کبھی
false dilemma کی اصطلاح سنی ہے؟
کوئی شے اپنی ذات میں معتدل بھی ہو سکتی ہے کہ نہ اس کی بنیادیں مذہب میں ہوں اور نہ ہی وہ مذہب مخالف ہو۔
سوشلزم کا مختصر تعارف پیش کر چکا ہوں۔ صاف نظر آتا ہے کہ اس کا مذہب کے ساتھ کوئی تعلق نہیں، نہ ہی یہ مذہب کے لیے کسی طرح کا خطرہ ہے۔
جو کتابیں آپ نے پیش کی ہیں، ان میں سے پہلی کو تھوڑا پڑھا۔ بدقسمتی سے ان صاحب کو بھی کچھ نہیں پتہ کہ سوشلزم ہے کیا۔ کئی جگہ کمیونزم کے ساتھ خلط ملط کرتے نظر آئے۔ بدقسمتی سے میرے پاس اتنا وقت نہیں کہ ایسی کتابوں کا رد لکھنے بیٹھ جاؤں جو سامنے کی شے کو نظر انداز کر کے بلاوجہ بات کو گھما پھرا کر چیزوں کو اسلام کے دائرے سے نکال رہی ہوں۔ سامنے کی جو بات ہے، وہ فضول میں کچھ گھمائے پھرائے بغیر ہی واضح پتہ چل جاتی ہے۔ اگر آپ نہیں ماننا چاہتے اور آپ کے نزدیک صرف وہی بات مستند ہے جو کسی مولوی نے کہی ہو تو میں آپ سے زبردستی منوا نہیں سکتا۔
جان کر اسلامی ثابت نہیں کیا جا سکتا لیکن جانے بغیر ہی غیر اسلامی ثابت کیا جا سکتا ہے۔ نائیس۔
آپ کی مجبوری اور وقت کی قلت کے پیشِ نظر یہ مختصر مضمون نقل کر رہا ہوں۔ اسے پڑھ لیجیے، پھر اس پر بات ہوگی، ان شاء اللہ۔
اشتراکیت(Socialism)
سوشلزم جسے اردومیں”اشتراکیت“اورعربی میں ”الاشتراکیة“ کہتے ہیں،درحقیقت سرمایہ دارانہ نظام کے ردعمل کے طور پر وجود میں آیا، جیسا کہ اس کے نام سے ظاہرہے،اس نے سرمایہ دارانہ نظام کے بنیادی فلسفے کوچیلنج کرتے ہوئے یہ ماننے سے انکارکیاکہ معیشت کے بنیادی مسائل محض ذاتی منافع کے محرک،شخصی ملکیت اوررسدوطلب کی قوتوں کی بنیادپرحل کیے جاسکتے ہیں۔
اشتراکیت ان تمام خرابیوں کے سدباب کادعوی لے کرمیدان میں آئی،جوسرمایہ دارانہ نظام کے مرہون منت تھے،اشتراکیت نے سرمایہ داریت کے بنیادی فلسفے ”انفرادیت“کوردکرتے ہوئے اجتماعیت اور جماعت کانظریہ پیش کیااورکہاکہ جماعت ہی سب کچھ ہے،فردکچھ نہیں، لہٰذاوسائل پیداوار کو فرد کی ملکیت قرار دینا درست نہیں،بلکہ حکومت ہی تمام وسائل پیداوارکی مالک ہے،اس کویہ علم ہوگاکہ کل وسائل کتنے ہیں؟ معاشرے کی ضروریات کیاکیاہیں؟لہٰذاوہی تمام زرعی،صنعتی اورتجارتی پالیسیاں بنانے اورنافذکرنے کی مجازہے،وہی افرادکے پیشے معین کرنے کاحق رکھتی ہے گویاوسائل کی تخصیص،ترجیحات کاتعین اورترقی کے تینوں کام حکومت کی منصوبہ بندی کے تحت انجام پائیں گے،جہاں تک آمدنی کی تقسیم کامعاملہ ہے،تواشتراکیت کاکہناہے کہ حقیقت میں عامل پیداوارصرف زمین اورمحنت ہیں،زمین انفرادی ملکیت نہیں،بلکہ حکومت کی ملکیت ہے،تواس کالگان دینے کی ضرورت نہیں،رہی محنت تواس کی اجرت کاتعین بھی حکومت اپنی منصوبہ بندی کے تحت کرے گی،گویاان کے نزدیک بھی معاشی مسائل کاایک ہی حل ہے اوروہ حکومتی منصوبہ بندی ہے،اسی وجہ سے اسے منصوبہ بند معیشت (Planned Economy)بھی کہاجاتاہے۔
اشتراکیت سے بحث کرنے والے حضرات نے اس کی تین بڑی قسمیں بیان کی ہیں:
1... قدیم اشتراکی نظریات
2... ارتقائی،یامعاشی اشتراکیت
3... مارکس کی انقلابی اشتراکیت
(یورپ کے تین معاشی نظام،ص:48،اداراة المعارف کراچی)
ہم یہاں ان کی تفصیلات سے تعرض نہیں کریں گے ،البتہ اشتراکیت کے بنیادی اصولوں پرایک نگاہ ضرورڈالیں گے،تاکہ اس کی پوری حقیقت کوسمجھنے میں آسانی ہو۔
اشتراکیت کے بنیادی اصول
اشتراکیت کے فلسفے کاجائزہ لینے سے اس کے مندرجہ ذیل چار بنیادی اصول سامنے آتے ہیں:
اجتماعی ملکیت(Collective Property)
