حسان خان

لائبریرین
تا دل نکند درد، ندانی، که دلت هست،
تا سر نکند درد، ندانی، که سرت هست.
تا یار تو را ترک نگوید، نتوان گفت
از او به دل و جان چه نشان و اثرت هست.
(لایق شیرعلی)

جب تک دل درد نہیں کرتا، تم نہیں جانو گے کہ تمہارا دل موجود ہے؛ جب تک سر درد نہیں کرتا، تم نہیں جانو گے کہ تمہارا سر موجود ہے؛ جب تک یار تمہیں ترک نہ کر دے، نہیں کہا جا سکتا کہ تمہارے دل و جان میں اُس کا کیا نشان و اثر موجود ہے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
خاتَمِ مُلکِ سلیمان است علم
جمله عالَم صورت و جان است علم
(مولانا جلال‌الدین رومی)

تشریح: علم به منزلهٔ نگینِ انگشتریِ سلیمانِ نبی (ع) است. یعنی همان طور که طبقِ روایات شوکت و قدرتِ سلیمان (ع) به انگشتری‌اش بسته بود و بدان وسیله بر جنّ و اِنس و دیو و پری حکم می‌راند، علمِ باطنی و حقیقی نیز اگر بر قلبی نقش بندد، آن کس بر همهٔ موجوداتِ جهان حاکم شود. چرا که جھان به منزلهٔ کالبد است، و علمِ باطنی به منزلهٔ روح و جانِ آن."

ترجمہ: علم سلیمانِ نبی (ع) کی انگشتری کے نگین کی مانند ہے۔ یعنی جس طرح روایات کے مطابق سلیمان (ع) کی شوکت و قدرت اُن کی انگشتری سے وابستہ تھی اور وہ اُس کے وسیلے سے جن و اِنس و دیو و پری پر حکمرانی کرتے تھے، اُسی طرح اگر علمِ باطنی و حقیقی بھی کسی شخص کے قلب پر نقش باندھ لے تو وہ شخص ہمۂ موجوداتِ جہا‌ں پر حاکم ہو جائے۔ کیونکہ جہان قالب کی طرح ہے، اور علمِ باطنی اُس کی روح و جان کی طرح۔

[شارح: سیّد یونس اِستَرَوشنی]
ماخذ
 
آخری تدوین:

سید عاطف علی

لائبریرین
نو میدیِ ما , گردشِ ایام ندارد
روزے کہ سیہ شد سحروشام ندارد

غالب
ہماری نامیدی میں گردش ایام نہیں ۔
جودن ہی سیاہ ہواس میں سحروشام نہیں۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
آزمودم دل خود را بہ ہزاران شیوه
ہیچ چیزش بجز ازوصل تو خشنود نکرد
مولانا
میں نے اپنے دل کو خوش کرنے کے ہزارہا جتن کیے ۔
لیکن یہ تیرے وصل کےسوا کسی سے بھی راضی نہ ہو۔
 
اے مرا تو مصطفٰیؐ من چوں عمرؓ
از برائے خدمتت بندم کمر


(مولانا جلال الدین رومی بلخی)

اے (بزرگ)! (کہ) تو میرا مصطفیٰ (صلی الله علیہ وسلم)، (کی طرح) ہے اور میں عمر (رضی الله عنھا) کی طرح ہوں،
تیری خدمات گاری کے لئےمیں کمر بستہ ہوں۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
مثلِ زنبورِ عسل جان می‌دهم، گر ناگهان
بر وجودِ بی‌گناهی از خطا نیشی زنم

(لایق شیرعلی)
اگر میں ناگہاں کسی بے گناہ پیکر پر غلطی سے ایک نیش مار دوں تو میں شہد کی مکھی کی طرح جان دے دوں گا۔
[شہد کی مکھی نیش مار کر مر جاتی ہے۔]
 

