خط میں نے تیرے نام لکھا

ماوراء نے کہا:
محب علوی نے کہا:
ویسے یہ بات تم سے پہلے امن ، ماورا اور سارہ خان بھی کر چکی ہیں کہ کوئی اصل میں ایسے خط لکھے تو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اسے میں دبی خواہش کہوں یا برسوں کا ارمان :wink:
میں نے تو ابھی تک نہیں کہا۔ اور کہوں گی بھی نہیں۔ کیونکہ آج تک کوئی ایسا پیدا ہی نہیں ہوا جو اتنی جرات کر سکے۔

ویسے تمھارا گلا کتنی بار دبایا گیا ہے؟؟
smilehandmd0.gif

ہاں یاد آیا تم نے نہیں کہا تھا اس لیے اب تم سے کہلوالیا ۔

دیکھا وہی انداز حسرت ، دبے ارمان کا نمایا

آج تک کوئی ایسا پیدا ہی نہیں ہوا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ افسوس :wink:
 

شمشاد

لائبریرین
محب علوی نے کہا:
بہت خوب بی ٹی ، پنجابی کا اچھا استعمال کیا ہے اور سانوں کی دا وی ، شمشاد کا جواب شاید نہ آئے۔

مجھے ان کے خط کا مزہ ہی نہیں آیا اور انہوں نے بھی “ کھسیانی بلی کھمبا نوچے“ پر عمل کیا ہے۔
 
سارہ خان نے کہا:
حجاب نے کہا:
محب علوی نے کہا:
حجاب نے کہا:
محب علوی نے کہا:
محب علوی نے کہا:
محب علوی نے کہا:
چونکہ نیا دور ہے اس لیے چیٹنگ اور ای میل سے بات چیت کا آغاز اب معمول کا حصہ ہے۔ اسی پس منظر میں اس خط کا آغاز ہوتا ہے۔


آداب ،

آپ کا شاعرانہ خلوص بذریعہ ای میل پہنچتا رہا اور میں اب اس پائے ثبوت تک پہنچ چکا ہوں جہاں میں باآسانی یہ کہہ سکتا ہوں کہ آپ کا ذوقِ سلیم حسنِ داد کے قابل ہے اور آپ جیسی حسنِ نظر رکھنے ولی شخصیت سے شرفِ کلام نثر کی شکل میں نہ ہونا باعثِ محرومی اور خلاف ادب ہوگا۔ جب میں نے پہلی غزل بھیجی تو دل کو یہی وہم ستاتا رہا کہ جانے غزل کا نصیب کسی باذوق سے جاگے گا یا کوئی بے ہنر اس کی قسمت تاریک کر دے گا۔ ابھی اس کشمکش میں مبتلا ہی تھا کہ اس کا جواب ایک اعلی پائے کی غزل سے باخوبی مجھ تک پہنچ گیا اور سوچا کہ اس قبولیت کی گھڑی میں کچھ اور مانگ لیا ہوتا تو شاید وہ اس سے بڑھ کر نہ ہوتا کیونکہ اس سے عمدہ جواب اور بھلا کیا ہوگا۔ شاعری ہم دونوں میں قدرِ مشترک ٹھہری ہے تو اس حوالے سے عرض کرتا چلوں کہ میں اپنے بارے میں فقط اتنا ہی کہنا چاہوں گا کہ تعارف کی ضرورت تو نہیں ہے کہ

آپ اپنا تعارف ہوا بہار کی ہے

پھر بھی رسم دنیا نبھانے کو لکھتا چلوں کہ غمِ روزگار نے مشینوں میں الجھا دیا ہے ورنہ دل تو فنونِ لطیفہ میں ہی دھڑکتا ہے۔ دیگر پسندیدہ مشاغل میں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کافی کچھ ہے مگر کچھ آئندہ کے لیے بچا کر رکھ رہا ہوں۔

خط کے اختتام سے پہلے آپ سے کچھ آشنائی کی تمنا کا اظہار کرنا ضروری سمجھتا ہوں جو آپ کی طرف سے ایک ذاتی ای میل باشمول چند دلچسپیوں اور مشاغل تحریر کرنے سے ہو سکتی ہے اگر خط لکھنا دشوار ٹھہرے۔

آپ کے خط (ای میل ) کا بے چینی سے منتظر

حضور بہت شکریہ ، بڑی نوازش کہ آپ نے اس ناچیز کو اس قابل سمجھا اور اپنا قیمتی سرمایہ ، اپنی خوبصورت شاعری سے مجھے نوازا، بے انتہا مشکور ہوں۔
اسی لیے تو آپ سے اتنی الفت ہے کہ کوئی بات رد نہیں کرتے آپ باقی یہ بھی معلوم ہے کہ کچھ شکوے شکایاتیں آپ کو ہم سے ہیں جنہیں دور کرنا مشکل ضرور ہے مگر نا ممکن نہیں ، جلد ہی آپ کے دل میں دبی خواہشیں پوری ہو جائیں گی ، اطمینان رکھیے گا۔

اب اجازت دیجیے ، کبھی کبھار اپنے خوبصورت الفاظ سے ہمیں ضرور نواز دیا کیجیے اور ہاں اپنے شاعری کا ذخیرہ مجھے ضرور بھیجا کیجیے، کوئی اور قدر دان ہو نہ ہو ، میں ضرور ہوں ، آپ کی محنت کی ، آپ کی سوچ کی اور آپ کے جذبوں کی قدر ہے مجھے اپنا خیال رکھیے گا۔
خدا حافظ



پھر سے سلام ،

اجی شکریہ کیسا، آپ ہی کی چیز تھی آپ تک پہنچ گئی ویسے بھی عدل کا تقاضہ ہے کہ جس کی چیز ہو اس تک پہنچا دی جائے اور میں نے بھی عدل سے کام لیا۔ تمہارے (آپ سے تم کا فاصلہ طے کرتے ہوئے) لیے ہی لکھتا تھا تم تک نہ پہنچے تو اس سے بڑھ کر ان جمع شدہ شعروں کی بے قدری اور کیا ہوگی۔ میرا سرمایہ تمہارا بھی تو ہے ، تمہیں خود سے الگ کہاں سمجھا ہے میں نے۔ میری چیزیں تمہاری بھی تو ہیں اور تمہاری چیزوں کو بھی اپنا ہی سمجھتا ہوں میں۔ الفت کا اظہار چاہے کتنا ہی مبہم کیوں نہ ہو دلی مسرت کا باعث بنتا ہے اور تمہارے مکتوب سے اس پنہاں الفت کو محسوس کرکے روح مسرور ہوگئی ، جیسے کسی نے محبت کی برسات کر دی ہو میرے پیاسے تن پر۔ تمہاری الفت مجھے بے حد عزیز ہے اور یہ الفت ہی تو جو باہمی تعلق کو محبت سے جوڑے رکھتی ہے۔ روح کو شادابی بخشنے کے لیے کچھ الفاظ بطور ہدیہ عنایت کرتی رہنا کہ اس سے دل سنبھلا رہتا ہے اور چاہت کا احساس اور توانا رہتا ہے۔ یہ پڑھ کر ایک بار تو دل و جان جھوم اٹھے کہ کچھ خواہشیں عنقریب پوری ہو جائیں گی پھر خیال آیا کہ دل کے بہلانے کو یہ خیال اچھا ہے مگر سچا کیسے ہوگا، خواہش تو بس تمہیں سننے اور تم سے مل کر ان کہی کہنے کی ہیں مگر ہر خواب کی تعبیر کہاں؟ الفاظ میں وہ قوتِ اظہار کہاں جو تمہاری کمی کو بیان کر سکیں ، تمہارے بغیر بیتے دنوں کی داستان خود سنا سکیں ، تمہیں بتا سکیں کہ وہ دن جو تم سے باتیں کیے بنا گزرتے ہیں وہ کتنے بے کیف کتنے بے سکون ہوتے ہیں ان دنوں سے جن میں تم سے باتیں ہوتی ہیں ، جن میں زندگی محسوس ہوتی ہے۔ تمہارے کہے پر اتنا ہی اعتبار ہے جتنا خود تم پر اور میں مطمن رہوں گا بس تم میرے ساتھ رہنا۔
کبھی کبھار ہی کیوں میرے الفاظ پر بہت حق ہے تمہارا ، جب چاہا کرو گی آ جایا کریں گے سر تسلیم خم کیے اور شاعری کے مجموعے تو ہیں ہی تمہارے۔ جانتا ہوں کہ تم جذبوں کی سچی قدردان ہو اس لیے تو دل تمہارا قدردان ہے ، تمہارا خیال خود سے جدا نہیں کرتا اور ہمہ وقت تمہیں دل میں بسائے رکھتا ہوں۔

میری طرف سے اپنا بہت خیال رکھنا اور جلد لکھنا مجھے۔
الوداع

تمہارا خط اب کی بار کیا ملا سمجھو قیامت آ گئی طبیعت پہلے ہی ناساز تھی اب ساز و آواز بن گئی، تم خط پھینکتے ہوئے خط کے ساتھ چھوٹا سا پتھر باندھا کرو اس بار تمہارا خط امّاں کے سر پر لگا وہ تو شُکر تھا کہ امّاں اپنی چیخ و پکار میں یہ بھول گئیں کہ کیا چیز لگی ہے سر پر ورنہ دن میں تارے نظر آ جاتے مجھے :roll:
میں تمہاری شاعری سمجھنے کی کوشش کروں ، تمہارے خط سنبھالوں یا تمہاری حرکتوں پر پردے ڈالوں ایک ننھی سی معصوم میری جان اور اُس پر اتنے ظلم
:cry:

اور غزل ہی بھیجنا تم کبھی تحفے بھی بھیج دیا کرو ایسے تو کافی خبریں ملتی ہیں اڑتی اڑتی انار کلی میں گھوم رہے ہوتے ہو وہ تو شکر کرو اکیلے ہوتے ہو اس لیئے کبھی پوچھا نہیں اور یاد رکھو آئندہ بھی اکیلے گھومنا ورنہ وہ غزل ابّا کو بھجواؤں گی تمہارے جو تم نے مجھے لکھی ہے پھر تم پر دیوان لکھیں گے ابّا تمہارے :wink:

اور ہاں یہ تمہارے خط لکھنے کا شوق اور اُس سے زیادہ جواب مانگنے کا شوق کچھ زیادہ نہیں ہو گیا کہیں منشی لگنے کا ارادہ تو نہیں رکھتے اگر ایسا ہے تو ذرا قلم کو قابو میں رکھنا میں تمہارے مزاج سے خوب واقف ہوں :twisted:
اچھا اب اجازت دو تمہاری نئی رپورٹ ملے گی تو خط لکھوں گی۔


کیا زمانہ آ گیا کہ خط کا ملنا قیامت ٹھہرا اور طبیعت ناساز سے آہ و فریاد بن گئی۔ پہلے خط آنے پر بہار چھا جایا کرتی تھی جلترنگ سے بجنے لگتے تھے ، ہوائیں گنگنانے لگتی تھیں اور طبیعت پر نکھار آ جایا کرتا تھا اور اب قیامت ، ساری نا شکری کی بات ہیں ، گھر بیٹھے خط جو مل جاتے ہیں خود لکھ کر اس طرح پھینکنے پڑیں تو قدر بھی ہو۔ خط کے ساتھ چھوٹا پتھر باندھا کروں ، کیا خط لکھوانے کے ساتھ ساتھ پتھر مارنے کا کام بھی مجھ سے لیا کرو گی۔ گھر والوں سے نہیں بنتی تو یہ غضب تو نہ ڈھاؤ ، کچھ تو خیال کرو ان کا آخر تمہارے گھر والے ہیں ، میں اتنا خیال رکھتا ہوں کہ صرف آدھ پاؤ کے ٹماٹر میں لپیٹ کر خط پھینکتا ہوں اس پر بھی تمہاری اماں کا واویلا آدھا شہر سنتا ہے۔ ویسے تمہیں دن میں تارے نظر آنے بھی چاہیے رات بھر جو تارے گنواتی رہتی ہو مجھے۔
شاعری سمجھنے کی کوشش نہ کیا کرو بس پڑھا کرو ، سمجھ لی تو خود بھی لکھنے لگو گی اور پھر تمہارے لکھے کو کون پڑھے گا ، خط سنبھالنے کے لیے نہیں پڑھنے کے لیے بھیجتا ہوں اور حرکتیں تمہارے گھر سے باہر ہوتی ہیں تم ان سے آنکھیں بند رکھا کرو اور جتنی معصوم تمہاری جان ہے وہ میں جانتا ہوں یا تمہاری اماں۔

غزل تو خط کو سجانے کے لیے بھیجتا ہوں اور تحفے کی خوب کہی ، ابھی پچھلے ماہ ہی تو نقلی چاندی کی قیمتی انگوٹھی بھیجی تھی تمہیں۔ اب میں نواب تو ہوں نہیں کہ ہر خط کے ساتھ ایک عدد جڑاؤ ہار بھی بھیجا کروں اور بالفرض نواب ہوتا تو پھر ان عشق کے بکھیڑوں میں پڑنے کی ضرورت ہی کیا تھی ، اب میں تو خدا لگتی کہتا ہوں چاہے کسی کے دل پر جا کر لگے۔
انار کلی میں گھومتا ہوں مگر انار اور کلی دونوں سے دور دور ہی رہتا ہوں گو کھینچتے دونوں ہیں مگر تمہارا خیال ہے وگرنہ کب کا اکیلا پن ختم ہو چکا ہوتا۔ دھمکیاں مت دو غزلوں اور ابا کی اور دینی ہے تو ایک ایک کرکے دو ، اکھٹی دونوں تو نہ دو ویسے غزل میں نے وزن میں لکھی تھی اس لیے تمہارے ابا نہیں مانیں گے کہ میری ہے اور تمہارے لیے تو قطعا نہیں مانیں گے جتنے استعارے اور تشبہیات اس غزل میں ہیں اس کے بعد کسی کا خیال کسی الپسرا سے کم پر نہیں ٹھہرے گا، بھولے سے بھی تمہارا خیال نہیں آئے گا انہیں ، اک عمر گزری ہے ان کی اس دشت میں ، سمجھ جائیں گے کہ کسی نے کسی کو فردوسِ بریں دکھائی ہے۔

