منسوخ شدہ تنبیہ:: پہلے تو میں نے سوچا تھا کہ اس تحریر کے ساتھ یہ تنبیہ بھی جوڑ دوں کہ خبردار کوئی میری یہ تحریر چوری نا کرے، اگر اس نے اس کی کاپی کرکے کسی اور جگہ پر ڈالنی ہی ہے تو میرے نام کا جعلی اکاؤنٹ بنا کر میرے ہی نام سے ڈالے تاکہ میرا نام روشن رہے ۔ مگر پھر مجھے خیال آیا کہ ہوسکتا ہے کہ کچھ محفلین میری اس وارننگ کی سنجیدگی کو نظر انداز کر کے اس پر ہنسیں اور میری تحریر کی ناپختگی کی بنا پر قابلی اعتنا نا سمجھیں اور میری واننگ میرے ہی لئے موجب رسوائی بن جائے اس لئے میرے ، وارننگ جاری کرنے کے ارادے کو منسوخ سمجھا جائے۔
دیکھیں جی شاعری کرنے کے بہت سے نقصانات ہیں۔ کیونکہ فعولن فعالن فعیلن وغیرہ کے فارمولے رٹنے کی محنت کے بعد آپ کو جن نتائج کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ تو فوراً آپ کے زہن میں یہ خیال آتا ہے کہ کاش شاعری کے فارمولوں کی گردانوں کی بجائے کیمسٹری کے فارمولے یاد کرنے پر محنت کی ہوتی تو نا ابا سے ٹھکائی ہوتی، نا امی کوستیں نا اساتذہ کے ہاتھوں بے عزتی ہوتی اور نا ہم جماعتوں کے سامنے رسوائی کا سامنا کرنا پڑتا ۔
شاعری کے نقصانات کو سمجھنے کے لئے اس واقعے کو یاد کیجئے جب دو افراد آگے پیچھے بھاگتے جا رہے تھے اور پیچھے بھاگنے والا آگے والے کو رکنے کے لئے آوازیں دے رہا تھا ۔ اس وقت جب ایک پولیس کے سپاہی نے حالات کی سنگینی کو بھانپتے ہوئے ان دونوں کے پیچھے بھاگنا شروع کیا اور بمشکل پیچھے والے کو پکڑا اور اس سے احوال دریافت کئے تو یاد ہے نا کہ اس نے کیا کہا تھا؟ اس نے کہا تھا " اس نے اپنی غزل سنا لی ہے اب میری نہیں سن رہا"۔ اور اس پولیس والے نے اپنا سر پیٹ لیا۔
اب ذرا اسی واقعے کا تجزیہ کر لیا جائے۔ پولیس والے کو جو بلا ضرورت بھاگنے کی ضرورت پڑی اور نتیجتاً جو توانائی برباد ہوئی اس کا ذمہ دار کون؟
جس شخص کی غزل جو اس نے بڑی عرق ریزی سے لکھی تھی بلکہ اپنے سارے گھر والوں اور چھوٹے بہن بھائیوں کی موزوں قافیے ڈھونڈنے پر ڈیوٹی لگانے کے بعد تیار کی تھی۔ اس پر کیا گزری ہوگی؟ جب اسکے اپنے دوست نے بے قدری سے اس غزل کو سننے سے انکار کیا نا صرف انکار کیا بلکہ بے دردی سے غزل کو ٹھکرا کر دوڑ لگا دی۔ بے قدری کا دکھ الگ، بچپن کی دوستی چھوٹنے کا غم الگ اور چھوٹے بہن بھائیوں کے طعنوں کی تکلیف بونس میں۔
اور جو بندہ آگے بھاگ رہا تھا، وہ ایسے ہی نہیں بھاگا۔ اس کو اسکے دوست نے اپنے والدکا ایک واقعہ سنایا تھا۔ کہ ایک دفعہ ایک رات انکے گھر میں ایک چور گھس آیا تھا ۔ چور کو تو گھر سے کچھ نہیں ملا البتہ کھڑاک سے والد صاحب کی آنکھ کھل گئی۔ انہوں نے سب گھر والوں کی مدد سے چور کو باندھا اور کمال شفقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس کو مارنے پیٹنے کی بجائے، اندر سے ایک بوری گھسیٹ کر لائے ، چونکہ والد صاحب بھی شاعر تھے ۔ اس لئے آپ صحیح سمجھے اس بوری میں بھرا دیوان نکال کر اس چور کو سنانا شروع کیا۔ اور چور چونکہ ادبی ذوق سے محروم بدبخت شخص تھا ۔ اس لئے اس نے اس کی قدر نا کی۔ صبح تک ابا تو ذوق و شوق سے اپنا کلام سناتے رہے مگر چور بے قدری سے تاب نا لاکر صبح تک نیم پاگل ہوگیا۔
بچپن کا دوست ان حالات کو سامنے رکھتے ہوئے بھاگتا نا تو اور کیا کرتا؟
