محمد وارث

لائبریرین
ایمان و کفر من ھمہ رخسار و زلفِ توست
در بندِ کفر ماندہ و ایمانم آرزوست


(فخرالدین عراقی)

میرا ایمان اور کفر تو بس تیرا چہرہ اور تیری زلف ہے، مجھے کفر (تیری زلف) کی قید میں رہنے اور ایمان (تیرے چہرے) کی آرزو ہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
نمازِ زاہداں محراب و منبر
نمازِ عاشقاں بر دار دیدم


(حافظ شیرازی)


زاہدوں کی نماز محراب و منبر ہے اور عاشقوں کی نماز میں سولی پر دیکھتا ہوں۔
 

محمد وارث

لائبریرین
عاشق نہ شُدی، جلوۂ جاناں کہ شناسی؟
تا سر نہ دہی، ہمّتِ مرداں کہ شناسی؟


تو عاشق ہی نہیں ہوا، جاناں کے جلووں کو کیسے پہچانے گا (کیونکہ) جب تک سر نہ دے گا، ہمتِ مرداں کو کیسے جانے گا؟

خود را نہ پرستیدہ ای، عرفاں کہ شناسی؟
کافر نہ شُدی، لذّتِ ایماں کہ شناسی؟


تو نے اپنے آپ کی پرستش کی ہی نہیں، کیسے جانے گا کہ عرفان کیا چیز ہے، تو کافر ہی نہیں ہوا تو ایمان کی لذت کو کیسے جانے گا؟

امروز نہ دیدی تو اگر روئے صنم را
فردا بہ قیامت، رخِ جاناں کہ شناسی؟


آج (اس دنیا میں) تو اگر (اپنے) صنم کا چہرہ نہیں دیکھے گا تو کل قیامت کے دن اس کو پہچانے گا کیسے؟

(سوداگر)
 

محمد وارث

لائبریرین
آنجا قصیدہ خوانیِ لذّاتِ سیم و زر
اینجا فقط حدیثِ نشاطِ لِقائے تو

(فیض احمد فیض)

وہاں (دنیا داروں کے ہاں) سونے اور چاندی کی لذات کے قصیدے ہیں جب کہ یہاں (ہم خاکساروں کے ہاں) فقط آپ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے نشاطِ دیدار کی باتیں ہیں۔
 

محمد وارث

لائبریرین
با من کہ عاشقم، سخن از ننگ و نام چیست؟
در امرِ خاص، حُجّتِ دستورِ عام چیست؟


(غالب دھلوی)

میں کہ ایک عاشق ہوں میرے ساتھ ننگ و نام کی بات کرنا، کیا مطلب؟
ایک خاص معاملے میں عام دستور کی دلیل لانا، کیا معنی؟
 
تا شعارِ مصطفی از دست رفت
قومِ را رمزِ حیات از دست رفت

اس شعر کا یہ مطلب میری سمجھ میں آتا ہے:

جب مصطفوی طور طریقہ ہاتھ سے چھوٹ گیا۔
تو ایسی قوم کے ہاتھ سے اصول زندگی چھن گئی۔

اللہ جانے مجھے مطلب ٹھیک سمجھ میں آیا یا نہیں۔ ویسے رمز کا مطلب اشارہ اور نشان ہی ہوتا ہے ناں؟

میری درخواست ہے بنت حوا بٹیا سے کہ معنی بھی لکھ دیا کریں کیوں کہ اکثر اشعار سمجھنے سے قاصر ہوں۔
 
اس شعر کا یہ مطلب میری سمجھ میں آتا ہے:

جب مصطفوی طور طریقہ ہاتھ سے چھوٹ گیا۔
تو ایسی قوم کے ہاتھ سے اصول زندگی چھن گئی۔

اللہ جانے مجھے مطلب ٹھیک سمجھ میں آیا یا نہیں۔ ویسے رمز کا مطلب اشارہ اور نشان ہی ہوتا ہے ناں؟

میری درخواست ہے بنت حوا بٹیا سے کہ معنی بھی لکھ دیا کریں کیوں کہ اکثر اشعار سمجھنے سے قاصر ہوں۔

جی میرے خیال میں بھی یہی معنی ہے ۔
میری درخواست ہے بنت حوا بٹیا سے کہ معنی بھی لکھ دیا کریں کیوں کہ اکثر اشعار سمجھنے سے قاصر ہوں
ضرور
 
خرما نتواں یافت ازاں خار کہ کشتیم
دیبا نتواں بافت ازاں پشم کہ رشتیم

سعدی

جو کانٹا ہم نے بویاہے اس سے کھجور حاصل نہ ہو گا اور اون کات کر ہم ریشم نہیں بُن سکتے ۔
 

مغزل

محفلین
از صد سخن پیرم یک نکتہ مرا یاد است
عالم نہ شود ویراں تا میکدہ آباد است !

