محمد وارث

لائبریرین
محمد وارث بھائی نے شاید کہیں لکھا تھا کہ یہ شعر شیخ غلام قادر گرامی کا ہے۔
خان صاحب میرا یہی خیال تھا کبھی لیکن یہ شعر گرامی سے بہت پہلے کی کتب میں بھی موجود ہے۔ یعنی یہاں گرامی تخلص کے طور پر استعمال نہیں ہوا سو مولانا گرامی کا تو نہیں ہو سکتا۔ آج تک علم نہیں ہو سکا کہ کن محترم کا یہ شعر ہے :)
 

حسان خان

لائبریرین
در من نگر که نرگسِ خون‌خوارم آرزوست
با من بگو که لعلِ گهربارم آرزوست
(روزبهان بقلی شیرازی)

میری جانب نگاہ کرو کہ مجھے نرگسِ خوں خوار کی آرزو ہے؛ مجھ سے گفتگو کرو کہ مجھے لعلِ گہربار کی آرزو ہے۔
× یار کی چشم کو 'نرگس'، جبکہ لب کو 'لعل' سے تشبیہ دی جاتی ہے۔
 
چشم عبرت هر که بر اوراقِ روز و شب گشود
همچو بيدل معنیِ بی حاصلی فهميد و رفت
(بیدل دهلوی)
جس نے بھی اوراقِ شب و روز پر چشمِ عبرت کھولی، بیدلؔ کی طرح ایک بےحاصل مطلب سمجھا اور چلاگیا۔
 
آخری تدوین:

محمد وارث

لائبریرین
تو خود ز صورتِ من حالِ زارِ دل دریاب
چہ آورم بزبان و چہ عرضِ حال کنم


سید نصیر الدین نصیر

تو خود ہی میری صورت سے میرے دل کی حالتِ زار کا اندازہ کر لے، میں کیا زبان پر لاؤں اور کیا عرضِ حال کروں۔
 

حسان خان

لائبریرین
مستم چو عندلیب ز دردِ فراقِ تو
بنمای رخ که دیدنِ گلزارم آرزوست
(روزبِهان بقلی شیرازی)

میں بلبل کی مانند تمہارے فراق کے درد سے مست ہوں؛ [اپنا] چہرہ دکھاؤ کہ مجھے گلزار کی دید کی آرزو ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
به ماهِ روزه جُهودانه مَی مخور تو به شب
بیا به بزمِ محمد مُدام نوش مُدام
(مولانا جلال‌الدین رومی)

ماہِ صیام میں یہودیوں کی طرح تم شب میں شراب مت پیو؛ بزمِ محمد میں آؤ اور ہمیشہ شراب پیو۔
 
بیگانه اگر ظلم و جفا کرد عجب نیست
از غفلت و بی مهریِ یاران گله دارم
( سمیع الدین افغانی )

بیگانہ(اجنبی) اگر ظلم و جفا کرے تو کچھ عجب نہیں۔میں دوستوں کی غفلت و بے مہری کا گِلہ رکھتا ہوں۔
 

حسان خان

لائبریرین
چشمِ ما دیدهٔ خُفّاش بُوَد ورنه تو را
پرتوِ حُسن به دیوار و دری نیست که نیست
(حاج ملا هادی سبزواری)

ہماری چشم خُفّاش کی چشم ہے، ورنہ کوئی ایسی دیوار و در نہیں ہے جس میں تمہارے حُسن کا پرتو نہیں ہے۔
× خُفّاش = چمگادڑ
 

حسان خان

لائبریرین
ادبی و تاریخی روایات میں مذکور ہے کہ سلطان معزالدین ابوالحارث احمد سنجر بن مَلِک شاہ سلجوقی (م ۵۵۲ ہجری) کی زبان پر حالتِ نزع میں یہ اشعار جاری تھے:
به ضربِ تیغِ جهان‌گیر و گُرزِ قلعه‌گشای
جهان مسخَّرِ من شد چو تن مسخَّرِ رای
گهی به عزّ و به دولت همی‌نشستم شاد
گهی ز حرص همی‌رفتمی ز جای به جای
بسی تفاخر کردم که من کسی هستم
کنون برابر بینم همی امیر و گدای
اگر دو کلّهٔ پوسیده برکشی ز دو گور
سرِ امیر که داند ز کلّهٔ گَرّای
هزار قلعه گشادم به یک اشارتِ دست
بسی مَصاف شکستم به یک فِشُردنِ پای
چو مرگ تاختن آورد هیچ سود نکرد
بقا بقای خدایست و مُلک مُلکِ خدای

ترجمہ: [میری] تیغِ جہاں گیر اور گُرزِ قلعہ کشا کی ضرب سے دنیا میری مطیع ہو گئی، جس طرح تن عقل و تدبیر کا مطیع ہے؛ میں گاہ عزّ و دولت کے ساتھ شاد بیٹھا کرتا تھا، اور گاہ حرص کے سبب ایک جگہ سے دوسری جگہ جایا کرتا تھا؛ میں بسیار فخر کرتا تھا کہ میں فلاں ہوں؛ [لیکن] اب امیر اور گدا کو برابر دیکھتا ہوں؛ اگر تم دو قبروں سے دو بوسیدہ سروں کو بیرون نکالو تو کون امیر اور حجّام کے سر میں فرق کر پائے؟؛ میں نے ہزاروں قلعے ایک اشارۂ دست سے فتح کیے؛ میں نے کئی [جنگی] صفیں ایک جنبشِ پا سے شکستہ کیں۔ [لیکن] جب موت نے حملہ کیا تو [کسی چیز نے] ذرا فائدہ نہیں کیا؛ بقا، [فقط] خدا کی بقا ہے، اور مُلک [فقط] خدا کا مُلک۔۔۔

