محمد خرم یاسین
محفلین
ما شا اللہ بہت ہی خوبصورت اور پر تاثیر تحریر۔ اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ۔ آمین۔ لکھتے رہا کیجیے۔
بڑھاپے میں اتنا لکھنا میرے بس کی بات نہ تھا. جیتی رہو.ثلاثی مجرد تو یقینا جَلَدَ اور جَدَلَ ہی ہیں، مگر یہاں ثلاثی مزید فیہ جالَدَ اور جادَلَ باب مفاعلہ استعمال ہوئے ہیں
تعريف و معنى جالد في معجم المعاني الجامع، المعجم الوسيط ،اللغة العربية المعاصر - معجم عربي عربي - صفحة 1
تعريف و معنى جادل في معجم المعاني الجامع، المعجم الوسيط ،اللغة العربية المعاصر - معجم عربي عربي - صفحة 1
بات فقط لفظ کے مصدر کی وضاحت تھی ہم نے اس لحاظ سے کر دی اوزان پہ بات جاتی تو بحث وسیع ہوجانی تھیثلاثی مجرد تو یقینا جَلَدَ اور جَدَلَ ہی ہیں، مگر یہاں ثلاثی مزید فیہ جالَدَ اور جادَلَ باب مفاعلہ استعمال ہوئے ہیں
تعريف و معنى جالد في معجم المعاني الجامع، المعجم الوسيط ،اللغة العربية المعاصر - معجم عربي عربي - صفحة 1
تعريف و معنى جادل في معجم المعاني الجامع، المعجم الوسيط ،اللغة العربية المعاصر - معجم عربي عربي - صفحة 1
چند دلائل تو دے دیئے ہیں...
اس میدان کا تذکرہ احادیث میں موجود ہے...
محترمہ شروع سے آخر تک تخیل سے کام نہیں لیا۔۔۔
یہ سارے واقعات قرآن پاک اور احادیث مبارکہ میں موجود ہیں۔۔۔
بس ان کا مفہوم اور تشریح بیان کرنے کی ادنیٰ ترین کوشش کی ہے۔۔۔
مثلاً گروہ در گروہ جنت میں داخلہ کا ذکر قرآن پاک میں ہے۔۔۔
وَ سِیقَ الَّذِینَ اتَّقَوْاْ رَبَّهُمْ إِلَى الْجَنَّةِ زُمَراً
اللہ سے ڈرنے والے لوگ گروہ در گروہ جنت کی طرف جارہے ہوں گے۔۔۔
اور جہاں دیکھے گا جنت کی نعمتیں مثلاً باغات، انہار، محلات وغیرہ نظر آئیں گے۔۔۔
قرآن پاک میں اس طرح ہے۔۔۔
وَإِذَا رَأَيْتَ ثَمَّ رَأَيْتَ نَعِيمًا وَمُلْكًا كَبِيرًا
جدھر دیکھے گا نعمتیں ہی نعمتیں اور عظیم الشان ملک نظر آئے گا۔۔۔
اسی طرح جنت کے باہر کی نہر اور جنت میں داخلے کے وقت رش کا ذکر احادیث مبارکہ میں ہے۔۔۔
فرشتوں کا خوش آمدید مبارک سلامت کہنا قرآن پاک میں ہے۔۔۔
وغیرہ!!!