بھولے سے خط کا جواب دیتی ہو اور پھر یہ تاکید کہ میں جواب کا اصرار بھی نہ کروں ، منشی لگ جاتا کہیں تو تم خود پہروں بیٹھ کر خط لکھا کرتی مجھے ، تمہاری طبیعت سے اتنی واقفیت تو مجھے بھی ہے ۔

اجازت کی کتنی جلدی ہے اور جیسے سب کام میری اجازت سے کرتی ہو ، نئی رپورٹ سے پہلے ذرا اپنے گھر کی رپورٹ لکھ بھیجنا اور ہاں خط کے لیے کسی قاصد کا بندوبست کرلو اب مجھے سے ہر بار خط پھینکا نہیں جاتا۔

آداب
تمہارا خط ملا پڑھتے ہی خیال آیا تمہیں پھول ماروں گملے کے ساتھ
تم کبھی سچّے عاشق نہیں بن سکتے لکھا بھی تھا طبعیت ناساز ہے مگر تم خیریت بھی نہ پوچھ سکے اور گِلے شکوے کر کے سارے موڈ کا ستیاناس کر دیا۔
اور تم خط پھینک کے یوں غائب نہ ہوا کرو جیسے گنجے کے سر سے بال ،بہت سے کام کروانے ہوتے ہیں، بال پر یاد آیا ذرا اپنی زلفیں کٹوا لو جوگی لگنے لگے ہو پیسے نہیں ہیں تو ادھار لے لو ، اور کچھ کام بھی کیا کرو میرے گھر کی رپورٹ لینے کے علاوہ ، تم میرے ابّا کے بارے میں اتنا کچھ جانتے ہو اُن کی عمر کے تو نہیں لگتے کہ ابّا کے راز پتہ ہوں یا خزاب لگاتے ہو ، اب کی بار آؤ تو یاد سے اپنی بتیسی چیک کروانا منہ پر تو آج کل ڈینٹ پینٹ سے عمر چھپا لی جاتی ہے مجھے شک ہونے لگا ہے تمہاری عمر پر۔
کتنا افسوس کروں اُس بھیگی شام کا جب تم سے ملاقات ہوئی تھی اور تم نے اپنی پرانی سائیکل کے پیڈل پر پاؤں مارتے ہوئے آفر کی تھی کہ بے جا سائیکل تے ، اور میں تمہارے ساتھ جی ٹی روڈ کی سیر کو چل پڑی تھی مجھے کیا پتہ تھا کہ تم ترقی نہیں کرو گے اور سائیکل سے پیدل ہو جاؤ گے عقل سے پیدل تو تم پہلے ہی تھے مگر خیر اُمید کا دیا جلتا رکھو بجھ جائے تو پھر جلا لیا کرو ماچس ساتھ رکھا کرو ۔اور انار اور کلی سے دور رہتے ہو تو اُس میں بھی تمہارا قصور ہے کوئی گھاس ہی نہیں ڈالتی تو کرو گے کیا پہلے اپنے کرتوت تو ٹھیک کر لو وہ تو میں ہوں جو برداشت کرتی ہوں تمہاری دل پھینک عادتوں کو ، میرے جیسا ہیرا مل نہیں سکتا کبھی تم کیا جانو میری قدر کسی جوہری کو ہی ہو سکتی ہے ، وہ جو میری سہیلی ہے پینو اُس کے سامنے تمہارا ذکر کردوں تو شرمندہ کر دیتی ہے مجھے تمہارے قصّے سنا کر۔تمہارے ان قصّوں نے تو میری سُکھ دیاں نیندراں ہی اُڑا دی ہیں اور ایک تم ہو کہ تم سے خط تک نہیں پھینکا جاتا بابوں کی طرح بس چارپائی پر پڑے رہا کرو قاصد نہیں لگواؤں گی میں ہمت ہے تو خود کُنڈی بجا کے خط دے جایا کرو اور ٹماٹر خط کے ساتھ باندھنے کی بجائے کلو دو کلو ساتھ دے جایا کرو امّاں کو تاکہ ان ٹماٹروں کی چٹنیاں کھا کے کچھ تو اچھا سوچیں میرے گھر والے تمہارے لیئے، اچھا اب مجھے دیر ہو رہی ہے ذرا محلّے سے جاکے آج کی رپورٹ تو لوں جب تک تم چھت پر جاکے کبوتر بازی کے چکر میں تاک جھانک کر لو ۔
والسّلام ۔۔۔۔۔۔ گلابو ۔

زبردست حجاب بڑا مزے کا لکھا ہےیہ لٹھ مار قسم کا پریم پتر۔۔۔:wink: :best: ۔۔ حیرت ہے پہلے میری نظر سے کیوں نہیں گزرا ۔۔ :? ۔۔ اور یہ فیضو بھی بڑا ڈھیٹ قسم کا لگتا کہ ۔۔ اتنی باتیں سننے کے باوجود بھی باز نہیں آتا ۔۔۔ :) :p
اس دفعہ کا جواب بھی اتنے ہی مزے کا ہونا چاہئے ۔۔۔ :wink: :p

یہ لٹھ مار کر کس قسم کے پریم پتر لکھے جاتے ہیں ؟

حیرت کیسی ؟ اتنے خطوط میں ڈھونڈنا آسان کہاں تھا۔ ویسے لگتا ہے کہ اصلی خط یا تو کبھی لکھے نہیں یا کسی نے پڑھ کر سنائے نہیں ورنہ پتہ ہوتا کہ خطوط میں باتیں پڑھی جاتی ہیں سنی نہیں :p

ویسے کیا فیضو کو مستقل مزاج کہنا چاہ رہی ہیں؟
اس دفعہ کا جواب تو دیکھتے ہیں کب آتا ہے مگر شاید اتنے مزے کا نہ ہو جتنے کی امید ہے۔ :lol:
 

ماوراء

محفلین
محب علوی نے کہا:
ماوراء نے کہا:
محب علوی نے کہا:
ویسے یہ بات تم سے پہلے امن ، ماورا اور سارہ خان بھی کر چکی ہیں کہ کوئی اصل میں ایسے خط لکھے تو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اسے میں دبی خواہش کہوں یا برسوں کا ارمان :wink:
میں نے تو ابھی تک نہیں کہا۔ اور کہوں گی بھی نہیں۔ کیونکہ آج تک کوئی ایسا پیدا ہی نہیں ہوا جو اتنی جرات کر سکے۔

ویسے تمھارا گلا کتنی بار دبایا گیا ہے؟؟
smilehandmd0.gif

ہاں یاد آیا تم نے نہیں کہا تھا اس لیے اب تم سے کہلوالیا ۔

دیکھا وہی انداز حسرت ، دبے ارمان کا نمایا

آج تک کوئی ایسا پیدا ہی نہیں ہوا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ افسوس :wink:
اس میں افسوس کی کیا بات ہے۔ huh۔

کیا دنیا میں سارے خط لکھنے والے ہی پیدا ہوئے ہیں؟
smilehandmd0.gif
 

ماوراء

محفلین
محب علوی نے کہا:
اس دفعہ کا جواب تو دیکھتے ہیں کب آتا ہے مگر شاید اتنے مزے کا نہ ہو جتنے کی امید ہے۔ :lol:
فکر نہ کرو۔ اس بار گلابو ایکسپرٹ لوگوں سے خط لکھوانے گئی ہے۔ بس آتی ہی ہو گی۔ ایک، دو گھنٹے انتظار کرو۔
smilehandmd0.gif
 

عمر سیف

محفلین
شمشاد نے کہا:
یہ خط آپ کو ملے گا کب؟

سردار جی نے پوسٹ ماسڑ سے پوچھا، “ یہ خط دلی کب پہنچے گا۔“

“ دو دن میں “ پوسٹ ماسٹر نے جواب دیا۔

“ میں شرط لگاتا ہوں کہ یہ دو سال میں بھی دلی نہیں پہنچے گا۔“ سردار جی کہنے لگے۔

پوسٹ ماسٹر بڑا حیران ہوا اور پوچھنے لگا “ وہ کیوں؟“

سردار جی بولے “ وہ اس لیے کہ میں نے اس پر نینی تال کا پتہ لکھا ہے۔“

:wink:

پسند آیا۔ :)
 
ماوراء نے کہا:
امن ایمان نے کہا:
آج مورخہ 26 مارچ 2007 بروز پیر
بمقام: اردو ویب، نزد اداس محفل، محلہ بدتمیزاں۔


مکرمی و محترمی عزیزم رکنِ محفل !

مجھے امید ہے کہ آپ اپنی بےحس طبیعت کے باعث بخیروعافیت ہوں گے۔ بہت معذرت کے ساتھ کہ بیمار تو ہم جیسے حساس دل ہوتے ہیں جنھیں ذرا سی لاپرواہی سے عرضہ دل لاحق ہوجاتا ہے۔ عرصہ گزر گیا اور ہم دل کی بات دل میں رکھے بیٹھے رہے۔آج برادرم سیفی کا کھلا خط پڑھا تو خونِ چنگیزی نے جوش مارا اور سوچا کہ جب وہ سرعام ایک محبت نامہ اپنے منتظم اعلی کو لکھ سکتے ہیں تو ہم کیوں نہیں ایک شکایت نامہ لکھ سکتے؟

ازیں بس۔۔۔۔چند روز ہوئے دل ناداں کو جانے کیا شکوک لاحق ہوگئے ہیں۔۔ایسا لگتا ہے جیسے کہ تم مجھ سے ناراض ہوگئے ہو۔لاکھ سمجھایا کہ مجھ بے وقوف سے اگر کچھ غلط سرزد ہوگیاہے تو ایسا نادانستگی میں ہوا ہوگا۔۔ہم تو اپنوں کو ناراض کرنے کا اور تنگ کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتے۔سوچ سمجھ کے تو ہم صرف دشمنوں کو تنگ کرتے ہیں اور انھیں ایذا پہنچانے کے نت نئےحربے تیار کرتے رہتےہیں جن میں سرفہرست اپنے خوبصورت ناخنوں کی دیکھ بھال ہے جو کہ ہمارے ان زندہ دشمنوں کے لیے ہے جو چوبیس گھنٹے ہمارے ساتھ ہوتے ہیں اور اپنے مشینی دشمنوں کے لیے تو ہم چن چن کے ایسی پوسٹس پڑھتے اور یاد رکھتے ہیں جن میں معرکہ آرائی بہت دور تک کی گئی ہو اور ہم بھی ایسی تلخ باتوں کو سیکھ کر کسی اور میدانِ جنگ میں دوبدو ان بہادر سپاہیوں کی طرح اپنے زبان کے جوہر دکھلا سکیں۔یہ تو تھی ہماری حکمت عملی دشمنوں کے واسطے۔ ذرا گھڑی بھر کو سوچو کہ جو دوستوں سے دشمنی کے گُر دیکھ دیکھ کر سیکھ رہی ہے وہ پھر کس طرح تم سے تمھارے جیسی بےحسی نہیں سیکھے گی؟
مجھے پتہ ہے کہ تم سوچو گے نہیں، تمھیں تو ہر وقت یہ ہول پڑا رہتا ہے کہ یہ چھٹانک بھر سی لڑکی سے بات کرنا کہیں تمھارے لیے شرمندگی کا باعث نہ بن جائے۔اسی لیے تم ہر جگہ بہت سکون سے مجھے نظر انداز کردیتے ہو۔ خیر ہمارا کیا ہے کہ ایک تمھی پر تو دنیا ختم نہیں ہونے والی۔میں اب بھی کہہ رہی ہوں کہ اپنی اس روش سے باز آجاؤ۔ ابھی تم میرے دو حربوں کو تو جان ہی چکے ہو اگر وہ کارگر نہ ہوسکےتو ایسا نہ ہو کہ کسی دن بہت غصے میں آکر میں یہاں سے اپنا نام ونشاں ہی مٹا دوں اور تم بس پھر ہاتھ ملتے رہ جاؤ۔
اپنی جوابی حالت کے بارے میں کچھ مت لکھنا۔ میں جانتی ہوں کہ تم میں اتنا حوصلہ نہیں ہے کہ اعلی ظرفی سے اپنی غلطی تسلیم کرو۔ ہاں مگر خود کو سدھارنے کی کوشش ضرور کرنا۔

والسلام

تمھاری ایک ساتھی رکن
بہار نگر،نزد خوشی اسٹریٹ کے ساتھ والی دکھی گلی،
خزاں ٹاؤن۔
السلام و علیکم امن،
میں نے تمھارے خط کا جواب دینے کی کوشش کی ہے۔ لیکن اپنی طرف سے نہیں۔ بلکہ اس کی طرف سے جس کو تم نے لکھا ہے۔ اور اگر میری کوئی بات بری لگے تو ۔۔تو۔۔ کچھ بھی نہیں۔۔۔ امید ہے کچھ برا نہیں لگے گا۔ اور جو مجھے سمجھ آیا کہ تم نے یہ خط صرف اور صرف ایک ممبر کو لکھا ہے، اور مجھے اندازہ بھی ہے کہ وہ کون ہے۔ :p ۔ میں نے جواب بھی اسی لحاظ سے لکھا ہے۔ جس کی طرف سے لکھا ہے، امید ہے کہ اسے بھی کچھ برا نہیں لگے گا۔ :D
تو شروع کرتے ہیں۔ lol۔


----------------------------ooooooo-------------------------​

بسم اللہ الرحمن الرحیم۔​


دکھی گلی، بہادر نگر۔
مورخہ، 30 مارچ 07

السلام علیکم امن امان،

امید ہے کہ تم بھی اپنی نہایت حساس طبیعت کے ساتھ خیریت سے ہو گی۔ کچھ دن پہلے ہی تمھارا شکایت نامہ ملا۔ بلکہ مجھے تو یہ فیصلہ کرنے میں دقت ہو رہی تھی کہ اس نامے کو کون سا “نامہ“ کہہ کر پکاروں۔ شوق نامہ، حساس نامہ، دھمکی نامہ، دشمن نامہ، الزام نامہ یا “محبت نامہ“۔ بس اسی الجھن میں جواب دینے میں بھی دیر ہو گئی۔

