حیرت انگیز کام!

قیصرانی

لائبریرین
عمر بن عبدالعزیز کے دور میں ترکی کے کتنے حصے پر بنو امیہ کی حکومت تھی؟
میں یہی سوال کرنے والا تھا لیکن پھر نظر پڑی کہ
یہ روایت مسلمانوں کے خلیفہ عمر بن عبدالعزیز نے شروع کرائی۔ ان کا یہ تاریخی قول آج بھی تاریخ کی کتابوں کی زینت ہے کہ: انثروا القمح على رؤوس الجبال لكي لا يقال جاع طير في بلاد المسلمين. جا کر پہاڑوں کی چوٹیوں پر دانے پھیلا دو، کہیں مسلمانوں کے ملک میں پرندے بھوک سے نا مر جائیں۔
ماخوز از: فیس بک
شاید یہ جنرل اصول ہو؟
 

حاتم راجپوت

لائبریرین
خیال رہے کہ موجودہ ترکی کو سلجوق نے فتح کیا تھا بنو امیہ یا عباسیوں نے نہیں۔
تاہم اگر یہ روایت اسلامی ہے(اصل مراد یہ کہ پرانی ہے) تو سلجوق کی فتح کا اس پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔۔

تدوین: یعنی کہ قیصرانی بھائی والی بات کہ شاید یہ جنرل اصول ہو۔
 
1515027_485086904935607_1985908291_n.jpg


زیر نظر تصویر ترکی کی ہے جہاں ایک بہت پرانی اسلامی روایت ابھی تک زندہ ہے کہ جب سردی کا عروج ہو اور پہاڑوں پر برف پڑ جائے تو یہ لوگ چوٹیوں پر چڑھ کر اس وقت تک دانہ پھیلاتے رہتے ہیں جب تک برفباری ہوتی رہے۔ اور یہ اس لیئے ہے کہ پرندے اس موسم میں کہیں بھوک سے نا مر جائیں۔
یہ روایت مسلمانوں کے خلیفہ عمر بن عبدالعزیز نے شروع کرائی۔ ان کا یہ تاریخی قول آج بھی تاریخ کی کتابوں کی زینت ہے کہ:
انثروا القمح على رؤوس الجبال لكي لا يقال جاع طير في بلاد المسلمين.

جا کر پہاڑوں کی چوٹیوں پر دانے پھیلا دو، کہیں مسلمانوں​
 

ساجد

محفلین
1515027_485086904935607_1985908291_n.jpg


زیر نظر تصویر ترکی کی ہے جہاں ایک بہت پرانی اسلامی روایت ابھی تک زندہ ہے کہ جب سردی کا عروج ہو اور پہاڑوں پر برف پڑ جائے تو یہ لوگ چوٹیوں پر چڑھ کر اس وقت تک دانہ پھیلاتے رہتے ہیں جب تک برفباری ہوتی رہے۔ اور یہ اس لیئے ہے کہ پرندے اس موسم میں کہیں بھوک سے نا مر جائیں۔
یہ روایت مسلمانوں کے خلیفہ عمر بن عبدالعزیز نے شروع کرائی۔ ان کا یہ تاریخی قول آج بھی تاریخ کی کتابوں کی زینت ہے کہ:
انثروا القمح على رؤوس الجبال لكي لا يقال جاع طير في بلاد المسلمين.

جا کر پہاڑوں کی چوٹیوں پر دانے پھیلا دو، کہیں مسلمانوں​
شاید یہ تصویر کل ہی کسی اور رکن نے بھی ارسال کی ہے ۔
ویسے اس میں لکھی عربی زبان میں اغلاط ہیں ۔
 

حاتم راجپوت

لائبریرین
اس سادگی پہ کون نہ مرجائے اے خدا۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔؟
کیا یہ قول صرف تُرکی کے لیے تھا؟ انہوں نے مسلمان ملک کی بات کی ہے۔۔۔ ۔ ترکی کی نہیں۔
اس خبر میں ترکی کا ذکر ہونا ایک طرح سے اس قول کو ترکی سے مخصوص کرتا ہے خاص طور پر اس بندے کے لئے جس کی نظر سے پہلے یہ قول گزرا نہ ہو۔ اس لئے زیک بھائی نے زیر نظر تصویر اور خبر کی صحت جاننے کے لئے تحقیق کی کوشش کی ہے اور میرے خیال میں ہم سبھی کو ایسا ہی کرنا چاہئے۔ باقی میں اسی بات پر متفق ہوں کہ یہ قول کسی ایک مسلمان ملک کے لئے نہیں تھا۔
 

آصف اثر

معطل
اس خبر میں ترکی کا ذکر ہونا ایک طرح سے اس قول کو ترکی سے مخصوص کرتا ہے خاص طور پر اس بندے کے لئے جس کی نظر سے پہلے یہ قول گزرا نہ ہو۔ اس لئے زیک بھائی نے زیر نظر تصویر اور خبر کی صحت جاننے کے لئے تحقیق کی کوشش کی ہے اور میرے خیال میں ہم سبھی کو ایسا ہی کرنا چاہئے۔ باقی میں اسی بات پر متفق ہوں کہ یہ قول کسی ایک مسلمان ملک کے لئے نہیں تھا۔
زیک بھائی کی تحقیق کی یہ عجیب منطق شاید مجھے سمجھ نہیں آئی۔
 