میری رائے میں اس تحریر کی سب سے بڑی خوبی یہی رہی ۔ مذہبی معاملات میں حد درجہ احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے اگر مناسب معلومات نہ ہوں تو ان معاملات پر قلم نہیں اٹھانا چاہئے۔
پوری تحریر کے دلائل نہیں، صرف وہ حدیث ہی پوچھی ہے جس میں میدان کو مزید کا نام دیا گیا ہے
عمران بھائی یہ رویہ جو انگریز دور میں شروع ہوا ۔ اس بارے میں تحقیق ہونی چاہئے ۔ مجھے یہ لگتا ہے کہ یہ کام منظم طریقے سے ہوا ہوگا۔ایسے میں بوڑھوں کو چھوڑ، اگر اگر کوئی جوان داڑھی رکھ لیتا تھا تو اس کا مذاق اڑا اڑا کر ناطقہ بند کردیا جاتا تھا۔
ایک زمانہ تھا کہ حافظ اور مُلّا قابل عزت القاب ہوتے تھے۔۔۔عمران بھائی یہ رویہ جو انگریز دور میں شروع ہوا ۔ اس بارے میں تحقیق ہونی چاہئے ۔ مجھے یہ لگتا ہے کہ یہ کام منظم طریقے سے ہوا ہوگا۔
مثلا حلوے اور مولویوں کے لطیفے کیسے شروع ہوئے؟ اس بات پر اکثر لوگ غور نہیں کرتے کہ حلوہ کھانا سنت ہے۔ اور ایک جھوٹی روایت لوگوں میں پھیلی ہوئی ہے کہ چودھویں صدی کے مولوی بہت برے لوگ ہونگے یہ روایت کہاں سے آئی؟
ایسی جھوٹی روایتیں اور لطیفے جان بوجھ کر پھیلائے گئے ہونگے جنہیں عوام اپنی کم علمی کی وجہ سے اپناتے گئے۔ایک زمانہ تھا کہ حافظ اور مُلّا قابل عزت القاب ہوتے تھے۔۔۔
جیسے محدث عظیم ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ نے گیارہ جلدوں میں مشکوٰۃ کی شرح مرقاۃ کے نام سے لکھی۔۔۔
حافظ ابن حجر عسقلانی، حافظ ابن کثیر اور دیگر حفاظ حدیث کی طویل فہرست ہے۔۔۔
پھر نہ جانے کہاں کب کیسے یہ القاب تحقیر میں بدل گئے۔۔۔
اس میں تو کوئی شک نہیں کہ انگریزوں نے مسلم ثقافت اور شعائر مسخ کرنے کی ہر ممکن کوشش کی۔۔۔
مثلاً پگڑی جو عزت کی نشانی سمجھی جاتی تھی۔۔۔
اسے ہوٹل کے دربانوں کو پہنا کر ہر آئے گئے کے سامنے جھکانے والا بنادیا۔۔۔
فقہی مسائل پر جید اور ماہر علماء کے فتاویٰ جو قرآن حدیث کا ست، جوہر، مغز، عرق ہوتے ہیں انہیں مذاق کا نشانہ بنایا گیا۔۔۔
نتیجۃً مسلمان اسلامی احکام سے علمی اور عملی ہر لحاظ سے دور ہوتے گئے۔۔۔
اپنے ادھورے علم سے دین سمجھنے لگے۔۔۔
اور کہیں سے کہیں جاپہنچے!!!
ہنسی مذاق ویسے بھی لوگ پسند کرتے ہیں۔۔۔ایسی جھوٹی روایتیں اور لطیفے جان بوجھ کر پھیلائے گئے ہونگے جنہیں عوام اپنی کم علمی کی وجہ سے اپناتے گئے۔
ہمیں بھی آج کل کے نوجوانوں کی دین میں دلچسپی بہت بھاتی ہے. بات دراصل یہ ہے کہ دین پہ تحقیق کا کام رک سا گیا ہے. مسلمان بچہ فیس بک کمپیوٹر اور سوشل میڈیا کی سب اصطلاحات سے واقف ہے لیکن اگر سنت اور حدیث کے معنی پوچھ لئیے جائیں تو بچہ آپکی شکل دیکھنا شروع کر دیتا ہے. والدین خود بھی دینی احکام سے دور ہیں رہی سہی کسر میڈیا نے پوری کر دی. کسی گھر میں جھانک کے دیکھئیے باپ اور ماں خود موبائل فون میں مصروف ہیں وہ بچے کو کیا وقت دیں گے؟ ہم وہ نسل تھے کہ رات کو مائیں صحابہ اور انبیاء کے قصے سنایا کرتیں. آج کی ماں کو ہینسل گریٹل سنڈریلا اور ریڈ رائیڈنگ ہڈ کی کہانیاں تو یاد ہیں لیکن اسلام کی پہلی شہیدہ حضرت بلال حبشی رض کی کہانیاں نہ خود جانتی ہیں نہ اولاد کی تربیت ہےایک زمانہ تھا کہ حافظ اور مُلّا قابل عزت القاب ہوتے تھے۔۔۔
