خواب

پاکستانی

محفلین
خیال یکتا میں خواب اتنے
سوال تنہا جواب اتنے

کبھی نہ خوبی کا دھیان آیا
ہوئے جہاں میں خراب اتنے

حساب دینا پڑا ہمیں بھی
کہ ہم جو تھے بے حساب اتنے

بس اک نظر میں ہزار باتیں
پھر اس سے آگے حجاب اتنے

مہک اٹھے رنگ سرخ جیسے
کھلے چمن میں گلاب اتنے

منیر آئے کہاں سے دل میں
نئے نئے اضطراب اتنے

منیر نیازی
 

پاکستانی

محفلین
محرومِ خواب دیدۂ حیراں نہ تھا کبھی
تیرا یہ رنگ اے شبِ ہجراں نہ تھا کبھی
تھا لطفِ وصل اور کبھی افسونِ انتظار
یوں دردِ ہجر سلسلہ جنباں نہ تھا کبھی
پرساں نہ تھا کوئ تو یہ رسوائیاں نہ تھیں
ظاہر کسی پہ حالِ پریشاں نہ تھا کبھی
ہر چند غم بھی تےھا مگر احساسِ غم نہ تھا
درماں نہ تھا تو ماتمِ درماں نہ تھا کبھی
دن بھی اُداس اور مری رات بھی اداس
ایسا تو وقت اے غمِ دوراں نہ تھا کبھی
دورِ خزاں میں یوں مرا دل بے قرار ہے
میں جیسے آشنائے بہاراں نہ تھا کبھی
کیا دن تھے جب نظر میں خزاں بھی بہار تھی
یوں اپنا گھر بہار میں ویراں نہ تھا کبھی
بےکیف و بے نشاط نہ تھی اس قدر حیات
جینا اگرچہ عشق میں آساں نہ تھا کبھی
 

پاکستانی

محفلین
کم فرصتئ خوابِ طرب یاد رہے گی
گزری جو ترے ساتھ، وہ شب یاد رہے گی
ہر چند ترا عہدِ وفا بھول گئے ہم
وہ کشمکشِ صبر طلب یاد رہے گی
سینے میں امنگوں کا وہی شور ہے اب تک
وہ شاخئ یک جنبشِ لب یاد رہے گی
پھر جس کے تصور میں برسنے لگیں آنکھیں
وہ برہمئ صحبتِ شب یاد رہے گی
گو ہجر کے لمحات بہت سخت تھے لیکن
ہر بات بعنوابِ طرب یاد رہے گی
 

شمشاد

لائبریرین
تیرے دُکھ کے تمام ہی موسم
اے زمانے سنبھال کر رکھے
میرے خوابوں کو راکھ کرڈالا
اور اپنے سنبھال کررکھے
(نوشی گیلانی)
 

عمر سیف

محفلین
دیکھا، تُو آیا، ہاتھ کو تھاما، دیا گلاب
بولا، بتاؤ خواب میں ہوتا ہے کیا نہیں ؟؟؟
 

شمشاد

لائبریرین
جاگنے پر بھی نہیں آنکھ سے گرتیں کرچیں
اس طرح خوابوں سے آنکھیں نہیں پھوڑا کرتے
(گلزار)
 

شمشاد

لائبریرین
خیال وخواب کے منظر سجانا چاہتا ہے
یہ دل کا اِک تازہ بہانہ چاہتا ہے
(نوشی گیلانی)
 

عمر سیف

محفلین
بہار رُت کے وہ خواب سارے جو میری پلکوں پہ آ سجے تھے!
وہ خواب آنکھوں میں جل چکے ہیں میں جل رہا ہوں کہ کچھ لکھوں گا
 

qaral

محفلین
میں اپنے خواب سے کٹ کر جیوں تو میرا خدا

اجاڑ دے مری مٹی کو در بدر کر دے
 

شمشاد

لائبریرین
تمہارے خواب سے ہر شب لپٹ کے سوتے ہیں
سزائیں بھیج دو، ہم نے خطائیں بھیجی ہیں
(گلزار)
 

عمر سیف

محفلین
ڈھونڈتا پھرتا ہوں لوگوں میں شباہت اس کی
کہ وہ خوابوں میں لگتی ہے خیالوں جیسی
 

نوید ملک

محفلین
پہلے ایک بوجھ تھا کیوں خواب نہیں دکھتے ہیں
اور جب خواب نظر آیا تو یہ فکر ہوئی
اسکی تعبیر خدا جانے کیسی ہو گی
اور تعبیر نظر آئی تو دل کانپ گیا
آنکھ گبھرائی کہ تعبیر یہ کیسی پائی
اب اگر سوئے تو پھر خواب دکھائی دے گا
اور اگر جاگے تو تعبیر نظر آئے گی
اب اسی خوف میں یہ عمر گزر جائے گی

ڈاکٹر طارق عزیز
 

شمشاد

لائبریرین
زور سے بج نہ اُٹھے پیروں کی آواز کہیں
کانچ کے خواب ہیں بکھرے ہوئے تنہائی میں
(گلزار)
 

شمشاد

لائبریرین
خواب ٹوٹا تو کوئی جاگ نہ جائے دیکھا
کو ئی جاگا تو وہیں خواب بھی مر جا ئے گا
(گلزار)
 

شمشاد

لائبریرین
کوئی خواب ایسا بھی ہے یہاں جسے دیکھ سکتے ہوں دیر تک
کسی دائمی شب وصل کا کسی مستقل غم یار کا
(منیر نیازی)
 
Top