو اپنے فن میں یکتا تھا۔ اس نے اپنے استاد سے ہر قسم کا داؤ پیچ سیکھا۔ استاد نے تین سو ساٹھ داؤ پیچ میں سے تین سو انسٹھ داؤ سکھا دئیے لیکن ایک نہ سکھایا۔​
شاگرد جب کشتی کے فن میں اس مقام پر جا پہنچا جہاں اس کا مقابل کوئی نہ رہا تو دماغ میں فتور آ گیا۔ اس نے بادشاہ کے دربار میں استاد کو ذلیل کرنے کے لیے یہ بڑ ماری کہ اس کا استاد اس سے بزرگی اور تربیت میں برتر ہے لیکن فن پہلوانی اور شہ روزی میں نہیں۔ اگر بادشاہ چاہے تو میں اسے چٹکی بجاتے ہی ہرا دوں۔​
بادشاہ نے اس کی آزمائش کا فیصلہ کیا اور استاد اور شاگرد کے درمیان کشتی کا وقت مقرر کر دیا۔​
وقت مقررہ پر ایک وسیع و عریض اکھاڑے میں مقابلہ شروع ہوا۔ بادشاہ، اس کے وزیر، امیروں کے علاوہ ہزاروں لوگ مقابلہ دیکھنے کے لیے جمع تھے۔ نقارے پر چوٹ پڑی۔ شاگرد خم ٹھونک کر مست ہاتھی کی طرح جھومتا ہوا اس طرح میدان میں آیا جیسے طاقت کا جو پہاڑ بھی سامنے آئے گا ، وہ اسے اکھاڑ پھینکے گا۔​
استاد خوب جانتا تھا کہ اس کا شاگرد نوجوانی کے زعم میں مبتلا ہے اور کافی شہ زور بھی ہے لیکن وہ خوب سوچ سمجھ کر میدان میں اترا۔ دونوں آپس میں گتھم گتھا ہو گئے۔ استاد نے شاگرد کے ہر داؤ کو فیل کر دیا۔ آخر کار وہی پوشیدہ داؤ آزمایا جو اس نے شاگرد کو نہ سکھایا تھا۔ دونوں ہاتھوں سے اسے زمین سے اٹھا کر سر کے اوپر لے جا کر زمین پر پٹخ دیا۔ شاگرد چاروں شانے چت گرا۔ استاد سینہ پر آن بیٹھا۔​
لوگوں نے واہ واہ کا شور مچایا۔ استاد کو بادشاہ نے انعام و اکرام سے نوازا اور شاگرد کو خوب لعن طعن کی کہا۔" او ناہجار! تجھے اپنے استاد کو للکار کے کیا ملا۔ سوائے ذلت کے اور ندامت کے۔ کہاں گیا تیرا دعویٰ؟"​
شاگرد نے جواب دیا۔" استاد مجھ سے طاقت میں نہیں بلکہ اس داؤ کی وجہ سے جیتا ہے جو اس نے مجھ سے چھپا رکھا تھا اور لاکھ بار کے کہنے کے بعد بھی ٹال مٹول سے کام لیتا رہا۔"​
استاد نے جواب دیا۔" یہ داؤ میں نے اسی دن کے لیے اٹھا رکھا تھا کیونکہ داناؤں نے کہا ہے کہ اس قدر قوت دوست کو بھی نہ دو کہ بوقت دشمنی نقصان پہنچائے۔"​
حاصل کلام
ہر شخص اپنے محسن کو زک پہنچانے کی کوشش کرتا ہے۔ اس لیے اپنے بچاؤ کے لیے کوئی نہ کوئی گر سنبھال کر رکھنا لازمی ہے۔​
 

ذوالقرنین

لائبریرین
خدا، دعا اور بندہ
کوئی شخص نیند کے خمار میں مسجد میں آگیا اور حجرے میں گھس کر روتے ہوئے خدا سے دعا کرنے لگا۔" اللہ مجھے جنت میں جگہ دے۔"​
موذن کو اس کی بات پر غصہ آیا۔ اسے گریبان سے پکڑ کر بولا۔" تیرا مسجد میں کیا کام، تو کون سی ایسی نیکی کرکے آیا ہے جو جنت مانگ رہا ہے۔"​
وہ شخص بولا۔" یہ خدا کا گھر ہے، تیرا نہیں۔ میں خدا سے مانگ رہا ہوں، تجھ سے نہیں۔ تو کون ہوتا ہے خدا اور اس کے بندے کے بیچ میں آنے والا۔"​
حاصل کلام
خدا کے گھر میں خدا کا ہر بندہ خدا سے دعا مانگ سکتا ہے۔ یہ اس کا اور خدا کا معاملہ ہے۔ کوئی کون ہوتا ہے بیچ میں دخل دینے والا۔ اللہ کی طرف رجوع کرنے سے کوئی کسی کو نہیں روک سکتا۔​
 

