حسان خان

لائبریرین
(رباعی)
جز آتشِ عشق در دلم سوز مباد
جز عارضِ او شمعِ شب‌افروز مباد
روزی که دلم شاد نباشد به غمش
در گردشِ ایّامِ من آن روز مباد
(شیخ محمود شبستری)

آتشِ عشق کے بجز میرے دل میں کوئی سوز نہ ہو! اُس کے رخسار کے بجز کوئی شمعِ شب افروز نہ ہو! جس روز کہ میرا دل اُس کے غم سے شاد نہ ہو، میری گردشِ ایّام میں وہ روز نہ ہو!
 

حسان خان

لائبریرین
ار خسی افتدت به دیده منال
سویِ آن کس نِگر که نابیناست
(مسعود سعد سلمان لاهوری)

اگر تمہاری چشم میں تنکا گر جائے تو نالہ و زاری مت کرو [بلکہ] اُس شخص کی جانب دیکھو جو نابینا ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
زان عزیز است آفتاب که او
گاه پیدا و گاه ناپیداست
(مسعود سعد سلمان لاهوری)

خورشید اِس لیے محترم و ارجمند ہے کیونکہ وہ گاہ ظاہر اور گاہ غائب ہے۔
(ہر وقت نظروں میں رہنے سے قدر کم ہو جاتی ہے۔)
 

حسان خان

لائبریرین
همچو ما روزگار مخلوق است
گله کردن ز روزگار چراست
گله از هیچ کس نباید کرد
کز تنِ ماست آنچه بر تنِ ماست
(مسعود سعد سلمان لاهوری)
زمانہ ہماری طرح مخلوق ہے، [پس] زمانے کے بارے میں گِلہ کرنا کس لیے؟ کسی بھی شخص کے بارے میں گِلہ نہیں کرنا چاہیے، کہ جو کچھ ہمارے تن پر ہے وہ ہمارے [ہی] تن سے ہے۔ (یعنی جو ہم پر گذرتا ہے اُس کا سبب ہم ہی ہیں۔)
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
گردید خشک جسمِ نحیف از سمومِ آه
سرسبز کن ز ابرِ کرم این گیاهِ ما
(محمد رضا آگهی خوارَزمی)

[اے خدا!] سَمومِ آہ سے [ہمارا] جسمِ نحیف و لاغر خشک ہو گیا ہے؛ [اپنے] ابرِ کرم سے ہماری اِس گیاہ کو سرسبر کر دو۔
× سَمُوم = بادِ گرم و مہلک
× گیاہ = پودا؛ گھاس
 

حسان خان

لائبریرین
بر فرقِ ما اگر بِرسد گَردِ راهِ تو
گردد بلند از سرِ گردون کُلاهِ ما
(محمد رضا آگهی خوارَزمی)

اگر ہمارے سر پر تمہاری راہ کی گَرد پہنچ جائے تو ہماری کُلاہ فلک کے سر سے [بھی] بلند تر ہو جائے۔

× کُلاہ = ٹوپی
 

حسان خان

لائبریرین
سحر ز هاتفِ غیبم به گوشِ هوش رسید
که هر که بد نکند هیچ بد نخواهد دید
(مولانا ناظری مشهدی)

صبح کے وقت میرے گوشِ ہوش میں ہاتفِ غیب کی صدا آئی کہ جو بھی شخص بدی نہیں کرتا، اُسے کسی بھی بدی کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔
 

حسان خان

لائبریرین
عَرَق هر گه کزان رخسارِ آتش‌ناک می‌افتد
گلِ خورشید می‌روید اگر بر خاک می‌افتد
(ملّا یگانهٔ بلخی)

اُس رُخسارِ آتش ناک سے جب بھی پسینہ گرتا ہے، اگر خاک پر گرتا ہے تو گُلِ خورشید اُگتا ہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
مجنونِ درِ مکتبِ خوبانست دلِ من
در خانقہ و کنجِ فراغت نتواں یافت


