ijaz1976
محفلین
السلام علیکم!
درج ذیل مضمون جناب ہارون یحییٰ کی اردو ویب سائٹ سے لیا گیا ہے جس کا لنک یہ ہے:
ہارون یحیٰ اردو ویب سائٹ مضامین
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خواب کی حقیقت
حقیقت میں ہم خواب میں کسی سے بات نہیں کرتے ہیں۔ہم کسی کو دیکھتے نہیں ہیں ہماری آنکھیں بند ہوتی ہیں۔نہ ہم بھاگتے ہیں اور نہ چلتے ہیں۔ کوئی بھوت ہمیں ڈراتا نہیں ہے اور نہ ہمارا پیچھا کرتا ہے اور نہ ہی ہمارے سامنے کوئی ہرا بھرا باغ ہوتا ہے۔نہ ہی بلند و بالا عمارتیں ہوتی ہیں کہ جہاں سے ہمیں نیچے دیکھنے سے ڈر لگے اور نہ ہی لوگوں کا ہجوم ہوتا ہے۔ ان ساری تصاویر کے ہوتے ہوئے ہم اصل میں اکیلے اپنے بستر میں ہوتے ہیں۔ لوگوں کے ہجوم کا شوروغل جو کہ ہم اپنے اطرف میں محسوس کرتے ہیں حقیقت میں کبھی بھی ہمارے خاموش کمرے تک نہیں پہنچتا۔
جب ہم محسوس کر رہے ہوتے ہیں ہم بھاگ رہے ہیں حقیقت میں ہم بلکل اپنی جگہ سے نہیں ہلتے۔جب ہم اپنے آپ کو کسی کے ساتھ گرماگرم بحث میں دیکھتے ہیں اصل میں ہم اپنا منہ تک نہیں کھولتے۔ تاہم خواب میں ہم یہ ساری چیزیں واضح انداز میں تجربہ کرتے ہیں۔ ہمارے درمیان لوگ، ہمارے اطراف میں پائی جانے والی چیزیں اتنی حقیقی نظر آتی ہیں کہ ہم یہ تصّور نہیں کرسکتے کہ یہ سب خواب کی حصّہ ہیں۔
ہم یہ بھی دیکھ سکتے ہیں کہ ایک کار ہم سے ٹکرائی اور اسکے نتیجے میں پیدا ہونے والی تکلیف کو ہم واضح طور پر محسوس کرتے ہیں۔ جب کار ہماری طرف آتی ہے تو ہم حقیقی ڈر محسوس کرتے ہیں، اسکی رفتار کو محسوس کرتے ہیں اور اس تصادم کے لمحے کو تجربہ کرتے ہیں۔ ان احساسات کی حقیقت کے بارے میں ہمیں ذرا بھی شک وشبہ نہیں ہوتا۔ یہ سب کچھ ہمارے دماغ میں ہو رہا ہوتا ہے مگر ہمیں ذرا بھی اسکا خیال نہیں ہوتا۔ یہاں تک کہ اگر ہمین خواب میں بتایا جاتا ہے کہ ہم خواب دیکھ رہے ہیں ہم مکمل طور پر اس امکان کو نظر انداز کرتے ہیں اور خواب کی اس دنیا کو ہی حقیقت سمجھتے ہیں۔ جب ہم اٹھتے ہیں تو وہ خواب میں پیش آئی ہوئی باتوں کو اسی طرح محسوس کرتے ہیں۔ کسی ثبوت کی ضرورت نہیں ہوتی یہ جاننے کے لیے کہ اصل میں ہم خواب میں تھے۔
