خواب

پاکستانی

محفلین
خوابوں کو باتيں کرنے دو

آنکھوں ميں جو خواب ہيں ان کو باتيں کرنے دو
ہونٹوں سے وہ لفظ کہو جو کاجل کہتا ہے
موسم جو سنديسہ لايا اس کو پڑھ تو لو
سن تو لو وہ راز جو پياسا ساحل کہتا ہے
آتي جاتي لہروں سے کيا پوچھ رہي ہے ريت؟
بادل کي دہليز پہ تارے کيونکر بيٹھے ہيں
جھرنوں نے اس گيت کا مکھڑا کيسے ياد کيا
جس کے ہر اک بول ميں ہم تم باتيں کرتے ہيں

راہ گزر کا، موسم کا، ناں بارش کا محتاج
وہ دريا جو ہر اک دل کے اندر رہتا ہے
کھا جاتا ہے ہر اک شعلے وقت کا آتش دان
بس اک نقش محبت ہے جو باقي رہتا ہے

آنکھوں ميں جو خواب ہيں ان کو باتيں کرنے دو
ہونٹوں سے وہ لفظ کہو جو کاجل کہتا ہے​
 

پاکستانی

محفلین
وہ جس کی دید میں لاکھوں مسرتیں پنہاں
وہ حسن جس کی تمنا میں جنتیں پنہاں
ہزار فتنے تہِ پائے ناز، خاک نشیں
ہر اک نگاہِ خمارِ شباب سے رنگیں
شباب جس سے تخیّل پہ بجلیاں برسیں
وقار، جس کی رفاقت کو شوخیاں ترسیں
ادائے لغزشِ پا پر قیامتیں قرباں
بیاضِ رخ پہ سحر کی صباحتیں قرباں
سیاہ زلفوں میں وارفتہ نکہتوں کا ہجوم
طویل راتوں کی خوابیدہ راحتوں کا ہجوم
وہ آنکھ جس کے بناؤ پہ خالق اِترائے
زبانِ شعر کی تعریف کرتے شرم آئے
وہ ہونٹ فیض سے جن کے بہارِ لالہ فروش
بہشت و کوثر و تسنیم و سلسبیل بدوش
گداز جسم ، قبا جس پہ سج کے ناز کرے
دراز قد جسے سروِ سہی نماز کرے
غرض وہ حسن جو محتاجِ وصف و نام نہیں
وہ حسن جس کا تصور بشر کا کام نہیں
کسی زمانے میں اس رہگزر سے گزرا تھا
بصد غرور و تجمّل، ادھر سے گزرا تھا
اور اب یہ راہگزر بھی ہے دلفریب و حسیں
ہے اس کی خاک میں کیف ِ شراب و شعر مکیں
ہوا میں شوخئ رفتار کی ادائیں ہیں
فضا میں نرمئ گفتار کی صدائیں ہیں
غرض وہ حسن اب اس رہ کا جزوِ منظر ہے
نیازِ عشق کو اک سجدہ گہ میسر ہے​
 

ماوراء

محفلین
بہت خوب پاکستانی بھائی۔



میں نے برسات میں جلتے ہوئے گھر دیکھا ہے
ہے کوئی خواب کی تعبیر بتانے والا​
 

ماوراء

محفلین


میں نے مدت سے کوئی خواب دیکھا نہیں
ہاتھ رکھ دے میری آنکھوں میں کہ نیند آ جائے۔​
 

ماوراء

محفلین
سزا یہ دی ہے کہ آنکھوں سے چھین لیں نیندیں
قصور یہ تھا کہ جینے کے خواب دیکھے تھے​
 

ماوراء

محفلین



ایک خواب ہے یہ پیاس بھی، دریا بھی خواب ہے
ہے تو بھی خواب تیری تمنا بھی خواب ہے
وہ منزلیں بھی خواب ہیں، آنکھیں ہیں جن سے دور
ہاں یہ سفر بھی خواب ہے، رستہ بھی خواب ہے۔​
 

ماوراء

محفلین
ہوش آیا تو سبھی خواب تھے ریزہ ریزہ
جیسے اُڑتے ہوئے اوراقِ پریشاں جاناں​
 

ماوراء

محفلین
خواب سودا گری کرتے ہیں
ہر اک تعبیر کی قیمت وصول کرتے ہیں
صحرائے بے آب میں
آبلہ پا سفر پہ مجبور کرتے ہیں
تھوڑی خوشیاں دے کر
بہت سا رنجور کرتے ہیں
کسی تعبیر کی صورت
ساعتوں میں ڈھل جاتے ہیں
کبھی صدیوں کی مسافتیں نذر کرتے ہیں
روشنی کا سراب دے کر
تاریکیاں ہمسفر کرتے ہیں
خواب عذاب ہیں
نا تمام خواہشوں کی کتاب ہیں
کہیں خار تو کہیں گلاب ہیں
دل ِ بے خبر کو آشنائے درد کرتے ہیں
کچھ اس ادا سے دلبری کرتے ہیں
زخم دے کر چارہ گری کرتے ہیں
خواب سودا گری کرتے ہیں​
 