فغانی شیرازی

میرا دل، حسین لوگوں کے مکتب کے دروازے کا شیدائی ہے، لہذا میرا دل خانقاہ یا کسی فراغت کے گوشے میں نہیں ملے گا۔
 

حسان خان

لائبریرین
بُوَد آفت ز برقِ حُسنِ خود هر جای خوبان را
که هست از پرتوِ خود مِهرِ عالم‌تاب در آتش
(میرزا محمد سِیَر)
ترجمہ: خوبصورت لوگوں کو اپنے حُسن کی بجلی سے ہر جگہ تکلیف پہنچتی ہے۔ جیسا کہ دنیا کو روشن کرنے والا سورج اپنی شعاعوں کی وجہ سے آگ میں جل رہا ہے۔
تشریح: سورج جسے آفتابِ عالم تاب کا نام دیا جاتا ہے اپنی روشنی اور گرمی سے ساری دنیا کو روشن کرتا ہے اور گرم رکھتا ہے مگر یہ گرمی خود اُس کو بھی ہمیشہ جلاتی رہتی ہے۔ کیونکہ گرم چیز خود جلے بغیر دوسروں کو نہ گرما سکتی ہے اور نہ روشن کر سکتی ہے۔ اس لیے شاعر کہتا ہے کہ اگرچہ دنیا میں حسین لوگوں کے حُسن سے دوسرے لوگ متاثر ہوتے ہیں اور اُن کے عشق میں جل بھن جاتے ہیں تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ خود ہمیشہ مامون ہیں۔ بلکہ ان کا حُسن خود اُن کے لیے بھی باعثِ رنج ہے اور اُنہیں اس وجہ سے ہمیشہ محتاط رہنے کی ضرورت پڑتی ہے۔
(مترجم و شارح: مولانا نگاہ 'نگاہ')

× شاعر کا تعلق چِترال سے تھا۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
هر زخمِ دل به یادِ تو چون گُل شِگُفته‌است
ای نازنین به سیرِ گلستان بیا بیا
(میرزا محمد سِیَر)

ترجمہ: تیری یاد میں دل کا ہر زخم پھول کی طرح کِھل گیا ہے۔ اے نازنیں! اس گلستان کی سیر کے لیے آ جا آ جا۔
تشریح: شاعر نے اپنے دل میں دردِ ہجراں کے زخموں کو کِھلے ہوئے پھولوں سے تشبیہ دے کر دل کو گلستان تصوّر کیا ہے اور اس گلستان کی سیر کے لیے اپنے محبوب کو دعوت دے رہا ہے تاکہ ناسور بنے ہوئے زخموں کو دیکھ کر اُس پر ترس کھا جائے۔
(مترجم و شارح: مولانا نگاہ 'نگاہ')

× شاعر کا تعلق چِترال سے تھا۔
 

حسان خان

لائبریرین
اگر دو چشمِ خُمارت نظر به آب کنند
قسم به لعلِ تو کان آب را شراب کنند
(آتش اصفهانی)

اگر تمہاری دو چشمِ مخمور آب کی جانب نظر کرین تو تمہارے لبِ لعل کی قسم کہ اُس آب کو شراب کر دیں۔
 

حسان خان

لائبریرین
امتحان رسوا نسازد عاشقِ بی‌باک را
کَی رسد نقصانی از آتش طلایِ پاک را
(آتش اصفهانی)

امتحان عاشقِ بے باک کو رسوا نہیں کرتا؛ آتش سے زرِ خالص کو کب کوئی زیاں پہنچتا ہے؟
 

حسان خان

لائبریرین
نیست دل این که منِ زارِ بلاکَش دارم
از تو در سینهٔ خود پارهٔ آتش دارم
(امیر علی‌شیر نوایی)

یہ جو مجھ زارِ بلاکَش کے پاس ہے، دل نہیں ہے؛ [بلکہ] میں اپنے سینے میں [ایک] پارۂ آتش رکھتا ہوں جو تمہاری طرف سے ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
چنانم تشنه بی لعلِ لبانِ آب‌دارِ او
که از جوشِ طپیدن ماهیِ بی‌آب را مانم
(میرزا محمد سِیَر)

