حسان خان

لائبریرین
سلطان محمود غزنوی کی وفات پر فرّخی سیستانی کے مرثیے سے ایک بیت:
میرِ ما خفته به خاک اندر و ما از برِ خاک

این چه روز است بدین تاری یا رب زِنهار
(فرّخی سیستانی)
ہمارا امیر زیرِ خاک سویا ہوا ہے جبکہ ہم بالائے خاک ہیں۔۔۔ یہ اِس تاریکی کے ساتھ کس قسم کا روز ہے؟ یا رب، پناہ!
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
سلطان محمود غزنوی کی وفات پر فرّخی سیستانی کے مرثیے سے اقتباس:
لشکری بینم سرگشته سراسیمه شده

چشم‌ها پُرنم و از حسرت و غم گشته نِزار
این همان لشکریانند که من دیدم دی؟
وین همان شهر و زمین است که من دیدم پار؟
(فرّخی سیستانی)
مجھے اِک سرگشتہ و سراسیمہ لشکر نظر آ رہا ہے، جس کی چشمیں پُرنم ہیں اور جو حسرت و غم سے لاغر ہو گیا ہے؛ کیا یہ وہی سپاہی ہیں کہ جنہیں میں نے گذشتہ روز دیکھا تھا؟ اور کیا یہ وہی شہر و زمین ہے کہ جسے میں نے گذشتہ سال دیکھا تھا؟
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
ای سال چه سالی تو که از طالعِ خوبت
ز افسانهٔ پار و غمِ پیرار رهیدیم
(مولانا جلال‌الدین رومی)
اے سال، تم کیسے سال ہو کہ تمہاری نیک بختی سے ہم گذشتہ سال کے افسانے اور اور گذشتہ سے گذشتہ سال کے غم سے نجات پا گئے۔
 

حسان خان

لائبریرین
نخفته‌ام همه شب دوش و بوده‌ام نالان
خیالِ دوست گواهِ من است و نجمِ پرن
(مسعود سعد سلمان لاهوری)
میں کل تمام شب نہیں سویا ہوں اور نالہ کرتا رہا ہوں؛ دوست کا خیال اور ثُریّا کے ستارے میرے گواہ ہیں۔
 

محمد وارث

لائبریرین
من چہ دانم نغمۂ مستانہ را
بس بوَد ہوئی منِ دیوانہ را


خواجہ میر درد دہلوی

میں کیا جانوں کہ نغمۂ مستانہ کیا چیز ہے کہ مجھ دیوانے (کے سودا و جنون و دیوانگی و مستی و رم) کے لیے فقط "ہو" کی صدا ہی کافی ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
سلطان محمود غزنوی کی وفات پر فرّخی سیستانی کے مرثیے سے اقتباس:
آه و دردا و دریغا که چو محمود مَلِک

همچو هر خاری در زیرِ زمین ریزد خوار
آه و دردا که همی لعل به کان باز شود
او میان گل و از گل نشود برخوردار
آه و دردا که بی او هرگز نتوانم دید
باغِ فیروزی پُرلاله و گل‌هایِ ببار
آه و دردا که به یک بار تهی بینم ازو
کاخِ محمودی و آن خانهٔ پُرنقش و نگار
آه و دردا که کنون قرمَطیان شاد شوند
ایمِنی یابند از سنگِ پراکنده و دار
آه و دردا که کنون قیصرِ رومی برهد
از تکاپویِ برآوردنِ بُرج و دیوار
آه و دردا که کنون برهمنانِ همه هند
جای سازند بُتان را دگر از نو به بهار
(فرّخی سیستانی)
آہ و دردا و دریغا! کہ محمود جیسا پادشاہ کسی [عاجز] خار کی مانند زیرِ زمین زبونی و خواری کے ساتھ ریزہ ریزہ و بوسیدہ ہو گا۔۔۔ آہ و دردا! کہ لعل کان میں واپس جا رہا ہے؛ وہ گِل کے درمیان ہو گا لیکن وہ گُل سے بہرہ مند نہ ہو پائے گا۔۔۔ آہ و دردا! کہ اُس کی غیر موجودگی میں مَیں 'باغِ فیروزی' کو لالوں اور ثمردار گُلوں سے پُر ہرگز نہیں دیکھ سکوں گا۔۔۔ آہ و دردا! کہ مجھے دفعتاً قصرِ محمودی اور وہ خانۂ پرُنقش و نگار اُس سے خالی نظر آ رہے ہیں۔۔۔ آہ و دردا! کہ اب قرمَطی شاد ہو جائیں گے اور سنگ باری اور دار سے سلامتی پا لیں گے۔۔۔ آہ و دردا! کہ اب قیصرِ رومی [حفاظتی] بُرج و دیوار کھڑی کرنے کی تگ و دو سے نجات پا لے گا۔۔۔ آہ و دردا! کہ اب تمام ہند کے برہمن بہار میں بُتوں کو از سرِ نو نصب کر دیں گے۔
× باغِ فیروزی/باغِ پیروزی = غزنی میں واقع ایک باغ، جہاں سلطان محمود غزنوی اپنی وصیت کے مطابق مدفون ہے۔ باغ کے نام کا لفظی مطلب 'باغِ فتح' ہے۔
× قرمَطی = ایک اسماعیلی فرقہ
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
سلطان محمود غزنوی کی وفات پر فرّخی سیستانی کے مرثیے سے ایک بیت:
رفت و ما را همه بی‌چاره و درمانده بمانْد
من ندانم که چه درمان کنم این را و چه چار
(فرّخی سیستانی)

