لکھنئو میں ایک استاد صاحب بڑی ثقیل قسم کی اردو بولا کرتے تھے اور اپنے شاگردوں کو بھی یہی نصیحت کرتے تھے کہ جب بات کرنی ہو تو تشبیہات, استعارات, محاورات اور ضرب الامثال سے آراستہ اردو زبان استعمال کیا کرو..
ایک بار دورانِ تدریس یہ استاد صاحب حقہ پی رہے تھے. انہوں نے جو زور سے حقہ گڑگڑایا تو اچانک چلم سے ایک چنگاری اڑی اور استاد جی کی پگڑی پر جا پڑی۔
ایک شاگرد اجازت لے کر کھڑا ہوا اور بڑے ادب سے یوں گویا ہوا:
"حضور والا..!! یہ بندہ ناچیز حقیر فقیر, پر تقصیر ایک روح فرسا حقیقت حضور کے گوش گزار کرنے کی جسارت کر رہا ہے. وہ یہ کہ آپ لگ بھگ نصف گھنٹہ سے حقہ نوشی ادا فرما رہے ہیں..
چند ثانیے قبل میری چشم نارسا نے ایک اندوہناک منظر کا مشاھدہ کیا کہ ایک شرارتی آتشی پتنگا آپ کی چلم سے افقی سمت میں بلند ہو کر چند لمحے ہوا میں ساکت و معلق رہا اور پھر آ کر آپ کی دستار فضیلت پر براجمان ہو گیا. اگر اس فتنہ و شر کی بروقت اور فی الفور سرکوبی نہ کی گئی تو حضور والا کی جان والا شان کو شدید خطرات لاحق ہو سکتے ہیں.."
اور اتنی دیر میں استاد محترم کی دستار ان کے بالوں سمیت جل کر بھسم ہو چکی تھی..