عبدالقیوم چوہدری
محفلین
یہ 1973ء کی بات ہے‘ شام میں خرم خان پنی پاکستان کے سفیر تھے‘ پنی خاندان ڈھاکا میں وسیع زمین اور جائیداد کا مالک تھا‘ یہ لوگ اس زمانے میں لاکھوں روپے زکوٰۃ دیتے تھے‘ خرم خان اعلیٰ تعلیم یافتہ انسان تھے‘ قیام پاکستان کے بعدمقابلے کا امتحان دیا‘ فارن سروس جوائن کی اور ترقی کرتے ہوئے سفیر بن گئے‘ خرم خان کی اہلیہ سلطانہ فضلی کراچی کے مشہور مہاجر خاندان سے تعلق رکھتی تھی‘ یہ بھی پڑھی لکھی اور مہذب خاتون تھی‘ ملک میں 1971ء تک بیورو کریسی میں بے شمار بنگالی افسر موجود تھے۔
یہ اعلیٰ عہدوں پر بھی فائز تھے لیکن جب مشرقی پاکستان الگ ہوا تو یہ افسر چپ چاپ ڈھاکا چلے گئے‘ نقل مکانی کرنے والے ان لوگوں میں سفیر تک شامل تھے لیکن افراتفری اور پاکستان سے نفرت کے اس دور میں بھی بے شمار بنگالی افسروں نے پاکستان کو بنگلہ دیش پر فوقیت دی‘ خرم خان پنی بھی ان لوگوں میں شامل تھے‘ یہ بدستور پاکستان کا حصہ رہے لیکن پھر 1973ء آگیا‘ وزارت خارجہ کو کسی مخبر نے اطلاع دی خرم خان پنی سفارت چھوڑ کر ڈھاکا بھاگ رہے ہیں‘ جنرل کے ایم رضا اس وقت وزارت خارجہ میں سیکریٹری ایڈمنسٹریشن تھے‘ یہ اطلاع کو سچ سمجھ بیٹھے چنانچہ انھوں نے لبنان میں موجود پاکستانی سفیر ڈاکٹر سمیع اللہ قریشی کو فوری طور پر دمشق جانے اور سفارت خانہ قبضے میں لینے کا حکم دے دیا‘ ڈاکٹر سمیع اللہ قریشی اسی دن دمشق پہنچ گئے‘ خرم خان پنی کے خلاف تحقیقات کیں‘ پتہ چلا‘ دفتر خارجہ کی تمام اطلاعات غلط ہیں۔
عملے نے گواہی دی خرم خان پنی کی بیگم سلطانہ فضلی سفیر سے اکثر کہتی ہیں ’’آپ کی ڈھاکا میں لاکھوں روپے کی جائیداد ہے لیکن ہم یہاں فقیروں جیسی زندگی گزار رہے ہیں‘ ہمارے پاس روپے ہیں اور نہ ہی جائیداد‘ ہم ڈھاکا کیوں نہیں چلے جاتے؟‘‘ لیکن خرم خان پنی جواب میں ہمیشہ کہتے ہیں ’’ہم نے غلامی سے نکلنے کے لیے پاکستان بنایا تھا‘ میں صرف جائیداد کے لیے دوبارہ ہندوؤں کی غلامی میں نہیں جا سکتا‘‘ یہ حقائق جان کر ڈاکٹر سمیع اللہ قریشی کو پسینہ آ گیا‘ وہ بیروت واپس گئے اور فارن آفس کو تار کے ذریعے اطلاع دے دی ’’شام میں پاکستانی سفیر آج بھی پاکستانی ہیں‘ یہ بنگلہ دیش شفٹ نہیں ہو رہے ‘ تمام الزامات غلط ہیں‘‘ لیکن وزارت خاجہ کو یقین نہ آیا‘ وزارت نے خرم خان پنی کا کیس صدر ذوالفقار علی بھٹو کو بھجوا دیا۔
