محمد وارث

لائبریرین
نہادہ ام بہ درِ عشق تا جبینِ نیاز
سرِ غرور بہ راہِ تو پائمال کنم


سید نصیر الدین نصیر

میں نے اپنی نیازمند پیشانی اس لیے در عشق پر رکھی ہوئی ہے کہ اپنے مغرور سر کو تیری راہ میں پائمال کروں۔
 

حسان خان

لائبریرین
نہادہ ام بہ درِ عشق تا جبینِ نیاز
سرِ غرور بہ راہِ تو پائمال کنم


سید نصیر الدین نصیر

میں نے اپنی نیازمند پیشانی اس لیے در عشق پر رکھی ہوئی ہے کہ اپنے مغرور سر کو تیری راہ میں پائمال کروں۔
میرا خیال ہے کہ شعر کا ترجمہ کچھ یوں ہونا چاہیے:
جب سے میں نے درِ عشق پر [اپنی] جبینِ نیاز رکھی ہے [تب سے] میں [اپنا] مغرور سر تمہاری راہ میں پائمال کر تا ہوں۔
'سرِ غرور' کا مفہوم 'غرور کا سر' بھی ہو سکتا ہے۔

'تا' کا ایک اور ایسا استعمال دیکھیے:
جهان‌آفرین تا جهان آفرید
سواری چو رُستم نیامد پدید
(فردوسی طوسی)

خدائے جہان آفریں نے جب سے دنیا کو خلق کیا ہے [تب سے] رُستم جیسا کوئی سوار ظاہر نہیں ہوا۔
 
آخری تدوین:
کاملے گر خاک گیرد زر شود
ناقص ار زَر بُرد خاکستر شود

کامل انسان خاک پکڑےتو سونا بن جائے
ناقص اگر سونا لے لے تو خاک ہو جائے
در بہاراں کے شود سَر سبز سنگ
خاک شو تا گل بَروید رنگ رنگ

موسم بہار میں پتھر سر سبز و شاداب کب ہوتا ہے
خاک (مٹی) بن جا تاکہ رنگ برنگ کے پھول کھلیں
ہمنشینی مُقبلاں چوں کمیاست
چوں نظر شاں کیمائے خود کجاست

بارگاہ حق کے مقبول بندوں کے ہم نشینی سونا ہے
بلکہ ان لوگوں کے نظر کے مقابلے میں سونا خود کچھ نہیں!
(مولانا جلال الدین رومی)
 
قافیہ اندیشم و دلدارِ من
گویدم مندیش جز دیدارِ من


میں قافیہ کی فکر کرتا ہوں اور میرا محبوب
مجھ سے کہتا ہے کہ میرے دیداد کے سوا کچھ نہ سوچ

(مولانا جلال الدین رومی)
 

محمد وارث

لائبریرین
رموزِ دیں نشناسم درست و معذورم
نہادِ من عجمی و طریقِ من عربیست


مرزا غالب دہلوی

میں رموزِ دین درست اور بالکل صحیح صحیح نہیں جانتا اور اِس سلسلے میں معذور ہوں کیونکہ میری اصل اور بنیاد عجمی ہے اور میرا طور طریقہ عربی ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
نشانِ عیش در اوراقِ دهر نایاب است
از این کتابِ غلط کس چه انتخاب کند
(عبداللطیف خان تنها پنجابی)

زمانے کے اوراق میں عیش کا نشان نایاب ہے؛ اِس کتابِ غلط سے کوئی کیا انتخاب کرے؟
 

حسان خان

لائبریرین
میوه از بهرِ رسیدن می‌رود یک ساله راه
پختگی‌ها گر هوس داری سفر شرط است شرط
(میر محمد علی رایج سیالکوتی)

میوہ پُختہ ہونے کے لیے یک سالہ راہ طے کرتا ہے؛ اگر تمہیں پُختگیوں کی آرزو ہے تو سفر شرط ہے۔
 
ہیں کہ اسرافیل وقتند اولیا
مُردہ را زیشاں حیات ست و نما

خبردار اولیا وقت کے اسرافیل ہیں
مردے ان سے حیات اور نشوونما پاتے ہیں
مطلق آں آواز از شہ بود
گرچہ از حلقوم عبداللہ بود