S. H. Naqvi

محفلین
ویسے مجھے اس بات کی سمجھ نہیں آئی کہ کیا فرق پڑتا ہے اگر یہ عمر بن عبدالعزیز کا قول ہے کہ نہیں اور یہ ترکی کے حوالے سے کہا گیا ہے یا جنرل اصول ہے، پتہ انہیں اس میں با ل کی کھال نکالنے کی کیا ضرورت آن پڑی اور یہ ثابت کرنے کا یا تصدیق کرنے کا کیا مطلب ہے کہ بیان کی گئی ساری تاریخ سچی ہے؟ بس ایک اچھی بات ہے تو سو ہے، پڑھ لیں کیا نقصان ہے کسی کا؟:) ویسے بھی فیسبک کی چیزوں پر اتنا سنجیدہ ہونے کی ضرورت نہیں ہوتی۔
 
میں یہی سوال کرنے والا تھا لیکن پھر نظر پڑی کہ
شاید یہ جنرل اصول ہو؟
بالکل یہ جنرل اصول ہے ۔یہ تصویر جس میں پہاڑ کی چوٹی میں دانہ پھیلاتے ہوئے دکھایا گیا ہے 27 دسمبر کو ترکی کے روزنامہ النیلین میں شائع ہوئی اور اس کے بعد ریاض کے روزنامہ النہار الجدید سیمت متعدد اخباروں نے اسے نقل کیا ۔حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے اس قول کی بابت مکمل تفصل اور پس منظر کے لئے ملاحظہ فرمائیں ۔:http://www.ahlalhdeeth.com/vb/showthread.php?t=275688
معلومات کے لئے ایک اور بات بتا دوں گذشتہ دنوں صومال میں بھوک کی وجہ سے بڑی تعداد میں اموات کے بعد صدر ترکی طیب اردغان نے وہاں کا دورہ کیا تھا اور ترکی سے بڑی تعداد میں رسد کا سامان بہم پہنچایا تھا اسی موقع سے انھوں نے اسلامی ممالک کو خصوصا توجہ دہانی کراتے ہوئے یہ قول نقل کیاتھا"انثروا القمح۔۔۔۔۔۔
مزید کے لئے یہ لنک دیکھیں http://tp-a.blogspot.in/2011/08/blog-post_22.html
 

زیک

مسافر
اس سادگی پہ کون نہ مرجائے اے خدا۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔؟
کیا یہ قول صرف تُرکی کے لیے تھا؟ انہوں نے مسلمان ملک کی بات کی ہے۔۔۔ ۔ ترکی کی نہیں۔
سوال یہ ہے کہ جہاں کی بھی یہ تصویر ہے (اور ابھی تک یہ نہیں معلوم کہ ترکی میں کس جگہ یہ واقعہ ہوا) صرف وہاں یہ روایت کیوں اور کیسے پڑی؟ محض عمر بن عبدالعزیز کا قول نقل کر دینے سے بات نہیں بنتی۔
 

آصف اثر

معطل
سوال یہ ہے کہ جہاں کی بھی یہ تصویر ہے (اور ابھی تک یہ نہیں معلوم کہ ترکی میں کس جگہ یہ واقعہ ہوا) صرف وہاں یہ روایت کیوں اور کیسے پڑی؟ محض عمر بن عبدالعزیز کا قول نقل کر دینے سے بات نہیں بنتی۔
میرے خیال میں ہمیں اس بات میں پڑنا ہی نہیں چاہیےکہ کیوں اور کیسی پڑی۔۔۔ہمیں روایت اور قول کو دیکھنا اور پیروی کرنا چاہیے۔
 

ساجد

محفلین
میرے خیال میں ہمیں اس بات میں پڑنا ہی نہیں چاہیےکہ کیوں اور کیسی پڑی۔۔۔ ہمیں روایت اور قول کو دیکھنا اور پیروی کرنا چاہیے۔
ایک بار پھرسوچ لیں !!! ۔ ایسا نہ ہو کہ جلد ہی آپ روایت کی پیروی کے اس اصول سے انحراف کر جائیں :)
 
میرے خیال میں ہمیں اس بات میں پڑنا ہی نہیں چاہیےکہ کیوں اور کیسی پڑی۔۔۔ ہمیں روایت اور قول کو دیکھنا اور پیروی کرنا چاہیے۔
اور بعد میں اپنی پسندیدہ چیزوں کو روایت اور قول کی پیروی، جبکہ ناپسندیدہ چیزوں کو بدعت کا نام دے دینا چاہئیے۔۔۔۔:)
 

کاشفی

محفلین
1521863_795761443786842_255867989_n.jpg


حیرت انگیز کام! زیر نظر تصویر ترکی کی ہے جہاں ایک بہت پرانی اسلامی روایت ابھی تک زندہ ہے کہ جب سردی کا عروج ہو اور پہاڑوں پر برف پڑ جائے تو یہ لوگ چوٹیوں پر چڑھ کر اس وقت تک دانہ پھیلاتے رہتے ہیں جب تک برفباری ہوتی رہے۔ اور یہ اس لیئے ہے کہ پرندے اس موسم میں کہیں بھوک سے نا مر جائیں۔ یہ روایت مسلمانوں کے خلیفہ عمر بن عبدالعزیز نے شروع کرائی۔ ان کا یہ تاریخی قول آج بھی تاریخ کی کتابوں کی زینت ہے کہ: انثروا القمح على رؤوس الجبال لكي لا يقال جاع طير في بلاد المسلمين. جا کر پہاڑوں کی چوٹیوں پر دانے پھیلا دو، کہیں مسلمانوں کے ملک میں پرندے بھوک سے نا مر جائیں۔
ماخوز از: http://www.ennaharonline.com/ar/specialpages/societe/147244-انثروا-القمح-على-رؤوس-الجبال؛-لكي-لا-يقال-جاع-طير-في-بلاد-المسلمين.html#.Ur1_gfQW18A
خوب!
 
Top