فلسطین اتنا غریب نہیں ہے آپ نے صرف لڑائی کے وقت والا فلسطین دیکھا ہے اصل میں فلسطین اتنا گیا گزرا نہیں 5 ارب ڈالر کی جی ڈی پی ہے جس کی ترقی کی شرح 8 فیصد تھی ہماری ڈبل ۔1924 ڈالر فی فلسطینی کماتا ہے اور یہ بھی کوئی برا نہیں ۔ اصل بات ہے ایک سوچ ایک عزم اور ایک ارادے کی جس کو لیڈ کرنے والے اپنے منشور اور اپنے مشن پر نظر رکھیں اور ادھر ادھر نا دیکھیں بس ایک مشن ہو کہ فوج کا جواب ایک فوج سے دینا ہے ۔ ان کو ٹریننگ ہر کوئی دے سکتا ہے وہ کوئی بڑی بات نہیں ہے اصل مسئلہ ہے قیادت کا فقدان نا تجربہ کاری اور اندھا دھند کی لڑائی جس نے اس حالت میں پہنچایا ۔
میرے بھائی بات صرف جی ڈی پی کی نہیں ہے، ان پر پابندیاں کتنی ہیں اس بات پر بھی ذرا توجہ دیں۔ حسنی مبارک کے دور تک تو وہ لوگ بےچارے ہمسایہ ملک مصر، جس سے ان کا مذہبی اور نظریاتی رشتہ بھی ہے، سے اشیائے خورد و نوش لینے کو بھی ترس جاتے تھے۔ یہ تو اب آ کر محمد مرسی اور ہشام قندیل کے دور میں کچھ حکمت عملی میں تبدیلی کا امکان دکھائی دے رہا ہے۔
کیا یہی کافی نہیں کہ چھ دہائیوں سے زائد عرصے سے وہ لوگ اسرائیل کی جارحیت کے خلاف ڈٹے ہوئے ہیں اور جدید ترین ہتھیاروں سے لیس ہونے اور عالمی طاقتوں کی آشیرباد کے باوجود اسرائیل مکمل طور پر ان کے عسکریت پسند گروہوں کو ختم نہیں کرپایا۔ اسے بہرطور ان کی بہتر حکمت عملی ہی کہا جائے گا کہ امریکہ جیسے طاقتور ترین ملک کی مکمل اور غیرمشروط حمایت رکھنے والے اسرائیل کے خلاف ان کے عسکریت پسند گروہ آج بھی برسرپیکار ہیں۔
آپ مجھ سے بہتر جانتے ہوں گے کہ شمالی سری لنکا میں بھارت کے تعاون سے وِلوپلائی پربھاکرن نے تامل ٹائیگرز کی جو تنظیم 1976ء میں بنائی تھی، اسے 2009ء میں صرف 33 سال کے عرصے کے اندر پاکستان کی مدد سے سری لنکا جیسے چھوٹے ملک نے کس طرح بیخ و بن سے اکھاڑ کر رکھ دیا۔ سو، اس بنیاد پر آپ فلسطینیوں کی حکمت عملی کو اتنا انڈر اسٹیمیٹ بھی نہیں کرسکتے۔