بھٹو صاحب نے سفیر کو اسلام آباد طلب کر لیا‘ خود انٹرویو کیا‘ مطمئن ہو گئے لیکن اس کے باوجود سفیر کو شام سے صومالیہ ٹرانسفر کر دیاگیا‘ یہ سفارت خرم خان کی سنیارٹی سے میچ نہیں کرتی تھی چنانچہ وہ مستعفی ہو ئے‘ لندن شفٹ ہوئے‘ ٹیچر بھرتی ہوئے اور باقی زندگی معمولی نوکری میں گزار دی‘ پنی صاحب کی کروڑوں روپے کی جائیداد ڈھاکا میں قبضہ مافیا کے ہتھے چڑھ گئی لیکن خرم خان نے بنگلہ دیش میں قدم نہ رکھا‘ وہ کنگال زندگی گزارتے رہے مگر مرنے تک پاکستانی رہے۔
یہ صرف ایک کہانی نہیں ہے‘ ہم اگر تحقیق کریں تو ہمیں پاکستان کی تاریخ میں خرم خان پنی جیسے ہزاروں لوگ ملیں گے‘ یہ لوگ پاکستانی تھے‘ یہ پوری زندگی پاکستانی ہونے کا تاوان بھگتتے رہے مگر پاکستان کی اشرافیہ نے انھیں پاکستانی تسلیم نہ کیا لیکن یہ اس کے باوجود آخری سانس تک پاکستانی رہے‘ میں دل سے یہ سمجھتا ہوں ہم نے جس دن غیر جانبداری سے اپنی غلطیوں پر تحقیق کی‘ ہم یہ ماننے پر مجبور ہو جائیں گے بنگالیوں نے ہمیں نہیں بلکہ ہم نے بنگالیوں کو چھوڑا تھا‘ ہم یہ بھی ماننے پر مجبور ہو جائیں گے آل انڈیا مسلم لیگ سندھیوں‘ پنجابیوں‘ پشتونوں اور بلوچوں نے نہیں بنائی تھی اس کی بنیاد بنگالیوں نے 30 دسمبر1906ء کو ڈھاکا میں رکھی تھی‘ پاکستان کی قرارداد بھی 23 مارچ 1940ء کو کسی لاہوری‘ پشاوری‘ کوئٹوی یا لاڑکانوی نے پیش نہیں کی تھی‘ یہ اعزاز بھی بنگال کے ایک شیر مولوی فضل الحق کو نصیب ہوا تھا۔
ہم یہ بھی ماننے پر مجبور ہو جائیں گے بنگالی ہم سے زیادہ پڑھے لکھے‘ ہم سے زیادہ مہذب اور ہم سے زیادہ وطن پرست تھے اور یہ ہمارے جاگیردارانہ‘ منافقانہ اور نفرت میں بھیگے ہوئے رویئے تھے جنہوں نے بنگالیوں کو ہم سے الگ کیا‘ ہم یہ بھی ماننے پر مجبور ہو جائیں گے بنگالی ہم سے الگ ہونے کے بعد اپنا ملک ہم سے بہتر چلا رہے ہیں‘ ان کی اکانومی‘ ان کی ٹریڈ‘ ان کی ہیلتھ سروسز اور ان کی تعلیم کا معیار ہم سے بہت بہتر ہے اور ہم یہ ماننے پر بھی مجبور ہو جائیں گے ہم نے تاریخ سے کچھ نہیں سیکھا‘ ہم آج بھی 1971ء کے ان لمحات میں زندہ ہیں جن میں ہم اپنے ہم وطنوں کو غدار قرار دیتے تھے‘ ہم ان پر ٹینک چڑھا دیتے تھے اور ہمارے لیڈر جلسہ عام میں ڈھاکا جانے والوں کی ٹانگیں توڑنے کا اعلان کرتے تھے‘ ہم 45 سال بعد بھی وہیں کھڑے ہیں جہاں ہمیں ہماری انا‘ ہماری ضد نے1971ء میں گاڑھ دیا تھا‘ آپ کو اگر یقین نہ آئے تو آپ آج ریاست کا ایم کیو ایم کے ساتھ رویہ دیکھ لیجیے۔