خواب ایک مظبوط اور واضح مثال ہے یہ ثابت کرنے کے لیے کہ ہمارے لیے باہر کی دنیا صرف ایک احساس ہے۔ جسطرح ایک خواب دیکھنے والے شخص کو کوئی اشکال نہیں ہوتا کہ اسکے اطراف میں پائی جانے والی چیزیں حقیقی ہیں بلکل اسی طرح یہ بہت مشکل سے سمجھ آتا ہے کہ جس دنیا کو ہم حقیقی دنیا سمجھتے ہیں وہ صرف ہمارے دماغ میں ہے۔ ہم ان تصویروں کو جنہیں ہم حقیقی زندگی کا نام دیتے ہیں بلکل اسی طرح محسوس کرتے ہیں جس طرح ہم خواب میں تجربہ کرتے ہیں۔ دونوں قسم کی تصویریں ہمارے دماغ میں بنتی ہیں۔ ہمیں دونوں تصویرں کے حقیقی ہونے کے بارے میں کوئی شبہ نہیں ہوتا جیسا کہ ہم مشاہدہ کرتے ہیں۔ تاہم ہمارے پاس ثبوت ہے کہ خواب حقیقت نہیں ہے۔ جب ہم اٹھتے ہیں تو ہم کہتے ہیں کہ "یہ سب تو ایک خواب تھا" تو ہم کسطرح یہ ثابت کر سکتے ہیں اس وقت جاگنے کی صورت میں ہم خواب نہیں دیکھ رہے۔
اللہ اس سچّا ئی کے بارے میں ان آیتوں میں فرماتے ہیں:
"تو صور کے پھونکے جاتے ہی سب کے سب اپنی قبروں سے اپنے پروردگار کی جانب چلنے لگیں گے۔ کہیں گے کہ ہائے ہائے ہماری خواب گاہوں سے کس نے اٹھا دیا یہی ہے جسکا وعدہ رحمٰن نے کیا تھا اور رسولوں نے سچ سچ کہ دیا تھا سورۃ یٰس ۵۱-۵۲
اس وقت اس بات کا ثبوت سائینسی تحقیق فراہم کرتی ہے۔ اس معاملہ میں وہ لمحہ جب ہم خواب سے اٹھیں گے وہ وقت ہوگا جب ہم اس دنیا سے کوچ کر جایئنگے۔ تو اصل چیز جو کرنے کی ہے وہ یہ کہ اس دنیا کو ایک دھوکہ خیال کیا جائے جسے ہم صرف اپنے دماغ میں تجربہ کرتے ہیں اور پھر اسکے مطابق اپنی زندگی کا روّیہ اختیار کیا جائے
رانا ڈیسکارٹس خواب کی حقیقت کے بارے میں اسطرح لکھتا ہے۔
"میں خواب دیکھتا ہوں یہ کرنے کا وہ کرنے کا، ادھر آنے کا ادھر جانے کا مگر جب میں اٹھتا ہوں میں محسوس کرتا ہوں کہ میں نے تو کچھ نہیں کیا اور میں کہیں نہیں گیا میں تو ہر وقت خاموشی سےاپنے بستر میں لیٹا تھا کون اس بات کی ضمانت دے سکتا ہے کہ میں اس جاگنے کی حالت میں خواب نہیں دیکھ رہا، اور کہ میری تمام زندگی خواب نہیں ہے۔"
یقینا ہم کبھی بھی اس بات کی ضمانت نہیں دے سکتے کہ ہمارے درمیان موجود لوگ اور جس زندگی سے ہم اس وقت گزر ہے ہیں ایک خواب نہیں ہے۔ جب ہم خواب میں برف کے ایک ٹکڑے کو چھوتے ہیں تو اسکی ٹھنڈک کو محسوس کرتے ہیں اور اس بات کی گواہی بلکل اچھے انداز میں دیتے ہیں۔جب ہم ایک گلاب کو سونگھتے ہیں تو اسکی خوشبو کو بلکل بے عیب انداز میں محسوس کرتے ہیں۔ اسکی وجہ یہ ہے چاہے ہم حقیقت میں گلاب سونگھیں یا خواب میں دونوں صورتوں میں ایک ہی جیسا عمل ہمارے دماغ میں وقوع پزیر ہوتا ہے۔
اسکا مطلب یہ ہوا کہ ہم کبھی نہیں جان سکتے کہ ہم کب حقیقت میں صحیح تصویر کا اور گلاب کی خوشبو کا تجربہ کرتے ہیں۔ یعنی دونوں حالتیں ہمارے لیے خواب کی مانند ہیں اور ان دونوں حالتوں میں ہم کبھی بھی اصل گلاب کا تجربہ نہیں کرتے۔ نہ ہی گلاب کی تصویر اور نہ اسکی مہک ہمارے دماغ میں موجود ہے۔ لہٰذا دونوں حالتیں حقیقت کی عکاسی نہیں کرتیں۔