ماوراء

محفلین
آنکھوں میں آنکھوں میں یہ جو سپنے ہیں
اپنے ہیں یہی تو یاروں اپنے ہیں
ہونا ہے جو ہوتا رہے یہ آس کے ٹوٹے نہیں
روٹھے کوئی بھی، آنکھوں سے خواب یہ روٹھے نہیں
آنکھوں میں آنکھوں میں یہ جو سپنے ہیں
اپنے ہیں یہی تو یاروں اپنے ہیں

دیکھے جو وہ سمجھے خوابوں کی زباں
خوابوں سی حقیقت ہے کوئی کہاں
دھن میں اپنی دھن میں چلتے ہی رہو
دے گی زندگی یہ جو بھی تم کہو
دیکھو نہ پھولوں سے کھل گئی ساری زمیں
میری راہیں تو آگے ہیں آسماں سے بھی کہیں
آنکھوں میں آنکھوں میں یہ جو سپنے ہیں
اپنے ہیں یہی تو یاروں اپنے ہیں

تو نے چاہتوں سے دیکھا تھا کبھی
بہکا بہکا سا ہے دل یہ آج بھی
بانہوں کے سہارے لے کے چل مجھے
صدیوں سے ہے پیارے ایسے پل مجھے
ہولے ہولے دے پیار کے لمحے یہ آتے رہیں
بھیگی بھیگی سی باتوں میں ہم یوں ہی گاتے رہیں
آنکھوں میں آنکھوں میں یہ جو سپنے ہیں
اپنے ہیں یہی تو یاروں اپنے ہیں
ہونا ہے جو ہوتا رہے یہ آس کے ٹوٹے نہیں
روٹھے کوئی بھی، آنکھوں سے خواب یہ روٹھے نہیں​
 

پاکستانی

محفلین
شکریہ ماوراء







میری آنکھیں رکھ لو مجھے کچھ خواب دے دو
جس میں تمہاری جھلک ہو ایسی شراب دے دو
چلو چھوڑو ساری باتیں ایک بات مان جاو
میری ساری عمر لے لو بس اک پل کا ساتھ دے دو​
 

پاکستانی

محفلین
گر ٹوٹے ہوئے ٹکڑے مرے خواب کے لے آنا
تو آنکھوں کے لئے قطرے آب کے لے آنا

بہار میں تم جاتے ہو باغ سے کانٹے لاتے ہو
اب کے یاد رہے تو پھول گلاب کے لے آنا

ماضی کے جھروکوں سے جب لوٹ کر تم آؤ تو
میرے کھوئے ہوئے دن شباب کے لے آنا

لوگ کچھ ایسے بھی لانا طوفان جو بن کر چھا جائیں
مارے ہوئے تم ورنہ سیلاب کے لے آنا

میرے سپنوں کو کوئی گر مول نہ تم دے سکو
کچھ دہکتے ہوئے انگارے جواب کے لے آنا

ساحر کے لئے کم ہے دل کی حسد لاؤ جو
سورج کی تپش داغ ماہتاب کے لے آنا​
 

پاکستانی

محفلین
میں اور میرے خواب و خیال اُلجھے ہوئے ہیں
دن تو دن میرے ماہ و سال اُلجھے ہوئے ہیں
مدتوں سے اس نے لی نہیں خبر میری
اب کے شاید میرے پُرساں حال اُلجھے ہوئے ہیں
حقیقت بھی لگنے لگی ہے اب خواب سی
تخیل میں یوں صنم کے وصال الُجھے ہوئے ہیں
کچے دھاگے کی مانند ہے عشق رسیما بھی
چاہتوں کے میرے یوں جال اُلجھے ہوئے ہیں
یہی بات پریشان کن ہے میرے لئے
ان دنوں قسمت کے ستارے بے مثال اُلجھے ہوئے ہیں
اُلجھتے سے بنتے ہیں تو کبھی بگڑتے ہیں معاملے
دل ناداں صنم میرے با کمال اُلجھے ہوئے ہیں
میری حالت سے کبھی یہ محسوس کرو جاناں
تیرے لمسِ انگلیوں کی خاطر میرے بال اُلجھے ہوئے ہیں
وہ جھوٹا ہے یا زمانے کو جھٹلائیں ناہی
اس بات پر میرے پیش احوال اُلجھے ہوئے ہیں​
 