ان کی آواز حق کی آواز ہو تی ہے
اگرچہ حلق اللہ کے بندے کا ہوتا ہے
رو کہ بی یَسمَعُ وَ بیِ یَبصِرُ توئی
سِر توئی چہ جائے صاحب سِر توئی

جا کہ توہی رب کی سمع اور بصر والا ہے
تو ہی راز ہے اور تو ہی صاحب راز ہے
ہر کہ اُو بے مرشدے در راہ شد
اُو زغولاں گمرہ و در چاہ شد

جو کوئی بھی بغیر مرشد کے راستہ پر چلا
وہ شیطانوں کی وجہ سے گمراہ اور ہلاک ہوا
(مولانا جلال الدین رومی)
 

حسان خان

لائبریرین
انتظارِ جلوهٔ ساقی کبابم می‌کند
مَی به ساغر آبِ حیوان و به مینا آتش است
(غالب دهلوی)

میں جلوۂ ساقی کو دیکھنے کے انتظار میں جل اُٹھتا ہوں۔ شراب مینا میں ہو تو آگ ہے اور ساغر میں ہو تو آبِ حیات بن جاتی ہے۔
جب تک ساقی نہیں آتا شراب صراحی میں پڑی رہتی ہے، اور اُسے دیکھ کر میخواروں کے دل جلتے ہیں۔ جب وہی شراب ساقی اپنے ہاتھوں سے پیالے میں انڈیل دیتا ہے تو آبِ حیاتِ بن جاتی ہے:
جاں فَزا ہے بادہ جس کے ہاتھ میں جام آ گیا
(مترجم و شارح: صوفی غلام مصطفیٰ تبسم)
 

حسان خان

لائبریرین
ای که می‌گویی تجلی‌گاهِ نازش دور نیست
صبر مُشتی از خس و ذوقِ تماشا آتش است
(غالب دهلوی)

لغت: "مُشتِ خس" = مٹھی بھر تنکے
تو جو یہ کہہ رہا ہے کہ اُس کی (یعنی محبوب کی) تجلی گاہِ ناز دور نہیں، ٹھیک ہے لیکن یہ بھی تو دیکھ کہ صبر کی حیثیت ایک مشتِ خس کی ہے۔ جلوهٔ ناز کو دیکھنے کا شوق، آگ کی طرح ہے۔
جلوۂ معشوق کو دیکھنے کی بے تابی میں صبر کیوں کر ہو سکتا ہے۔ صبر تو ایک تنکا ہے جو بے تابیِ شوق کی آگ میں فوراً جل جاتا ہے۔
(مترجم و شارح: صوفی غلام مصطفیٰ تبسم)
 

محمد وارث

لائبریرین
عمرم ہمہ آں بُود کہ در کوئے تو بگذشت
مردن بہ ازیں عمر کہ بے روئے تو بگذشت


درویش ناصر بخاری

میری اصل عمر تو بس وہی تھی کہ جو تیرے کوچے میں گزری اور مرنا اِس عمر (اور زندگی) سے بہتر ہے کہ جو تجھے دیکھے بغیر گزری۔
 
چوں تو شیریں نیستی فرہاد باش
چوں نہ لیلیٰ تو مجنوں گرد فاش


جب تو شیریں نہیں ہے فرہاد بن جا
جب تو لیلیٰ نہیں ہے توکھلا مجنوں بن جا
(معشوق نہیں ہے توپھر عاشق بن)

(مولانا جلال الدین رومی)
 
بادہ در جوشش گدائے جوشِ ماست
چرخ در گردش فدائے ہوشِ ماست

شراب جوش میں ہمارے جوش کی بھکاری ہے
آسمان گردش میں ہمارے ہوش پر قربان ہے
بادہ از ما مست شدنے ما ازو
قالب از ما ہست شد نے ما ازو

شراب ہماری وجہ سے مست ہوئی ہے نہ کہ ہم اُس سے
جسم ہماری وجہ سے پیدا ہوا ہے نہ کہ ہم اُس کی وجہ سے