اگر کسی کو یہ پتا چل جائے کہ وہ خواب دیکھ رہا ہے تو وہ کبھی بھی کار کو اپنی طرف آتا دیکھ کر خوف زدہ نہیں ہوگا اور یہ حقیقت جان لے گا کہ دولت اور اشیاء جو اسکے پاس ہیں وہ عارضی ہیں اور وہ کوئی لالچ نہیں کرے گا۔ وہ جانتا ہے کہ اس خواب کی دنیا سے باہر ایک حقیقی دنیا موجود ہے۔ چناچہ جو جانتا ہے کہ وہ خواب دیکھ رہا ہے اسکے لیے اطراف میں پائی جانے والی اشیاء کی کوئی اہمیت اور قیمت نہیں۔
اسی چیز کا جسے ہم حقیقی دنیا سمجھتے ہیں پر بھی اطلاق ہوتا ہے۔ اس شخص کے لیے جو جانتا ہے کہ یہ دنیا حقیقی نہیں ہے یہ صرف ہمارے دماغ میں پایا جانے والا احساس ہے اور جو بھی چیز وہ اس دنیا میں تجربہ کرتا ہے اسکی کوئی اہمیت اور حقیقت نہیں۔ بلکل اسی طرح جسطرح خواب کے ساتھ ہے، وہ اس جھوٹی دنیا کی نوعیت سے واقف ہے۔ وہ یہ جانتا ہے کہ لوگ جو اس سے منافع چاہتے ہیں وہ اصل میں موجود ہی نہیں ہیں اور اطراف میں پائی جانے والی فریبی خوبصورتی اور کشش صرف ایک دھوکا ہے۔ چناچہ اس دنیا میں پائی جانے والی چیزوں کی پیاس اور ذاتی مفادات کے لیے توانائی خرچ کرنے کا کوئی جواز نہیں۔ وہ ایک ختم ہوجانے والی اور عارضی دنیا میں رہتا ہے اور جانتا ہے کہ اصل زندگی تو اس زندگی کے بعد شروع ہوگی۔
مصنف رمیز ساسن اسکے بارے میں کہتا ہے کہ
"یہ بلکل ایک فلم کی طرح ہے۔ ایک شخص جو فلم دیکھ رہا ہے وہ اس فلم میں پائے جانے والے ایکٹر اور انکے ساتھ اسکرین پر پیش آنے والے واقعات کے ساتھ منہمک ہو جاتا ہے۔وہ ہیرو کے ساتھ خوش بھی ہوتا ہے اور غمگین بھی ہوتا ہے، مایوسی کا شکار بھی ہوتا ہے، چلّاتا بھی ہے اور ہنستا بھی ہے ۔اگر ایک موقع پر وہ اس فلم کو روکنے کا فیصلہ کرے اور اپنی توجہ فلم سے ہٹا دے تو وہ اس دھوکہ سے باہر نکل جاتا ہے جو اس فلم نے اس پر اثر انداز کیا ہوتا ہے۔ پرجیکٹر اسکرین پر تصویریں چھوڑتا ہے مگر وہ یہ جانتا ہے کہ یہ صرف روشنی ہے جو اس فلم کو چلاتی ہے۔ جو اسکرین پر نظر آتا ہے وہ حقیقت نہیں مگر وہ وہاں موجود ہے۔ وہ فلم دیکھتا ہے اور وہ فیصلہ کرتا ہے کہ آنکھیں اور کان بند کرلے اور اسکرین کی طرف دیکھنا بند کردے۔کیا آپ نےکبھی فلم دیکھی ہے اگر ریل پھنس جائے یا بجلی چلی جائے؟ آپ کے ساتھ کیا ہوگا اگر آپ ایک بہت ہی دلچسپ فلم دیکھ رہے ہوں اور اچانک بیچ میں اشتہارات چلنا شروع ہو جائیں؟ آپ فورا اس دھوکے سے باہر نکل آئیں گے"
