ز نقد و جنس خود آگہ نہ ای ، دریں بازار
اگر بہ فہمِ زیاں ہم رسیدہ ای ، سود است
وجود کے اس بازار میں نہ تُو اپنی قیمت سے واقف ہے اور نہ جنس سے ، لہذا اگر تجھے اپنے نقصان کا علم بھی ہو جائے تو اسے تُو اپنے حق میں نفع ہی سمجھ۔
اس شعر میں بیدل کہنا یہ چاہتا ہے کہ کائنات کو ایک بازار سمجھو ، جس میں ہر طرح کی اشیا سجائی گئی ہیں۔ ان سب کی طرح تم بھی اپنے خالق اور صانع کے مصنوع ہو۔ جس طرح دوسری چیزوں میں خوبیاں رکھی گئیں ، تم میں بھی بہت سی خوبیاں ہیں اور تم بھی ایک صانع کے شاہکار ہو۔ تم نے دیگر مصنوعات میں تو خوبیاں دریافت کر لیں لیکن اپنی ذات کی جانب کبھی توجہ نہ کی۔ بیدل یہی بات اپنے ایک اور شعر میں یوں کہتے ہیں:
ستم است اگر ہوست کشد کہ بہ سیرِ سرو و سمن در آ
تو ز غنچہ کم نہ دمیدہ ای درِ دل کشا بہ چمن در آ
اسی طرح غزل کا یہ شعر:
پئے نافہ ہائے رمیدہ بو مپسند زحمتِ جستجو
بخیال حلقہ ء زلف اُو گرہے خور و بہ ختن در آ
محولہ بالا اشعار میں انسان کو عرفان ذات کا درس دیتے ہوِئے کہا گیا ہے کہ تُو سروسمن کی سیر اور اُن کی دل کشی کو کب تک دیکھتا رہے گا؟ ذرا اپنے دروازہء دل کو کھول اور اپنے چمن کی سیر بھی کر۔ من عرف نفسہ فقد عرف ربہ کے ارشاد میں یہی درس دیا گیا ہے۔
محیطِ ادب ؛ سید نصیر الدین نصیر گیلانی ، صفحہ 98