سیفی نے یہ خط وکتابت کا سلسلہ شروع کر کے کم از کم مجھے تو عجیب سی مصیبت میں گرفتار کر دیا ہے۔ اب دیکھو نا۔۔۔ اگر سیفی یہ سلسلہ شروع نہ کرتے تو تمھیں اپنے دل کی بات مجھ تک پہنچانے کا خیال بھی نہ آتا۔ اور میں تمھارا یہ خط پڑھ کر عجیب سی کشمکش میں مبتلا نہ ہوتا۔

اور سب سے بڑی بات تم نے یہ خط سر محفل مجھے لکھ ڈالا، سبھی قیاس آرائیوں میں مصروف ہوں۔ ماوراء کو ہی دیکھ لو، جانے کیا اناپ شناپ بولے جا رہی تھی۔ اس کی باتوں نے تو مجھے بہت طیش دلایا، لیکن میں نے خامشی میں ہی عافیت سمجھی۔ بول کر تو اپنا بھانڈا پھوڑنے والی ہی بات ہوتی۔

خیر چھوڑو ان باتوں کو۔۔۔ ہم اپنی بات کرتے ہیں۔ ویسے واقعی سچ ہی کہتے ہیں کہ “دل کو دل سے راہ ہوتی ہے“۔ میں تمھارے حربوں کو تو جان ہی چکا تھا، لیکن انا بھی تو کسی چیز کا نام ہے نا۔ لیکن تم بھولی بھالی میرے حربوں کو نہ جان سکی۔ شاید اسی لیے محفل سے اپنا نام و نشاں مٹانے کی دھمکی بھی دے بیٹھی۔ وہ کیا شعر تھا۔۔۔

تم لاکھ چھپاؤ چہرے سے احساس ہماری چاہت کا
دل جب بھی تمھارا دھڑکا ہے آواز یہاں تک آئی ہے۔​

لیکن لگتا ہے۔ میرے دل کی آواز تم تک نہ پہنچی۔ میں بھلا تم سے کیوں ناراض ہونے لگا۔ تم تو ہو ہی اتنی اچھی۔ کہ ناراض ہونے کا جی بھی نہیں کرتا۔

لیکن بھولی امن، مجھ سے کوئی توقع بالکل نہ رکھنا۔ میں تو ہوا کے جھونکے کی طرح ہوں، کہیں رک بھی جاؤں تو زیادہ دیر کے لیے نہیں رکتا۔ اور ہاں، میں تو کبھی اپنے کرتوتوں پر شرمندہ نہیں ہوا تو تم کیا میرے لیے شرمندگی کا موجب بنو گی۔ اور یہ نظر انداز کی تمھیں کیا سوجھی۔ نظر انداز تو تم نے مجھے یہ کہہ کر کر دیا۔ کہ “ خیر ہمارا کیا ہے کہ ایک تمھی پر تو دنیا ختم نہیں ہونے والی۔“

تمھاری باتوں سے مجھے یہ اندازہ تو ہوا کہ ہم دونوں میں کم از کم ایک قدر تو مشترک ہے۔ میرا خیال ہے کہ ہم دونوں ہی حد سے زیادہ حساس ہیں اور اس کے ساتھ برداشت کا مادہ بھی ہم میں کم ہے۔ بھولی امن، دشمنوں کو ایذا پہنچانے کے لیے نت نئے حربے اب میں تمھیں سکھاؤں گا۔ تم بس جلدی سے اپنے لمبے لمبے ناخنوں کو تراش خراش لو، مجھے ڈر ہے کہ کہیں میری بے وفائی کر جانے پر یہ ناخن مجھ پر ہی استعمال نہ ہو جائیں۔ اور اس دنیا میں رہنا ہے تو تمھیں بہادر بن کر رہنا پڑے گا۔ یہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر نام و نشاں مٹا دینے والی باتیں کمزور لوگ کرتے ہیں۔ یاد رکھنا، کوئی کسی کے لیے اتنا ضروری نہیں ہوتا کہ اپنی ہی ذات کو تکلیف پہنچاتے رہو۔

آخر میں اتنا ہی کہوں گا کہ اپنے فیصلے پر ایک بار پھر نظر ثانی کر لینا، کیونکہ میں جو نظر آتا ہوں، وہ بالکل نہیں ہوں، میں نے اپنی شخصیت پر ظلم کر کے اس میں وہ چیزیں بھی ٹھونس دی ہوئی ہیں، جن کو میری شخصیت قبول بھی نہ کرتی تھی۔ اور اپنی غلطی کو تسلیم کرنا تو مجھے آتا ہی نہیں ورنہ آج تک اپنے آپ کو سدھارنے میں کامیاب نہ ہو گیا ہوتا۔ سارے خط کا خلاصہ ان اشعار میں۔ سیانی تو تم ہو ہی۔ امید ہے کہ سمجھ جاؤ گی۔

مختار ہے دل جتنا مجبور ہے اتنا ہی
جتنا کہ دیا تو نے مقدور ہے اتنا ہی
جتنا کہ حقیقت سے آگاہ ہوا کوئی
اظہار کی کوشش میں معذور ہے اتنا ہی
احساس نے پایا ہے نزدیک تجھے جتنا
ادراک کی سرحد سے تو دور ہے اتنا ہی۔​

اپنا ڈھیر سا خیال اور مجھے دعاؤں میں یاد رکھنا
والسلام
تمھارا ساتھی رکن۔
اردو ویب، نزد اداس محفل، محلہ بدتمیزاں۔

آج پھر سے امن ایمان اور ماورا کے خطوط پڑھے ، دونوں مزے کے تھے۔ گو کہ دونوں نے معذرتی تمہیدیں باندھ کر خط شروع کیے تھے مگر پھر بھی لڑائی ہوتے ہوتے رہ گئی کسی اور نے خط لکھا ہوتا تو جانے کیا ہوتا :lol:
 

ماوراء

محفلین
محب علوی نے کہا:
ماوراء نے کہا:
امن ایمان نے کہا:
آج مورخہ 26 مارچ 2007 بروز پیر
بمقام: اردو ویب، نزد اداس محفل، محلہ بدتمیزاں۔


مکرمی و محترمی عزیزم رکنِ محفل !

مجھے امید ہے کہ آپ اپنی بےحس طبیعت کے باعث بخیروعافیت ہوں گے۔ بہت معذرت کے ساتھ کہ بیمار تو ہم جیسے حساس دل ہوتے ہیں جنھیں ذرا سی لاپرواہی سے عرضہ دل لاحق ہوجاتا ہے۔ عرصہ گزر گیا اور ہم دل کی بات دل میں رکھے بیٹھے رہے۔آج برادرم سیفی کا کھلا خط پڑھا تو خونِ چنگیزی نے جوش مارا اور سوچا کہ جب وہ سرعام ایک محبت نامہ اپنے منتظم اعلی کو لکھ سکتے ہیں تو ہم کیوں نہیں ایک شکایت نامہ لکھ سکتے؟

ازیں بس۔۔۔۔چند روز ہوئے دل ناداں کو جانے کیا شکوک لاحق ہوگئے ہیں۔۔ایسا لگتا ہے جیسے کہ تم مجھ سے ناراض ہوگئے ہو۔لاکھ سمجھایا کہ مجھ بے وقوف سے اگر کچھ غلط سرزد ہوگیاہے تو ایسا نادانستگی میں ہوا ہوگا۔۔ہم تو اپنوں کو ناراض کرنے کا اور تنگ کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتے۔سوچ سمجھ کے تو ہم صرف دشمنوں کو تنگ کرتے ہیں اور انھیں ایذا پہنچانے کے نت نئےحربے تیار کرتے رہتےہیں جن میں سرفہرست اپنے خوبصورت ناخنوں کی دیکھ بھال ہے جو کہ ہمارے ان زندہ دشمنوں کے لیے ہے جو چوبیس گھنٹے ہمارے ساتھ ہوتے ہیں اور اپنے مشینی دشمنوں کے لیے تو ہم چن چن کے ایسی پوسٹس پڑھتے اور یاد رکھتے ہیں جن میں معرکہ آرائی بہت دور تک کی گئی ہو اور ہم بھی ایسی تلخ باتوں کو سیکھ کر کسی اور میدانِ جنگ میں دوبدو ان بہادر سپاہیوں کی طرح اپنے زبان کے جوہر دکھلا سکیں۔یہ تو تھی ہماری حکمت عملی دشمنوں کے واسطے۔ ذرا گھڑی بھر کو سوچو کہ جو دوستوں سے دشمنی کے گُر دیکھ دیکھ کر سیکھ رہی ہے وہ پھر کس طرح تم سے تمھارے جیسی بےحسی نہیں سیکھے گی؟
مجھے پتہ ہے کہ تم سوچو گے نہیں، تمھیں تو ہر وقت یہ ہول پڑا رہتا ہے کہ یہ چھٹانک بھر سی لڑکی سے بات کرنا کہیں تمھارے لیے شرمندگی کا باعث نہ بن جائے۔اسی لیے تم ہر جگہ بہت سکون سے مجھے نظر انداز کردیتے ہو۔ خیر ہمارا کیا ہے کہ ایک تمھی پر تو دنیا ختم نہیں ہونے والی۔میں اب بھی کہہ رہی ہوں کہ اپنی اس روش سے باز آجاؤ۔ ابھی تم میرے دو حربوں کو تو جان ہی چکے ہو اگر وہ کارگر نہ ہوسکےتو ایسا نہ ہو کہ کسی دن بہت غصے میں آکر میں یہاں سے اپنا نام ونشاں ہی مٹا دوں اور تم بس پھر ہاتھ ملتے رہ جاؤ۔
اپنی جوابی حالت کے بارے میں کچھ مت لکھنا۔ میں جانتی ہوں کہ تم میں اتنا حوصلہ نہیں ہے کہ اعلی ظرفی سے اپنی غلطی تسلیم کرو۔ ہاں مگر خود کو سدھارنے کی کوشش ضرور کرنا۔

والسلام

تمھاری ایک ساتھی رکن
بہار نگر،نزد خوشی اسٹریٹ کے ساتھ والی دکھی گلی،
خزاں ٹاؤن۔
السلام و علیکم امن،
میں نے تمھارے خط کا جواب دینے کی کوشش کی ہے۔ لیکن اپنی طرف سے نہیں۔ بلکہ اس کی طرف سے جس کو تم نے لکھا ہے۔ اور اگر میری کوئی بات بری لگے تو ۔۔تو۔۔ کچھ بھی نہیں۔۔۔ امید ہے کچھ برا نہیں لگے گا۔ اور جو مجھے سمجھ آیا کہ تم نے یہ خط صرف اور صرف ایک ممبر کو لکھا ہے، اور مجھے اندازہ بھی ہے کہ وہ کون ہے۔ :p ۔ میں نے جواب بھی اسی لحاظ سے لکھا ہے۔ جس کی طرف سے لکھا ہے، امید ہے کہ اسے بھی کچھ برا نہیں لگے گا۔ :D
تو شروع کرتے ہیں۔ lol۔


----------------------------ooooooo-------------------------​

بسم اللہ الرحمن الرحیم۔​


دکھی گلی، بہادر نگر۔
مورخہ، 30 مارچ 07

السلام علیکم امن امان،

امید ہے کہ تم بھی اپنی نہایت حساس طبیعت کے ساتھ خیریت سے ہو گی۔ کچھ دن پہلے ہی تمھارا شکایت نامہ ملا۔ بلکہ مجھے تو یہ فیصلہ کرنے میں دقت ہو رہی تھی کہ اس نامے کو کون سا “نامہ“ کہہ کر پکاروں۔ شوق نامہ، حساس نامہ، دھمکی نامہ، دشمن نامہ، الزام نامہ یا “محبت نامہ“۔ بس اسی الجھن میں جواب دینے میں بھی دیر ہو گئی۔

سیفی نے یہ خط وکتابت کا سلسلہ شروع کر کے کم از کم مجھے تو عجیب سی مصیبت میں گرفتار کر دیا ہے۔ اب دیکھو نا۔۔۔ اگر سیفی یہ سلسلہ شروع نہ کرتے تو تمھیں اپنے دل کی بات مجھ تک پہنچانے کا خیال بھی نہ آتا۔ اور میں تمھارا یہ خط پڑھ کر عجیب سی کشمکش میں مبتلا نہ ہوتا۔

اور سب سے بڑی بات تم نے یہ خط سر محفل مجھے لکھ ڈالا، سبھی قیاس آرائیوں میں مصروف ہوں۔ ماوراء کو ہی دیکھ لو، جانے کیا اناپ شناپ بولے جا رہی تھی۔ اس کی باتوں نے تو مجھے بہت طیش دلایا، لیکن میں نے خامشی میں ہی عافیت سمجھی۔ بول کر تو اپنا بھانڈا پھوڑنے والی ہی بات ہوتی۔

خیر چھوڑو ان باتوں کو۔۔۔ ہم اپنی بات کرتے ہیں۔ ویسے واقعی سچ ہی کہتے ہیں کہ “دل کو دل سے راہ ہوتی ہے“۔ میں تمھارے حربوں کو تو جان ہی چکا تھا، لیکن انا بھی تو کسی چیز کا نام ہے نا۔ لیکن تم بھولی بھالی میرے حربوں کو نہ جان سکی۔ شاید اسی لیے محفل سے اپنا نام و نشاں مٹانے کی دھمکی بھی دے بیٹھی۔ وہ کیا شعر تھا۔۔۔

تم لاکھ چھپاؤ چہرے سے احساس ہماری چاہت کا
دل جب بھی تمھارا دھڑکا ہے آواز یہاں تک آئی ہے۔​

لیکن لگتا ہے۔ میرے دل کی آواز تم تک نہ پہنچی۔ میں بھلا تم سے کیوں ناراض ہونے لگا۔ تم تو ہو ہی اتنی اچھی۔ کہ ناراض ہونے کا جی بھی نہیں کرتا۔