جب آپ سو رہے ہوتے ہیں اور خواب دیکھ رہے ہیں اور کوئی آکر آپ کو اٹھا دے تو آپ ایک دنیا سے دوسری دنیا میں پھینک دیے جاتے ہیں۔ بلکل اسی طرح یہ ہماری زندگی میں ہے جسے ہم حقیقت سمجھتے ہیں۔ اس خواب سے اٹھنا ممکن ہے۔
قیامت کے دن جب لوگ اٹھیں گے اسکا ذکر اس آیت میں ہے:
"اور صور پھونک دیا جائے گا وعدہ عذاب کا دن یہی ہے اور ہر شخص اسطرح آئے گا کہ اسکے ساتھ ایک لانے والا ہوگا اور ایک گواہی دینے والا۔یقینا تو اس سے غفلت میں تھا لیکن ہم نے تیرے سامنے سے پردہ ہٹا دیا آج تیری نگاہ بہت تیز ہے-سورۃ -ق ۲۰-۲۲"
May 12, 2010
درج بالا مضمون کے ذریعے سے جو بات مجھے سمجھ آئی ہے وہ یہ ہے کہ ہم جس دنیا میں زندہ ہیں یہ بھی حقیقی نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی ذات کے علاوہ کچھ بھی حقیقی طور پر موجود نہیں جو کچھ بھی ہم دیکھتے ہیں سنتے ہیں چکھتے ہیں یا دیگر حواس سے محسوس کرتے ہیں وہ سب ایسے احساسات ہیں جو اللہ تعالیٰ کی ذات روح کو محسوس کراتی ہے یعنی یہ دنیا اور اس کے علاوہ آخرت اور تمام کائنات سب صرف اور صرف ہمارے محسوسات ہیں یہ چیزیں فزیکلی موجود نہیں ہیں صرف اللہ تعالیٰ کی ذات پاک ایسی ہے جو حقیقی اور موجود ہے باقی سب محسوسات ہیں جیسا کہ ہارون یحییٰ صاحب نے خواب کی مثال دی ہے۔
اس حوالے سے ہارون یحییٰ صاحب کی ایک ویڈیو بھی اسی ویب سائٹ پر موجود ہے جس کا لنک یہ ہے:
THE_SECRET_BEYOND_MATTER
اس موضوع کے حوالے سے ہپناسس کی مثال بھی دی جاسکتی ہے گو کہ میں خود کبھی اس تجربے سے دوچار نہیں ہوا لیکن جو کچھ پڑھا اس کے مطابق ہپناسس یا عمل تنویم کے ذریعے جب معمول پر تنویمی نیند طاری کی جاتی ہے تو عامل جو چیز معمول کو محسوس کروانا چاہے کروا سکتا ہے، مثلاً اگر وہ معمول سے کہے کہ تم ہوا میں اڑ رہے ہو تو معمول اپنے آپ کو حقیقی طور پرہوا میں اڑتا ہوا محسوس کرے گا حالانکہ وہ کرسی یا بیڈ پر لیٹا ہوا ہوگا یا عامل اس کو کوئی ایسی چیز محسوس کروانا یا دکھانا چاہے جو فزیکلی وہاں موجود نہ ہو تو معمول اس چیز کو حقیقی چیز کی طرح ہی دیکھے اور محسوس کرے گا حالانکہ وہ چیز فزیکلی وہاں موجود نہ ہوگی سوائے اس کے کہ معمول سے ایسی بات پر عمل نہیں کروایا جاسکتا جو وہ حالت بیداری میں کرنا پسند نہ کرتا ہو اگر ایسی کسی بات پر عمل کرنے کے لئے عامل کہے گا تو معمول تنویمی نیند سے باہر آجائے گا۔
اس حوالے سے آپ لوگوں کی کیا رائے ہے؟ خواب کی حقیقت کیا ہے؟ دنیا کی حقیقت کیا ہے؟ کیا یہ سب محض واہمہ اور احساسات کا مجموعہ ہے؟؟؟
