خدایا یہ تیری جنت

با ادب

محفلین
بات فقط لفظ کے مصدر کی وضاحت تھی ہم نے اس لحاظ سے کر دی اوزان پہ بات جاتی تو بحث وسیع ہوجانی تھی
 

سین خے

محفلین
محترمہ شروع سے آخر تک تخیل سے کام نہیں لیا۔۔۔
یہ سارے واقعات قرآن پاک اور احادیث مبارکہ میں موجود ہیں۔۔۔
بس ان کا مفہوم اور تشریح بیان کرنے کی ادنیٰ ترین کوشش کی ہے۔۔۔
مثلاً گروہ در گروہ جنت میں داخلہ کا ذکر قرآن پاک میں ہے۔۔۔
وَ سِیقَ الَّذِینَ اتَّقَوْاْ رَبَّهُمْ إِلَى الْجَنَّةِ زُمَراً
اللہ سے ڈرنے والے لوگ گروہ در گروہ جنت کی طرف جارہے ہوں گے۔۔۔
اور جہاں دیکھے گا جنت کی نعمتیں مثلاً باغات، انہار، محلات وغیرہ نظر آئیں گے۔۔۔
قرآن پاک میں اس طرح ہے۔۔۔
وَإِذَا رَأَيْتَ ثَمَّ رَأَيْتَ نَعِيمًا وَمُلْكًا كَبِيرًا
جدھر دیکھے گا نعمتیں ہی نعمتیں اور عظیم الشان ملک نظر آئے گا۔۔۔
اسی طرح جنت کے باہر کی نہر اور جنت میں داخلے کے وقت رش کا ذکر احادیث مبارکہ میں ہے۔۔۔
فرشتوں کا خوش آمدید مبارک سلامت کہنا قرآن پاک میں ہے۔۔۔
وغیرہ!!!

جی بالکل درست۔ میرا بھی کہنے کا یہی مقصد ہے اسی لئے میں نے حدود کا لفظ استعمال کیا ہے کہ آپ کا تخیل حدود کے اندر ہے :) آپ نے جو نقشہ کھینچا ہے وہ مصدقہ معلومات پر مبنی ہے۔ :)
 

سین خے

محفلین
میری رائے میں اس تحریر کی سب سے بڑی خوبی یہی رہی ۔ مذہبی معاملات میں حد درجہ احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے اگر مناسب معلومات نہ ہوں تو ان معاملات پر قلم نہیں اٹھانا چاہئے۔

بالکل درست لئیق بھائی۔ چاہے وہ کوئی عالم ہو یا عام مسلمان، اگر کسی نے درست تحقیق نہ کی ہو تو الٹا غلط باتیں مذہب سے منسوب ہو جاتی ہیں۔
 

سید عمران

محفلین
پوری تحریر کے دلائل نہیں، صرف وہ حدیث ہی پوچھی ہے جس میں میدان کو مزید کا نام دیا گیا ہے
وقت ملا اور یاد رہا تو ضرور حوالہ ڈھونڈھنے کی کوشش کریں گے۔۔۔
اگر شاملہ میں نہ ملا اور کتابوں سے مراجعت کرنی پڑی تو۔۔۔
آپ جانتی ہیں کہ تخریج کتنا دماغ سوزی والا محنت طلب کام ہے۔۔۔
یہ بات تو رہی ایک طرف۔۔۔
اب دوسری بات کرتے ہیں۔۔۔
ایک زمانہ تھا اور برصغیر پر انگریزی حکومت کا اثر تھا کہ مسلمان چند باتوں کے علاوہ دینی علوم سے بہت دور ہوگئے تھے۔۔۔
کسی کو عالم بنانے کا تو تصور بھی محال تھا۔۔۔
عمل تو بہت دور کی بات تھی۔۔۔
ایسے میں بوڑھوں کو چھوڑ، اگر اگر کوئی جوان داڑھی رکھ لیتا تھا تو اس کا مذاق اڑا اڑا کر ناطقہ بند کردیا جاتا تھا۔۔۔
لیکن دینی اور تبلیغی جماعتوں کی محنتوں کی برکات دیکھ رہے ہیں کہ۔۔۔
گزشتہ چند برسوں سے لوگوں میں دینی علوم حاصل کرنے کا شوق بڑھ رہا ہے۔۔۔
ہزار مخالفتوں کے باوجود لڑکے تو کجا خواتین بھی دینی علوم حاصل کررہی ہیں۔۔۔
جیسے آپ اور محترمہ با ادب کی صرف کی استعداد دیکھ کر اچھا لگا۔۔۔​
 
ایسے میں بوڑھوں کو چھوڑ، اگر اگر کوئی جوان داڑھی رکھ لیتا تھا تو اس کا مذاق اڑا اڑا کر ناطقہ بند کردیا جاتا تھا۔
عمران بھائی یہ رویہ جو انگریز دور میں شروع ہوا ۔ اس بارے میں تحقیق ہونی چاہئے ۔ مجھے یہ لگتا ہے کہ یہ کام منظم طریقے سے ہوا ہوگا۔
مثلا حلوے اور مولویوں کے لطیفے کیسے شروع ہوئے؟ اس بات پر اکثر لوگ غور نہیں کرتے کہ حلوہ کھانا سنت ہے۔ اور ایک جھوٹی روایت لوگوں میں پھیلی ہوئی ہے کہ چودھویں صدی کے مولوی بہت برے لوگ ہونگے یہ روایت کہاں سے آئی؟
 

