فلک شیر
محفلین
اگّوں دھیان رکھیا جائے...............معافی دا عام اعلان کیتا جائے
اگّوں دھیان رکھیا جائے...............معافی دا عام اعلان کیتا جائے
بس تیس ہی منٹ تھے۔۔۔ تو خبر نامہ ہی سمجھیئےیہ ٹیگ نامہ ہے کہ خبرنامہ؟
دل بڑھا دیا یارایاد رہے کہ میں آپ کا سب سے بڑا پنکھا ہوں
جی سر۔۔۔ بالکلنین جی، آپ نے معاشرے کے ایک ایسے ناسور پر سے بہت اچھے انداز میں پردہ اٹھایا ہے، جو گذشتہ کئی دہائیوں سے ہماری نوجوان نسل کو اپنے شکنجے میں جکڑے ہوئے ہے۔ نوسر بازی کی کئی مثالیں سامنے آنے کے باوجود اس کام میں جو کشش ہےاس کی وجہ سےان نوجوانوں پر کوئی نصیحت اثر نہیں کرتی۔ بیرون ملک جا کر رزق تلاش کرنے میں قطعا کوئی ہرج نہیں لیکن اس کے لئے مناسب تعلیم و ہنر کے ساتھ لیس ہو کر قانونی طریقہ اپنانا چاہئے۔ پھر یقینا باری تعالے کی طرف سے مددبھی شامل ہوجاتی ہے۔
ٹیگ کرنے کا شکریہ۔
آہو۔۔۔ پچھلی گلاں دب دتیاں جانڑ۔۔۔۔اگّوں دھیان رکھیا جائے...............
بالکل فہیم بھائیبہت واقعات ہیں ایسے کہ کہیں لالچ میں آکر اور کہیں سنہرے سپنوں میں کھو کر لوگ بیوقوف بن جاتے ہیں۔
شکریہ عاطف بھائیواہ نین بھائی، بہت خوب لکھا ہے مگر افسوس کہ ہمارے ہاں عقل کے اندھے لوگوں کو ہزارہا واقعات کے سامنے آچکنے کے باوجود سمجھ نہیں آتی اور وہ مسلسل ایسے نوسربازوں کی چالوں کا شکار ہوتے رہتے ہیں۔
میاں ہم پہ طنز ہورہے اور ہم کو ٹیگ بھی کیا جارہا ہے - ریٹینگ واپس کرورُکھی مِسی دی
ہندی گھر اپنے سرداری
وسائل کے ساتھ جانے کا میں مخالف نہیں۔ اور اگر مکمل تحقیق ہو تو سونے پر سہاگہ۔۔۔ میں تو اندھے اعتماد اور خاص طور پر ظاہراً نیکیوں کو دیکھ کر کیئے گئے اعتماد کا مخالف ہوں۔ اور یہ اعتماد کرنے والے کا ہی قصور ہے۔ ٹھگ کا کام تو ٹھگی ہے۔ راہگیر کا کام بچاؤ ہے۔میاں ہم پہ طنز ہورہے اور ہم کو ٹیگ بھی کیا جارہا ہے - ریٹینگ واپس کرو
مذاق برطرف ایک عمدہ تحریر جو موجودہ دور کے اہم مسئلے بلکہ المیے پرروشنی ڈالتی ہے
رہی بات اعتبار کے تو کسی اعتبار ایک رسک ہوتا یہ سوچ لینا چاہیے - اگردھوکا دینے والا قصوروار تو کچھ قصور
دھوکا کھانے والے کا بھی ہوتاہے
شکریہ منےسب سے آسان کام اس قوم کو مذہب کے نام پر بیوقوف بنانا ہے۔
ایک زبردست تحریر نیرنگ بھائی
جی بالکل کیانی۔۔ یہ بات درست ہے۔ اور اس میں دلچسپ امر یہ ہے کہ جس طبقے کو ایسی چیزوں کے مطالعہ کی اشد ضرورت ہے۔ وہ اس قسم کی چیزوں سے کوسوں دور ہیں۔بہت اچھا لکھا ذوالقرنین ۔ اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ!