ترجمہ: میں اُس کے موتی جیسے خوبصورت ہونٹوں کا اس قدر پیاسا ہوں کہ اپنی تڑپ کے جوش میں بغیر پانی کی مچھلی جیسا ہوں۔
تشریح: چونکہ مچھلی کی زندگی کا انحصار پانی پر ہے، جب اُس کو تھوڑے وقت کے لیے بھی پانی سے نکال دیا جائے تو تڑپ تڑپ کر مر جاتی ہے۔ اسی طرح عاشق کی زندگی کا انحصار بھی اُس کے محبوب پر ہوتا ہے اور فراقِ محبوب میں اُس کو بھی تڑپنا پڑتا ہے۔ اس لیے شاعر کہتا ہے کہ محبوب کی مفارقت میں، میں بھی ماہیِ بے آب کی مانند تڑپتا رہتا ہوں۔
(مترجم و شارح: مولانا نگاہ 'نگاہ')

× شاعر کا تعلق چِترال سے تھا۔
 

حسان خان

لائبریرین
گر بنالم از غمِ آن گل‌بدن در بوستان
می‌کند بلبل دل و جان را نثارِ ناله‌ام
(میرزا محمد سِیَر)

ترجمہ: اگر میں اُس پھول سے بدن والے محبوب کے غم میں باغ میں رونے لگوں تو بلبل میری فریاد پر اپنا دل و جان قربان کر دے گا۔
تشریح: بلبل خود کاروبارِ عشق میں ہمیشہ رو رہا ہے۔ مگر شاعر کا خیال ہے کہ اُس کا جذبۂ عشق بلبل سے کہیں افزوں ہے۔ اس لیے جب وہ باغ میں جا کر فراقِ محبوب میں رونا شروع کر دے تو بلبل بھی اپنے عشق کا غم کھانے کی بجائے شاعر پر ترس کھائے گا اور اُس کی ہمدردی میں دل و جان کی قربانی سے بھی دریغ نہیں کرے گا۔
(مترجم و شارح: مولانا نگاہ 'نگاہ')

× شاعر کا تعلق چِترال سے تھا۔
 

حسان خان

لائبریرین
علی قُلی خان والہ داغستانی کے 'تذکرۂ ریاض الشعراء' کے مطابق نظیری نیشابوری کی وفات پر یہ مصرعِ تاریخ کہا گیا تھا:
"ز دنیا رفت حسّان العجم، آه!"

۱۰۲۱ھ
یہ مصرع 'فایض نطنزی' کا ہے جو نظیری کے داماد اور پسرخواندہ تھے۔ (ماخذ)
 

محمد وارث

لائبریرین
می کشد عشقِ تو سوئے خود دلِ دیوانہ را
ہست سوزے کو بہ شمعے می کشد پروانہ را


درویش ناصر بخاری

تیرا عشق، دیوانے کے دل کو اپنی طرف کھینچتا ہے، (جیسے کہ) ایک ایسا سوز موجود ہے کہ جو پروانے کو شمع کی طرف کھینچ لیتا ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
اگر دل نخواهی که باشد نژند
نخواهی که دایم بُوی مُستمند
به گفتارِ پیغمبرت راه جُوی
دل از تیرگی‌ها بدین آب شُوی
(فردوسی طوسی)
اگر تم نہیں چاہتے کہ [تمہارا] دل افسردہ و ملول ہو اور تم ہمیشہ زار و پریشان رہو تو اپنے پیغمبر کے فرمُودوں کے ذریعے راہ تلاش کرو اور اِس آب سے دل کو تاریکیوں سے صاف کر دو۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
چو ابر اشکِ مرا دید گفت با جیحون
که در برابرِ این قطره هیچ دریا نیست
(عمادالدین فقیه کرمانی)

جب ابر نے میرا اشک دیکھا تو اُس نے [دریائے] جیحون سے کہا کہ اِس قطرے کے برابر و مقابل کوئی دریا نہیں ہے۔
 
Top