سید عمران

محفلین
عمران بھائی یہ رویہ جو انگریز دور میں شروع ہوا ۔ اس بارے میں تحقیق ہونی چاہئے ۔ مجھے یہ لگتا ہے کہ یہ کام منظم طریقے سے ہوا ہوگا۔
مثلا حلوے اور مولویوں کے لطیفے کیسے شروع ہوئے؟ اس بات پر اکثر لوگ غور نہیں کرتے کہ حلوہ کھانا سنت ہے۔ اور ایک جھوٹی روایت لوگوں میں پھیلی ہوئی ہے کہ چودھویں صدی کے مولوی بہت برے لوگ ہونگے یہ روایت کہاں سے آئی؟
ایک زمانہ تھا کہ حافظ اور مُلّا قابل عزت القاب ہوتے تھے۔۔۔
جیسے محدث عظیم ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ نے گیارہ جلدوں میں مشکوٰۃ کی شرح مرقاۃ کے نام سے لکھی۔۔۔
حافظ ابن حجر عسقلانی، حافظ ابن کثیر اور دیگر حفاظ حدیث کی طویل فہرست ہے۔۔۔
پھر نہ جانے کہاں کب کیسے یہ القاب تحقیر میں بدل گئے۔۔۔
اس میں تو کوئی شک نہیں کہ انگریزوں نے مسلم ثقافت اور شعائر مسخ کرنے کی ہر ممکن کوشش کی۔۔۔
مثلاً پگڑی جو عزت کی نشانی سمجھی جاتی تھی۔۔۔
اسے ہوٹل کے دربانوں کو پہنا کر ہر آئے گئے کے سامنے جھکانے والا بنادیا۔۔۔
فقہی مسائل پر جید اور ماہر علماء کے فتاویٰ جو قرآن حدیث کا ست، جوہر، مغز، عرق ہوتے ہیں انہیں مذاق کا نشانہ بنایا گیا۔۔۔
نتیجۃً مسلمان اسلامی احکام سے علمی اور عملی ہر لحاظ سے دور ہوتے گئے۔۔۔
اپنے ادھورے علم سے دین سمجھنے لگے۔۔۔
اور کہیں سے کہیں جاپہنچے!!!
 
ایک زمانہ تھا کہ حافظ اور مُلّا قابل عزت القاب ہوتے تھے۔۔۔
جیسے محدث عظیم ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ نے گیارہ جلدوں میں مشکوٰۃ کی شرح مرقاۃ کے نام سے لکھی۔۔۔
حافظ ابن حجر عسقلانی، حافظ ابن کثیر اور دیگر حفاظ حدیث کی طویل فہرست ہے۔۔۔
پھر نہ جانے کہاں کب کیسے یہ القاب تحقیر میں بدل گئے۔۔۔
اس میں تو کوئی شک نہیں کہ انگریزوں نے مسلم ثقافت اور شعائر مسخ کرنے کی ہر ممکن کوشش کی۔۔۔
مثلاً پگڑی جو عزت کی نشانی سمجھی جاتی تھی۔۔۔
اسے ہوٹل کے دربانوں کو پہنا کر ہر آئے گئے کے سامنے جھکانے والا بنادیا۔۔۔
فقہی مسائل پر جید اور ماہر علماء کے فتاویٰ جو قرآن حدیث کا ست، جوہر، مغز، عرق ہوتے ہیں انہیں مذاق کا نشانہ بنایا گیا۔۔۔
نتیجۃً مسلمان اسلامی احکام سے علمی اور عملی ہر لحاظ سے دور ہوتے گئے۔۔۔
اپنے ادھورے علم سے دین سمجھنے لگے۔۔۔
اور کہیں سے کہیں جاپہنچے!!!
ایسی جھوٹی روایتیں اور لطیفے جان بوجھ کر پھیلائے گئے ہونگے جنہیں عوام اپنی کم علمی کی وجہ سے اپناتے گئے۔
 