ہمارے یہاں مذہب کے نام پر بیوقوف بننا اور بنانا اب کوئی نئی بات نہیں رہی ہے۔ اور ہم ایک بار نہیں بار بار ایک ہی سوراخ سے ڈسوانے کے عادی بھی ہو چلے ہیں۔
ملک سے باہر جانے کا شوق ان بہت سارے جنونوں میں سے ایک ہے جہاں دوسرے کا لال چہرہ دیکھ کر ہم اپنا منہ پر اپنے ہی تھپڑوں سے سرخ کر لیتے ہیں۔
بالکل باباجی۔۔۔ ایسا ہی ہے۔۔۔ میرے اپنے کئی دوست اپنی کل جمع پونجی لٹا کر انسانیت کے جامے میں واپس آئے ہیں۔۔۔اس میں ایک چھوٹا سا اضافہ میں اور کردوں کہ تالی دونوں ہاتھوں سے نہیں بجتی
ملک سے باہر جانے کا بخار ایسا چڑھتا ہے کہ پھر اچھا خاصا نقصان کرنے کے بعد ہی اترتا ہے
ابھی حال ہی میں میرے دفتر میں کام کرنے والا لڑ کے کو ملک سے باہر جانے کا بخار چڑھا اور اس نے بناء کسی سے مشورہ کیئے
دبئی کی تیاری کی اور اب وہاں پر پھنسا ہوا ہے اسے آفس ورک کا کہہ کر لے گئے تھے اور اچھے خاصے پیسے بھی لیئے
اور اس کو وہاں مزدوری پر لگادیا
ظاہر ہے جب تک بیوقوف ہیں تب تک شاطر کی روزی روٹی چلے گیبالکل باباجی۔۔۔ ایسا ہی ہے۔۔۔ میرے اپنے کئی دوست اپنی کل جمع پونجی لٹا کر انسانیت کے جامے میں واپس آئے ہیں۔۔۔
سر اس پذیرائی پر تہہ دل سے ممنون ہوں ۔۔۔نیرنگ خیال ! بہت بڑی بات اتنے خوبصورت انداز میں تحریر کردی ۔ میں نے تو ہمیشہ یہی دیکھا مسجد میں اسی کو معتبر مقام ملتا ہے جو چندہ زیادہ دیتا ہے خواہ ہو رشوت اور حرام کے ذرائع ہی سے حاصل کی گئی ہو ۔ اسی مذہب کو یہ مفاد پرست عناصر اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں ۔
آپ کا انداز تحریر بہت موثر کن ہے ۔
مسئلہ بنیادی یہی ہے کہ ہم اولاد پیدا کرتے ہیں لیکن یہ سوچ کر کہ رزق اللہ نے دینا ہے۔ کبھی ہم یہ بھی سوچ لیں کہ رزق کے ساتھ ساتھ انہیں پیار، توجہ اور تعلیم و تربیت، صحت کی سہولیات وغیرہ بھی کیا اللہ نے آسمان سے اتار کر دینی ہے کہ یہیں زمین پر رہتے ہوئے انہی محدود وسائل کو استعمال کرتے ہوئے ہم خود انہیں یہ سہولیات دیں گے؟ اسی سوچ کی وجہ سے ہی ساری گڑبڑ پیدا ہوتی ہے نا۔ دوسرا جب ہم پاکستان سے باہر جاتے ہیں تو ہمارے پاس اسی تھکے ہوئے نظامِ تعلیم کی سند ہوتی ہے جس کی پاکستان میں بھی کوئی ویلیو نہیں۔ باہر جا کر اب وہ براہ راست ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ یا ڈائریکٹر ٹائپ کی پوسٹ پر ہی بھرتی ہو سکتے ہیں (اگر وہ ادارہ اپنا ذاتی ہو تو)منصور بھائی.........بجا فرمایا آپ نے........ لیکن ہمارا تھکا ہوا نظامِ تعلیم اتنی تیزی سے unskillful graduatesپیدا کرتا جارہا ہے، کہ اُن کی کھپت کا کوئی رستہ نظر نہیں آتا.......اور والدین ، خاص طور پہ مڈل کلاس کے لوگ اُن پہ اتنی بھاریinvestmentکر چکے ہوتے ہیں، کہ اب اُنہیں یہی سوجھتا ہے کہ ’’منڈے نوں باہر گھل دیو‘‘........... نوکری تو ملنی نہیں.........
بالکل ملائکہیہ دنیا ایسی ہی ہے صرف تکلیف دیتی ہے۔۔۔ ۔۔۔ اور یہاں کے لوگ بےحس ہیں
یعنی انجانے میں ہم سے سرقہ جیسی قبیح حرکت سرانجام پائی ہے۔ میں نے یہ تحریر نہیں پڑھ رکھی۔ وگرنہ نہ لکھتا۔ آپ کو اگر اصل تحریر ملے تو ضرور شامل محفل کیجیئے۔ ہم اس پر سے اپنا نام مٹا دیں گے۔ کیوں کہ میں نے ایسی تحریر نہ پہلے پڑھی اور نہ لکھی۔ ہمارے علاقے میں ہونے والا جعلسازی کا اک واقعہ اس تحریر کا باعث بنا۔بہت خوب نین بھائی! کچھ اسی طرح کی ایک کہانی کافی عرصہ پہلے میں نے کہیں پڑھا تھا۔ دوبارہ پڑھ کر اچھا لگا۔ شاید وہ بھی آپ نے لکھا ہوگا۔
میرا ہرگز یہ مطلب نہیں تھا۔ بلکہ میں نے لکھا ہے کہ "اسی طرح کی" یعنی ملتا جلتا۔یعنی انجانے میں ہم سے سرقہ جیسی قبیح حرکت سرانجام پائی ہے۔ میں نے یہ تحریر نہیں پڑھ رکھی۔ وگرنہ نہ لکھتا۔ آپ کو اگر اصل تحریر ملے تو ضرور شامل محفل کیجیئے۔ ہم اس پر سے اپنا نام مٹا دیں گے۔ کیوں کہ میں نے ایسی تحریر نہ پہلے پڑھی اور نہ لکھی۔ ہمارے علاقے میں ہونے والا جعلسازی کا اک واقعہ اس تحریر کا باعث بنا۔