[ماخذ: تاریخِ اجتماعیِ ایران، جلدِ ششم، مرتضیٰ راوندی]


× یہ اشعار سلطان محمود غزنوی سے بھی منسوب ہیں۔ نیز، لغت نامۂ دہخدا کے مطابق، 'کلّهٔ گّرای' والا شعر منصور بن نوح سامانی سے بھی منسوب ہے۔ واللہ اعلم!
 
آخری تدوین:

محمد وارث

لائبریرین
عشّاقِ تو مُردند و غم و دردِ تو بردند
ایں طائفہ چیزے نگذارند بوارث


ابوالفیض فیضی دکنی

تیرے عاشق مر جاتے ہیں اور تیرا غم اور تیرا درد (اپنا سارا مال و متاع) بھی اپنے ساتھ ہی لے جاتے ہیں، یہ گروہ اپنے وارثوں کو کوئی بھی چیز نہیں دیتا۔
 

حسان خان

لائبریرین
سَلِ المَصانِعَ رَکْباً تَهيمُ فی الفَلَواتِ
تو قدرِ آب چه دانی که در کنارِ فراتی
(سعدی شیرازی)

تالابوں (کی قدر و قیمت) کو اُن شُتُر سواروں سے پوچھو جو صحراؤں میں سرگرداں ہیں؛ تم آب کی قدر کیا جانو گے کہ تم تو فُرات کے کنارے پر ہو؟
سَلِ اللُغُوبَ حُفاةً يَجُلنَ فی الفَلَواتِ
تو رنجِ راه چه دانی که خُفته در خَلَواتی
(قربان‌علی بیدل قزوینی)

خستگی و ماندگی [کے رنج] کو اُن برہنہ پا لوگوں سے پوچھو جو بیابانوں میں گھومتے ہیں؛ تم رنجِ راہ کیا جانو کہ تم تو خلوتوں میں سوئے ہوئے ہو۔۔۔

یہ اِس دھاگے میں میرا ہزارواں مراسلہ ہے۔ :)
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
هر آنچ اندر زمانه دردِ دل بود
یکی کردند و عشقش نام کردند
(صفی‌الدین یزدی)

زمانے میں جو چیز بھی دردِ دل تھی اُسے یکجا کیا گیا اور اُس کا نام عشق رکھ دیا گیا۔
 

حسان خان

لائبریرین
بشدی و دل ببردی و به دستِ غم سپردی
شب و روز در خیالی و ندانمت کجایی
(سعدی شیرازی)

تم چلے گئے اور دل لے گئے اور [اُسے] غم کے دست میں سپرد کر دیا۔۔۔ تم شب و روز میرے خیال میں ہو اور میں نہیں جانتا کہ تم کہاں ہو۔
 

حسان خان

لائبریرین
درِ چشم بامدادان به بهشت برگشودن
نه چنان لطیف باشد که به دوست برگشایی
(سعدی شیرازی)

درِ چشم کو صبح کے وقت بہشت کی جانب کھولنا اِس قدر لطیف نہیں ہے جس قدر محبوب کی جانب کھولنا۔۔۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
اگرچه دیر بماندم، امید برنگرفتم
مَضَی الزَّمانُ وَ قَلبی یَقُولُ اِنَّکَ آتِی
(سعدی شیرازی)

اگرچہ میں نے دیر تک [انتظار] کیا، [لیکن] میں ناامید نہ ہوا۔۔۔ وقت گذر گیا لیکن میرا دل کہتا ہے کہ یقیناً تم آ رہے ہو۔
 
آخری تدوین:

محمد وارث

لائبریرین
اے دل چہ نشستہ ای فسردہ
برخیز بعشقِ یار برخیز


شیخ علی حزیں لاھیجی

اے دل تُو کیا افسردہ سا پڑا ہوا ہے، اُٹھ، عشقِ یار میں اُٹھ کھڑا ہو۔
 

حسان خان

لائبریرین
هر چه خواهی کن که ما را با تو رویِ جنگ نیست
سر نهادن بِه در آن موضِع که تیغ افراشتی
(سعدی شیرازی)

[اے یار،] تم جو کچھ بھی کرنا چاہتے ہو کرو کہ ہم تمہارے ساتھ جنگ و سِتیز کا قصد نہیں رکھتے؛ جس جا تم نے تیغ بلند کی ہے وہاں سرِ [تسلیم] رکھنا بہتر ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
اندیشه مکن الّا از خالقِ اندیشه
اندیشهٔ جانان بِه کاندیشهٔ نان بینی
(مولانا جلال‌الدین رومی)

فکر کو خلق کرنے والے کے سوا کسی چیز کی فکر میں مشغول مت ہو؛ جاناں کی فکر نان کی فکر کرنے سے بہتر ہے۔
 
آخری تدوین:
Top