مثالیں تو اور بھی بہت موجود ہیں لیکن تحریر کی طوالت کے خوف اور اس وقت مزید مثالیں میرے زہن میں نا آنے (حالانکے زہن پر بہت زور بھی دیا) کی وجہ سے میں صرف یہی کہوں گا۔ کہ شاعری کے نتائج کو زہن میں رکھیں۔ پڑھائی یا کام کی طرف توجہ دیں۔
دیکھیں جی شاعری کرنے کے بہت سے نقصانات ہیں۔ کیونکہ فعولن فعالن فعیلن وغیرہ کے فارمولے رٹنے کی محنت کے بعد آپ کو جن نتائج کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ تو فوراً آپ کے زہن میں یہ خیال آتا ہے کہ کاش شاعری کے فارمولوں کی گردانوں کی بجائے کیمسٹری کے فارمولے یاد کرنے پر محنت کی ہوتی تو نا ابا سے ٹھکائی ہوتی، نا امی کوستیں نا اساتذہ کے ہاتھوں بے عزتی ہوتی اور نا ہم جماعتوں کے سامنے رسوائی کا سامنا کرنا پڑتا ۔
شاعری کے نقصانات کو سمجھنے کے لئے اس واقعے کو یاد کیجئے جب دو افراد آگے پیچھے بھاگتے جا رہے تھے اور پیچھے بھاگنے والا آگے والے کو رکنے کے لئے آوازیں دے رہا تھا ۔ اس وقت جب ایک پولیس کے سپاہی نے حالات کی سنگینی کو بھانپتے ہوئے ان دونوں کے پیچھے بھاگنا شروع کیا اور بمشکل پیچھے والے کو پکڑا اور اس سے احوال دریافت کئے تو یاد ہے نا کہ اس نے کیا کہا تھا؟ اس نے کہا تھا " اس نے اپنی غزل سنا لی ہے اب میری نہیں سن رہا"۔ اور اس پولیس والے نے اپنا سر پیٹ لیا۔
اب ذرا اسی واقعے کا تجزیہ کر لیا جائے۔ پولیس والے کو جو بلا ضرورت بھاگنے کی ضرورت پڑی اور نتیجتاً جو توانائی برباد ہوئی اس کا ذمہ دار کون؟
جس شخص کی غزل جو اس نے بڑی عرق ریزی سے لکھی تھی بلکہ اپنے سارے گھر والوں اور چھوٹے بہن بھائیوں کی موزوں قافیے ڈھونڈنے پر ڈیوٹی لگانے کے بعد تیار کی تھی۔ اس پر کیا گزری ہوگی؟ جب اسکے اپنے دوست نے بے قدری سے اس غزل کو سننے سے انکار کیا نا صرف انکار کیا بلکہ بے دردی سے غزل کو ٹھکرا کر دوڑ لگا دی۔ بے قدری کا دکھ الگ، بچپن کی دوستی چھوٹنے کا غم الگ اور چھوٹے بہن بھائیوں کے طعنوں کی تکلیف بونس میں۔
اور جو بندہ آگے بھاگ رہا تھا، وہ ایسے ہی نہیں بھاگا۔ اس کو اسکے دوست نے اپنے والدکا ایک واقعہ سنایا تھا۔ کہ ایک دفعہ ایک رات انکے گھر میں ایک چور گھس آیا تھا ۔ چور کو تو گھر سے کچھ نہیں ملا البتہ کھڑاک سے والد صاحب کی آنکھ کھل گئی۔ انہوں نے سب گھر والوں کی مدد سے چور کو باندھا اور کمال شفقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس کو مارنے پیٹنے کی بجائے، اندر سے ایک بوری گھسیٹ کر لائے ، چونکہ والد صاحب بھی شاعر تھے ۔ اس لئے آپ صحیح سمجھے اس بوری میں بھرا دیوان نکال کر اس چور کو سنانا شروع کیا۔ اور چور چونکہ ادبی ذوق سے محروم بدبخت شخص تھا ۔ اس لئے اس نے اس کی قدر نا کی۔ صبح تک ابا تو ذوق و شوق سے اپنا کلام سناتے رہے مگر چور بے قدری سے تاب نا لاکر صبح تک نیم پاگل ہوگیا۔
بچپن کا دوست ان حالات کو سامنے رکھتے ہوئے بھاگتا نا تو اور کیا کرتا؟
مثالیں تو اور بھی بہت موجود ہیں لیکن تحریر کی طوالت کے خوف اور اس وقت مزید مثالیں میرے زہن میں نا آنے (حالانکے زہن پر بہت زور بھی دیا) کی وجہ سے میں صرف یہی کہوں گا۔ کہ شاعری کے نتائج کو زہن میں رکھیں۔ پڑھائی یا کام کی طرف توجہ دیں۔