امن ایمان نے کہا:
آج مورخہ 26 مارچ 2007 بروز پیر
بمقام: اردو ویب، نزد اداس محفل، محلہ بدتمیزاں۔
مکرمی و محترمی عزیزم رکنِ محفل !
مجھے امید ہے کہ آپ اپنی بےحس طبیعت کے باعث بخیروعافیت ہوں گے۔ بہت معذرت کے ساتھ کہ بیمار تو ہم جیسے حساس دل ہوتے ہیں جنھیں ذرا سی لاپرواہی سے عرضہ دل لاحق ہوجاتا ہے۔ عرصہ گزر گیا اور ہم دل کی بات دل میں رکھے بیٹھے رہے۔آج برادرم سیفی کا کھلا خط پڑھا تو خونِ چنگیزی نے جوش مارا اور سوچا کہ جب وہ سرعام ایک محبت نامہ اپنے منتظم اعلی کو لکھ سکتے ہیں تو ہم کیوں نہیں ایک شکایت نامہ لکھ سکتے؟
ازیں بس۔۔۔۔چند روز ہوئے دل ناداں کو جانے کیا شکوک لاحق ہوگئے ہیں۔۔ایسا لگتا ہے جیسے کہ تم مجھ سے ناراض ہوگئے ہو۔لاکھ سمجھایا کہ مجھ بے وقوف سے اگر کچھ غلط سرزد ہوگیاہے تو ایسا نادانستگی میں ہوا ہوگا۔۔ہم تو اپنوں کو ناراض کرنے کا اور تنگ کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتے۔سوچ سمجھ کے تو ہم صرف دشمنوں کو تنگ کرتے ہیں اور انھیں ایذا پہنچانے کے نت نئےحربے تیار کرتے رہتےہیں جن میں سرفہرست اپنے خوبصورت ناخنوں کی دیکھ بھال ہے جو کہ ہمارے ان زندہ دشمنوں کے لیے ہے جو چوبیس گھنٹے ہمارے ساتھ ہوتے ہیں اور اپنے مشینی دشمنوں کے لیے تو ہم چن چن کے ایسی پوسٹس پڑھتے اور یاد رکھتے ہیں جن میں معرکہ آرائی بہت دور تک کی گئی ہو اور ہم بھی ایسی تلخ باتوں کو سیکھ کر کسی اور میدانِ جنگ میں دوبدو ان بہادر سپاہیوں کی طرح اپنے زبان کے جوہر دکھلا سکیں۔یہ تو تھی ہماری حکمت عملی دشمنوں کے واسطے۔ ذرا گھڑی بھر کو سوچو کہ جو دوستوں سے دشمنی کے گُر دیکھ دیکھ کر سیکھ رہی ہے وہ پھر کس طرح تم سے تمھارے جیسی بےحسی نہیں سیکھے گی؟
مجھے پتہ ہے کہ تم سوچو گے نہیں، تمھیں تو ہر وقت یہ ہول پڑا رہتا ہے کہ یہ چھٹانک بھر سی لڑکی سے بات کرنا کہیں تمھارے لیے شرمندگی کا باعث نہ بن جائے۔اسی لیے تم ہر جگہ بہت سکون سے مجھے نظر انداز کردیتے ہو۔ خیر ہمارا کیا ہے کہ ایک تمھی پر تو دنیا ختم نہیں ہونے والی۔میں اب بھی کہہ رہی ہوں کہ اپنی اس روش سے باز آجاؤ۔ ابھی تم میرے دو حربوں کو تو جان ہی چکے ہو اگر وہ کارگر نہ ہوسکےتو ایسا نہ ہو کہ کسی دن بہت غصے میں آکر میں یہاں سے اپنا نام ونشاں ہی مٹا دوں اور تم بس پھر ہاتھ ملتے رہ جاؤ۔
اپنی جوابی حالت کے بارے میں کچھ مت لکھنا۔ میں جانتی ہوں کہ تم میں اتنا حوصلہ نہیں ہے کہ اعلی ظرفی سے اپنی غلطی تسلیم کرو۔ ہاں مگر خود کو سدھارنے کی کوشش ضرور کرنا۔
والسلام
تمھاری ایک ساتھی رکن
بہار نگر،نزد خوشی اسٹریٹ کے ساتھ والی دکھی گلی،
خزاں ٹاؤن۔
السلام و علیکم امن،
میں نے تمھارے خط کا جواب دینے کی کوشش کی ہے۔ لیکن اپنی طرف سے نہیں۔ بلکہ اس کی طرف سے جس کو تم نے لکھا ہے۔ اور اگر میری کوئی بات بری لگے تو ۔۔تو۔۔ کچھ بھی نہیں۔۔۔ امید ہے کچھ برا نہیں لگے گا۔ اور جو مجھے سمجھ آیا کہ تم نے یہ خط صرف اور صرف ایک ممبر کو لکھا ہے، اور مجھے اندازہ بھی ہے کہ وہ کون ہے۔
۔ میں نے جواب بھی اسی لحاظ سے لکھا ہے۔ جس کی طرف سے لکھا ہے، امید ہے کہ اسے بھی کچھ برا نہیں لگے گا۔
تو شروع کرتے ہیں۔ lol۔
----------------------------ooooooo-------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم۔
دکھی گلی، بہادر نگر۔
مورخہ، 30 مارچ 07
السلام علیکم امن امان،
امید ہے کہ تم بھی اپنی نہایت حساس طبیعت کے ساتھ خیریت سے ہو گی۔ کچھ دن پہلے ہی تمھارا شکایت نامہ ملا۔ بلکہ مجھے تو یہ فیصلہ کرنے میں دقت ہو رہی تھی کہ اس نامے کو کون سا “نامہ“ کہہ کر پکاروں۔ شوق نامہ، حساس نامہ، دھمکی نامہ، دشمن نامہ، الزام نامہ یا “محبت نامہ“۔ بس اسی الجھن میں جواب دینے میں بھی دیر ہو گئی۔