درج ذیل مضمون جناب ہارون یحییٰ کی اردو ویب سائٹ سے لیا گیا ہے جس کا لنک یہ ہے:
ہارون یحیٰ اردو ویب سائٹ مضامین
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خواب کی حقیقت
حقیقت میں ہم خواب میں کسی سے بات نہیں کرتے ہیں۔ہم کسی کو دیکھتے نہیں ہیں ہماری آنکھیں بند ہوتی ہیں۔نہ ہم بھاگتے ہیں اور نہ چلتے ہیں۔ کوئی بھوت ہمیں ڈراتا نہیں ہے اور نہ ہمارا پیچھا کرتا ہے اور نہ ہی ہمارے سامنے کوئی ہرا بھرا باغ ہوتا ہے۔نہ ہی بلند و بالا عمارتیں ہوتی ہیں کہ جہاں سے ہمیں نیچے دیکھنے سے ڈر لگے اور نہ ہی لوگوں کا ہجوم ہوتا ہے۔ ان ساری تصاویر کے ہوتے ہوئے ہم اصل میں اکیلے اپنے بستر میں ہوتے ہیں۔ لوگوں کے ہجوم کا شوروغل جو کہ ہم اپنے اطرف میں محسوس کرتے ہیں حقیقت میں کبھی بھی ہمارے خاموش کمرے تک نہیں پہنچتا۔
جب ہم محسوس کر رہے ہوتے ہیں ہم بھاگ رہے ہیں حقیقت میں ہم بلکل اپنی جگہ سے نہیں ہلتے۔جب ہم اپنے آپ کو کسی کے ساتھ گرماگرم بحث میں دیکھتے ہیں اصل میں ہم اپنا منہ تک نہیں کھولتے۔ تاہم خواب میں ہم یہ ساری چیزیں واضح انداز میں تجربہ کرتے ہیں۔ ہمارے درمیان لوگ، ہمارے اطراف میں پائی جانے والی چیزیں اتنی حقیقی نظر آتی ہیں کہ ہم یہ تصّور نہیں کرسکتے کہ یہ سب خواب کی حصّہ ہیں۔
ہم یہ بھی دیکھ سکتے ہیں کہ ایک کار ہم سے ٹکرائی اور اسکے نتیجے میں پیدا ہونے والی تکلیف کو ہم واضح طور پر محسوس کرتے ہیں۔ جب کار ہماری طرف آتی ہے تو ہم حقیقی ڈر محسوس کرتے ہیں، اسکی رفتار کو محسوس کرتے ہیں اور اس تصادم کے لمحے کو تجربہ کرتے ہیں۔ ان احساسات کی حقیقت کے بارے میں ہمیں ذرا بھی شک وشبہ نہیں ہوتا۔ یہ سب کچھ ہمارے دماغ میں ہو رہا ہوتا ہے مگر ہمیں ذرا بھی اسکا خیال نہیں ہوتا۔ یہاں تک کہ اگر ہمین خواب میں بتایا جاتا ہے کہ ہم خواب دیکھ رہے ہیں ہم مکمل طور پر اس امکان کو نظر انداز کرتے ہیں اور خواب کی اس دنیا کو ہی حقیقت سمجھتے ہیں۔ جب ہم اٹھتے ہیں تو وہ خواب میں پیش آئی ہوئی باتوں کو اسی طرح محسوس کرتے ہیں۔ کسی ثبوت کی ضرورت نہیں ہوتی یہ جاننے کے لیے کہ اصل میں ہم خواب میں تھے۔
خواب ایک مظبوط اور واضح مثال ہے یہ ثابت کرنے کے لیے کہ ہمارے لیے باہر کی دنیا صرف ایک احساس ہے۔ جسطرح ایک خواب دیکھنے والے شخص کو کوئی اشکال نہیں ہوتا کہ اسکے اطراف میں پائی جانے والی چیزیں حقیقی ہیں بلکل اسی طرح یہ بہت مشکل سے سمجھ آتا ہے کہ جس دنیا کو ہم حقیقی دنیا سمجھتے ہیں وہ صرف ہمارے دماغ میں ہے۔ ہم ان تصویروں کو جنہیں ہم حقیقی زندگی کا نام دیتے ہیں بلکل اسی طرح محسوس کرتے ہیں جس طرح ہم خواب میں تجربہ کرتے ہیں۔ دونوں قسم کی تصویریں ہمارے دماغ میں بنتی ہیں۔ ہمیں دونوں تصویرں کے حقیقی ہونے کے بارے میں کوئی شبہ نہیں ہوتا جیسا کہ ہم مشاہدہ کرتے ہیں۔ تاہم ہمارے پاس ثبوت ہے کہ خواب حقیقت نہیں ہے۔ جب ہم اٹھتے ہیں تو ہم کہتے ہیں کہ "یہ سب تو ایک خواب تھا" تو ہم کسطرح یہ ثابت کر سکتے ہیں اس وقت جاگنے کی صورت میں ہم خواب نہیں دیکھ رہے۔
اللہ اس سچّا ئی کے بارے میں ان آیتوں میں فرماتے ہیں:
"تو صور کے پھونکے جاتے ہی سب کے سب اپنی قبروں سے اپنے پروردگار کی جانب چلنے لگیں گے۔ کہیں گے کہ ہائے ہائے ہماری خواب گاہوں سے کس نے اٹھا دیا یہی ہے جسکا وعدہ رحمٰن نے کیا تھا اور رسولوں نے سچ سچ کہ دیا تھا سورۃ یٰس ۵۱-۵۲
اس وقت اس بات کا ثبوت سائینسی تحقیق فراہم کرتی ہے۔ اس معاملہ میں وہ لمحہ جب ہم خواب سے اٹھیں گے وہ وقت ہوگا جب ہم اس دنیا سے کوچ کر جایئنگے۔ تو اصل چیز جو کرنے کی ہے وہ یہ کہ اس دنیا کو ایک دھوکہ خیال کیا جائے جسے ہم صرف اپنے دماغ میں تجربہ کرتے ہیں اور پھر اسکے مطابق اپنی زندگی کا روّیہ اختیار کیا جائے
رانا ڈیسکارٹس خواب کی حقیقت کے بارے میں اسطرح لکھتا ہے۔
"میں خواب دیکھتا ہوں یہ کرنے کا وہ کرنے کا، ادھر آنے کا ادھر جانے کا مگر جب میں اٹھتا ہوں میں محسوس کرتا ہوں کہ میں نے تو کچھ نہیں کیا اور میں کہیں نہیں گیا میں تو ہر وقت خاموشی سےاپنے بستر میں لیٹا تھا کون اس بات کی ضمانت دے سکتا ہے کہ میں اس جاگنے کی حالت میں خواب نہیں دیکھ رہا، اور کہ میری تمام زندگی خواب نہیں ہے۔"
یقینا ہم کبھی بھی اس بات کی ضمانت نہیں دے سکتے کہ ہمارے درمیان موجود لوگ اور جس زندگی سے ہم اس وقت گزر ہے ہیں ایک خواب نہیں ہے۔ جب ہم خواب میں برف کے ایک ٹکڑے کو چھوتے ہیں تو اسکی ٹھنڈک کو محسوس کرتے ہیں اور اس بات کی گواہی بلکل اچھے انداز میں دیتے ہیں۔جب ہم ایک گلاب کو سونگھتے ہیں تو اسکی خوشبو کو بلکل بے عیب انداز میں محسوس کرتے ہیں۔ اسکی وجہ یہ ہے چاہے ہم حقیقت میں گلاب سونگھیں یا خواب میں دونوں صورتوں میں ایک ہی جیسا عمل ہمارے دماغ میں وقوع پزیر ہوتا ہے۔
اسکا مطلب یہ ہوا کہ ہم کبھی نہیں جان سکتے کہ ہم کب حقیقت میں صحیح تصویر کا اور گلاب کی خوشبو کا تجربہ کرتے ہیں۔ یعنی دونوں حالتیں ہمارے لیے خواب کی مانند ہیں اور ان دونوں حالتوں میں ہم کبھی بھی اصل گلاب کا تجربہ نہیں کرتے۔ نہ ہی گلاب کی تصویر اور نہ اسکی مہک ہمارے دماغ میں موجود ہے۔ لہٰذا دونوں حالتیں حقیقت کی عکاسی نہیں کرتیں۔