وہ چلا گیا اور ہم سب کو بے چارگی و درماندگی میں چھوڑ گیا؛ میں نہیں جانتا کہ اِس کا کیا علاج کروں اور کیا چارہ؟
 

حسان خان

لائبریرین
سلطان محمود غزنوی کی وفات پر فرّخی سیستانی کے مرثیے سے ایک بیت:
شعرا را به تو بازار برافروخته بود
رفتی و با تو به یک بار شکست آن بازار
(فرّخی سیستانی)

شعراء کا بازار تمہارے باعث گرم تھا؛ تم گئے اور تمہارے [جانے کے] ساتھ دفعتاً وہ بازار بے رونق ہو گیا۔
 

حسان خان

لائبریرین
شرابِ تلخ باشد دوست‌تر از جانِ شیرینم
کز آن فارغ شوم یک دم ز دنیا و شر و شورش
(امیر علی‌شیر نوایی)

مجھے شرابِ تلخ اپنی جانِ شیریں سے زیادہ محبوب ہے کیونکہ اُس کے ذریعے میں ایک لحظے کے لیے دنیا اور اُس کے شور و شر سے خلاص پا لیتا ہوں۔
 

حسان خان

لائبریرین
ای که خواهی کز صُعُوبت‌هایِ عالَم وارهی
اتّصالِ یار جو وز هرچه غیرش انقطاع
(امیر علی‌شیر نوایی)

اے تم کہ دنیا کی دشواریوں سے آزاد ہونا چاہتے ہو، یار کا وصل تلاش کرو اور اُس کے سوا ہر چیز سے قطعِ تعلق۔۔۔
 

حسان خان

لائبریرین
ز جامِ عشق اگر جُرعه‌ای چکد بر خاک
کنند سجده هزاران مُسبِّحِ افلاک
کسی که یافت به آن جُرعه طینتش تخمیر
امینِ عَلَّمَ الْأَسْمَاش کرد ایزدِ پاک
(امیر علی‌شیر نوایی)
اگر جامِ عشق سے ایک جُرعہ خاک پر ٹپک جائے تو افلاک کے ہزاروں تسبیح گو (یعنی فرشتے) اُسے سجدہ کریں۔
جس کی طینت کی تخمیر اُس جُرعے سے ہوئی تھی، خدائے پاک نے اُسے 'عَلَّمَ الْأَسْمَاء' کا امین کر دیا۔
× جُرعہ = گھونٹ


× بیتِ ثانی میں سورۂ بقرہ کی آیت ۳۱ کی جانب اشارہ ہے:
وَعَلَّمَ آدَمَ الْأَسْمَاءَ كُلَّهَا...
اور الله نے آدم کو سب چیزوں کے نام سکھائے۔۔۔
 

محمد وارث

لائبریرین
رُباعی از شیخ ابوسعید ابوالخیر

نے باغ نہ بُستاں نہ چمن می خواہم
نے سرو نہ گُل نہ یاسمَن می خواہم
خواہم ز خدائے خویش کنجے کہ در آں
من باشم و آں کسے کہ من می خواہم


نہ میں باغ چاہتا ہوں نہ بوستان چاہتا ہوں نہ ہی چمن چاہتا ہوں۔ نہ سرو چاہتا ہوں نہ گُل چاہتا ہوں نہ یاسمن (کے پھول) چاہتا ہوں۔ میں اپنے خدا سے فقط ایک گوشۂ تنہائی چاہتا ہوں کہ جس میں مَیں ہوں اور وہ ہوکہ جس کو میں چاہتا ہوں۔
 