میں دل سے سمجھتا ہوں پاکستان کے تمام ’’سنز آف دی سائل‘‘ 70 سال بعد بھی پاکستانی نہیں ہیں‘ یہ آج بھی سندھی‘ پنجابی‘ بلوچی اور پشتون ہیں‘ میں یہ بھی سمجھتا ہوں ہم میں سے کسی نے پاکستان کے لیے کوئی قربانی نہیں دی تھی‘ ہم سب پاکستان کے ’’بینی فیشری‘‘ ہیں‘ پاکستان کے لیے اگر کسی نے قربانی دی تو وہ 1947ء کے مہاجر تھے‘ یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے پاکستان کے لیے تحریک بھی چلائی‘ جنہوں نے انگریزوں اور ہندوؤں کو مسلمانوں کا الگ وطن تسلیم کرنے پر مجبور بھی کیا‘ جنہوں نے پاکستان کے لیے اپنے گھر بار‘ زمین جائیداد‘ کھیت کھلیان اور اپنے آباؤ اجداد کی قبریں چھوڑیں اور جنہوں نے اپنے بچے‘ اپنی بچیاں اور اپنے جوان بیٹے بھی قربان کیے‘ میں دل سے یہ سمجھتا ہوں پاکستان میں اگر کسی کو پاکستانی کہلانے کا حق ہے تو وہ صرف مہاجر ہیں‘ یہ وہ لوگ ہیں جو 70 سال بعد بھی صرف پاکستانی ہیں‘ یہ سندھی‘ پنجابی‘ پٹھان اور بلوچی نہیں بنے لیکن ہم سنز آف سائل کا ان کے ساتھ کیا رویہ ہے؟
ہم نے کبھی سوچا؟ میں نے کل سندھ اسمبلی میں ایم کیو ایم کے سینئر ارکان کو روتے دیکھا‘ یہ لوگ اپنے قائد الطافحسین کو ’’ڈس اون‘‘ بھی کر رہے تھے اور یہ اس کے خلاف سندھ اسمبلی میں آرٹیکل چھ کی قرارداد بھی پیش کر رہےتھے لیکن ہم اس کے باوجود ان پر یقین کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں‘ کیوں؟ آخر کیوں؟ یہ درست ہے ایم کیو ایم کیصفوں میں ٹارگٹ کلرز‘ بھتہ خور اور دہشت گرد موجود تھے‘ یہ لوگ کراچی کو تباہی کے دھانے تک بھی لے کر آئےلیکن کیا یہ سچ نہیں ہماری ریاست‘ ہماری سیاسی جماعتیں ماضی میں ان کی سہولت کار تھیں! کیا یہ غلط ہے ایم کیو ایمجنرل ضیاء الحق نے بنوائی تھی‘ کیا یہ غلط ہے جنرل ضیاء الحق کے رفقاء کار نے پیپلز پارٹی اور جماعت اسلامی کو واشآؤٹ کرنے کے لیے پرامن مہاجروں کو اسلحہ پکڑایا تھا‘ کیا یہ غلط ہے پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ ن 27سال حکومتیں بنانے کے لیے نائین زیرو کا طواف کرتی رہیں اور کیا یہ غلط ہے جنرل پرویز مشرف ایم کیو ایم اور الطاف حسین کو اپنا نظریاتی اور سیاسی بازو سمجھتے تھے۔
ہمیں یہ ماننا ہو گا ایم کیو ایم دہشت گرد تھی تو اسے اس راستے پر لگانے‘ اس کی غلطیوں پر خاموش رہنے اور اسے ٹارگٹ کلنگ اور بھتہ خوری کے لیے سہولتیں فراہم کرنے والے بھی دہشت گرد تھے‘ ہمیں ماننا ہو گا اگر 12مئی 2007ء سانحہ تھا تو اس سانحے کا ایک ملزم وسیم اختر جیل میں ہے اور دوسرا جنرل پرویز مشرف حکومت کی رضا مندی سے ملک سے باہر ہے