سیفی نے یہ خط وکتابت کا سلسلہ شروع کر کے کم از کم مجھے تو عجیب سی مصیبت میں گرفتار کر دیا ہے۔ اب دیکھو نا۔۔۔ اگر سیفی یہ سلسلہ شروع نہ کرتے تو تمھیں اپنے دل کی بات مجھ تک پہنچانے کا خیال بھی نہ آتا۔ اور میں تمھارا یہ خط پڑھ کر عجیب سی کشمکش میں مبتلا نہ ہوتا۔
اور سب سے بڑی بات تم نے یہ خط سر محفل مجھے لکھ ڈالا، سبھی قیاس آرائیوں میں مصروف ہوں۔ ماوراء کو ہی دیکھ لو، جانے کیا اناپ شناپ بولے جا رہی تھی۔ اس کی باتوں نے تو مجھے بہت طیش دلایا، لیکن میں نے خامشی میں ہی عافیت سمجھی۔ بول کر تو اپنا بھانڈا پھوڑنے والی ہی بات ہوتی۔
خیر چھوڑو ان باتوں کو۔۔۔ ہم اپنی بات کرتے ہیں۔ ویسے واقعی سچ ہی کہتے ہیں کہ “دل کو دل سے راہ ہوتی ہے“۔ میں تمھارے حربوں کو تو جان ہی چکا تھا، لیکن انا بھی تو کسی چیز کا نام ہے نا۔ لیکن تم بھولی بھالی میرے حربوں کو نہ جان سکی۔ شاید اسی لیے محفل سے اپنا نام و نشاں مٹانے کی دھمکی بھی دے بیٹھی۔ وہ کیا شعر تھا۔۔۔
تم لاکھ چھپاؤ چہرے سے احساس ہماری چاہت کا
دل جب بھی تمھارا دھڑکا ہے آواز یہاں تک آئی ہے۔
لیکن لگتا ہے۔ میرے دل کی آواز تم تک نہ پہنچی۔ میں بھلا تم سے کیوں ناراض ہونے لگا۔ تم تو ہو ہی اتنی اچھی۔ کہ ناراض ہونے کا جی بھی نہیں کرتا۔
لیکن بھولی امن، مجھ سے کوئی توقع بالکل نہ رکھنا۔ میں تو ہوا کے جھونکے کی طرح ہوں، کہیں رک بھی جاؤں تو زیادہ دیر کے لیے نہیں رکتا۔ اور ہاں، میں تو کبھی اپنے کرتوتوں پر شرمندہ نہیں ہوا تو تم کیا میرے لیے شرمندگی کا موجب بنو گی۔ اور یہ نظر انداز کی تمھیں کیا سوجھی۔ نظر انداز تو تم نے مجھے یہ کہہ کر کر دیا۔ کہ “ خیر ہمارا کیا ہے کہ ایک تمھی پر تو دنیا ختم نہیں ہونے والی۔“
تمھاری باتوں سے مجھے یہ اندازہ تو ہوا کہ ہم دونوں میں کم از کم ایک قدر تو مشترک ہے۔ میرا خیال ہے کہ ہم دونوں ہی حد سے زیادہ حساس ہیں اور اس کے ساتھ برداشت کا مادہ بھی ہم میں کم ہے۔ بھولی امن، دشمنوں کو ایذا پہنچانے کے لیے نت نئے حربے اب میں تمھیں سکھاؤں گا۔ تم بس جلدی سے اپنے لمبے لمبے ناخنوں کو تراش خراش لو، مجھے ڈر ہے کہ کہیں میری بے وفائی کر جانے پر یہ ناخن مجھ پر ہی استعمال نہ ہو جائیں۔ اور اس دنیا میں رہنا ہے تو تمھیں بہادر بن کر رہنا پڑے گا۔ یہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر نام و نشاں مٹا دینے والی باتیں کمزور لوگ کرتے ہیں۔ یاد رکھنا، کوئی کسی کے لیے اتنا ضروری نہیں ہوتا کہ اپنی ہی ذات کو تکلیف پہنچاتے رہو۔
آخر میں اتنا ہی کہوں گا کہ اپنے فیصلے پر ایک بار پھر نظر ثانی کر لینا، کیونکہ میں جو نظر آتا ہوں، وہ بالکل نہیں ہوں، میں نے اپنی شخصیت پر ظلم کر کے اس میں وہ چیزیں بھی ٹھونس دی ہوئی ہیں، جن کو میری شخصیت قبول بھی نہ کرتی تھی۔ اور اپنی غلطی کو تسلیم کرنا تو مجھے آتا ہی نہیں ورنہ آج تک اپنے آپ کو سدھارنے میں کامیاب نہ ہو گیا ہوتا۔ سارے خط کا خلاصہ ان اشعار میں۔ سیانی تو تم ہو ہی۔ امید ہے کہ سمجھ جاؤ گی۔
مختار ہے دل جتنا مجبور ہے اتنا ہی
جتنا کہ دیا تو نے مقدور ہے اتنا ہی
جتنا کہ حقیقت سے آگاہ ہوا کوئی
اظہار کی کوشش میں معذور ہے اتنا ہی
احساس نے پایا ہے نزدیک تجھے جتنا
ادراک کی سرحد سے تو دور ہے اتنا ہی۔
اپنا ڈھیر سا خیال اور مجھے دعاؤں میں یاد رکھنا
والسلام
تمھارا ساتھی رکن۔
اردو ویب، نزد اداس محفل، محلہ بدتمیزاں۔