(مولانا جلال الدین رومی)
 

حسان خان

لائبریرین
دل تابِ ضبطِ ناله ندارد خدای را
از ما مجُوی گریهٔ بی های های را
(غالب دهلوی)

لغت: 'خداے را' کے الفاظ میں 'را' قسمیہ ہے۔
'خداے را' کا مفہوم 'خدا کے لیے' ہے۔ دوسرے مصرعے میں 'مجُوے' میں یائے مُشبِع ہے یعنی اس کی آواز کو لمبا کیا گیا ہے جو فارسی کے اساتذہ کے نزدیک جائز اور فصیح ہے۔
ہمارے دل کو ضبطِ فریاد کی تاب نہیں ہے۔ خدا کے لیے ہم سے ایسے رونے کی، جس میں ہائے ہائے کی آواز نہ ہو، توقع نہ رکھ۔
(مترجم و شارح: صوفی غلام مصطفیٰ تبسم)
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
مشتاقِ عرضِ جلوهٔ خویش است حسنِ دوست
از قرب مژده ده نگهِ نارسای را
(غالب دهلوی)

اس شعر کا پس منظر اہلِ تصوف کا یہ عقیدہ ہے کہ خدا حُسن ہے اور حُسن کا تقاضا ہے کہ وہ اپنا جلوہ دکھائے۔ اسی جذبے کے ماتحت یہ کائنات معرضِ وجود میں آئی تھی۔ حُسنِ ازلی نے اپنا جلوہ دکھایا اور پھر چھپ گیا لیکن کائنات کا ہر ذرہ ابھی تک اُس کی تلاش میں سرگرداں ہے۔ شاعر کا عقیدہ ہے کہ حُسن اپنا جلوہ دکھانے کے لیے بیتاب ہے اس لیے وہ ہماری نگاہوں کے قریب ہے۔ چنانچہ کہتا ہے کہ حُسنِ دوست اپنے جلوے کی نمائش (عرضِ جلوہ) کا مشتاق ہے اس لیے تو اپنی نگاہوں کو جنہیں تو نارسا کہتا ہے اُس کے قرب کی خوشخبری سنا دے۔
حُسنِ ازلی باوجود پنہاں ہونے کے ہر جگہ نمایاں ہے۔
محرم نہیں ہے تو ہی نواہائے راز کا
یاں ورنہ جو حجاب ہے پردہ ہے ساز کا
(مترجم و شارح: صوفی غلام مصطفیٰ تبسم)
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
قضا در کارها اندازهٔ هر کس نگه دارد
به قطعِ وادیِ غم می‌گُمارد تیز‌گامان را
(غالب دهلوی)

قدرت ہر معاملے میں ہر شخص کے ظرف اور حوصلے کو ملحوظ رکھتی ہے (اور اسی اعتبار سے اُنہیں کام سپرد کرتی ہے)۔ چنانچہ وادیِ غم کو طے کرنے کا کام تیز رفتار رہروؤں کے سپرد کیا جاتا ہے۔
(مترجم و شارح: صوفی غلام مصطفیٰ تبسم)
 

حسان خان

لائبریرین
ندارد حاجتِ لعل و گهر حُسنِ خدادادت
عبث در آب و آتش رانده‌ای بازارگانان را
(غالب دهلوی)

کہا جاتا ہے کہ آفتاب کی مسلسل گرمی سے سنگریزے لعل بن جاتے ہیں۔ لعل کا رنگ بھی آتشیں ہوتا ہے۔ گوہر پانی میں ہوتا ہے اور پھر اُس میں آب بھی ہوتی ہے۔ اس لحاظ سے شاعر شعر کے دوسرے مصرعے میں آب و آتش کے الفاظ لایا ہے جو بڑے موزوں ہیں۔ کہتا ہے:
تیرے حُسنِ خداداد کو لعل و گوہر کی حاجت نہیں ہے۔ تو نے سوداگروں کو بے سود آب و آتش میں دھکیل دیا ہے (جہاں وہ موتی اور لعل و جواہر ڈھونڈتے پھرتے ہیں)۔
(مترجم و شارح: صوفی غلام مصطفیٰ تبسم)
 
Top