اور ہمیں یہ بھی ماننا ہوگا یہ لوگ جب تک ٹارگٹ کلرز تھے یہ ہماری ریاست اور ہماری سیاسی جماعتوں کے لیے قابل قبول تھے اور فوجی آمر ہوں یا ملک کی بڑی سیاسی جماعتیں یہ ماضی میں ان کی سہولت کار رہیں اور ہمیں یہ بھی ماننا ہو گا آج جب یہ پاکستان زندہ باد کے نعرے لگا رہے ہیں‘ یہ اپنے قائد‘ اپنی رابطہ کمیٹی اور اپنے ماضی کو ڈس اون کر رہے ہیں اور یہ الطاف حسین کے خلاف اسمبلیوں میں قراردادیں پاس کرا رہے ہیں تو بھی ہم ان کی نیتوں پر شک کر رہے ہیں‘ ہم ان کا مذاق اڑا رہے ہیں اور یہ غلطی ہمیں دوبارہ ماضی کی طرف لے جا رہی ہے‘ اس ماضی کی طرف جس کے آخر میں مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن گیا تھا۔
مجھے خطرہ ہے ہم نے اگر اپنی پالیسی تبدیل نہ کی‘ ہم نے اگر راؤ انوار جیسے لوگوں کے ہاتھ نہ روکے تو شاید وہ وقت جلد آ جائے جب کراچی کے تمام مہاجر ایک آواز ہو کر بول پڑیں ’’الطاف حسین ٹھیک کہتا تھا‘‘ کیا ہم یہ چاہتے ہیں‘ ہم اگر یہ چاہتے ہیں تو پھرہمیں ایم کیو ایم کو اسی طرح رگڑا لگاتے رہنا چاہیے لیکن ہم اگر کراچی میں امن چاہتے ہیں تو پھرہمیں فاروق ستار کو ایک موقع دینا ہو گا‘ ہمیں خواجہ اظہار الحسن کے آنسو پونچھنا ہوں گے‘ ہمیں ان لوگوں کو سینے سےلگانا ہوگا اور ہمیں انھیں پاکستانی تسلیم کرنا ہو گا‘ ہم نے بنگالیوں سے نفرت کر کے نتیجہ دیکھ لیا تھا‘ ہمیں اب وہ غلطی کراچی میں نہیں دہرانی چاہیے‘ کیوں؟ کیونکہ دو جب بھی دو میں جمع ہوتے ہیں رزلٹ چار ہی نکلتا ہے پانچ نہیں۔
یہ اعلیٰ عہدوں پر بھی فائز تھے لیکن جب مشرقی پاکستان الگ ہوا تو یہ افسر چپ چاپ ڈھاکا چلے گئے‘ نقل مکانی کرنے والے ان لوگوں میں سفیر تک شامل تھے لیکن افراتفری اور پاکستان سے نفرت کے اس دور میں بھی بے شمار بنگالی افسروں نے پاکستان کو بنگلہ دیش پر فوقیت دی‘ خرم خان پنی بھی ان لوگوں میں شامل تھے‘ یہ بدستور پاکستان کا حصہ رہے لیکن پھر 1973ء آگیا‘ وزارت خارجہ کو کسی مخبر نے اطلاع دی خرم خان پنی سفارت چھوڑ کر ڈھاکا بھاگ رہے ہیں‘ جنرل کے ایم رضا اس وقت وزارت خارجہ میں سیکریٹری ایڈمنسٹریشن تھے‘ یہ اطلاع کو سچ سمجھ بیٹھے چنانچہ انھوں نے لبنان میں موجود پاکستانی سفیر ڈاکٹر سمیع اللہ قریشی کو فوری طور پر دمشق جانے اور سفارت خانہ قبضے میں لینے کا حکم دے دیا‘ ڈاکٹر سمیع اللہ قریشی اسی دن دمشق پہنچ گئے‘ خرم خان پنی کے خلاف تحقیقات کیں‘ پتہ چلا‘ دفتر خارجہ کی تمام اطلاعات غلط ہیں۔