لیکن بھولی امن، مجھ سے کوئی توقع بالکل نہ رکھنا۔ میں تو ہوا کے جھونکے کی طرح ہوں، کہیں رک بھی جاؤں تو زیادہ دیر کے لیے نہیں رکتا۔ اور ہاں، میں تو کبھی اپنے کرتوتوں پر شرمندہ نہیں ہوا تو تم کیا میرے لیے شرمندگی کا موجب بنو گی۔ اور یہ نظر انداز کی تمھیں کیا سوجھی۔ نظر انداز تو تم نے مجھے یہ کہہ کر کر دیا۔ کہ “ خیر ہمارا کیا ہے کہ ایک تمھی پر تو دنیا ختم نہیں ہونے والی۔“

تمھاری باتوں سے مجھے یہ اندازہ تو ہوا کہ ہم دونوں میں کم از کم ایک قدر تو مشترک ہے۔ میرا خیال ہے کہ ہم دونوں ہی حد سے زیادہ حساس ہیں اور اس کے ساتھ برداشت کا مادہ بھی ہم میں کم ہے۔ بھولی امن، دشمنوں کو ایذا پہنچانے کے لیے نت نئے حربے اب میں تمھیں سکھاؤں گا۔ تم بس جلدی سے اپنے لمبے لمبے ناخنوں کو تراش خراش لو، مجھے ڈر ہے کہ کہیں میری بے وفائی کر جانے پر یہ ناخن مجھ پر ہی استعمال نہ ہو جائیں۔ اور اس دنیا میں رہنا ہے تو تمھیں بہادر بن کر رہنا پڑے گا۔ یہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر نام و نشاں مٹا دینے والی باتیں کمزور لوگ کرتے ہیں۔ یاد رکھنا، کوئی کسی کے لیے اتنا ضروری نہیں ہوتا کہ اپنی ہی ذات کو تکلیف پہنچاتے رہو۔

آخر میں اتنا ہی کہوں گا کہ اپنے فیصلے پر ایک بار پھر نظر ثانی کر لینا، کیونکہ میں جو نظر آتا ہوں، وہ بالکل نہیں ہوں، میں نے اپنی شخصیت پر ظلم کر کے اس میں وہ چیزیں بھی ٹھونس دی ہوئی ہیں، جن کو میری شخصیت قبول بھی نہ کرتی تھی۔ اور اپنی غلطی کو تسلیم کرنا تو مجھے آتا ہی نہیں ورنہ آج تک اپنے آپ کو سدھارنے میں کامیاب نہ ہو گیا ہوتا۔ سارے خط کا خلاصہ ان اشعار میں۔ سیانی تو تم ہو ہی۔ امید ہے کہ سمجھ جاؤ گی۔

مختار ہے دل جتنا مجبور ہے اتنا ہی
جتنا کہ دیا تو نے مقدور ہے اتنا ہی
جتنا کہ حقیقت سے آگاہ ہوا کوئی
اظہار کی کوشش میں معذور ہے اتنا ہی
احساس نے پایا ہے نزدیک تجھے جتنا
ادراک کی سرحد سے تو دور ہے اتنا ہی۔​

اپنا ڈھیر سا خیال اور مجھے دعاؤں میں یاد رکھنا
والسلام
تمھارا ساتھی رکن۔
اردو ویب، نزد اداس محفل، محلہ بدتمیزاں۔

آج پھر سے امن ایمان اور ماورا کے خطوط پڑھے ، دونوں مزے کے تھے۔ گو کہ دونوں نے معذرتی تمہیدیں باندھ کر خط شروع کیے تھے مگر پھر بھی لڑائی ہوتے ہوتے رہ گئی کسی اور نے خط لکھا ہوتا تو جانے کیا ہوتا :lol:
اسے کہتے ہیں لگائی بجھائی۔ ہم میں زبردست قسم کا اتحاد ہو چکا ہے۔ اب یہ باتیں کسی کام کی نہیں۔
6da22096.gif
ویسے یہ خط لکھنے کے بعد ہی ہم میں اتحاد ہوا۔ :D
 

سارہ خان

محفلین
محب علوی نے کہا:
سارہ خان نے کہا:
حجاب نے کہا:
محب علوی نے کہا:
حجاب نے کہا:
محب علوی نے کہا:
محب علوی نے کہا:
محب علوی نے کہا:
چونکہ نیا دور ہے اس لیے چیٹنگ اور ای میل سے بات چیت کا آغاز اب معمول کا حصہ ہے۔ اسی پس منظر میں اس خط کا آغاز ہوتا ہے۔


آداب ،

آپ کا شاعرانہ خلوص بذریعہ ای میل پہنچتا رہا اور میں اب اس پائے ثبوت تک پہنچ چکا ہوں جہاں میں باآسانی یہ کہہ سکتا ہوں کہ آپ کا ذوقِ سلیم حسنِ داد کے قابل ہے اور آپ جیسی حسنِ نظر رکھنے ولی شخصیت سے شرفِ کلام نثر کی شکل میں نہ ہونا باعثِ محرومی اور خلاف ادب ہوگا۔ جب میں نے پہلی غزل بھیجی تو دل کو یہی وہم ستاتا رہا کہ جانے غزل کا نصیب کسی باذوق سے جاگے گا یا کوئی بے ہنر اس کی قسمت تاریک کر دے گا۔ ابھی اس کشمکش میں مبتلا ہی تھا کہ اس کا جواب ایک اعلی پائے کی غزل سے باخوبی مجھ تک پہنچ گیا اور سوچا کہ اس قبولیت کی گھڑی میں کچھ اور مانگ لیا ہوتا تو شاید وہ اس سے بڑھ کر نہ ہوتا کیونکہ اس سے عمدہ جواب اور بھلا کیا ہوگا۔ شاعری ہم دونوں میں قدرِ مشترک ٹھہری ہے تو اس حوالے سے عرض کرتا چلوں کہ میں اپنے بارے میں فقط اتنا ہی کہنا چاہوں گا کہ تعارف کی ضرورت تو نہیں ہے کہ

آپ اپنا تعارف ہوا بہار کی ہے

پھر بھی رسم دنیا نبھانے کو لکھتا چلوں کہ غمِ روزگار نے مشینوں میں الجھا دیا ہے ورنہ دل تو فنونِ لطیفہ میں ہی دھڑکتا ہے۔ دیگر پسندیدہ مشاغل میں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کافی کچھ ہے مگر کچھ آئندہ کے لیے بچا کر رکھ رہا ہوں۔

خط کے اختتام سے پہلے آپ سے کچھ آشنائی کی تمنا کا اظہار کرنا ضروری سمجھتا ہوں جو آپ کی طرف سے ایک ذاتی ای میل باشمول چند دلچسپیوں اور مشاغل تحریر کرنے سے ہو سکتی ہے اگر خط لکھنا دشوار ٹھہرے۔

آپ کے خط (ای میل ) کا بے چینی سے منتظر

حضور بہت شکریہ ، بڑی نوازش کہ آپ نے اس ناچیز کو اس قابل سمجھا اور اپنا قیمتی سرمایہ ، اپنی خوبصورت شاعری سے مجھے نوازا، بے انتہا مشکور ہوں۔
اسی لیے تو آپ سے اتنی الفت ہے کہ کوئی بات رد نہیں کرتے آپ باقی یہ بھی معلوم ہے کہ کچھ شکوے شکایاتیں آپ کو ہم سے ہیں جنہیں دور کرنا مشکل ضرور ہے مگر نا ممکن نہیں ، جلد ہی آپ کے دل میں دبی خواہشیں پوری ہو جائیں گی ، اطمینان رکھیے گا۔

اب اجازت دیجیے ، کبھی کبھار اپنے خوبصورت الفاظ سے ہمیں ضرور نواز دیا کیجیے اور ہاں اپنے شاعری کا ذخیرہ مجھے ضرور بھیجا کیجیے، کوئی اور قدر دان ہو نہ ہو ، میں ضرور ہوں ، آپ کی محنت کی ، آپ کی سوچ کی اور آپ کے جذبوں کی قدر ہے مجھے اپنا خیال رکھیے گا۔
خدا حافظ



پھر سے سلام ،

اجی شکریہ کیسا، آپ ہی کی چیز تھی آپ تک پہنچ گئی ویسے بھی عدل کا تقاضہ ہے کہ جس کی چیز ہو اس تک پہنچا دی جائے اور میں نے بھی عدل سے کام لیا۔ تمہارے (آپ سے تم کا فاصلہ طے کرتے ہوئے) لیے ہی لکھتا تھا تم تک نہ پہنچے تو اس سے بڑھ کر ان جمع شدہ شعروں کی بے قدری اور کیا ہوگی۔ میرا سرمایہ تمہارا بھی تو ہے ، تمہیں خود سے الگ کہاں سمجھا ہے میں نے۔ میری چیزیں تمہاری بھی تو ہیں اور تمہاری چیزوں کو بھی اپنا ہی سمجھتا ہوں میں۔ الفت کا اظہار چاہے کتنا ہی مبہم کیوں نہ ہو دلی مسرت کا باعث بنتا ہے اور تمہارے مکتوب سے اس پنہاں الفت کو محسوس کرکے روح مسرور ہوگئی ، جیسے کسی نے محبت کی برسات کر دی ہو میرے پیاسے تن پر۔ تمہاری الفت مجھے بے حد عزیز ہے اور یہ الفت ہی تو جو باہمی تعلق کو محبت سے جوڑے رکھتی ہے۔ روح کو شادابی بخشنے کے لیے کچھ الفاظ بطور ہدیہ عنایت کرتی رہنا کہ اس سے دل سنبھلا رہتا ہے اور چاہت کا احساس اور توانا رہتا ہے۔ یہ پڑھ کر ایک بار تو دل و جان جھوم اٹھے کہ کچھ خواہشیں عنقریب پوری ہو جائیں گی پھر خیال آیا کہ دل کے بہلانے کو یہ خیال اچھا ہے مگر سچا کیسے ہوگا، خواہش تو بس تمہیں سننے اور تم سے مل کر ان کہی کہنے کی ہیں مگر ہر خواب کی تعبیر کہاں؟ الفاظ میں وہ قوتِ اظہار کہاں جو تمہاری کمی کو بیان کر سکیں ، تمہارے بغیر بیتے دنوں کی داستان خود سنا سکیں ، تمہیں بتا سکیں کہ وہ دن جو تم سے باتیں کیے بنا گزرتے ہیں وہ کتنے بے کیف کتنے بے سکون ہوتے ہیں ان دنوں سے جن میں تم سے باتیں ہوتی ہیں ، جن میں زندگی محسوس ہوتی ہے۔ تمہارے کہے پر اتنا ہی اعتبار ہے جتنا خود تم پر اور میں مطمن رہوں گا بس تم میرے ساتھ رہنا۔
کبھی کبھار ہی کیوں میرے الفاظ پر بہت حق ہے تمہارا ، جب چاہا کرو گی آ جایا کریں گے سر تسلیم خم کیے اور شاعری کے مجموعے تو ہیں ہی تمہارے۔ جانتا ہوں کہ تم جذبوں کی سچی قدردان ہو اس لیے تو دل تمہارا قدردان ہے ، تمہارا خیال خود سے جدا نہیں کرتا اور ہمہ وقت تمہیں دل میں بسائے رکھتا ہوں۔

میری طرف سے اپنا بہت خیال رکھنا اور جلد لکھنا مجھے۔
الوداع

تمہارا خط اب کی بار کیا ملا سمجھو قیامت آ گئی طبیعت پہلے ہی ناساز تھی اب ساز و آواز بن گئی، تم خط پھینکتے ہوئے خط کے ساتھ چھوٹا سا پتھر باندھا کرو اس بار تمہارا خط امّاں کے سر پر لگا وہ تو شُکر تھا کہ امّاں اپنی چیخ و پکار میں یہ بھول گئیں کہ کیا چیز لگی ہے سر پر ورنہ دن میں تارے نظر آ جاتے مجھے :roll:
میں تمہاری شاعری سمجھنے کی کوشش کروں ، تمہارے خط سنبھالوں یا تمہاری حرکتوں پر پردے ڈالوں ایک ننھی سی معصوم میری جان اور اُس پر اتنے ظلم
:cry:

اور غزل ہی بھیجنا تم کبھی تحفے بھی بھیج دیا کرو ایسے تو کافی خبریں ملتی ہیں اڑتی اڑتی انار کلی میں گھوم رہے ہوتے ہو وہ تو شکر کرو اکیلے ہوتے ہو اس لیئے کبھی پوچھا نہیں اور یاد رکھو آئندہ بھی اکیلے گھومنا ورنہ وہ غزل ابّا کو بھجواؤں گی تمہارے جو تم نے مجھے لکھی ہے پھر تم پر دیوان لکھیں گے ابّا تمہارے :wink:

اور ہاں یہ تمہارے خط لکھنے کا شوق اور اُس سے زیادہ جواب مانگنے کا شوق کچھ زیادہ نہیں ہو گیا کہیں منشی لگنے کا ارادہ تو نہیں رکھتے اگر ایسا ہے تو ذرا قلم کو قابو میں رکھنا میں تمہارے مزاج سے خوب واقف ہوں :twisted:
اچھا اب اجازت دو تمہاری نئی رپورٹ ملے گی تو خط لکھوں گی۔