پاکستانی

محفلین
تیرے خوابوں کا سلسلہ چلتا ہے ساتھ ساتھ
شمع کی مانند دل جلتا ہے ساتھ ساتھ
مانا کرب میں گذرتی ہیں ہجر کی راتیں
پھر اس کرب سے چاند نکلتا ہے ساتھ ساتھ
روز و شب تیری یادیں آتی ہیں اس طرح
تیرے ہر خیال میں دل پگھلتا ہے ساتھ ساتھ
مجھے لگتا ہے بارھا اے میرے دل
میرے رونے پر سورج پگھلتا ہے ساتھ ساتھ
بے سبب پوچھ بیٹھا وہ چاہت کی انتہا
جس کی آہ پر میرا دل نکلتا ہے ساتھ ساتھ
یہ حقیقت ہے یا فریب کوئی ناہید
خواب میں بھی وہ چلتا ہے ساتھ ساتھ​
 

پاکستانی

محفلین
بہار آئی تو جیسے اک بار۔۔۔۔

بہار آئی تو جیسے اک بار

لوٹ آئے ہیں پھر ادم سے

وہ خواب سارے، شباب سارے

جو تیرے ہونٹوں پہ مر مٹے تھے

جومٹ کر ہر با ر پھر جیئے تھے

نکھر گئے ہیں گلاب سارے

جو تیری یادوں سے مشکبو ہیں

جوتیرے عُشاق کا لہو ہیں

ابل پڑے ہیں عذاب سارے

ملالِ احوالِ دوستاں بھی

خُمارِ آغوشِ مہوِشاں بھی

غُبارِ خاطر کے باب سارے

تیرے ہمارے

سوال سارے، جواب سارے

بہار آئی تو کھل گئے ہیں

نئے سرے سے حساب سارے​
 

پاکستانی

محفلین
زندگی حقیقت ہے کے خواب لکھنا چا ہتی ہوں
زندگی حقیقت ہے کے خواب لکھنا چا ہتی ہوں
جو ہیں آگہی کے عذاب لکھنا چا ہتی ہوں
میرے رب نے جو ک مجھ پے عنایات
زمانے سے ہیں جو دل میں شکایات لکھنا چا ہتی ہوں
دل میں جو موجزن ہیں جذ بے نایاب
دل میں نہاں ہیں محبت کی حکایات لکھنا چاہتی ہوں
میری آنکھوں میں جو بستے ہیں سپنے بن کر
میری نظروں کے ہیں جو سراب لکھنا چاہتی ہوں
دل میں آباد رہتی ہے محفل میرے اپنوں کی
محبت میں جو بجتا ہے رباب لکھنا چا ہتی ہوں
ہر دکھ درد ہر جذبے کو محسوس کر کے
کویٴ زرہ ہو کے آفتاب لکھنا چاہتی ہوں
زندگی کے سفر میں ہر موڑ پر کہانی ہے نییٴ
دیکھا ہے جو زندگی میں اس پہ کتاب لکھنا چا ہتی ہوں
 

ماوراء

محفلین
پاکستانی نے کہا:
زندگی حقیقت ہے کے خواب لکھنا چا ہتی ہوں
زندگی حقیقت ہے کے خواب لکھنا چا ہتی ہوں
جو ہیں آگہی کے عذاب لکھنا چا ہتی ہوں
میرے رب نے جو ک مجھ پے عنایات
زمانے سے ہیں جو دل میں شکایات لکھنا چا ہتی ہوں
دل میں جو موجزن ہیں جذ بے نایاب
دل میں نہاں ہیں محبت کی حکایات لکھنا چاہتی ہوں
میری آنکھوں میں جو بستے ہیں سپنے بن کر
میری نظروں کے ہیں جو سراب لکھنا چاہتی ہوں
دل میں آباد رہتی ہے محفل میرے اپنوں کی
محبت میں جو بجتا ہے رباب لکھنا چا ہتی ہوں
ہر دکھ درد ہر جذبے کو محسوس کر کے
کویٴ زرہ ہو کے آفتاب لکھنا چاہتی ہوں
زندگی کے سفر میں ہر موڑ پر کہانی ہے نییٴ
دیکھا ہے جو زندگی میں اس پہ کتاب لکھنا چا ہتی ہوں
:best:
 

پاکستانی

محفلین
لمحہ لمحہ دم بہ دم
بس فنا ہونے کا غم

ہے خوشی بھی اس جگہ
اے مری خوئے الم

کیا وہاں ہے بھی کوئی
اے رہِ ملک عدم

رونق اصنام سے
خم ہوئے غم کے علم

یہ حقیقت ہے منیر
خواب میں رہتے ہیں ہم

منیر نیازی
 
Top