حسان خان

لائبریرین
شرف عشقِ نهانم چون نگردد بر همه ظاهر
که با هر کس نشینم حَرفِ آن نامهربان پُرسم
(شرف‌جهان قزوینی)

اے شرف! میرا عشقِ نہاں کیسے نہ سب پر ظاہر ہو؟ کہ میں جس کے بھی ساتھ بیٹھتا ہوں اُس نامہرباں کی بات پوچھتا ہوں۔
 

حسان خان

لائبریرین
چنان گوید جوابِ من کزان گردد رقیب آگه
به مجلس گر منِ بی‌دل ازو حَرفی نهان پُرسم
(شرف‌جهان قزوینی)
مجلس میں اگر میں [عاشقِ] بے دل اُس سے کوئی پوشیدہ بات پوچھتا ہوں تو وہ میرا جواب اِس طرح کہتا ہے کہ اُس سے رقیب آگاہ ہو جائے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
ز حالِ او اگرچه آگهم بیش از همه لیکن
ز بی‌تابیِ شوق احوالِ او از این و آن پُرسم
(شرف‌جهان قزوینی)
اگرچہ میں اُس کے حال سے سب سے زیادہ آگاہ ہوں، لیکن بے تابیِ شوق کے باعث اُس کے احوال اِس سے اور اُس سے پوچھتا ہوں۔
 

حسان خان

لائبریرین
چو من پیغامِ خود با قاصدِ دل‌دار می‌گویم
ز بیمِ آن که از یادش رود صد بار می‌گویم
(شرف‌جهان قزوینی)

جب میں قاصدِ دلدار سے اپنا پیغام کہتا ہوں تو اِس خوف سے کہ کہیں اُس کی یاد سے نہ چلا جائے، میں [پیغام کو] صد بار کہتا ہوں۔
 

حسان خان

لائبریرین
جفا می‌بینم و تا بد نگوید هیچ کس او را
به هر کس می‌رسم عُذرِ جفایِ یار می‌گویم
(شرف‌جهان قزوینی)

میں [یار کی طرف سے] جفا دیکھتا ہوں، [لیکن] تاکہ اُس کو کوئی بھی شخص بد نہ کہے، میں جس کسی کے پاس بھی پہنچتا ہوں، یار کی جفا کا عُذر و بہانہ کہتا ہوں۔
 

محمد وارث

لائبریرین
از شادیِ جہاں غمِ دلدار خوشتر است
ایں است آں غمے کہ ز غمخوار خوشتر است


صائب تبریزی

دُنیا جہان کی خوشیوں سے دلدار کا غم بہتر ہے، اور یہ ایک ایسا غم ہے کہ غمخوار سے بھی بہتر ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
رفتم بدان امید که حاجت کند روا
از در روانه کردم و حاجت روا نکرد
(کمال خُجندی)
میں [یار کے در پر] اِس امید سے گیا کہ وہ [میری] حاجت روا کرے گا۔ [لیکن] اُس نے مجھے در سے روانہ کر دیا اور [میری] حاجت روا نہ کی۔
× 'کردم' میں 'م' مفعولی ہے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
آهم شنید، لیک نفرمود رحمتی
نبضم بدید، دردِ دلم را دوا نکرد
(کمال خُجندی)

[یار نے] میری آہ سنی، لیکن اُس نے ذرا رحم نہ فرمایا؛ اُس نے میری نبض دیکھی، [لیکن] میرے دردِ دل کی دوا نہ کی۔
 

حسان خان

لائبریرین
کاری مکن که خود به خود آخر خَجِل شوی
هر گه که یاد آری ازان مُنفَعِل شوی
(‌نثاری تبریزی)

کوئی ایسا کام مت کرو کہ آخر خود ہی شرمسار ہو جاؤ، [اور] جب بھی [اُسے] یاد کرو تو اُس پر شرمندہ ہو جاؤ۔
 

mohsin ali razvi

محفلین
کاری مکن که خود به خود آخر خَجِل شوی
هر گه که یاد آری ازان مُنفَعِل شوی
(‌نثاری تبریزی)