کیا زمانہ آ گیا کہ خط کا ملنا قیامت ٹھہرا اور طبیعت ناساز سے آہ و فریاد بن گئی۔ پہلے خط آنے پر بہار چھا جایا کرتی تھی جلترنگ سے بجنے لگتے تھے ، ہوائیں گنگنانے لگتی تھیں اور طبیعت پر نکھار آ جایا کرتا تھا اور اب قیامت ، ساری نا شکری کی بات ہیں ، گھر بیٹھے خط جو مل جاتے ہیں خود لکھ کر اس طرح پھینکنے پڑیں تو قدر بھی ہو۔ خط کے ساتھ چھوٹا پتھر باندھا کروں ، کیا خط لکھوانے کے ساتھ ساتھ پتھر مارنے کا کام بھی مجھ سے لیا کرو گی۔ گھر والوں سے نہیں بنتی تو یہ غضب تو نہ ڈھاؤ ، کچھ تو خیال کرو ان کا آخر تمہارے گھر والے ہیں ، میں اتنا خیال رکھتا ہوں کہ صرف آدھ پاؤ کے ٹماٹر میں لپیٹ کر خط پھینکتا ہوں اس پر بھی تمہاری اماں کا واویلا آدھا شہر سنتا ہے۔ ویسے تمہیں دن میں تارے نظر آنے بھی چاہیے رات بھر جو تارے گنواتی رہتی ہو مجھے۔
شاعری سمجھنے کی کوشش نہ کیا کرو بس پڑھا کرو ، سمجھ لی تو خود بھی لکھنے لگو گی اور پھر تمہارے لکھے کو کون پڑھے گا ، خط سنبھالنے کے لیے نہیں پڑھنے کے لیے بھیجتا ہوں اور حرکتیں تمہارے گھر سے باہر ہوتی ہیں تم ان سے آنکھیں بند رکھا کرو اور جتنی معصوم تمہاری جان ہے وہ میں جانتا ہوں یا تمہاری اماں۔

غزل تو خط کو سجانے کے لیے بھیجتا ہوں اور تحفے کی خوب کہی ، ابھی پچھلے ماہ ہی تو نقلی چاندی کی قیمتی انگوٹھی بھیجی تھی تمہیں۔ اب میں نواب تو ہوں نہیں کہ ہر خط کے ساتھ ایک عدد جڑاؤ ہار بھی بھیجا کروں اور بالفرض نواب ہوتا تو پھر ان عشق کے بکھیڑوں میں پڑنے کی ضرورت ہی کیا تھی ، اب میں تو خدا لگتی کہتا ہوں چاہے کسی کے دل پر جا کر لگے۔
انار کلی میں گھومتا ہوں مگر انار اور کلی دونوں سے دور دور ہی رہتا ہوں گو کھینچتے دونوں ہیں مگر تمہارا خیال ہے وگرنہ کب کا اکیلا پن ختم ہو چکا ہوتا۔ دھمکیاں مت دو غزلوں اور ابا کی اور دینی ہے تو ایک ایک کرکے دو ، اکھٹی دونوں تو نہ دو ویسے غزل میں نے وزن میں لکھی تھی اس لیے تمہارے ابا نہیں مانیں گے کہ میری ہے اور تمہارے لیے تو قطعا نہیں مانیں گے جتنے استعارے اور تشبہیات اس غزل میں ہیں اس کے بعد کسی کا خیال کسی الپسرا سے کم پر نہیں ٹھہرے گا، بھولے سے بھی تمہارا خیال نہیں آئے گا انہیں ، اک عمر گزری ہے ان کی اس دشت میں ، سمجھ جائیں گے کہ کسی نے کسی کو فردوسِ بریں دکھائی ہے۔

بھولے سے خط کا جواب دیتی ہو اور پھر یہ تاکید کہ میں جواب کا اصرار بھی نہ کروں ، منشی لگ جاتا کہیں تو تم خود پہروں بیٹھ کر خط لکھا کرتی مجھے ، تمہاری طبیعت سے اتنی واقفیت تو مجھے بھی ہے ۔

اجازت کی کتنی جلدی ہے اور جیسے سب کام میری اجازت سے کرتی ہو ، نئی رپورٹ سے پہلے ذرا اپنے گھر کی رپورٹ لکھ بھیجنا اور ہاں خط کے لیے کسی قاصد کا بندوبست کرلو اب مجھے سے ہر بار خط پھینکا نہیں جاتا۔

آداب
تمہارا خط ملا پڑھتے ہی خیال آیا تمہیں پھول ماروں گملے کے ساتھ
تم کبھی سچّے عاشق نہیں بن سکتے لکھا بھی تھا طبعیت ناساز ہے مگر تم خیریت بھی نہ پوچھ سکے اور گِلے شکوے کر کے سارے موڈ کا ستیاناس کر دیا۔
اور تم خط پھینک کے یوں غائب نہ ہوا کرو جیسے گنجے کے سر سے بال ،بہت سے کام کروانے ہوتے ہیں، بال پر یاد آیا ذرا اپنی زلفیں کٹوا لو جوگی لگنے لگے ہو پیسے نہیں ہیں تو ادھار لے لو ، اور کچھ کام بھی کیا کرو میرے گھر کی رپورٹ لینے کے علاوہ ، تم میرے ابّا کے بارے میں اتنا کچھ جانتے ہو اُن کی عمر کے تو نہیں لگتے کہ ابّا کے راز پتہ ہوں یا خزاب لگاتے ہو ، اب کی بار آؤ تو یاد سے اپنی بتیسی چیک کروانا منہ پر تو آج کل ڈینٹ پینٹ سے عمر چھپا لی جاتی ہے مجھے شک ہونے لگا ہے تمہاری عمر پر۔
کتنا افسوس کروں اُس بھیگی شام کا جب تم سے ملاقات ہوئی تھی اور تم نے اپنی پرانی سائیکل کے پیڈل پر پاؤں مارتے ہوئے آفر کی تھی کہ بے جا سائیکل تے ، اور میں تمہارے ساتھ جی ٹی روڈ کی سیر کو چل پڑی تھی مجھے کیا پتہ تھا کہ تم ترقی نہیں کرو گے اور سائیکل سے پیدل ہو جاؤ گے عقل سے پیدل تو تم پہلے ہی تھے مگر خیر اُمید کا دیا جلتا رکھو بجھ جائے تو پھر جلا لیا کرو ماچس ساتھ رکھا کرو ۔اور انار اور کلی سے دور رہتے ہو تو اُس میں بھی تمہارا قصور ہے کوئی گھاس ہی نہیں ڈالتی تو کرو گے کیا پہلے اپنے کرتوت تو ٹھیک کر لو وہ تو میں ہوں جو برداشت کرتی ہوں تمہاری دل پھینک عادتوں کو ، میرے جیسا ہیرا مل نہیں سکتا کبھی تم کیا جانو میری قدر کسی جوہری کو ہی ہو سکتی ہے ، وہ جو میری سہیلی ہے پینو اُس کے سامنے تمہارا ذکر کردوں تو شرمندہ کر دیتی ہے مجھے تمہارے قصّے سنا کر۔تمہارے ان قصّوں نے تو میری سُکھ دیاں نیندراں ہی اُڑا دی ہیں اور ایک تم ہو کہ تم سے خط تک نہیں پھینکا جاتا بابوں کی طرح بس چارپائی پر پڑے رہا کرو قاصد نہیں لگواؤں گی میں ہمت ہے تو خود کُنڈی بجا کے خط دے جایا کرو اور ٹماٹر خط کے ساتھ باندھنے کی بجائے کلو دو کلو ساتھ دے جایا کرو امّاں کو تاکہ ان ٹماٹروں کی چٹنیاں کھا کے کچھ تو اچھا سوچیں میرے گھر والے تمہارے لیئے، اچھا اب مجھے دیر ہو رہی ہے ذرا محلّے سے جاکے آج کی رپورٹ تو لوں جب تک تم چھت پر جاکے کبوتر بازی کے چکر میں تاک جھانک کر لو ۔
والسّلام ۔۔۔۔۔۔ گلابو ۔

زبردست حجاب بڑا مزے کا لکھا ہےیہ لٹھ مار قسم کا پریم پتر۔۔۔:wink: :best: ۔۔ حیرت ہے پہلے میری نظر سے کیوں نہیں گزرا ۔۔ :? ۔۔ اور یہ فیضو بھی بڑا ڈھیٹ قسم کا لگتا کہ ۔۔ اتنی باتیں سننے کے باوجود بھی باز نہیں آتا ۔۔۔ :) :p
اس دفعہ کا جواب بھی اتنے ہی مزے کا ہونا چاہئے ۔۔۔ :wink: :p

یہ لٹھ مار کر کس قسم کے پریم پتر لکھے جاتے ہیں ؟

حیرت کیسی ؟ اتنے خطوط میں ڈھونڈنا آسان کہاں تھا۔ ویسے لگتا ہے کہ اصلی خط یا تو کبھی لکھے نہیں یا کسی نے پڑھ کر سنائے نہیں ورنہ پتہ ہوتا کہ خطوط میں باتیں پڑھی جاتی ہیں سنی نہیں :p

ویسے کیا فیضو کو مستقل مزاج کہنا چاہ رہی ہیں؟
اس دفعہ کا جواب تو دیکھتے ہیں کب آتا ہے مگر شاید اتنے مزے کا نہ ہو جتنے کی امید ہے۔ :lol:

یہ لٹھ مار قسم کے پریم پتر فیضو جیسے ڈھیٹ عاشقوں کو لکھے جاتے ہیں ۔۔:wink: ۔ بالکل ایسے ہی جیسے حجاب نے لکھا ہے ۔۔۔ :p
آپ نے صحیح کہا مجھے واقعی کبھی کوئی خط لکھنے اور پڑھنے کا پہلے اتفاق نہیں ہوا ۔۔۔۔ لیکن یہ اچھی طرح پتا ہے کہ ایسی کھری کھری صرف سنائی جاتی ہے ۔۔ پڑھائی نہیں جاتی ۔۔۔ :wink: ۔۔۔ چاہے خط کے ذریعے ہی ۔۔۔ :)
کیا آپ کو مستقل مزاج اور ڈھیٹ کا فرق نہیں معلوم ۔۔۔ :roll: ۔۔ حیرت ہے ۔۔۔
اس دفعہ کا جواب تو پہلے سے بھی کرارا آنے کی امید ہے ہمیں ۔۔۔ :wink: :p
حجاب پلیز ہماری امیدوں پر پانی مت پھیرنا۔۔۔۔ :(
 

سارہ خان

محفلین
محب علوی نے کہا:
[ : ویسے یہ بات تم سے پہلے امن ، ماورا اور سارہ خان بھی کر چکی ہیں کہ کوئی اصل میں ایسے خط لکھے تو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اسے میں دبی خواہش کہوں یا برسوں کا ارمان :wink:

اف اتنا صاف جھوٹ ۔۔۔ :shock: :shock:۔۔ میں نے کب کی ایسی کوئی بات ۔۔۔اور کہاں ۔۔:twisted:
ارمان تو لگ رہا ہے آپ نکال رہے ہیں ۔۔لگتا ہے نوجوانی کے زمانے میں اس طرح کے خط لکھنے کی حسرت رہی ہوگی ۔۔۔ لیکن کسی نے لفٹ نہیں کرائی ہوگی ۔۔ تو اب لکھ کر اپنے ارمان پورے کر رہے ہیں ۔۔۔wink: :wink: :wink:
 

عمر سیف

محفلین
جناب رفیق عرف فیقا صاحب۔۔
آپ حیران مت ہوں کہ خط میں نام ظاہر نہ کرنے کے باوجود میں نے آپ کو کیسے پہچانا۔۔Rolling Eyes آپ کی لکھائی میں بھلا کیسے بھول سکتا ہوں کہ ایک عرصہ دراز تک آپ کے اس ڈاکخانے کے توسط سے لکھے گئے محلے کی حسینوں و محجبینوں کو لکھے گئے خطوط پڑھنا میرا محبوب مشغلہ رہا ہے ۔۔Wink۔ آپ کا یہ شکایت نامہ مجھے شکایت نامہ کم بلکہ سازش نامہ زیادہ لگ رہا کہ آجکل جب ایس ایم ایس ۔۔ فیکس اور ای میل کا زمانہ ہے اور لوگ خط لکھنے کو وقت کا ضیاء اور فرسودہ روایت قرار دے کر متروک کر چکے ہیں Confused ۔۔۔اب کچھ عظیم لوگوں نے ہمارے ڈاکخانے کی بدولت اس عظیم روایت کو پھر سے زندہ کیا ہے تو آپ من گھڑت اور گھسے پٹے الزام لگا کر اس پر پابندی لگوانا چاہتے ہیں۔۔ Twisted Evil ۔ کیا ہوا جو یہ خط لفافوں کی قید سے آزاد ہیں اور لوگ اپنے معصوم سے جزبات کا آزادانہ اظہار کر رہے ہیں ۔۔۔ یہ اکیسویں صدی کا دور ہے ۔۔ اور ہر طرف آزادی کا نعرہ ہے۔۔ ہمارے آزاد صدر صاحب نے بھی تو “آزادی ہے شان ہماری آزادی ہے آن ہماری“ کے مقولے پر دل و جان سے عمل کرتے ہوئےہر ملک کو صحیح معنوں میں آزاد بنا دیا ہے تو یہ بیچارے معصوم سے خطوط کی آزادی پر آپ کہ کیوں اّعتراض ہے ۔Rolling Eyes ۔۔ لگتا ہے آپ اپنا وقت بھول گئے جب اسی ڈاکخانے کے توسط سے روزانہ درجنوں خطوط محلے کی حسینوں کو بھیجتے تھے وہ بھی ارجنٹ ۔۔۔اور روزانہ کسی نہ کسی کے ابا سے درگت بنوا کر بھی باز نہیں آتے تھے ۔Wink۔ اب اس عمر میں آ کر جب آپ کو کوئی لفٹ نہیں کرواتا ۔۔ اور صرف رشتیداروں کےسبق ونصیحت آموز خط ہی پڑھنے کو ملتے ہیں ۔۔ تو انگور کھٹے ہونے کے مصداق آپ دوسروں کے خطوط پر پابندی لگوا کر میرے ڈاکخانے کو پھر سے ویران کرنا چاہتے ہیں ۔ Twisted Evil۔ کیا میں آپ کو اتنا بیوقوف نظر آتا ہوں کہ اتنے عرصے بعد جو یہ کھٹے میٹھے ۔۔ پیارے نیارے۔۔ حسین و رنگین خطوط پڑھنے کا پھر سے موقع ملا ہےتو اس کو گنوا دوں اور یہاں بیٹھا مکھیاں مارتا رہوں۔۔۔۔ Confused ۔۔ کیا ہوا جو ان خطوط کی ہی بدولت میری ایک آنکھ ضایع ہوئی ہے ۔۔۔ Crying or Very sad۔۔ لیکن ایک تو ابھی باقی ہے نہ ۔۔۔۔Wink Razz