عملے نے گواہی دی خرم خان پنی کی بیگم سلطانہ فضلی سفیر سے اکثر کہتی ہیں ’’آپ کی ڈھاکا میں لاکھوں روپے کی جائیداد ہے لیکن ہم یہاں فقیروں جیسی زندگی گزار رہے ہیں‘ ہمارے پاس روپے ہیں اور نہ ہی جائیداد‘ ہم ڈھاکا کیوں نہیں چلے جاتے؟‘‘ لیکن خرم خان پنی جواب میں ہمیشہ کہتے ہیں ’’ہم نے غلامی سے نکلنے کے لیے پاکستان بنایا تھا‘ میں صرف جائیداد کے لیے دوبارہ ہندوؤں کی غلامی میں نہیں جا سکتا‘‘ یہ حقائق جان کر ڈاکٹر سمیع اللہ قریشی کو پسینہ آ گیا‘ وہ بیروت واپس گئے اور فارن آفس کو تار کے ذریعے اطلاع دے دی ’’شام میں پاکستانی سفیر آج بھی پاکستانی ہیں‘ یہ بنگلہ دیش شفٹ نہیں ہو رہے ‘ تمام الزامات غلط ہیں‘‘ لیکن وزارت خاجہ کو یقین نہ آیا‘ وزارت نے خرم خان پنی کا کیس صدر ذوالفقار علی بھٹو کو بھجوا دیا۔
بھٹو صاحب نے سفیر کو اسلام آباد طلب کر لیا‘ خود انٹرویو کیا‘ مطمئن ہو گئے لیکن اس کے باوجود سفیر کو شام سے صومالیہ ٹرانسفر کر دیاگیا‘ یہ سفارت خرم خان کی سنیارٹی سے میچ نہیں کرتی تھی چنانچہ وہ مستعفی ہو ئے‘ لندن شفٹ ہوئے‘ ٹیچر بھرتی ہوئے اور باقی زندگی معمولی نوکری میں گزار دی‘ پنی صاحب کی کروڑوں روپے کی جائیداد ڈھاکا میں قبضہ مافیا کے ہتھے چڑھ گئی لیکن خرم خان نے بنگلہ دیش میں قدم نہ رکھا‘ وہ کنگال زندگی گزارتے رہے مگر مرنے تک پاکستانی رہے۔
یہ صرف ایک کہانی نہیں ہے‘ ہم اگر تحقیق کریں تو ہمیں پاکستان کی تاریخ میں خرم خان پنی جیسے ہزاروں لوگ ملیں گے‘ یہ لوگ پاکستانی تھے‘ یہ پوری زندگی پاکستانی ہونے کا تاوان بھگتتے رہے مگر پاکستان کی اشرافیہ نے انھیں پاکستانی تسلیم نہ کیا لیکن یہ اس کے باوجود آخری سانس تک پاکستانی رہے‘ میں دل سے یہ سمجھتا ہوں ہم نے جس دن غیر جانبداری سے اپنی غلطیوں پر تحقیق کی‘ ہم یہ ماننے پر مجبور ہو جائیں گے بنگالیوں نے ہمیں نہیں بلکہ ہم نے بنگالیوں کو چھوڑا تھا‘ ہم یہ بھی ماننے پر مجبور ہو جائیں گے آل انڈیا مسلم لیگ سندھیوں‘ پنجابیوں‘ پشتونوں اور بلوچوں نے نہیں بنائی تھی اس کی بنیاد بنگالیوں نے 30 دسمبر1906ء کو ڈھاکا میں رکھی تھی‘ پاکستان کی قرارداد بھی 23 مارچ 1940ء کو کسی لاہوری‘ پشاوری‘ کوئٹوی یا لاڑکانوی نے پیش نہیں کی تھی‘ یہ اعزاز بھی بنگال کے ایک شیر مولوی فضل الحق کو نصیب ہوا تھا۔