ذوالقرنین

لائبریرین
سمیع و بصیر
زلیخا نے یوسف کے عشق میں مجبور ہو کر یوسف کا دامن پکڑ لیا اور اپنی خواہش کا اظہار اس قدر شدت سے کیا کہ آپ لرز اٹھے۔​
زلیخا کے پاس سنگ مرمر کا بت کا جس کی وہ صبح و شام پوجا کرتی۔ اس کی آرتی اتارتی۔ دریائے نیل کی سطح پر تیرتے ہوئے کنول کے پھول اس کے چرنوں میں رکھتی، عطر چھڑکتی لیکن جونہی اس نے حضرت یوسف کا دامن پکڑا تو بت کو ایک کپڑے سے ڈھانپ دیا۔ مقصد یہ تھا کہ اس کا معبود اسے اس حالت میں نہ دیکھ سکے۔ وہ بت سے حضرت یوسف کے ساتھ دست درازی کی چھپانا چاہتی تھی۔​
اس نازک صورتحال سے حضرت یوسف بہت رنجیدہ ہوئے۔ سر پکڑ کر رہ گئے۔ زلیخا جذبات کی رو میں بے اختیار آپ کے پاؤں چومنے لگی اور کہنے لگی۔​
"اتنے سنگدل نہ بنو، وقت اچھا ہے، اسے ضائع نہ کرو۔ میری دلی مراد پوری کرو۔"​
حضرت یوسف رو پڑے اور فرمایا۔​
"اے ظالم! مجھ سے ایسی توقع نہ رکھ۔ تجھے اس بت سے تو شرم آتی ہے جسے تو نے کپڑے سے ڈھانپ دیا ہے اور مجھے اپنے خدا سے شرم آتی ہے جو پردوں کے پیچھے بھی دیکھتا ہے۔"​
حاصل کلام
خدا سمیع و بصیر ہے۔ لاکھ پردوں کے پیچھے گناہ کیا جائے اس سے پوشیدہ نہیں۔ اس لیے ہر وقت اس سے ڈرنا چاہیے۔​
 

ذوالقرنین

لائبریرین
مکڑی اور مکھی
حضرت حاتم اصم کے رہائشی مکان میں چھت پر مکڑی نے جالا بُن رکھا تھا۔ ایک دن آپ اپنے مریدوں اور ارادت مندوں میں بیٹھے ہوئے کسی علمی مسئلہ پر گفتگو فرما رہے تھے کہ ایک مکھی مکڑی کے جالے میں پھنس کر بھنبھنانے لگی۔ حضرت نے مکھی کی بھنبھنا ہٹ سن کر اس کی طرف دیکھ کر فرمایا۔​
"اے لالچی! اب یونہی پھنسی رہ۔ اے نادان! ہر جگہ شہد اور قند نہیں ہوتی۔ دنیا تو وہ ہے کہ اس کے اکثر مقامات پر مکر و فریب کے جال پھیلے ہوئے ہیں۔"​
حضرت کی زبان سے یہ الفاظ سن کر ایک مرید نے حیرانگی کے ساتھ کہا۔" یا حضرت! آپ نے اتنے فاصلے سے مکھی کی بھنبھناہٹ کیسے سن لی؟"​
مرید کی حیرانگی کی وجہ یہ تھی کہ آپ کو لوگ کانوں سے بہرہ خیال کرتے تھے کیونکہ اصم عربی زبان میں بہرے کو کہتے ہیں۔​
حضرت نے جواب دیا۔" مجھے تم لوگ بہرا ہی خیال کرو۔ میں نے جھوٹی اور اپنی بڑائی کی باتیں سننے سے اپنے کانوں کو بہرا بنا لیا ہے۔ میں دیکھتا ہوں کہ لوگ میری خوبیوں کو بڑھا چڑھا کر اور میرے عیبوں کو مجھ سے چھپا کر بات کرتے ہیں۔ اب جبکہ میں بہرا مشہور ہو گیا ہوں، وہ اکثر میرے بارے میں وہ بات کرتے ہیں جو ان کے دل میں ہوتی ہے۔"​
حاصل کلام
حضرت حاتم اصم کے حوالے سے یہ بات کہی گئی ہے کہ بے معنی تعریف اور بڑائی بیان کرنا انسان کو گمراہ کرنے کے مترادف ہے۔ قرآن پاک کی تعلیمات بھی یہی ہیں ایسی بے جا خوشامدانہ باتوں سے اجتناب کرنا ضروری ہے تاکہ گمراہی سے بچ سکو۔​
 
Top