بقلم خود
پوسٹ ماسٹر ۔۔۔۔

پہلی بار لکھا پر اچھا لکھا ہے۔ بہت خوب۔
 

ماوراء

محفلین
سارہ خان نے کہا:
محب علوی نے کہا:
[ : ویسے یہ بات تم سے پہلے امن ، ماورا اور سارہ خان بھی کر چکی ہیں کہ کوئی اصل میں ایسے خط لکھے تو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اسے میں دبی خواہش کہوں یا برسوں کا ارمان :wink:

اف اتنا صاف جھوٹ ۔۔۔ :shock: :shock:۔۔ میں نے کب کی ایسی کوئی بات ۔۔۔اور کہاں ۔۔:twisted:
ارمان تو لگ رہا ہے آپ نکال رہے ہیں ۔۔لگتا ہے نوجوانی کے زمانے میں اس طرح کے خط لکھنے کی حسرت رہی ہوگی ۔۔۔ لیکن کسی نے لفٹ نہیں کرائی ہوگی ۔۔ تو اب لکھ کر اپنے ارمان پورے کر رہے ہیں ۔۔۔wink: :wink: :wink:
سارا اکیلی ہی محاذ پر نکلنے کا ارادہ ہے یا ساتھ میں بھی شامل ہو جاؤں؟؟ :wink:

کوئی ایک خط اس شخص نے لکھا۔ توبہ۔ ایک جگہ سے گملا پڑا تو ڈھیٹوں کی طرح دوسری جگہ منہ مار لیا۔ دوسری سے تیسری۔۔۔ پتہ ہے اسے اس شعر کا ایک مصرعہ بھی بہت پسند ہے، کیا تھا وہ۔۔تو نہیں تو اور سہی۔۔ کچھ اسی طرح تھا۔

انارکلی میں زبردستی لوگوں کو آئس کریم اور جوس پلاتا رہتا ہے۔ :p :lol: (یہ ساری کہانیاں اخبار میں چھپی تھیں)
 

سارہ خان

محفلین
ماوراء نے کہا:
سارہ خان نے کہا:
محب علوی نے کہا:
[ : ویسے یہ بات تم سے پہلے امن ، ماورا اور سارہ خان بھی کر چکی ہیں کہ کوئی اصل میں ایسے خط لکھے تو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اسے میں دبی خواہش کہوں یا برسوں کا ارمان :wink:

اف اتنا صاف جھوٹ ۔۔۔ :shock: :shock:۔۔ میں نے کب کی ایسی کوئی بات ۔۔۔اور کہاں ۔۔:twisted:
ارمان تو لگ رہا ہے آپ نکال رہے ہیں ۔۔لگتا ہے نوجوانی کے زمانے میں اس طرح کے خط لکھنے کی حسرت رہی ہوگی ۔۔۔ لیکن کسی نے لفٹ نہیں کرائی ہوگی ۔۔ تو اب لکھ کر اپنے ارمان پورے کر رہے ہیں ۔۔۔wink: :wink: :wink:
سارا اکیلی ہی محاذ پر نکلنے کا ارادہ ہے یا ساتھ میں بھی شامل ہو جاؤں؟؟ :wink:

کوئی ایک خط اس شخص نے لکھا۔ توبہ۔ ایک جگہ سے گملا پڑا تو ڈھیٹوں کی طرح دوسری جگہ منہ مار لیا۔ دوسری سے تیسری۔۔۔ پتہ ہے اسے اس شعر کا ایک مصرعہ بھی بہت پسند ہے، کیا تھا وہ۔۔تو نہیں تو اور سہی۔۔ کچھ اسی طرح تھا۔

انارکلی میں زبردستی لوگوں کو آئس کریم اور جوس پلاتا رہتا ہے۔ :p :lol: (یہ ساری کہانیاں اخبار میں چھپی تھیں)
نیکی اور پوچھ پوچھ ۔۔۔ :p ۔۔ لوگ پہلے ہی ہمارے اتحاد سے کافی متاثر ہیں ۔۔ کچھ اور صحیح ۔۔۔ :wink:
... lol۔۔۔۔۔ اخبار میں تو نہین پڑھی میں نے یہ کہانیاں ۔۔۔ لیکن خطوط کی نوعیت سے خوب اندازہ ہو رہا ہے کہ موصوف کتنے تجریبیکار ہیں ۔۔۔ :wink: :p
 

سارہ خان

محفلین
ضبط نے کہا:
جناب رفیق عرف فیقا صاحب۔۔
آپ حیران مت ہوں کہ خط میں نام ظاہر نہ کرنے کے باوجود میں نے آپ کو کیسے پہچانا۔۔Rolling Eyes آپ کی لکھائی میں بھلا کیسے بھول سکتا ہوں کہ ایک عرصہ دراز تک آپ کے اس ڈاکخانے کے توسط سے لکھے گئے محلے کی حسینوں و محجبینوں کو لکھے گئے خطوط پڑھنا میرا محبوب مشغلہ رہا ہے ۔۔Wink۔ آپ کا یہ شکایت نامہ مجھے شکایت نامہ کم بلکہ سازش نامہ زیادہ لگ رہا کہ آجکل جب ایس ایم ایس ۔۔ فیکس اور ای میل کا زمانہ ہے اور لوگ خط لکھنے کو وقت کا ضیاء اور فرسودہ روایت قرار دے کر متروک کر چکے ہیں Confused ۔۔۔اب کچھ عظیم لوگوں نے ہمارے ڈاکخانے کی بدولت اس عظیم روایت کو پھر سے زندہ کیا ہے تو آپ من گھڑت اور گھسے پٹے الزام لگا کر اس پر پابندی لگوانا چاہتے ہیں۔۔ Twisted Evil ۔ کیا ہوا جو یہ خط لفافوں کی قید سے آزاد ہیں اور لوگ اپنے معصوم سے جزبات کا آزادانہ اظہار کر رہے ہیں ۔۔۔ یہ اکیسویں صدی کا دور ہے ۔۔ اور ہر طرف آزادی کا نعرہ ہے۔۔ ہمارے آزاد صدر صاحب نے بھی تو “آزادی ہے شان ہماری آزادی ہے آن ہماری“ کے مقولے پر دل و جان سے عمل کرتے ہوئےہر ملک کو صحیح معنوں میں آزاد بنا دیا ہے تو یہ بیچارے معصوم سے خطوط کی آزادی پر آپ کہ کیوں اّعتراض ہے ۔Rolling Eyes ۔۔ لگتا ہے آپ اپنا وقت بھول گئے جب اسی ڈاکخانے کے توسط سے روزانہ درجنوں خطوط محلے کی حسینوں کو بھیجتے تھے وہ بھی ارجنٹ ۔۔۔اور روزانہ کسی نہ کسی کے ابا سے درگت بنوا کر بھی باز نہیں آتے تھے ۔Wink۔ اب اس عمر میں آ کر جب آپ کو کوئی لفٹ نہیں کرواتا ۔۔ اور صرف رشتیداروں کےسبق ونصیحت آموز خط ہی پڑھنے کو ملتے ہیں ۔۔ تو انگور کھٹے ہونے کے مصداق آپ دوسروں کے خطوط پر پابندی لگوا کر میرے ڈاکخانے کو پھر سے ویران کرنا چاہتے ہیں ۔ Twisted Evil۔ کیا میں آپ کو اتنا بیوقوف نظر آتا ہوں کہ اتنے عرصے بعد جو یہ کھٹے میٹھے ۔۔ پیارے نیارے۔۔ حسین و رنگین خطوط پڑھنے کا پھر سے موقع ملا ہےتو اس کو گنوا دوں اور یہاں بیٹھا مکھیاں مارتا رہوں۔۔۔۔ Confused ۔۔ کیا ہوا جو ان خطوط کی ہی بدولت میری ایک آنکھ ضایع ہوئی ہے ۔۔۔ Crying or Very sad۔۔ لیکن ایک تو ابھی باقی ہے نہ ۔۔۔۔Wink Razz

بقلم خود
پوسٹ ماسٹر ۔۔۔۔

پہلی بار لکھا پر اچھا لکھا ہے۔ بہت خوب۔
پسندیدگی کا شکریہ ضبط ۔۔۔ :)
 

سارہ خان

محفلین
شمشاد نے کہا:
لگتا ہے پوسٹ ماسٹر لوگوں کے خطوط پڑھ پڑھ کے خاصے تجربہ کار ہو گئے ہیں لکھنے لکھانے میں۔ حیرت تو اس بات پر ہے کہ پھر بھی اپنے جوہر نہیں دکھاتے۔
آپ نے صحیح کہا۔۔۔ یہ سب کے خطوط پڑھنے کا ہی اثر ہے ۔۔۔ :)۔۔ پہلے جوہر تھے ہی نہین تو دکھاتے کہاں سے ۔۔۔۔ :p
:)
 

سارہ خان

محفلین
ماوراء نے کہا:
سارہ خان نے کہا:
ظفری نے کہا:
جناب پوسٹ ماسٹر صاحب
ڈاک خانہ خط تیرے نام کا
محلہ اردو محفل

میں اس خط کے ذریعے آپ کے علم میں یہ بات لانا چاہتا ہوں کہ آپ کے اس ڈاک خانے کے توسط سے محلہِ اردو محفل میں کچھ ایسی خط وکتابت کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے ۔ جس سے یہاں کے رہنے والے ہر مکین کے دل میں ہیجان انگیزی کے اثرات مرتب ہوگئے ہیں ۔ اور حیرت کی بات یہ ہے کہ یہ خطوط لفافوں کی قید سے بلکل آزاد ہیں جس کی وجہ سے خط کا متن ہر خاص و عام میں پڑھا جا رہا ہے ۔ ‌۔ کچھ حسینوں کی خط کی نوعیت ایسی ہے کہ سبزی والا بھی پان والے سے لڑ رہا ہے کہ یہ خط اسے لکھا گیا ہے ۔ انتشار اور بے چینی کی کیفیت ہر اس مکین میں پائی جاتی ہے ۔ جو پہلے ہی سے اذدواجی عذاب جھیل رہا ہے ۔ مگر پھر بھی بضد ہے کہ “ صنم نے ہم کو خط لکھا “ ۔۔۔ یا پھر اپنے چھوٹے بچے کی انگلی پکڑے ہوئے ۔۔ گنگنا رہا ہے کہ ،“ ہم نے صنم کو خط لکھا “ ۔۔۔ کئی بچوں کی شکایت پر کئی گھروں میں تنازعات بھی کھڑے ہوگئے ہیں ۔ جن کے بیھٹنے کے دور دور تک کوئی آثار نہیں ۔۔۔ اگر‌انتشار اور افراتفری کی یہی کیفیت رہی تو ایک دن ممکن ہے کہ کوئی خط اپنا کام ہی کر جائے ۔ اور اس محلہ کو ایک نہیں بلکہ دو مکینوں سے ہاتھ دھونے پڑیں ۔ بے شک وہ اپنی شادی میں ہاتھ ملتے ہوئے کچھ مکینوں کو دعوت بھی دے ڈالیں ۔ مگر محلہِ اردو محفل ‌ کو ان کی جدائی کا سوگ اس وقت تک منانا پڑے گا ۔ جب تک وہ دونوں مکین اپنے کیے پرتوبہ کرتے ہوئے ایک دوسرے کے خطوط واپس کرکے ‌محلے میں لوٹ نہ آئیں ۔

آپ سے گذارش ہے کہ ایسے خطوط کی ترسیل پر پابندی لگائی جائے یا پھر ان خطوط کو ان کے صیح وارثوں تک پہنچانے کا معقول انتظام کیا جائے ۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ ایلزبیتھ ۔۔۔ حاجی امام دین کی زوجہ بن جائے یا زیبدہ ۔۔ ہیرا لال سے منسوب ہوجائے ۔

امید ہے آپ میری اس عرضی پر اپنی اکلوتی آنکھ سے نظر ڈالیں گے ۔۔ کہ سنا ہے کہ آپ سب کو ایک ہی نظر سے دیکھتے ہیں
وسلام

فقط
ایک مکین
محلہ اردو محفل

جناب رفیق عرف فیقا صاحب۔۔
آپ حیران مت ہوں کہ خط میں نام ظاہر نہ کرنے کے باوجود میں نے آپ کو کیسے پہچانا۔۔:roll: آپ کی لکھائی میں بھلا کیسے بھول سکتا ہوں کہ ایک عرصہ دراز تک آپ کے اس ڈاکخانے کے توسط سے لکھے گئے محلے کی حسینوں و محجبینوں کو لکھے گئے خطوط پڑھنا میرا محبوب مشغلہ رہا ہے ۔۔:wink:۔ آپ کا یہ شکایت نامہ مجھے شکایت نامہ کم بلکہ سازش نامہ زیادہ لگ رہا کہ آجکل جب ایس ایم ایس ۔۔ فیکس اور ای میل کا زمانہ ہے اور لوگ خط لکھنے کو وقت کا ضیاء اور فرسودہ روایت قرار دے کر متروک کر چکے ہیں :? ۔۔۔اب کچھ عظیم لوگوں نے ہمارے ڈاکخانے کی بدولت اس عظیم روایت کو پھر سے زندہ کیا ہے تو آپ من گھڑت اور گھسے پٹے الزام لگا کر اس پر پابندی لگوانا چاہتے ہیں۔۔ :twisted: ۔ کیا ہوا جو یہ خط لفافوں کی قید سے آزاد ہیں اور لوگ اپنے معصوم سے جزبات کا آزادانہ اظہار کر رہے ہیں ۔۔۔ یہ اکیسویں صدی کا دور ہے ۔۔ اور ہر طرف آزادی کا نعرہ ہے۔۔ ہمارے آزاد صدر صاحب نے بھی تو “آزادی ہے شان ہماری آزادی ہے آن ہماری“ کے مقولے پر دل و جان سے عمل کرتے ہوئےہر ملک کو صحیح معنوں میں آزاد بنا دیا ہے تو یہ بیچارے معصوم سے خطوط کی آزادی پر آپ کہ کیوں اّعتراض ہے ۔:roll: ۔۔ لگتا ہے آپ اپنا وقت بھول گئے جب اسی ڈاکخانے کے توسط سے روزانہ درجنوں خطوط محلے کی حسینوں کو بھیجتے تھے وہ بھی ارجنٹ ۔۔۔اور روزانہ کسی نہ کسی کے ابا سے درگت بنوا کر بھی باز نہیں آتے تھے ۔:wink:۔ اب اس عمر میں آ کر جب آپ کو کوئی لفٹ نہیں کرواتا ۔۔ اور صرف رشتیداروں کےسبق ونصیحت آموز خط ہی پڑھنے کو ملتے ہیں ۔۔ تو انگور کھٹے ہونے کے مصداق آپ دوسروں کے خطوط پر پابندی لگوا کر میرے ڈاکخانے کو پھر سے ویران کرنا چاہتے ہیں ۔ :twisted:۔ کیا میں آپ کو اتنا بیوقوف نظر آتا ہوں کہ اتنے عرصے بعد جو یہ کھٹے میٹھے ۔۔ پیارے نیارے۔۔ حسین و رنگین خطوط پڑھنے کا پھر سے موقع ملا ہےتو اس کو گنوا دوں اور یہاں بیٹھا مکھیاں مارتا رہوں۔۔۔۔ :? ۔۔ کیا ہوا جو ان خطوط کی ہی بدولت میری ایک آنکھ ضایع ہوئی ہے ۔۔۔ :cry:۔۔ لیکن ایک تو ابھی باقی ہے نہ ۔۔۔۔:wink: :p