شاعر نامعلوم
ترجمہ: ’’ مجھے اپنے پیرو مرشد کی سوباتوں میں سے ایک بات اب تک یاد ہے کہ دنیا کبھی ویران نہ ہوگی جب تک اس میں کوئی میکدہ آباد رہے گا ‘‘
 

محمد وارث

لائبریرین
کعبہ در پائے یار دیدم دوش
ایں چہ گفتی جگر، خموش خموش


(جگر مرادآبادی، شعلۂ طور)

کل میں نے یار کے پاؤں میں کعبہ دیکھا، اے جگر یہ تُو نے کیا کہہ دیا، خاموش ہوجا، خاموش۔
 

محمد وارث

لائبریرین
روزگارِ زندگانی را بہ غفلت مگزراں
در بہاراں مست و در فصلِ خزاں دیوانہ شو


(صائب تبریزی)

زندگی کے دن غفلت میں مت گزار، موسمِ بہار میں مست ہو جا اور خزاں میں دیوانہ۔

 

ابن جمال

محفلین
مجھے بھی ایک زمانے میں فارسی کا بہت شوق تھااورسمجھ میں آئے یانہ آئے لیکن دیوان خسرو، دیوان سعدی اور دیوان حافظ اوراسی طرح دیگر شعراء کے دواوین وغیرہ کی ورق گردانی کرتارہتاتھا۔لیکن غم روزگار نے وہ شوق بھی بھلادیا۔اردومحفل میں فارسی شعروادب کا یہ حلقہ دیکھاتوپرانی محبت تازہ ہوگئی۔
ہرگزنہ نمیرد آنکہ دلش زندہ شد بعشق
ثبت است برجریدہ عالم دوام ما
(خواجہ حافظ)
جس کے دل میں محبت کی شمع روشن ہو وہ (اس کانام)کبھی نہیں مرے گا
دنیا کے نقشے پر ہماری بقاء ثبت ہے(مراد جب ہم نے بھی اپنے دل کو عشق کی گرمی سے گرم کرلیاہے تودنیا میں ہمارانام بھی ہمیشہ رہے گا)
 
آں عزم بلند آور، آں سوزِ جگر آور
شمشیرِ پدر خواہی، بازوئے پدر آور
اقبال

پہلے وہ عزم بلند ، وہ سوز جگر لاؤ ۔ باپ کی تلوار کی خواہش ہے تو پہلے باپ کے سے بازو لاؤ ۔
 

محمد وارث

لائبریرین
حافظ بخود نہ پوشید، این خرقۂ مے آلود
اے شیخ پاکدامن، معذور دار ما را


(حافظ شیرازی)

یہ مے آلود گدڑی حافظ نے خود نہیں پہنی (بلکہ قسمت نے پہنائی ہے) اس لیے اے پاکدامن شیخ (اس معاملے میں) ہمیں معذور سمجھ۔
 

محمد وارث

لائبریرین
صائب تبریزی کی ایک غزل کے اشعار

سیہ مستِ جنونم، وادی و منزِل نمی دانم
کنارِ دشت را، از دامنِ محمِل نمی دانم


میرا جنون ایسا سیہ مست ہے (اس نے مجھے وہ مدہوش کر رکھا ہے) کہ میں وادی اور منزل کچھ نہیں جانتا، میں دشت کے کنارے اور (محبوب کے) محمل کے دامن میں بھی کوئی فرق نہیں رکھتا، یعنی ان تمام منزلوں سے گذر چکا ہوں۔

من آں سیلِ سبک سیرَم کہ از ہر جا کہ برخیزم
بغیر از بحرِ بے پایاں دگر منزِل نمی دانم


میں ایسا بلاخیز طوفان ہوں کہ جہاں کہیں سے بھی اُٹھوں، بحرِ بے کنار کے علاوہ میری کوئی منزل نہیں ہوتی۔

اگر سحر ایں بُوَد صائب کہ از کلکِ تو می ریزد
تکلف بر طرف، من سحر را باطِل نمی دانم


صائب، اگر جادو یہ ہے جو تیرے قلم کی آواز (شاعری) میں ہے تو تکلف برطرف میں اس سحر کو باطل (کفر) نہیں سمجھتا۔
 
Top