حسان خان

لائبریرین
حذر ز راهِ محبت که پُرخطرناک است
تو مُشتِ خارِ ضعیفی و شعله بی‌باک است
(بیدل دهلوی)

راہِ محبت سے پرہیز کرو کہ یہ راہ بسیار خطرناک ہے؛ تم مُشتِ خارِ ضعیف ہو اور شعلہ بے باک ہے۔
× مُشتِ خارِ ضعیف = مٹھی بھر ناتواں خار
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
زمانه کج‌مَنِشان را به بر کشد بيدل
کسى که راست بُوَد خارِ چشمِ افلاک است
(بیدل دهلوی)

اے بیدل! زمانہ کج فطرت شخصوں کو [اپنی] آغوش میں لیتا ہے؛ [جبکہ] جو شخص راست ہو وہ چشمِ افلاک کا خار ہوتا ہے۔
 
آخری تدوین:

محمد وارث

لائبریرین
کہنہ از نو نشناسیم کہ بر دل ز فراق
سوزشِ داغِ نو و داغِ کہن ہر دو یکیست


طالب آملی

ہم اور پُرانے اور نئے کو نہیں جانتے کہ فراق کی وجہ سے دل میں، نئے داغ اور پُرانے داغ دونوں کی سوزش ایک برابر ہی ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
سعدیا تَرکِ جان بباید گفت
که به یک دل دو دوست نتوان داشت
(سعدی شیرازی)

اے سعدی! جان کو تَرک کہہ دینا لازم ہے کیونکہ ایک دل میں دو دوست نہیں رکھے جا سکتے۔
 
رباعی

کس را پس پردہ قضا راہ نشد
وز سر قدر ہیچ کس آگاہ نشد
ہر کس ز سر قیاس چیزے گفتند
معلوم نگشت وقصہ کوتاہ نشد

امام غزالی

بحوالہ الغزالی از مولانا شبلی نعمانی
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
رباعی

کس راہ پس پردہ قضا راہ نشد
وز سر قدر ہیچ کس آگاہ نشد
ہر کس ز سر قیاس چیزے گفتند
معلوم نگشت وقصہ کوتاہ نشد

امام غزالی

بحوالہ الغزالی از مولانا شبلی نعمانی
رباعی کے مصرعِ اول میں 'کس راہ' کی بجائے 'کس را' آئے گا۔
ویسے اِس دھاگے میں اشعار ترجمے کے ساتھ پیش کیے جاتے ہیں۔ محض فارسی اشعار تو نیٹ پر آسانی سے مل سکتے ہیں۔ :)
اگر آپ خود اِس کا ترجمہ کر سکتے ہیں تو کر دیجیے۔ میں ابھی ذرا مصروف ہوں، ورنہ میں ترجمہ کر دیتا۔
اور اگر ترجمہ درکار ہو تو بتا دیجیے گا میں ترجمہ کر دوں گا۔
 
رباعی کے مصرعِ اول میں 'کس راہ' کی بجائے 'کس را' آئے گا۔
ویسے اِس دھاگے میں اشعار ترجمے کے ساتھ پیش کیے جاتے ہیں۔ محض فارسی اشعار تو نیٹ پر آسانی سے مل سکتے ہیں۔ :)
اگر آپ خود اِس کا ترجمہ کر سکتے ہیں تو کر دیجیے۔ میں ابھی ذرا مصروف ہوں، ورنہ میں ترجمہ کر دیتا۔
اور اگر ترجمہ درکار ہو تو بتا دیجیے گا میں ترجمہ کر دوں گا۔
ترجمہ کر دیجئے۔
 

حسان خان

لائبریرین
کس را پسِ پردهٔ قضا راه نشد
وز سِرِّ قَدَر هیچ کس آگاه نشد
هر کس ز سرِ قیاس چیزی گفتند
معلوم نگشت و قصه کوتاه نشد
کوئی شخص قضا کے پردے کے پیچھے تک راہ نہیں پا سکا؛ اور نہ کوئی شخص قَدَر کے راز سے آگاہ ہوا؛ ہر کسی نے اپنے قیاس سے ایک چیز کہی، لیکن کچھ معلوم نہ ہوا اور قصہ کوتاہ نہ ہوا۔
 