اگر کسی کو یہ پتا چل جائے کہ وہ خواب دیکھ رہا ہے تو وہ کبھی بھی کار کو اپنی طرف آتا دیکھ کر خوف زدہ نہیں ہوگا اور یہ حقیقت جان لے گا کہ دولت اور اشیاء جو اسکے پاس ہیں وہ عارضی ہیں اور وہ کوئی لالچ نہیں کرے گا۔ وہ جانتا ہے کہ اس خواب کی دنیا سے باہر ایک حقیقی دنیا موجود ہے۔ چناچہ جو جانتا ہے کہ وہ خواب دیکھ رہا ہے اسکے لیے اطراف میں پائی جانے والی اشیاء کی کوئی اہمیت اور قیمت نہیں۔
اسی چیز کا جسے ہم حقیقی دنیا سمجھتے ہیں پر بھی اطلاق ہوتا ہے۔ اس شخص کے لیے جو جانتا ہے کہ یہ دنیا حقیقی نہیں ہے یہ صرف ہمارے دماغ میں پایا جانے والا احساس ہے اور جو بھی چیز وہ اس دنیا میں تجربہ کرتا ہے اسکی کوئی اہمیت اور حقیقت نہیں۔ بلکل اسی طرح جسطرح خواب کے ساتھ ہے، وہ اس جھوٹی دنیا کی نوعیت سے واقف ہے۔ وہ یہ جانتا ہے کہ لوگ جو اس سے منافع چاہتے ہیں وہ اصل میں موجود ہی نہیں ہیں اور اطراف میں پائی جانے والی فریبی خوبصورتی اور کشش صرف ایک دھوکا ہے۔ چناچہ اس دنیا میں پائی جانے والی چیزوں کی پیاس اور ذاتی مفادات کے لیے توانائی خرچ کرنے کا کوئی جواز نہیں۔ وہ ایک ختم ہوجانے والی اور عارضی دنیا میں رہتا ہے اور جانتا ہے کہ اصل زندگی تو اس زندگی کے بعد شروع ہوگی۔
مصنف رمیز ساسن اسکے بارے میں کہتا ہے کہ
"یہ بلکل ایک فلم کی طرح ہے۔ ایک شخص جو فلم دیکھ رہا ہے وہ اس فلم میں پائے جانے والے ایکٹر اور انکے ساتھ اسکرین پر پیش آنے والے واقعات کے ساتھ منہمک ہو جاتا ہے۔وہ ہیرو کے ساتھ خوش بھی ہوتا ہے اور غمگین بھی ہوتا ہے، مایوسی کا شکار بھی ہوتا ہے، چلّاتا بھی ہے اور ہنستا بھی ہے ۔اگر ایک موقع پر وہ اس فلم کو روکنے کا فیصلہ کرے اور اپنی توجہ فلم سے ہٹا دے تو وہ اس دھوکہ سے باہر نکل جاتا ہے جو اس فلم نے اس پر اثر انداز کیا ہوتا ہے۔ پرجیکٹر اسکرین پر تصویریں چھوڑتا ہے مگر وہ یہ جانتا ہے کہ یہ صرف روشنی ہے جو اس فلم کو چلاتی ہے۔ جو اسکرین پر نظر آتا ہے وہ حقیقت نہیں مگر وہ وہاں موجود ہے۔ وہ فلم دیکھتا ہے اور وہ فیصلہ کرتا ہے کہ آنکھیں اور کان بند کرلے اور اسکرین کی طرف دیکھنا بند کردے۔کیا آپ نےکبھی فلم دیکھی ہے اگر ریل پھنس جائے یا بجلی چلی جائے؟ آپ کے ساتھ کیا ہوگا اگر آپ ایک بہت ہی دلچسپ فلم دیکھ رہے ہوں اور اچانک بیچ میں اشتہارات چلنا شروع ہو جائیں؟ آپ فورا اس دھوکے سے باہر نکل آئیں گے"