بقلم خود
پوسٹ ماسٹر ۔۔۔۔

چھپی رستم۔ :shock:

بہت ہی اچھا لکھا ہے۔ مجھے تو ایسا لگ رہا ہے کہ تم خود بھی یہ کام کرتی رہی ہو۔ شکر ہے میں نے نہیں لکھا۔ بلکہ شکر ہے کسی نے نہیں لکھا۔ شاید تم سے بہتر کوئی لکھ ہی نہ سکتا۔ :D
lol... کونسے کام کا کہہ رہی ہو ۔۔۔ :roll: ۔۔ نہیں نہیں میں کوئی پوسٹ ماسٹر ہرگز نہیں ۔۔۔ :oops:
اور تم نے کچھ زیادہ ہی تعریف کر دی ہے ۔۔۔ اب اتنا بھی اچھا نہیں لکھا۔۔۔۔ یہاں تو بڑے بڑے اردودان پائے جاتے ہیں ۔۔۔ :)
بہت سے لوگ مجھ سے بہتر لکھ سکتے تھے ۔۔۔ :)
 

حجاب

محفلین
محب علوی نے کہا:
حجاب نے کہا:
محب علوی نے کہا:
حجاب نے کہا:
محب علوی نے کہا:
محب علوی نے کہا:
محب علوی نے کہا:
چونکہ نیا دور ہے اس لیے چیٹنگ اور ای میل سے بات چیت کا آغاز اب معمول کا حصہ ہے۔ اسی پس منظر میں اس خط کا آغاز ہوتا ہے۔


آداب ،

آپ کا شاعرانہ خلوص بذریعہ ای میل پہنچتا رہا اور میں اب اس پائے ثبوت تک پہنچ چکا ہوں جہاں میں باآسانی یہ کہہ سکتا ہوں کہ آپ کا ذوقِ سلیم حسنِ داد کے قابل ہے اور آپ جیسی حسنِ نظر رکھنے ولی شخصیت سے شرفِ کلام نثر کی شکل میں نہ ہونا باعثِ محرومی اور خلاف ادب ہوگا۔ جب میں نے پہلی غزل بھیجی تو دل کو یہی وہم ستاتا رہا کہ جانے غزل کا نصیب کسی باذوق سے جاگے گا یا کوئی بے ہنر اس کی قسمت تاریک کر دے گا۔ ابھی اس کشمکش میں مبتلا ہی تھا کہ اس کا جواب ایک اعلی پائے کی غزل سے باخوبی مجھ تک پہنچ گیا اور سوچا کہ اس قبولیت کی گھڑی میں کچھ اور مانگ لیا ہوتا تو شاید وہ اس سے بڑھ کر نہ ہوتا کیونکہ اس سے عمدہ جواب اور بھلا کیا ہوگا۔ شاعری ہم دونوں میں قدرِ مشترک ٹھہری ہے تو اس حوالے سے عرض کرتا چلوں کہ میں اپنے بارے میں فقط اتنا ہی کہنا چاہوں گا کہ تعارف کی ضرورت تو نہیں ہے کہ

آپ اپنا تعارف ہوا بہار کی ہے

پھر بھی رسم دنیا نبھانے کو لکھتا چلوں کہ غمِ روزگار نے مشینوں میں الجھا دیا ہے ورنہ دل تو فنونِ لطیفہ میں ہی دھڑکتا ہے۔ دیگر پسندیدہ مشاغل میں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کافی کچھ ہے مگر کچھ آئندہ کے لیے بچا کر رکھ رہا ہوں۔

خط کے اختتام سے پہلے آپ سے کچھ آشنائی کی تمنا کا اظہار کرنا ضروری سمجھتا ہوں جو آپ کی طرف سے ایک ذاتی ای میل باشمول چند دلچسپیوں اور مشاغل تحریر کرنے سے ہو سکتی ہے اگر خط لکھنا دشوار ٹھہرے۔

آپ کے خط (ای میل ) کا بے چینی سے منتظر

حضور بہت شکریہ ، بڑی نوازش کہ آپ نے اس ناچیز کو اس قابل سمجھا اور اپنا قیمتی سرمایہ ، اپنی خوبصورت شاعری سے مجھے نوازا، بے انتہا مشکور ہوں۔
اسی لیے تو آپ سے اتنی الفت ہے کہ کوئی بات رد نہیں کرتے آپ باقی یہ بھی معلوم ہے کہ کچھ شکوے شکایاتیں آپ کو ہم سے ہیں جنہیں دور کرنا مشکل ضرور ہے مگر نا ممکن نہیں ، جلد ہی آپ کے دل میں دبی خواہشیں پوری ہو جائیں گی ، اطمینان رکھیے گا۔

اب اجازت دیجیے ، کبھی کبھار اپنے خوبصورت الفاظ سے ہمیں ضرور نواز دیا کیجیے اور ہاں اپنے شاعری کا ذخیرہ مجھے ضرور بھیجا کیجیے، کوئی اور قدر دان ہو نہ ہو ، میں ضرور ہوں ، آپ کی محنت کی ، آپ کی سوچ کی اور آپ کے جذبوں کی قدر ہے مجھے اپنا خیال رکھیے گا۔
خدا حافظ



پھر سے سلام ،

اجی شکریہ کیسا، آپ ہی کی چیز تھی آپ تک پہنچ گئی ویسے بھی عدل کا تقاضہ ہے کہ جس کی چیز ہو اس تک پہنچا دی جائے اور میں نے بھی عدل سے کام لیا۔ تمہارے (آپ سے تم کا فاصلہ طے کرتے ہوئے) لیے ہی لکھتا تھا تم تک نہ پہنچے تو اس سے بڑھ کر ان جمع شدہ شعروں کی بے قدری اور کیا ہوگی۔ میرا سرمایہ تمہارا بھی تو ہے ، تمہیں خود سے الگ کہاں سمجھا ہے میں نے۔ میری چیزیں تمہاری بھی تو ہیں اور تمہاری چیزوں کو بھی اپنا ہی سمجھتا ہوں میں۔ الفت کا اظہار چاہے کتنا ہی مبہم کیوں نہ ہو دلی مسرت کا باعث بنتا ہے اور تمہارے مکتوب سے اس پنہاں الفت کو محسوس کرکے روح مسرور ہوگئی ، جیسے کسی نے محبت کی برسات کر دی ہو میرے پیاسے تن پر۔ تمہاری الفت مجھے بے حد عزیز ہے اور یہ الفت ہی تو جو باہمی تعلق کو محبت سے جوڑے رکھتی ہے۔ روح کو شادابی بخشنے کے لیے کچھ الفاظ بطور ہدیہ عنایت کرتی رہنا کہ اس سے دل سنبھلا رہتا ہے اور چاہت کا احساس اور توانا رہتا ہے۔ یہ پڑھ کر ایک بار تو دل و جان جھوم اٹھے کہ کچھ خواہشیں عنقریب پوری ہو جائیں گی پھر خیال آیا کہ دل کے بہلانے کو یہ خیال اچھا ہے مگر سچا کیسے ہوگا، خواہش تو بس تمہیں سننے اور تم سے مل کر ان کہی کہنے کی ہیں مگر ہر خواب کی تعبیر کہاں؟ الفاظ میں وہ قوتِ اظہار کہاں جو تمہاری کمی کو بیان کر سکیں ، تمہارے بغیر بیتے دنوں کی داستان خود سنا سکیں ، تمہیں بتا سکیں کہ وہ دن جو تم سے باتیں کیے بنا گزرتے ہیں وہ کتنے بے کیف کتنے بے سکون ہوتے ہیں ان دنوں سے جن میں تم سے باتیں ہوتی ہیں ، جن میں زندگی محسوس ہوتی ہے۔ تمہارے کہے پر اتنا ہی اعتبار ہے جتنا خود تم پر اور میں مطمن رہوں گا بس تم میرے ساتھ رہنا۔
کبھی کبھار ہی کیوں میرے الفاظ پر بہت حق ہے تمہارا ، جب چاہا کرو گی آ جایا کریں گے سر تسلیم خم کیے اور شاعری کے مجموعے تو ہیں ہی تمہارے۔ جانتا ہوں کہ تم جذبوں کی سچی قدردان ہو اس لیے تو دل تمہارا قدردان ہے ، تمہارا خیال خود سے جدا نہیں کرتا اور ہمہ وقت تمہیں دل میں بسائے رکھتا ہوں۔

میری طرف سے اپنا بہت خیال رکھنا اور جلد لکھنا مجھے۔
الوداع

تمہارا خط اب کی بار کیا ملا سمجھو قیامت آ گئی طبیعت پہلے ہی ناساز تھی اب ساز و آواز بن گئی، تم خط پھینکتے ہوئے خط کے ساتھ چھوٹا سا پتھر باندھا کرو اس بار تمہارا خط امّاں کے سر پر لگا وہ تو شُکر تھا کہ امّاں اپنی چیخ و پکار میں یہ بھول گئیں کہ کیا چیز لگی ہے سر پر ورنہ دن میں تارے نظر آ جاتے مجھے :roll:
میں تمہاری شاعری سمجھنے کی کوشش کروں ، تمہارے خط سنبھالوں یا تمہاری حرکتوں پر پردے ڈالوں ایک ننھی سی معصوم میری جان اور اُس پر اتنے ظلم
:cry:

اور غزل ہی بھیجنا تم کبھی تحفے بھی بھیج دیا کرو ایسے تو کافی خبریں ملتی ہیں اڑتی اڑتی انار کلی میں گھوم رہے ہوتے ہو وہ تو شکر کرو اکیلے ہوتے ہو اس لیئے کبھی پوچھا نہیں اور یاد رکھو آئندہ بھی اکیلے گھومنا ورنہ وہ غزل ابّا کو بھجواؤں گی تمہارے جو تم نے مجھے لکھی ہے پھر تم پر دیوان لکھیں گے ابّا تمہارے :wink:

اور ہاں یہ تمہارے خط لکھنے کا شوق اور اُس سے زیادہ جواب مانگنے کا شوق کچھ زیادہ نہیں ہو گیا کہیں منشی لگنے کا ارادہ تو نہیں رکھتے اگر ایسا ہے تو ذرا قلم کو قابو میں رکھنا میں تمہارے مزاج سے خوب واقف ہوں :twisted:
اچھا اب اجازت دو تمہاری نئی رپورٹ ملے گی تو خط لکھوں گی۔


کیا زمانہ آ گیا کہ خط کا ملنا قیامت ٹھہرا اور طبیعت ناساز سے آہ و فریاد بن گئی۔ پہلے خط آنے پر بہار چھا جایا کرتی تھی جلترنگ سے بجنے لگتے تھے ، ہوائیں گنگنانے لگتی تھیں اور طبیعت پر نکھار آ جایا کرتا تھا اور اب قیامت ، ساری نا شکری کی بات ہیں ، گھر بیٹھے خط جو مل جاتے ہیں خود لکھ کر اس طرح پھینکنے پڑیں تو قدر بھی ہو۔ خط کے ساتھ چھوٹا پتھر باندھا کروں ، کیا خط لکھوانے کے ساتھ ساتھ پتھر مارنے کا کام بھی مجھ سے لیا کرو گی۔ گھر والوں سے نہیں بنتی تو یہ غضب تو نہ ڈھاؤ ، کچھ تو خیال کرو ان کا آخر تمہارے گھر والے ہیں ، میں اتنا خیال رکھتا ہوں کہ صرف آدھ پاؤ کے ٹماٹر میں لپیٹ کر خط پھینکتا ہوں اس پر بھی تمہاری اماں کا واویلا آدھا شہر سنتا ہے۔ ویسے تمہیں دن میں تارے نظر آنے بھی چاہیے رات بھر جو تارے گنواتی رہتی ہو مجھے۔
شاعری سمجھنے کی کوشش نہ کیا کرو بس پڑھا کرو ، سمجھ لی تو خود بھی لکھنے لگو گی اور پھر تمہارے لکھے کو کون پڑھے گا ، خط سنبھالنے کے لیے نہیں پڑھنے کے لیے بھیجتا ہوں اور حرکتیں تمہارے گھر سے باہر ہوتی ہیں تم ان سے آنکھیں بند رکھا کرو اور جتنی معصوم تمہاری جان ہے وہ میں جانتا ہوں یا تمہاری اماں۔