اس اصل کاحاصل یہ ہے کہ وسائل پیداوارقومی ملکیت میں ہوں گے اورحکومت کی منصوبہ بندی کے تحت استعمال ہوں گے،ذاتی استعمال کے علاوہ وسائل پیداوارپرکوئی ذاتی ملکیت نہیں ہوگی،حکومت وقت ہی قومی نمائندہ کی حیثیت سے ان کی مالک ہوگی۔
منصوبہ بندی(Planning)
اس نقطہ نظرکاخاصہ یہ ہے کہ تمام معاشی مسائل کاحل اورفیصلے حکومتی منصوبہ بندی کے تحت کیے جائیں گے،حکومت ہی یہ فیصلہ کرے گی کہ کون سے وسائل کہاں اورکتنی مقدارمیں لگائے جائیں؟اورمحنت کرنے والوں کی کیااجرت مقررکی جائے؟غرض اس میں ہرمعاشی فیصلہ سرکاری منصوبہ بندی کے تابع ہوتاہے۔
اجتماعی مفاد(Collective interest)
اس نظام میں حکومتی منصوبہ بندی کے تحت اجتماعی مفادکومرکزی اور کلیدی حیثیت حاصل ہوتی ہے۔
آمدنی کی منصفانہ تقسیم(Equitable Distributian of Income)
امیراورغریب کے درمیان موجودفاصلوں کوکم کرنے کے لیے یہ اصول پیش کیاکہ جوکچھ بھی آمدنی حاصل ہووہ افراد کے درمیان منصفانہ طورپرتقسیم ہو،عملاًایساہوایانہیں؟،یہ ایک الگ بحث ہے،البتہ اشتراکیت میں کم ازکم یہ دعوی ضرورکیاگیاکہ اس نظام میں تنخواہوں اوراجرتوں کے درمیان تفاوت بہت زیادہ نہیں ہے۔
اشتراکیت اورمعاشرے پراس کے اثرات
اشتراکیت صرف معاشی یاسیاسی نظام نہیں،بلکہ یہ ایک مستقل فلسفہ، مرتب،مربوط اورتمام مذاہب سے مختلف ایک الگ نظریہ حیا ت ہے، جوسیاست ومعیشت ،اخلاق ومعاشرت،مابعدالطبیعی تخیلات وعقائد اور انسانی زندگی کے ہرشعبے میں رہنمائی کامدعی ہے۔
کارل مارکس(Karl Marx)نے، جوایک ٹھیٹھ یہودی خاندان سے تعلق رکھتاتھااورساری عمراحساس محرومی کاشکاررہا،اپنے ساتھی فریڈرک اینجلزکے ساتھ مل کراشتراکیت کے نام سے جوفلسفہ مرتب کیااس میں دوچیزیں نمایاں ہیں:
1... سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف نفرت وبغاوت
2... دین ومذہب کی حقارت،بیزاری اورعداوت
اس فلسفے کی روسے”اشتراکی حکومت“ایک ایسی آمریت اور ڈکٹیڑشپ ہے،جونہ خداکے سامنے جواب دہ سمجھی جائے،نہ عوام کے سامنے،جوکسی مذہب کی پابندہونہ اخلاق کی،آئین کی پابندہو نہ قانون کی،اس مطلق العنان ڈکٹیٹرشپ نے فردکے ساتھ وہ سلوک کیاجوکسی مشین کے بے جان پرزے کے ساتھ کیاجاتاہے۔پیشے اوراظہاررائے کی آزادی اورانفرادی ملکیت چھین کراس کواتناگھونٹ دیاکہ اس کی فطری آزادی بھی سلب ہوکررہ گئی۔
رسدوطلب کے قدرتی قوانین کاانکارکرکے اس کی جگہ حکومتی منصوبہ بندی کوہرمرض کاعلاج قراردیا،حالاں کہ انسانی زندگی اورمعاشرے کوسینکڑوں ایسے مسائل درپیش رہتے ہیں،جس میں انسان کی وضع کی ہوئی منصوبہ بندی ناکام ہوجاتی ہے اوراس منصوبہ بندی کے نتیجے میں فردومعاشرہ ایک غیرفطری اورمصنوعی نظام کے جال میں پھنستاچلاجاتاہے اوروسائل چندبرسراقتدارافرادکے قبضے میں چلے جاتے ہیں،ذاتی منافع کے محرک کوختم کردینے سے فکروعمل دونوں میں سستی اورکاہلی کے جراثیم پیداہوجاتے ہیں اورلوگ ظالم وجابرحکومتوں کے ایسے شکنجوں میں پھنستے ہیں جہاں کسی کوپھڑپھڑانے اورچیخنے چلانے کی آزادی بھی حاصل نہیں ہوتی۔
اشتراکیت نے دنیاکوکیادیا؟
اشتراکیت نے دنیاکوکیادیا؟خوداس کے سب سے بڑے داعی اورمرکزروس، جوسویت یونین کہلاتاتھا،کے خاتمے کے موقع پرروس کے صدریلسن نے کہا:”کاش اشتراکیت (UTOPAIN)نظریے کاتجربہ روس جیسے عظیم ملک میں کرنے کے بجائے افریقہ کے کسی چھوٹے رقبے میں کرلیاگیاہوتا،تاکہ اس کی تباہ کاریوں کوجاننے کے لیے چوہتر (74)سال نہ لگتے۔“اسی طرح مشرقی جرمنی میں لوگوں نے دیواربرلن کوتوڑکراشتراکیت کی ناکامی کاعملاًاعتراف کیا۔