اسی مضمون میں شبلی نے فارابی اوربو علی سینا کی رباعیات کے حوالے دئیے ہیں۔

اسرار وجود خام و ناپخته بماند
و آن گوهر بس شریف ناسفته بماند
هر کس به دلیل عقل چیزی گفتند
آن نکته که اصل بود ناگفته بماند

(فارابی)

دل گر چه درین بادیه بسیار شتافت
یک موی ندانست و بسی موی شکافت
گرچه ز دلم هزار خورشید بتافت
آخر به کمال ذره‌ای راه نیافت

(بو علی سینا)
 

حسان خان

لائبریرین
اسرار وجود خام و ناپخته بماند
و آن گوهر بس شریف ناسفته بماند
هر کس به دلیل عقل چیزی گفتند
آن نکته که اصل بود ناگفته بماند
اَسرارِ وجود خام و ناپخته بماند
وآن گوهرِ بس شریف ناسُفته بماند
هر کس به دلیلِ عقل چیزی گفتند
آن نکته که اصل بود ناگفته بماند

وجود کے اَسرار خام و ناپختہ رہ گئے؛ اور وہ بسیار بلند قدر گوہر بے پرویا رہ گیا؛ ہر کسی نے عقل کی دلیل سے کوئی چیز کہی لیکن جو نکتہ اصل تھا وہ ناگفتہ رہ گیا۔
 

حسان خان

لائبریرین
دل گر چه درین بادیه بسیار شتافت
یک موی ندانست و بسی موی شکافت
گرچه ز دلم هزار خورشید بتافت
آخر به کمال ذره‌ای راه نیافت

(بو علی سینا)
دل گرچه درین بادیه بسیار شتافت
یک موی ندانست و بسی موی شکافت
گرچه ز دلم هزار خورشید بتافت
آخر به کمالِ ذره‌ای راه نیافت

دل اگرچہ اِس بیابان میں بسیار دوڑا؛ لیکن وہ ایک بال کی حقیقت جانے بغیر ہی مُوشگافیاں کرتا رہا؛ اگرچہ میرے دل سے ہزاروں خورشید طلوع ہوئے؛ لیکن وہ انجامِ کار ایک ذرے کے کمال سے بھی آگاہ نہ ہو سکا۔


ابنِ سینا کے مقبرے میں ایک کتیبے پر بھی یہ رباعی منقوش ہے:
1813604_443.jpg
 
آخری تدوین:
صد ہزاراں نیزہ فرعون را
در شکست آں موسیٰ با یک عصا


فرعون کے لاکھوں نیزے
حضرت موسیٰ نے ایک لاٹھی سے توڑ دیے

صد ہزاراں طب جالنیوس بود
پیش عیسیٰ و دمش افسوس بود


جالنیوس کی لاکھوں طبیں(نسخے) تھیں
حضرت عیسیٰ کے دم(پھونک) کے سامنے ہار گئیں

صد ہزاراں دفتر اشعار بود
پیش حرِف اُمیش آں عار بود


لاکھوں اشعار کے دفتر(دیوان) تھے
حضورؐ کے کلام کے سامنے شرمندہ ہو گئے

(مولانا جلال الدین رومی)
 

حسان خان

لائبریرین
"بیا، که تِیره‌مَه و موسِمِ خَزان‌ریز است،
نگاهِ خستهٔ خورشید دردانگیز است،
بیا، بهار کنیم، عاشقی ز سر گیریم!"
(لایق شیرعلی)

آ جاؤ، کہ موسمِ خزان و برگ ریز ہے،
خورشید کی نگاہِ خستہ درد انگیز ہے،
آ جاؤ، ہم بہار کریں، عاشقی دوبارہ شروع کریں!
 
Top