حسان خان

لائبریرین
مسعود سعد سلمان لاهوری کے ایک قصیدے کی ابتدائی دو ابیات:
چو روشن شد از نورِ خور باختر

شد از چشم سایهٔ زمین زاستر
برآورد خورشید زرّین حُسام
فرو رفت مه همچو سیمین سِپَر
(مسعود سعد سلمان لاهوری)
جب خورشید کے نور سے مشرق روشن ہوا تو چشم سے سایۂ زمین (یعنی تاریکیِ شب) دورتر چلا گیا۔۔۔ [جب] خورشید نے طلائی تیغ (یعنی شعاعیں) نکالی تو ماہ نقرئی سِپَر کی مانند زیر چلا گیا (یعنی غروب ہو گیا)۔
 

حسان خان

لائبریرین
همی تا کند پیشه، عادت همی کن
جهان مر جفا را، تو مر صابری را
(ناصر خسرو)
جب تک کُرّۂ زمین نے جفاکاری و ستم کاری کو پیشہ بنایا ہوا ہے تم صبر و شکیبائی کو عادت بنائے رکھو۔
 

حسان خان

لائبریرین
چشمِ گریانِ مرا حال بگفتم به طبیب
گفت یک بار ببوس آن دهنِ خندان را
گفتم آیا که در این درد بخواهم مردن
که مُحال است که حاصل کنم این درمان را
(سعدی شیرازی)
میں نے طبیب کو اپنی چشمِ گریاں کا حال بتایا۔ اُس نے کہا کہ ایک بار اُس دہنِ خنداں کا بوسہ لے لو۔ میں نے کہا کہ کیا میں اِس درد میں مر جاؤں گا؟ کہ یہ ناممکن ہے کہ میں یہ علاج حاصل کر لوں۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
ناصر خسرو کے ایک قصیدے سے اقتباس:
پسنده‌ست با زهدِ عمّار و بوذر

کند مدحِ محمود مر عنصری را؟
من آنم که در پایِ خوکان نریزم
مر این قیمتی دُرِّ لفظِ دری را
(ناصر خسرو)
کیا عنصری کو زیب دیتا ہے کہ وہ عمّار اور ابوذر کے زہد و تقویٰ کی موجودگی میں محمود غزنوی کی مدح کرے؟
میں وہ ہوں کہ میں خنزیروں کے پاؤں میں سخنِ فارسی کے اِس قیمتی گوہر کو افشاں نہیں کرتا۔
× عنصری = غزنوی دربار کے ایک معروف شاعر کا تخلص
× عمّار، ابوذر = رسول (ص) کے دو صحابی
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
تو چو خود کنی اخترِ خویش را بد
مدار از فلک چشم نیک‌اختری را
(ناصر خسرو)

جب تم خود [اپنے اعمال سے] اپنے ستارے (یعنی اپنے بخت) کو بد کرتے ہو تو پھر فلک سے نیک اختری و خوش بختی کی توقع مت رکھو۔
 

محمد وارث

لائبریرین
ز روئے تو ز زمیں تا بہ آسماں پُر نور
ز مثلِ تو ز مکاں تا بہ لامکاں خالی


سیف فرغانی

تیرے جلوؤں سے زمیں سے لے کر آسمان تک ہر جگہ نور سے بھری ہوئی ہے اور تیری مثل سے مکاں سے لے کر لامکاں تک ہر جگہ خالی ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
بلند است آنقدرها آشیانِ عَجزِ ما بیدل
که بی سعیِ شکستِ بال و پر نتوان رسید اینجا
(بیدل دهلوی)

اے بیدل! ہمارا آشیانِ عَجز اِس قدر بلند ہے کہ شکستِ بال و پر کی کوشش کے بغیر یہاں نہیں پہنچا جا سکتا۔
 

حسان خان

لائبریرین
اگر به بام برآید ستاره‌پیشانی
چو ماهِ عید به انگشت‌هاش بِنْمایند
(سعدی شیرازی)
اگر وہ ستارے جیسی پیشانی والا معشوق بام پر آ جائے تو مردُم ہلالِ عید کی طرح اُس کو اپنی انگُشتوں کے اشاروں سے ایک دوسرے کو دکھائیں گے۔
 
آخری تدوین:
Top