کوئی ایسا کام مت کرو کہ آخر خود ہی شرمسار ہو جاؤ، [اور] جب بھی [اُسے] یاد کرو تو اُس پر شرمندہ ہو جاؤ۔
منفعل == انفعالی عمل اچانک سرزد ہونے والے عمل نہ کہ شرمندگی
 

حسان خان

لائبریرین
منفعل == انفعالی عمل اچانک سرزد ہونے والے عمل نہ کہ شرمندگی
فارسی میں مُنفَعِل کا ایک معنی 'شرمندہ و شرمسار و خجل' ہے اور فارسی میں عموماً یہ لفظ اِسی معنی میں استعمال ہوا ہے۔ ایک اور مثال دیکھیے:
اگر آگه ز اِخلاصِ منِ آزُرده‌دل گردی

ز بیدادی که بر من کرده باشی مُنفَعِل گردی
(مُحتشَم کاشانی)
اگر تم مجھ آزُردہ دل کے اِخلاص سے آگاہ ہو جاؤ تو جو ظلم تم نے مجھ پر کیا ہوا ہو اُس پر شرمسار ہو جاؤ۔
 

محمد وارث

لائبریرین
اسرارِ خرابات بجز مست نداند
ہشیار چہ داند کہ در ایں کوئے چہ راز است


شیخ فخرالدین عراقی

خرابات کے اسرار و رموز مست کے علاوہ اور کوئی بھی نہیں جانتا، ہوش والے کو کیا خبر کہ اِس کوچے میں کیا راز ہے۔
 

mohsin ali razvi

محفلین
فارسی میں مُنفَعِل کا ایک معنی 'شرمندہ و شرمسار و خجل' ہے اور فارسی میں عموماً یہ لفظ اِسی معنی میں استعمال ہوا ہے۔ ایک اور مثال دیکھیے:
اگر آگه ز اِخلاصِ منِ آزُرده‌دل گردی

ز بیدادی که بر من کرده باشی مُنفَعِل گردی
(مُحتشَم کاشانی)
اگر تم مجھ آزُردہ دل کے اِخلاص سے آگاہ ہو جاؤ تو جو ظلم تم نے مجھ پر کیا ہوا ہو اُس پر شرمسار ہو جاؤ۔
یہ معانی بہی اپنی جگہ درست ہیں صاحب
 

حسان خان

لائبریرین
هر غزلم نامه‌ای‌ست صورتِ حالی در او
نامه نوشتن چه سود چون نرسد سویِ دوست
(سعدی شیرازی)

میری ہر غزل ایک نامہ ہے جس میں [میری] صورتِ حال اور ماجَرا [درج] ہے۔۔۔ [لیکن] نامہ لکھنے کا کیا فائدہ جب وہ دوست کی جانب ہی نہ پہنچے؟
 

حسان خان

لائبریرین
دوست به هندویِ خود گر بپذیرد مرا
گوشِ من و تا به حشر حلقهٔ هندویِ دوست
(سعدی شیرازی)

اگر یار مجھے اپنے غلام کے طور پر قبول کر لے تو تا روزِ حشر میرے کان پر یار کی [اور اُس کی زلفِ سیاہ کی] غلامی و چاکری کا حلقہ ہو گا۔
 

الماس رضا

محفلین
سر زلف بتاں آرام …………… بے آرام کردند

محبوباؤں کی زلفوں کے خیال نے چین نہ لیا
بلکہ انھوں نے کئی دلوں کو بے چین وبے آرام کر دیا
 

محمد وارث

لائبریرین
دگر مگوی کہ ہر بحر را کنارے ہست
ازآنکہ بحرِ غمِ عشق را کنارے نیست


عبید زاکانی

دوبارہ مت کہنا کہ ہر سمندر کا کنارہ ہوتا ہے، کیونکہ غمِ عشق کے سمندر کا کوئی بھی کنارہ نہیں ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
ای غذایِ جانِ مستم نامِ تو
چشم و عقلم روشن از ایّامِ تو
(مولانا جلال‌الدین رومی)

اے کہ تمہارا نام میری جانِ مست کی غذا ہے۔۔۔ میری چشم و عقل تمہارے ایّام سے روشن ہے۔
 
Top