انسانی توقیر کی تحقیر اس سے بڑھ کے کیا ہوگی کہ ہمارا معیارِ زیست تفریق کی اساس پر قائم محبت کی تقسیم میں ضرب کے بجائی '' نفی ، جمع '' کی اضداد پر قائم ہے ۔بحثیت انسان ایک دن بھی کوئی انسانیت کی اس صنف کے ساتھ گُزار لے تو یہ دکھی انسانیت کی خدمت کا بہت بڑا صدقہ ہوگی کہ حقیقتا یہ لوگ بات کو ترستے ہوں گے ان کے چہرے پر مردانہ وضع و کرختگی اور صنف نازک جیسے اوصاف اور ان کی اوڑھنا ، بات کا طریقہ و سلیقہ کسی اجنبی کو بہت دور لے جائے گا ماسوا اسکے جس کے دل میں اللہ کی محبت کا شعلہ ہوگا ۔ اگر معاشرے کے عمومی رحجانات ان کو معاشرت سے دور بھگاتے ہیں تو ہم سے کسی کو پہلا قدم ان کی تعلیم کے لیے اٹھانا ہوگا کہ کوئی ایسا اسکول جو ان کو سدھار سکے ، ان کی بقاء اور اچھے معیار زندگی کے لیے بے حد ضروری ہے ۔ معاشرے کے اچھوت جن سے ہمارا رویہ ''شودروں '' جیسا ہے کہ ہم ہی ان کے خدا بنے پھرتے ہیں کیونکہ ہم ان سے اعلی ہیں ۔ اللہ ہمیں اچھے عمل کی توفیق دے ۔ یہ خیال مجھے جاسمن بہنا کی شریک کردہ تصویر کو دیکھ کے آیا