ہم یہ بھی ماننے پر مجبور ہو جائیں گے بنگالی ہم سے زیادہ پڑھے لکھے‘ ہم سے زیادہ مہذب اور ہم سے زیادہ وطن پرست تھے اور یہ ہمارے جاگیردارانہ‘ منافقانہ اور نفرت میں بھیگے ہوئے رویئے تھے جنہوں نے بنگالیوں کو ہم سے الگ کیا‘ ہم یہ بھی ماننے پر مجبور ہو جائیں گے بنگالی ہم سے الگ ہونے کے بعد اپنا ملک ہم سے بہتر چلا رہے ہیں‘ ان کی اکانومی‘ ان کی ٹریڈ‘ ان کی ہیلتھ سروسز اور ان کی تعلیم کا معیار ہم سے بہت بہتر ہے اور ہم یہ ماننے پر بھی مجبور ہو جائیں گے ہم نے تاریخ سے کچھ نہیں سیکھا‘ ہم آج بھی 1971ء کے ان لمحات میں زندہ ہیں جن میں ہم اپنے ہم وطنوں کو غدار قرار دیتے تھے‘ ہم ان پر ٹینک چڑھا دیتے تھے اور ہمارے لیڈر جلسہ عام میں ڈھاکا جانے والوں کی ٹانگیں توڑنے کا اعلان کرتے تھے‘ ہم 45 سال بعد بھی وہیں کھڑے ہیں جہاں ہمیں ہماری انا‘ ہماری ضد نے1971ء میں گاڑھ دیا تھا‘ آپ کو اگر یقین نہ آئے تو آپ آج ریاست کا ایم کیو ایم کے ساتھ رویہ دیکھ لیجیے۔
میں دل سے سمجھتا ہوں پاکستان کے تمام ’’سنز آف دی سائل‘‘ 70 سال بعد بھی پاکستانی نہیں ہیں‘ یہ آج بھی سندھی‘ پنجابی‘ بلوچی اور پشتون ہیں‘ میں یہ بھی سمجھتا ہوں ہم میں سے کسی نے پاکستان کے لیے کوئی قربانی نہیں دی تھی‘ ہم سب پاکستان کے ’’بینی فیشری‘‘ ہیں‘ پاکستان کے لیے اگر کسی نے قربانی دی تو وہ 1947ء کے مہاجر تھے‘ یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے پاکستان کے لیے تحریک بھی چلائی‘ جنہوں نے انگریزوں اور ہندوؤں کو مسلمانوں کا الگ وطن تسلیم کرنے پر مجبور بھی کیا‘ جنہوں نے پاکستان کے لیے اپنے گھر بار‘ زمین جائیداد‘ کھیت کھلیان اور اپنے آباؤ اجداد کی قبریں چھوڑیں اور جنہوں نے اپنے بچے‘ اپنی بچیاں اور اپنے جوان بیٹے بھی قربان کیے‘ میں دل سے یہ سمجھتا ہوں پاکستان میں اگر کسی کو پاکستانی کہلانے کا حق ہے تو وہ صرف مہاجر ہیں‘ یہ وہ لوگ ہیں جو 70 سال بعد بھی صرف پاکستانی ہیں‘ یہ سندھی‘ پنجابی‘ پٹھان اور بلوچی نہیں بنے لیکن ہم سنز آف سائل کا ان کے ساتھ کیا رویہ ہے؟
ہم نے کبھی سوچا؟ میں نے کل سندھ اسمبلی میں ایم کیو ایم کے سینئر ارکان کو روتے دیکھا‘ یہ لوگ اپنے قائد الطافحسین کو ’’ڈس اون‘‘ بھی کر رہے تھے اور یہ اس کے خلاف سندھ اسمبلی میں آرٹیکل چھ کی قرارداد بھی پیش کر رہےتھے لیکن ہم اس کے باوجود ان پر یقین کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں‘ کیوں؟ آخر کیوں؟ یہ درست ہے ایم کیو ایم کیصفوں میں ٹارگٹ کلرز‘ بھتہ خور اور دہشت گرد موجود تھے‘ یہ لوگ کراچی کو تباہی کے دھانے تک بھی لے کر آئےلیکن کیا یہ سچ نہیں ہماری ریاست‘ ہماری سیاسی جماعتیں ماضی میں ان کی سہولت کار تھیں! کیا یہ غلط ہے ایم کیو ایمجنرل ضیاء الحق نے بنوائی تھی‘ کیا یہ غلط ہے جنرل ضیاء الحق کے رفقاء کار نے پیپلز پارٹی اور جماعت اسلامی کو واشآؤٹ کرنے کے لیے پرامن مہاجروں کو اسلحہ پکڑایا تھا‘ کیا یہ غلط ہے پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ ن 27سال حکومتیں بنانے کے لیے نائین زیرو کا طواف کرتی رہیں اور کیا یہ غلط ہے جنرل پرویز مشرف ایم کیو ایم اور الطاف حسین کو اپنا نظریاتی اور سیاسی بازو سمجھتے تھے۔
ہمیں یہ ماننا ہو گا ایم کیو ایم دہشت گرد تھی تو اسے اس راستے پر لگانے‘ اس کی غلطیوں پر خاموش رہنے اور اسے ٹارگٹ کلنگ اور بھتہ خوری کے لیے سہولتیں فراہم کرنے والے بھی دہشت گرد تھے‘ ہمیں ماننا ہو گا اگر 12مئی 2007ء سانحہ تھا تو اس سانحے کا ایک ملزم وسیم اختر جیل میں ہے اور دوسرا جنرل پرویز مشرف حکومت کی رضا مندی سے ملک سے باہر ہے اور ہمیں یہ بھی ماننا ہوگا یہ لوگ جب تک ٹارگٹ کلرز تھے یہ ہماری ریاست اور ہماری سیاسی جماعتوں کے لیے قابل قبول تھے اور فوجی آمر ہوں یا ملک کی بڑی سیاسی جماعتیں یہ ماضی میں ان کی سہولت کار رہیں اور ہمیں یہ بھی ماننا ہو گا آج جب یہ پاکستان زندہ باد کے نعرے لگا رہے ہیں‘ یہ اپنے قائد‘ اپنی رابطہ کمیٹی اور اپنے ماضی کو ڈس اون کر رہے ہیں اور یہ الطاف حسین کے خلاف اسمبلیوں میں قراردادیں پاس کرا رہے ہیں تو بھی ہم ان کی نیتوں پر شک کر رہے ہیں‘ ہم ان کا مذاق اڑا رہے ہیں اور یہ غلطی ہمیں دوبارہ ماضی کی طرف لے جا رہی ہے‘ اس ماضی کی طرف جس کے آخر میں مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن گیا تھا۔
مجھے خطرہ ہے ہم نے اگر اپنی پالیسی تبدیل نہ کی‘ ہم نے اگر راؤ انوار جیسے لوگوں کے ہاتھ نہ روکے تو شاید وہ وقت جلد آ جائے جب کراچی کے تمام مہاجر ایک آواز ہو کر بول پڑیں ’’الطاف حسین ٹھیک کہتا تھا‘‘ کیا ہم یہ چاہتے ہیں‘ ہم اگر یہ چاہتے ہیں تو پھرہمیں ایم کیو ایم کو اسی طرح رگڑا لگاتے رہنا چاہیے لیکن ہم اگر کراچی میں امن چاہتے ہیں تو پھرہمیں فاروق ستار کو ایک موقع دینا ہو گا‘ ہمیں خواجہ اظہار الحسن کے آنسو پونچھنا ہوں گے‘ ہمیں ان لوگوں کو سینے سےلگانا ہوگا اور ہمیں انھیں پاکستانی تسلیم کرنا ہو گا‘ ہم نے بنگالیوں سے نفرت کر کے نتیجہ دیکھ لیا تھا‘ ہمیں اب وہ غلطی کراچی میں نہیں دہرانی چاہیے‘ کیوں؟ کیونکہ دو جب بھی دو میں جمع ہوتے ہیں رزلٹ چار ہی نکلتا ہے پانچ نہیں۔
ماخذ