غزل تو خط کو سجانے کے لیے بھیجتا ہوں اور تحفے کی خوب کہی ، ابھی پچھلے ماہ ہی تو نقلی چاندی کی قیمتی انگوٹھی بھیجی تھی تمہیں۔ اب میں نواب تو ہوں نہیں کہ ہر خط کے ساتھ ایک عدد جڑاؤ ہار بھی بھیجا کروں اور بالفرض نواب ہوتا تو پھر ان عشق کے بکھیڑوں میں پڑنے کی ضرورت ہی کیا تھی ، اب میں تو خدا لگتی کہتا ہوں چاہے کسی کے دل پر جا کر لگے۔
انار کلی میں گھومتا ہوں مگر انار اور کلی دونوں سے دور دور ہی رہتا ہوں گو کھینچتے دونوں ہیں مگر تمہارا خیال ہے وگرنہ کب کا اکیلا پن ختم ہو چکا ہوتا۔ دھمکیاں مت دو غزلوں اور ابا کی اور دینی ہے تو ایک ایک کرکے دو ، اکھٹی دونوں تو نہ دو ویسے غزل میں نے وزن میں لکھی تھی اس لیے تمہارے ابا نہیں مانیں گے کہ میری ہے اور تمہارے لیے تو قطعا نہیں مانیں گے جتنے استعارے اور تشبہیات اس غزل میں ہیں اس کے بعد کسی کا خیال کسی الپسرا سے کم پر نہیں ٹھہرے گا، بھولے سے بھی تمہارا خیال نہیں آئے گا انہیں ، اک عمر گزری ہے ان کی اس دشت میں ، سمجھ جائیں گے کہ کسی نے کسی کو فردوسِ بریں دکھائی ہے۔

بھولے سے خط کا جواب دیتی ہو اور پھر یہ تاکید کہ میں جواب کا اصرار بھی نہ کروں ، منشی لگ جاتا کہیں تو تم خود پہروں بیٹھ کر خط لکھا کرتی مجھے ، تمہاری طبیعت سے اتنی واقفیت تو مجھے بھی ہے ۔

اجازت کی کتنی جلدی ہے اور جیسے سب کام میری اجازت سے کرتی ہو ، نئی رپورٹ سے پہلے ذرا اپنے گھر کی رپورٹ لکھ بھیجنا اور ہاں خط کے لیے کسی قاصد کا بندوبست کرلو اب مجھے سے ہر بار خط پھینکا نہیں جاتا۔

آداب
تمہارا خط ملا پڑھتے ہی خیال آیا تمہیں پھول ماروں گملے کے ساتھ
تم کبھی سچّے عاشق نہیں بن سکتے لکھا بھی تھا طبعیت ناساز ہے مگر تم خیریت بھی نہ پوچھ سکے اور گِلے شکوے کر کے سارے موڈ کا ستیاناس کر دیا۔
اور تم خط پھینک کے یوں غائب نہ ہوا کرو جیسے گنجے کے سر سے بال ،بہت سے کام کروانے ہوتے ہیں، بال پر یاد آیا ذرا اپنی زلفیں کٹوا لو جوگی لگنے لگے ہو پیسے نہیں ہیں تو ادھار لے لو ، اور کچھ کام بھی کیا کرو میرے گھر کی رپورٹ لینے کے علاوہ ، تم میرے ابّا کے بارے میں اتنا کچھ جانتے ہو اُن کی عمر کے تو نہیں لگتے کہ ابّا کے راز پتہ ہوں یا خزاب لگاتے ہو ، اب کی بار آؤ تو یاد سے اپنی بتیسی چیک کروانا منہ پر تو آج کل ڈینٹ پینٹ سے عمر چھپا لی جاتی ہے مجھے شک ہونے لگا ہے تمہاری عمر پر۔
کتنا افسوس کروں اُس بھیگی شام کا جب تم سے ملاقات ہوئی تھی اور تم نے اپنی پرانی سائیکل کے پیڈل پر پاؤں مارتے ہوئے آفر کی تھی کہ بے جا سائیکل تے ، اور میں تمہارے ساتھ جی ٹی روڈ کی سیر کو چل پڑی تھی مجھے کیا پتہ تھا کہ تم ترقی نہیں کرو گے اور سائیکل سے پیدل ہو جاؤ گے عقل سے پیدل تو تم پہلے ہی تھے مگر خیر اُمید کا دیا جلتا رکھو بجھ جائے تو پھر جلا لیا کرو ماچس ساتھ رکھا کرو ۔اور انار اور کلی سے دور رہتے ہو تو اُس میں بھی تمہارا قصور ہے کوئی گھاس ہی نہیں ڈالتی تو کرو گے کیا پہلے اپنے کرتوت تو ٹھیک کر لو وہ تو میں ہوں جو برداشت کرتی ہوں تمہاری دل پھینک عادتوں کو ، میرے جیسا ہیرا مل نہیں سکتا کبھی تم کیا جانو میری قدر کسی جوہری کو ہی ہو سکتی ہے ، وہ جو میری سہیلی ہے پینو اُس کے سامنے تمہارا ذکر کردوں تو شرمندہ کر دیتی ہے مجھے تمہارے قصّے سنا کر۔تمہارے ان قصّوں نے تو میری سُکھ دیاں نیندراں ہی اُڑا دی ہیں اور ایک تم ہو کہ تم سے خط تک نہیں پھینکا جاتا بابوں کی طرح بس چارپائی پر پڑے رہا کرو قاصد نہیں لگواؤں گی میں ہمت ہے تو خود کُنڈی بجا کے خط دے جایا کرو اور ٹماٹر خط کے ساتھ باندھنے کی بجائے کلو دو کلو ساتھ دے جایا کرو امّاں کو تاکہ ان ٹماٹروں کی چٹنیاں کھا کے کچھ تو اچھا سوچیں میرے گھر والے تمہارے لیئے، اچھا اب مجھے دیر ہو رہی ہے ذرا محلّے سے جاکے آج کی رپورٹ تو لوں جب تک تم چھت پر جاکے کبوتر بازی کے چکر میں تاک جھانک کر لو ۔
والسّلام ۔۔۔۔۔۔ گلابو ۔

وعلیکم آداب ،
خط ملتے ہی حسین خیال آیا نہ ، گملے کا خیال شاید تمہیں پھول کو سجا کر رکھنے کے لیے آیا ہوگا فکر نہ کرو صرف پھول ہی مارنا گملے بہت ہیں میرے پاس۔ اب سچا عاشق بننے کے لیے تم سے تربیت لینے پڑے گی کیا مجھے ، عشق کا کوئی مکتب کھولنے کا ارادہ تو نہیں ؟ ویسے تم نے سنا نہیں شاید کہ عشق آتا ہے آتے آتے اور عاشقوں کے ایک باریک بین تجزیہ نگار کہہ گئے ہیں

کھیلنے دو انہیں عشق کی بازی کھیلیں گے تو سیکھیں گے
اب مجنوں و فرہاد کے لیے کھولیں ہم اسکول کیا

ویسے تم نے عاشقوں کی کوئی فہرست بنا رکھی ہے کیا جس میں سچے ، جھوٹے ، کچے پکے عاشقوں کے زمرے بناتی رہتی ہو۔ میں تو تمہیں معصوم و سادہ سمجھ کر مائل ہو گیا اور تم نے عشق کو بھی جھوٹ سچ کے ترازو میں ناپنا شروع کر دیا ستم گر۔ طبعیت تمہاری ناساز تھی تو پیار سے بتاتی میں حال احوال میں ہی سارا خط لکھ ڈالتا مگر تم نے تو آہ و زاریوں کے ساتھ قیامت کا رونا شروع کر دیا ، لے کر بیٹھ گئی پھر سے اپنی اماں کے رونے اور دن میں تارے۔ میں جو ہفتہ بھر سے دل کے ارمانوں کو خط میں سمو کر تمہیں آنگن تک جان پر کھیل کر پہنچا کر گیا تھا تمہارا جواب پڑھ کر دل کلس کر رہ گیا ، کیا کیا نہ سوچا تھا دلِ خوش امید نے ،

میرے خط کے انتظار میں راہ تکتی ہوگی ، پہروں میرے خیال میں ڈوبی رہتی ہوگی ، رات کو کسی پل نیند نہ آتی ہوگی ، کروٹیں بدل بدل خود ہی تھک جاتی ہوگی۔ ہر صبح میرے خیال سے آنکھ کھلتی ہوگی ، ہر رات میرے ہی سپنے دیکھتی ہوگی ، ہر پہر مجھے ہی سوچتی ہوگی ، سکھیوں سے میری ہی باتیں کرتی ہوگی ، سوچ کر مجھے خود ہی شرما جاتی ہوگی ، گلابی آنچل دانتوں میں دبا کر میرے خیالوں میں کھو جایا کرتی ہوگی۔ پر تم نے سوچا تو گھر کو کاموں کا ،سودا سلف کا اور تحفوں کا ، کتنی خود غرض اور تحفہ پرست ہو تم۔

خط پھینک کر کیا تمہارے گھر کے سامنے برگد کا پیڑ بن کر کھڑا ہو جاتا ، تمہارے ابا کے ہاتھ لگ جاتا تو برگ و گل بھی جھڑ جاتے اور اب تک کے عشق کا ثمر بھی ملتا ، انتہائی میٹھا اور ڈھیر سارا۔

آئے ہائے لگتا ہے اماں اٹھ گئی ہیں ، خط یہیں ختم کر رہا ہوں ورنہ ان کے ہاتھ لگ گیا تو یہ نو عمر عاشق رہے گا نہ عشق (جھوٹ سچ کا تو سوال ہی کیا) فقط عشق کے آثار رہ جائیں گے۔

تمہارا اپنا
فیضو


ہرجائی فیضو ۔۔۔۔۔ جا جا میں تو سے نا ہی بولوں ۔۔۔۔۔۔۔
یہ جو تم گدھے کے سر سے سینگ کی طرح غائب تھے سُنا ہے پنڈ گئے تھے مامے کے گھر، اور مجھے کہہ گئے تھے کام سے جا رہا ہوں وہ تو بھلا ہو پینو کا اُس کے چاچے کی ماسی تمھارے مامے کے پنڈ کی ہے ساری خبریں مل گئیں مجھے اُس سے ، سوچا تو پہلے یہی تھا کہ تم جو اتنی محنت سے مجھے خط لکھتے ہو تو اب کی بار آؤ گے خط لے کے تو گلاب کا پھول نہ سہی گوبھی کا ہی دے دوں گی تاکہ تمہاری امّاں بھی خوش ہو جائیں کہ بیٹا کچھ لایا تو ، اور یہ تم بہکی بہکی باتیں جو کرنے لگے ہو پنڈ سے واپسی پر سب جانتی ہوں میں یہ خیال میں ڈوبے رہنا سپنے دیکھنے کی باتیں گلابی آنچل کی باتیں ، ہائے افسوس کاش تم پنڈ نہ جاتے برگد کا پیڑ ہی بن جاتے چاہے برگ و گُل جھڑ جاتے محبوب گنجا ہو یہ تو میں گوارہ کر لیتی مگر تم کسی پینڈو ہیر کے رانجھے بن جاؤ یہ مجھے گوارہ نہیں ۔پنڈ میں مامے کی بیٹی سے منگنی کروا لی اور یہاں آکے مجھے پریم پتّر لکھ رہے ہو ، ساری خبریں ہیں مجھے اب محبت کے ڈرامے کی آخری قسط سمجھنا اس خط کو دل کے ارماں آنسوؤں میں بہہ گئے تم بے وفائی کرکے بھی پٹتے پٹتے رہ گئے ( پنڈ میں جو تھے )
کہاں گئیں وہ محبتیں ، قول و قرار ، ساتھ جینے مرنے کی قسمیں ، مجھے تو پہلے ہی تمہارے تیور ٹھیک نہیں لگتے تھے جب ہی تو تمہاری جاسوسی کرواتی تھی وہی ہوا جس کا ڈر تھا گرگٹ کی طرح رنگ بدل لیا بس خیال رکھنا رنگ بدلتے بدلتے پھیکا نہ پڑ جائے تمہارا کیونکہ پینڈو ہیر کو شوخ رنگ ہی بھاتے ہیں ۔
یہ آئے ہائے کرنے میں تو تمہارا جواب نہیں ، یہ آئے ہائے اب اُس وقت کرنا جب پینڈو بیوی چمٹا پھینک کر مارے گی چھپتے رہنا پھر امّاں کے پیچھے۔

اب تم ٹھکانے لگ ہی گئے ہو تو لگ پتہ جائے گا جلد ہی آٹے دال کا بھاؤ میری امّاں کے سودا سُلف لانے میں جان جاتی تھی تمہاری اب تم اُس پنساری کی دکان پر دن میں دس بار جاؤگے جس کی شکل تک تم نے کبھی پہلے نہیں دیکھی تھی تب یاد کرنا مجھے
رات میں تارے گننے کی عادت تو تمہیں پہلے ہی ہے اب دن میں تارے دیکھا کرنا
ہرجائی فیضو مجھے تم سے یہ اُمید پہلے ہی سے تھی کہ تم جو انارکلی کے چکر لگاتے ہوئے بار بار کبھی اُس کے کبھی اِس کے ساتھ پکڑے جاتے ہو کبھی مجھ سے وفا نہیں کروگے اس لیئے میں نے امّاں کے کہنے پر منگنی کروا لی ہے
ہرجائی فیضو کوئی بھی ٹینشن مت لینا کیونکہ ویسے بھی اب تمہارا سامنا ہائی ٹینشن سے ہونے والا ہے جو تمہیں کسی بھی وقت دھماکے سے اُڑا سکتی ہے اُس وقت اگر میں تم کو یاد آؤں تو مجھے بالکل یاد نہ کرنا اور یہ سوچ کر سب کچھ برداشت کرنا کہ یہ سب تو زندگی کا حصّہ ہے یہ ہے ہماری محبت کا ڈراپ سین۔
اللہ تمہارا حامی و ناصر ہو
تمہارے لیئے دعا گو
کسی اور کی گلابو
:wink:
 
Top