جیسے محدث عظیم ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ نے گیارہ جلدوں میں مشکوٰۃ کی شرح مرقاۃ کے نام سے لکھی۔۔۔
حافظ ابن حجر عسقلانی، حافظ ابن کثیر اور دیگر حفاظ حدیث کی طویل فہرست ہے۔۔۔
پھر نہ جانے کہاں کب کیسے یہ القاب تحقیر میں بدل گئے۔۔۔
اس میں تو کوئی شک نہیں کہ انگریزوں نے مسلم ثقافت اور شعائر مسخ کرنے کی ہر ممکن کوشش کی۔۔۔
مثلاً پگڑی جو عزت کی نشانی سمجھی جاتی تھی۔۔۔
اسے ہوٹل کے دربانوں کو پہنا کر ہر آئے گئے کے سامنے جھکانے والا بنادیا۔۔۔
فقہی مسائل پر جید اور ماہر علماء کے فتاویٰ جو قرآن حدیث کا ست، جوہر، مغز، عرق ہوتے ہیں انہیں مذاق کا نشانہ بنایا گیا۔۔۔
نتیجۃً مسلمان اسلامی احکام سے علمی اور عملی ہر لحاظ سے دور ہوتے گئے۔۔۔
اپنے ادھورے علم سے دین سمجھنے لگے۔۔۔
اور کہیں سے کہیں جاپہنچے!!!
جی ہاں۔۔۔ہمیں بھی آج کل کے نوجوانوں کی دین میں دلچسپی بہت بھاتی ہے. بات دراصل یہ ہے کہ دین پہ تحقیق کا کام رک سا گیا ہے. مسلمان بچہ فیس بک کمپیوٹر اور سوشل میڈیا کی سب اصطلاحات سے واقف ہے لیکن اگر سنت اور حدیث کے معنی پوچھ لئیے جائیں تو بچہ آپکی شکل دیکھنا شروع کر دیتا ہے. والدین خود بھی دینی احکام سے دور ہیں رہی سہی کسر میڈیا نے پوری کر دی. کسی گھر میں جھانک کے دیکھئیے باپ اور ماں خود موبائل فون میں مصروف ہیں وہ بچے کو کیا وقت دیں گے؟ ہم وہ نسل تھے کہ رات کو مائیں صحابہ اور انبیاء کے قصے سنایا کرتیں. آج کی ماں کو ہینسل گریٹل سنڈریلا اور ریڈ رائیڈنگ ہڈ کی کہانیاں تو یاد ہیں لیکن اسلام کی پہلی شہیدہ حضرت بلال حبشی رض کی کہانیاں نہ خود جانتی ہیں نہ اولاد کی تربیت ہے
میڈیا تو لگتا ہے منصوبہ بندی کے تحت عوام کو گمراہ کرنے پر تلا ہے۔رہی سہی کسر میڈیا نے پوری کر دی.
اب یہ ماہرہ ہیں کون؟ماضی کو حال بنانے کی تو آپ ماہرہ ہیں!!!
ایسا ہی ہے میرے بھائی. مسلمان کی منصوبہ بندی زیرو ہے. پھر ہم ان تنکوں کی مانند ہو چکے ہیں کہ جو سیلاب آئے ہمیں بہا لے جاتا ہے چاہے وہ سوشل میڈیا کا سیلاب ہو میڈیا کی دروغ گوئی اور الزام تراشی کا سیلاب ہو. اخلاقی بے راہ روی کا سیلاب یو.میڈیا تو لگتا ہے منصوبہ بندی کے تحت عوام کو گمراہ کرنے پر تلا ہے۔
آپ جناب۔۔۔اب یہ ماہرہ ہیں کون؟
کیا اس میں شک ہے کہ میڈیا عیاش اور اوباش لوگوں کا اڈہ ہے؟؟؟میڈیا تو لگتا ہے منصوبہ بندی کے تحت عوام کو گمراہ کرنے پر تلا ہے۔