میرا خیال ہے کہ شعر کا ترجمہ کچھ یوں ہونا چاہیے:نہادہ ام بہ درِ عشق تا جبینِ نیاز
سرِ غرور بہ راہِ تو پائمال کنم
سید نصیر الدین نصیر
میں نے اپنی نیازمند پیشانی اس لیے در عشق پر رکھی ہوئی ہے کہ اپنے مغرور سر کو تیری راہ میں پائمال کروں۔
آپ درست کہہ رہے ہیں، پہلے بھی لکھا گیا ہے نومبر میں۔میں کوشش تو کرتا ہوں کہ کوئی شعر یہاں مکرر نہ آئے لیکن کبھی کبھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔خیر شکریہ آپ کا توجہ دلانے کے لیے
تا سحر هر شب چنانچون میطپم
جوزهٔ زنده طپد بر بابزن
(آغاجی بخارایی)
میں ہر شب صبح تک اس طرح تڑپتا ہوں جس طرح زندہ چوزہ سیخ پر تڑپتا ہے۔