جب آپ سو رہے ہوتے ہیں اور خواب دیکھ رہے ہیں اور کوئی آکر آپ کو اٹھا دے تو آپ ایک دنیا سے دوسری دنیا میں پھینک دیے جاتے ہیں۔ بلکل اسی طرح یہ ہماری زندگی میں ہے جسے ہم حقیقت سمجھتے ہیں۔ اس خواب سے اٹھنا ممکن ہے۔
قیامت کے دن جب لوگ اٹھیں گے اسکا ذکر اس آیت میں ہے:
"اور صور پھونک دیا جائے گا وعدہ عذاب کا دن یہی ہے اور ہر شخص اسطرح آئے گا کہ اسکے ساتھ ایک لانے والا ہوگا اور ایک گواہی دینے والا۔یقینا تو اس سے غفلت میں تھا لیکن ہم نے تیرے سامنے سے پردہ ہٹا دیا آج تیری نگاہ بہت تیز ہے-سورۃ -ق ۲۰-۲۲"
May 12, 2010
(ختم شد)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔درج بالا مضمون کے ذریعے سے جو بات مجھے سمجھ آئی ہے وہ یہ ہے کہ ہم جس دنیا میں زندہ ہیں یہ بھی حقیقی نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی ذات کے علاوہ کچھ بھی حقیقی طور پر موجود نہیں جو کچھ بھی ہم دیکھتے ہیں سنتے ہیں چکھتے ہیں یا دیگر حواس سے محسوس کرتے ہیں وہ سب ایسے احساسات ہیں جو اللہ تعالیٰ کی ذات روح کو محسوس کراتی ہے یعنی یہ دنیا اور اس کے علاوہ آخرت اور تمام کائنات سب صرف اور صرف ہمارے محسوسات ہیں یہ چیزیں فزیکلی موجود نہیں ہیں صرف اللہ تعالیٰ کی ذات پاک ایسی ہے جو حقیقی اور موجود ہے باقی سب محسوسات ہیں جیسا کہ ہارون یحییٰ صاحب نے خواب کی مثال دی ہے۔
اس حوالے سے ہارون یحییٰ صاحب کی ایک ویڈیو بھی اسی ویب سائٹ پر موجود ہے جس کا لنک یہ ہے:
THE_SECRET_BEYOND_MATTER
اس موضوع کے حوالے سے ہپناسس کی مثال بھی دی جاسکتی ہے گو کہ میں خود کبھی اس تجربے سے دوچار نہیں ہوا لیکن جو کچھ پڑھا اس کے مطابق ہپناسس یا عمل تنویم کے ذریعے جب معمول پر تنویمی نیند طاری کی جاتی ہے تو عامل جو چیز معمول کو محسوس کروانا چاہے کروا سکتا ہے، مثلاً اگر وہ معمول سے کہے کہ تم ہوا میں اڑ رہے ہو تو معمول اپنے آپ کو حقیقی طور پرہوا میں اڑتا ہوا محسوس کرے گا حالانکہ وہ کرسی یا بیڈ پر لیٹا ہوا ہوگا یا عامل اس کو کوئی ایسی چیز محسوس کروانا یا دکھانا چاہے جو فزیکلی وہاں موجود نہ ہو تو معمول اس چیز کو حقیقی چیز کی طرح ہی دیکھے اور محسوس کرے گا حالانکہ وہ چیز فزیکلی وہاں موجود نہ ہوگی سوائے اس کے کہ معمول سے ایسی بات پر عمل نہیں کروایا جاسکتا جو وہ حالت بیداری میں کرنا پسند نہ کرتا ہو اگر ایسی کسی بات پر عمل کرنے کے لئے عامل کہے گا تو معمول تنویمی نیند سے باہر آجائے گا۔
اس حوالے سے آپ لوگوں کی کیا رائے ہے؟ خواب کی حقیقت کیا ہے؟ دنیا کی حقیقت کیا ہے؟ کیا یہ سب محض واہمہ اور احساسات کا مجموعہ ہے؟؟؟