با ادب

محفلین
ایک زمانہ تھا کہ حافظ اور مُلّا قابل عزت القاب ہوتے تھے۔۔۔
جیسے محدث عظیم ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ نے گیارہ جلدوں میں مشکوٰۃ کی شرح مرقاۃ کے نام سے لکھی۔۔۔
حافظ ابن حجر عسقلانی، حافظ ابن کثیر اور دیگر حفاظ حدیث کی طویل فہرست ہے۔۔۔
پھر نہ جانے کہاں کب کیسے یہ القاب تحقیر میں بدل گئے۔۔۔
اس میں تو کوئی شک نہیں کہ انگریزوں نے مسلم ثقافت اور شعائر مسخ کرنے کی ہر ممکن کوشش کی۔۔۔
مثلاً پگڑی جو عزت کی نشانی سمجھی جاتی تھی۔۔۔
اسے ہوٹل کے دربانوں کو پہنا کر ہر آئے گئے کے سامنے جھکانے والا بنادیا۔۔۔
فقہی مسائل پر جید اور ماہر علماء کے فتاویٰ جو قرآن حدیث کا ست، جوہر، مغز، عرق ہوتے ہیں انہیں مذاق کا نشانہ بنایا گیا۔۔۔
نتیجۃً مسلمان اسلامی احکام سے علمی اور عملی ہر لحاظ سے دور ہوتے گئے۔۔۔
اپنے ادھورے علم سے دین سمجھنے لگے۔۔۔
اور کہیں سے کہیں جاپہنچے!!!
ہمیں بھی آج کل کے نوجوانوں کی دین میں دلچسپی بہت بھاتی ہے. بات دراصل یہ ہے کہ دین پہ تحقیق کا کام رک سا گیا ہے. مسلمان بچہ فیس بک کمپیوٹر اور سوشل میڈیا کی سب اصطلاحات سے واقف ہے لیکن اگر سنت اور حدیث کے معنی پوچھ لئیے جائیں تو بچہ آپکی شکل دیکھنا شروع کر دیتا ہے. والدین خود بھی دینی احکام سے دور ہیں رہی سہی کسر میڈیا نے پوری کر دی. کسی گھر میں جھانک کے دیکھئیے باپ اور ماں خود موبائل فون میں مصروف ہیں وہ بچے کو کیا وقت دیں گے؟ ہم وہ نسل تھے کہ رات کو مائیں صحابہ اور انبیاء کے قصے سنایا کرتیں. آج کی ماں کو ہینسل گریٹل سنڈریلا اور ریڈ رائیڈنگ ہڈ کی کہانیاں تو یاد ہیں لیکن اسلام کی پہلی شہیدہ حضرت بلال حبشی رض کی کہانیاں نہ خود جانتی ہیں نہ اولاد کی تربیت ہے
 

سید عمران

محفلین
ہمیں بھی آج کل کے نوجوانوں کی دین میں دلچسپی بہت بھاتی ہے. بات دراصل یہ ہے کہ دین پہ تحقیق کا کام رک سا گیا ہے. مسلمان بچہ فیس بک کمپیوٹر اور سوشل میڈیا کی سب اصطلاحات سے واقف ہے لیکن اگر سنت اور حدیث کے معنی پوچھ لئیے جائیں تو بچہ آپکی شکل دیکھنا شروع کر دیتا ہے. والدین خود بھی دینی احکام سے دور ہیں رہی سہی کسر میڈیا نے پوری کر دی. کسی گھر میں جھانک کے دیکھئیے باپ اور ماں خود موبائل فون میں مصروف ہیں وہ بچے کو کیا وقت دیں گے؟ ہم وہ نسل تھے کہ رات کو مائیں صحابہ اور انبیاء کے قصے سنایا کرتیں. آج کی ماں کو ہینسل گریٹل سنڈریلا اور ریڈ رائیڈنگ ہڈ کی کہانیاں تو یاد ہیں لیکن اسلام کی پہلی شہیدہ حضرت بلال حبشی رض کی کہانیاں نہ خود جانتی ہیں نہ اولاد کی تربیت ہے
جی ہاں۔۔۔
تحقیق اور اس کے ساتھ اس کی ترویج بہت کم ہے۔۔۔
ہم تو بہت کچھ مشورے دیتے ہیں۔۔۔
لیکن لوگوں کو دس سال بعد سمجھ میں آتے ہیں۔۔۔
لگتا ہے ہم اپنے زمانے سے دس سال پہلے پیدا ہوگئے!!!
:cry::cry::cry::cry::cry:
 

با ادب

محفلین
میڈیا تو لگتا ہے منصوبہ بندی کے تحت عوام کو گمراہ کرنے پر تلا ہے۔
ایسا ہی ہے میرے بھائی. مسلمان کی منصوبہ بندی زیرو ہے. پھر ہم ان تنکوں کی مانند ہو چکے ہیں کہ جو سیلاب آئے ہمیں بہا لے جاتا ہے چاہے وہ سوشل میڈیا کا سیلاب ہو میڈیا کی دروغ گوئی اور الزام تراشی کا سیلاب ہو. اخلاقی بے راہ روی کا سیلاب یو.
اگر ہم اپنے اقدار سے جڑے مضبوطی سے کھڑے ہوتے تو کوئی سیلاب ہمیں ہلا بھی نہ سکتا تھا. اللہ اب بھی آنکھیں کھول دے آمین
 

سید عمران

محفلین
میڈیا تو لگتا ہے منصوبہ بندی کے تحت عوام کو گمراہ کرنے پر تلا ہے۔
کیا اس میں شک ہے کہ میڈیا عیاش اور اوباش لوگوں کا اڈہ ہے؟؟؟
یہ لوگ تہجد میں اللہ کے حضور مناجات میں خونِ جگر بشکل آنسو پیش کرنے کی ترغیب تو نہیں دیں گے۔۔۔
اور جس چیز کی ترغیب دیں گے وہ سب کے سامنے ہے!!!
 
Top