ادبی و تاریخی روایات میں مذکور ہے کہ سلطان معزالدین ابوالحارث احمد سنجر بن مَلِک شاہ سلجوقی (م ۵۵۲ ہجری) کی زبان پر حالتِ نزع میں یہ اشعار جاری تھے:
به ضربِ تیغِ جهانگیر و گُرزِ قلعهگشای
جهان مسخَّرِ من شد چو تن مسخَّرِ رای
گهی به عزّ و به دولت همینشستم شاد
گهی ز حرص همیرفتمی ز جای به جای
بسی تفاخر کردم که من کسی هستم
کنون برابر بینم همی امیر و گدای
اگر دو کلّهٔ پوسیده برکشی ز دو گور
سرِ امیر که داند ز کلّهٔ گَرّای
هزار قلعه گشادم به یک اشارتِ دست
بسی مَصاف شکستم به یک فِشُردنِ پای
چو مرگ تاختن آورد هیچ سود نکرد
بقا بقای خدایست و مُلک مُلکِ خدای
ترجمہ: [میری] تیغِ جہاں گیر اور گُرزِ قلعہ کشا کی ضرب سے دنیا میری مطیع ہو گئی، جس طرح تن عقل و تدبیر کا مطیع ہے؛ میں گاہ عزّ و دولت کے ساتھ شاد بیٹھا کرتا تھا، اور گاہ حرص کے سبب ایک جگہ سے دوسری جگہ جایا کرتا تھا؛ میں بسیار فخر کرتا تھا کہ میں فلاں ہوں؛ [لیکن] اب امیر اور گدا کو برابر دیکھتا ہوں؛ اگر تم دو قبروں سے دو بوسیدہ سروں کو بیرون نکالو تو کون امیر اور حجّام کے سر میں فرق کر پائے؟؛ میں نے ہزاروں قلعے ایک اشارۂ دست سے فتح کیے؛ میں نے کئی [جنگی] صفیں ایک جنبشِ پا سے شکستہ کیں۔ [لیکن] جب موت نے حملہ کیا تو [کسی چیز نے] ذرا فائدہ نہیں کیا؛ بقا، [فقط] خدا کی بقا ہے، اور مُلک [فقط] خدا کا مُلک۔۔۔
[ماخذ: تاریخِ اجتماعیِ ایران، جلدِ ششم، مرتضیٰ راوندی]
× یہ اشعار سلطان محمود غزنوی سے بھی منسوب ہیں۔ نیز، لغت نامۂ دہخدا کے مطابق، 'کلّهٔ گّرای' والا شعر منصور بن نوح سامانی سے بھی منسوب ہے۔ واللہ اعلم!