بڑے پرانے وقتوں کا ذکر ہے۔۔۔ کہ ایک خواجہ ہوا کرتا تھا۔ کسی سے اس کی نہ بنتی تھی۔ دوست تو درکنار کوئی اس غریب کو سلام کر کے راضی نہ تھا۔۔۔۔ درویش طبیعت ایک دن اکتا گئی دنیا کے جھمیلوں سے۔۔۔۔ بس خواجہ نے نعرہ مستانہ مارا۔۔۔۔ یا آبادی۔۔۔ اللہ حافظ۔۔۔ اور نکل پڑا۔۔۔۔
بس وہ کیا کہتے ہیں
نہ سدھ بدھ کی لی نہ منگل کی لی
نکل شہر سے راہ جنگل کی لی
بس یونہی درختوں کی چھال کھاتا۔۔۔۔ پرنالوں کا پانی پیتا چلا جا رہا تھا۔۔۔ چلا جا رہا تھا۔۔۔ کہ جنگل کے بیچ جا پہنچا۔۔۔۔ دیکھتا کیا ہے کہ ایک تالاب ہے۔۔۔ جس پر کائی سی جمی ہے۔۔۔۔ اس قدر ہریالی دیکھ کر ساون کے اندھوں کی یاد آگئی۔۔۔۔ سوچنے لگا۔۔۔ آج مجھ پر یہ راز منکشف ہوگیا۔۔۔۔ اور وہیں ایک درخت میں سانپ کے بل کے مقابل ایک اور بڑا سوراخ بنا کر بل نشیں ہوگیا۔۔۔۔ صبح کو درختوں سے چھال کھا لیتا۔۔۔۔ دوپہر کو گھاس پر منہ مار لیتا۔۔۔ اور رات کو پھر درختوں کی چھال۔۔۔۔ کیا عیاشی تھی۔۔۔۔ کائی ہٹا کر پانی پی لیتا۔ اور پھر واپس کائی اوپر کر دیتا۔۔۔ کہ کسی کو پتا نہ چلے کہ پانی پیا ہے۔۔۔۔ اس ذہنی عیاشی کے دور میں زباں پر ہر وقت یہی مصرعہ رہتا۔۔۔
خواجے بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست
دین و مذہب سے کچھ خاص تو کیا عام لگاؤ بھی نہ تھا۔۔۔۔ مگر ریت یہ تھی کہ جو بھی یوں خیر آباد کہتا۔۔۔ معرفت کی وہ منازل طے کر جاتا۔۔۔ جس کا اس کو علم تک نہ ہوتا۔۔۔ سو ایسے ہی ایک دن اٹھا تو کیا دیکھتا ہے کہ تالاب کے اوپر ایک پتا پڑا ہے۔ اور اس پتے پر ایک ڈڈو۔۔۔ عارفانہ نظر تھی۔۔۔ بھانپ گیا کہ یہ ڈڈو بھی یوں ہی درویش ڈڈو ہے۔۔۔ اور بقیہ ڈڈوؤں کی دنیا کو خیر آباد کہہ چکا ہے۔۔۔
خواجے نے ڈڈو کو اور ڈڈو نے اس کو دیکھا۔۔۔ دونوں کی آنکھوں میں بےنیازی تھی۔۔۔ اور شاید درویشی بھی۔۔۔ اگر نہیں بھی تھی تو موضوع آگے بڑھانے کو بےنیازی سے زیادہ درویشی موزوں ہے۔۔۔۔
کئی دن گزر گئے۔۔۔ وہ دونوں یوں ہی ایک دوسرے کو دیکھتے رہتے۔۔۔ درویشی سے۔۔۔۔
کرنا خدا کا یوں ہوا۔۔۔ کہ ڈاکوؤں کا ایک گروہ ایک ایسے چور کی تلاش میں وہاں آن نکلا۔۔۔۔ جو ان کی ڈکیتی کا سامان چوری کر کے نکل بھاگا تھا۔۔۔ اور باآواز بلند چلاتا پھرتا تھا کہ چوروں کو پڑ گئے مور۔۔۔۔
اس بندہ ناداں کو کیا سوجھی کہ اچھل کر بیچ میں آگیا۔۔۔۔۔ اور پکار کر کہنے لگا کہ اس بندہ درویش جو کہ لبا لب عجز و انکسار سے بھرا پڑا ہے۔۔۔ یہاں نہ مور دیکھا اور نہ مورنی۔۔۔ تو کیا پکارتے پھرتے ہو۔۔۔۔۔ اس پر ان ڈاکوؤں نے اس کو پکڑ لیا اور کہا کہ کہاں وہ سارا سامان جو ہم سے اڑا لایا ہے۔۔۔۔
اس بندہ ناداں خواجہ نے مدد کے لیے ایک نظر ڈڈو پر ڈالی۔۔۔ تو ڈڈو نے باآواز بلند ٹرا کر کہا۔۔۔۔۔
یہ چور نہیں۔۔۔ اور نہ ہی مور ہے۔۔۔۔ بلکہ یہ تو خواجہ ہے۔۔۔۔ ایک بے ضرر خواجہ۔۔۔۔ درخت کی چھال کھا کر گزارہ کرتا ہے۔۔۔ مگر چھوٹے گوشت۔۔۔ یعنی کہ مجھے کبھی میلی آنکھ سے نہیں دیکھا۔۔۔ ڈاکو یہ سن کر سرپٹ بھاگ اٹھے۔۔۔ اور چلاتے جاتے۔۔۔۔
خواجے کا گواہ ڈڈو۔۔۔ خواجے کا گواہ ڈڈو۔۔۔۔
آج بھی خواجے اور ڈڈو کا مزار اسی کائی والے تالاب کے کنارے ہے۔۔۔ اور ہر عرس پر ہزاروں ڈڈو مل کر ٹراتے ہیں۔ اور ماحول کو گرماتے ہیں۔۔۔۔
واللہ اعلم
اہم نوٹ: اس تحریر میں کوئی جھول نظر آئے۔ تو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ محض ایک گفتگو کے دوران وارد ہوئی تحریر ہے۔
لہذا اس کو تمام لوازمات سے استثنیٰ حاصل ہے۔۔۔۔